German
English
Turkish
French
Italian
Spanish
Russian
Indonesian
Urdu
Arabic
Persian

:سُوال نمبر47

۔اپنے مواد و موضُوعات اور زُبان کے محاسن کے اِعتبار سے آپ کی اناجیلِ مُقدّسہ ایک ممتاز حیثیّت کی حامل ہیں۔ لیکن سمجھ سے باہر ہےں، ان کے بہُت سے مندرجات جبر و تشدّد کا بھرپور شاہکار ہیں۔ آخِر اس کی کوئی تشریح و توضیح؟ دیکھیے نا، تثنیہ شرع کے باب15:13 میں ہے:

تو تُو اس شہر کے رہنے والوں کو تلوار کی دھار سے مار اور اس کو اور سب کُچھ جو اس میں ہے مع چوپایوں کے تلوار کی دھار سے فنا کر

اسی طرح موسیٰ کے قہر کے ضمن میں یہ آیات

....اور ہر ایک اپنے بھائی کو اور اپنے دوست کو اور اپنے ہمسایہ کو قتل کرے۔

حوالہ....خروج27:٣٢

 

جواب:۔ براہ مہربانی، سُوال نمبر28 کے جواب والے دُوسرے حصے کا مطالعہ کیجیے۔

آپ کی تشفیِ مزید کے لیے چند حوالے پیش ہیں، اس کتاب سے کہ یہ ایمان و عقائد کے موضوع پر بالغوں کے لیے مسیحی تعلیم کے ضمن میں1966ع میں زیورِ طبع سے آراستہ ہُوئی۔

Glaubensverkündigung für Erwachsene

یہ جُرمن ایڈیشن ہے ہولینڈیشن کاتے چِسمُس، نِےم ویگن....اُتریخٹ،1966 کا:

جب کوئی اِنسان عہد نامہءقدیم کی مُقدّس کتاب کھول کر ورق گردانی شُرُوع کرتا ہے اس توقع کے ساتھ کہ نِگاہوں کے سامنے شاندار واقعات و حالات اور اس دورِ قدیم کی شان و شوکت لہراجائے گی مگر وہاں کُچھ اور ہی دِکھائی پڑتا ہے، ناہموار، سنگلاخ، دُشوار گزار پہاڑی خطوں سے ملاقات منتظر نظر آتی ہے۔ دورانِ تلاوت جو گنجھلیں پیش آتی ہیں اور بندہ اُلجھتا چلا جاتا ہے عہد نامہءقدیم میں وارد ہونے کی ان کی اصل جو ہے وُہ یہ ہے کہ توقعات کا تانا بانا ٹوٹ جاتا ہے، ہم خیال کرتے ہیں کہ بہُت ہی شُستہ و نفیس اور اخلاقی اصلاح اور رُوحانی افادے کے مضامین کا احاطہ کیے ہو گی یہ مُقدّس توریت، متبرک کتاب۔ اس میں زمانے بھر کی اچھّی اچھّی باتیں تلاوت کرنے کو ملیں گی۔ پر وہاں کیا مطالعے کو ملتا ہے۔ اسلاف یعنی بزُرگانِ اِسرائیل کی کہانیاں۔ ابرہام، اسحق، یعقوب اور اس کے بارہ بیٹوں کے قصّے۔ کتابِ تکوین میں بڑے مزے سے کچے پکّے قصّے، وارداتیں، ظلم و ستم کی داستانیں اور آج کے ہمارے نُقطہءنظر کے حساب سے، (خُداوند بے ادبی معاف فرمائے)، بد اخلاقیوں سے معمور کہانیاں سُنائی جا رہی ہوتی ہیں۔ اس زمانے کی معاشرت اور اخلاقی اقدار میں آج کی اخلاقیات اور سماجی قدروں میں فرق کھُل کے سامنے آجاتا ہے۔اس لیے ہم لوگ جب اپنے وقتوں میں بیٹھ کر اس کی تلاوت کی سعادت حاصل کرتے ہیں، ہمیں ذہن میں اس صداقت کو جگہ دینا ہو گی کہ بائبل مُقدّس کوئی کُلیةً اخلاق سدھار کتاب نہِیں، یہ تو حقائق کی عکاسی کرنے والی کتابِ اقدس ہے۔ سب سچّائیاں اس میں جمع ہیں۔ یہ بھی تو غور فرمائیے نا کہ خُدا کو اُس وقت انتہائی قدیم ادوار کے اِنسانوں سے واسطہ آن پڑا تھا۔ اخلاقی و تہذیبی اقدار ابھی بہُت خام تھیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ شائستہ کردار اور شستہ اخلاق و اطوار کے لیے، یا کم از کم معنوی نصب العین اور مثالی مطمحِ نظر اپنانے میں تبدیلی تو ظاہر ہے آنا ہی تھی، آتی رہی اور وُہ اصلاح و عمدگی لانے کی کاوشیں اب بھی جاری ہیں۔ بات تو اُس دور کی ہو رہی ہے، اس زمانے میں قدریں جیسی بھی تھیں، بس تھیں۔ ابرہام کی کہانی میں دیکھیے نا ہمیں کوئی نہِیں اُکساتا کہ ہم بھی وُہ سب کُچھ کریں جو اُس نے کِیا، ہمیں تو چاہیے اس کہانی کے نتیجہ پر توجُّہ مرکوز رکھیں اور سبق حاصل کریں۔ ہمارے ہضم کرنے کی بات تو اس کہانی میں یہ ہے کہ پوری زندگی وُہ یہواہ (خُدا) پر پکے ایمان کے ساتھ اس کا وفادار رہا۔ یہی سب سے بڑی بات ہے۔ اقدس عہدِ عتیق کی تلاوت کرتے ہوئے ذہن و دل کھُلا رکھ کے غور کرتے ہوئے دلجمعی اور وسیع القلبی سے کام لینا چاہیے۔ وقت، ماحول اور زمانے کی نزاکتوں کو ضرُوری ہے کہ نِگاہوں میں رکھا جائے۔ بہ ہر کیف یہ تو حقیقت فراموش نہِیں کی جا سکتی کہ دُوسرے لوگ بعض چیزوں کو بہُت دُوسری طرح کرتے ہیں۔ ریتیں، رسمیں، روایتیں، رواج اپنے اپنے ہوتے ہیں۔ انھی سے قومیں اور زمانے پہچانے جاتے ہیں۔

مطالعہ کلام مُقدّس کے سمے اس وقت مشکلات حائل نہِیں ہوتیں جب ایسے حالات بیان کیے جا رہے ہوں جن میں بد اطواریوں کو برائیوں کے طور پر نُمایاں کِیا گیا ہو۔ مثلاً لواطت کے گُناہ کے بارے میں دیکھیے اس پر نفرین کی گئی ہے۔ ایسی بد عادات بھی ہیں جن کو خصوصی طور گُناہوں کی فہرست میں شامل کِیا گیا۔ جیسے دخترانِ لوط کی حیلہ سازی و گمراہی:

حوالہ....تکوین....19

تاہم، ایسا بھی ہے، کہ خیال گُذرتا ہے، بعض صُورتوں میں جیسے خُدا نے جان بوجھ کے بُکّل مار لی۔ یعقوب کے دغا دینے کی حکایت اس کی مثال ہے:

حوالہ....تکوین....27

(کلامِ مُقدّس ان واردات کا ذِکر تو کرتا ہے لیکن ان کی تصدیق یا تائید نہِیں کرتا)

اُوپر کی مثالوں کی قطارمیں اِتنی ہی مضبُوط مثال کنعانیوں کی تباہی وبربادی کی داستان ہے:

حوالہ....یوشع....8

اس میں تو آیا ہے کہ ایک طرح کی اس تباہی کا حُکم خُود یہواہ نے دیا تھا۔ حوالہ کے لیے ملاحظہ فرمائیے سُوال نمبر27 کا جواب۔

بہ ہرحال ہمیں قدیمی عُیُوب قسم کے حالات و واقعات کا بھی بغور جائزہ لینا ہو گا۔ ناپایداریِ شُعُور کی وجہ سے اس سے بہتر وُہ لوگ اور کُچھ سوچ ہی نہ سکتے تھے۔ یہواہ کی بتائی طرزِ عبادت میں پاکیزگی و تقدیس قائم رکھنے کے لیے یہ ان کی کوشِش تھی کہ وُہ اپنے زمانے کے طور طریقوں، رواج اور اس دور میں رائج ثقافت، یعنی ارتقا پذیر ثقافتی قدروں، کے مُطابِق ہی عمل کرتے رہیں۔ یہواہ کی حُکمتوں کا گہرا ادراک ابھی دُور کی چیز تھی۔ یہواہ پر دُرُست ایمان قائم رکھ لینا ہی بہُت بڑی بات تھی۔ خُدا کا، اس کے منہ سے نکلا کلام نئے عہد نامہ میں ہے، پرانے عہد نامہ میں باتیں دُوسروں کی بتائی ہُوئی ہیں۔ جس قتال و غارتگری کا یوشع کی مُقدّس کتاب میں ذِکر ہے، اس پر بھی یہی بات صادق آتی ہے۔ اِنسان خطا کا پتلا تو ہے ہی اس لیے نامکمل اور ناپختہ ایسی باتیں جن کا تذکرہ مُقدّس عہدِ عتیق میں ملتا ہے، انھیں صرفِ نظر کرنے میں دشواری پیش نہ آنی چاہیے۔ خُداوند یسُّوع مسیح نے مثال دی تھی کہ یہ ایسے ہے جیسے بآسانی کوئی اپنی بیوی سے اپنی جان اُسے دُو ربھیج کے چھڑا لے۔ وُہ بیوی بھی رہے گی، حرزِ جاں بھی نہ ہو گی۔ یہ خُداوند پاک نے اس لیے کلام کِیا کہ اس کے پیشِ نظر ان لوگوں کی پتھّر دلی تھی، بربریت جن میں رچ بس چُکی تھی۔ مگر شُرُوع میں ایسا ہرگز نہ تھا:

حوالہ ....مُقدّس متی....8:19

سخت دلی، ظلم وستم، تاخت وتاراج، قتل و غارت اُمّی زمانے کے لوگوں کی گھُٹّی میں پڑی تھی۔ مگر یہ تباہی و بربادی یہ قتلِ عام جتنا مشہور ہے اس سے کہیں کم تھا۔ اور نسبتاً اس سے تو بہُت بہُت، بہُت کم جتنا ریاست ہاے متحدہ امریکا میں وہاں کے اصل باشندوں پر روا رکھا گیا، یا اڈولف ہٹلر نے جتنا قہر یہُودیوں پر توڑا۔

Contact us

J. Prof. Dr. T. Specker,
Prof. Dr. Christian W. Troll,

Kolleg Sankt Georgen
Offenbacher Landstr. 224
D-60599 Frankfurt
Mail: fragen[ät]antwortenanmuslime.com

More about the authors?