German
English
Turkish
French
Italian
Spanish
Russian
Indonesian
Urdu
Arabic
Persian

:سُوال نمبر21

۔آپ کا دعویٰ ہے کہ ہر بچہ پیدا ہی مُبتلاے مُصیبت ہوتا ہے۔ یُوں مورُوثی گُناہ کی مُصیبت میں گرفتار، گویا فطری طور ہی گنہگار ہوتا ہے، یہ صحیح ہو بھی سکتا ہے، نہِیں بھی۔ پِھر تو بات یُوں ہو گی نا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے سب کے گُناہوں کی تلافی کر دی، تمام گنہگاروں کا اُنھوں نے تاوان کہہ لیں یا معاوضہ یا بدلہ، کُچھ بھی، اُنھوں نے اپنی جان کی قربانی دے کر سب ادا کر دیا۔ مگر عالی جناب یہ تو بتائیے، بھلا فر د کی ذِمّہ داری کا کیا بنا؟ وُہ گئی؟ چلیے سمجھ لیتے ہیں کہ وُہ آزاد ہے، کفّارہ ادا ہو گیا، سب کی گُناہ بخشی ہو گئی۔ پیغمبرِ خُدا نے اپنی جان قربان کر دی، وُہ واپس جی بھی اُٹھے۔ اب تو سب کے تمام گُناہوں کی قیمت چُکا دی گئی، یہ ارشاد فرمائیے کہ اب جو بھی بچہ پیدا ہوگا وُہ کیا اب بھی مورُوثی گُناہوں میں لِتھڑا ہو گا؟ اگر جواب اب بھی ہاں میں ہے تو نجات دہندہ حضرت عیسیٰ مسیح علیہ السلام نے جان پر عذاب کِس کی خاطر سہے، اُن کا مصلُوب ہونا رایگاں گیا کیا؟ یہ کیا کِیا اُنھوں نے؟

 

جواب:۔تھِیم 3کے سیکشن3 اور 4 کے مُطالَعہ کے لیے قاری سے گذارش ہے کہ جناب کرسچن ٹرال(ایس جے) کی کتاب مسلم سُوالات کے مسیحی جوابات سے پِھر رجوع کیجیے۔ اب کے مزید توجُّہ کے ساتھ۔

سُوال میں تین نِکات سامنے لائے گئے ہیں، جنھیں مَیں تین مراحل میں تقسیم کر کے ان کا جائزہ پیشِ خدمت کروں گا۔

 1) گُناہ بردار جینز یعنی خلقی گُناہ کی اصطلاح اور اِس مرئی وُجُود کی ماہیت و حقیقت

خُداوند خُدا پر پکّے ایمان کی روشنی میں تاریخ کی ترجمانی بائبل مُقدّس کی اساسی حیثیت مُسَلَّمَہ کُچھ یُوں ہے کہ خُدا یہ کبھی نہِیں چاہتا تھا کہ دُنیا ایسی ہو جیسی کہ اب ہے، نہ ہی اُس نے اِسے معرضِ وُجُود میں لانے کا مُدّعا یہ رکھا تھا کہ وُہ ایسی نکلے جیسی وُہ ہمارے سامنے ہے یعنی اِس کے باسی خُدا کی ایسی مخلُوق ثابت ہوں جیسی مخلُوق سے ہم اور ہم سے بنی نوعِ اِنسان دوچار ہوتے رہتے ہیں۔ یہ دِیدوادِید روزمرہ کا معمول ہے اور کھُل کر ہمارے تجربہ میں ہے۔ خُدا نے ہمیں زندگی دی، ہمارے لیے اسے نیا انعام بنایا نہ کہ موت کو۔ اُسے بے شک تختہءدُنیا پر ظلم اور نا انصافی، جبر وتشدُّد اور فریب و جھُوٹ سخت ناپسند ہیں۔ وُہ قطعاً نہِیں چاہتا کہ خلقت رنج، تکلیف اور دُکھ درد، مُصیبت کے بھاری پاٹوں میں پِستی رہے۔ وُہ تو اپنی رفاقت میں پسند کرتا ہے کہ لوگوں کو خُوشیوں میں کھیلتا دیکھے۔ خُداوند قُدُّوس کی حقیقی مرضی اور اصل فضل و کرم اور احسانات کی اہمیت بیان کرنے کے لیے بائبل مُقدّس ہمیں بہشت کی کہانی سے مُستفیض کرتی ہے۔ حوالہ کے لیے دیکھیے تکوین....2:آیت8 اور آیات15تا17۔

بہشت کی اِس کہانی کا بطن البطون یعنی مرکزی نکتہ کیا ہے؟ اسفارِ تواریخی کے اسفارِ خمسہ میں سے ایک ہے تکوین۔ اِس کے ذریعے اِنسانِیّت کے نُقطہءآغاز یعنی شُرُوعاتِ اِنسانِیّت کے بارے میں جو تعلیم ہم تک پہنچی وُہ کوئی ایسی سٹیٹمینٹ نہِیں جس میں ایسے سوچ بچار کے دَر وَا کیے گئے ہوں کہ وُہ ہڈّیاں جو پتھّر بن گئیں ان پر تحقیق کے نتائج سامنے لے آتی اور نظریہءارتقا کو جِلا ملتی، بل کہ مذہبی نُقطہءنظر پر محمول ایک بیان کے ذریعے اِبتداے آفرینش سے ہمیں دِینی طور پر آگاہ کِیا گیا۔ خُداوند خُدا نے اِنسانوں کو بہُت اچھّّا بل کہ بہُت ہی اچھّّا تخلیق کِیا۔ یہاں تک ہی بس نہِیں کر دی بل کہ اُس خالق مالک نے خلقت کو خُود اپنی زندگی میں شرکت کی بھی اجازت دے دی۔ وُہ ہم میں آن بسا۔

باغِ عدن کے بارے میں اور اس مُشتِ خاک کا خمیر اُٹھائے جانے کے سلسلے میں جو کہانیاں موجُود ہیں اور ان پر مُقدّس انجیلی توثیق اپنی جگہ مگر بہ نظرِ غائر دیکھا جائے تو معلوم ہو گا کہ اِن تفاصیل سے تو مضبُوط پس منظر ہی ہمارے سامنے آیا جس سے بشیرت کے حالاتِ حاضرہ تک کے بارے میں آگہی کی صُورتِ حال ہم پرواضح ہُوئی۔دِل برداشتگی کی کیفیّت کہ جس سے ہم پر مُردنی چھائی تھی وُہ اِس انکشاف کی تجلّی سے دُور ہو گئی کہ نہ تو خُدا کو ایسا پسند تھا اور نہ ہی دِل توڑنے والی صُورتِ حال خُدا کی تخلیق ہے۔ وُہ تو دِلوں کو جوڑنے والا ہے، توڑنے والا نہِیں۔ سُوال پیدا ہوتا ہے، تو پِھر گُناہ، معصیّت، بدی، بدکاری، بُرائی؟.... اِن کا وُجُود چہ معنی دارد؟

وہ آدمی ہی تھا جو گُناہ دُنیا میں لایا۔ اور موت.... گُناہ کے سبب موت دُنیا میں آئی۔ حوالہ رومیوں کے نام....12:5 مُقدّس رسُول پولوس کا اجمالی مگر جامع فیصلہ ہے، جس کا لُبِّ لُباب ہے باغِ بہشت سے خاک کا واپس خاک کی طرف سفر۔ کلامِ مُقدّس کے شُرُوع صفحات میں ہی وضاحت کے ساتھ اس کی داستان موجُود ہے۔ حوالہ تکوین....1:3تا24۔

زوالِ آدمیّت کی فقط یہی کہانی سُنا کے مُقدّس بائبل خاموش نہِیں ہو گئی۔ اِس ایک کہانی پر کیا موقوف۔ آگے تو پِھر گُناہوں کے برفشار ہیں جنھیں شہہ مِلی کہ کہانی در کہانی، داستاں در داستاں پھوٹ بہیں۔ نتیجہ یہ کہ گُناہوں کی سماجی و معاشرتی حُدُود کا تعیُّن سامنے آجاتا ہے۔ قابیل نے ہابیل کو قتل کر دیا۔ یہِیں سے خطا پر خطا سرزد ہونے لگی اور بُرائی سے بُرائی جنم لینے والا سلسلہ چل پڑا۔ اور یہِیں سے لوگوں میں اِنتقام کے جذبے نے جڑ پکڑی۔ حوالہ تکوین....4۔ اِسی طرح طوفانِ نوح کی کہانی، اِس طوفانِ عظیم نے دھرتی اور اس کے نظام کو ہی درہم برہم کر دیا، اِک نئی دُنیا کا آغاز ہُوا۔ حوالہ تکوین:6 اور پِھر وُہ بھی تو خوب کہانی ہے، بابل کے برج کی کہانی۔ حوالہ تکوین: 11۔

مُقدّس عہد نامہ جدید میں پولوس رسُول نے گُناہ کی جتنی کہانیوں کا ذِکر کِیا ہے وُہ کلامِ مُقدّس کے عہدِ عتیق سے لی گئی ہیں۔تکوین کے حوالے آپ کی نِگاہوں سے گُذرے۔ اب ملاحظہ فرمائیے مُقدّس رسُول پولوس موازنہ کرتا ہے پہلے آدم نبی کا دُوسرے کے حوالے سے، نیا مُقدّس آدم کوئی اور نہِیں....خُود خُداوند یسُّوع مسیح کی ذاتِ مُقدّس ہے۔

حوالہ....رومیوں کے نام....3:6

رومیوں کے نام.... 17,15,14,12:5

اِس ذیل کی انجیل مُقدّس کی آیات جو سنداً اولڈ ٹیسٹامنٹ (عہدِ قدیم) میں وارد ہُوئیں وُہ در اصل کِسی توثیق و تصدیق سے ماوریٰ ہوتی ہیں۔ یہ تو خُداوند یسُّوع مسیح کا اِعجاز ہے کہ گُناہ کی عالمگیریت اور اس کی اِنتہا کا ہمیں پتا چل سکا۔ مکتی ہو یا مصائب کا عذاب اِسی سے ہی ہماری اصل صُورتِ حال صحیح طور پر منکشف ہوتی ہے۔ تبھی تو یُوںعمومیّتِ طاقت و اختیارِ گُناہ پایہءثبوت کو پہنچتے ہمیں نظر آئے اور ہم جان گئے کہ عالمِ اِنسانِیّت پر گُناہوں کی مُنہ زور طاقت موت کا جبر بن کے چھا گئی۔ گُناہ کی آفاقیت کا اِدراک بھی دیکھا جائے گا تو سکّے کا ایک رُخ ہے، اُلٹا رُخ۔ پاک خُداوند یسُّوع مسیح میں نجات کی ہمہ گیریت کا منفی رُخ۔ جیسا کہ ہم جانتے ہیں یسُّوع پاک میں نجات سب کے لیے ہے، سب بخشے جائیں گے خُداوند کے صدقے۔ اب یہ جانکاری ہمارے لیے آسان ہو گئی کہ مُصیبتیں اور بد بختیاں، بُرائیوں کی نحوستیں اور صدمے پاک خُداوند یسُّوع مسیح کے جلال اور اس کی برکات و احسانات سے ورے ورے ہی ہیں۔ گُناہوں کا صداقت نامہ اِیشُو کرنے کی ضرُورت نہِیں رہی کیوں کہ اس کی کِسی بھی انحصار کے بغیر اپنی کوئی ایسی خاص اہمیّت نہِیں۔ یہ توعالم گیریت اور کثرتِ نجات جو خُداوند یسُّوع مسیح کے دم قدم سے ہے، انھیں مثالی حیثیّت دیتا ہے۔ ہماری مُکتی ہو چُکی پاک خُداوند کے طُفیل، اِسی بھروسے ہماری آس اُمِّیدوں اور تیقُّن نے اپنے مُکمَّل حصار میں لے رکھا ہے ناقابلِ برداشت ابتری کی ہرکیفیت کو، اور بنی نوعِ اِنسان کو درپیش مایُوس کُن کی سی صُورتِ حال کو۔ ہم خُداوند قُدُّوس میں محفوظ و مامون اور نجات یافتہ ہیں۔

ہماری نئی نسل اِس سب کُچھ سے عبرت پکڑنے اور سبق حاصل کرنے پر آمادہ تو ہے مگر وُہ پنجابی میں جسے کہتے ہیں کہ پَیندے سَٹ اِی مسئلے کا شکار ہو گئی ہے یعنی اِبتدا ہی اس مخمصے میں پھنس گئی کہ سائینسدان حضرات تو یہ سبق کِسی اور ہی انداز سے پڑھاتے ہیں۔ اُن کے مُطابِق تواریخِ گیتی کا جب آغاز ہُوا تو دھرتی پر ایک ہی جوڑا موجُود نہ تھا یعنی فقط ایک جوڑے سے اِنسانی نسل کی پیدایش نہِیں ہُوئی۔ اِس نظریے والوں کا کہنا ہے کہ ایک ہی وقت میں مُختلف مقامات پر اِنسانی زندگی کی نمُو اور اس کا ارتقا وقوع پذیر ہُوا۔ یعنی ایک جوڑے کی جگہ کثیر جنینی (کثیر الاصلی) کے نظریے کو قُبُول کِیا جانے لگا۔ بات کثیر نسلیّت تک بھی جا پہنچی۔ ادھر مُعلّم یعنی سِکھانے والی کلیسیا کی تعلیمات اور ان کی تشریحات کی دیکھ بھال کی گئی، انھیں محفوظ رکھنے کے انتظامات کیے گئے تا کہ انھیں بگڑنے نہ دیا جائے اور ان کے متن کو کوئی گزند نہ پہنچے۔ مگر جب بات یہاں تک آن پہنچی کہ نسلِ اِنسانی جس کا جوہر ایک ہے، وُجُود ایک ہے، وُہ متفقہ طور پر شُرُوع زمانہ سے ہی اِنسانوں کے لیے بخشش والی نعمتِ خُداوندی کی ہی انکاری ہو گئی اور پِھر جو کمبختی اور تباہی اس کا مقسوم ہُوئی وُہ بھی ایک کائناتی حقیقت ہے جس سے کِسی کو استثنا حاصل نہِیں، کوئی بھی اپنے تئیں لاکھ ہاتھ پیر مارلے چھُٹکارا نہِیں پا سکتا۔ اگر اس عقیدہ پر راسخ رہا جا سکے، پِھر تو یہ یک زوجگی اور کثیر زوجگی وغیرہ کی کوئی حیثیّت ہی نہِیں، سائینسی تھیوریاں بل کہ ہائی پاتھیسِس ہیں اور ان کی بھی عقدہ کشائی ہو سکتی ہے، دانشوروں، سائینسدانوں، عالموں کو چاہیے جدید مروّجہ سائینٹفک طریقِ عمل میں لائیں اور ان مونو اور پولی والی گتھیوں کو بھی سلجھا ماریں۔ بہ ہرحال یہ کوئی قابلِ گرفت دِینی مسئلہ ہے ہی نہِیں۔ نہ ہی اس پر کوئی مذہبی اعتراض روا رکھا جا سکتا ہے لیکن بات ابھی ہُوا ہی میں ہے۔

نوجوانوںکا دوسرا مسئلہ اُس طریق سے متعلُّق ہے جس کے ذریعے مورُوثی باپ کے بارے میں بائبل مُقدّس کی تعلیمات ذِہنوں تک رسائی حاصل کر سکتی ہیں۔ اصلی گُناہ کے بارے میں نوجوان نسل آگہی کے لیے مشتاق ہے مگر کنفیوژن سے بھی باہر آ نہِیں پا رہی۔ بہُت سے لوگوں کے لیے گُناہ کی مورُوثیّت والی اصطلاح بڑی اختلافی حیثیّت رکھتی ہے۔ جو عام تصوُّرات ہیں ان کے بالکل ہی اُلٹ ہے۔ کیوں کہ اِس پیدایشِ انساں سے نتھی گُناہ کی کُچھ یُوں تشریح کی جاتی ہے کہ گُناہ کی وُہ حالت ہے جو اِنسانوں سے موسوم ہے اور نتیجہ ہے نبی آدم کی خطا پر اُس کے باغِ عدن سے نکالے جانے کا۔ بہ الفاظِ دیگر پاپ ہمیں ورثہ میں ملے ہیں۔ مگر یہ بھی محلِّ نظر رہے کہ وراثت کا مطلب ہے کہ ہمیں کوئی ایسی چیز بیٹھے بٹھائے مِل گئی جس کے لیے ہم نے بذاتِ خُود بہ نفسِ نفیس قطعاً کوئی کوشِش، محنت، تگ و دو نہِیں کی۔ ہمیں وُہ کُچھ مِل گیا جو ہم نے کمایاتو نہِیں، پایا ضرُور ہے۔ ہمارے اسلاف کی طرف سے بس ہمیں مِل گیا۔ گُناہ کا تعلُّق بہ ہرحال ہمارے ذاتی کرتُوتوں سے ہے اور ان بد اعمالیوں کے ذِمّہ دار بھی ہم ہی ہیں۔ اوہ! یہ تو دو بُرائیوں میں سے ایک کے اِنتخاب والی سچوایشن سامنے آگئی۔ یا تو ہم نے گُناہ کو ورثے میں وصول پایا، پِھر تو ہماری اپنی کوئی خطا نہ ہُوئی۔ اور یا پِھر گُناہ ہی ہے، اس کے اصلی، حقیقی یا مورُوثی وورُوثی کہنے کہلانے کی کوئی گُنجایش نہِیں۔

اگر ہم نوعِ بشر کے بارے میں اپنے اِنفرادی نُقطہءنظر کو ترک کر دیں تو تمام مسائل حل اور اُلجھنیں ختم ہو جائیں گی کیوں کہ یہی نکتہ نظر ہی ہے جو اعتراضات کے پیچھے کارفرما ہے۔ اور باہمی اِتفاقِ بشری توجُّہ کا مرکز بنانا پڑے گا۔ آغازِ کار میں ہی تو سب کُچھ شُرُوع نہِیں ہوجاتا۔ سٹارٹنگ لائن پر کھڑے ہوں گے تو دوڑ بھی لیں گے۔ اِنسانوں میں مقاصد اور عمل کا اتحاد کامیابی کے لیے از بس ضرُوری و لازمی ہے۔ ہر کوئی اپنی مضبُوط انانیّت میں، اپنی خُودی میں ڈُوب کر جب سراغِ زندگی پاتا ہے تو اس خاتون یا صاحب کی اپنی ہی زندگی کی کشمکش ہوتی ہے، خاندانی کارگزاریاں ہوتی ہیں، لوکائی، ثقافت اور تمام کی تمام اِنسانی مُعاشرت ہوتی ہے جو اس کی شخصیّت کو تشکیل دیتی ہیں۔ جی ہاں، یہ سب عوامل کارفرما ہوں تو آدمی اِنسان بنتا ہے۔اور پِھر یہ بھی ہوتا ہے کہ سبھی اپنے آپ کو ایسی صُورتِ حال میں بھی گِھرا پالیں جو گُناہوں سے عبارت ہوتی ہے۔ ہم ایک ایسی سوسائٹی میں آنکھیں کھولتے ہیں جس پر خُود فریبی و خُود غرضی کی، عصبیّت کی، حق تلفی، جھُوٹ، مکر و فریب کی حُکمرانی جاری ہوتی ہے۔ ان حُکمرانوں کا ہم پہ اثر انداز ہونا کوئی اچنبے کی بات نہِیں۔ ظاہر کی بُری مثالوں کے دباو میں تو آجاتے ہیں ہم، ہمارا باطن بھی ان کے شر سے محفوظ نہِیں رہ پاتا۔ یُوں طے شدہ ہماری اصلیّت سامنے آجاتی ہے۔فقط اپنے لیے جینا بھی کوئی جینا ہے۔ ہم جو کُچھ بھی ہیں، اس لیے ہیں کہ ہم سب مِل کر بہُت کُچھ ہیں۔ پس کائناتی عمومی معصیّت تو ہم سب کی نس نس میں گھُسی ہُوئی ہے۔ اور یہ بھی ہے کہ باہمی جھگڑوں پریشانیوں کے تارِ عنکبُوت والے پھندے بھی اُلجھانے کو موجُود رہتے ہیں اور گُناہ کے مقاصد و اقدامات میں عالمگیر ہم آہنگی بھی دیکھنے میں آتی ہے جس سے کوئی بھی منش اپنے آپ کو بچا نہِیں سکتا۔ یہ سب آلایشیں اُسے چمٹ جاتی ہیں۔ چھوٹے بچّے تو ان کی لپیٹ میں عام ہی آجاتے ہیں۔ جہاں تک ان کی اپنی ذات کا تعلُّق ہے یہ ننھّی مخلُوق ہر الزام سے بری الذِمّہ ہے لیکن ان کی زندگی کا دارومدار اپے بڑوں کی عادات، فطرت، طور اطوار کی نقّالی بل کہ ان کو بتدریج اپنے اُوپر طاری کر لینے پر موقوف ہوتا ہے۔ خاص طور پر والدین کا رنگ ڈھنگ بچے بہُت جلد اپنا لیتے ہیں۔ وُہی بات ہے:

ماں پر پُوت، پِتا پر گھوڑا

بہُت نہِیں تو تھوڑا تھوڑا

یہی وَجہ ہے کہ بالغوں سے کہِیں بڑھ کر وُہ بڑوں کی عادات اور ان کے اطوار سے اِنتہائی مُتاثّر اور گہرے جُڑے ہوتے ہیں۔

کاتھولک عقائد و تعلیم کے مُطابِق تو یہ ہے کہ جینیٹک گُناہ کائناتی اِبتلا کا حصہ ہے، جو اِنسان کی معاشرت، لوگوں کی سماج اور پِھر ان کی معیشت کو تہ و بالا کر دیتا ہے۔

حوالہ کے لیے دیکھیے....کلامِ مُقدّس....مُقدّس پولوس رسُول کے خطوط.... رومیوں کے نام....17,15:7

 تا19 اور22 تا 24

بدکاری جس طرح سارے گلوب پر چھائی ہے مسیحی تعلیمات کے مُطابِق عملی طور پر اس کے بہُت سے نُمایاں پہلو ہیں۔ ان تعلیمات میں آگاہ کِیا گیا ہے کہ مسیحیت اِس سارے سُراب پر ہماری آنکھیں کھول دیتی ہے تاکہ ہم جُرم و عصیاں کے دھوکے میں نہ آئیں۔ ہمیں بتایا گیا ہے کہ اِنسان خطا کا پُتلا ہے۔ اگر ہم کہیں کہ ہم سے تو گُناہ کبھی سرزد ہُوا ہی نہِیں.... تو بھی ہم خطاکار ہیں، جھُوٹے ہیں۔ جس کِسی نے بھی یُوں دروغ گوئی کی اُس کا کلام ہم میں نہِیں۔

 حوالہ....1۔ مُقدّس یوحنّا....10:1

ہمیں حقائق کا سامنا کرنا چاہیے۔ ہمیں جھُوٹ کی فریب نظری سے بچنا ہے۔ اس فریب نظری اس مُلَمّع کاری کے خالق خُود ہم ہی ہیں، ایسے نازُک مرحلہ پر مسیحی تعلیمات ہماری مدد کو آ پہنچتی ہیں اور ہمیں ترغیب دیتی ہیں کہ خُدا کی نافرمانیوں اور گُناہ سے کنارہ کشی ہی ہمارے جامع مفاد میں ہے۔ یہُودیوں کی طرح دُوسروں پر اپنے گُناہ لادنے کے لیے بھینٹ کے بکرے نہ ڈُھونڈتے پِھریں ہم۔ نہ حالات کے شاکی رہنے سے کام چلے گا نہ وراثتِ گُناہ پر اِلزام دھرنے سے کام بنے گا۔ سدا ذِہن نشین رہے کہ مشیّتِ الٰہی یعنی نظامِ خُداوندی ہم سب پر لاگُو ہے۔ تاہم جینیاتی گُناہ کے ضمن میں تعلیماتِ مسیحی یہ درس دیتی ہیں کہ وُہ گُناہ جو ہم سے سرزد ہُوا اُسے کِسی اور کے سر تھوپنا تو ہرگز مناسب بات نہِیں۔ ذرا غور کر لیں اپنے گُناہ جس کا ہماری ذات سے تعلُّق ہے اِس کے لیے مُوردِ الزام ہم کِس کو ٹھہرا رہے ہیں، کیوں؟ اُس پر کیا دوش۔ ہمیں جلد بازی سے کام نہِیں لینا چاہیے۔ یہ بنتا ہی نہِیں، ہم اپنی ساکھ بچانے کے لیے کِسی دُوسرے پر فتویٰ جڑ دیں اور بے قصور کو کٹہرے میں لا کھڑا کریں۔ حق بات تو یہ ہے، خُداوند قُدُّوس تو دیکھ رہا ہے نا۔ وُہ وُہی ہے جو سب کے دِلوں کے سب بھید جانتا ہے۔ اور عدالت کے دِن کا مالک ہے۔ وُہ داورِ حشر تو ہے ہی مگر سزا سے زیادہ جزا دینے والا ہے۔ پکڑ میں لانے سے بڑھ کر معاف کر دینے والا۔ وُہ جلال والا خُداے عظیم و برتر اِعتراف قُبُول کرنے والا اور بخش دینے والا ہے۔خُداوند یسُّوع مسیح میں ہماری مُکتی ہے۔ یہی وَجہ ہے کہ ہم ایک بار اور آپ کی توجُّہ اِس جانب مرکوز کروانے کے خواہشمند ہیں کہ حقیقت یعنی اصل حق سچ ہی گُناہ کی عالمگیریت کا مَکُّو ٹھپ کے رکھ دیتے ہیں۔ اور وُہ اپنے انجام کے اندھیروں میں جا گُم ہوتی ہے۔ عالمگیریتِ عصیاں کو آفاقیتِ نجات ملیا میٹ کر دیتی ہے۔ ایمان کے نور کی شعاعوں سے ہر ذی نفس، ہر ذرّہ بل کہ پوری کائنات منوّر ہو جاتی ہے۔ عہد نامہ قدیم میں پوری شدّ و مد سے جس نجاتِ عام کا اعلان جاری کِیا جاتا رہا ہے یعنی جس کی تاریخِ نجات تمام عہد نامہءعتیق کی تاریخِ مُقدّس پر پھیلی ہے، وُہ بالآخِر.... پاک خُداوند یسُّوع مسیح میں عمل پذیر ہو گئی۔ مُقدّس تعلیم مسیحیت کی مورُوثی پاپ کے بارے میں جو اہم ترین کارکردگی ہے وُہ اُوپر والے کے عفو و درگُذر اور ہمارے رُوحانی چرکوں کی مسیحائی کی طرف خُداوند کی برکت سے رہنمائی کرتا ہے جس میں تمام اِنسانِیّت کا بامراد ہونا خُود پاک خُداوند یسُّوع مسیح میں اس کا عطیہ ہے ہم مسیحیوں کے لیے۔

ب)نجات کے لیے منشاے خُداوندی اور ہماری جگہ 

 ہمارے گُناہوں کے بدلے خُداوند کا خُود جان فنا کر دینا

خُداوند یسُّوع مسیح کی صلیب پر اہانت آمیز موت یہُودیوں کے نُقطہءنظر سے خُدا کا فیصلہ تھا، جی ہاں اسے قہرِ خُداوندی کہتے ہیں وُہ لوگ۔

دیکھےے:غلاطیوں کے نام....13:3

رومیوں کے نزدِیک اسے بے حُرمت کیے جانا قرار پایا اور بعض موقع کے گواہوں نے یہ بھی کہا کہ توہین اور تمسخر(ٹھٹھّا اُڑانے) کے لیے رومیوں کو موضوع ہاتھ آگیا۔

مُقدّس رسُول پولوس نے 1۔قرنتیوں کے نام خطوط میں لکھا ہے، غور فرمائیے:

باب1:آیات 22 اور23

یہُودیوں کی تسلی معجزوں سے اور یونانیوں کی تشفی حُکمت سے ہو سکتی ہے اور ہم مسیحی کہتے ہیں کہ خُداوند یسُّوع نے ہماری مخلصی کے لیے اذیّتیں سہیں اور مصلُوب ہُوا۔ یہ قربانی آسان نہ تھی، یہ تو وُہی بات تھی....

یہ عشق نہِیں آساں بس اتنا سمجھ لیجیے

اک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے

اور اِسے یہُودی ٹھوکر سے مُعَنوَن کرتے ہیں، حال آں کہ

یہ مرتبہءبلند مِلا جس کو مِل گیا

ہر مُدّعی کے واسطے دار و رسن کہاں

اور طُرفہ تماشا یہ کہ اس وقت کے غیر یہُودیوں کو مصلُوب ہونے میں کوئی دانش نظر نہ آئی۔

شُرُوع شُرُوع کے مسیحیوں کے لیے بڑا کٹھن مرحلہ درپیش تھا۔ صلیب کے سکینڈل کو وُہ ٹھیک سے سمجھ نہ پا رہے تھے۔ اگرخُداوند پاک کے اپنے کلام سے رہنمائی لی جائے کہ آخِری عشا کے موقع پر اس نے اپنے شاگردوں سے جو کُچھ کہا اور خُدا میں اُس کے جی اُٹھنے کی روشنی میں جب دُھندلے حقائق مسیحیوں کو صاف نظر آنے لگے تو وُہ اچھّّی طرح جان گئے کہ یہ ہِلا کر رکھ دینے والی خُداوند کے لیے دردناک موت کی تعزیر یُوں قائم کر دی گئی تھی کہ رومی جانتے تھے تاریخ کے پہلے ہی موڑ پر لوگوں کو اس کا سامنا کرنا پڑرہا تھا، اور ان کے ایمان ابھی جِزبِز تھے، یقین کے سوتے سُوکھ چلے تھے۔ رومی ویسے بھی دِینِ مسیحی کے اوّلین دُشمن تھے۔ یہُودیوں کا کردار بھی اظہر من الشمس تھا۔ لیکن یہ بھی اٹل حقیقت ہے کہ خُداوند یسُّوع کے ساتھ جو ہُوا وُہ ہُواتو، مگر کِسی بشر کے فیصلے سے بھی بھلا کُچھ ہو سکتا تھا؟ جو ہُوا وُہ خُدا باپ کی مرضی سے ہُوا، یہ نظام و قُدرتِ الٰہی کا فیصلہ تھا، اسی میں سب کُچھ نجات تھی، جی جناب، یہی مَحَبّتِ خُداوندی تھی، عظیم مَحَبّت۔ آغازِ منادی میںیسُّوع پاک پر ایمان لانے والے سمجھ گئے کہ یہ پاک و اعلیٰ برتر خُدا کا حُکم تھا، جو پُورا ہُوا۔

بمُطابِق مُقدّس مرقس....31:8

مُقدّس لُوقا....7:24، 44,26

کلامِ مُقدّس عہدِ عتیق میں خُداوند یسُّوع کی اذیتوں اور موت کے بارے میں پیشینگوئی کی جا چُکی تھی۔ توریتِ مُقدّس پولوس رسُول کے لوگوں میں پہلے سے موجُود تھی، جب وُہ مسیحیت میں داخل ہُوا، اس نے بتایا کہ توریت مُقدّس کے ابتدائی عقائد سے تصدیق ہو چُکی، اور وُہی ہُوا یعنی خُداوند یسُّوع نے ہماری خاطر موت قُبُول کی۔

کلامِ مُقدّس1۔قرنتیوں کے نام....3:15

مردِ غمناک کے چوتھے نشید(رُوحانی گیت) سے.... باب 53 کتابِ اشعیا میں دیکھیے:باب13:52 اور باب12:53 (اسفارِ نبوّت.... نبی کبیر مُقدّس اِشعیا)۔ مُقدّس پولوس رسُول کو خُداوند پاک کے مصلُوب ہونے میں خُدا باپ کی مَحَبّت کی وُہ گہرائی، وُہ عُمُق نظر آیا جسے ناپنا محال ہے۔ بے حد، بے کراں مَحَبّت جس کے بِرتے پر بیٹے کو بھی نہ بخشا اور ہم پروار دیا۔

ملاحظہ ہو، رومیوں کے نام....32:8 اور39، مُقدّس یوحنّا....16:3

 اس لیے کہ ایک دُنیا کو خُداوند یسُّوع میں، خُدا خُود اپنے میں ملاپ عطا کر دے!

دیکھیے:2۔ قرنتیوں کے نام....18:5 اور 19

خُدا کی بنیادی خصوصیّت کا ہی ایک اِظہار ہے صلیب جو مَحَبّتِ خُداوندی کا وُہ پیمانہ ہے جسے پاک یسُّوع کے ماننے والوں پر لُنڈھا دیاگیا ہے، خالی کر دیا گیا ہے۔ یُوں خُداوند قُدُّوس کی قدرتِ جلیلہ کا ہم پر ظہور ہوتا ہے اور ہمارے اُوپر سچّی، کھری اور امر مَحَبّت کے معانی کھُلنے لگتے ہیں۔

دیکھیے مُقدّس اشعیا13:52 تا15 اور1:53 تا 13

 خُداوند یسُّوع کی خُدا کی طرف سے ریاضت خاص جواب ہے خُداوند کا، منکسرانہ، پُرخلوص اور اطاعت شعاری کا مرقّع (لفظ اسلام کے بھی یہی اصل معانی ہیں۔ گرائمر میں یہ اسم فعلی کہلاتا ہے) اور یہ امر خُدا باپ کے ارادہ کے عین تتبُّع میں ہے۔ پاک یسُّوع مسیح کی موت کی ترجمانی و تصریح ان الفاظ میں کی جا سکتی ہے کہ ہماری مُکتی کے بدلے میں اس نے اپنی حیاتِ دُنیا نذر کردی۔ اِسی بات نے ہماری رہنمائی کی کہ ہم دِل، دماغ اور جان سے بائبل مُقدّس (نیو ٹیسٹامینٹ) نیا عہدنامہ کی صداقت کی گواہی دینے والوں میں شمار ہونے لگیں۔

نیابت و نُمایندگی، کِسی حد تک وکالت و تبلیغ کا جو عمومی نُقطہءنظر ہے، اُس کا انحصار ہے اِنسانوں سے جڑی ایک بنیادی حقیقت پر، جوسالیڈیریٹی آف پیپل یعنی ایک طرح کا سوچ رکھنے والے لوگوں کا اتحاد کہلاتی ہے۔ کلامِ مُقدّس کا یہ مرغوب ترین موضوع ہے جو مسیحی نظام کے بنیادی قواعد یعنی اصل اصول ہیں اور مُکتی کی تاریخ پر محیط ہیں۔ مُقدّس نبی آدم تمام اِنسانِیّت کی نُمایندگی کرتا ہے اور اُسی نے بِنا رکھی معصیّت میں تمام اِنسانوںکے ہم آہنگ ہونے کی۔ مُقدّس نبی ابرہام تمام نسلِ اِنسانی کے لیے برکت بن کر آیا۔

حوالہ تکوین....3:12

اِنسانوں کے کُل قبیلے مُقدّس آدم میں برکت پا گئے۔ اسرائیل خلقت کے لیے روشن چراغ کے مِثل تھا۔ دیکھیے: اِشعیا....6:42

 اِس آئیڈیا کو انجیلِ مُقدّس ٹھوس، ثقہ حیثیت عطا کرتی ہے وُہ ہے دُوسرے کی آئی اپنے اُوپر لینے کا عمل۔ 

"Suffering Servant"

"غمناک خادم"، چوتھے گیت میں اسی کا ذِکر ہے۔ حوالہ اِشعیا....4:53،5اور12  

نُمایندگی کا جو مقُبُول عقیدہ مسیحیوں میں رواج پا چکا ہے، بائبل مُقدّس میں اسے مرکزی حیثیت سے ڈِیل کِیا گیا ہے اور خاص طور پر مسیحیت میں اسے اس آئیڈیا کے اِدراک کے پہلُو سے مفیدِ مطلب جانا گیا ہے۔ ہمیں بہ آسانی سمجھ آجاتی ہے یہ بات کہ خُداوند یسُّوع پاک کی موت کیوں کر ہماری نجات کا پیش خیمہ ثابت ہُوئی۔جماندرو پاپی ہونے پر بنی نوعِ اِنسان میں جو یگانگت اور اتفاق نظر آتا ہے اسی کا نتیجہ ہے کہ موت کے مُنہ آنے والی حرکت پر بھی سب کا ایکا قائم ہے۔ اور یہی اتحاد نرک کی خوراک بھی بنے گا، آخِر کِسی نے اس کو بھی تو بھرنا ہے، بھلے بعد میںخُداوند خُدا کی مہربانی سے وُہ سُوَرگ میں آجائیں اور یُوں بے بسی والی صُورتِ حال کا خاتمہ پاک یسُّوع مسیح میں ہو جائے گا۔ خُداوند یسُّوع مسیح کا اتمامِ حیات اِظہار ہے اس استحکامِ ربط اور اُستواریِ رِشتہ کا جو خُداوند اور ہمارے بیچ اس کی اپنی موت میں ہُوا اور خُداوند نے اپنی موت کو نئی یکجہتی و ٹھوس تعلُّق کی اساس بنا دیا.... خُداوند یسُّوع مسیح نے مصلُوب ہو کر اُنھیں بھی نئی اور خُوشگوار زندگی کا پیام دے دیا جنھیں کہ موت کی تلخیاں چکھنا تھیں اور یومِ عدالت کٹہرے میں کھڑا ہونا تھا۔

ہولی کرائسٹ کی موت یہ تاویل ہے کہ اس نے بہُت بڑی اذیّت برداشت کی اور ہماری بخشش کے لیے ہمارا کفّارہ اپنی جان دے کر ادا کر دیا۔خون بہائے بغیر معافی نہِیں ہوتی۔ یہ خُداوند کی صفتِ خاص کا نمُونہءکامل تھا جو اُس نے دِکھا دیا۔ یہ صداقت، یہ آفاقی سچّائی اِبتداے تکوین سے جاننے والے مُقدّسین خوب جانتے ہیں۔ حوالہ مُقدّس مرقس....45:10

ایک بات اور، ایک مشکل چیز جو بہُت سے لوگوں کے ذہنوں میں سمائی ہے اور آج بہُت سوں کے سروں پر سے گُذر جاتی ہے۔ وُہ بائبل مُقدّس میں خُداوند کے بارے میں اس کی موت کے سلسلے کے نظریات ہیں جن میں اس کی موت کو قربانی و ایثار کا مقام حاصل ہے۔ اگر ہم اِنسانوں کے لیے خُداوند کی قربانیِ عظیم کے بارے میں راے کی معنی خیزیت جاننا چاہتے ہیں، تو ہمیں عِلم ہونا چاہیے کہ بنیادی طور پر اس کا دارومدار خارجیت پر نہِیں۔ قربانی تو پِھر قربانی ہی ہوتی ہے۔خارجی عوامل اس پر کم ہی اثرانداز ہوتے ہیں اور یہ بھی کہ اس کا تعلُّقِ خاص فقط داخلی عوامل سے مربوط ہوتا ہے۔ قربانی کی جو منّتیں مانی جاتی ہیں ان کو نیابت حاصل ہوتی ہے پیروکار کی ذات سے۔ بچھڑا، بیل یا بکرا نہِیں بھینٹ چڑھتا۔ بھینٹ چڑھانے والے کا نُمایندہ جان قربان کرتا ہے۔ جو علامتی اِظہار ہے کہ بھینٹ دینے والا بھی اپنی جان وار دینے سے گریز پائی اختیار نہِیں کرے گا۔ پاک خُداوند یسُّوع مسیح نے ہی اپنی ذات قربان کر دی، یہ قربانی بھی ہمارے بدلے کی قربانی تھی۔ گنہگار تو دُوسرے تھے، صلیب پر موت تو اُن کا مقدّر تھی، مگرموت کو خُودخُداوند نے اپنا لیا اور ہمارے لیے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے نجات کا سبب پیدا کر دیا۔کیوں کہ وُہی قربانی دینے والا تھا اور وُہ بھی وُہی ایک تھا جو قُبُول کرنے والا تھا۔ پریسٹ، پروفٹ اور کنگ بھی تو وُہی ہی ہے نا.... اس کی قربانی سو فی صد خالص اور اکمل قربانی تھی۔ وُہ ان تمام قربانیوں کی تکمیل تھی جو اس کے مقابلے میں اس اک عَشرِ عَشِیر بھی نہ تھیں۔ ابتدا ہی اس کی انتہا تھی اور سب کی نجات کا سامان بن گئی۔ حوالہ.... عبرانیوں کے نام....11:9 تا28

 نیّت کا ثمر ملتا ہے۔ مُقدّس پولوس رسُول کے عبرانیوں کے نام خطوط میں کہا گیا ہے کہ اس خُدائی قربانی کو بیرونی عوامل سے کوئی علاقہ نہ تھا یہ تو خُداوند یسُّوع پاک نے اپنی ہستی قربان کر دی تھی خُدا باپ کی منشا پوری کرنے کے لیے۔ حوالہ کے لیے دیکھیے....عبرانیوں کے نام....5:10 تا 10 آیات۔ ہمیں بچانے کے لیے اِس ہر لحاظ سے ارفع، اعلیٰ اور مکمل قربانی نے خُدا سے بے گانہ کی جا چُکی اس کی اِنسانی مخلُوق کو پِھر سے اطاعتِ خُداوندی میں واپس سیدھی راہ پر خراماں خراماں چلانا شُرُوع کر دیا۔ تقدیس ہو مُقدّس خُدا باپ مُقدّس خُدا بیٹے اور رُوح القدس کی!خُداوند اپنی بے مثال قربانی دے کر بیچ کا راستہ، واسطہ بن گیا خالق اور اس کی مخلُوق کے درمیان۔ مَحَبّت کا راستہ، پیار کا واسطہ۔ دیکھیے....1۔تیموتاﺅس کے نام....5:2

اس کی جان کا فِدیہ پوری اِنسانِیّت کے کام آیا۔

فدیہ میں رِہائی (کفّارہ) سُبک بہاری (گُناہوں کی تلافی، مُکتی(نجات) کے ایک دُوسرے کے ساتھ جُڑے ہونے کی تمثال اسی اعتقاد پر محمول ہے جو اُوپر کی سطور میں زیرِ تبصرہ رہا۔

اصولاً تو تمام گوناگوں مثالیں اور طرح طرح کے بیانات خاص اسی ایک موضوع کے گِرد ہی گھومتے ہیں۔ قدیم و جدید ذرائع ابلاغ کی مدد سے وُہ چاردانگِ عالم میں صداقت کی اپنی آواز پہنچا دینا چاہتے ہیں۔ مُقدّسین کے انتخاب کے ذریعے لوگ چاہتے ہیں خُدا مُکتی داتا کی زیربارِ احسان کرنے والی اور نجات بخشش مَحَبّت کے بارے میں سیارہ زمین پر بسنے والے ہر اِنسان کو آگہی دے دیں۔ پاک خُدا کی یہی وُہ مَحَبّت ہے جو خُداوند یسُّوع مسیح کا ہم پر انعام ہے۔ اسی کے صدقے ہمیں نصیب ہُوئی۔ ایک ہی بار سبھی کے، سارے کے سارے مقدّر ہرے ہو گئے۔ مُقدّس بیٹے میں مُقدّس باپ کی منشا کا پالن ہُوا۔ پاک فرزند نے اپنی جان وار دی تا کہ خُدا باپ اور اس کی مخلُوق، اِنسان کے مابین پیار اور سلامتی کی فراوانی ہو اور .... یہ امن و آشتی تمام اِنسانوں کا آپس میں بھی خُلقِ عظیم ثابت ہو۔ بڑی قربانیوںکے لیے بڑے ہی مقاصد سامنے ہوتے ہیں۔ پہلے جو دُور تھے خُداوند مسیح پاک کے خون کے سبب سے نزدِیک ہو گئے، پس، مُقدّس رسُول پولوس نے افسیوں کے نام خطوط میں کہا کہ اسی میں ہم سب کے لیے امن ہے۔

حوالہ....افسیوں کے نام....14:2

اسی کے وسیلے سے تمام بیگانگی و برگشتگی جو گُناہوں نے خُداوند قُدُّوس اور نسلِ اِنسانی کے درمیان، حتّٰی کہ آپس میں ایک دُوسرے کے بیچ اور ہر مزاج کے ہر بندے میں اِنفرادی طور پر بھی پیدا کر دی تھی، اس کا تریاق سامنے آگیا، گلے شکوے دُور ہو گئے۔ جبر و اکراہ اور تشدد سے جس پیغمبرِ خُدا کا دُور سے بھی واسطہ نہ ہو وُہ مُقدّس یسُّوع ناصری سب کا نجات دہندہ، کُل جہان کا مسیحا المسیح، پایانِ کار یہی ثابت ہُوا کہ وُہ علامت ہے جلال والے پاک خُدا کے غلبہ کی، کُل اقتدار اور سب طاقتیں اور حضرتِ اِنسان کی بَیری قوتیں سب مطیع ہیں خُداوند خُدا کی۔ یہِیں سے آس، اُمِّید کو جِلا مِلتی ہے، اور آشائیں سپھل ہوتی ہیں۔

ج)مُکتی کے لیے شخصی ذِمّہ داری

مخلصی کے لیے ضرُوری ہے کہ فرد کا خلوصِ نیّت، اس کی آمادگی و مرضی شامل ہو۔ اس کی مخلصی کے لیے اس کا اپنا ارادہ علیحدہ اپنا وزن رکھتا ہے۔ خُدا کی بے پایاں مَحَبّت جس مُکتی کی فیّاضانہ پیشکش اپنے مُقدّس بیٹے کے سبب رُوح القدس میں کرتی ہے، اس کا تقاضا ہے کہ آزاد قوتِ ارادی و مرضی سے فیضیاب ہُوا جائے۔ کِسی کو اس کی مرضی کے بغیر نہ اخلاقی پستی سے نکالا جا سکتا ہے، نہ ہی اُس کے لیے مخلصی ممکن بنائی جا سکتی ہے۔ زخموں کو بھرنے والی اور بُرائیوںکی تلافی کرنے والی مَحَبّتِ خُداوندی کہ اس کی انمول عطا ہے، وُہی تو خُود خُداوند خُدا ہے، رُوح القُدس بھی، وُہی ہے جو اِنسانی دُکھوں کا مداوا کرنے کے دائمی عمل کو جاری و ساری رکھتا ہے۔ رُوح القُدس کی بخشی ہُوئی شکتی سے، جو کہ بجاے خُود الٰہی رحمت ہے، نیک اعمال کر کے کوئی بھی شخص دِل و جاں کی اتھاہ گہرائیوں تک رُوحانی بالیدگی حاصل کر سکتا ہے۔ لیکن خُداوند کی برکت اور فضلِ الٰہی آیا ہُوا ہاتھ سے جا بھی سکتا ہے بسببِ گناہ.... مگر وارے وارے جائیے اپنے پاک خُداوند یسُّوع مسیح کے کہ پِھر سے ، نئے سرے سے عطا کے چشمے رواں ہو جاتے ہیں، فیض کے سوتے پھُوٹ پڑتے ہیں بشرطے کہ بندہ راہِ راست پر واپس آجائے۔ یہ تبدیلی اُسے راس آئے گی۔ یُوں مسیحیوں کی تمام زندگی عبارت ہے جنگ سے.... تحریص و خُدافراموشی کے خلاف، خُداوند خُدا کی منشا کی پروا نہ کرتے ہوئے اس کے بتائے ہوئے سیدھے راستے سے بھٹک جانے کے خلاف۔ چُناں چہ ایک کرسچین کی زیستِ مُستعار، جتنی بھی ہے، ساری کی ساری، خُداوند قُدُّس کی طرف رجوع کرنے اور اسی کی طرف مراجعتِ مسلسل پر موقُوف ہے۔ توقُّع باندھی جاتی ہے کہ ایسا کر دِکھانے والے مومن مسیحی تجدیدِ عہد کی پابندی کریں گے اور معرفتِ الٰہی کے چوکھے، گہرے رنگ میں رنگے رہیں گے۔مگر.... مگر بات وُہی ہے کہ آہ! ہم پِھر بھی وُہی نِکمّے کے نکمّے غلام۔

حوالہ....مُقدّس لُوقا....10:17

د) بُنیادی طور پر نویدِ نجات کی ذیل میں تمام نسلِ اِنسانی آتی ہے

تا ابد الآباد جلال والا خُدا سب لوگوں کی عافیّت چاہتا ہے۔ اور چاہتا ہے کہ وُہ سچ اور حق کی آگہی حاصل کریں....حوالہ....1۔تیموتاﺅس کے نام4:2

وہ نہِیں چاہتا کہ پاپی مر جائے، وُہ چاہتا ہے پاپ کرنے سے باز آجائے، جب تک زندہ ہے نیک بن جائے اور اُس کی بخشی ہُوئی زندگی کا بھرپُور لُطف اُٹھائے.... حوالہ مُقدّس حِزقیال 11:33 اور 2۔مُقدّس پطرس9:3 .... قصدِ خُداوندی براے نجات کی ہمہ گیریت پر دُوسری ویٹی کن کونسل میں بڑا زور دیا گیا:

موعودہ مُکتی اُن کا بھی مُقدّر بنتی ہے اور بیچاروں پر دوش بھی کیا کہ، وُہ جو بوجوہ خُداوند یسُّوع پاک کی انجیل مُقدّس کے علم سے نابلد رہ جاتے ہیں اور پاک خُداوند کی کلیسیا کی برکتیں اُن تک نہِیں پہنچ پائی ہوتیں۔مگر خُداکی تلاش میں وُہ پِھر بھی سرگرداں رہتے ہیں، گُناہ سے اِجتناب اور نیکی کرنے کی نیک نیّت اور پُورے خلوص کے ساتھ خاص الٰہی توفیق کی برکت سے ان میں تحریک جاری رہتی ہے اور اپنے اچھّّے اعمال کے ذریعے کوشاں رہتے ہیں کہ وُہ مِل جائے تو سدا اس کی رضا پر راضی رہیں، اس کا فضل والا ملاپ میسّر آجائے تو اُس کی خُوشنودی حاصل کرنے کے لیے خُود کو وقف کر دیں کیوں کہ ان کے ضمیر کی ترغیب نے ان کے اندر ہی اندر الٰہی یابی کی ہلچل مچا رکھی ہوتی ہے اور ضمیر کے کچوکوں نے اُنھیں اِس سلسلے میں خبردار اور آمادہ اور پُر اُمِّید کر رکھا ہوتا ہے۔ جویندہ یابندہ۔

الٰہی پروردگاری، الٰہی رزّاقی اُن کے لیے بھی مائل بہ کرم ہوتی ہے، ان تک بھی نجات کا فضل پہنچتا ہے جن پر دیکھا جائے تو کوئی دوش نہِیں ہوتا، ان کی اپنی اِتنی کوئی تقصیر نہِیں ہوتی کہ خُدا کے بارے میں ثقہ واضح آگہی سے وُہ اب تک محروم چلے آرہے تھے، مگر.... فضلِ ربّانی ان سیدھے سادے لوگوں کے ساتھ ہوتا ہے کیوں کہ وُہ کوشِش اور محنت تو کر رہے ہوتے ہیں تا کہ وُہ نیکو کاروں، بھلے مانسوں والی زندگی بسر کریں۔ جتنی نیکی اور سچّائی ان میں گھر کر چُکی ہوتی ہے، وُہی خُداوند خُدا کو پسند ہے۔ ایسے ہی عوامل اور لگن کی مسیحی کلیسیا قدر کرتی ہے اور سمجھتی ہے کہ یہ تو مُقدّس بشارت کی طرف سفر ہے جس کے لیے ان لوگوں میں پوری پوری آمادگی و تیّاری دِکھائی دے رہی ہے۔ کلیسیا جانتی ہے کہ یہ خُدا کی دین ہے۔

اِیں سعادت بزورِ بازو نیست

تا نہ بخشد خُداے بخشندہ

وہی بصیرت، عرفانِ ذاتِ الٰہی اور قلبی نور عطا کرتا ہے تا کہ بنی نوعِ اِنسان، تمام کے تمام اپنی دُنیا اور آخِرت سنوار لیں۔ حوالہ تعلیمی منشور بہ متعلُّق کلیسیا

Dogatic Consitution on the Chruch: Lumen Gentium : The Light of Nations, 16

بلاوا، انتخاب اور کاہنانہ زندگی کی دعوت یعنی راہبانہ زندگی اِختیار کرنے کی بلاہٹ (طلب) کی تکمیل کے ضمن میں ہر کِسی کو اجازت، سمجھ میں آنے والی بات ہے کہ دِینی تلقین و توثیق کے لیے خُداوندِ قُدُّوس اگر باریابی بخشتا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ وُہ ہر شخص کو بطور شخصیّت سنجیدگی سے لیتا ہے، سب کو بِلا تخصیص ربّانی توجُّہ کا سزاوار سمجھتا ہے اور وُہ چاہتا ہے کہ ہر اِنسان کو اِنسان سمجھا جائے، ہر آدمی کو فضیلت و احترام مساوی دیا جائے۔ جی جناب، اپنی بے پناہ مَحَبّت میں اِنسان کی مُکتی کے لیے وُہ اپنے اِرادے کو ضرُور پُورا کرتا ہے جس کا انحصار اس پر ہے کہ ہم کِس حد تک نیک، آزاد، خُود مختاراور وعدے کے پکے ہیں۔ غُلامی فقط خُداوند پاک کی ہے اور یہ سعادت پُن کمانے والوں کوہی ملتی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ نجاتِ اُخروی سے دُھتکارے بھی جا سکتے ہیں، اگر ہم پاپ کی آلایشوں میں لِتھڑے رہنے سے باز نہ آئیں۔

Contact us

J. Prof. Dr. T. Specker,
Prof. Dr. Christian W. Troll,

Kolleg Sankt Georgen
Offenbacher Landstr. 224
D-60599 Frankfurt
Mail: fragen[ät]antwortenanmuslime.com

More about the authors?