:سوال نمبر107
۔برتھ کنٹرول کے لیے مردانہ حفاظتی تدبیر (Condoms)کے استعمال کی ابھی تک کیوں ممانعت جاری ہے۔ کیا ویٹی کن ایڈز کی وجہ سے برِّاعظم افریقا میں ہونے والی اتنی زیادہ انسانی جانوں کی تلفی سے باخبر نہیں؟
جواب:۔مانع تولید غلاف چڑھانے یا اس کے استعمال سے پرہیز کے سلسلے میں جو سوال ہے اس کے جواب کو اصل اور فطری مقام پر رکھتے ہوئے کیتھولک اخلاقی تعلیمات کے ضابطہء اخلاق (Code of Ethics)میں حمل روکنے کے مصنوعی عمل کے لیے کِسی بھی قسم کی کوئی گنجایش موجود نہیں یا موجود ہے، یہ دیکھنا پڑے گا۔
قریباً سبھی جانتے ہیں کہ مسیحی تعلیم دینے کے انتظام و انصرام اور اختیارات کے تحت کلیسیا مانعِ حمل گولیاں ہوں یا دیگر مصنوعی تراکیب ان کو بہ رُوے کار لانے کی حوصلہ افزائی قطعاً نہیں کرتی بل کہ اپنا حقِّ استرداد استعمال کرتی ہے۔ کلیسیا سمجھتی ہے ایسا کرنے کی اجازت دینا فطری ربط پایمال کرنے کی اجازت دینے کے مترادف ہے جسے قدرت نے ارتباط اور استقرارِ حمل کے لیے لازم قرار دے رکھا ہے۔ مختارانِ کلیسیا، ایڈز(A.I.D.S: Acquried Immune Defficiency Syndrome)/ایچ آئی وی(H.I.V: Human Immunodeficiency)انفیکشن روکنے کے لیے رفالہ (غباروں) کے استعمال کے بجاے اپنی مسیحی تعلیمات کے ذریعے جاری مخصوص ہدایات پر اکتفا کرتے ہیں۔
کلیسیا اِس بات پر متفق ہے کہ ازدواجی ذمہ داری، دیانتداری و وفاداری اور اختلاط کے ضمن میں پورے اعتماد کے ساتھ ضبطِ نفس کے نتیجہ میں پرہیز ہی وہ کیفیت ہے جو محفوظ ترین توڑ ثابت ہوتی ہے ایک سے دوسرے کو لگنے والے مخصوص امراض کے خلاف۔ یہ واقعی تیر بہ ہدف حل ہے۔
تاہم اِس امر پر بھی ذہنی توجُّہ مرکوز کرنے کی اپنی ہی ایک اہمیت و ضرورت ہے۔ قرائن سے ثابت ہے کہ بہت لوگ ہیں جو اسے ازدواجی زندگی کا لازمہ سمجھتے ہیں اور اخلاقی تعلیمات والے پرہیز کو نفسانی خواہش اور فطری اختیار و عمل کی ضد قرار دیتے ہیں۔ اور سمجھتے ہیں کہ میاں بیوی کے درمیان اس فطرتی عمل کے خلاف کلیسیا اُن سے کچھ زیادہ ہی توقعات وابستہ کیے بیٹھی ہے جن پر عمل انسانی جبلت کے خلاف جانے والی بات ہے۔ حال آں کہ ایسا نہیں۔ کلیسیا تو بس پرہیز کو علاج سے بہتر قرار دے رہی ہے۔ اس کا زوردار مشورہ اخلاقی احتیاطی تدابیر پر ہے۔ وہ جذبات سے کھیلنے کی حوصلہ شکنی کر کے جذبات کو قابو میں رکھنے کی حوصلہ افزائی کر رہی ہے۔ بشمول قابلِ احترام بشپس صاحبان اور مسیحی علما و فضلا کرام کی طرف سے بار ہا کوشش کی گئی اور اس بات پر اصرار کِیا گیا کہ امتناعِ حمل کے لیے صبر و برداشت، ضبط و استقامت بھی احسن اخلاقی اقدام ہیں۔ تاہم ایچ آئی وی انفیکشن سے بچاو کے لیے کنڈوم کا استعمال دونوں ساتھیوں کے لیے بچاو کا طریق تو ہے، یقینی بچاو کا طریقہ نہیں بل کہ اس کے مضر اثرات بھی ہیں۔ یہ تو بالکل ایسے ہے جیسے اسقاطِ حمل کے اپنے خطرات و اثرات ہیں اور اس کے بد اثرات سے اب تک دنیا بخوبی آگاہ ہو چکی ہے۔ اس لیے ضبطِ تولید اور جنسی اور دوسرے زنانہ و مردانہ مخصوص عوارض اور چھوت چھات کے سلسلے میں کلیسیا کی ریسرچ پر قائم کردہ ہدایات قابلِ اعتبار و لائقِ اعتماد ہیں۔ ا س لیے تھیالوجیئنز اور اکثر بشپ صاحبان کی بار بار کی کاوشوں کو کلیسیا نے قبولیت کا شرف نہیں بخشا۔ مختلف تدابیر و تراکیب کے استعمال پر قدرے لچک کی ان کی تجویز تھی جو بارِ قبولیت نہ پا سکی۔
بے شک فی زمانہ جو حالات ہیں، اور جو وجوہ اعتبار حاصل کر رہی ہیں اور جو سہولیات میسر ہیں ان کے پیشِ نظر قدرتی عوامل کو چھوڑ کر، خُدا کارساز کی قدرت سے قطع نظر مصنوعی طریقے آزمانا صحت و تن درستی کے بھی خلاف فعلِ اختیار ہے اور اخلاقیاتِ مسیحی کے بھی منافی عمل ہے۔ اس خاص مسئلہ کے جو ممکن حل ہیں ان کی طرف مادر کلیسیا مستقل آگاہی دیتی رہتی ہے۔