German
English
Turkish
French
Italian
Spanish
Russian
Indonesian
Urdu
Arabic
Persian

صلیب، گناہ اور نِجات

 

1۔مُسلمان پوچھتے ہیں کہ

٭یہ کیسے مان لیا جائے کہ ہو تو خُداے لم یزال اور صعوبتیں سہنا پڑیں مصلوب ہونے کی، اور پھر وہ کیسا لافانی خُدا ہے جسے صلیب پر موت بھی آ گئی؟ حضرت یسوع مسیح ایسے عظیم پیغمبر کو خُدا دشمن کے رحم و کرم پر چھوڑ دے، کیا یہ ممکن ہے؟ اور ممکن تو یہ بھی نہِیں کہ باپ اپنے ہی بیٹے کو سولی پر چڑھوا دے۔ ایسی باتوں پر عقیدہ باندھنا کفر والحاد وگستاخی کے زمرہ میں آتا ہے۔ 

٭کسی بھی نیک، معصوم اور راستباز ہستی کی موت کسی دوسری شخصیت کے گناہوں کو نہِیں دھو سکتی۔ کیا ظالمانہ ناانصافی نہِیں ہوگی کہ گنہگار کو بچانے کے لیے، اُس کی نِجات کے لیے، ایک معصوم ترین ہستی کو اپنی جان کی قربانی دینا پڑ جائے؟ 

٭مغفرت و نجات کے لیے اُس غفور الرحیم، بخشنہار خُدا کو کسی کی جان لینے یعنی قربانی قبول کرنے کی قطعاً کوئی احتیاج نہِیں مگر.... مسیحیت کے نزدیک نِجات کا سبب و جواز ہی یہ قربانی ہے جو انسانوں کے لیے خُداوند حضرت یسوع مسیح نے دی۔ 

خُدا تو قادرِ مُطلق ہے، سبھی کے گناہ بخشنے والا ہے بس چاہتا ہے کہ گناہ کرنے والا میرا بندہ اپنے گناہ پر پشیمان ہو، نادم ہو، تائب ہو اور اگر لوگ بطور مُسلمان اپنے دین پر پکّے رہیں تب بھی اُن کا یوں اِسلام پر غیر مُتزلزل ایمان اور دین پر قائم رہنا بھی اللہ تعالیٰ کے ہاں مقبول ہے۔ وہ توبہ قبول کرنے والا ہے، رحمن، رحیم، کریم ہے، عادلِ نامہربان ہرگز نہِیں۔ 

٭کیا ضروری ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام سے سرزد ہونے والی خطا کے اثرات سبھی انسان بھگتیں؟ خطا اُن کی اور مجرم عام اِنسان گردانے جائیں، آخر کیوں؟ 

ہر نیا پیدا ہونے والا بچہ گنہگار کیوںکر ہو گیا؟ نوزائیدہ بچہ یا بچی تو اِس قابل ہی نہِیں کہ کوئی خطا اُس سے سرزد ہو سکے۔ 

کیا ہرفرد اپنے اعمال کا آپ ذمہ دار نہِیں؟ 

٭اِنسان جبلّی طور پر بُرا نہِیں ہوتا۔ پھر مسیحیت کیوں قنوطیّت یعنی یاس و حرماں کی اِتنی شکار نظر آتی ہے؟ اِس کی کیا وجہ ہے؟ 

٭مسیحیت کے معاصر دینی رہنما کیا اِس حقیقت سے اِنکاری ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں یہودی ایک دھتکاری ہوئی قوم ہیں اِس لیے کہ وہ حضرت یسوع مسیح کی پُرتشدد موت میں پورے طور ملوث تھے؟ 

2۔مُسلِم نقطہءنظر

عمومی 

خاتون ہو یا مرد، دونوں نے ہی ذاتی طور پر اپنے کیے کا آپ ہی حساب دینا ہے۔ اِس لیے یہ عقیدہ کہ بچوں پر اُن کے والدین کے گناہوں کا بوجھ لدا ہوتا ہے قابلِ فہم نہِیں بل کہ صریحاً بے معنی ہے اور پتا نہِیں یہ عقیدہ کیوںکر قبول کر لیا جاتا ہے کہ پاپ تو دوسرے کریں اور اُن کا کفارہ کِسی اور کو ادا کرنا پڑ جائے۔ انسانی گناہ کی سنگینی کے سلسلے میں مسیحی دُنیا مبالغہ کی حد تک بھٹک گئی ہے۔ گُناہ کیا ہے؟ بُنیادی طور پر گُناہ اِخلاقی وسماجی رسوم و رواج کو توڑنے کا عمل ہوتا ہے۔ یعنی منع کی گئی حدود سے تجاوز کرنا، حرام کو حلال سمجھنا اور اس کی بدترین صورت یہ ہوتی ہے کہ پاپ آمادہ اِنسان قوانینِ الٰہی یعنی شریعت سے ٹکرا جائے اور خُدائی ضابطے کی اپنے طور پر دھجیاں اُڑا دے۔ 

گُناہ کے بس میں کہاں کہ وہ خُود خُدا پر یورش کا متحمل ہو سکے۔ خُدا تو بہت عظیم، اعلیٰ وارفع اور بُلند مرتبت ہے، اُسے گزند پہنچا سکنا کِسی کے بھی بس میں نہِیں۔ کسی گنہگار کے گناہوں کا، بدکار کی بدیوں کا اور خطاکار کی خطاﺅں کا بھلا اُس ذاتِ اقدس پر کیا اثر؟ اُس بے نیاز کو ایسی بغاوتوں کی کیا پروا۔ وہ تو یہ ہے کہ اِس خالق و مالک نے اپنی مخلوق کو جیسا تخلیق کِیا اُسی کے مطابق وہ کر رہی ہے۔ اُس ذاتِ باری کا تو کوئی خالق نہِیں، سب اُس کی مخلوق ہیں۔ وہ حاکم ہے، سب اُس کے محکوم ہیں۔ وہ قادرِ مُطلق ہے، سب کا بھلا چاہنے اور کرنے والا ہے۔ وہ کسی کو جوابدہ نہِیں، سب اُس کے سامنے جوابدہ ہیں مگر اُس کا کرمِ بے پایاں سب کے لیے ہے، معاف کر دینا اُس کی شان ہے۔ یہ اُس کی عطا ودرگذر ہے کہ ہر مُسلمان اچھا مُسلمان ہے بے شک شریعت کا وہ پورے طور پابند نہ بھی ہو کیوںکہ ناقابلِ معافی گناہ تو یہ ہے کہ کسی کو بھی اُس کے برابر یا اُس کے ارادوں اور کاموں میں اُس کا شریک سمجھا جائے۔ وہ وحدہ‘ لاشریک ہے۔ مشرک ہرگز اُس کے وارے میں نہِیں آتا، اُس کی کوئی معافی نہِیں۔ اِسی طرح ارتداد بھی یعنی اپنے مذہب، اپنے عقیدہ سے پھر جانا بھی خُدا کے ہاں ویسا ہی جرم ہے جو ہرگز قابلِ معافی نہِیں۔ 

مسیحی تعلیم میں تجسیمِ خُداوندی کا عقیدہ اہانت آمیز ہے۔ تصلیب کے ضمن میں مسیحی دعوے تو اُس سے بھی چار ہاتھ آگے ہیں۔ یہ نظریہ کہ خُدا آدمی بن گیا اور اِنسان کی موت مرا اُس اِنسان کی موت جِس پر ملامت و نفرین کی گئی،قرآن مجید اِس بات کو قبول نہِیں کرتا، حضرت یسوع کے مصلوب کر دیے جانے سے قطعی طور پر اِنکاری ہے اور اِس نظریے کو اِظہارِ برہمی کے ساتھ رَد کرتا ہے۔ 

صلیب نے تاریخ کے اوراق پر تباہ کُن اثرات چھوڑے ہیں۔ یہ اُن مہمات کی نمایندہ بن گئی جِن پر مسیحی امن و آشتی اور مہر ومحبت کا شائبہ تک محال تھا۔ یہ مہمات کہلائیں ہی صلیبی جنگیں اور صلیبی جھنڈوں تلے ہی لڑی گئیں۔ مغربی نوآبادیات کے لیے مہمات کی سیاسی قوت میں بھی مسیحیت کو گڈمڈ کر لیا گیا، حتیٰ کہ عصرِ حاضر میں بھی مغرب اور اِسلامی دُنیا میں جو ایک کھِنچاو موجود ہے اور اُس پر جب بھی بحث ہوتی ہے تو ہلال و صلیب جیسی علامتیں ہی اِس بحث و تمحیص کی مکدر فضا پر مکمل طور پر چھائی نظر آتی ہیں۔ 

اِس سب کُچھ کے باوجود آج بھی صلیب کی نِجات بخش قدروں سے متعلق مسیحیوں کا اعتقاد اپنی جگہ ایمان کی حد تک اٹل ہے۔ مسیحی تعلیمات کی کِتابیں ہوں یا مذہبی وارفتگی میں سپردِ قلم کی گئی تحریریں۔ اُن سب کا مرکزی موضوع یہی ہے کہ حضرت یسوع المسیح نے ہمارے گُناہوں کا کفارہ ادا کر دیا.... یہ ایک آفاقی صداقت ہے کہ حضرت یسوع المسیح نے، ہمارے نِجات دہندہ نے، ہمارے گُناہوں کا کفارہ ادا کر دیا.... باوا آدم اور اماں حوّا کے گُناہوں نے ہمیں بھی اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا، چناںچہ ہم بھی گنہگارِ تفصیل ٹھہرے۔ حضرت یسوع المسیح نے ہماری نِجات کا سامان کِیا۔ 

1۔نوعِ انسانی اور گُناہ 

تقصیرِ آدم کے ضمن میں قرآن پاک اور مقدّس بائبل میں جو تفصیل آئی ہے بہت حد تک ایک دوسرے کے مُتوازی طور بیان ہوئی ہے: 

اور جب تیرے رَب نے فرشتوں سے کہا کہ مَیں زمین میں خلیفہ بنانے والا ہُوں، تو اُنھوں نے کہا، ایسے شخص کو کیوں پیدا کرتا ہے جو زمین میں فساد کرے اور خُون بہائے؟ اور ہم تیری تسبیح، حمد اور پاکیزگی بیان کرنے والے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا، جو مَیں جانتا ہُوں تُم نہِیں جانتے۔ 

اور اللہ تعالیٰ نے آدم کو تمام نام سِکھا کر اُن چیزوں کو فرشتوں کے سامنے پیش کِیا اور فرمایا، اگر تم سچّے ہو تو اِن چیزوں کے نام بتاﺅ۔ 

اُس سب نے کہا، اے اللہ! تیری ذات پاک ہے ہمیں تو صِرف اِتنا ہی عِلم ہے جِتنا تو نے ہمیں سِکھایا ہے، پورے عِلم و حکمت والا تو تُو ہی ہے۔ 

اللہ تعالیٰ نے (حضرت) آدم (علیہ اسلام) سے فرمایا تُم اِن کے نام بتا دو۔ جب اُنھوں نے بتا دیے تو فرمایا کہ کیا مَیں نے تمھیں (پہلے ہی) نہ کہا تھا کہ زمین اور آسمانوں کا غیب مَیں ہی جانتا ہُوں اور میرے عِلم میں ہے جو تُم ظاہر کر رہے اور جو تُم چِھپاتے تھے۔ 

اور جب ہم نے فرشتوں سے کہا کہ آدم کو سجدہ کرو تو اِبلیس کے سِوا سب نے سجدہ کِیا۔ مگر اُس نے اِنکار کیا۔ 

اور تکبّر کِیا اور وہ کافروں میں ہو گیا۔ 

اور ہم نے کہہ دیا کہ اے آدم! تُم اور تمھاری بیوی جنت میں رہو اور جہاں کہِیں سے چاہو بافراغت کھاﺅ پییو، لیکن اُس درخت کے قریب بھی نہ جانا ورنہ ظالم ہو جاﺅ گے۔ 

لیکن شیطان نے اُن کو بہکا کر وہاں سے نِکلوا ہی دیا اور ہم نے کہہ دیا کہ اُتر جاﺅ! تُم ایک دوسرے کے دشمن ہو اور ایک وقتِ مقرر تک تمھارے لیے زمین میں ٹھہرنا اور فائدہ اُٹھانا ہے۔ 

(حضرت) آدم (علیہ السلام) نے اپنے رَب سے چند باتیں سِیکھ لیں اور اللہ تعالیٰ نے اُن کی توبہ قبول فرمائی، بے شک وہی توبہ قبول کرنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔ 

ہم نے کہا تُم سب یہاں سے چلے جاﺅ، جب کبھی تُمھارے پاس میری ہدایت پہنچے تو اِس کا تتبع کرنے والوں پر کوئی خوف و غم نہِیں۔

 

(سورة البقرة....38۔30)

اور ہم نے حُکم دیا کہ اے آدم! تُم اور تمھاری بیوی جنت میں رہو۔ پھر جِس جگہ سے چاہو دونوں کھاﺅ، اور اُس درخت کے پاس مت جاﺅ ورنہ تُم دونوں ظالموں میں سے ہو جاﺅ گے۔ 

پھِر شیطان نے اُن دونوں کے دِلوں میں وسوسہ ڈالا تاکہ اُن کی شرمگاہیں جو ایک دوسرے سے پوشیدہ تھیں دونوں کے روبرو بے پردہ کر دے اور کہنے لگا کہ تمھارے رَب نے تم دونوں کو اِس درخت سے اور کِسی سبب منع نہِیں فرمایا، مگر محض اِس وجہ سے کہ تُم دونوں کہِیں فرشتے ہو جاﺅ یا کہِیں ہمیشہ زِندہ رہنے والوں میں سے ہو جاﺅ۔ 

اور اُن دونوں کے روبرو قسم کھا لی کہ یقین جانیے میں تُم دونوں کا خیرخواہ ہُوں۔ 

سو اُن دونوں کو فریب سے نیچے لے آیا۔ پس اُن دونوں نے جب درخت کو چَکھا دونوں کی شرمگاہیں ایک دوسرے کے روبرو بے پردہ ہو گئیں اور دونوں اپنے اوپر جنت کے پتّے جوڑ جوڑ کر رکھنے لگے اور اُن کے رَب نے اُن کو پُکارا ،کیا مَیں تُم دونوں کو اِس درخت سے منع نہ کر چُکا تھا اور یہ نہ کہہ چُکا کہ شیطان تمھارا صریح دُشمن ہے؟ 

دونوں نے کہا، اے ہمارے رَب! ہم نے اپنا بڑا نقصان کِیا اور اگر تُو ہماری مغفرت نہ کرے گا اور ہم پر رحم نہ کرے گا تو واقعی ہم نقصان پانے والوں میں سے ہو جائیں گے۔ حق تعالیٰ نے فرمایا کہ نیچے ایسی حالت میں جاﺅ کہ تم باہم ایک دوسرے کے دُشمن ہو گے اور تمھارے واسطے زمین میں رہنے کی جگہ ہے اور نفع حاصل کرنا ہے ایک وقت تک۔ فرمایا، تمھیں وہیں زِندگی بسر کرنا ہے اور وہاں ہی مرنا ہے اور اُسی میں سے پھِر نِکالے جاﺅ گے۔ 

اے آدم (علیہ السلام) کی اولاد ہم نے تمھارے لیے لباس پیدا کِیا جو تمھاری شرمگاہوں کو بھی چِھپاتا ہے اور موجبِ زینت بھی ہے اور تقوے کا لباس، یہ اُس سے بڑھ کر ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ہے تاکہ یہ لوگ یاد رکھیں۔ 

اے اولادِ آدم! شیطان تُم کو کِسی خرابی میں نہ ڈال دے جیسا اُس نے تمھارے ماں باپ کو جنت سے باہر کروا دیا۔ ایسی حالت میں اُن کا لِباس بھی اُتروا دِیا تاکہ وہ اُن کو اُن کی شرمگاہیں دِکھائے۔ وہ اور اُس کا لشکر تم کو ایسے طور پر دیکھتا ہے کہ تُم ان کو نہِیں دیکھتے ہو۔ ہم نے شیطانوں کو اُنھی لوگوں کا دوست بنایا ہے جو اِیمان نہِیں لاتے۔ 

(سورة الاعراف....27۔19)

تو ہم نے کہا کہ اے آدم! یہ تیرا اور تیری بیوی کا دُشمن ہے (خیال رکھنا) ایسا نہ ہو کہ وہ تم دونوں کو جنت سے نِکلوا دے کہ تُو مصیبت میں پڑ جائے۔ یہاں تو تُجھے یہ آرام ہے کہ نہ تُو بھوکا ہوتا ہے نہ ننگا، اور نہ تُو یہاں پیاسا ہوتا ہے نہ دھوپ سے تکلیف اُٹھاتا ہے۔ 

لیکن شیطان نے اُسے وسوسہ ڈالا، کہنے لگا کہ کیا مَیں تُجھے دائمی زِندگی کا درخت اور بادشاہت بتلاﺅں کہ جو کبھی پُرانی نہ ہو۔ 

چناںچہ اُن دونوں نے اُس درخت سے کُچھ کھا لیا پس اُن کے ستر کھُل گئے اور بہشت کے پتّے اپنے اوپر ٹانکنے لگے۔ آدم (علیہ السلام) نے اپنے رَب کی نافرمانی کی، پس بہک گیا۔ 

پھِر اُس کے رَب نے نوازا، اُس کی توبہ قبول کی اور اُس کی رہنمائی کی۔ 

فرمایا، تُم دونوں یہاں سے اُتر جاﺅ، تُم آپس میں ایک دوسرے کے دشمن ہو، اب تمھارے پاس جب کبھی میری طرف سے ہدایت پہنچے تو جو میری ہدایت کی پیروی کرے نہ تو وہ بہکے گا نہ تکلیف میں پڑے گا۔ 

(سورة طٰہ....123۔117)

خُدا نے حضرت آدم اور اُن کی بیوی کو (قرآن مجیدنے اُنھیں حوّا کہہ کر کہِیں مُخاطِب نہِیں کِیا۔) حُکم دیا کہ شجرِ حیات کے قریب تک نہ جانا لیکن دونوں سے خطا ہو گئی اور فرمانِ الٰہی سے اغماز برت بیٹھے۔ چناںچہ اصل قابلِ توجُّہ بات یہ ہے کہ قرآن مجیدہمیں بتاتا ہے کہ آدم نادم ہوئے، اُنھوں نے توبہ کی اور اللہ تعالیٰ نے اُن کی توبہ قبول کرتے ہوئے اُن کی خطا معاف کر دی۔ تب یوں گناہوں سے پاک ہو کر حضرت آدم بعد میں آنے والی معصوم پیغمبروں کی لمبی قطار کے سرخیل ہو گئے۔ 

حضرت آدم کے کیے کی سزا بعد میں آنے والوں کو بھی بھگتنا پڑی۔ اُن کی ذُرّیت کا بہشت میں داخلہ ممنوع ہو گیا۔ اِبلیس کی تحریصات و ترغیبات نے اُنھیں چاروں اور گھیر لیا اُن کی عمومی حیات مخمصوں میں اُلجھ گئی۔ دیگر آیات میں اِسی لیے قرآن پاک نے اجتماعی طور پر کِسی فرد کے عصیان کی ذمہ داری قبول کرنے کے فلسفہ پر سخت احتجاج کِیا ہے۔ ہر شخص اپنے کیے کی جزا سزا آپ بھگتے گا۔ چناںچہ بار بار کہا گیا کہ خُود بوجھ سے لدا آدمی کیوںکر کِسی اور کے بوجھ کو اُٹھانے کا متحمل ہو سکتاہے: 

آپ فرما دیجیے کہ کیا مَیں اللہ کے سِوا کسی اور کو رَب بنانے کے لیے تلاش کروں، حال آںکہ وہ مالک ہے ہر چیز کا اور جو شخص بھی کوئی عمل کرتا ہے وہ اُسی پر رہتا ہے، اور کوئی کسی دوسرے کا بوجھ نہ اُٹھائے گا۔ پھِر تُم سب کو اپنے رَب کے پاس جانا ہو گا۔ پھِر وہ تُم کو جِتلائے گا جِس جِس چیز میں تُم اِختلاف کرتے تھے۔

 (سورة الانعام:164) 

اور وہ لوگ جب کوئی فحش کام کرتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم نے اپنے باپ دادا کو اِسی طریق پر پایا ہے اور اللہ نے بھی ہم کو یہی بتایا ہے۔ آپ کہہ دیجیے کہ اللہ تعالیٰ فحش بات کی تعلیم نہِیں دیتا، کیا اللہ کے ذمہ ایسی بات لگاتے ہو جِس کی تُم سند نہِیں رکھتے؟ 

(سورة الاعراف.... 28)

جو راہِ راست حاصل کر لے وہ خُود اپنے ہی بھلے کے لیے راہ یافتہ ہوتا ہے اور جو بھٹک جائے اُس کا بوجھ اُسی کے اوپر ہے، کوئی بوجھ والا کِسی اور کا بوجھ اپنے اوپر نہ لادے گا اور ہماری سُنّت نہِیں کہ رسول بھیجنے سے پہلے ہی عذاب کرنے لگیں۔

(سورة بنی اسرائیل...15)

کوئی بھی بوجھ اُٹھانے والا دوسرے کا بوجھ نہِیں اُٹھائے گا، اگر کوئی گراں بار دوسرے کو اپنا بوجھ اُٹھانے کے لیے بُلائے گا تو وہ اُس میں سے کُچھ بھی نہ اُٹھائے گا گو قرابت دار ہی ہو۔ تُو صِرف اُنھی کو آگاہ کر سکتا ہے جو غائبانہ طور پر اپنے رَب سے ڈرتے ہیں اور نمازوں کی پابندی کرتے ہیں جو بھی پاک ہو جائے وہ اپنے ہی نفع کے لیے پاک ہو گا۔ لوٹنا اللہ ہی کی طرف ہے۔

(سورة فاطر....18)

اگر تم ناشکری کرو تو (یاد رکھو کہ) اللہ تعالیٰ تُم (سب سے) بے نیاز ہے، اور وہ اپنے بندوں کی ناشُکری سے خُوش نہِیں اور اگر تُم شکر کرو تو وہ اِسے تمھارے لیے پسند کرے گا۔ اور کوئی کِسی کا بوجھ نہِیں اُٹھاتا، پھِر تُم سب کا لوٹنا تمھارے رَب ہی کی طرف ہے۔ تمھیں وہ بتلا دے گا جو تم کرتے تھے۔ یقینا وہ دِلوں تک کی باتوں کا واقِف ہے۔

 (سورةالزمر...7)

  یہ حقیقت ہے کہ ہمارے بڑے، بزرگوں سے گُناہ سرزَد ہوئے، ہوئے سو ہوئے، اب ظاہر ہے کہ اُن کا وہ طریق قطعاً یہ جواز مہیا نہِیں کرتا کہ ہم بھی خُداے بُزرگ و برتر کی حُکم عدولی کرتے پھِریں اور اِسلاف کی طرح جُرم و عصیاں کے مُرتکب ہوں۔ سب نے اپنی صلیب آپ ہی اپنے کندھوں پر اُٹھانی ہے اور یہ بات طے ہے۔ اور طے یہ بات بھی ہے کہ روزِ قیامت سب سے فرداً فرداً اعمال کی باز پُرس ہو گی، اور ہر شخص روزِ آخر خُود ہی جواب دہ ہو گا، یکہ و تنہا۔ 

قرآن مجید سے سند لیجیے: 

اور جو لوگ اِیمان لائے اور اُن کی اولاد نے بھی اِیمان میں اُن کی پیروی کی ہم اُن کی اولاد کو اُن تک پہنچا دیں گے اور اُن کے عمل سے ہم کُچھ کم نہ کریں گے، ہر شخص اپنے اپنے اعمال کا گِروی ہے۔

(سورة الطور....21)

کہ کوئی شخص کسی دوسرے کا بوجھ نہِیں اُٹھائے گا۔ 

(سورة النجم....38)

جب کہ زمین زلزلہ کے ساتھ ہِلا دی جائے گی۔ اور پہاڑ بالکل ریزہ ریزہ کر دیے جائیں گے۔ پھِر وہ مثل پراگندہ غبار کے ہو جائیں گے۔ اور تم تین جماعتوں میں ہو جاﺅ گے۔ پس داہنے ہاتھ والے کیسے اچھے ہیں داہنے ہاتھ والے۔ (چَین ہی چَین) اور بائیں ہاتھ والے کا کیا حال ہے بائیں ہاتھ والوں کا۔ (گرفتارِ عذاب) اور جو آگے والے ہیں وہ تو آگے والے ہی ہیں۔ وہ بالکل نزدیکی حاصل کیے ہوئے ہیں۔ (خُدا کے مقرّب ہیں) ۔

(سورة واقعہ....11۔4)

(جزا و سزا کا دِن وہ ہے) جِس دِن کوئی شخص کِسی شخص کے لیے کِسی چیز کا مختار نہ ہو گا، اور (تمام تر) احکام اُس روز اللہ کے ہی ہوں گے۔ 

(سورة الانفطار....19)

خاص طور پر:۔

پس جِس نے ذرّہ برابر نیکی کی ہو گی وہ اُسے دیکھ لے گا، اور جِس نے ذرہ برابر بُرائی کی ہو گی وہ اُسے دیکھ لے گا۔ 

(سورة الزلزلہ....8۔7)

تاہم، قرآن مجیداِس امر کا بھی اعتراف کرتا ہے کہ اِنسانوں کا بُرائی کی طرف مائل ہونا ایک قدرتی بات ہے جو اُن کی فِطرت کا حصہ ہے، اِنسان خطا کا پُتلا ہے۔ جب عام اِنسان کا ذِکر آتا ہے تو قرآن مجیدباوثوق لہجے میں الانسان کو قرار دیتا ہے کہ وہ سرکش ہے، ناشکرا ہے، مشرک، منکر اور کافر ہے، جارح ہے، بے صبرا ہے، جھگڑالو ہے اور بے وفا: ۔

مسلمانو! کیا تمھاری خواہش ہے کہ یہ لوگ اِیماندار بن جائیں، حال آںکہ اُن میں ایسے لوگ بھی ہیں جو کلام اللہ کو سُن کر، عقل و عِلم والے ہوتے ہوئے، پھِر بھی بدل ڈالا کرتے ہیں۔ 

(سورةالبقرة....75)

اور اہلِ کِتاب کی ایک جماعت نے کہا کہ جو کُچھ اِیمان والوں پر اُتارا گیا ہے اُس پر دِن چڑھے تو اِیمان لاﺅ اور شام کے وقت کافر بن جاﺅ، تاکہ یہ لوگ بھی پلٹ جائیں۔ 

(سورة آلِ عمران....72)

اور جب تمھارے پاس آتے ہیں توکہتے ہیں کہ ہم اِیمان لائے حال آںکہ وہ کُفر لیے ہوئے ہی آئے تھے اور اُسی کُفر کے ساتھ ہی گئے بھی اور یہ جو کُچھ چِھپا رہے ہیں اُسے اللہ تعالیٰ خُوب جانتا ہے۔ 

(سورة المائدہ....61)

سو جب اُن کو ہماری سزا پہنچی تھی تو اُنھوں نے عاجزی کیوں اِختیار نہِیں کی؟ لیکن اُن کے قلوب سخت ہو گئے اور شیطان نے اُن کے اعمال کو اُن کے خیال میں آراستہ کر دیا۔ 

(سورة الانعام....43)

اور ہم نے کِسی بستی میں کوئی نبی نہِیںبھیجا کہ وہاں کے رہنے والوں کو ہم نے سختی اور تکلیف میں نہ پکڑا ہو تاکہ وہ گِڑگڑائیں۔ پھر ہم نے اُس بدحالی کی جگہ خُوشحالی بدل دی، یہاں تک کہ اُن کو خُوب ترقی مِلی اور کہنے لگے کہ ہمارے آباو اجداد کو بھی تنگی اور راحت پیش آئی تھی تو ہم نے اُن کو دفعتاً پکڑ لیا اور اُن کو خبر بھی نہ تھی۔ 

(سورة الاعراف....95۔94)

اُسی نے تمھیں تمھاری مُنہ مانگی کُل چیزوں میں سے دے رکھا ہے۔ اگر تم اللہ کے احسان گِننا چاہو تو اُنھیں پورے گِن بھی نہِیں سکتے۔ یقینا اِنسان بڑا ہی بے اِنصاف اور ناشکرا ہے۔ 

(سورة ابراہیم....34)

اور اِنسان بُرائی کی دُعائیں مانگنے لگتا ہے بالکل اُس کی اپنی بھلائی کی دُعا کی طرح، اِنسان ہے ہی بڑا جلد باز۔ 

(سورة بنی اسرائیل...11)

کہہ دیجیے کہ اگر بالفرض تُم میرے رَب کی رحمتوں کے خزانوں کے مالک بن جاتے تو تُم اُس وقت بھی اُس کے خرچ ہو جانے کے خوف سے اُس کو روکے رَکھتے اور اِنسان ہے ہی تنگدل۔  

(سورة بنی اسرائیل....100)

ہم نے اِس قرآن میں ہر ہر طریقے سے تمام کی تمام مثالیں لوگوں کے لیے بیان کر دی ہیں لیکن اِنسان سب سے زیادہ جھگڑالو ہے۔ لوگوں کے پاس ہدایت آ چکنے کے بعد اُنھیں ایمان لانے اور اپنے رَب سے استغفار کرنے سے صِرف اُسی چیز نے روکا کہ اگلے لوگوں کا سا معاملہ اُنھیں بھی پیش آئے یا اُن کے سامنے کھُلم کھُلا عذاب آ موجود ہو۔ 

(سورة الکہف....55۔54)

اِنسان جلد باز مخلوق ہے۔ مَیں تمھیں اپنی نشانیاں ابھی ابھی دِکھاﺅں گا تُم مُجھ سے جلد بازی نہ کرو۔

(سورة الانبیا....37)

ہم نے اپنی امانت کو آسمانوں پر زمین میں اور پہاڑوں پر پیش کِیا لیکن سب نے اِس کے اُٹھانے سے اِنکار کر دیا اور اِس سے ڈر گئے (مگر) اِنسان نے اِسے اُٹھا لیا، وہ بڑا ہی ظالم جاہل ہے۔ 

(سورة الاحزاب....72)

جب کہ اُن کافروں نے اپنے دِلوں میں حمیّت کو جگہ دی اور حمیّت بھی جاہلیت کی، سو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول پر اور مومنین پر اپنی طرف سے تسکین نازل فرمائی اور اللہ تعالیٰ نے مُسلمانوں کو تقوے کی بات پر جمائے رَکھا اور وہ اِس کے اہل اور زیادہ مستحق تھے اور اللہ تعالیٰ ہر چیز کو خُوب جانتا ہے۔ 

(سورة الفتح...26)

وہ خُون بہاتے اور فتنہ برپا کرتے ہیں: ۔

اور جب تیرے رَب نے فرشتوں سے کہا کہ مَیں زمین میں خلیفہ بنانے والا ہُوں تو اُنھوں نے کہا، ایسے شخص کو کیوں پیدا کرتا ہے جو زمین میں فساد کرے اور خُون بہائے؟ اور ہم تیری تسبیح، حمد اور پاکیزگی بیان کرنے والے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا، جو مَیں جانتا ہُوں تم نہِیں جانتے۔ 

(سورة البقرة....30)

پہلے پہلے قتلِ انسانی سے لے کر آدم ؑکے ایک بیٹے کا دوسرے کو قتل کر دینا

آدم کے دونوں بیٹوں کا کھرا کھرا حال بھی اُنھیں سُنا دو، اُنھوں نے ایک نذرانہ پیش کِیا، اُن میں سے ایک کی نذر تو قبول ہو گئی اور دوسرے کی مقبول نہ ہوئی تو وہ کہنے لگا کہ مَیں تجھے مار ہی ڈالوں گا۔ اُس نے کہا، اللہ تعالیٰ تقویٰ والوں کا ہی عمل قبول کرتا ہے۔ گو تُو میرے قتل کے لیے دست درازی کرے لیکن مَیں تیرے قتل کی طرف ہرگز اپنا ہاتھ نہ بڑھاﺅں گا، مَیں تو اللہ تعالیٰ پروردگارِ عالم سے خوف کھاتا ہُوں۔ مَیں تو چاہتا ہُوں کہ تو میرا گناہ اور اپنے گناہ اپنے سَر پر رکھ لے اور دوزخیوں میں شامل ہو جائے، ظالموں کا یہی بدلہ ہے۔ 

پس اسے اس کے نفس نے اپنے بھائی کے قتل پر آمادہ کر دیا اور اُس نے اُسے قتل کر ڈالا، جِس سے نقصان پانے والوں میں سے ہو گیا۔ 

پھِر اللہ تعالیٰ نے ایک کوّے کو بھیجا جو زمین کھود رہا تھا تاکہ اُسے دِکھائے کہ وہ کِس طرح اپنے بھائی کی نعش کو چِھپا دے۔ وہ کہنے لگا، ہائے افسوس! کیا مَیں ایسا کرنے سے بھی گیا گذرا ہو گیا کہ اِس کوّے کی طرح اپنے بھائی کی لاش کو دفنا دیتا؟ پھِر تو (بڑا ہی) پشیمان اور شرمندہ ہُوا۔ 

اِسی وجہ سے ہم نے بنی اسرائیل پر یہ لِکھ دیا کہ جو شخص کِسی کو بغیر اس کے کہ وہ کِسی کا قاتل ہو یا زمین میں فساد مچانے والا ہو، قتل کر ڈالے تو گویا اُس نے تمام لوگوں کو قتل کر دیا، اور جو شخص کِسی ایک کی جان بچا لے، اُس نے گویا تمام لوگوں کو زِندہ کر دیا اور اُن کے پاس ہمارے بہت سے رسول ظاہر دلیلیں لے کر آئے لیکن پھِر اِس کے بعد اُن میں سے اکثر لوگ زمین میں ظلم و زیادتی اور زبردستی کرنے والے ہی رہے۔ 

(سورة المائدہ....32۔27)

اور پھِر(چل سو چل)، بات یہاں تک جا پہنچی کہ بنی اسرائیل نے پیغمبروں کو بھی قتل کرنا شروع کر دیا: ۔

اور جب تُم نے کہا، اے موسیٰ! ہم سے ایک ہی قسم کے کھانے پر ہرگز صبر نہ ہو سکے گا، اِس لیے اپنے رَب سے دعا کیجیے کہ وہ ہمیں زمین کی پیداوار ساگ، ککڑی، گیہوں، مسور اور پیاز دے۔ آپ نے فرمایا، بہتر چیز کے بدلے ادنیٰ چیز کیوں طلب کرتے ہو! اچھا شہر میں جاﺅ، وہاں تمھاری چاہت کی یہ سب چیزیں ملیں گی۔ اُن پر ذِلت اور مسکینی ڈال دی گئی اور اللہ کا غضب لے کر وہ لوٹے، یہ اِس لیے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی آیتوں کے ساتھ کفر کرتے تھے اور نبیوں کو ناحق قتل کرتے تھے، یہ اُن کی نافرمانیوں اور زیادتیوں کا نتیجہ ہے۔

 (سورةالبقرة...61)

جو لوگ اللہ تعالیٰ کی آیتوں سے کُفر کرتے ہیں اور ناحق نبیوں کو قتل کر ڈالتے ہیں اور جو لوگ عدل و انصاف کی بات کہیں اُنھیں بھی قتل کر ڈالتے ہیں، تو اے نبی! اُنھیں درد ناک عذاب کی خبر دے دیجیے۔ 

(سورة آلِ عمران....21)

اُن پر ہر جگہ ذِلت کی مار پڑی، اِلاّ یہ کہ اللہ تعالیٰ کی یا لوگوں کی پناہ میں ہوں، یہ غضبِ الٰہی کے مستحق ہو گئے اور اُن پر فقیری ڈال دی گئی، یہ اِس لیے کہ یہ لوگ اللہ تعالیٰ کی آیتوں سے کُفر کرتے تھے اور بے وجہ انبیاءکو قتل کرتے تھے، یہ بدلہ ہے اُن کی نافرمانیوں اور زیادتیوں کا۔ 

(سورة آلِ عمران....112)

یقینا اللہ تعالیٰ نے اُن لوگوں کا قول بھی سُنا جنھوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ فقیر ہے اور ہم تو نگر ہیں۔ اُن کے اِس قول کو ہم لِکھ لیں گے اور اُن کا انبیاءکو بے وجہ قتل کرنا بھی، اور ہم اُن سے کہیں گے کہ جلنے والا عذاب چکھو! 

(سورة آلِ عمران....181)

یہ وہ لوگ ہیں جنھوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں حُکم دیا ہے کہ کسی رسول کو نہ مانیں جب تک وہ ہمارے پاس ایسی قربانی نہ لائے جسے آگ کھا جائے۔ آپ کہہ دیجیے کہ اگر تم سچّے ہو تو مُجھ سے پہلے تمھارے پاس جو رسول دیگر معجزوں کے ساتھ یہ بھی لائے جسے تُم کہہ رہے ہو تو پھِر تُم نے اُنھیں کیوں مار ڈالا؟ 

(سورة آلِ عمران....183)

(یہ سزا تھی) بہ سبب اُن کی عہد شکنی کے اور احکامِ الٰہی کے ساتھ کُفر کرنے کے اور اللہ کے نبیوں کو ناحق قتل کر ڈالنے کے اور اِس سبب سے کہ یوں کہتے ہیں کہ ہمارے دِلوں پر غلاف ہے، حال آںکہ دراصل اُن کے کُفر کی وجہ سے اُن کے دِلوں پر اللہ تعالیٰ نے مُہر لگا دی ہے، اِس لیے یہ قدرِ قلیل ہی ایمان لاتے ہیں۔ 

 (سورة النسا....155)

ہم نے بالیقین بنو اسرائیل سے عہد و پیمان لیا اور اُن کی طرف رسولوں کو بھیجا، جب کبھی رسول اُن کے پاس وہ احکام لے کر آئے جو اُن کی اپنی منشا کے خلاف تھے تو اُنھوں نے اُن کی ایک جماعت کی تکذیب کی اور ایک جماعت کو قتل کر دیا۔ 

 (سورة المائدہ....70)

قرآن کریم میں جب روح کا ذِکر کِیا گیا ہے تو یہی کہا گیا کہ روح بُرائی کی طرف فطری رُجحان کے باعث مائل رہتی ہے: ۔

مَیںاپنے نفس کی پاکیزگی بیان نہِیں کرتا۔ بے شک نفس تو بُرائی پر اُبھارنے والا ہی ہے، مگر یہ کہ میرا پروردِگار ہی اپنا رحم کرے، یقینا میرا پالنے والا بڑی بخشش کرنے والا اور بہت مہربانی فرمانے والا ہے۔ 

(سورة یوسف....53)

علاوہ ازیں، گُناہ اور ثواب والے کاموں میں تمام اِنسانوں کے مابین ایک سماجی ہم آہنگی، ایکتا، یکجہتی کا بھی حوالہ قرآن مجیدسے مِلتا ہے۔ بداعمال لوگ بے دینی وبداعمالی ہی پھیلائیں گے، خُود بھٹکے ہوئے لوگ دوسرے کو بھی راہِ راست سے دور کر دیں گے: ۔

ان اہلِ کِتاب کے اکثر لوگ باوجود حق واضح ہو جانے کے محض حسد وبغض کی بنا پر تمھیں بھی ایمان سے ہٹا دینا چاہتے ہیں، تم بھی معاف کرو اور چھوڑو یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اپنا حُکم لائے۔ یقینا اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قُدرت رکھتا ہے۔ 

(سورة البقرة....109)

اہلِ کِتاب کی ایک جماعت چاہتی ہے کہ تمھیں گمراہ کر دیں، دراصل وہ خُود اپنے آپ کو گمراہ کر رہے ہیں اور سمجھتے نہِیں۔ 

(آلِ عمران....69)

آپ کہہ دیجیے کہ اہلِ کِتاب تُم اللہ تعالیٰ کی آیتوں کے ساتھ کُفر کیوں کرتے ہو؟ جو کُچھ تم کرتے ہو، اللہ تعالیٰ اُس پر گواہ ہے۔ 

(آلِ عمران....98)

تم بہترین اُمت ہو جو لوگوں کے لیے پیدا کی گئی ہے کہ تم نیک باتوں کا حُکم کرتے ہو اور بُری باتوں سے روکتے ہو اور اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتے ہو، اگر اہلِ کِتاب بھی ایمان لاتے تو اُن کے لیے بہتر تھا، اُن میں ایمان والے بھی ہیں لیکن اکثر تو فاسق ہیں۔ 

(آلِ عمران....110)

آپ اُن کے معاملات میں خُدا کی نازل کردہ وحی کے مطابق ہی حُکم کِیا کیجیے، اُن کی خواہشوں کی تابعداری نہ کیجیے اور اُن سے ہوشیار رہیے کہ کہِیں یہ آپ کو اللہ کے اُتارے ہوئے کسی حُکم سے اِدھر اُدھر نہ کریں، اگر یہ لوگ مُنہ پھیر لیں تو یقین کریں کہ اللہ کا ارادہ یہی ہے کہ اِنھیں اِن کے بعض گُناہوں کی سزا دے ہی ڈالے اور اکثر لوگ بے حُکم ہی ہوتے ہیں۔

 (سورة المائدہ....49)

اُنھوں نے خُدا کے خلاف ایکا کر لیا 

بنی اسرائیل کے کافروں پر (حضرت) داﺅد (علیہ السلام) اور (حضرت) عیسیٰ بن مریم کی زُبانی لعنت کی گئی اِس وجہ سے کہ وہ نافرمانیاں کرتے تھے اور حد سے آگے بڑھ جاتے تھے۔ 

(سورة المائدہ...78)

کافر آپس میں ایک دوسرے کے رفیق ہیں، اگر تم نے ایسا نہ کِیا تو ملک میں فتنہ ہو گا اور زبردست فساد ہو جائے گا۔ 

(سورة الانفال....73)

آپ نے فرمایا! پھِر تو تُم اور تمھارے باپ دادا سبھی یقینا کھُلی گمراہی میں مبتلا رہے۔ 

(سورة الانبیا....54)

مومنین کا رویہ اِس کے برعکس ہے وہ بھلے کام کرنے اور نیکیاں پھیلانے میں ایک دوسرے کی بھرپور حوصلہ افزائی کرتے ہیں 

اُن کے اکثر مصلحتی مشورے بے خیر ہیں، ہاں! بھلائی اُس کے مشورے میں ہے جو خیرات کا یا نیک بات کا یا لوگوں میں صلح کروانے کا حُکم کرے اور جو شخص صِرف اللہ تعالیٰ کی رضامندی حاصل کرنے کے ارادہ سے یہ کام کرے اُسے ہم یقینا بہت بڑا ثواب دیں گے۔ 

(سورة النسا....114)

مومن مرد و عورت آپس میں ایک دوسرے کے (مددگار ومعاون اور) دوست ہیں، وہ بھلائیوں کا حُکم دیتے ہیں اور برائیوں سے روکتے ہیں، نمازوں کو پابندی سے ادا کرتے ہیں، زکوٰة دیتے ہیں، اللہ کی اور اُس کے رسول کی بات مانتے ہیں، یہی لوگ ہیں جِن پر اللہ تعالیٰ بہت جلد رحم فرمائے گا۔ بے شک اللہ غلبے والا، حکمت والا ہے۔ 

(سورة التوبہ...71)

اے ایمان والو! جب تمھارے پاس مومن عورتیں ہجرت کر کے آئیں تو تم اُن کا امتحان لو۔ دراصل اُن کے ایمان کو بخوبی جاننے والا تو اللہ ہی ہے لیکن اگر وہ تمھیں ایماندار معلوم ہوں تو اب تم اُنھیں کافروں کی طرف واپس نہ کرو، یہ اُن کے لیے حلال نہِیں اور نہ وہ اُن کے لیے حلال ہیں، اور جو خرچ اُن کافروں کا ہُوا ہو وہ اُنھیں ادا کر دو، اُن عورتوں کو اُن کے مہر دے کر اُن سے نکاح کر لینے میں تم پر کوئی گُناہ نہِیں اور کافر عورتوں کی ناموس اپنے قبضہ میں نہ رکھو اور جو کُچھ تم نے خرچ کِیا ہو، مانگ لو اور جو کُچھ اُن کافروں نے خرچ کِیا ہو وہ بھی مانگ لیں، یہ اللہ کا فیصلہ ہے جو تمھارے درمیان کر رہا ہے، اللہ تعالیٰ بڑے عِلم (اور) حکمت والا ہے۔ 

(سورة الممتحنہ....10)

رہی بات شفاعت کرنے کی تو اِس بارے میں علماے دینِ اسلام کا کہنا ہے کہ قرآن مجید کی تعلیمات سے عیاں ہے کہ ہر نبی اپنی اُمّت کی آپ سفارش کرے گا: ۔

باایمان لوگ تو وہی ہیں جو اللہ تعالیٰ پر اور اُس کے رسول پر یقین رکھتے ہیں اور جب ایسے معاملہ میں جِس میں لوگوں کے جمع ہونے کی ضرورت ہوتی ہے نبی کے ساتھ ہوتے ہیں تو جب تک آپ سے اِجازت نہ لیں کہِیں نہِیں جاتے۔ جو لوگ ایسے موقع پر آپ سے اِجازت لے لیتے ہیں حقیقت میں یہی ہیں جو اللہ تعالیٰ پر اور اُس کے رسول پر اِیمان لا چکے ہیں۔ پس جب ایسے لوگ آپ سے اپنے کِسی کام کے لیے اِجازت طلب کریں تو آپ اُن میں سے جسے چاہیں اِجازت دے دیں اور اُن کے لیے اللہ تعالیٰ سے بخشش کی دُعا مانگیں، بے شک اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔ 

(سورة النور...62)

اللہ تعالیٰ کی رحمت کے باعث آپ اُن پر نرم دِل ہیں اور اگر آپ درشت زُبان اور سخت دِل ہوتے تو یہ سب آپ کے پاس سے چھَٹ جاتے، سو آپ اُن سے درگذر کریں اور اُن کے لیے استغفار کریں اور کام کا مشورہ اُن سے کِیا کریں، پھِر جب آپ کا پختہ ارادہ ہو جائے تو اللہ تعالیٰ پر بھروسا کریں، بے شک اللہ تعالیٰ توکل کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔ 

(سورة آلِ عمران....159)

یا یہ لوگوں سے حسد کرتے ہیں اس پر جو اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے اُنھیں دیا ہے، پس ہم نے تو آلِ ابراہیم کو کِتاب اور حِکمت بھی دی ہے اور بڑی سلطنت بھی عطا فرمائی ہے۔ 

(سورة النسا....54)

اور اللہ تعالیٰ ایسا نہ کرے گا کہ اُن میں آپ کے ہوتے ہوئے اُن کو عذاب دے اور اللہ اُن کو عذاب نہ دے گا، اِس حالت میں کہ وہ استغفار بھی کرتے ہوں۔ 

(سورة الانفال....33)

حضرت محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) اپنی اُمّت کی بطور خاص شفاعت فرمائیں گے۔ اس شفاعت کے لیے مسلمانوں کی مناجات کو دخل ہو گا اور بے شک اللہ تعالیٰ کی مرضی واجازت شاملِ حال ہو گی تبھی شافعِ روزِ محشر شفاعت کر سکیں گے: ۔

اللہ تعالیٰ ہی معبودِ برحق ہے جِس کے سوا کوئی معبود نہِیں جو زِندہ اور سب کا تھامنے والا ہے، جسے نہ اونگھ آئے نہ نیند، اُس کی ملکیت میں زمین اور آسمانوں کی تمام چیزیں ہیں۔ کون ہے جو اُس کی اجازت کے بغیر اُس کے سامنے شفاعت کر سکے، وہ جانتا ہے جو اُن کے سامنے ہے اور جو اُن کے پیچھے ہے اور وہ اُس کے عِلم میں سے کِسی چیز کا احاطہ نہِیں کر سکتے مگر جِتنا وہ چاہے، اُس کی کُرسی کی وسعت نے زمین و آسمان کو گھیر رکھا ہے اور اللہ تعالیٰ اُن کی حفاظت سے نہ تھکتا اور نہ اُکتاتا ہے، وہ تو بہت بلند اور بہت بڑا ہے۔ 

(سورة البقرة....255)

بلاشبہ تمھارا رَب اللہ ہی ہے جِس نے آسمانوں اور زمین کو چھ روز میں پیدا کر دیا پھِر عرش پر قائم ہُوا، وہ ہر کام کی تدبیر کرتا ہے۔ اُس کی اجازت کے بغیر کوئی اُس کے پاس سفارش کرنے والا نہِیں، اللہ تمھارا رب ہے، سو تم اُس کی عبادت کرو، کیا تُم پھِر بھی نصیحت نہِیں پکڑتے۔ 

(سورة یونس...3)

کیا یہ انسان اِتنا بھی یاد نہِیں رکھتا کہ ہم نے اسے اس سے پہلے پیدا کِیا، حال آںکہ وہ کُچھ بھی نہ تھا۔

 (سورة مریم...67)

صُوفیہ میں ایک غیر معمولی رُجحان پایا جاتا ہے کہ وہ شفاعت کر سکنے والوں کی ایک لڑی قائم کر لیتے ہیں جو دینی دانشوروں کی نگاہوں میں ضعیف الاعتقادی ہے اور اُن کی ناراضی مول لینے کا سبب۔ 

2۔صلیب

قرآن مجیداِس بات کو قطعاً نہِیں مانتا کہ حضرت یسوع مسیح کی موت صلیب پر واقع ہوئی تھی: ۔

اور یُوں کہنے کے باعث کہ ہم نے اللہ کے رسول حضرت مسیح عیسیٰ بن مریم کو قتل کر دیا حال آںکہ نہ تو اُنھوں نے اُسے قتل کِیا نہ سُولی چڑھایا بل کہ اُن کے لیے ان (عیسیٰ ) کا شبیہ بنا دیا گیا تھا۔ یقین جانو کہ (حضرت) عیسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں اِختلاف کرنے والے اُن کے بارے میں شک میں ہیں، اُنھیں اِس کا کوئی یقین نہِیں بجز تخمینی باتوں پر عمل کرنے کے، اِتنا یقینی ہے کہ اُنھوں نے اُنھیں قتل نہِیں کِیا۔ 

(سورة النسا....157)

جب اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے عیسیٰ ! مَیں تجھے پُورا لینے والا ہُوں اور تجھے اپنی جانب اُٹھانے والا ہُوں اور تجھے کافروں سے پاک کرنے والا ہُوں اور تیرے تابع فرمانوں کو کافروں کے اوپر غالب کرنے والا ہُوں قیامت کے دِن تک، پھِر تم سب کا لوٹنا میری ہی طرف ہے، مَیں ہی تمھارے آپس کے تمام تر اختلافات کا فیصلہ کروں گا۔ 

(سورة آلِ عمران....55)

قرآن پاک کی آیاتِ مبارکہ کا ترجمہ اور تفسیر لکھنے والوں نے شبہ لھم کے معانی یہ اخذ کیے ہیں کہ حضرت عیسیٰ مسیح ابنِ مریم کو اللہ نے صلیب پر اُن کے ہمشکل سے بدل دیا۔ جسے مصلوب کر دیا گیا، یہ سمجھتے ہوئے کہ حضرت عیسیٰ ہی سولی چڑھے ہیں۔ عِلم القرآن کے ماہرین و مفسرین کی کھوج کے مطابق اور بعض احادیثِ مبارکہ کے حوالوں سے جِن ہم شکل لوگوں کے نام سامنے آئے ہیں اُن میں رومی سردار شمعون کرینی، مقدّس پطرس اور یہودہ اسخریوطی کے نام شامل ہیں۔ مجموعی طور پر اسلامی روایات اور تذکرہ جات کے مطابق شُبہ کی کوئی گنجایش نہِیں اور یہ دُرست ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو مصلوب نہِیں کِیا گیا۔ خُداوند کریم نے حضرت یسوع المسیح کو اُن کے دُشمنوں سے بچا لیا اور اُن کی پہنچ سے دُور کھینچ لیا، آسمانوں پر اُٹھا لیا، اپنے پاس، پُوری حفاظت سے، صحیح و سالم۔

بہرحال خُداوند یسوع المسیح کو دُنیا میں ضرور لوٹنا ہے۔ وہ آئیں گے اور اعلان کریں گے، دُنیا کے ختم ہونے کا اور قیامت کی گھڑی عین سروں پر آ موجود ہونے کا۔ 

یہ جان لینا از بس ضروری ہے کہ آخر قرآن مجیداور اِسلام ایک یقینی تاریخی واقعے کی صحت وصداقت قبول کرنے سے کیوں اِنکاری ہیں۔ عقیدہ عدم بشریتِ مسیح اور عرفانیت یعنی روحانی برتری کے قائل ہونے کے میلانات رَکھنے والوں سے ماوریٰ اِسلام کے فلسفہ وحدانیت کے تتبُّع میں قرآن مجید یہ نتیجہ اخذ کرنے پر اٹل ہے کہ حضرت عیسیٰ کی موت صلیب پر واقع نہِیں ہوئی۔ پیغمبروں کے نزول کے بارے میں قرآنی حکایات ایک مِلتے جُلتے نکتے پر منطبق نظر آتی ہیں۔ کسی نبی کو اُس کی قوم کی طرف مبعوث کِیا جاتا ہے، قوم اُس پر ایمان نہِیں لاتی اور تکفیر کرتی ہے مگر چند لوگ اُسے خُدا کا بھیجا ہُوا پیغمبر مان لیتے ہیں اور جو لوگ اُنھیں نبی ماننے سے مُنکر ہیں وہ اُس کے قتل پر آمادہ ہو جاتے ہیں مگر 

تدبیر کند بندہ ، تقدیر زند خندہ 

قدرتِ خُداوندی کا کرشمہ کہ اُسے بچا لیا جاتا ہے۔ خُدا اپنے مبعوث کیے ہوئے رسول کو اُس کے دُشمنوں اور اُن کے جبر و مظالم کے حوالے کیوںکر کر دے۔ اور یہ بھی تسلیم کر لینے والی حقیقت ہے کہ حضور پاک کی مدنی زِندگی والے زمانہ میں جو آیاتِ مُقدّسہ نازل ہوئیں اُن میں بنو اسرائیل پر کڑی تنقید کی گئی۔ مدینہ کے یہود کے آباو اجداد کو مجرم ٹھہرایا گیا کہ خُدا کے فرستادہ پیغمبر جب اُس کا پیغام لے کر اُن کے پاس پہنچے تو اُنھوں نے اُنھیں قتل کر دیا۔ لیکن یہ تو چند مثالیں ہیں ورنہ قرآن مجیدکا غالب و نمایاں خیال تو یہ ہے کہ عین مصیبت کے وقت خُدا نے اپنے پیغمبروں کی دستگیری کی اور اُن کے دشمنوں کے ہاتھوں سے اُنھیں اُچک لیا، یوں منکرین کے سامنے اپنے نبیوں کی لاج رَکھ لی اور اُن کا مان بڑھا دیا۔ حضرت یسوع مسیح کی کہانی کی بُنت بھی اسی نمونے پر تکمیل کو پہنچی۔ 

 

3۔گُناہوں سے مُعافی

قرآن مجیدنے معرفتِ الٰہی کے لیے جو خاص صِفت بیان کی ہے وہ یہ ہے کہ اللہ غفور الرحیم ہے۔ اور توبہ کا خُداے قدوس کی صفتِ عفو ودرگذر سے بڑا گہرا تعلق ہے۔ مانگے تو دیتا ہی ہے، بن مانگے بھی اُس کی عطا عام ہے: ۔

اور تین شخصوں کے حال پر بھی جِن کا معاملہ مُلتوی چھوڑ دیا گیا تھا (یہ تین صحابہ تھے کہ50دِن بعد اُن کی توبہ قبول ہوئی) یہاں تک کہ جب زمین باوجود اپنی فراخی کے اُن پر تنگ ہونے لگی اور وہ خُود اپنی جان سے تنگ آ گئے اور اُنھوں نے سمجھ لیا کہ اللہ سے کہِیں پناہ نہِیں مِل سکتی، بجز اِس کے کہ اُس کی طرف رجوع کِیا جائے۔ پھر اُن کے حال پر توجُّہ فرمائی تاکہ وہ آیندہ بھی توبہ کر سکیں۔ بے شک اللہ تعالیٰ بہت توبہ قبول کرنے والا بڑا رحم والا ہے۔ 

(سورة التوبہ....118)

مُسلِم علما تعلیم دیتے ہیں کہ توبہ گناہوں کو دھو ڈالتی ہے۔ معتزلہ کے ہاں تو معافی اور توبہ لازم و ملزوم ہیں صِرف اگر خُدا چاہے تو توفیق بخش دے معافی مانگنے کی، توبہ کر لی تو وہ معاف بھی کر دے، اُس کی مرضی ہے اور وہ مُسلمان جِن کا مسلک ’اشعریہ‘ ہے اُن کا سوچ مختلف ہے، اُن کے مطابق اِنسان کی ندامت اور توبہ اور خُداوند تعالیٰ کی طرف سے گُناہوں کی بخشش کوئی خُودکار فعل نہِیں۔ مرد ہو یا عورت اپنے گناہوں سے توبہ کر لے تو توبہ سے گناہ جھڑ جائیں گے، بے شک لیکن اگر وہ تائب نہ بھی ہو سکیں، خُدا تو پھِر بھی معاف کر سکتا ہے۔ وہ بخشنہار ہے۔ جِس نے کلمہ پڑھ لیا بہشت کے دروازے اُس پر کھُل گئے، دوزخ حرام ہو گئی۔ ’اشعریہ‘ مانتے ہیں کہ جِس میں اِیمان کا ذرہ بھی موجود ہو گا، خواہ مرد خواہ خاتون، جنت میں جائیں ہی جائیں۔ لیکن قرآن شریف اور قرآن شریف کو اللہ کی کِتاب ماننے والے عام مُسلمان اور عُلماے دین اِیمان کی کسوٹی نیکی بتاتے ہیں، نیک اعمال ہی بہشت کی دہلیز پار کروا سکیں گے۔ 

3۔مسیحی نقطہءنظر

۱۔موروثی گناہ 

بائبل مقدّس کے اکثر معاصرین مسیحی دانشور اور علماے دین کا تکوین کی کِتاب 3باب اور رویوں کے متن ومعانی پر اِتفاق ہے: ۔

پس جس طرح ایک آدمی کے وسیلے سے گُناہ نے اِس دُنیا میں دخل پایا اور گُناہ کے سبب موت نے اور اِس طرح موت سب آدمیوں میں پھیل گئی۔ اِس لیے کہ سب نے گُناہ کِیا۔ کیوںکہ شریعت کے ظاہر ہونے تک دُنیا میں گُناہ تو تھا۔ مگر جہاں شریعت نہِیں وہاں گُناہ محسُوب نہِیں ہوتا۔ تاہم موت نے آدم سے لے کر حضرت موسیٰ تک اُن پر بھی سلطنت کی جنھوں نے اُس آدم کی نافرمانی کے مانند گُناہ نہ کِیا جو آنے والے کی مثال تھا۔ مگر یہ نہِیں کہ جس قدر خطا ہے اُسی قدر نعمت ہے۔ کیوںکہ جب ایک ہی کی خطا کے سبب سے بُہتیرے مَر گئے تو ایک ہی آدمی یعنی حضرت یسوع مسیح کے وسیلے سے خُدا کا فضل اور فضل سے نعمت بُہتیروں پر کتنی زیادہ بڑھ کر ہوئی ہے۔ اور جیسا ایک گُناہ کرنے کا انجام ہُوا۔ نعمت کا ویسا ہی حال نہِیں۔ کیوںکہ اکیلے کے گُناہ کے سبب سے عذاب کا فتویٰ ہُوا۔ مگر صادق ٹھہرنے کے لیے خطاﺅں کی کثرت فضل کا باعث ہوئی۔ کیوںکہ جب ایک ہی کی خطا کے سبب سے موت نے اُسی ایک ہی کے وسیلے سے سلطنت کی ہے تو جو لوگ فضل اور صداقت سے نعمت اِفراط سے پاتے ہیں وہ ایک ہی کے یعنی حضرت یسوع مسیح کے وسیلے سے حیات میں کتنی زیادہ سلطنت کریں گے۔

پس، جیسا ایک ہی کی خطا کے سبب سے سب آدمیوں پر عذاب کا فتویٰ ہُوا۔ ویسا ہی ایک ہی کی صداقت کے سبب سے سب آدمیوں نے صادق ٹھہر کر حیات حاصل کی۔ کیوںکہ جیسے ایک ہی کی نافرمانی سے بہُت سے گُنہگار ٹھہرے۔ ویسے ہی ایک کی فرمانبرداری سے بہُت سے صادق ٹھہریں گے۔ اور شریعت درمیان میں آ گئی تاکہ خطا زیادہ ہو۔ لیکن جہاں گُناہ زیادہ ہُوا ہے وہاں فضل اِس سے بھی زیادہ ہُوا ہے تاکہ جیسے گُناہ نے موت کے سبب سے سلطنت کی ہے۔ ویسے ہی فضل بھی ہمارے خُداوند یسوع مسیح کے وسیلے سے دائمی حیات کے لیے صداقت کے ذریعے سے سلطنت کرے۔ 

(21-12:5رومیوں)

یہ متن اِنسانی زِندگی کے آغاز و ارتقاءپر کوئی عالمانہ تبصرہ تو نہِیں، لیکن علامتی بیانیہ کے ذریعے اُس احساسِ گناہ کی ضرور تصویر کشی کرتا ہے جو دُنیا میں برائی اور گناہ کے عملی مُشاہدہ سے جنم لیتا ہے۔ 

جب سے اِنسانوں نے زمین کو اپنا مسکن بنایا، گناہ اور اِنسان کا چولی دامن کا ساتھ رہا۔ انفرادی واجتماعی سطح پر خودغرضی، قاتلانہ تصادم، خدا اور اُس کے احکام سے بغاوت، بُت پرستی و بے وفائی سے اِنسانی زِندگی اَٹی رہی۔ لوگوں کے اندر اُن اچھائیوں کے لیے اور اُن برائیوں کے درمیان جنھیں وہ اپنانا چاہتے تھے اور جِن کی کشش بے بس کیے دیتی تھی: ۔

غرض مَیں یہ شریعت پاتا ہُوں کہ مَیں جب نیکی کرنا چاہتا ہُوں تو بدی میرے پاس آ موجود ہوتی ہے۔ کیوںکہ مَیں باطنی انسانیت کی رُو سے تو خُدا کی شریعت سے نہایت ہی خُوش ہُوں۔ مگر ایک اور طرح کی شریعت اپنے اعضا میں موجود دیکھتا ہُوں۔ جو میری عقل کی شریعت سے لڑتی اور مجھے گُناہ کی اُس شریعت کا قیدی بنا دیتی ہے جو میرے اعضا میں ہے۔ آہ مَیں کیسا بدبخت آدمی ہُوں! اِس موت کے بدن سے مجھے کون چھُڑائے گا؟ ہمارے خُداوند یسوع مسیح کے وسیلے سے خُدا کا شکر ہو! غرض مَیں اپنی عقل سے تو خُدا کی شریعت کا مگر جَسد سے گُناہ کی شریعت کا محکُوم ہُوں۔ 

(25-21:7 (رومیوں

بُرائی کی دِل پذیر قوت اِنسانی دِل پر بُری طرح ہی اثرپذیر ہے اور یہ پیدایش سے ہی ہر بچے میں موجود ہے، اِس سے فرار نہِیں۔ 

نسلِ انسانی جبلّی طور پر نہ صرف یہ کہ مشیّتِ ایزدی سے ہم آہنگ اور قدرتِ خُداوندی کی مرہونِ منّت وہم نوا رہی ہے بل کہ یہ بھی ہے کہ اچھائی و بُرائی کی طویل تاریخ کے ذریعے اِس میں ایسی فطرت نمو پا گئی جِس پر شخصی یعنی ذاتی احساسِ گناہ کی چھاپ گہری رہی۔ یہی آگے چل کر اِنسانوں کے ایک دوسرے کو سمجھنے اور ہر طرح کی مطابقت قائم کرنے میں دُشواریوں کا سبب بنی، حتیٰ کہ اِنسان خُدا کے بارے میں بھی فہم وادراک، تفہیم وہم آہنگی کے سلسلہ میں مات کھا گیا۔ مُقدّس بائبل میں اس ساری کٹھنائیوں کو اجمالاً ”گناہِ جہانی“ سے تعبیر کِیا گیا ہے: ۔

دوسرے دِن اُس نے حضرت یسوع کو اپنی طرف آتے دیکھا اور کہا، دیکھو خُدا کا برّہ جو دُنیا کا گُناہ اُٹھا لے جاتا ہے۔ 

(29:1یوحنّا)

چناںچہ مُقدّس پولوس یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ: حضرت یسوع مسیح کے ذریعے عفوودرگذر کی جِس شانِ خُداوندی کا اِظہار کِیا گیا ہے اُس کا ہر شخص، خواہ یہودی خواہ غیر یہودی، ہر ایک محتاج و طالب ہے: ۔

مگر اَب خُدا کی ایسی صداقت ظاہر ہوئی ہے جو شریعت پر منحصر نہِیں اور جس کی تصدیق شریعت اور انبیا سے ہوتی ہے۔ یعنی خُدا کی ایسی صداقت جو حضرت یسوع مسیح پر ایمان رکھنے سے اُن سب کو حاصل ہوتی ہے جو ایمان لاتے ہیں۔ کیوںکہ کچھ فرق نہِیں۔ اِس لیے کہ سب نے گُناہ کِیا اور خُدا کے جلال سے محروم ہیں۔ پس وہ اُس کے فضل سے اُس مخلصی کے سبب سے جو مسیح حضرت یسوع میں ہے مفت صادق ٹھہرائے جاتے ہیں۔ 

اُسی کو خُدا نے اُس کے خُون کے باعث ایمان رکھنے والوں کے لیے ایک رحم گاہ ٹھہرایا تاکہ وہ اُن گُناہوں سے چشم پوشی کر کے جو پیشتر ہو چکے تھے اپنی صداقت ظاہر کریں۔ 

(25-21:3 رومیوں)

کیوںکہ تمھیں فضل سے اِیمان کے وسیلے سے نجات ملی ہے اور یہ تمھاری طرف سے نہِیں یہ تو خُدا کی بخشش ہے۔ اور اعمال سے بھی نہِیں تاکہ کوئی فخر نہ کرے۔ 

(9-8:2افسیوں)

بپتسمہ کے وقت اِیمان لانے والے اپنے آپ کو خُداوند یسوع مسیح کے حوالے کر دیتے ہیں۔ مسیح کی طاقت کے سامنے گُناہ کی قوت پارہ پارہ ہو جاتی ہے۔ یہاں گُناہ سے مُراد ہے معاشرتی ماحول، مجموعی فضا یا غالب آنے والی طاقت نہ کہ اِنفرادی ذاتی عمل۔ 

موروثی گُناہ کبھی شخصی گُناہ کا حوالہ نہِیں بنایا جاتا کیوںکہ وہ تو پیدایش سے ہی اِنسان کو احساسِ جُرم کے بکھیڑوں میں اُلجھا دیتا ہے۔ نہ تو بائبل مقدّس اور نہ ہی کلیسا کی مستند تعلیمات میں ہی کوئی ایسی تلقین موجود ہے جو اِنسان کے ذاتی گُناہوں کی مزید آگے ترسیل و توارد کی تصدیق کرتی ہو۔ حزقیال نبی نے اِس نظریہ پر شدید احتجاج کِیا: ۔

تُم اِسرائیل کے مُلک کے حق میں یہ مثل کیوں کہتے ہو کہ باپ دادا نے کچے انگُور کھائے اور اولاد کے دانت کھٹّے ہو گئے؟ 

(2:18 حزقیال)

حضرت یسوع مسیح نے بھی اِس خیال کی تردید کی تھی:

ابنِ آدم اپنے باپ کے جلال کے ساتھ اور اپنے فرشتوں کے ساتھ لوٹ کر آئے گا اور اس وقت ابنِ آدم ہر ایک کو اُن کے اعمال کے موافق مُناسب بدلہ دے گا۔ 

(27:16 متی)

اور اُس کے شاگردوں نے اُس سے پُوچھا۔ ربّی کِس نے گُناہ کِیا تھا۔ اِس نے یا اِس کے ماں باپ نے کہ یہ اندھا پیدا ہُوا؟ یسُوع نے جواب دِیا، نہ تو اِس نے گُناہ کِیا تھا نہ اِس کے ماں باپ نے۔ لیکن یہ اِس لیے ہُوا کہ خُدا کے کام اِس میں ظاہر ہوں۔ 

(3-2:9 یوحنّا)

2۔صلیب اور جان کا فدیہ دے کر نِجات 

صلیب پر اپنی جان دے کر دوسروں کے لیے نِجات والے عقیدہ نے درحقیقت بعض قابلِ اعتراض انداز ہاے فِکر کو بھی ہوا دی ہے اور دینی ترویج کی بعض غیر صحت مندانہ اشکال بھی سامنے آئیں۔ مثلاً مُقدّسہ مریم کے اندوہ وکرب کی ایک طرح سے روحانی شان وشوکت، جو ایک وقت آنے پر اذیت پسندانہ نفس کُشی میں بھی ڈھل گئی یا پھِر ایسے آدرش کی آبیاری جو بے لیت و لعل حُکم برداری پر مُنتج ہو، یا ایسی ذہنیت جو ہر آن عدلِ ربّانی کے بھاو تول میں ہی جُتی رہے، یا پھِر یوں بھی ہوتا ہے کہ ایسے لوگ تلافی کے اس مطالبہ کے پیچھے پڑ جاتے ہیں جِس میں کِسی اور کے بدلے کوئی اور ہی شخص رضاکارانہ طور پر سزا کی صعوبتیں جھیلنے پر تیار ہو جائے، وغیرہ وغیرہ۔ ایسی نوع کی مثالوں میں ایک مثال بھی ہے کہ عصرِ حاضر کے بعض اِنقلابی رہنما اِنصاف اور آزادی کے لیے کی جانے والی مُقدّس کاوش میں اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنے سے بھی گریز نہ کرنے والے کی قربانی کی تعریفیں کرتے نہِیں تھکتے۔ پس اِدھر اُدھر بھٹکنے کے بجاے بُنیادی مسیحی سچائیوں کو پیشِ نظر رکھنا ہی مناسب ترین عمل ہو گا۔ 

 

2:1 صلیب: حیاتِ حضرت یسوع کا جواز موت میں حیات 

حیاتِ حضرت یسوع مرقع ہے تلافی اور گلو خلاصی کا، اُس زمانے میں جو مذہبی قوانین جاری تھے اُن سے فِطری آزادی کی خاطر مسیح نے اپنی زِندگی کو، اپنے اعمال کو نمونہ بنایا کیوںکہ اُن قوانین کے حصّے خُداوند قدوس کی اصل منشا کے خلاف رواج پا چکے تھے اور انسان اُن کے غیر ضروری بوجھ تلے پڑے سِسک رہے تھے: ۔

اے سب تھکے ماندو اور بوجھ سے دبے ہُوﺅ! میرے پاس آﺅ۔ مَیں تمھیں آرام دُوں گا۔

(28:11 متی)

وہ ایسے بھاری بوجھ جو اُٹھائے نہِیں جاتے باندھتے اور لوگوں کے کندھوں پررکھتے ہیں لیکن آپ اُنھیں اپنی اُنگلی سے بھی ہِلانا نہِیں چاہتے۔ 

(4:23 متی)

اے عُلماے شرع تُم پر بھی افسوس کہ تم ایسے بوجھ جو اُٹھائے نہِیں جاتے آدمیوں پر لادتے ہو۔ اور آپ ایک اُنگلی بھی اُن بوجھوں کو نہِیں لگاتے۔ 

(46:11 لُوقا)

اِس طریقے سے اور اپنی تمام وفا شعاریوں کے باوصف خُداوند حضرت یسوع مسیح نے خُدا کے جِس سچے اور حقیقی چہرے سے لوگوں کو مُتعارف کروایا وہ تھا ایک مہربان باپ کا چہرہ، اُس باپ کا جو اپنے بندوں سے غیر مشروط محبت کرتا ہے۔ یوں اُس خُداے مہربان، باپ کے سامنے اُس کے بندوں کے سرداروں کے مظالم جو وہ اُس کے بندوں پر ڈھا رہے تھے سب کے سب عیاں کر دیے۔ جو لوگ خُداوند حضرت یسوع کے دائرہ اثر میں آنے سے اِنکاری تھے اُن کے ساتھ گٹھ جوڑ کر کے اُن سرداروں نے حضرت یسوع مسیح کے لیے سزاے موت تجویز کر دی۔ اُنھوں نے خُداوند حضرت یسوع مسیح کو رومی حُکمرانوں کے حوالے کر دیا۔ رومیوں نے اپنے قانون کے تحت اُسے موت کے گھاٹ اُتار دیا اور اُسے ظالمانہ طریق سے روایتی سزاﺅں کے لیے مخصوص صلیب پر مصلوب کر دیا۔ حضرت یسوع نے جِن محرکات پر زِندگی تج دی وہی اٹل قسم کا منطقی اِنجام تھا جو اُس کی پُرتشدد بے رحمانہ موت کی شکل میں سامنے آیا۔ 

حضرت یسوع کے مخالفین کے نزدیک اُن کا مصلوب کِیا جانا ہی عین اِنصاف ہے جِس کے وہ مستحق تھے۔ درحقیقت اُن کے تمام دعاوی کے لیے واضح، مستند بُنیاد کہِیں نظر نہ آئی کیوںکہ اگر کوئی مضبوط بُنیاد موجود ہوتی تو خُدا اُنھیں مرنے کے لیے یوں تنہا نہ چھوڑ دیتا اور نہ ہی دُنیا مدد کرنے کے بجاے یوں تماشائی بنتی۔ اُن کے شاگرد جِن کا اِیمان تھا کہ حضرت یسوع میں ہی خُدا موجود ہے، متحرک ہے، اور آسمانی سلطنت قریب تر ہے، سب پر حضرت یسوع کا راج ہو گا، سبھی کُچھ شاگردوں کو سراب آسا محسوس ہوا، خُدا کے بارے میں حضرت یسوع کی تعلیمات ناکارہ ثابت ہوئیں۔ 

اگر شاگردانِ حضرت یسوع خُود فریبی کا شکار نہ رہیں اور پھِر سے اِیمان پُختہ کر لیں کہ وہ حضرت یسوع ہی ہے جو خُدا کے ظہور کا اِنکشاف کر سکتا ہے تو اِس کا یہی مطلب ہو گا کہ اب اُن کی آنکھیں کھُل چُکی ہیں اور وہ آنکھیں حضرت یسوع کو دیکھ رہی ہیں، مصلوب حضرت یسوع کو ایک نئی آن بان شان کے ساتھ، ایک اور ہی کیفیت میں۔ گو اب وہ شاگرد اِس لائق ہوئے کہ حضرت یسوع مسیح کا سامنا کر سکیں، نئی کیفیت، نئے انداز میں۔ 

صلیب پر خُداوند حضرت یسوع مسیح کی موت سے یہ اندازہ لگانا قطعی بے معنی ہو گا کہ اُس کی بات میں کوئی صداقت نہ تھی جِس کا وہ دعویٰ کرتا تھا کہ خُدا محبت ہی محبت ہے، غیر مشروط محبت اور اُس کا ہر قول، فعل اور حُکم سب محبت ہے۔ 

ایر ہارڈ کُنز، ایس جے رقمطراز ہے: 

حضرت یسوع کی موت کے بارے میں بہتر انداز میں یوں قیاس کِیا جا سکتا ہے کہ یہ بھی اسی محبت کا ہی ایک جبلّی اور عمیق نتیجہ ہے۔ یہاں تک کہ صلیب بھی خُداوند حضرت یسوع کے بُنیادی کشف کا اِنکار نہِیں کرتی بل کہ اُس کی توثیق کرتی ہے۔ کیوںکہ جو فرد بھی محبت کرتا ہے اور دوسرے اِنسان سے بہتر سلوک کرتا ہے اور وہ بھی بِنا کِسی شرط یا مُطالبے کے۔ کہ وہ اچھائیاں اور محبتیں کیوںکر ظہور پذیر ہوں گی، وہ فرد دوسرے اِنسان کا پورا پورا ساتھ دے گا چاہے حالات کِتنے ہی ناموافق کیوں نہ ہو جائیں۔ وہ اپنا خُلُوص تمام تر اُس دوسرے شخص کے لیے مختص رکھے گا خاص طور پر تب جب دوسرا خطرات میں گھِرا ہو۔ محبت میں جو شخص بھی خُداوند حضرت یسوع مسیح کا شعار اپنائے گا وہ نہ مصائب و آلام سے گھبرائے گا اور نہ اُن سے مُنہ موڑے گا بل کہ وہ تو سر پر ہر آئی بَلابانٹنے والا ثابت ہو گا۔ درد مندی سے دوسرے کی مدد پر آمادگی کا یقینی اِظہار کرے گا اور حقیقی معنوں میں دُکھ درد برابر جھیلنے والا ساتھی ثابت ہو گا۔ مہیب ومحتاج اِس گیتی میں محبت نام ہی غم وآلام سہنے کا اور دوسروں کے کام آنے کا ہے: ۔

اِس پر حضرت یسوع نے کہا کہ ایک شخص یروشلیم سے یریحو کو جا رہا تھا کہ ڈاکوﺅں میں جا پڑا جنھوں نے اُسے لُوٹ کر زخمی کِیا اور اَدھ مُوا چھوڑ کر چلے گئے۔ اِتّفاقاً ایک کاہن اُس راہ سے گذرا اور اُسے دیکھا اور کترا کر چلاگیا۔ اُسی طرح ایک لاوی نے بھی اُس جگہ آ کر اُسے دیکھا اور کترا کر چلا گیا۔ پھر ایک سامری مُسافِر سفر کرتے کرتے وہاں آ نکلا اور اُسے دیکھ کر ترس کھایا۔ اور پاس جا کر اُس کے زخموں کو تیل اور مَے لگا کر باندھا اور اپنے جانور پر بٹھا کر سراے میں لے گیا اور اُس کی خبر گیری کی۔ اور دوسرے دِن دو دینار نِکال کر بھٹیارے کو دیے اور کہا کہ اِس کی خبر گیری کر اور جو کچھ اس سے زیادہ خرچ ہو گا مَیں پھر آ کر تجھے ادا کروں گا۔ اب اِن تینوں میں سے، اُس کا جو ڈاکوﺅں میں جا پڑا تھا، تُو کِسے ہمسایہ سمجھتا ہے؟ اُس نے کہا، اُسے جس نے اُس پر رحم کِیا۔ تب حضرت یسوع نے اُس سے کہا جا تُو بھی ایسا ہی کر۔ 

(37-30:10 لُوقا)

چناںچہ محبت حضرت یسوع کے فہمِ رسا کے مطابق اُن لوگوں سے دُور نہِیں کر دیتی جو گناہوں میں لتھڑ چکے ہوں، وہ تو بُرائی کو برداشت کرتی ہے اور نیکی کے ذریعے بدی پر غالب آنے کی کوشش کرتی ہے۔ تشدُّد اور عدم اِنصاف پر تلخ ہوئے بغیر صبر و شکیب سے کام لیتے ہوئے محبت بُرائی کا بدلہ بُرائی سے دینے والے اُصُول پر مبنی بُرائی کے چکّر یعنی تسلسُل کو توڑدیتی ہے.... (”آنکھ کے بدلے آنکھ“!!!).... چوٹ پڑنے پر چوٹ کا جواب چوٹ سے دینے والی حرکت سے اجتناب برتنے والی محبت ہی بُرائی کو ساکت کر کے اُس پر فتح پا سکتی ہے۔ بُرائی سے بھرپور اِس دُنیا میں محبت بے جا اور ظالمانہ جبر و تشدد کی اذیّت کو گلے لگا لیتی ہے جِس کی ایک انتہا ایک ناروا غیرمنصفانہ مُقدّس موت کی صورت میں سامنے آئی: ۔

تُم سُن چکے ہو کہ کہا گیا تھا کہ آنکھ کے بدلے آنکھ اور دانت کے بدلے دانت۔ مگر مَیں تُم سے کہتا ہُوں کہ بُرائی کا مقابلہ نہ کرنا۔ بل کہ جو تیرے داہنے گال پر طمانچہ مارے دوسرا بھی اُس کی طرف پھیر دے۔ اور اگر کوئی عدالت میں تجھ پر نالِش کر کے تیرا کُرتا لینا چاہے، تو چُغا بھی اُسے لے لینے دے۔ اگر کوئی تجھے ایک کوس بیگار میں لے جائے، اُس کے ساتھ دو کوس چلا جا۔ جو کوئی تجھ سے کچھ مانگے اُسے دے۔ اور جو تجھ سے قرضہ چاہے اُس سے مُنہ نہ موڑ۔ 

تُم سُن چکے ہو کہ کہا گیا تھا۔ اپنے ہمسایے کو پیار کر اور اپنے دُشمن سے کِینہ رکھ۔ لیکن مَیں تُم سے یہ کہتا ہُوں کہ اپنے دُشمنوں کو پیار کرو اور اپنے ستانے والوں کے لیے دُعا مانگو اور جو تمھیں ستائیں اور بدنام کریں اُن کے لیے دُعا مانگو۔ تاکہ تم اپنے باپ کے، جو آسمان پر ہے فرزند ٹھہرو۔ کیوںکہ وہ اپنے سُورج کو بَدوں اور نیکوں پر طُلُوع کرتا ہے، اور راست بازوں اور ناراستوں پر مِینہ برساتا ہے۔ کیوںکہ اگر اُنھِی کو پیار کرو، جو تمھیں پیار کرتے ہیں تو تمھارے لیے کیا اَجر ہے؟ کیا محصُول لینے والے بھی ایسا نہِیں کرتے؟ اگر تُم فقط اپنے بھائیوں ہی کو سلام کرو تو تُم کیا فیاضی کرتے ہو؟ کیا غیر قوموں کے لوگ بھی ایسا نہِیں کرتے۔ اِس واسطے تُم کامِل ہو جیسا تمھارا آسمانی باپ کامِل ہے۔ 

(48-38:5 متی)

بُرائیوں کا گڑھ مصیبتوں ماری اِس دُنیا میں اگر حضرت یسوع مسیح چاہے کہ خُدا کے بارے میں اُس کی غیر مشروط اور لامحدود محبت کی ثقہ گواہی پیش کرے تب تو اُسے صبر و ضبط کے ساتھ عدل و انصاف سے مُبرّا جارحیّت کا سامنا کرنا ہی پڑے گا۔ خطرات اور جارحیت کا مقابلہ کرتے ہوئے حضرت یسوع کا بُنیادی کشف یعنی وژن کبھی کمزور نہ پڑا، اِس کے برعکس یہ ضرور ہُوا کہ اُس نے وہ راہیں صاف کیں کہ دُنیا والے جِن پر چل کے خُدا کی محبت سے ہمیشہ مُستفید ہوئے۔ محبت جِس بھلائی اور نیکی کی آرزو مند ہوتی ہے ہماری دُنیا میں اُس کا حصول اگر ممکن بنایا جا سکتا ہے تو وہ بنتا ہے اِنسانی ہمدردی وتعاون سے اور رنج و کُلفت کی برداشت سے، کیوںکہ یہی روایتی ہتھیار ہیں بُرائی پر قابو پانے کے ضِمن میں۔ 

زِندہ اور زِندگی بخش فصل اُس وقت تک لہلہا سکتی ہی نہِیں جب تک کہ دانہ گندم گرے نہِیں، زمین میں پہنچے نہِیں اور اپنی جان سے جائے نہِیں: ۔

مَیں تُم سے سچ سچ کہتا ہُوں کہ جب تک گیہوں کا دانہ زمین میں گِر کر مَر نہِیں جاتا اکیلا رہتا ہے۔ لیکن جب مر جاتا ہے تو بہُت سا پھل لاتا ہے۔ 

(24:12 یوحنّا)

اِس تناظر میں دیکھا جائے تو حضرت یسوع مسیح کا صلیب پر یوں مصلوب ہو جانا بہیمانہ اختتام ہرگز نہِیں، اِس سے پہلے 

جو کُچھ کہ دیکھا خواب تھا، جو سُنا افسانہ تھا

وہ بات بھی نہِیں، بل کہ وہ تو حقوق و فرائض کی تکمیل تھی، تعلیمات و خدمات سے عہدہ بَرآئی تھی۔ اذیتوں کو برداشت کرتے کرتے حضرت یسوع کی موت پیغام ہے اُس کی بے حد و حساب محبت کا: ۔

عیدِ فصَح سے پہلے حضرت یسوع یہ جانتے ہوئے کہ میرا وہ وقت آ پہنچا ہے کہ دُنیا سے رحلت کر کے باپ کے پاس جاﺅں۔ جب کہ اپنوں کو جو دُنیا میں تھے پیار کرتا تھا، اُنھیں آخِر تک پیار کرتا گیا۔ 

(1:13 یوحنّا)

 

2:2 دُنیا کی نِجات کے لیے حضرت یسوع مسیح کا جان کا کفارہ اور مُردوں میں زِندہ ہونا 

مُردوں میں سے زِندہ اُٹھا کے خُدا نے حضرت یسوع مسیح کی موت و حیات کا مافی ضمیر لوگوں پر تصدیق کے ساتھ واضح کر دیا اور یوں اُسے تمام زمانوں کے تمام لوگوں کے لیے ایک بیش بہا تحفہ قرار دے دیا جِس نے اُن کی زِندگیاں بدل دیں۔ خُداوند حضرت یسوع مسیح مُردوں میں سے جی اُٹھا، اُس کی ہست و بود خُدا میں ہے۔ وہ کار ساز ہے جِس طرح دوبارہ جی اُٹھنے سے پہلے تھا اور آج بھی خُدا کے عفو ومحبت کا پرچار ہے۔ زِندہ مسیح کی قدرت میں ہے کہ وہ لوگوں کو آزادی بخشے گناہ سے اور گناہ آلُود موت سے۔ نتیجتاً جِس کسی نے بھی عمداً یا غیر قصداً حضرت یسوع مسیح کی زِندگی، اُس کا فلسفہ حیات اپنا لیا اُس کی نجات ہو گئی۔ خُدا کی طرف سے نازل کی گئی صداقتوں پر کامل اِیمان ہونا چاہیے جیسے حضرت یسوع مسیح کا عمل تھا اور اپنی جان قربان کرنے سے بھی گریز نہ کرنے والی وہ ادا جو حضرت یسوع مسیح نے سِکھائی، ہاں، اُسی وفاداری واطاعت گزاری کے ساتھ تمام اِنسانوں، تمام بھائی بہنوں سے محبت اور شفقت کا برتاو ہونا چاہیے حتیٰ کہ مخالفین تو کیا دُشمنوں کے لیے بھی پُرخلوص معافی اپنا وتیرہ بنا لیا جائے۔ ایسا کر لیا تو سمجھیے نفرت کی وہ زنجیر ٹوٹ پھوٹ گئی جِس نے خطاکاروں اور اُن کا مشقِ ستم بنے ہوئے لوگوں کو اپنا اسیر بنا رکھا تھا۔ قصّہ مختصر، حضرت یسوع مسیح کے دوبارہ زِندہ ہونے کے عمل کے ذریعے خُدا نے نفرت پر محبت کو شاندار فتح ودیعت کر دی۔ 

خُداوند حضرت یسوع مسیح نِجات دہندہ ہے، مکتی داتا ہے، اُس کا دوبارہ جی اُٹھنا ہی اُس کی طاقت ہے جو اُس کی مثالی موت و حیات پر مبنی ہے اور یہی وہ طاقت ہے جو گناہوں اور موت کے جنجال سے آزاد کرتی ہے اور یوں تمام لوگ خُدا کے بیٹے کی زِندگی میں جگہ پا کے صحیح پیروکار بن جاتے ہیں۔ 

کلامِ مُقدّس کے عین مطابق ہم بھی کہہ اُٹھتے ہیں کہ خداوندحضرت یسوع مسیح نے فقط ہمارے گناہوں کا کفارہ ادا کرنے کے لیے ہی جان نہِیں دی بل کہ اُس نے ظلم سہے اور قربانی دی ہماری کج فہمیوں کے لیے، خُود غرضیوں کے سبب اور نفرتوں کی وجہ سے جو ہم سب اِنسانوں میں رَس بَس چُکیں اور ہمارا اوڑھنا بِچھونا بن گئی ہیں۔ ہم گنہگاروں کو بچانے کے لیے حضرت یسوع مسیح نے مصلوب ہونا قبول کیا تاکہ ہماری نِجات کا سامان ہو جائے، دُنیا اور آخرت کے لیے بھلائی کی راہیں سُلجھا دِیں اور سکت اور سلیقہ بھی عطا فرما دیا کہ جِس کی مدد سے ہم اس نِجات کے مستحق ٹھہریں۔ 

2:3 حیات ومماتِ حضرت یسوع مسیح اور مسیحیوں کا اِبتدائی تصوُّر 

خُداوند حضرت یسوع مسیح پر اِیمان لانے والے خواتین و حضرات اُن کے دوبارہ جی اُٹھنے کے رازِ قدرت پر ہکّا بکّا رہ گئے۔ اب جب کہ وہ اپنے نبی کی صریح ناکامی ونامرادی کے پورے طور قائل ہو چکے تھے اُنھیں ایک دوسرے ہی تجربے نے اپنی لپیٹ میں لے لیا، وہ کیا ہے کہ اُن پر منکشف ہُوا کہ مُردوں میں سے زِندہ اُٹھائے گئے حضرت یسوع مسیح کا اب روح القدس کی صورت میں ظہور ہُوا ہے۔ اب تو شاگردوں نے دعوے سے کہا کہ حضرت یسوع مسیح ہمارے خُداوند اور نِجات دہندہ ہیں۔ مگر یہ مطالبہ کرنے میں بھی وہ حق بجانب تھے اور یہ ایک قدرتی امر بھی تھا کہ وہ حضرت یسوع مسیح کی سرِعام اہانت آمیز موت کے بارے میں تفصیل کی کُرید کرتے۔ چناںچہ اِس سلسلہ میں مُقدّس بائبل اُن کی معاونت ورہنمائی کے لیے سامنے آئی۔ مثلاً عظیم گواہی کی کہانی یا قصّہ شہید کہ جِس نے اپنی بے لوث، بے شرط اور بے انتہا عقیدت کے بل بوتے پر خُدا باپ کے سونپے ہوئے مِشن سے اتھاہ وفاداری کی، اپنی جان دے کر تصدیق کی تھی

کوئی اُسے مجھ سے چھینتا نہِیں بل کہ مَیں اُسے آپ ہی دیتا ہُوں۔ اور مجھے اُس کے دینے کا بھی اِختیار ہے۔ اور اُسے پھر لے لینے کا بھی اِختیار ہے۔ یہ حُکم مَیں نے اپنے باپ سے پایا۔ 

(یوحنّا 18:10) 

تب پِیلاطس نے اُس سے کہا، کیا تُو بادشاہ ہے؟ حضرت یسوع مسیح نے جواب دِیا، تُو خُود کہتا ہے کہ مَیں بادشاہ ہُوں۔ مَیں اِس لیے پیدا ہُوا اور اِس واسطے دُنیا میں آیا ہُوں کہ حق کی گواہی دُوں۔ جو کوئی حق کا ہے وہ میری آواز سُنتا ہے۔ 

(یوحنّا 37:18) 

کوئی اُسے مجھ سے چھینتا نہِیں بل کہ مَیں اُسے آپ ہی دیتا ہُوں۔ اور مجھے اُس کے دینے کا بھی اِختیار ہے۔ اور اُسے پھر لے لینے کا بھی اِختیار ہے۔ یہ حُکم مَیں نے اپنے باپ سے پایا۔ 

(یوحنّا 18:10)

تب پِیلاطس نے اُس سے کہا، کیا تُو بادشاہ ہے؟ حضرت یسوع مسیح نے جواب دِیا، تُو خُود کہتا ہے کہ مَیں بادشاہ ہُوں۔ مَیں اِس لیے پیدا ہُوا اور اِس واسطے دُنیا میں آیا ہُوں کہ حق کی گواہی دُوں۔ جو کوئی حق کا ہے وہ میری آواز سُنتا ہے۔ 

(یوحنّا 37:18) 

اور حضرت یسوع مسیح کی طرف سے جو سچّا گواہ ہے اور مردوں میں سے پہلوٹھا اور شاہانِ عالم کا سردار ہے، اُسی کو جو ہم سے محبت رکھتا ہے اور جس نے اپنے خُون کے ذریعے سے ہمیں ہمارے گُناہوں سے چھُڑایا۔ 

(مکاشفہ 5:1)

یہ لاذقیہ میں کلیسا کے فرشتہ کو لکھو: 

 اور لاذِقّیہ کی کلیسیا کے فرشتے کو یہ لِکھ کہ جو امِین اور سچّا اور حقیقی گواہ ہے اور خُدا کی خلقت کی اِبتدا ہے۔ 

(مکاشفہ 14:3)

اپنی اُمّت کے گناہوں کے سلسلے میں جان دینے اور دُکھ اُٹھانے والے خُدا کے خادم کا تخیل جِس نے تمام دُکھ، عذاب، مصیبتیں اپنی جان پر لے لیں اور اپنے لوگوں کو بچا لیا: 

مالک خُداوند ہی نے میرا کان کھولا ہے۔ تو مَیں سرکش نہ ہُوا اور پیچھے کو نہ لوٹا۔ مَیں نے اپنی پیٹھ مارنے والوں کو اور اپنی گالیں نوچنے والوں کو دے دیں۔ مَیں نے توہین اور تھُوک سے اپنا مُنہ نہِیں چِھپایا۔ لیکن مالک خُداوند میرا مددگار ہے۔ اِسی لیے مَیں شرمندہ نہ ہُوں گا۔ اِسی لیے مَیں نے اپنا چہرہ چقماق کی طرح کِیا۔ اور یہ جانا کہ مَیں رُسوا نہ ہُوں گا۔ میرا وَلی قریب ہے۔ تو کون مُجھ سے جھگڑے گا؟ آﺅ، ہم اِکٹھے کھڑے ہوں، کون مُجھ پر دعویٰ کرتا ہے؟ وہ میرے پاس سامنے آئے۔ 

(اشعیا 5:50 - 8)

جو ہم نے سُنا اُس کا کِس نے یقین کِیا ہے؟ اور خُداوند کا بازُو کِس پر ظاہر ہُوا ہے؟ وہ اُس کے آگے کونپل کی طرح پھُوٹ نِکلا، خُشک زمین سے جڑ کے مانند۔ اُس کی کُچھ صُورت نہِیں، کُچھ حشمت نہِیں کہ ہم اُس کا لحاظ کریں۔ اُس کی کُچھ شکل نہِیں کہ ہم اُس کے مُشتاق ہوں۔ حقیر اور آدمیوں سے متروک۔ مَردِ غم ناک اور بیماریوں کا آشنا۔ ایسے شخص کے مانند جس سے لوگ مُنہ موڑتے ہیں۔ وہ حقیر تھا اور ہم نے اُس کی کچھ قدر نہ کی۔ 

یقینا اُس نے ہماری ہی بیماریاں اُٹھائیں۔ ہمارے ہی غم اُس پر لدے ہوئے تھے۔ حال آںکہ ہم اُسے مبروص سمجھے۔ اور خُدا کی طرف سے مارا ہُوا اور ذلیل۔ تو بھی وہ ہماری ہی خطاﺅں کے سبب سے زخمی ہُوا۔ اور ہماری ہی بدیوں کی خاطر کچلا گیا۔ ہماری سلامتی کی تادِیب اُس پر تھی۔ اور اُسی کے کوڑے کھانے سے ہم نے شِفا پائی۔ ہم سب بھیڑوں کے مانند بھٹک گئے۔ ہم میں سے ہر ایک اپنی راہ کو پھرا۔ پر خُداوند نے ہم سب کی بدی اُس پر لادی اُس پر ظُلم کِیا گیا، پر وہ فروتن رہا۔ اور اُس نے اپنا مُنہ کھولا۔ وہ ذبح ہونے والی بھیڑ کے مانند اور برّہ کے مانند بال کترنے والوں کے سامنے خاموش رہا اور اپنا مُنہ نہ کھولا۔ 

گِرفتار کرنے اور فتویٰ دینے کے بعد وہ اُسے لے گئے۔ اُس کا انجام کون بیان کرے گا؟ وہ ارضِ زِندگان سے کاٹا گیا۔ اور اپنی اُمّت کی سرکشی کے سبب قتل کِیا گیا۔ اور اُنھوں نے شریروں کے ساتھ اُسے دفنایا۔ اور دولت مند کے ساتھ اُسے قبر میں رکھا۔ اگرچہ اُس نے کبھی ظُلم نہ کِیا۔ اور اُس کے مُنہ میں فریب نہ پایا گیا۔ تو کبھی خُداوند کو پسند آیا کہ اُسے بیماریوں سے کُچلے۔ یقینا اُس نے اپنے آپ کو خطا کا ذبیحہ کِیا۔ وہ ایسی نسل دیکھے گا جس کے ایّام دراز ہوں گے اور خُداوند کا اِرادہ اُس کے ہاتھ سے کامیاب ہو گا۔ وہ اپنی جان کے دُکھ کے بعد نُور دیکھے گا۔ وہ اپنے عِرفان سے آسُودہ ہو گا۔ میرا صادِق خادم بہتیروں کو صادِق ٹھہرائے گا۔ اور وہ اُن کی بدیوں کو اُٹھا لے گا۔ اِس لیے مَیں بہتیروں کو اُس کا حصّہ کر دُوں گا۔ اور بے شُمار لوگ اُس کی غنیمت ہوں گے۔ کیوںکہ اُس نے اپنی جان موت کے حوالے کر دی۔ اور وہ بدکِرداروں کے ساتھ شُمار کِیا گیا۔ پس اُس نے بہتیروں کے گُناہ اُٹھا لیے اور وہ بَدکِرداروں کا شفیع ہے۔ 

(اشعیا 1:53 - 12)

نجات دینے والے کا تخیل یعنی خود خُدا جو بندوں کو مُعاف کر دیتا ہے، جِس نے مصر میں اپنے بندوں کی غلامی سے گلوخلاصی کرائی، اپنے بندوں کو فدیہ وتاوان ادا کر کے بچا لیا: 

اِس لیے تُو بنی اِسرائیل سے کہہ کہ مَیں خُداوند ہُوں۔ مَیں تمھیں مصریوں کے بوجھ کے نیچے سے چھُڑاﺅں گا اور مَیں تمھیں اُن کی غلامی سے آزادی بخشُوں گا اور مَیں اپنے پھیلائے ہوئے بازُو اور عظیم قضاﺅں سے تمھیں رہائی دُوں گا۔ اور مَیں تمھیں اپنی قوم بناﺅں گا۔ اور مَیں تمھارا خُدا ہُوں گا۔ اور تم جانو گے کہ مَیں خُداوند تمھارا خُدا ہُوں۔ جو مصریوں کے بوجھوں کے نیچے سے تمھارا نکالنے والا ہُوں۔ اور مَیں تمھیں اُس سرزمین میں داخل کروں گا۔ جس کی بابت مَیں نے ہاتھ اُٹھا کے قسم کھائی کہ اُسے ابراہیم اور اسحاق اور یعقوب کو دُوں گا اور مَیں اُسے تمھاری میراث کر دُوں گا۔ 

(خروج 6:6 - 8)

اور تیری قوم اسرائیل کے مانند کون سی اُمّت ہے۔ زمین میں یگانہ اُمّت جسے اپنی قوم بنانے کے لیے خُداوند آپ گیا۔ کہ اپنے لیے نام حاصل کرے۔ اور اُس کے لیے عظیم کام اور زمین پر ہولناک معجزے اپنی قوم کے آگے کرے۔ جنھیں تُو نے اپنے لیے مصر سے باہر لا کر قوموں سے اور اُن کے معبودوں سے رہائی بخشی۔ 

(2سموئیل 23:7)

اُس عہد کے مانند نہِیں جو مَیں نے اُن کے باپ دادا سے اُس روز باندھا تھا جب مَیں نے اُن کا ہاتھ پکڑا تھا تاکہ اُنھیں مُلکِ مصر سے نِکال لاﺅں جس عہد کو اُنھوں نے توڑا۔ حال آںکہ مَیں اُن کا خاوند تھا۔ (یُوں خُداوند کا فرمان ہے)۔ 

(ارمیا 32:31)

بائبل مُقدّس کی ہی ایک تھیم یعنی موضوع جو ہر طرح سے مکمل اور بہترین قربانی کے زمرے میں آتا ہے۔ پُرانے وقتوں میں تو جانوروں کی قربانی پیش کی جاتی تھی مگر کیا بات ہے اُس عظیم قربانی کی جِس میں سیدھے سیدھے اپنی ہی جانِ عزیز کا نذرانہ پیش کر دیا جائے: 

جو سردار کاہنوں کی طرح اِس کا مُحتاج نہ ہو کہ ہر روز پہلے اپنے اور پھر قوم کے گُناہوں کے لیے ذبیحے چڑھائے۔ کیوںکہ اُس نے ایک بار قطعی طور پر یہی کِیا جب اُس نے اپنے آپ کو چڑھایا۔ 

(عبرانیوں 27:7)

اور بکروں اور بچھڑوں کا خُون لے کر نہِیں، بل کہ اپنا ہی خُون لے کر مُقدّس میں ایک بار قطعی طور پر داخل ہُوا۔ اور اَبدی مخلصی حاصل کی۔ 

(عبرانیوں 12:9)

(ورنہ بناے عالم سے لے کر اُسے بار بار دُکھ اُٹھانا ہوتا) بل کہ اَب زمانوں کے اِختتام پر ایک ہی باہر ظاہر ہُوا تاکہ اپنے آپ کو قربان کرنے سے گُناہ کو نیست کر دے۔ 

(عبرانیوں 26:9) 

اُسی طرح مسیح بھی ایک ہی بار بہتیروں کے گُناہ اُٹھانے کے لیے قربان ہو کر دوسری بار بغیر گُناہ کے اُنھیں دِکھائی دے گا جو نجات کے لیے اُس کی راہ دیکھتے ہیں۔ 

(عبرانیوں 28:9)

اُسی مرضی کے سبب سے ہم حضرت یسوع مسیح کے بدن کے ایک ہی بار قطعی طور پر قربان ہونے کے وسیلے سے پاک کیے گئے ہیں۔ 

(عبرانیوں 10:10) 

لیکن یہ گُناہوں کے لیے ایک ہی قربانی چڑھا کر ہمیشہ کے لیے ”خُدا کی داہنی طرف بیٹھا ہے“ اور منتظر ہے کہ ”اُس کے دُشمن اُس کے پاﺅں کی چوکی کر دیے جائیں۔ کیوںکہ اُس نے ایک ہی قربانی چڑھانے سے اُنھیں جو مُقدّس کیے جاتے ہیں ہمیشہ کے لیے کامِل کر دِیا ہے۔ 

(عبرانیوں 12:10 - 14)

کیوںکہ اُس کا مرنا قطعاً گُناہ کی نسبت مرنا تھا۔ مگر اُس کا جینا خُدا کی نسبت جینا ہے۔ 

(رومیوں 10:6)

اِس لیے مسیح بھی ایک بار گُناہوں کے واسطے مَر گیا یعنی راست باز ناراستوں کے لیے تاکہ تمھیں خُدا کے پاس پہنچائے۔ وہ جسم میں تو مارا گیا لیکن رُوح میں زِندہ کِیا گیا۔ 

(1پطرس18:3) 

شروع سے ہی مسیحیوں کی کوشش رہی کہ حضرت یسوع مسیح کی موت کو اُن کے دوبارہ جی اُٹھنے کی روشنی میں قابلِ فہم بنا دیں، چناںچہ نئے عہد نامہ کی مختلف مُقدّس تحریروں میں اُن کی وضاحتیں سرایت کر گئیں۔ غوروفکر کے اِس ٹھوس طریقہ کے طفیل ذخیرہ الفاظ کی مسیحی روایت نے نشوونما پائی۔ عبرانی سے یونانی زُبان میں، لاطینی میں اور دوسری بے شمار زُبانوں تک بھی دسترس عام ہوئی۔ مزید برآں یہ کہ ان ممالک کی ثقافت بھی مسیحی کلچر میں روشناس ہوئی اور تبادلہءالفاظ بھی جیسے شہادت یعنی امر ہونا، نِجات یعنی مکتی، جان کا فدیہ دینا، رہائی، کفارہ، قربانی، تلافی اور ادلا بدلا، وغیرہ۔ 

قربانی کے وسیلے سے نجات کی الٰہیات 2.4

ذخیرہ_¿ الفاظ کی اِس بُنیاد پر اور کِسی حد تک بائبل مقدّس کی اساس سے اُسے دور رَکھتے ہوئے علمِ دینِ الٰہی میں جو گناہوں سے چھُٹکارے کا تصور موجود ہے اُسے ایک نئے زاویے سے دیکھنے کی کوشش کی گئی یعنی اُسے اُس زمانے کے ثقافتی پس منظر میں سمجھنے کی سبیل کی گئی اور خاص توجُّہ جِس امر پر دی گئی وہ تھا لاطینی غرب میں مقبول ومحبوب اُن کا عدالتی نِظام۔ 

ثقافتی پہلو سے مسئلے تک رسائی نے مختلف نظریات کو جنم دیا جِن کی تفصیل کُچھ یوں ہے 

 (سرزنش تھیوری (لاطینی آباے کلیسا، مُقدّس اگسٹین 354ع۔ 430ع

(i

گناہ پر سزا درکار ہے، جرمِ گناہ کے برابر۔ حضرت یسوع نے سزا اپنی جان پر لے لی۔ ہماری مکتی کے لیے، وہ فدیہ ادا کر دیا جِس کی وجہ سے عدالتِ الٰہی سے ہمیں رہائی مِل گئی۔ بعض آباے کلیسا تو یہاں تک بھی کہتے سُنے گئے ہیں کہ حضرت یسوع مسیح نے یہ قَرض یہ فدیہ شیطان کو دے کے چُکتا کِیا جِس نے نسلِ انسانی کو اپنے چنگل میں جکڑ رکھا تھا۔ 

(انسیلم آف کنٹربری 1033ع - 1109ع : C220-C160بدلے میں معاوضہ یا گناہ کے کفارہ کی دینی تھیوری طرطولیں 

(ii 

گناہ کیا ہے؟ .... گناہ خُدا کی حُکم عدولی کا جُرم ہے۔ چوںکہ خُدا لافانی ہے اُس کی عدول حُکمی بھی لافانی یعنی اَبدی تلافی کی متقاضی ہے۔ ظاہر ہے، فانی اِنسان تو اَبدی تلافی نہِیں کر سکتا۔ محبت میں خُدا نے ایک درمیانی راستہ سے مستفید فرمایا اور اپنے بیٹے کو اِنسانوں، فانی اِنسانوں کے لیے لافانی نعم البدل کو پیش کر دیا۔ وہی عدلِ ربّانی کو اپنی جان کے کفارہ سے مطمئن کر سکتا تھا، صرف وہی۔ 

(iii

آٹھویں اور پندرھویں صدی عیسوی کے درمیانی عہد کے دینی علماءاور اُن میں سے بھی خاص طور پر مُقدّس تھامس اکوائینس (1225ع۔ 1274ع) نے وہ تمام ابہام دور کر دیے جو حتمی نِجات کے سلسلہ میں عام تھے اور اس طرف غور نہِیں کِیا جاتا تھا کہ اِنسانوں سے اُنس ومحبت میں یہ تو بخششِ عام کے بہانے تھے جو پورے ہوئے۔ خُدا کو خطائیں معاف کرنے کے لیے بہانوں کی بھی بھلا کیا محتاجی، وہ تو سیدھے سیدھے بِلا کِسی واسطے اور وسیلے کے بھی بخش سکتا ہے۔ مگر اِتنی آسانی سے گناہوں کی مُعافی ہو جانا، گناہوں کو بھی چھوٹا کر دینے اور اِنسان کو بھی چھوٹا کر دینے والی بات ہو جاتی۔ اِتنی سہل بخشش تو عام سی بات قرار پاتی۔ نسلِ انسانی کی وقعت گھٹ جاتی، اُس نسل کی جس کا وہ خُود خالق و مالک تھا اور اُس نے وہ مخلوق تو بنائی ہی اپنی شبیہ پہ تھی اور اپنی اِس عکسی خلقت کو زمین پر اپنا نائب مقرر فرمایا تھا، خلیفہ بنایا تھا۔ اِس لیے خُدا کی مرضی رہی کہ اُس کے حافظ وناصر ہونے اور اُس کے بخشنہار ہونے کی صفات میں اِنسان کو بھی جزوی شرکتِ عمل ہے اور حضرت یسوع مسیح کو یہ خُدائی صفات عطا تھیں کیوںکہ وہ مکمل وکامل اِنسان تھے اور پھر اِنھی اوصاف سے، حضرت یسوع مسیح کے وسیلے و واسطے سے، اِنسانوں کو بھی نوازا گیا۔ کرمِ خُداوندی سے وہ ایک طرح مافوق الفطرت انداز میں اوپر اُٹھا لیے گئے تھے مگر حیاتِ حضرت یسوع مسیح کا اِنسانوں نے حصہ بننا تھا، چناںچہ تمام اِنسان اِس قابل بنا دیے گئے کہ اپنی انجامِ کار نجات کے ضمن میں تعاون کرتے ہوئے اپنے آپ کو اس نِجات کا مستحق ثابت کریں۔ زِندگی بھر، مرتے دم بھی خُدا کے اطاعت شعار اور عبادت گزار بندے بن کر دِکھائیں۔ عین منشاے خُدا کے تحت کہ جِس طرح اپنی دِلی رضا ورغبت سے حضرت یسوع مسیح نے اپنا جینا اور مرنا خُدا آسمانی باپ کے سپرد کر دیا۔ 

اپنے ضمیر کے تتبع میں حضرت یسوع مسیح کے طرزِ حیات کو نمونہ بنا کر مسیحی لوگ زِندگی گزاریں گے تو وہ زِندگی آئینہ ہو گی اِیمان کا، پچھتاوے اور توبہ کا اور کامل اطاعت وتابع فرمانی کا۔ 

مسیحی عُلُومِ دین کے مطالعہ سے ہم اُن کاوشوں سے متعارف ہوتے ہیں جِن سے ہمیں اہمیّت میں وزن دار نوع کے طریقِ رہائی.... گناہ اور گناہ کی سزا سے رہائی.... یعنی جزا وسزا کی تھیوری کا اِبلاغ حاصل ہوتا ہے اور یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ کیسے گناہوں سے بھری اِنسانیت کے گناہ حضرت یسوع مسیح نے اپنے سَر لیتے ہوئے اس کے مآل سے سمجھوتا کر لیا۔ یعنی ہمارے بدلے میں اپنی جان عذاب میں ڈال لی۔ اسی طرح اس استحقاق کا بھی ہمیں ادراک ہوتا ہے جو وجہ بنتا ہے ہماری اپنی مکتی کے لیے ہماری اپنی کوششوں اور اعمال کا۔ ہم پر وہ بھید بھی کھُلتا ہے، اُس عظیم قربانی کا بھید جو رضاکارانہ طور پر خُداوند حضرت یسوع مسیح نے صبر وشکر کے ساتھ پیش کر دی۔ 

ان نظریات کے عدالتی پہلوﺅں سے ہم قطع نظر کر سکتے ہیں لیکن یہ ہرگز ہرگز نہِیں کر سکتے کہ صلیب پر واضح ہونے والی خُداوند حضرت یسوع کی موت کو اُس کی زِندگی سے جُدا کر دیں، نہ اُس کی زِندگی سے اور نہ اُس کے جی اُٹھنے سے 

4مسیحی ردّ ِ عمل 

موروثی گناہ نہ تو ذاتی گناہ ہوتا ہے نہ شخصی تقصیر جو آدم سے وراثتاً ہم میں منتقل ہُوا ہو۔ یہ تو اس ماحول کی پیداوار ہے جِس میں ہم سانس لیتے ہیں، پلتے ہیں اور اس پاپ کی نگری کا مجموعی طور ہم حصّہ بن جاتے ہیں جسے دُنیا کہتے ہیں۔ ورنہ تو گُناہ کیا ہے؟ یہ ایک ذاتی فعل ہے، شخصی عمل ہے جِس کا ہر وہ شخص جو گناہگار ہے خُود ذمہ دار اور خُود جوابدہ ہے۔ ہم میں جو بُرائی کی طرف کھنچے چلے جانے کا ایک رجحان ہوتا ہے نہ تو ہم اُس کو ہی نظرانداز کر پاتے ہیں نہ ان بُرے اثرات سے پیچھا چھڑانے کے مُوڈ میں ہوتے ہیں جو بار بار ترغیب وتحریص دے رہے ہوتے ہیں کہ بڑھ کے بُرائی کو ہم گلے کا ہار بنا لیں۔ گناہوں نے دراصل اپنے اِردگِرد خوبصورت اور مضبوط فصیلیں ُچنوا رکھی ہیں جِن کے حصار میں بدی کی سطوت وطاقت اس دُنیا میں بُلند ہو گئی ہے۔ 

صلیب پر خُداوند حضرت یسوع کی موت ایک تاریخی حقیقت ہے جِس سے مفر کی تو گنجایش ہی نہِیں، مَیں البتہ اقرار کرتا ہُوں کہ مَیں نے وہ نقطہ پا لیا ہے جِس کے پیشِ نظر قرآن مجیداس حقیقت کا بطلان کرتا ہے۔ مجھے سمجھ آتی ہے بات پروردگارِ عالم کی اپنے محبوب بندوں بل کہ تمام اِنسانوں پر شفقت ومحبت، فیاضی ومہربانی، رزّاقی اور پدرانہ شفقت پر کوئی حرف نہ آنے دینے کے لیے قرآن شریف خُداوند حضرت یسوع کے مصلوب کر دیے جانے کے عمل سے اِنکاری ہے۔ ضروری محسوس ہوتا ہے کہ بات کی وضاحت کر دی جائے کہ مسیحیوں کا بھی اِیمان ہے کہ خُدا نے حضرت یسوع کو صلیب پر تنہا نہِیں چھوڑ دیا تھا، اُس سے مُنہ نہِیں موڑ لیا تھا، نہ ہی اُسے مرتا چھوڑ کے اپنے آپ کو پیچھے کھینچ لیا تھا۔ اُسے تو خُدا نے مُردوں میں سے زِندہ کِیا اور اُس نے حضرت یسوع کی موت کو عظیم موت، شان وشوکت اور جلال والی موت بنا دیا۔ 

ہاں، ایک بات اور۔ اور وہ یہ کہ یہ کوئی ایسی صورتِ حال بھی نہِیں کہ خُدا نے حضرت یسوع کو موت کے مُنہ میں جھونک دیا جیسے یہ کسی ڈرامے کا ہی کوئی ایکٹ ہو جو سکرپٹ میں پہلے سے ہی موجود تھا اور جب ڈرامے کا یہ کلائمیکس سین آیا تو تمام فنکاروں نے اپنا اپنا کردار بعینہ ادا کرنا شروع کر دیا جیسے وہ کوئی کٹھ پتلیاں ہوں جِن کے تار خداے عظیم نے جیسے ہلائے ویسے ہی وہ ہلنے لگیں۔ نہِیں، یہ ڈراما نہِیں تھا۔ حقیقی زِندگی میں انسانوں نے خُداوند حضرت یسوع کو موت کی سزا سنائی تھی کیوںکہ اس کے طور واطوار اُس زمانے کے قوانین اور خُدا کے خلاف سمجھے گئے۔ چناںچہ خُداوند حضرت یسوع بُرائی کی طاقتوں کا شکار بنا دیا گیا۔ اُنھی طاقتوں کا جو آج بھی اُتنی ہی طاقتور ہیں اور دُنیا بدل کے رَکھ سکتی ہیں.... وہ ہیں نفرت، ناانصافی، حسد وکینہ، اپنے مفادات پر سب کُچھ قربان کر دینا یعنی خُودغرضی، وغیرہ۔

دُنیا بھر کے مسیحیوں کی دوسری ویٹی کن مجلسِ عامہ (1965ع۔ 1962ع) نے پُرزور الفاظ میں قرار دیا کہ وہ تمام اِنسانوں کے گناہ ہی تھے جو حضرت یسوع مسیح کی موت کا سبب بنے۔ ویٹی کن کونسل نے حضرت یسوع کی نبوّت سے اِنکار کرنے اور پھِر قتل کر دینے کی ذمہ داری حضرت یسوع کے زمانے کے یہودیوں کی موجودہ نسل پر ڈالنے سے صاف اِنکار کر دیا، بل کہ ماضی وحال کے تمام یہودیوں کو اِس جرمِ قبیح سے برّی قرار دے دیا۔ 

جان کے فدیہ سے رہائی کا عمل کوئی خُداوندِ منتقم کے اِنتقام کی آگ بُجھانے کے لیے نہِیں تھا کہ اپنی داو پر لگی عظمت وتقدیس بچانے کے لیے خطاکار اِنسانوں کو بخشنے کے کفارہ میں کِسی معصوم جان کی قربانی طلب کر لی جائے۔ بخشش ومکتی تو اِظہار اور کشف ہے اس قوت، ہیبت اور قدرت کا جو خاصا ہے عفو ودرگذر سے نوازنے والے، اپنے بندوں سے اِنتہائی گہری محبت رَکھنے والے خُداوندِ مہربان کا جِس کا مظہر حضرت یسوع کی زِندگی ہے، موت ہے اور اُس کا دوبارہ جی اُٹھنا ہے۔ یہ خُداوند حضرت یسوع مسیح ہی کی ہستی ہے جِس نے اِنسانوں کے لیے اپنی عمیق محبت کے طفیل اُن کی مکتی کی خاطر اپنی جان وار دی۔ یُوں اُس نے اِنسانیت کو ایک عظیم تحفہ عطا کِیا.... خُدا کے رفیق ہونے کا تحفہ اور اُنھیں اِس قابل بنا دیا کہ ایسی زِندگی بسر کر سکیں جسے تقویت مِلے محبت سے اور صِرف محبت سے۔ 


Contact us

J. Prof. Dr. T. Specker,
Prof. Dr. Christian W. Troll,

Kolleg Sankt Georgen
Offenbacher Landstr. 224
D-60599 Frankfurt
Mail: fragen[ät]antwortenanmuslime.com

More about the authors?