:سوال نمبر100
کارڈینل (رئیس اُسقف) کل تک تو اچھا بھلا آدمی تھا، عام انسان (خطا کا پُتلا)، جیسے ہی بطور پوپ منتخب ہُوا یک بہ یک بے خطائی کی اُلُوہی صفت سے اس کا متصف ہو جانا! عجیب سی بات نہیں؟
جواب:۔ براہِ کرم پوری توجُّہ سے باب6، III۔ 1.2کا ایک مرتبہ اور مطالعہ فرمائیے جو مخصوص مقررہ کیتھولک مسیحی تعلیم کے بارے میں ہے جو کلیسیا اور اس کی تعلیمی ساخت و ترکیب و تنظیم کا احاطہ کرتا ہے۔ کیتھولک کلیسیا کی مسیحی تعلیمی کتاب میں
(2005 Libreria Editrice Vaticana, Città del Vaticano, or Pattloch Verlag, Munich)
اِن سوالوں کے جوابات کے لیے مندرجہ ذیل تصریحات آپ کی دِلچسپی کا باعث ثابت ہو سکتی ہیں جو مناسب، با موقع اور مفیدِ مطلب ہیں۔
882: پوپ صاحب کی منسٹری سے کیا مُراد ہے؟
پوپ، جو بشپ آف روم اور مُقدّس پطرس کا جانشین ہوتا ہے اس کی مثال ہمیشہ نظر میں رہنے والے سرچشمہ کی سی ہوتی ہے۔ جماعتی سطح پر کُل مومن مسیحیوں اور بشپ صاحبان کے درمیان اتفاق و اتحاد برقرار رکھنے میں اس کی حیثیت سیمنٹ جیسی ہے۔ رومن پونٹیف (اسقفِ روما) کو اپنے منصب کی بِنا پر بطورِ خداوند اقدس یسُّوع مسیح کے نائب یعنی پاپاے اعظم (Vicar of Christ)اور بطور تمام کلیسیاؤں کے چوپان (پاسبان) کے مُقدّس کلیسیا پر خدمت کے ہر شعبہ میں مُکمَّل، آفاقی و اعلیٰ ترین اختیار حاصل ہوتا ہے۔ وُہ ایسی طاقت، کُلّی اختیار کا مالک ہوتا ہے کہ اسے اس کے آزمانے، کام میں لانے میں قطعاً بیرونی کوئی روک ٹوک نہیں ہوتی۔
883: کلیسیائی انتظامی اُمُور کے لیے پاپائی قیادت میں اساقفہ کی شراکت و خدمت
مجلسِ بشپس اس وقت تک مجاز اتھارٹی اپنے آپ کو نہیں کلیم کر سکتی جب تک ظاہراً و باطناً اسقفِ روما کہ جو مُقدّس پطرس کے جانشین کا اعزاز رکھتا ہے، اُس سے جُڑی ہوئی نہ ہو اور اسے اپنا لیڈر اور مقتدرِ اعلیٰ تسلیم نہ کرتی ہو۔ اسی طرح کلیسیائی انتظامی اُمور کے لیے مخصوص اس مجلس کو عالمگیر کلیسیا پر مُکمَّل کنٹرول حاصل تو ہوتا ہے۔لیکن۔۔۔۔۔۔ اپنی بے پایاں اتھارٹی کو استعمال میں لانے سے پہلے رومن پونٹیف (اسقفِ اعظم) سے دستوری صوابدید ضرور حاصل کرنا پڑتی ہے۔ کلیسیا کا اپنا ایک چیک اینڈ بیلنس سسٹم موجُود ہے۔
888اور 889: کلیسیائی اُمور کی انجام دہی کے ساتھ ساتھ دینی تعلیمی خدمات سے محترم بشپ صاحبان کیوںکر عہدہ برآ ہوتے ہیں
عالی وقار بشپ صاحبان اور ان کے معاونین دِینی خادمین کے سامنے پہلا ان کا فرضِ منصبی جو ہے، وہ یہ ہے کہ حکمِ خُداوندی کی تعمیل میں تمام انسانوں کے لیے خُدا کے مُقدّس کلام کی تبلیغ۔ یہ لوگ نقیبِ مسیحیت کے اعلیٰ مقام پر فائز ہیں۔ مُقدّس خُداوند یسُّوع المسیح کے نئے شاگردوں (طالبانِ علمِ مسیحیت) کو اس برکت والے کام کی طرف راغب کرتے ہیں۔ خُداوندِ یسُّوع مسیح پاک کی طرف سے عطا کیے گئے خاص فیض کی بدولت رسولی عقیدہ کے یہ قابلِ اعتماد و مستند بتانے اور سکھانے والے اُستاد ثابت ہوتے ہیں۔ عقیدے کی سچائی و پاکیزگی کہ جو رسولوں کی خدمات و مساعی کا نتیجہ ہوتی ہے اس کے سلسلے میں کلیسیا کی حفاظت اور یہ کہ اس پر کوئی داغ آنے سے اس کو بچانے کی خاطر پاک خُداوند یسُّوع المسیح جو خُود بہُت بڑی سچّائی ہے اس نے اپنی صفتِ بے خطائی میں سے ایک بڑا حصّہ رُوحُ القُدس میں کلیسیا کو بخش دیاہے۔ فطرتی قوتوں سے مذہب کی بالاتر قوت کے باوصف کلیسیا کے تعلیم دینے کے طاقت ور عزائم و مضبوط اختیارات اور اس کی ہدایات و رہنمائی میں خدا کی اُمّت یعنی خُدا کے لوگ بڑی کامیابی سے مسیحی مذہب پر قائم دائم رہتے ہیں۔ مذہب سے، اپنے عقائد سے چپکے رہنا تمام مسیحیوں کی عادتِ ثانی نہیں، عادتِ اوّل ہے، جس کے لیے ایرلڈائیٹ پاک خُداوند یسُّوع پاک کی محبت ہے، اُس کی طرف سے اور مسیحیوں کی طرف سے بھی۔
891: میجسٹیریم کو فتواے بے خطائی کب حاصل ہوتا ہے؟
اسقفِ روما (Roman Pontiff)جو کالج آف بشپس (کلیسیائی انتظامی اُمُور کے لیے پاپائی قیادت میں بشپس کی شراکت و خدمت) کا سربراہ ہوتا ہے اُسے اپنے مرتبہء اسقفیّت کے بِرتے پر سہو و خطا سے بریّت حاصل ہوتی ہے اور بطور کلیسیائی خادمِ اعلیٰ اور معلّمِ مسیحیت تمام ایمان لانے والے اور اس پر مضبوطی سے قائم مسیحیوں کی مذہبی تعلیم و تربیّت اور دِینی خدمات پر مامُور کیے جانے والے ایمان اور الٰہیات کی برکت کے جویا برادران کو استقلال دیتا ہے اس اعلان کے ساتھ کہ دِینی اصولوں کی تعریف کے تحت کارفرما عقیدے کی جڑیں مسیحیت اور اس کی اعلیٰ اخلاقی اقدار میں پیوست ہیں، اور اس پر ان دِینی بھائیوں کی تربیت کی اساس رکھی گئی ہے۔
لاخطائی کہ جو کلیسیا کو موعودہ عطیہ ہے، اس کا حق بشپ مرتبہ کے خادمینِ مسیحیت کو ہی حاصل ہے، ان کی مجلس مُقدّس پطرس کے جانشینِ اقدس کی سربراہی میں کلیسیا کی تعلیم دینے کے اختیاراتِ اعلیٰ کے تحت اس حق کو استعمال میںلاتی ہے، اس پر مستزاد یہ کہ عالمگیر کلیسیائی مجلس جو معاشرے کی تعمیرِ نو کے لیے بین الکلیسیائی روابط اور اتحاد پر زور دینے والا ادارہ ہے اس کے اجلاس اور کارروائی کے موقع پر بھی اس اقومانی کونسل کو اس حق سے استفادہ کرنے کا مجاز مانا جاتا ہے۔
کلیسیا جب مسیحی تعلیم دینے کے اختیار کے ذریعے ایمان و اعتقاد کے درس و تدریس کی خاطر رہنما اُصُول و قواعد اور روحانی نظریاتی نِکات تجویز کرتی ہے جو اس پر رُوحُ القُدس میں ربّانی طور پر منکشف ہوئے ہوتے ہیں اور مُقدّس خُداوند یسُّوع المسیح کی تعلیمات و فرمودات کے عین مُطابِق ہوتے ہیں، ان کی حُدُود اور ان کے خواص خاصیتوں اور ان کی تعریف و تشریح کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے مذہبِ مسیحی کی اطاعت میں دِل و جان سے پابندی کے ساتھ پیروی کرنی چاہیے۔ یہ بے خطائی والا قانون اپنی اِلاسٹسٹی یعنی لچک میں، اپنی کھینچ میں اِتنی دُور تک جا پہنچتا ہے جتنی دُور الٰہی کشف کے خزانے کے فیوض و برکات پہنچ سکتے ہیں۔ (کیتھولک کلیسیا کی مسیحی تعلیم کی کتاب)
کلیسیا کے ادراک کو کلامِ مُقدّس تنویر دیتا ہے اور اس سے بصیرت ملتی ہے اور یہ ابلاغ کہ کلیسیا کے نزدیک مسیحی تعلیم دینے کے ضمن میں جو پاپائی اختیارات ہیں ان پر اور ایسے دُوسرے اُمُور پر بے خطائی کا دائرئہ کار کیوں کر اور کِس حد تک ہے۔ مُقدّس بائبل میں اِسی بات کی تصریح آئی ہے۔ چناں چہ اگر کوئی تقدّس مآب پوپ اپنا جانشین خود طے کر کے مقرر کرے گا تو وُہ موزوں ترین قواعد سے رُوگردانی کرے گا اور یہ امر اس کو تفویض کردہ اختیارات سے تجاوز کہلائے گا اور مجموعہء قوانینِ کلیسیا سے کِسی کو استثنا حاصل نہیں، اِس لیے مُقدّس پوپ کے ایسے فیصلے کو بے خطائی کا چھتر حاصل نہیں۔