German
English
Turkish
French
Italian
Spanish
Russian
Indonesian
Urdu
Arabic
Persian

:سوال نمبر182

رومن کیتھولک چرچ کے زیرِ سایہ جو لوگ مقدس بپتسمہ پانا چاہتے ہیں انھیں ایک طویل عرصہ تک ’’کیٹیکزم‘‘ کا مطالعہ کرنا پڑتا ہے۔ کیٹیکزم سے کیا مراد ہے؟


جواب:

۔کیتھولک کلیسیا کی مذہبی مسیحی تعلیم کی کتاب میں بتپسمہ سے پہلے مسیحی تعلیم و تربیت کی مدت کے بارے میں خاطر خواہ آگاہی دی جا چکی ہے اور خاص طور پر بپتسمہ پانے کے بالغ امیدواروں کے لیے اس ضمن میں بہت زور دیا گیا ہے۔

1247۔ ابتداے فعالیتِ کلیسیا سے ہی بالغان کے لیے بپتسمہ ایک اہم اور عام روایت رہی ہے جب کہ اعلانِ خوشخبری، انجیلِ پاک کی منادی، آج بھی ثانوی فوقیت پر ہے۔ بپتسمہ سے پہلے کیتھولک مسیحی تعلیم و تربیت اس کے لیے تیاری کی پہلی شرط ہے اسی لیے اس کی اہمیت سب پر مقدم ہے۔ دینِ مسیحی میں باضابطہ شرکت اور مسیحی زندگی میں شمولیت کے لیے طالبِ دینِ مسیحی کا رجوع اس طرف لانا ضروری ہے کہ قبولیتِ مسیحیت کے لیے خدا کے اس انعام کی مستحق ہونے والی قابلیت درکار ہے جو بپتسمہ پاک سے حاصل ہوتی ہے، استحکام کے ساکرامینٹ اور پاک یوخرست سے خدا کی برکت اور اس کا انعامِ ربی ملتا ہے۔

1248۔امیدوارانِ مسیحیت کے لیے، مذہبی سوجھ بوجھ، مسیحی عقائد، قواعد و ضوابط اور شریعتِ دین سے آگہی کے ضمن میں ، مکمل نہیں تو اچھی بھلی واقفیت کا حصول پہلا ضروری اقدام ہے۔ یہی مقصد ہوتا ہے مسیحی تعلیم و تربیت سے متمتع کرنے کا کہ جب کوئی فرد مسیحی برادری میں شامل ہونے پر مائل ہو تو اُس کے عقیدے میں پختگی کی صلاحیت در آ چکی ہو اور جب پورے طور مسیحیت میں داخل ہو تو ربانی تحریک و پیش قدمی کے ساتھ وہ مکمل طور پر کلیسیائی جماعت کا رکن بن چکا ہو، کامل ایمان کا حامل ہو اور امتِ مسیحی کا اہم ترین رُکن بن کے الٰہی نعمتوں سے مستفیض ہو۔ یہ تعلیم و تربیت اس کی ساری زندگی کا احاطہ کرے گی… تبھی اس کا رِشتہ مقدس خداوند یسوع مسیح سے مضبوطی کے ساتھ اُستوار ہو گا کہ وہ پیروکار تو اسی عظیم و عالی مرتبت استاد کا ہی ہوا نا۔ طالبانِ دینِ مسیحی، کہ نجات کے تمام اسرار و رموز سے واقف ہو چکے ہوں گے، انجیلِ مقدس کی پُرزور بشارتوں سے آشنا ہو چکے ہوں گے اور مذہبِ مسیحیت کی ممکنہ شد بد رکھتے ہوں گے، آدابِ لطوریا کی تربیت سے لیس ہو چکے ہوں گے، تب پیہم پاک لطوریائی رسومات کی ادائی میں طاق ہو کر خدا کے لوگوں کی طرح الٰہی محبت کی عطا ایسے ہی مسیحیوں کا بھی حق بن جائے گی۔

(Adgentes-14، فرمانِ تبلیغ۔14)

1249۔ امیدوارانِ مسیحیت کو مقدس کلیسیا نے قبول کر لیا، وہ خداوند مسیح کے گھرانے کے فرد بن گئے اور وہ قریباً اکملیت کے ساتھ مذہبی زندگی، دینی طور طریقے، اختیار کرنے لگے۔ الٰہی محبت، امید اور دین کو اُنھوں نے اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا… تو گویا وہ مسیحی رنگ میں پورے کے پورے رنگے گئے۔ جان لیجیے کہ بے تابانہ شدید خواہش و رضامندی کے ساتھ مادر کلیسیا نے بھی ان کے لیے اپنی شفقت و محبت بھری آغوش وا کر دی اور اُنھیں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اپنا کر لیا۔

(منشورِ کلیسیا14:Lumen Gentuim-14)

مذہبِ مسیحی اور بپتسمہ

1253۔ بپتسمہ ایک مذہبی ساکرامینٹ ہے۔

جو ایمان لاتا او ربپتسمہ پاتا ہے، وہ نجات حاصل کرے گا۔ پر جو ایمان نہ لائے وہ مجرم ٹھہرایا جائے گا۔

مقدس مرقس…16:16

ایماندار لوگوں کی جمیعت مذہب کی ضرورت ہوتی ہے، مذہب، کوئی بھی عقیدہ و مسلک مقتضی ہوتے ہیں کہ زیادہ سے زیادہ لوگوں تک ان کی رسائی ہو ۔ اور یہ کلیسیا کا ایمان کی حد تک یقینِ محکم ہے کہ ہر مومن مسیحی کے اُس ایقان کی پاسداری کرے جس کا وہ کلیسیا سے متمنی ہے۔ مذہب کو انسانوں کی اور انسانوں کو مذہب کی ضرورت ہوتی ہے۔ بپتسمہ کے لیے عقیدہ مکمل اور پختہ اس لیے نہیں قرار پا سکتا کہ یہ تو اگلی منزل کے لیے اقدامِ اولین کی حیثیت ہی رکھتا ہے بس۔ متلاشیِ دینِ مسیحیت سے یا اس کے دینی باپ سے پوچھا جاتا ہے کہ خداوند پاک کی مقدس کلیسیا سے آپ کیا توقع رکھتے ہیں؟ … متوقع جواب سے ہٹ کے تو کچھ نہیں ہو سکتا: ’’ایمان‘‘۔

1254۔ تمام بپتسمہ یافتہ مسیحیوں، خواہ بچے خواہ بڑے، ان کے ایمان و عقیدہ میں مسلسل پختگی آتی چلی جانا چاہیے۔ اسی مطمحِ نظر سے کلیسیا کی طرف سے عیدِ قیامتِ مسیح کی شب بیداری کے موقع پر بپتسمہ کے وعدوں کی تجدید کی جاتی ہے جب کہ انھیں طاقِ نسیاں کی نذر کرسکنا ویسے بھی محال ہے۔ کیوں کہ بپتسمہ کی تیاریاں تو محض نئی زندگی کا سنگِ آستان ہوتی ہیں، دہلیز… اس سے پار مسیحی حیاتِ نو کا آغاز ہوتا ہے۔ خداوند یسوع پاک میں بپتسمہ نئی زندگی کے لیے اہم ترین ذریعہ ہے جس سے تمام کی تمام مسیحی زندگی نمو پاتی ہے۔

1255۔تا کہ بپتسمہ کے فضائل، برکتیں اور اثرات سامنے آجائیں۔ اس کے لیے والدین کا تعاون اہم ترین عوامل میں سے ایک ضروری عمل مانا جاتا ہے۔ ایسا ہی اہم کردار دینی باپ اور ماں کا ہے جو وہ ادا کرتے ہیں، بل کہ وہ تو ضامن ہوتے ہیں۔ انھیں ایمان میں راسخ ہونا چاہیے تا کہ وہ اس قابل ہوں اور ہر پَل مستعد کہ تازہ بپتسمہ یافتگان کی رہنمائی اور مدد کر سکیں۔ دینی والدین کی اپنی ایک اہمیت ہوتی ہے۔ جب بپتسمہ کے امیدوار بچے کے اپنے والدین کلیسیا کے براہِ راست رکن نہ ہوں تو مسیحی زندگی کی مطلوبہ منزل کی راہیں وہی طے کر اسکتے ہیں جو دینی خدمت کے مشتاق اور مشّاق ہوں۔ کلیسیائی جماعت کی اپنی ایک ذمہ داری ہے کہ جو برکت اور الٰہی فضل بپتسمہ کے ذریعے عطا کِیا جاچکا ہے اس کے استقرار و استحکام و نگہبانی و تحفظ کا فرض مستحسن طریقے سے نبھاتے رہیں۔ کیوں کہ تحفظِ ایمان و اخلاق جماعتی کلیسیائی عمل ہے جس کے لیے ضامن ماں باپ کا تعاون بھی بدرجہء اتم ضروری ہے۔

ابتدائی کلیسیا کی جو کارگزاری ہوتی تھی بعض ممالک نے بھی وہی پریکٹس جاری رکھی اور انھوں نے بھی کلیسیائی مسیحی تعلیم و تربیت کے لیے تین سالہ دور متعارف کروا رکھا ہے جس کے لیے مسیحی عامۃ الناس (ضامن ماں باپ) مرکزی کردار ادا کرتے ہوئے بپتسمائی امیدوار کو تعاون فراہم کرتے ہیں تا کہ روزمرہ زندگی کے جو معاملات ہیں ان میں وسعت کی انھیں جانکاری ملے کہ ان کا دائرئہ اختیار کس قدر اُفق ہاے الٰہی بخشش یعنی آس امید تک بسیط ہے۔ اس دورانیے میں مسیحیت کے دلدادہ امیدوار باقاعدہ اس زمانہ کی لطوریائی عبادات میں شریک رہتے ہیں، حتّٰی کہ تیسرا سال اختتام کو آ پہنچتا ہے اور عیدِ قیامت مسیح کی پاشکائی عبادت کے موقع پر انھیں پاک بپتسمہ دے کر یوخرست مقدس میں شرکت عطا کر دی جاتی ہے۔ اس عمل سے گذرنے کے بعد یعنی ایسٹر کے پہلے ہفتہ میں مقدس بشپ صاحب ایمان و عقیدہ کے اصل بھیدوں کو ان پر واضح کرتے ہوئے استحکام کے ساکرامینٹ سے مستفید کرتے اور استقلال دیتے ہیں۔ یہ مسیحی تعلیم کے عُمق کی عکاس ہے: یہ بنیادی طور پر مذہبی صداقتوں کی تعلیم پر موقوف نہیں ہوتی کہ دینی علوم کی اکائیوں پر ہی محمول رہے، ہمارے وجود کے باطن میں اُتر کر اسرارِ خداوندی کا عرفان دینے والی تعلیم و تربیتِ مسیحیت ہوتی ہے۔ (Karl Rahner)اور دعوت دیتی ہے خدا عظیم و جلیل کی انسانوں سے وابستہ عظمت و جلال کی تاریخ کی روشنی میں روحانی طلب کے لیے وقف ہماری ذاتی زندگیوں کے ادراک کی۔

(W. Fürst & J. Werbick (Hg), Katholische Glaubensfibel. Freiburg: Herder, 2004, p. 183.)

Contact us

J. Prof. Dr. T. Specker,
Prof. Dr. Christian W. Troll,

Kolleg Sankt Georgen
Offenbacher Landstr. 224
D-60599 Frankfurt
Mail: fragen[ät]antwortenanmuslime.com

More about the authors?