:سُوال نمبر48
۔اللہ تعالیٰ کے فرستادہ پیغمبر اور نبی تو اپنے مثالی کردار کی وجہ سے تقلید کا نمونہ ہوتے ہیں۔ مگر آپ کی مُقدّس کتاب میں حضرت داﺅد ؑ اور حضرت سلیمان ؑ کے بارے میں دی گئی حکایات پڑھیں تو پیشانی پر پسینا چمکنے لگتا ہے۔ ان کے توبڑے گھناﺅنے گُناہوں کا ذِکر آیاہے۔ معاذ اللہ، معاذ اللہ! اگر ایسی بات تھی تو وُہ پیغمبر کیوں مبعوث کیے گئے؟ پیغمبر تو معصوم ہوتے ہیں۔
جواب:۔ ہمارے تسلی بخش جواب سے پہلے گزارش ہے کہ سُوال نمبر27 کے سیر حاصل جواب کے پہلے حصّہ کا مطالعہ فرمائیے۔
پرانے عہد نامہ میں ابتدائی بزُرگ، انبیاءاور دُوسری مرکزی شخصیات اور انھیں میں مُقدّسہ خواتین جیسے بی بی سارہ، ربیقہ، پاک کنواری ماں مریم، بنی اسرائیل پر جج نبیہ، ڈبورہ،مُقدّسہ حنّا، یہُودیت، اور استیر۔ کلیسیا کی طرف سے ان سب مُقدّسہ ہستیوں کا پہلے بھی احترام کِیا جاتا تھا اور اب بھی تعظیم و تکریم کے ساتھ ان کا ذِکر کِیا جاتا ہے۔ یہ سینٹس ہیں۔ مُقدّس ہستیاںہیں۔ تمام مُقدّسین عقیدے کے ترازو پر ہمیشہ پورے اُترتے رہے ہیں۔ ہر مُقدّسہ و مُقدّس ہستی کی ہمّت، جرا_¿ت، محنت، خدمت و عبادت بارگاہِ ربّ العزت میں سدا کے لیے مقُبُول ٹھہری۔ کیتھولک تعلیمات اس کی تصدیق کرتی ہیں۔ ان کے بارے میں اس تقدیس کا یہ مطلب ہرگز نہِیں کہ ان میں سے کِسی نے بھی کبھی کِسی گُناہ کا ارتکاب نہِیں کِیا۔ بنیادی طور پر اس تقدیس کا دارومدار نہ تو غیر معمولی قسم کے کارناموں پر موقوف ہے نہ ہی کرشماتی اعمال اور نیکوکاریوں کی ہردم جھلکتی کارکردگیوں پر اس کا انحصار ہے۔ بل کہ.... یہ رتبہءبلند تو ان مُقدّسین کا مقدر بنا ہے جنھوں نے مسیحیت کے لیے اپنا سب کُچھ تج دیا، خُداوند کے وفادار اور خالص مسیحی تھے، مومن۔ غیر مشروط مَحَبّت اور لامحدود برداشت میں اُن کا جیون گُندھا تھا۔ یہ خُدا کو بڑھ چڑھ کر جلال دینے والے تھے، پاک خُداوند یسُّوع مسیح کی تمجید کرنے والے تھے۔ اُنھوںنے اِنسانوں کی جی بھر کے خدمت کی۔ اذیّتیں سہیں، اُف نہ کی۔ ظلم برداشت کیے، فریاد نہ کی۔ جو بھی مصائب و آلام ان مُقدّس شخصیتوں پر آئے خُداوند پاک کی عقیدت و مَحَبّت میں سب اپنی جان پر لیے اور صبر کِیا۔
اپنی تو وُہ مثال ہے جیسے کوئی درخت
اوروں کوسایہ بخش کے خُود دُھوپ میں جلے
مُقدّسین تب جا کے مُقدّسہ اور مُقدّس کہلائے۔ مروّت، ہمدردی، گرمجوشی، کشادہ دِلی ان میں ہوتی ہے تو جانیے اسی لیے خُداوند قُدُّوس بھی ان میں، ان کے اندر موجُود ہوتا ہے۔ یہی اُن کے اوصافِ حمیدہ کا شیریں ترین پھل ہے۔ اسلامی عقیدہ اور اصول و قواعد کے مُطابِق پیغمبراور رسُول تو ہوتے ہی معصوم ہیں۔ بائبل مُقدّس اور مسیحی تعلیما ت میں معصومیت کِسی بھی اِنسان کا خاصہ نہِیں۔ نبی، رسُول، ولی الغرض تمام مُقدّسین کو گُناہوں سے پاک ہونے جیسا کوئی سرٹیفکیٹ حاصل نہِیں۔اسلامی تعلیمات بتاتی ہےں کہ خُدا کے بھیجے ہوئے نبی سے گُناہ سرزد ہو ہی نہِیں سکتا۔ وُہ معصوم ہے۔ مسلمانوں کے ایمان اور اپنے دِین سے وفاداری کی یہ انتہا ہے۔ ہم اُن کے عقائد کا احترام کرتے ہیں، مگر بات ہے بہُت بڑی کہ ان کے مُقدّسین سے خطا سرزد ہو ہی نہِیں سکتی۔ وُہ نہ دَغا کر سکتے ہیں او رنہ خُدا اور مذہب سے بے وفائی۔ سُنّتِ نبوی اور شریعتِ اسلام جو ایک دُوسرے کی تائید کرتے ہیں دونوں نے پیغمبروں کو معصوم قرار دیا ہے۔ اُنھیں خاص استحقاق اور امتیاز بخشا گیا ہے۔ وُہ برائیوں اور خطاﺅں سے پاک ہیں، مبرا ہیں۔ خُدا خُود ان کی حفاظت کرتا ہے اور گُناہوں سے بچاتا ہے۔ ایمان لانے اور مبعوث ہونے سے پہلے والی زندگی میں اُن سے جو گُناہ منسوب ہوئے وُہ سب خُدا نے معاف کر دیے، کیوں کہ وُہ سب پیغمبر تھے تو محض اِنسان ہی نا۔
بحوالہ
(Cheikh Si Hamza Boubakeur, Traité Moderne de Théologie Islamique. Paris, 1985, p. 127).