German
English
Turkish
French
Italian
Spanish
Russian
Indonesian
Urdu
Arabic
Persian

اخلاقیات و عمرانیات کی تعلیم

شائستگیِ کردار

مسیحی مثالی تصوُّر

بلند کِرداری کے ضمن میںمسیحی کلیسیا میں عالمِ انسانی کے لیے قانون سازی کا ایسا کوئی مربوط نظام موجود نہیں، حال آں کہ مسیحی تاریخ میں ایسے بھی شواہد موجود ہیں کہ بعض اوقات لوگوں نے جماعتی سطح پر کِردار کی شائستگی کو ضابطوں کے دائرئہ کار میں لانے کی مقدور بھر کوشِش بھی کر دیکھی مگر کلیسیا نے مِن جُملہ طورپر باقاعدہ قانون سازی کی ایسی کِسی مُہِم کو سرے سے ناقابلِ قبول قرار دے دیا۔ وجہ؟ سادہ سی ہے۔ مسیحی شریعت کے علاوہ مسیحیوں کے طور اطوار، نیک کِرداری، سُلُوک، راہ روش کو کِسی قانون یا حد کے اندرباقاعدہ پابند کر دیا جائے، یہ اُنھیں منظور نہیں۔ اپنا مجموعی طرزِ عمل وہ اپنے دِین کے عین مُطابِق ڈھالے رکھنا چاہتے ہیں، وہ کِسی اور قانونی نظام پر تکیہ نہیں کر سکتے اور اس کی تین واضح دلیلیں ہیں:

1)مسیحاے انسانیت خُداوند پاک یسوع المسیح نے ہمیں ہدایت دی، یہ ہدایت ہی شریعتِ مسیحی کا بڑا حُکم ہے کہ:

''۔۔۔۔۔۔ تو خُداوند اپنے خُدا کو اپنے سارے دِل اور اپنی ساری جان اور اپنی ساری عقل سے پیا رکر۔ بڑا اور پہلا حُکم یہی ہے۔ اور دُوسرا جو اس کے مانند ہے، یہ ہے کہ تُو اپنے ہمساےے کو اپنے مانند پیار کر۔انھی دوحُکموں پر تمام تورات اور صحائفِ انبیا کا مدار ہے''۔

مقدّس متی:37:22تا 40

مسیحی اخلاقی عقائد میں مَحَبّت کو کلیدی حیثیّت حاصل ہے بے لوث، سچّی، کھری مَحَبّت وہی ہے جو دِل کی گہرائیوں سے ہمساےے کے ساتھ کی جائے۔ دِل کی ہر دھڑکن کے ساتھ اس کا تعلُّق ہے۔ اسے محدُود کر کے قوانین کا پابند نہیں کِیا جا سکتا۔ یہ اہم، معنی خیز باطنی رویّہ ہی تو ہوتا ہے۔ مسیحی کِردار کا یہی اساسی اُصُول ہے اور ہمہ انسانیت سے پیار بھی اسی سے پھُوٹتا ہے۔

2)اپنے آپ میں پارسائی اور ایمانداری کی صفات ہمیشہ تازہ، زندہ و جاری رکھنے کے لیے ہمیں آفاقی رہنمائی اور مدد حاصل ہے رُوحُ القُدُس سے، جو ہمارے اندر ہر دم موجُود ہے۔ مصلُوب ہونے سے پہلے خُداوند یسُّوع مسیح نے وعدہ کِیا تھا کہ جب عرشِ بریں پر اُس کی پذیرائی ہو چُکی ہو گی، خُدا رُوح القُدُس کو بھیج دے گا۔۔۔۔۔۔ صداقتوں کی طرف، اٹل سچّائیوں کی طرف تمھاری راہبری کرے گا۔ مقدّس یوحنّا،باب16، آیت 13میں یوں آیا ہے:

''لیکن جب وہ یعنی رُوحُ الحق آئے گا تووہ ساری سچّائی کے لیے تمھاری ہدایت کرے گا۔ کیوں کہ وہ اپنی طرف سے نہ کہے گا۔ لیکن جو کُچھ سُنے گا وہی کہے گا اور تمھیں آیندہ کی خبر دے گا''۔

خُداوند یسُّوع پاک نے یہ بھی عدہ کِیا کہ:

''اور جب وہ آئے گا تو دُنیا کو گُناہ اور صداقت اور عدالت کے بارے میں تقصیروار ٹھہرائے گا''۔

مقدّس یوحنّا8:16ویں آیت

یعنی گُناہ کا اِحساس دِلائے گا، پارسائی پر قائل کرے گا اور حسابِ عام (انصاف) سے مُتَنَبّہ کرے گا۔ مسیحی مومن اور کلیسیا کے اِدراکی تجربہ میں ہے کہ رُوحُ القُدُس میں ذاتِ خُداوندی خُود موجُود ہے۔ ایماندار مسیحی اور کلیسیا کو پاک رُوح صدق، سچّائی اور نیکو کاری و ایمانداری کی راہوں سے بھٹکنے نہیں دیتا۔ ہستیِ خُداوند سے ذاتِ بشری کی یُوں مُلاقات، اُس ذاتِ باری سے یُوں قُربِ خاص کہ وہ مقدّس ذاتِ خُداوندی تمام تر راست باز ہے، صادِق ہے، عادِل ہے، رَسمی اخلاقی ضابطوں میں اُس کے احکام کو کیوں کر پابند کِیا جا سکتا ہے۔ اُ س کی رُوحانی رُوبرُوئی، رُوحانی مُلاقات سے پُر فیض ہونے کے تو قاعدے ہی کُچھ اور ہیں، اس لیے ان کی تقلیل ہرگز ممکن نہیں۔ مسیحی صداقت کا تو سرچشمہ ہی خُداوندِ قُدُّوس سے رفاقت و قرابت سے مُشتَق ہے۔اس کے بارے میں قوانین نہیں ترتیب دیے جا سکتے۔ یہ بڑی اندرونی بات ہے، ذاتی، خاص الخاص۔

3)مسیحیوں کی زندگی میں رُوح القُدُس کا عمل دخل ہے اور ان میں وہ اپنی موجُودگی سے نئی رُوح پھُونک دیتا ہے کیوں کہ اُن کے ذِہنوں میں ایک ہیولاتی تصوُّرِ خُدا اُجاگر توتھا مگر بندے نے خُدا سے مُنہ موڑ کر، دُوری اختیار کرتے ہوئے، اُسے پراگندہ کر دیا تھا، گڑبڑا دیا تھا۔ بندے میں تجدیدِ حق و صداقت و نیک کِرداری والی صُورت موجُود رہنی چاہیے، اِسی سے ربِّ اکبر خُوش ہوتا ہے۔ قوانین کی بے چون و چرا، غُلامانہ تعمیل و اطاعت انسان کی صلاحیتوں، اس کی صفات کو کبھی صیقل نہیں ہونے دیتی۔ اس کی زندگی، مرمّت شدہ احسن اخلاق، حُسنِ سُلُوک اور شائستہ کِرداری والا چولا، اگر غُلامانہ ذِہنیت سے اُس نے جان نہ چھُڑائی تو کبھی نہ بدل سکے گی اور اُسی بد نُما، تار تار، پُرانے چولے کو پہنے پہنے ہی اس کی حیات کی ڈوری ایک دِن کٹ جائے گی۔ اُوپر اُوپر سے، باہر باہر سے بے شک وہ راست باز شخصیّت ظاہر کرتا پھرتا ہو لیکن اندر اندر وہ بُرے بُرے خیالات اور وسوسوں میں گھِرا رہے گا، باطن کی صفائی سے عمر بھر محروم رہے گا۔ انسان کے اندرون یعنی اس کے باطن کے بارے میں پاک خُداوند یسُّوع مسیح بے حد فکر مند، نہایت مُشوِّش رہا کیوں کہ پرہیزگاری و سچّائی ہو یا بدپرہیزی یا جھُوٹ وہ انسان کے اندر کے ہی موسم ہوتے ہیں۔ جہاں ان کی کونپلیں پھُوٹتی ہیں اور اسی خلوت میں ان کی نشوونُما ہوتی ہے۔ یہی سبب ہے کہ خُداوند یسُّوع المسیح جب انسانوں میں آکر رہا تو اُس نے اُس زمانے کے مذہبی رہنماؤں کی منافقت و ریاکاری کی اُٹھتے بیٹھتے خُوب مذمّت و ملامت کی۔ اُس نے کہا:

''تم پر افسوس! اے فقیہو اور فریسیو! اے ریاکارو! کیوں کہ تم پیالے اور رکابی کو باہر سے تو صاف کرتے ہو، مگر اندر لُوٹ اور بدپرہیزی بھری ہے۔ اے نابینا فریسی! پہلے پیالے اور رکابی کو اندر سے صاف کر تا کہ باہر سے بھی صاف ہو جائیں''۔

مقدس متی25:23اور 26

انجیلِ مقدّس میں تو جگہ جگہ شدید تاکید آئی ہے آدمی میں انقلابی تبدیلیاں لائی جانے کی، اس کی قلبِ ماہیت کی، اس حد تک کہ وُہ بندہ ہی کوئی اور نظر آنے لگے، اِسی درجہ اُس کی کایا پلٹ ہو جائے کہ اس مسیحی مومن میں خُود مقدّس یسُّوع مسیح کی ذاتِ بابرکات جھلکنے لگے، قولاً فعلاً وہ خُداوندِ پاک کے نقشِ قدم پر چلنے لگے اور اپنی ذات میں اندر سے یسُّوع پاک ہی بن جائے، لوہے کی مثال کہ خُود آگ نہیں مگر آگ میں تپے تو آگ ہی دِکھائی دینے لگا ہے۔ یہی سچّی مسیحیت ہے۔ مقدّس رسول پولوس نے رُوحُ القُدُس کے رُوحانی فیضان سے افسیوں کے نام اپنے خُطُوط میں ایک جگہ لکھا ہے:

''۔۔۔۔۔۔کہ تم کو اگلے چلن کی اُس پُرانی انسانیت کو اُتارنا چاہیے، جو گمراہ کرنے والی شہوتوں سے بگڑتی جاتی ہے۔ او راپنی عقل کی نسبت نیا بننا چاہیے۔ اور اس نئی انسانیت کو پہننا چاہیے جو خُدا کے مُطابِق حقیقی صداقت اور پاکیزگی میں پیدا ہوئی ہے''۔

افسیوں22:4تا24آیت

تجدیدِ ذات سے مُتّصِف آدمی جو اپنی دُنیاوی حیات رُوح الحق پاک سے ہدایت پا کر بسر کر رہا ہے، اُسے ایسے اُصُولوں سے تقویت درکار ہے جو اُسے وہ کسوٹی مُہیّا کرنے میں مدد کریں جس پر یہ پرکھ کر سکے کہ پاکی، پارسائی، نیکوکاری اورپرہیز گاری میں وہ کِس قدر زندگی ڈھالنے میں کامیاب ہے، اور آیا وہ اس سعی میں کامران ہے کہ منشاے خُداوندی کے قریباً مُطابِق ہی ہے وُہ عمر کہ وہ شخص جی رہا ہے۔ راست بازی کے وہ اُصُول کون کون سے ہیں جو رُوح القُدُس نے ماضی کے انبیا کرام کے ذریعے انسانوں پر آشکار کیے؟ کیا ہیں حقیقی صداقت اور پاکیزگی کے وہ اُصُول جو مسیحاے عالم خُداوندِ اقدس یسُّوع نے اپنے شاگردوں اور پیروکاروں کو سکھائے؟ اس کائناتی سچّائی کی خصوصیات اور نمایاں صفات آخر ہیں کیا کیا جو رُوح القُدُس نے حُسنِ کِردار اور محاسنِ اخلاق کے عہد و پیمان میں بندھے خُدا پرستوں پر آسان کیں؟ خیر و شر میں تمیز برتنے کی بُنیادی تعلیم و تربیت کہ جس کا ہمیں اِدراک حضرت موسیٰ نبی کے ذریعے ہوا اور مقدّس یسُّوع المسیح کی ذات پاک کے عملی نمونہ اور تعلیمات کہ جن سے اپنے دُنیاوی عرصہء حیات میں وُہ ہمیں بہرہ ور کرتا رہا اُن میں درج بالا سُوالات کے جوابات موجُود ہیں۔ چُناں چہ ایک مختصر جائزہ میں اہم نِکات سامنے لانے کی کوشِش کرتے ہیں تا کہ حقائق کھُل کر قارئین کے سامنے آجائیں۔

توریت پاک، پُرانے عہد نامہ کی پہلی پانچ کتابوں میں صحیح شعار، عُمدہ چال چلن اور بہترین اخلاق کے جا بہ جا ذِکر کے علاوہ عباداتِ الٰہی پر تعلیمات اور طور طریقوں کو حضرت موسیٰ نبی پر منکشف کِیا گیا۔ احسن کِردار اپنانے کے ان اُصُولوں کو اِجمالاً موسوی شریعت کے دس احکام میں سمو دیا گیا ہے جن کا اِظہار میثاقِ بنی اسرائیل کی پابند اُمّت کے لیے جلال والے خُدا نے کوہِ سینا پر کِیا تھا جب وہ حضرت موسیٰ نبی سے ہمکلام تھا۔۔۔۔۔۔ (خروج1:20تا17آیت)

مختصراً مختصراً وہ دس احکامِ الٰہی مندرجہ ذیل ہیں:

1۔۔۔۔۔۔حقیقت میں جو خُداے واحد ہے اُس کے علاوہ نہ تمھارے کوئی خُدا ہوں، نہ دیوتا۔

2۔۔۔۔۔۔تم کوئی مُورت، تمثال، شبیہات یا مجسّمات اپنے لیے کبھی نہ گھڑنا۔

3۔۔۔۔۔۔اپنے خُدا کا نام کہ جو ربِّ کائنات ہے، بے تکلّفانہ یا غیر محتاط انداز میں کبھی بھی تمھارے لبوں پر نہ آئے۔ حدِّ ادب!

4۔۔۔۔۔۔سَبت (سنیچر)، ہفتے کا ساتواں دِن ہمیشہ دھیان میں رکھو۔ اس پاک دِن کا احترام کرو۔

5۔۔۔۔۔۔اپنے ماں باپ کی تعظیم و تکریم کرو۔ عِزّت و احترام سے پیش آؤ۔

6۔۔۔۔۔۔قتل تم پر حرام ہے۔

7۔۔۔۔۔۔خاوند بیوی ایک دُوسرے کے وفادار رہیں، حرام کاریوں میں ملوّث نہ ہوں۔

8۔۔۔۔۔۔چوری چکاری سے باز رہو۔

9۔۔۔۔۔۔پڑوسی کے بارے میں جھُوٹ، تہمت، بہتان باندھنے سے گُریز کرو۔

10۔۔۔۔۔۔ہمساےے کی جان، مال، عِزّت آبرُو کی طرف مَیلی آنکھ سے مت دیکھو۔ حرص، لالچ، ہوس سے باز رہو۔

اِن دس کے دس مقدّس احکاماتِ الٰہی کا تمام کے تمام مسیحی احترام کرتے ہیں اور انھیں حق سچ مانتے ہیں۔ خُدا سے مَحَبّت اور اپنے جیسے دُوسرے انسانوں سے پیار ان الہٰی احکامات کا نچوڑ بل کہ اصل اُصُول ہے۔

توریت پاک، اسفارِ تواریخی میں اسفارِ خمسہ کے ذیل میں پانچویں مقدّس کتاب سے تثنیہء شرع، اس کے باب ششم کی آیت مبارکہ چہارم میں خُدا کے بارے میں یوں منکشف کِیا گیا:

''سُن اے اسرائیل! کہ خُداوند ہمارا خُدا وہی اکیلا خُداوند ہے''۔

تیسری مقدس کتاب احبار باب19آیت18میں پاک خُدا کا مقدّس کلام درج ہے:

''۔۔۔۔۔۔تو اپنی قوم کے فرزندوں سے بدلہ نہ لے او رنہ اُن سے کینہ رکھ۔ تُو اپنے ہمساےے کو اپنے مانند پیا رکر۔ مَیں خُداوند ہُوں۔۔۔۔۔۔''۔

توریت پاک میں خُدا کا حُکم صادر ہُوا کہ اس سے پیار کِیا جائے اور اپنے ہمساےے سے بھی ہم پیار کریں۔ جب خُداوند یسُّوع المسیح دُنیا میں آیا تو اس نے بتایا کہ یہ مَحَبّت کا حُکم تمام الٰہی احکام کا سرخیل ہے۔ا یسا حُکمِ ربّی ہے کہ بائبل مقدّس میں موجُود تمام ہی احکام کا لُبِّ لباب اِس میں آگیا ہے، خُلاصہ ہے سب کا، رُوح ہے تمام احکامات کی۔ یہ جو الہامی قانون ہے مَحَبّت کا مقدّس خُداوند یسُّوع مسیح نے اِسی پر تمام شریعتوں کا انحصار بتایا ہے۔ تمام نبیوں کی اساسِ شریعت، مَحَبَّت ہے۔ مقدّس متی، باب22، آیت 40میں کہا گیا ہے کہ:

''اِن ہی دو حُکموں پر تمام توریت اور صحائفِ انبیا کا مدا رہے''۔

(پہلا حُکمِ الٰہی ہے کہ۔۔۔۔۔۔ تُو خُداوند اپنے خُدا کو اپنے سارے دِل اور اپنی ساری جان اور اپنی ساری عقل سے پیارکر۔ دُوسرا حُکم جو اس کے مانند ہے یہ ہے کہ تُو اپنے ہمساےے کو اپنے مانند پیار کر''۔)

محض اِسی کارن خُداوند یسُّوع پاک نے اپنے شاگردانِ رشید سے تقاضا کِیا کہ وہ بھی ایک دُوسرے سے پیار کریں۔ مقدّس یوحنّا۔۔۔۔۔۔12:15کا حوالہ ہے کہ:

''میرا حُکم یہ ہے کہ جیسے مَیں نے تم سے پیار کِیا ہے تم بھی ایک دُوسرے کو پیار کرو۔۔۔۔۔۔''۔

اپنی مثالی زندگی اور بابرکت تعلیمات کے ذریعے اس مقدّس مسیحا نے تمام لوگوں کو مَحَبّت کے معانی ازبر کروا دیے۔

پچھلے باب میں ہم ذِکر کر چکے ہیں کہ خُداوند یسُّوع مسیح نے ہر طرح خلقت کی ضروریات کا خیال رکھا، محتاجوں کی حاجت روائی کی، مریضوں کو شفا بخشی، دُکھی انسانیت کے رِستے زخموں پر ہمدردی اور مَحَبّت کے مرہم والے پھاہے رکھے۔ ہمیں خدمتِ انسانیت کا سبق دینے کے لیے اپنی زندہ مثال ہمارے سامنے قائم کر دی۔

گنہگاروں، خطاکاروں کی اس نے خندہ پیشانی سے آو بھگت کی، اُن کے گُناہ بخش دیے، تقصیریں مُعاف کر دیں۔ اور وہ مُعافیِ عام جس کا اُس نے اِظہار صلیب پر کِیا وہ تو رہتی دُنیا تک اُس کی بے پایاں اوروالہانہ مَحَبّت کا جیتا جاگتا ثُبُوت ہے جو موجُود رہے گا۔ اُس نے سب سے مَحَبّت کی، مَحَبّت بان;ٹی اور مَحَبّت لی۔ اُس کے کلام، عمل اور فرمُودات و احکامات کو سامنے رکھتے ہوئے، ان کی تعمیل اور اس پاک خُداوند کی اطاعت میں ہمارا بھی فرض ہے اس سے مَحَبّت کریں، اُس کے بندوں میں پیار بانٹیں اور اپنے حُسنِ سُلُوک سے خُود کو اِس لائق بنا دیں کہ دُوسرے بھی ہم سے پیار کریں۔

ایک وقت ایسا بھی آیا جب خُداوند یسُّوع پاک نے اپنے تمام شاگردوں کو ساتھ لیا اور گیلیلی ساحلِ سمُندر کے قریبی پہاڑ پر جا کے مَحَبّت پر مبنی تمام اخلاقی قاعدے اور اُصُولوں پر سیر حاصل درس سے انھیں مستفید کِیا۔اُن کے ذ،ہن نشین کروا دیا کہ اصل صداقت، صالحیّت و راستبازی کا جو دارومدار ہے، وہ ضمیر کے بل بوتے پر خُدا سے کیے گئے رُوحانی و وِجدانی عہد و پیمان کی پابندی بذریعہ قول و فعل اور ایفائیتِ مُدام پر ہوتا ہے۔ خُداوند پاک نے وہاں جو کُچھ بتایا سکھایا اسے خطبہء جبل (پہاڑی وعظ) کے عنوان سے موسُوم کِیا جاتا ہے، جس کی تفصیل مقدّس متی ابواب6,5اور7میں موجود ہے۔

خُداوند یسُّوع مسیح نے پہاڑ پر جا کے یوں کلام کِیا: (حوالہ مقدس متی3:5)

''مبارک ہیں وُہ جو رُوح کے غریب ہیں کیوں کہ آسمان کی بادشاہت اُنھی کی ہے''۔

اور اگر رومیوں17:14ویں آیت مبارک کی تلاوت کی جائے تو معلُوم ہو گا کہ مسیحی جس بادشاہت پر یقین رکھتے ہیں وُہ خُدا کی بادشاہی رُوح القُدُس میں، صداقت اور سلامتی اور خُوش وقتی پر موقُوف ہے۔ خُداوند نے بتایا کہ وہ جو رُوح کے غریب ہیں وہی اِس بادشاہت کے مزے لُوٹیں گے یا یوں سمجھیے کہ وُہ تو اُنھیں ترکے میں مِل جائے گی، وراثت میں۔ وُہ جِن کو اِس بات کا اِدراک ہے کہ وہ عاصی ہیں، گُناہوں میں لِتھڑے ہیں، جنھیں اِحساس ہے کہ خُداوندِ قُدُّس کی رفاقت میں تو اُن کی زندگی کا ایک لمحہ بھی نہیں گُذرا، اِس لیے وہ مُلتجی ہیں عفو و درگذر کے کہ خُدا مہربان اُنھیں مُعاف کر دے، یہی تو وہ لوگ ہیں، ''غریب'' لوگ جنھیں خُدا کا نجات بخش فضل نصیب ہوتا ہے۔ انھی رُوح کے غربا کی دِلی تمنّا ہوتی ہے کہ اُنھیں مُکتی ملے تو ملے پاک خُداوند یسُّوع مسیح کے دم قدم سے۔ یہی وہ نیاز کیش و محتاج ہیں جنھوں نے دامانِ زِیست کوحیات بخش قُدرت رکھنے والے رُوحُ الحق اقدس کے آگے پھیلا رکھا ہے۔ آسمانوں کی بادشاہت میں داخل ہو سکنا ایسے ہی لوگوں کا مقدّر بنتا ہے!

یہی لوگ ہیں، جنھیں 'رُوح کے غریب' مُبارک لوگ کہا گیا، رویّوں کے سلسلے میں یہ حضرات ایک طرح کی اندرُونی طمانیّت سے گُذر رہے ہوتے ہیں؟ قُوّتِ عمل اور داخلی جذبوں کی تازگی جو انھیں نصیب ہو چُکی ہوتی ہے تو اس کا اثر اُن کے جُملہ رِشتوں، رابطوں اور تعلّقاتِ عامہ پر بھی مثبت طور پر پڑتا ہے۔ مقدّس خُداوند یسُّوع مسیح نے بطورِ خاص مثالیں دے دے کر وضع قطع، طور طریق، سُلُوک اور رویّوں کی اس تبدیلی کے بارے میں سمجھایا ہے جو عامۃُ النّاس کے تجربے میں ضرُور ہے کہ آئے گی، تبھی تو وہ خُداوند خُدا کی آسمان کی بادشاہت میں جگہ پا سکیں گے۔ خُداوند یسُّوع مسیح نے کیا کیا مثالیں دیں، چند درج ذیل ہیں:

سلامتی(مقدس متی21:5تا26)

کلامِ مقدّس عہدِ عتیق میں موسوی شریعت کے دس حُکموں میں ایک ہے کہ کِسی کی جان مت لو۔ خُداوند یسُّوع مسیح نے یہی بات دُوسرے رُخ سے سمجھائی کہ نفرت بُری بَلا ہے۔ یہ نفرت ہی ہوتی ہے جو لوگوں کو قتل کرنے پر اُکساتی ہے۔ دُوسرے لوگوں کے خلاف اپنے بُرے رویّوں سے ہمیں بہ ہر صُورت باز آجانا چاہیے۔ مقدّس مسیحاے کائنات نے تاکید سے کہا کہ تم میں سے کوئی بھی شخص جسے اپنے بھائی پر غُصّہ ہے، اُس سے ناراض ہے وُہ عدالت کے دِن سے ڈرے۔ مقدّس متی باب پانچ کی بائیسویں آیت ہے کہ:

''لیکن مَیں تم سے یہ کہتا ہُوں کہ جو کوئی اپنے بھائی پر غُصّے ہو، عدالت میں سزا کے لائق ہو گا۔ اور جو کوئی اپنے بھائی کو راقہ کہے وہ عدالتِ عالیہ میں سزا کے لائق ہو گا۔ اور جو اس کو احمق کہے وُہ جہنّم کی آگ کا سزاوار ہو گا''۔

(یعنی صغیرہ جرائم کی سزا مقامی عدالتوں میں اور کبیرہ جرائم کی سزا عدالتِ عالیہ میں دی جاتی تھی۔ سب سے بڑے جرائم کا عذاب فقط اگلے جہان میں پایا جاتا ہے۔)

اِزدواج (مقدّس متی27:5تا32)

دس الٰہی احکام میں سے ایک اور حُکم ہے کہ شادی سے باہر ناجائز جِنسی تعلُّق قائم مت کرو۔ (خروج14:20)۔ مُکتی داتا خُداوند یسُّوع مسیح کا فرمانا ہے کہ کوئی بھی خاتُون جو اُس مرد کی اپنی بیوی نہیں اگر اس سے مباشرت کی ہَوَس اس مرد کے دِل میں اُٹھی تو یہ بھی گُناہ ہے۔

مقدّس متی۔۔۔۔۔۔باب پانچ آیت نمبر28میں یُوں لکھا ہے:

''۔۔۔۔۔۔ لیکن مَیں تم سے یہ کہتا ہُوں کہ جو کوئی شہوت سے کِسی عورت پر نِگاہ کرے، وُہ اپنے دِل میں ہی اُس کے ساتھ زنا کر چُکا''۔

ایسی حرکتِ بد نہ صِرف رشتہء ازدواج کی تباہی کا سبب بنتی ہے بل کجی جو بھی فریق بے وفائی کرے، اُسے برباد کر کے رکھ دیتی ہے۔ یہ ہے ہی کریہہ ترین بدی۔ اسی لیے مقدّس خُداوند یسُّوع مسیح نے تنبیہہ کر دی ہے:

''پس، اگر تیری دہنی آنکھ تجھے ٹھوکر کھلائے تو اسے نکال ڈال اور اپنے پاس سے پھینک دے کیوں کہ تیرے اعضا میں سے ایک کا جاتا رہنا تیرے لیے اس سے بہتر ہے کہ تیرا سارا بدن جہنّم میں ڈالا جائے''۔(مقدس متی29:5)

پاک خُداوند یسُّوع مسیح نے واضح ہدایت کی کہ طلاق سے بچو۔ مقدّس متی، باب پانچواں، آیت بتیسویں خُداوند یسُّوع مسیح کا فرمان سامنے لاتی ہے تا کہ سب کو عبرت ہو:

''پر مَیں تُم سے یہ کہتا ہُوں کہ جو کوئی اپنی بیوی کو حرام کاری کے سِوا کِسی اور وَجہ سے چھوڑ دے، اُس سے زنا کراتا ہے۔ اور جو کوئی اُس چھوڑی ہوئی سے بیاہ کرے، وہ زنا کرتا ہے''۔

طلاق خُداوند یسُّوع مسیح کے نزدِیک ناپسندیدہ عمل ہے۔ یہ ایسی بُرائی ہے جو خُدا کی طرف سے قرار دی گئی شادی کی اکائی کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیتی ہے۔ خالقِ مخلوقات خُدا نے آدم اور پِھر اُس کی بیوی کو خلق کِیا جو اس کی ہڈّیوں میں سے ہڈّی اور گوشت میں سے گوشت تھی، تکوین24:2 کے ذریعے منکشف ہُوا جو تمام آدم زادوں کے لیے حُکم ہے:

''۔۔۔۔۔۔اِس واسطے مرد اپنے باپ اور اپنی ماں کو چھوڑے گا اور اپنی بیوی سے مِلارہے گا۔ اور وُہ دونوں ایک تن ہوں گے''۔

ازدواج میں یہ زوجین کا یک تن ہونا جلوہ ہے فضلِ ربّی کا۔ طلاق کی حوصلہ شکنی کی گئی اور وہ بھی ممانعت کی حد تک، اِس لیے کہ شادی کے ذریعے یک جان ہونے کی جو ایکتا ہے وہ بکھر جاتی ہے، تباہ و برباد ہو جاتی ہے اور یہ کوئی معمولی سانحہ نہیں، یہ تو دو سے ایک ہونے کا جو متبرک تحفہء خُداوندی ہے، اس کی ناقدری کہلائے گی جس کی پاداش بہُت دُور تک جائے گی۔ مقدّس متی6:19میں خُداوند یسُّوع مسیح کا حُکم اٹل ہے:

''سو اب وہ دو نہیں بل کہ ایک تن ہیں۔ پس، جسے خُدا نے جوڑا ہے، اُسے انسان جُدانہ کرے''۔

اسی طرح مقدّس متی8:19میں پاک خُداوند یسُّوع مسیح کا کلام ہے کہ:

''۔۔۔۔۔۔موسیٰ نے تمھاری سخت دِلی کے سبب سے تمھیں اپنی بیویوں کو چھوڑ دینے کی اجازت دی، لیکن شُرُوع سے ایسا نہ تھا''۔

یہ پُرانے میثاق کی بات تھی مگر نئے میثاق کے لوگوں کے درمیان کبھی طلاق تک نوبت نہ پہنچنا چاہیے۔ یہ اُمّتِ مسیحی کی پہچان نہیں۔ ہرگز نہیں کیوں کہ اصل صداقت، راستبازی و نیکوکاری قائم رکھتے ہوئے کلیسیا اور مومن مسیحی کی زندگی کے درمیان رُوح القُدُس ہمیشہ موجُود رہتا ہے۔

کہ بائبل مقدّس میں کثیر الازدواجی کی خُصُوصیّت سے تو ممانعت نہیں آئی مگر بہُت سے مسیحی گرجاؤں نے مسیحِ پاک کے بدن کا حصّہ مسیحیوں کو ایک سے زیادہ بیویاں رکھنے کا مرتکب ہونے کے عمل کی اجازت دینے سے احتراز ہی کِیا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ کلامِ مقدّس، عہدِ عتیق، کے مُطابِق خُدا کے بعض برگزیدوں کے گھروں میں ایک سے زیادہ بیویاں بھی تھیں، لیکن مرد جس کی کئی بیویاں ہوں یا عورت کہ اُس کے کئی شوہر ہوں بائبل مقدّس نے اسے پیمانہ یا معیار کبھی نہیں بتایا، نہ ہی ایسی شادیوں کو مثالی قرار دیا۔ درحقیقت، بہُت افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ جہاں بھی کثیر الازدواجی پر کمر کسی گئی، اس نے نئے سے نئے گُل ہی کھلائے۔ انجام کِسی کابھی کُچھ اچھّا ثابت نہ ہُوا۔ اگر شریکِ حیات ایک سے زیادہ ہوں تو ''یک تنی'' اتّحاد تو پارہ پارہ ہو گیا نا۔ شادی اور شادی شدہ زندگی، یعنی ازدواجی تعلقات کا تقدُّس پایمال ہو گیا۔ الگ الگ دو لوگ ہوتے ہیں، رشتہء ازدواج میں دونوں منسلک ہو کر ایک ہو جاتے ہیں۔ ان کا یہ دائمی ملاپ، مُبارک اتّحاد مطالبہ کرتا ہے کھوٹ سے پاک وفاداری کا، مُکمَّل وفاداری کا، جس کی بُنیاد مَحَبّت، احترام اور خُلُوص ہوتا ہے جو بیوی شوہر پر نچھاور کرتی ہے اور شوہر اپنی بیوی پر۔ خاتُون کے بہُت سے خاوند ہوں یا مرد ذات اکیلے کی بہُت سی بیویاں ہوں پِھر تو 'کھوتا کھوہ وچ جا پیا'' شادی سے مُکمَّل طور پر وُہ جو ایک دُوسرے کا ہو جانے کا عمل ہے، وہ کھوتا کُھوہ میں جا پڑنے والی باتوں سے رنجشوں، گلے شکووں، آویزشوں، لڑائی جھگڑوں میں ڈھل جاتا ہے۔ دِل ٹوٹے ٹوٹے ہو جاتا ہے۔ گہرے داخلی محاکات و مُعاملاتِ قلبی کے آبگینوں کو ٹھیس پہنچتی ہے اور مُتاثّرہ فریق چوٹ لگے آئینے کی طرح کِرچی کِرچی ہو جاتا ہے۔ جب کہ ایک پسلی والے رِشتے کا تقاضا ہی یہ ہوتا ہے کہ خاوند اپنی بیوی سے بھی اُسی قدر پیار کرے جتنا وہ اپنے آپ سے کرتا ہے، اِسی طرح بیوی کا بھی فرض بنتا ہے کہ اپنے شوہر سے مَحَبّت و احترام سے پیش آئے۔ مَحَبّت قربانی مانگتی ہے۔ اِسی لیے مسیحیت میں زور دے کر کہا گیا ہے کہ مَحَبّت کی قربان گاہ پر ہر شوہر کو اپنی بیوی کی خاطر اپنا تن، من، دھن سب ڈھیر کر دینا چاہیے۔ عین جس طرح خُداوند اقدس یسُّوع مسیح نے کلیسیا کی محبت میں اپنا سب کُچھ حتّٰی کہ اپنی ذات تک کی قربانی دینے سے بھی ذرا دریغ نہیں کِیا۔ افسیوں، باب پانچواں، آیات 21سے 33تک کے حوالے سے مستفید ہوا جا سکتا ہے:

''اورمسیح کے خوف سے ایک دُوسرے کے تابع رہو۔ بیویاں اپنے شوہروں کی ایسی تابع رہیں جیسی خُداوند کی۔ کیوں کہ شوہر بیوی کا سر ہے جس طرح مسیح کلیسیا کا سر ہے اور وُہ بدن کا بچانے والا ہے۔ پس جس طرح کلیسیا مسیح کے تابع ہے اُسی طرح بیویاں بھی ہر بات میں اپنے شوہروں کے تابع ہیں۔ اے شوہرو! اپنی بیویوں کو پیار کرو جیسا مسیح نے بھی کلیسیا کو پیار کِیا اور اُس کی طرح اپنے آپ کو حوالے کر دیا تا کہ اس کو کلمے کے ساتھ پانی کے غُسل سے صاف کر کے مقدّس کرے اور خُود اپنے واسطے ایک جلالی کلیسیا پیدا کرے جس میں داغ یا شکن یا اِس قسم کی کوئی چیز نہ ہو، بل کہ پاک اوربے عیب ہو۔ چاہیے کہ اسی طرح شوہر بھی اپنی بیویوں کو اپنے مانند پیار کریں۔ جو اپنی بیوی کو پیار کرتا ہے وہ اپنے آپ کو پیار کرتا ہے۔ کیوں کہ کِسی نے اپنے جسم سے کبھی دُشمنی نہیں کی، بل کہ واُسے پالتا پوستا ہے جیسے مسیح بھی کلیسیا کو۔ کیوں کہ ہم اس کے بدن کے اعضا ہیں۔ اِس لیے مرد اپنے باپ اور اپنی ماں کو چھوڑے گا اور اپنی بیوی سے مِلا رہے گا۔ اور وہ دونوں ایک تن ہوں گے۔ یہ ایک بڑا بھید ہے، یعنی مسیح اور کلیسیا کی نسبت۔ بہ ہرحال تُم میں سے بھی ہر ایک اپنی اپنی بیوی کو اپنے مانند پیار کرے اور بیوی اپنے شوہر کا ادب کرے''۔

راست گوئی(مقدس متی33:5تا37)

دس الٰہی احکام میں سے نواں حُکم ہے کہ تُو اپنے ہمسایہ پر جھُوٹی گواہی نہ دے (مُلاحظہ ہو خروج۔۔۔۔۔۔باب16:20ویں آیت) خُداوند یسُّوع مسیح کے اس حُکم کی تہہ میں جو مطالب و معانی چھِپے ہیں اُن کی طرف توجُّہ مبذُول کرواتے ہوئے کلام کِیا کہ ہمیں قسم بھی ہرگز نہیں کھانی چاہیے کیوں کہ جو بھی شخص قسم اُٹھاتا ہے وہ تو گویا اِس بات کا خُود ہی اعتراف کر رہا ہوتا ہے کہ وہ بیشتر اوقات جھُوٹ ہی بولتا ہے، اِس لیے سچ بات اُس کی وہی ہوتی ہے جو اُس نے قسمیہ بیان کی ہو۔ حق بات تو یہ ہے کہ ایک سچّے انسان کو قسم اُٹھانے کی ضرورت ہی نہیں ہوتی۔ وہ ہمیشہ ہی سچ بولتا ہے تو اب قسم کیوں اُٹھائے۔ وہ تو ہاں کہہ دے یا نہ، بس اتنا ہی کافی ہوتا ہے۔ سب جاننے والے سمجھ جاتے ہیں کیوں کہ اس صادِق انسان کی ہر بات ہی صداقت پر مبنی ہوتی ہے۔

عفو، درگُذر(مقدّس متی38:5تا48)

ہم بار بار ذِکر کر چکے ہیں مقدّس خُداوند یسُّوع مسیح نے ہم انسانوں سے تاکید سے کہا کہ سب سے بڑا اور بھاری حُکمِ الٰہی دس کے دس احکامات میں سے جو ہے نا، وہ ہے اُ س کی ہستیِ عظیم و مہربان ترین سے مَحَبّت کرنے بل کہ کرتے ہی چلے جانے کاحُکم اور دُوسرے نمبر پر جو فرمانِ الٰہی ہے وہ ہے کہ اپنے پڑوسی سے پیار کرو، اُتنا جتنا اپنی ذات سے آپ پیار کرتے ہو۔ یسُّوع پاک جو المسیح ہے اُسی نے ہم پر واضح کِیا کہ مَحَبّت کے معاملات کا تقاضا ہے کہ ہم اپنے دُشمن کو بھی مُعاف کر دیں۔ جب کہ بعض مُعلّمین نے ویسے تو یہاں تک بھی کہا ہے کہ آنکھ کا بدلہ آنکھ اور دانت کے بدلے دانت۔ لیکن نہیں پاک خُداوند مَحَبّت کے منبع نے تو کُچھ اور ہی درس دِیا۔ اُ س نے تو حُکم صادر کِیا کہ اپنے بَیری سے بھی مَحَبّت کرو اور اپنے دُکھ پہنچانے والے کے لیے بھی دُعا کرو۔

حوالہ مقدّس متی۔۔۔۔۔۔28:5اور44آیت

اُس نے خاص طور پر یہ بات کہی اگر کوئی ہم سے ہمارا کوٹ مانگ لے، ہمیں تو اپنی قمیص اور دُوسرے کپڑے بھی اُسے پیش کردینے چاہییں۔ اور اگر کوئی ہمارے گال پر تھپڑ دے مارے، ہمیں دُوسرا رُخسار بھی اُس کے آگے کر دینا چاہیے۔ اور اگر ہمارا دُشمن سزا ہی کا مستحق ٹھہرے، تو اس کا مُعاملہ خُدا پر چھوڑ دینا چاہیے۔ ہمیں کوئی حق نہیں پہنچتا کہ ہم دُشمن کا بُرا چاہیں۔ اُس سے ہمیں بھلائی کرنا چاہیے، بُرائی نہیں۔ رومیوں باب12آیت19میں یوں آیا ہے:

''اے پیارو! اپنا انتقام مت لو بل کہ غضب کو موقع دو کیوں کہ یہ لکھا ہے کہ خُداوند فرماتا ہے۔ انتقام لینا میرا کام ہے۔مَیں ہی بدلہ دُوں گا''۔

(غضب کو موقع دو سے مُراد ہے کہ ناراستی کی سزا خُدا کو سونپو)

نفرت اور تشدّد زیادہ نفرت اور زیادہ تشدّد کو جنم دیتے ہیں۔ چاہے ہم کیسا ہی انتقام اپنے دُشمن سے لے لیں، نفرت کی اِس آگ کو نہیں بُجھا سکتے جس میں ہمارا تن بدن جھُلس رہا ہوتا ہے۔ یہ تو فقط مُعاف کر دینے کی طمانیت ہوتی ہے جو ظُلم و تشدّد کی آگ کو ہم پر ٹھنڈا کر دیتی ہے۔ یہ فقط مَحَبّت ہی ہے جو قُدرت رکھتی ہے کہ نفرت کے چیتھڑے اُڑا کے رکھ دے۔ دُشمن بھی ہوتا تو انسان ہی ہے نا۔ اگر اُسے پتا چلے کہ اُس کی زیادتیوں کے باوُجُود بھی ہم اُس سے پیار کرتے ہیں، اُس کا بھلا ہی چاہتے ہیں، تو ناممکن ہے کہ وہ ہماری طرف دوستی کا ہاتھ نہ بڑھائے۔ اگر ہم بھی اُس کی زیادتیوں، ظُلم و ستم اور تشدّدکا جواب تشدد، ظلم و ستم اور زیادتیوں سے ہی دینے پر اُتر آئیں تو ہم دونوں ہی گھایل ہوں گے، اند رسے بھی اور باہرسے بھی، اور پِھر نفرت کی چنگاریاں ہمارے لُوں لُوں سے پھُوٹنے لگیں گی۔

حرص و آز(مقدّس متی19:6تا34آیت)

دس الٰہی احکام کا دسواں حُکمِ ربّانی ہے کہ انسانوں کو اُس کی حرص، لالچ اور اس کا حسد نہیں کرنا چاہیے جو کُچھ اُن کے ہمسایوں کو میسّر ہے۔ حرص و ہوس کی کھیتی سے بد ارادوں کی وہ شیطانی کونپلیں پھُوٹتی ہیں جن کی کومَلتا جُل دے جاتی ہے اورا چھّا بھلا نیک آدمی ہی وہ سب کُچھ دُوسرے سے چھین لینا چاہتا ہے جو اُسے تو نہیں مگر دُوسرے کو حاصل تھا، یا اس کے ہاں تنگی تھی، دُوسرے کے ہاں فراوانی تھی۔ ہوسِ زر و مال کی جڑ ہوتی ہی اُن حسرتوں میں پیوست ہے جن سے دولت و حشمت، آل اولاد، صحت و شُہرت اور عِزّت و مقام، دُوسروں سے بڑھ کر دھمکی، دھونس، دھاندلی سے حاصل کر لینے یا ہتھیا لینے ور نہ نظرِ بد ہی لگا دینے کی خواہشات آکاس بیل کی طرح انسان کو چمٹ جاتی ہیں۔ سب کُچھ فانی ہے، اِسی لیے پاک خُداوند یسُّوع مسیح نے ہمیں مال و دولت کو ہی سب کُچھ سمجھنے اور جایداد وملکیت پر ہی تکیہ کر کے بیٹھے رہنے سے منع کِیا۔ وہ جمع پُونجی کِس کام کی جو ہو ہی ڈھلتی چھاؤں خُدا ہِمّت دے، آسانیاں دے، خُداوند کی برکت و فضل سے ضروریات پوری ہوں، اور کیا چاہیے۔ جوکُچھ ہے سب اِدھر ہی چھوڑ جانا ہے۔ ایک اچھّے مسیحی کو راستبازی، صداقت اور نیک نامی کی تمنّا ہونا چاہیے اور اُس کی تو ترجیحی طور پر آرزُو و جُستجُو خُدا کی بادشاہی کی ہونا چاہیے۔ جب ہم خُدا سے مَحَبّت کو باقی تمام جذبات و اِحساسات اور خواہشات پر فوقیت دے دیں پِھر تو اُس کا کرم اٹل ہے، ہماری سب محتاجیاں دُور ہو جائیں گی۔ وہ کارساز خُداوند خُدا، ہماری سب بگڑیاں سنوار دے گا، یقینا۔ پاک خُداوند کا فرمان ہے:

''فکر مند ہو کر یہ نہ کہو کہ ہم کیا کھائیں گے یا کیا پییں گے، یا کیا پہنیں گے''۔

(مقدّس متی۔۔۔۔۔۔31:6)

'۔۔۔۔۔۔بل کہ پہلے تُم اس کی بادشاہی اور راستی کو ڈُھونڈو تو یہ سب چیزیں بھی تمھیں دی جائیں گی''۔

(مقدّس متی۔۔۔۔۔۔33:6)

اِس موضُوع پر اور بھی بہُت کُچھ ہے جو خُداوند یسُّوع مسیح نے اپنے بندوں سے کہا جس کی شرح بیان کرنا اِس زیرِ نظر باب میں ممکن نہیں۔ تفصیل بہُت ہے اور کتاب کا دامن تنگ۔ اغلب خیال ہے کہ خُداوند یسُّوع مسیح کے خُطبہ کا سب سے حیرت انگیز حصّہ وہ تھا جس میں اُس نے کلام کِیا:

''اِس واسطے تُم کامل ہوجیسا تمھارا آسمانی باپ کامل ہے''۔

(مقدّس متی48:5)

ہم کیوں کر اِس راستی کے ساتھ زندہ رہ سکتے ہیں جو راستی جلال والے خُدا کی صفتِ پاک ہے؟ وہ راستی، پاکبازی اور صداقت تبھی ممکن ہو سکتی ہے جب مقدّس رُوحُ الحق ہماری زندگیوں کو نئے سرے سے مُکمَّل عکسِ الٰہی اور اس کی تمثال ڈھال دے۔ اِسی لیے پاک خُداوند یسُّوع مسیح نے فرمایا ہے کہ اس حیاتِ نو کے تجربے سے ہم اسی صُورت گُذر سکتے ہیں جب غریب الرُّوح ہو جائیں۔ رُوح کے غریب۔ اپنی کوتاہیوں پر شرمندہ ہوں، ناکامیاں تسلیم کر لیں، گُناہوں کا اعتراف کر لیں اور نجات کے مُلتجی ہو جائیں۔ کلامِ اقدس مقدّس متی۔۔۔۔۔۔ساتویںباب کی آیات اٹھائیس اور اُنتیس میں کہا گیا ہے:

''اور ایسا ہُوا کہ جب یسُّوع یہ باتیں ختم کر چُکا تو ہُجُوم اُس کی تعلیم سے حیران ہُوا کیوں کہ وُہ اُن کے فقیہوں کی طرح نہیں، بل کہ صاحبِ اختیار کی طرح اُنھیں تعلیم دیتا تھا''۔

مسیحی قوم خُداوند یسُّوع المسیح کی وہ منتخب اُمّت ہے جو اُ س کی قُدرت اور اُس کے اختیار کو دِل و جان سے قُبُول کرتی ہے۔ یہ اِقرار کرتے ہوئے کہ مقدّس یسُّوع، مسیحیوں کا آقا و مولیٰ، خُداوند اور مُکتی داتا ہے تمام مسیحی جلال اور بزُرگی والے خُدا کے سامنے راضی بہ رضا ہیں۔ وُہ شاگرد (پیروکار)ہیں خُداوند یسُّوع مسیح پاک کے۔ ابتدائی دور کے اوّل اوّل مسیحیوں کا عقیدہ تھا کہ جو لوگ مقدّس یسُّوع مسیح کو خُدا مانتے ہیں وہی صراطِ مُستقیم پر چل رہے ہیں۔ اعمال26:18کا حوالہ درجِ ذیل ہے:

''وہ عبادت خانے میں دلیری سے بولنے لگا اور پَرِ سقلّہ اور اکیلا، اُس کی باتیں سُن کر اُسے اپنے ہاں لے گئے اور اُس کو اور زیادہ صِحّت سے طریقِ خُدا بتایا''۔

آج بھی وہ خُوش نصیب جو خُداوند پاک یسُّوع مسیح کے ماننے والے ہیں، اس راہ پر چلتے ہیں جس کا راہبر پاک خُداوند ہے، وہ سیدھی راہ پر ہیں بے شک اور انھی کا طریق صادق ہے۔ یہی طریقِ مَحَبّت ہے اور یہی طریق خُداوند خُدا یسُّوع پاک کا طریقِ حیات ہے۔

مُسلِم نُقطہء نظر

کِردار کی شائستگی اور خُوے دُرُست کے لیے مُسلِم اُمّہ کے بالکل برعکس مسیحی کلیسیا میں مُسلّمہ آفاقی کوئی باقاعدہ نظامِ قانُون موجُود نہیں۔ا ِس بارے میں مسیحیوں کا تسلیم شُدہ ایک خُصوصی نقطہ ء نظر ہے کہ مَحَبّت جسے مسیحی تعلیمات میں مرکزی حیثیت دی گئی ہے اسے مقررہ ضابطوں، قاعدوں اور اُصُولوں کے ڈھانچوں میں قید نہِیں کِیا جا سکتا۔ بہ ہرکیف، مسلمان تو فقہء اسلامی و شریعتِ خُداوندی نیز وحی کیے گئے ایک اخلاقی اقدار کے مستقل و محکم نظام کے پابند ہیں۔ بے عیب ذات پاک صِرف اللہ تعالیٰ کی ہے، بندہ خطا کا پُتلا ہے۔ مسلم نقطہء نظر میں انسان ناقص ہے، ادُھورا ہے، کمزور و عیب دار ہے، محدُود علم رکھتا ہے اِس لیے ہر لحظہ اُسے ہادی، رہبر کی ضرُورت پڑتی ہے، اسلامی قوانین اور اخلاقی اقدار سے ہی ایسے لمحوں میں اُس کی راہ نمائی ہوتی ہے۔ انسان کو حُکم دیا گیا ہے کہ وُہ دُنیا میں عدل قائم کرے، مگر اُسے کیا پتا عدل گستری کیوں کر کی جاتی ہے۔ چُناں چہ قوانینِ شریعت قدم قدم اُسے تفصیل کے ساتھ انصاف کرنے کی راہ دِکھاتے اور اسی پر چلاتے ہیںاور اُسے سکھاتے ہیں جب انصاف کا ترازُو ہاتھ میں پکڑا جائے تو پلڑوں اور پَلّوں میں عدل کِس طرح بٹتا ہے اور عفو و رحم کا پاسنگ کیوں کر عمل میں لایا جاتا ہے۔ حقدار کو اس کا حق ملناچاہیے اور ظالم کو اُس کے ظُلم کی سزا۔

اِس کی ایک دُوسری صُورت بھی مُلاحظہ ہو۔ اخلاقی اقدار کی جو سکیم ہے جس پر مسیحی طور اطوار اخلاق و کِردار کی عمارت اُستوار ہے، مسلمانوں کی عملی تفسیر سے کافی حد تک مشابہ ہے باوُجُود اِس کے کہ مسیحیت دیگر تمام اخلاقی اقدار پر مَحَبّت کو ترجیح دیتی ہے۔ یہ غیر معمولی تاکید و ہدایت مسیحی زندگی کے ہر ہر پہلُو کا احاطہ کرتی ہے۔ اس لیے مسلمان بسا اوقات یوں خیال کرنے لگتے ہیں کہ مسیحی راہ و روش کے بارے میں اُن کا(مسیحیوںکا) مطمحِ نظر جیسے محض قیاسی ہو، عملی و اکتسابی نہ ہو۔ یعنی جیسے اُن کے مطمحًِ نظر کو عملی مُعاملات سے تعلُّق کم کم ہی ہو۔

مسیحیوں اور مسلمانوں کے درمیان اک عملاً متنازع فیہ مسئلہ موجُود ہے، شادی کا تکلیف دہ حد تک اختلافی مسئلہ اور طلاق۔ اسلام میں شادی کو خُدا جلّ و شانہ' کے نام پر انجام پانے والا قول و قرار پر مبنی ایک سمجھوتا سمجھا جاتا ہے جو رِشتہ داری کی مقدّس بُنیاد ہے۔ یہ ایک مُعاہدہ ہے، مُبارک بندھن ہے جس کو تقویت پہنچانے اور سدا برقرار رکھنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا دینے کا حُکم ہے۔

تاہم، شریکِ حیات کے ہمراہ سفرِ حیات کی راہ میں مُشکلات و مسائل کی چٹانیں حائل ہونے لگیں اور ان مسائل کو حل کرنے کے وسائل بھی دُور و نزدِیک کہِیں نہ نظر آئیں۔ ہر کوشِش نقش برآب ثابت ہوتی چلی جائے، مصالحت ناممکن بن جائے۔۔۔۔۔۔ تب اسلام میں دی گئی فطری و عملی دِینی تعلیمات و تربیت کی ایک شِق اجازت دے دیتی ہے کہ طلاق کو حل سمجھ لیا جائے۔ آخری حل۔ اسے آخری فیصلہ سمجھا جائے۔ سیّدنا نبیِ آخرالزّماں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے، جو کُچھ اس طرح ہے کہ:

شریعت میں جن اُمُورکی اجازت دی گئی ہے، ان میں طلاق ایک ایسا فعل ہے جو اللہ تعالیٰ کی نِگاہوں میں انتہائی ناپسندیدہ قرار پایا ہے۔

اسی حدیثِ مُبارکہ کو کہ جسے اپنے الفاظ میں ہم نے درج کِیا ہے اس کے راوی حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ تعالیٰ عنہما ہیں، ابو داؤد اور حکیم سے بھی یہی روایت منسوب ہے۔ ہم نے اسے کتابFikqi Sunnah, Vol. 11, Beirut, by Sayid Sabiq, Daarul-Kitab-l-Ataby, p. 241.سے لیا ہے۔

اور قرآنِ مجید فرقانِ حمید کی چوتھی سورۃ آیت34میں ایک جگہ سب سے اعلیٰ اور جلیل القدر اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

''۔۔۔۔۔۔اور اگر (بیویاں) فرماںبردار ہو جائیں تو پِھر اُن کو ایذا دینے کا کوئی بہانہ مت ڈُھونڈو۔۔۔۔۔۔''۔

ایسی شادیاں اسلام کے لیے ناقابلِ قُبُول ہیں جو نامُرادی و ناشادی پر منتج ہوں اور دونوں شرکاے حیات سے خُوشیاں رُوٹھ رُوٹھ جائیں، غیر معتبراور بد عہدی پر مشتمل ہوں یا باہمی مہر و مَحَبّت سے عاری ہوں، گلے پڑا ڈھول بجانے کے مترادف ہوں اور ان شادیوں کا حاصل جوڑوں کی ایک دُوسرے سے بے زاری، عدم تعاون، بے مروّتی، تُوتکار اور مار پیٹ، مقدّمے بازیاں ہوں۔ طلاق ایسی ٹھوس وجوہ کہ جن کی وَجہ سے فریقین کی زندگی میں تلخیاں گھُل جائیں، ان کی بِنا پر دی جانے کی اسلام اجازت دیتا ہے اور اِس کے لیے مزید بھی کُچھ شرائط، کُچھ چھُوٹیں، لحاظ، مروّت، حُسنِ اخلاق ضرُوری بتایاگیا ہے۔ اگر علیحدگی ہونا ہی ہے تو اچھّے طریقے سے ہونی چاہیے۔

عین اسی طرح اعلیٰ اخلاقی اقدارِ اسلامی میں مُعاف کر دینے، بخش دینے کو فوقیت دی گئی ہے۔ درگُذر سے کام لینے کو پسندیدہ صفت قرار دیا گیا ہے۔مُعافی اُوپر اُوپر سے نہیں، دِل سے مُعاف کر دینے کا بڑادرجہ ہے۔ بے انصافی کا شکار مصیبت زدہ شخص اور دُوسروں کے دبائے، ستائے اور اُن کے جابرانہ رویّوں سے نکّونک ہوئے انسان کو اسلام مُدافعت کی اجازت دیتا ہے، بساط بھر انتقام لینے کا بھی اُس کو حق دیا گیا ہے، مگر انصاف سے قصور وار کو قانون کے حوالے کر دے، عدالت کے کٹہرے میں لا کھڑا کرے یا پھر ذرا بھی زیادتی نہ کر بیٹھنے کی احتیاط کے ساتھ جتنا کُچھ اُس کے ساتھ ہُوا، اُتنا ہی بدلہ وہ بھی لے لے۔ وہ قصوروار کا قصور مُعاف بھی کر سکتا ہے سب کِیا کرایا اللہ تعالیٰ پر چھوڑتے ہوئے۔ قصاص کے بجاے بڑا مقام ہے اللہ کے لیے مُعاف کر دینے کا۔

''اور بُرائی کا بدلہ تو اُسی طرح بُرائی ہے مگر جو درگُذر کرے اور (مُعاملے کو) دُرُست کر دے تو اس کا بدلہ خُدا کے ذِمّہ ہے۔ ا س میں شک نہیں کہ وہ ظُلم کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا''۔

(القرآن40:42)

اِسی طرح سورۃآلِ عمران میں ہے:

''جو آسُودگی اور تنگی میں (اپنا مال خُدا کی راہ میں) خرچ کرتے ہیں اور غُصّے کو روکتے اور لوگوں کے قصور مُعاف کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان نیکوکاروں سے مَحَبّت کرتا ہے''۔

سورۃ 3، آیت134۔

درحقیقت،ا سلام میں نہ تو آنکھ کے بدلے آنکھ والی انتہا کی بہُت حوصلہ افزائی کی گئی ہے اور نہ ہی اس کے برعکس والی صُورت کہ بائیں والا رُخسار پیش کردیا جائے جب تھپڑ مارنے والا دائیں کو لال سُرخ کر چُکا ہو کہ لے بھئی مار! ادھر بھی مار لے، ادھر بھی نقشے چھاپ۔ اسلام میں یہ ہے ہی نہیں کہ اب پاجامہ بھی تحفہ میں دے دیا جائے جب کہ بھائی صاحب! قمیص پہلے ہی ہتھیا چکے ہوں۔ نہ نہ، ایسا ہرگز نہیں۔

(یہ حصّہ بشکریہ بدو ڈی کیٹاریگا اور ڈیوڈ ڈبلیو شینک کی کتاب' 'اسلام اینڈ کرسچیئنٹی۔۔۔۔۔۔ اے مسلم اینڈ اے کرسچیئن اِن ڈائیلاگ''کے باب 23سے مستعار لیا گیا۔ صفحات 155تا162سے استفادہ کِیا گیا۔ یہ کتاب نیروبی (کینیا) میں 1980ع کے سال میں دی اُزیمہ پریس نے چھاپی۔

 

(*This is the text of chapter 23 of Badru D. Kataregga and David W. Shenk, Islam and Christianity. A Muslim and a Christian in dialogue. Nairobi (Kenya: The Uzima Press, 1980), pp. 155-162).)

 

 

 

Contact us

J. Prof. Dr. T. Specker,
Prof. Dr. Christian W. Troll,

Kolleg Sankt Georgen
Offenbacher Landstr. 224
D-60599 Frankfurt
Mail: fragen[ät]antwortenanmuslime.com

More about the authors?