German
English
Turkish
French
Italian
Spanish
Russian
Indonesian
Urdu
Arabic
Persian

سُوال نمبر5:

۔مسیحی عقیدہ کے مُطابِق فلاحِ اِنسانِیّت کے لیے طے مشیتِ خُداوندی کو شیطان کی چالوں نے درہم برہم کر کے رکھ دیا۔ معاذ اللہ معاذ اللہ!! کیا اس کا آسان آسان یہ مطلب نہِیں کہ شیطان کی شیطنِیّت مشیتِ ایزدی پر سبقت لے گئی؟ اس طرح کے مسیحی عقیدہ کی رُو سے سطوت و شوکتِ خُداوندی پر حرف نہِیں آتا؟

 

جواب:۔بدرُوحوں کی بے بضاعتی اور اُن کی شیطانی قوتوں کے بارے میں مُقدّس بائبل میں واضح طور پر بتا دیا گیا ہے کہ وُہ کتنے پانی میں تھیں، خُداوند یسُّوع مسیح نے آ کر ان کا کیا حشر نشر کِیا اور دھرتی کو ان کی نحوست سے بالآخِر پاک کر دیا۔ مُقدّس مرقس کی انجیل مُقدّس میں وضاحت کی گئی ہے کہ خُداوند یسُّوع مسیح کا دُنیا میں ظہور ہُوا ہی اِسی مقصد کے لیے تھا کہ وُہ دُنیا پر ظاہر ہو اور باطل قوتوں کو شکستِ فاش سے آشکار کر دے، اِس دھرتی پر مقصدِ آمد المسیح شیطان کے خلاف اعلانِ جنگ تھا۔

"اور اُن کے عبادت خانے میں ایک شخص تھا جس میں ناپاک رُوح تھی۔ جس نے چِلّا کر کہا، اے یسُّوع ناصری! تجھے ہم سے کیا کام؟ کیا تُو ہمیں ہلاک کرنے آیا ہے؟ مَیں تجھے جانتا ہُوں کہ تُو کون ہے۔ قُدُّوس خُدا۔

یسُّوع نے اُسے ڈانٹا اور کہا کہ چُپ رہ اور اس میں سے نکل جا۔ تب ناپاک رُوح اُسے مروڑ کر اور بڑی آواز سے چِلّا کر اُس میں سے نکل گئی اور وُہ سب حیران ہو کر آپس میں یہ کہتے ہوئے بحث کرنے لگے کہ یہ کیا ہے؟ ایک نئی تعلیم با اِختیار!!! وُہ ناپاک رُوحوں کو بھی حُکم دیتا ہے اور وُہ اُس کی مانتی ہیں۔

فوراً اِس کی شُہرت جلیل کے سارے علاقے میں پھیل گئی۔"

بمُطابِق مُقدّس مرقس۔ باب ایک: آیات23 تا28

"شام کو جب سُورج ڈُوب گیا تو لوگ سب بیماروں اور آسیب زدوں کو اُس کے پاس لائے اور سارا شہر دروازے پر جمع ہو گیا۔ اُس نے بہتیروں کو شفا بخشی جو طرح طرح کی بیماریوں میں مبتلا تھے اور بہُت سی بد رُوحوں کو نکالا اور بد رُوحوں کو بولنے نہ دیا۔ اِس لیے کہ وُہ اسے پہچانتی تھیں۔"

 مُقدّس مرقس۔32:1 تا 34

"اور وُہ تمام جلیل میں اُن کے عبادت خانوں میں جا جا کر منادی کرتا اور بد رُوحوں کو نکالتا رہا۔"

مُقدّس مرقس۔39:1

"....اور فقیہ جو یروشلم سے آئے تھے، کہتے تھے کہ اس میں بعل زبُول ہے اور یہ کہ یہ بدرُوحوں کے سردار کی مدد سے بد رُوحوں کو نکالتا ہے۔ اور وُہ اُن کو پاس بُلا کر اُن سے تمثیلوں میں کہنے لگا کہ شیطان کو شیطان کیوں کر نکال سکتا ہے۔ اور اگر کِسی بادشاہی میں پھوٹ پڑے تو وُہ بادشاہی قائم نہِیں رہ سکتی۔ اور اگر کِسی گھرانے میں پھوٹ پڑے تو وُہ گھرانا قائم نہِیں رہ سکتا۔ اور اگر شیطان اپنا ہی مخالف ہو اور اُس میں پھوٹ پڑے تو وُہ قائم نہِیں رہ سکتا، بل کہ اُس کا خاتمہ ہو جاتا ہے۔ کوئی آدمی کِسی زور آور کے گھر میں گھس کر اُس کے اسباب کو لُوٹ نہِیں سکتا جب تک کہ وُہ پہلے اُس زورآور کو نہ باندھ لے اور پِھر اُس کے گھر کو لُوٹ لے گا۔

مَیں تُم سے سچ کہتا ہوں کہ آدم زاد کو سب کُچھ معاف کِیا جائے گا۔ گُناہ بل کہ کفر بھی جو وُہ بکتے ہیں معاف کیے جائیں گے، لیکن جو رُوح القدس کے خلاف کفر بکے گا وُہ کبھی معافی نہ پائے گا۔ بل کہ ابدی قصور کا مجُرم ہے۔ کیوں کہ وُہ کہتے تھے کہ اُس میں ناپاک رُوح ہے۔"

مُقدّس مرقس۔22:3تا 30

 خُداوند یسُّوع ، زیادہ مضبُوط و توانا و موثر آیا اور اُس نے باطل کو بھاگنے پر مجبور کر دیا۔ خُدا کی بادشاہی کی دھاک بیٹھ گئی۔ قوتِ خُداوندی کے بل بوتے پر شیطان اور شیطانی طاقتوں کویسُّوع المسیح نے باہر نکال دیا۔

"لیکن اگر مَیں خُدا کی رُوح سے بد رُوحوں کو نکالتا ہُوں تو (البتہ) خُدا کی بادشاہی تُمھارے پاس آ پہنچی ہے"۔ مُقدّس متی۔28:12

چوں کہ خُداوندِ یسُّوع مسیح نے ظلم و جبر اور طاغوتی طاقتوں کے خلاف فتحِ عظیم حاصل کرلی تھی اور اُن کا صفایا کر دیا تھا ہمیشہ کے لیے، اِس لیے شیطان، شیطان کے چیلوں، بد رُوحوں اور بھوت پریت سے ڈرنا مسیحیت میں وارا ہی نہِیں کھاتا، بندہ ہو مسیح کا پیروکار اور ڈر جائے شیاطین سے، ناممکن۔ ان کو تو خُداوند پاک نے صفحہء ہستی سے ہی ناپید کر دیا کب کا۔ اب تو بد رُوحوں سے دُنیا خالی ہے۔ اچھّّا ہے ہم اپنے آپ کو نظم و ضبط میں لائیں، احتیاط کا دامن نہ چھوڑیں۔ بپھرا اور دھاڑتا ہوا شہر۔ آپ کا ازلی دُشمن، شیطان، آپ کی تلاش میں مارا مارا پِھرتا ہے کہ آپ میں سے جو کوئی اُس کے ہتھّے چڑھے، اُس کے قابو آئے، بہکاوا دے کے وُہ اس پر پِل پڑے اور چِیر پھاڑ کر، کھا پی کے، یہ جا وُہ جا ہو جائے۔ اس کے خلاف مدافعت لازم ہے۔ دِین میں ثابت قدمی ہم سب پر فرض ہے۔

"ہوشیار اور بیدار ہو۔ تُمھارا مخالف شیطان گرجنے والے شیر ببر کے مانند ڈُھونڈتا پِھرا ہے کہ کِس کو پھاڑ کھائے۔

پس تُم ایمان میں مضبُوط ہو کر اُس کا سامنا کرو اور جان رکھو کہ تُمھارے بھائی جو دُنیا میں ہیں اور وُہ بھی ایسے ہی دُکھ اُٹھا رہے ہیں۔"

 خطوطِ عام۔ از1 مُقدّس پطرس8:5 اور 9

مُعلَّم کلیسیا میں دی جانے والی تعلیم و تربیت عین مُطابِقت رکھتی ہے اس شہادت کی جو کہ کلامِ مُقدّس عہدِ جدید سے متعلُّق ہے۔ اس لیے کہ اگر برائی اِنسانوں کو اپنا اسیر بنا لیتی ہے تو سمجھنے کی بات ہے کہ اس نے کِسی بُرے اصول سے تو جنم نہِیں لیا ہوتا۔ شیطانی کرتوتوں کا اس میں کوئی کمال نہِیں۔ آدمی کا آدمی شیطان ہے۔ نظریہء خیر و شر پر ذرا غور تو کیجیے۔ خُدا پاک نے تو اچھّّی مخلُوق تخلیق کی تھی لیکن اس نے اپنے اُوپر بُرائی کی کالک خُود مَل مَلوالی۔ بُرائی پر تو حضرتِ اِنسان خُود ہی رِیجھا، اس میں خُدا کی خُدائی پر کیا دوش۔ چرچ کی تعلیمات بتاتی ہیں کہ دُنیا میں بُرائی ہے تو بُرے لوگ بھی ہیں۔ اور اُنھیں خُدائی احکام، اصول و قواعد اور پابندیوں کی پروا نہِیں۔ مُقدّس بائبل میں اس بات کی تصدیق ہوتی ہے، نمبرایک یہ کہ کیتھولک تعلیم نے قعرِ مذلّت، دُنیا کی تاریک ترین اتھاہ گہرائیوں کے اِنسانی تجربات و محسوسات کو اپنا موضوع بنایا اور نمبر دو یہ کہ یہ تعلیمات بد رُوحوں کے چھا جانے اور ان کی اثر پذیری کو زنجیر ڈالتی ہیں۔ تاہم یہ ہَوَائی مخلُوق اپنی خالق آپ نہِیں، ابدالآباد تک جس کی قدرت ہے اس قدرت والے خُدا نے انھیں پیدا کِیا اور ان کا ظہور غیر مطلق اور وُجُود محدود رکھا۔ ان کے ہونے نہ ہونے، رہنے نہ رہنے، کُچھ کر سکنے، نہ کر سکنے کا اختیار اُن کے پاس نہِیں، ان کا سب کُچھ مرہُونِ منّتِ خُدا ہے۔ اُن کا ناپاک عہد خُداوند یسُّوع مسیح نے ملیا میٹ کر دیا۔ اور باقی کی کسر رُوح القدس نے پوری کر دی.... دُنیا اُمِّید پر قائم ہے۔

کس کی مجال کہ خُداوند قُدُّوس کو سبق یاد دِلائے کہ وُہ کیوں کر خطاکار اِنسانِیّت کو ان کی خطاﺅں سے نجات دے سکتا ہے، جب کہ مالک ہے، مکتی داتا ہے اور جو چاہے کرنے پر مکمل اختیار رکھتا ہے۔ اس پر کوئی پابندی یا حد عائد نہِیں ہو سکتی، اپنی ذات کی طرح اس کی مَحَبّت بھی لا محدود ہے۔ احسان مندی و شکر گزاری کے اِس احساس و یقین پر ہمارے تو بس اشتیاق کو مہمیز ہی لگ سکتی ہے اِس حقیقت کا اِدراک کر کے.... مہربان خُدا نے ہمارے لیے وُہ اداے کرم پسند فرمائی جس کے اعلان نے ہمارے رُوئیں رُوئیں کو ممنونِ احسان کر دیا۔ مُقدّس بائبل کے متبرّک الفاظ میں

"اے پیارو!

آﺅ ہم ایک دُوسرے سے مَحَبّت رکھیں کیوں کہ مَحَبّت خُدا سے ہے اور جو مَحَبّت رکھتا ہے وُہ خُدا سے پیدا (1۔مُقدّس یوحنّا....3:4)ہُوا ہے اور خُدا کو پہچانتا ہے."

تلاوتِ پاک کی مزید سعادت حاصل کیجیے اور غور و فکر کیجیے

"ہم نے اِس سے مَحَبّت کو جانا ہے کہ اُس نے ہمارے واسطے اپنی جان دے دی۔ اس لیے ہمیں بھی بھائیوں کے واسطے جان دینی چاہیے۔ جس کِسی کے پاس دُنیا کا مال ہو اور وُہ اپنے بھائی کو محتاج دیکھے اور اپنے آپ کو رحم سے باز رکھّے تو خُدا کی مَحَبّت اُس میں کیوںکر بستی ہے؟

اے بچّو! ہم کلام اور زبان ہی سے نہِیں بل کہ کام اور سچّائی کے ذریعے سے بھی مَحَبّت رکھیں۔ اس سے ہم جانیں گے کہ ہم سچّائی کے ہیں۔ اور اس کے آگے اپنے دِلوں کو تسلّی دیں گے کیوں کہ اگر ہمارا دِل ہمیں الزام دے تو خُدا ہمارے دِل سے بڑا ہے، اور سب کُچھ جانتا ہے۔

اے پیارو

(1۔مُقدّس یوحنّا....16:3تا21)اگر ہمارا دِل ہمیں اِلزام نہ دے تو ہم خُدا کے حضور خاطر جمع ہیں."

"کیوں کہ خُدا نے دُنیا کو ایسا پیار کِیا کہ اُس نے اپنا اِکلوتا بیٹا بخش دیا تا کہ جو کوئی اس پر ایمان لائے ہلاک نہ ہو، بل کہ ہمیشہ کی زندگی پائے۔ کیوں کہ خُدا نے بیٹے کو دُنیا میں اِس لیے نہِیں بھیجا کہ دُنیا پر فتویٰ دے بل کہ اِس لیے کہ دُنیا اُس کے وسیلے سے نجات پائے جو اُس پر ایمان لاتا ہے، اُس پر فتویٰ نہ دیا جائے گا۔ لیکن جو اُس پر ایمان نہِیں لاتا، اُس پر فتویٰ ہو چُکا۔ کیوں کہ وُہ خُدا کے اکلوتے بیٹے کے نام پر ایمان نہ لایا۔ اور فتویٰ یہ ہے کہ نُور دُنیا میں آیا اور آدمیوں نے تاریکی کو نُور سے زیادہ پیار کِیا، کیوں کہ اُن کے کام بُرے تھے۔ کیوں کہ جو کوئی بدی کرتا ہے وُہ نُور سے دُشمنی رکھتا ہے اور نُور کے نزدِیک نہِیں آتا۔ ایسا نہ ہو کہ اُس کے کام نُمایاں ہوں۔ مگر وُہ جو صداقت پر عمل کرتا ہے۔ نُور کے نزدِیک آتا ہے تاکہ اُس (مُقدّس یوحنّا....16:3تا21)کے کام نُمایاں ہوں کیوں کہ وُہ خُدا میں کیے گئے ہیں۔"

اس سے کام لیتے ہوئے اور بے شک، پس اندیشی اور خُداوند کی عطا جتنی بھی بصیرت و فہم ہے اُس کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے ہم تسلیم کرتے ہیں کہ جس طرح ہم خُدا سے اور خُدا کے بندوں سے مَحَبّت کرتے ہیں، خُدا بھی ہم سے مَحَبّت کرتا ہے مگر ایک شانِ خُداوندی سے، ہم.... ہم کہ عکسِ خُداوندی میں تخلیق ہوئے ہماری مَحَبّت میں بھی ایک شانِ نیازمندی تو پِھر ہے نا۔ بے لوث مُحِبِّین کی تمنّا ہے، پُرخُلُوص تمنّاہے کہ اپنی وفاداری بشرطِ اُستواری سے وُہ جس سے مَحَبّت کی جائے اُسے چھاجوں احترام و مَحَبّت کی برکھا کے پوتّر پانیوں سے تر بہ تر ہی کر دیں، ساری کی ساری مَحَبّت محبوب پر نچھاور کر دیں۔ دُنیاے اِنسانِیّت جسے خالقِ عظیم نے خُود تخلیق کِیا، اس میں بسائے گئے اِنسانوں کہ جن کے وُجُود کو تراشنے میں خُدا کی خُدائی کام آئی اسی اِنسان کے لیے وفورِ مَحَبّت میں خُداے رحم و کرم نے اپنی ٹھوس، پایدار اور بھروسے والی مَحَبّت وقف کر دی۔ خُداوندا واہ تیری شان! تجھ سے بڑھ کر کون کِسی سے پیار کر سکتا ہے۔بس گُناہ کو استثنا حاصل نہِیں۔ اس سے پرہیز ثابت ہے۔

Contact us

J. Prof. Dr. T. Specker,
Prof. Dr. Christian W. Troll,

Kolleg Sankt Georgen
Offenbacher Landstr. 224
D-60599 Frankfurt
Mail: fragen[ät]antwortenanmuslime.com

More about the authors?