German
English
Turkish
French
Italian
Spanish
Russian
Indonesian
Urdu
Arabic
Persian

سوال نمبر102

رائیلیوں یعنی یہودیوں کو اللہ تبارک تعالیٰ کے ہاں پھٹکار کے لائق کیوں قرار دیا گیا؟ کیا آج کل کے اہلِ یہود بھی اس الٰہی ملامت کی زد میں آتے ہیں؟

 

جواب:۔ ہم چاہیں گے کہ پُروقار و باضابطہ مذہبی اعلامیہ Nostra Aetate No. 4 یعنی دیگر مذاہب کے ساتھ کلیسیا کے تعلقات کی شق چار کی طرفآپ کی توجُّہ مبذول کروائیں۔ یہ اعلامیہ دوسری ویٹی کن مجلس کے موقع پر تیار کِیا گیا تھا۔ اس کے متن کو سوال نمبر15کے جواب میں مناسب حد تک زیرِ تبصرہ لایا گیا ہے۔ اُس سے استفادہ کِیا جا سکتا ہے۔ کیتھولک بالغوں کے لیے مسیحی تعلیم کی کتاب(1985عیسوی) جو جرمن بشپس کانفرنس کی جانب سے طبع کروائی گئی، اس میں درج ہے:

پاک خُداوندکا یقین و اعتماد یہودیوں اور مسیحیوں کو آپس میں جوڑے رکھنے کا بہترین سبب ہے۔ جب کہ یسوع پاک پر ایمان و اعتقاد یہودیوں اور مسیحیوں کے درمیان دراڑ پیدا کر دیتا ہے۔ یہودیت کے برعکس مسیحیت میں ایک امتیازی فرق یہ ہے کہ مسیحی خُداوندِ اقدس یسوع مسیح پر پکّا ایمان رکھتے ہیں، اسے اپنا بھائی مانتے ہیں کیوں کہ وہ خُدا کا بیٹا اس خُدا کا جس نے خُداوند کی صلیب کے ذریعے بنی اسرائیل سے کِیا گیا اپنا وعدہ پورا کر دکھایا۔ اور اُسے مُردوں میں سے پھر زندہ کر دیا۔ وہی صلیب تھی جو اُس زمانے کے یہودی کرتا دھرتاؤں نے خُداوند یسوع مسیح کو مصلوب کرنے کے لیے اسے پیش کی تھی تا کہ وہ اذیت ناک موت مرے۔ یہ وہی مقدس صلیب تھی جو تمام مسیحیوں کے لیے اُن کے مکتی کا نشان بن گئی۔ اور کچھ غلط بھی نہ ہو گا اگر ببانگِ دُہل یہ دعویٰ کِیا جائے کہ یہ صلیب علامت ہے عالمگیر امنِ عامہ کی (حوالہ وہی نوسترا ایتاتے، شق نمبر 4 دیگر مذاہب کے ساتھ کلیسیا کے تعلقات) 

لہٰذاپولوس رسول کے قول کے مطابق اہلِ یہود کو مسترد کی گئی اور لعنت ملامت کی گئی قوم کی صف میں کھڑا کر دینا انتہائی نامناسب رویّہ کہلائے گا۔
پس مَیں کہتا ہُوں کیا خُدانے اپنی قوم کو رد کر دیا ہے؟ ہرگز نہیں۔ کیوں کہ مَیں بھی اسرائیلی ہُوں، مَیں بھی ابراہیم کی نسل اور بنیامین کے قبیلے میں سے ہُوں۔ خد ا نے اپنی اُس قوم کو رد نہیں کِیا جسے اُس نے پہلے سے جانا۔۔۔۔۔۔

رومیوں کے نام۔۔۔۔۔۔1:11اور2

خدا کو اب بھی اپنے لوگوں سے پیار ہے، ان کے بزرگوں کی وجہ سے، ان کے لیے روا رکھی گئی الٰہی بخشیشوں، الٰہی نعمتوں کے سبب، خُدا کے بلاوے، اس کی بلاہٹ کو جس پر اُنھوں نے حاضر ربی، حاضر خُداوندِ خُدا حاضر، کہا۔ چناں چہ وہ نعمتیں، وہ بلاہٹ، وہ ناز برداریاں الٰہی محبت کے ناتے آج بھی جاری ہیں، ان سے دستِ قدرت کھینچ نہیں لیا گیا، پُرکھوں کے بعد اگلی پیڑھیاں ان سے برکت پا رہی ہیں۔۔۔۔۔۔ باپ دادا کی خاطر سب خُدا کو پیارے ہیں۔

اِس واسطے کہ خُدا اپنی نعمتوں اور دعوت میں غیر متبدّل ہے

رومیوں۔۔۔۔۔۔29:11

بہ ایں سبب یہودیوں کی وہ تمام نفرتیں اور کدورتیں اور خاص طور پر وہ ایذا رسانیاں جن کی تکرار پر تکرار ہوتی رہی اور جن کی مثال پوری تاریخِ مسیحیت میں جا بہ جا بکھری ہے اور اس کی تفصیل کے سچّائیوں بھرے لفظ لفظ سے کل تک دِلدوز چیخیں آسمان سر پر اُٹھائے ہوئے تھیں، اُن کی، اُن زیادتیوں کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے، وہ تو ٹھیک ہے مگر ہر اندوہ ناکی نے کہِیں نہ کہِیں ختم بھی ہونا ہوتا ہے۔ وہی بات کہ

ظلم پھر ظلم ہے بڑھتا ہے تو مِٹ جاتا ہے

چناں چہ صیہونیت کے ساتھ ماضی کو ایک طرف رکھتے ہوئے اور مسیحی اوصافِ امن و محبت کی جِلا کے باوصف یہودیت کو مسیحیت کی طرف سے مکالمہ کی دعوت ہے۔ عصرِ حاضر میں بھائی چارے کی فضا کو تقویت دیتے ہوئے پُرخلوص مکالمہ کی داغ بیل پڑ چکی ہے۔ یہ امن کی امین اور محبت کی دعویدار سعی جاری رہنی چاہیے تا کہ گہرے جذبات کے ساتھ گہرے ترین تعلقات کو سپیس ملے۔ (صفحہ63پربھی ایک نظر پلیز!)

مقدسین کی سفارش اور لیاقت کے سبب اے خُدا ہمیں فضل اور نعمتیں بخش! آمین

Contact us

J. Prof. Dr. T. Specker,
Prof. Dr. Christian W. Troll,

Kolleg Sankt Georgen
Offenbacher Landstr. 224
D-60599 Frankfurt
Mail: fragen[ät]antwortenanmuslime.com

More about the authors?