:سُوال نمبر3
مسیحی تعلیمات کیوں کر اصول و قواعد کے مُطابِق کہلائی جا سکتی ہیں جب کہ ایک میں تین، تین میں ایک ذاتِ الٰہی کا بنیادی فلسفہ ہے۔ کیا یہ معقولیت کا فقدان نہِیں؟
یا ہیں؟
جواب:۔ گزارش ہے ذرا توجُّہ اور سنجیدگی سے تھِیم5 کے جزو3 کی شق5 اور جز4 کا مطالعہ کیجیے۔
خُداے واحد مَحَبّت ہی مَحَبّت ہے اور اس کی مخلُوق میں سے حضرتِ اِنسان کو جسے اشرف المخلُوقات کا درجہ دیا گیا ہے اپنے خالق سے اور آپس میں ایک دُوسرے کے ساتھ مَحَبّت روا رکھنے کی صفت سے متصف کِیا گیا۔ مَحَبّت مشروط نہِیں، مَحَبّت باہم دگر مسیحیوں کے لیے فرض ہے
خطُوطِ عام، از:1۔ مُقدّس یوحنّا7:4 تا21
"اے پیارو! آﺅ ہم ایک دُوسرے سے مَحَبّت رکھیں کیوں کہ مَحَبّت خُدا سے ہے اور جو مَحَبّت رکھتا ہے وُہ خُدا سے پیدا ہُوا ہے، اور خُدا کو پہچانتا ہے۔
جس میں مَحَبّت نہِیں، وُہ خُدا کو نہِیں جانتا۔ کیوں کہ خُدا مَحَبّت ہے۔
خُدا کی مَحَبّت اِس سے ہم پر ظاہر ہُوئی کہ خُدا نے اپنے اکلوتے بیٹے کو دُنیا میں بھیجا ہے تاکہ ہم اس کے ذریعہ سے زندگی پائیں۔
مَحَبّت اِس میں نہِیں کہ ہم نے خُدا سے مَحَبّت رکھی، بل کہ اس میں ہے کہ اُس نے ہم سے مَحَبّت رکھی اور اپنے بیٹے کو بھیجا تا کہ ہمارے گُناہوں کا کفّارہ ہو۔ اے پیارو! جب کہ خُدا نے ہم سے ایسی مَحَبّت رکھی تو چاہیے کہ ہم بھی ایک دُوسرے سے مَحَبّت رکھیں۔
خُدا کو کبھی کِسی نے نہِیں دیکھا، اگرہم ایک دُوسرے سے مَحَبّت رکھیں تو خُدا ہم میں رہتا ہے اور ہماری وُہ مَحَبّت جو اُس سے ہے ہم میں کامل ہو گئی ہے۔ ہم اِسی سے جانتے ہیں کہ ہم اُس میں رہتے ہیں اور وُہ ہم میں۔ کیوں کہ اُس نے اپنی رُوح میں سے ہمیں دیا ہے۔ اور ہم نے دیکھ لیا ہے اور گواہی دیتے ہیں کہ باپ نے بیٹے کو اِس لیے بھیجا ہے کہ دُنیا کا نجات دہندہ ہو۔ جو کوئی اِقرار کرے کہ یسُّوع خُدا کا بیٹا ہے تو خُدا اُس میں اور وُہ خُدا میں رہتا ہے۔ اور جو مَحَبّت خُدا کو ہم سے ہے ہم نے اُسے پہچان لیا ہے اور سچ جان لیا ہے۔ خُدا مَحَبّت ہے اور جو مَحَبّت میں رہتا ہے، وُہ خُدا میں رہتا ہے اور خُدا اُس میں۔ اس سے مَحَبّت ہم میں کامل ہو گئی ہے کہ ہم عدالت کے دِن خاطر جمع رکھیں کیوں کہ جیسا وُہ ہے، ویسے ہی ہم بھی اِس دُنیا میں ہیں۔
مَحَبّت میں ڈر نہِیں ہوتا بل کہ کامل مَحَبّت ڈر کو باہر نکال دیتی ہے کیوں کہ ڈر میں سزا ہے مگر جو ڈرتا ہے اُس میں کامل مَحَبّت نہِیں ہوتی۔ پس ہم مَحَبّت رکھتے ہیں کیوں کہ اُس نے ہم سے پہلے مَحَبّت رکھی۔
اگرکوئی کہے کہ مَیں خُدا سے مَحَبّت رکھتا ہوں اور اپنے بھائی سے وُہ دُشمنی رکھتا ہو تو وُہ جھُوٹا ہے۔ کیوں کہ اگر وُہ اپنے بھائی سے جس کو دیکھا ہے مَحَبّت نہِیں رکھتا تو خُدا سے کہ جس کو نہِیں دیکھا، کیوں کر مَحَبّت رکھ سکتا ہے؟
اور ہم نے اس سے یہ حُکم پایا ہے کہ جو کوئی خُدا سے مَحَبّت رکھتا ہے، اپنے بھائی سے بھی مَحَبّت رکھے۔"
چُناں چہ ایک میں تینوں اقانیم بہ یک وقت اس کیفیت میں اپنا انطباق ظاہر کرتے ہیں جو مَحَبّت کی روانی، اس کی لہراں بہراں یعنی اس کے رِدھم کی تکمیل پر منتج ہوتی ہے: محب، محبوب اور مَحَبّت.... مطعی، مطلوب اور عطا....
Giving
Receiving
اور
Returning
مُقدّس باپ، مُقدّس بیٹا اور رُوح القُدس....یوں تینوں ہستیاں (شخصیات نہِیں، ہستیاں) ایک ہیں۔ خُدا کی حقّانِیّت میں سمائی ہیں، تینوں ایک ہی وُجُودِ مَحَبّت ہیں سراسر۔ تینوں کے بغیر گزارہ نہِیں، خُدا تو ہے ہی مَحَبّت ہی مَحَبّت۔ غیر مشروط مَحَبّت۔ بے شک وُہ بے غرض مَحَبّت کا دیالُو ہے اور حُبِّ خُداوندی تک کوئی بھی نہِیں پہنچ سکتا ما سوا دُوسرے دو مُقدّس اقنُوموں کے۔ ہم سب گواہ ہیں خُداے کائنات ایک ہے، وُہ سب کا خُدا ہے۔ اِسی لیے اُس کی وحدت میں کمیونٹی ہے، یکجائیت ہے، وُہ اپنی ذات میں سوسائٹی ہے، سماج ہے۔ یہ جو مَحَبّت کا ایک ہالہ سا ہے جس نے تمام اِنسانوں بل کہ پوری کائنات کو اپنے حصار میں لے رکھا ہے، یہ اُسی کی دین ہے جو ان تینوں مُقدّس ترین ہستیوں پر موقوف ہے: مُقدّس باپ، پاک تثلیث اور تخلیق
love
to be loved
اور
to love with others
حوالہ:1۔مُقدّس یوحنّا3:1
"جو کُچھ ہم نے دیکھا اور سُنا اُس کی خبر تُمھیں دیتے ہیں تا کہ تُم بھی ہمارے ساتھ رفاقت رکھو اور ہماری رفاقت باپ کے ساتھ اور اُس کے بیٹے یسُّوع مسیح کے ساتھ ہے۔"
ہر بات انجامِ کار ایک دُوسرے سے جُڑے سلسلے کی ایکتا تلک پہنچتی ہے۔ اتحاد کیا ہے؟ مُقدّس اقانیم کا کُلّیت کی صُورت میں یکجا ہونا، ایک ہو جانا۔ یہاں اتحاد سے مُراد میل، ہم آہنگی یا یکجہتی نہِیں بل کہ ایک میں تین، تین میں ایک ہونے کی حقیقت اتحاد ہے۔ خُدا میں توحید کے اِقرار کے لیے ہمارے سامنے ابدی نمونہ ہے تین میں موجُود ایک خُدا کی پاک ذات سے۔ جو اگاپے ہے، کاریتاس ہے۔ یہ وحدت وُہ وحدت ہے جس کا اِدراک اس کی ڈائنامزم سے ہی کِیا جا سکتا ہے اوریہ ڈائنامک قوت ہی ہے جو اتحاد کی طرف متحرک ہے۔ یہ ہوتی ہے .... شراکت و رفاقت: اتحادِ کلیسیا اور برادری۔
۔باہم صلح و ایثار1
2۔ اتحاد و اتفاق
3۔ہم آہنگی و مُطابِقت۔
ان تینوں سے بھلا کِسے اِنکار، مگر زبانی کلامی نا؟ عملی صُورت تو بہ ہرحال برعکس ہے، اسی لیے دُنیا بھر کے سیانے مذہبوں اور فرقوں، قوموں اور ملتوں، براعظموں اور ملکوں کے درمیان اتحاد پیدا کرنے اور جاری و ساری رکھنے کی خاطر شب و روز بے حد کوشاں رہتے ہیں۔ اور کیوں نہ رہیں وُہ جانتے ہیں کہ چاہتا تو ہر اِنسان ہے کہ ایکا ہو، ان کے درمیان ہم آہنگی ہو موافقت ہو۔ سکون، صلح پسندی اور امن جوئی ہر آدمی کی آشا ہے۔ ہر آدمی کی۔ جی ہاں جناب! عصرِ حاضر کی اصل حُکمران طاقت ٹیکنالوجی، ذرائع ابلاغ و نشریات اور کلچر و ایگری کلچر بھی اِسی تگ و دو میں دِن، رات بل کہ ہر لحظہ ہمہ تن مصروف ہیں کہ کِسی طور گلوبلائزیشن کے مقاصد پورے ہوں، باہمی روابط پروان چڑھیں اور مواصلات و ابلاغیات کو ترقی ملے۔ ان تمام مثالوں میں آپ کو ایک دُوسرے سے جُڑے سلسلے کی ایکتا نظر آئے گی۔ اب اتحاد کے دِینی اور دُنیاوی دونوں مطالب سامنے رکھیے۔ آپ کو پاک تثلیث اور ان میں کوئی نہ کوئی قدرِ مشترک ضرُور کہیں نہ کہیں دِکھائی دے گی جو مسیحی عقیدہ ایک میں تین اور تین میں ایک کی تصدیق کرے گی۔
دُنیا جس اتحاد کی تمنّائی ہے اس کا تو پاک تثلیث میں حُصُول ممکن ہو بھی چکا۔ وحدت کا کثرت اور کثرت کا وحدت میں نظر آنا یہی تو ہے۔
کی مثال سامنے رکھیے۔ (Species)اور ذیلی جنس کے بعد طبقہ بندی (Genus)علمِ سائینس میں جنس
اسی طرح پانی کو ذہن میں لائیے، پانی ہی برف ہے، بہتی ندی ہے اور بھاپ بھی ہے، آگ کو لیجیے ، حرارت بھی ہے، روشنی بھی اور دُھواں بھی۔ خُود آدمی کیا ہے؟ جسم، ذِہن اور رُوح۔ یہ مثالیں ایک اقنُوم میں تین اور تین اقانیم میں ایک ہونے کے نزدِیک ترین مشترکہ امثلہ نہ کہلائیں گی کیا؟ مساوات و مماثلت شرط ہے۔ صفتِ شراکت ایک ہے: مَحَبّت۔ خُدا مَحَبّت کی سوسائٹی ہے۔ وُہی پاک شراکت ہے۔خُدا ہی مُقدّسوں کا رفیق، عشاے ربّانی میں بھی خُدا ہی تو ہے۔ وُہ ہر جگہ موجُود ہے۔ وُہی تھا جو آسمانوں سے زمین پر آیا، اِنسان کے روپ میں۔ وُہ ہم میں آ گیا۔ ہمارے مسام مسام میں، سانس سانس میں، پور پور میں موجُود ہے۔ یُوں ہمارے دعوے کی تصدیقِ مزید ہو جاتی ہے۔ خُدا کی شراکتِ عام میں ہم بھی شامل ہیں، اُسے تو سب کی رفاقت پسند ہے، ہم اس پر ثابت قدم رہ سکتے ہیں اور رہنا بھی چاہیے۔ وُہ سب کا خالق ہے، سچّائی اور صداقتوں کا منبع، وُہ ہم میں آیا اور ہم نے بھی اپنی زندگی اُس کے نام کر دی۔
مَن تُو شُدم ، تُو من شُدی ، من تن شُدم ، تُو جاں شدی
تا کِس نہ گوئید بعد زاں ، من دیگرم ، تُو دیگری
(شدم من: مَیں ہو جاﺅں، شدی : ہو جا،تاکس نہ گوئید بعد زاں: تا کہ اس کے بعد کوئی نہ کہے، من دیگرم: مَیں اور ہوں، تو دیگری: تُو کوئی اور)
یہ وُہی بات ہے....
رانجھا رانجھا کردی نی مَیں آپے رانجھا ہُوئی
برکت و جلال والا خُدا ہی ہے جو ہمارے لیے بھلائی کرتا ہے، ہمیں اپنے زیرِ اثرِ کرم لاتا ہے۔ہمارے اعمال میں دُرُستی سے ہمیں نوازتا ہے۔ بے شک ہم تمجید والے خُدا کے احسان مند بندے ہیں جو ایک ہے اور تین میں ایک ہے، پاک خُدا۔