الہام و کلام / بائبل مقدّس اور کلامِ خداوند
اناجیل اور یسوع مسیح
مُسلمان پُوچھتے ہیں کہ
الف۔ایک ہی انجیلِ مقدّس کے بجاے، چار چار انجیلیں کیوں ہیں؟ اِن چاروں میں سے مُصدّقہ انجیل کون سی ہے؟
ب۔ اناجیلِ مُقدّسہ میں پائی جانے والی عدم مُطابقت کیا اِس بات کی غماز نہِیں کہ کہِیں کہِیں اصل متن سے اِنحراف کِیا گیا ہے؟
ج۔بائبل مقدّس کو خُدا کا کلام کِیوں تسلیم کیا جائے جب کہ ہر کِتاب کی پیشانی پر اُس کے مُصنِّف کا نام درج ہے۔ مثلاً اشعیا، مَتی، مرقُس اور دیگر؟
زیادہ سے زیادہ اِنھیں وہ مُبلغِین کہا جا سکتا ہے جنھوں نے آسمانی پیغام لوگوں تک پہنچایا۔
د۔بائبل مقدّس کی اِن کِتابوں کے مُصنّفِین معتبر رسول کیوںکر مانے جا سکتے ہیں جب کہ وقوع پذیر حالات و واقعات کے نہ تو وہ چشم دید گواہ تھے نہ ہی اُن کا کلام دِیے سے دِیا جلنے کے مترادف ایک لڑی میں اُن تک پہنچا جِس طرح کہ احادیثِ مبارکہ روایت و سند کے ساتھ سِلسلہ وار آگے پہنچائی گئیں۔ مِثال کے طور پر لُوقا کی حضرت عیسی سے کبھی مُلاقات ہی نہِیں ہوئی نہ ہی اُنھوں (لُوقا) نے معلومات تک اپنی رسائی کے ضِمن میں کِسی کو سند بتایا ہے؟
چُوں کہ اکثروں نے یہ کوشش کی ہے کہ اُن باتوں کو باترتیب بیان کریں۔ جو ہمارے درمیان واقع ہوئیں۔ جس طرح کہ اُنھوں نے ہم سے روایت کی جو شروع ہی سے خُود شاہد اور کلام کے خادم رہے۔ اِس لیے اے معزز تاﺅ فیلُس مَیں نے بھی مُناسِب سمجھا کہ سب کُچھ شروع ہی سے ٹھیک ٹھیک دریافت کر کے باترتیب تیری خدمت میں تحریر کروں۔ تاکہ جن باتوں کی تُو نے تعلیم حاصِل کی ہے تُو اُن کی پختگی معلُوم کر لے۔
(مُقدّس لُوقا...4.1:1)
2۔اِسلامی نقطہءنظر
عمومی
بُنیادی بات تو یہ ہے کہ مُسلمان اِن صحیفوں بل کہ جامع بائبل مقدّس کو بھی قرآن مجید والے معیار پر پرکھنے کے قائل ہیں۔ اِسلام کے نزدِیک قرآن مجیدہی وہ رول ماڈل ہے جِس کی کسوٹی پر ہر اُس صحیفے کو جو آسمان سے اُترا ہو جانچا اور پَرکھا جا سکتا ہے۔ قرآن مجیدکلمة اللہ یعنی کلامِ خُدا ہے جو براہِ راست پیغمبر پر نازِل ہوا جِن کے سپُرد بس اِتنا کام تھا کہ وہ اِس کلامِ خُداوندی کو آگے تک پہنچا دیں۔ قرآن پاک کا مَتن مِثالی ہے اور ناقابلِ تبدیل بھی۔ یہ کسی طرح بھی کسی اِنسان کا تخلیقی کارنامہ ہرگز نہِیں۔
قرآن مجید الفرقان ہے، یعنی حق و باطِل میں تمیز کرنے والا، سچائی جاننے کا پیمانہ۔ ہر آسمانی صحیفے کی محض اُسی پیمانے پر جانچ ہو سکتی ہے۔ بائبل مقدّس کو بشمول مقدّس نوشتوں کے فقط اِس صورت میں کلامِ خُداوند تعالیٰ مانا جا سکتا ہے جب بائبل مقدّس میں کہِیں اِختلاف کی نمو مُشاہدے میں نہ آئے۔ پس جب اُمت پر قرآن مجیدکا نزول ہو چُکا تو اُسے کسی اور اِلہامی کِتاب کی احتیاج نہ رہی کیوںکہ باقی تمام صحائف میں ویسے بھی اِتنی تبدیلیاں در آئی ہیں کہ اپنے نزول کے اعتبار سے اُن کا اصل متن اُس طرح رہا ہی نہِیں یا یوں کہہ لیجیے کہ اُن کے اِبلاغ کا صحیح طور ادراک ہو ہی نہِیں سکا۔ یہی وجہ ہے کہ بائبل مقدّس کی تلاوت کی طرف مُسلمان راغِب نہ ہو سکے مگر مسیحیت کی نُمایاں نظریاتی اَساس اور مسیحی خواص جاننے کے اشتیاق میں البتہ بعض مُسلمانوں میں بائبل مقدّس کے مُطالعہ کے رجحان کا پایا جانا کوئی اِتنے اچَنبے کی بھی بات نہ تھی لیکن قرآن کریم جیسی آفاقی سچائی اور اِس آخری کِتابِ الٰہی کے نزول کے بعد کِسی مُسلمان کا ایسا شوق پالنا کہ دُوسرے ادیان کی چھان بین میں رہے، اچھی نظروں سے نہ دیکھا گیا، ایسا عمل سوادِ اعظم کی نگاہوں میں مشکُوک و معتُوب قرار پایا۔
تفصیلی جائزہ
۱۔ازل سے اَبد تک کے لیے ایک ہی کِتابُ اللہ ہے، اُمُّ الکِتاب، یعنی قرآن مجید۔
خُدا تعالیٰ (ہی) جس حکم کو چاہیں موقوف کر دیتے ہیں اور جس حکم کو چاہیں قائم رکھتے ہیں اور اصل کتاب اُسی کے پاس ہے۔
(القرآن،الرعد:39)
کیا ہم تم سے اس نصیحت (نامہ) کو اِس بات پر ہٹا لیں گے کہ تم حد (اطاعت) سے گذرنے والے ہو۔
(القرآن،النسا:43)
وہ ایسا ہے جس نے نازل کِیا تم پر کتاب کو، جس میں ایک حِصّہ وہ آیتیں ہیں جو کہ اشتباہِ مراد سے محفوظ ہیں اور یہی آیتیں اصلی مدار ہیں (اس) کتاب کا، اور دوسری آیتیں ایسی ہیں جو کہ مشتبہ المراد ہیں۔ سو جن لوگوں کے دِلوں میں کجی ہے، وہ اس کے اسی حِصّہ کے پیچھے ہو لیتے ہیں جو مشتبہ المراد ہے (دِین میں) شورش ڈھونڈنے کی غرض سے اور اس کے (غلط) مطلب ڈھونڈنے کی غرض سے، حال آںکہ ان کا (صحیح) مطلب بجز حق تعالیٰ کے کوئی اور نہِیں جانتا جو لوگ عِلم (دین) میں پختہ کار (اور فہیم) ہیں وہ یُوں کہتے ہیں کہ ہم اس پر (اجمالاً) یقین رکھتے ہیں (یہ) سب ہمارے پروردگار کی طرف سے ہیں اور نصیحت وہی لوگ قبول کرتے ہیں جو کہ اہلِ عقل ہیں۔
(القرآن،آلِ عمران:7)
یہ خُدا کا خاص کلام ہے۔ پُوری طرح مامون لوحِ محفوظ پر موجود ہے۔
بل کہ یہ کافر (اور اُلٹی) تکذیب کرتے ہیں۔
(القرآن،البروج:22)
وقت کے ساتھ ساتھ (ضرورت کے مطابق) اللہ کے بھیجے ہوئے مخصُوص بندوں، (پیغمبروں) پر یہ کلامِ الٰہی یعنی اِس مقدّس کِتاب کو اصلی صورت میں نازل کِیا جاتا رہا۔ توریت کی شکل میں حضرت موسیٰ پر (بائبل مقدّس کی پہلی پانچ کِتابوں کے مماثِل)، زبُور کی کِتاب حضرت داﺅد پر نازل ہوئی، انجیل مُقدّس حضرت عیسیٰ پر نازل ہوئی اور عربی زُبان میں قرآن مجید آخِر میں حضرت محمد پر نازل ہُوا۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اپنے مخصُوص و منتخب بندوں پر نازل کیے گیے اِن صحائف کے سِلسلہ میں اُن پیغمبروں پر یہ پابندی تھی کہ اللہ کے پیغام کو اُس کے بندوں تک عین حرف بہ حرف پہنچائیں، ذرہ بھر کمی بیشی نہ ہونے پائے۔
۲۔تمام آسمانی صحیفے اِس دائمی کِتاب کے ہی ایڈیشن تھے۔ سبھی ایک ہی پیغام کے داعی تھے اور پُورے وثوق سے خوب متنبہ کرتے رہے کہ.... تمھیں اپنے واحد اور سچے خُدا کی پرستِش اور بندگی کرنا چاہیے اور اُس کے ساتھ کِسی کو شریک نہ ٹھہرانا چاہیے.... یہاں تک تو یہودیوں اور مسیحیوں کی کِتابیں قرآن مجیدکے بتائے سے مطابقت رکھتی ہیں اور اِس کا دعویٰ بھی ہے کہ وہ کلام و احکام ِخُداوندی کا آخری، مکمل و معتبر ایڈیشن ہے جسے عربی زُبان میں اُتارا گیا اور اِس میں پہلے کی تمام کِتابوں کی صداقتیں موجود ہیں بالکل اِسی الہامی شفافِیّت اور الوہی محاسن کے ساتھ جو تمام صحائفِ آسمانی کا وصفِ اعلیٰ رہا ہے۔ بائبل مقدّس اور قرآن مجیدمیں جہاں اختلاف نوٹ کِیا جاتا ہے وہ، وہ جگہ ہے جہاں مُسلِم اُمّہ سمجھتی ہے کہ مسیحی اور یہودی اپنی اپنی مُقدّس کِتابوں کی حِفاظت میں ناکام رہے اور اِن کِتابوں کے متن میں تبدیلی آ گئی۔
۳۔اِنجیلِ مقدّس اور تورَیت شریف میں جہاں جہاں سمجھا جاتا ہے کہ تحریفات ہوئیں اُن کے بارے میں مُسلِم علما اور دِین کے مُحافظین نے مختلف نِکات اُٹھائے ہیں:
٭توریتِ شریف یعنی بائبل مقدّس کی پہلی پانچ کِتابوں کو کلیةً حضرت موسیٰ سے منسُوب نہِیں کِیا جا سکتا، جیسے تورَیت شریف کی پانچویں کِتاب تثنیہءشرع میں حضرت موسیٰ کی رحلت کی جو تفاصیل دی گئی ہیں۔
چُناںچہ حضرت موسیٰ خُداوند کا خادِم وہاں پر خُداوند کے کہنے کے مُوافِق موآب کے مُلک میں فوت ہُوا۔ اور مُوآب کی وادی میں بیت فعور کے مُقابِل دفنایا گیا۔ مگر اُس کی قبر کو آج کے دِن تک کوئی نہِیں جانتا۔ اور حضرت موسیٰ اپنی موت کے وقت ایک سو بیس برس کی عُمر کا تھا۔ اُس کی آنکھیں نہ دُھندلائیں اور نہ اُس کی تازگی جاتی رہی۔ تب بنی اِسرائیل نے حضرت موسیٰ کے لیے مُوآب کے میدان میں تیس دِن تک ماتم کِیا۔ جب تک کہ حضرت موسیٰ پر ماتم کرنے کے دِن پُورے نہ ہوئے۔
(تثنیہ شرع5.8:34)
٭وہ خُود اُن کی بیان کردہ تو نہِیں ہو سکتیں۔ یقینا اُن کا مُصنِّف کوئی اور ہے۔ بائبل مقدّس میں تو اور بھی کئی مدیرانہ اِضافوں کو سمو دیا گیا ہے۔
٭نئے عہد نامہ کی اناجیلِ مُقدّسہ تضادات سے معمور ہیں۔ مثلاً حضرت عیسیٰ کے شجرئہ مُبارک کا بیان، یروشِلم میں آپ کا ورود اور پطرس کی آپ حضور سے بے وفائی کا بیان.... سب سے بڑھ کر یہ بات کہ اِن چاروں کِتابوں کو چار مختلف لِکھاریوں نے ترتیب دیا جب کہ اِن چاروں میں سے کم از کم ایک مُصنِّف کو تو حضرت عیسیٰ کی زیارت بھی نصیب نہ ہوئی تھی۔ نتیجہ یہ ہے کہ یہ حضرات معتبر راوی ہونے کے بُنیادی تقاضوں کے ترازو میں کبھی پورا نہِیں اُتر سکتے۔ احادیثِ مُبارکہ تواتر کے ایک نظام کے تحت جمع کی گئی ہیں۔ پیغمبر کے اقوال واعمال کے لِکھنے سے پہلے اُن کی باقاعدہ تحقیق وتصدیق ضروری سمجھی گئی۔ اصل راوی تک پہنچنے کے لیے روایت والی کڑی سے کڑی مِلائی گئی کہ فلاں نے فلاں سے یہ بات سُنی، اُس نے فلاں سے اور اُس فلاں نے آگے کِسی فلاں سے الغرض یوں ہوتے ہوتے یہ سِلسلہ اصل شاہد راوی تک جا پہنچتا ہے جِس نے جو سُنا اپنے کانوں سے سُنا، جو دیکھا اپنی آنکھوں سے دیکھا۔
٭مسیحی اِس بات کو مانتے ہیں کہ بہت سی بے سند و ناقابلِ اعتبار اناجیلِ مُقدّسہ بھی منظرِ عام پر آئیں جنھیں کلیسا نے پوری چھان پھٹک کے بعد اناجیلِ مُقدّسہ کی فہرست میں شامِل نہ کِیا۔ اُنھی میں ایک انجیل ایسی بھی ہے جوقرآن مجید سے مُطابقت رکھتی تھی۔ یہ برنباس والی انجیل تھی جسے اکثر مُسلمانوں نے بہت حد تک ثقہ انجیل کا درجہ دیا۔
٭یہ کوئی ڈھکی چِھپی بات نہِیں! کاہنوں اور راہبوں نے تورَیت شریف اور انجیلِ مقدّس سے ایسے حوالے غائب کر دیے جِن میں حضرت محمد کے ورودِ مسعود اور مبعوث ہونے کی پیشگوئیاں تھیں۔
”اور یہ واقعہ بھی غیر معمولی طور پر یاد رکھنے کے لائق ہے، جب مریم کے بیٹے عےسیٰ نے کہا : اے بنی اسرائیل! اﷲ نے مجھے تمھاری طرف رسُول بنا کر بھیجا ہے، اور مجھ سے پہلے جو توریت آچکی ہے، اُس کی تصدیق کرتا ہُوں اور ایک رسُول جو میرے بعد آئے گا، اور جس کا نام احمد ہو گا، اُس کی بشارت دیتا ہُوں ،پِھر جب وہ اُن کے پاس آسان اور واضح آیات لے کر گئے، تو کہنے لگے: یہ تو سرا سر جادُو ہے “۔
(القرآن ،الصف:6)
”جو اُس نبی کی پیروی کرتے ہیں جس نے دُنیا سے لکھنا ہی سیکھا ہے، نہ پڑھنا ہی سیکھا ہے۔ جس کے اوصافِ حمیدہ کو وہ اپنے پاس موجُود توریت اور انجیل میں درج پاتے ہیں۔ جو اُنھیں نیک کاموں کی تلقین کرتا ہے، اور بُرے کاموں سے روکتا ہے۔ جو پاک چیزوں کو اُن کے لیے جائز اور ناپاک چیزوں کو اُن کے لیے ناجائز قرار دیتا ہے۔ اور اُن کے سروں پر سے جہالت کے بوجھ اور گردنوں سے بُتوں کی غُلامی کے طوق اُتارتا ہے۔ تو جو لوگ اُس پر ایمان لائے، اور اُس کا ساتھ دِیا اور اُس کی مدد کی، اور جو اُس کے ساتھ ہدایت نازل ہوئی،اُس کی پیروی کی، وہی کامیاب ہیں“۔
(القرآن، الاعراف:157)
تاہم موجودہ بائبل مقدّس میں ایسی پیشگوئیوں کے خفیف اِشارات ابھی بھی باقی ہیں۔
حضرت موسیٰ کی مِثال ایک مقدّس پیغمبر کا آنا تورَیت شریف میں مذکور ہے:
خُداوند تیرا خُدا تیرے ہی درمیان سے یعنی تیرے بھائیوں ہی میں سے میرے مانند ایک نبی تیرے لیے برپا کرے گا۔ تُم اُس کی سُننا۔ جیسا کہ تُو نے خُداوند اپنے خُدا سے حوریب پر مجمع کے روز التجا کر کے کہا کہ مَیں خُداوند اپنے خُدا کی آواز پھِر نہ سُنوں اور ایسی بڑی آگ بھی پھر نہ دیکھوں، تاکہ مَیں مر نہ جاﺅں۔ تو خُدا نے مجھ سے کہا کہ اُنھوں نے اچھا کہا۔ مَیں اُن کے بھائیوں کے درمیان سے تیری طرح ایک نبی برپا کر دُوں گا۔ اور اپنا کلام اُس کے مُنہ میں ڈالوں گا اور جو کچھ مَیں اُسے حُکم دُوں گا وہ اُن سے کہے گا۔
(18-15:18 تثنیہ شرع)
حضرت یسوع مسیح کے بعد آنے والے نبی کے بارے میں مُقدّس یوحنا کی انجیلِ مقدّس بتاتی ہے کہ وہ آنے والا اپنی اُمت کو حق آشنا کرے گا۔
مگر جب وہ وکیل آئے جسے مَیں تمھارے لیے باپ کی طرف سے بھیجوں گا۔ یعنی رُوحُ الحق جو باپ سے مُنبثق ہے تو وہ میری گواہی دے گا۔ اور تم بھی گواہی دو گے کیوںکہ تم شروع سے میرے ساتھ ہو۔
(26:15 یوحنا کی انجیل)
اور مَیں باپ سے درخواست کروں گا اور وہ تمھیں دوسرا وکیل بخشے گا کہ اَبد تک تمھارے ساتھ رہے۔
(16:14 یوحنا کی انجیل)
لیکن جب وہ یعنی رُوحُ الحق آئے گا تو وہ ساری سچّائی کے لیے تمھاری ہدایت کرے گا۔ کیوںکہ وہ اپنی طرف سے نہ کہے گا، لیکن جو کُچھ سُنے گا وہی کہے گا۔ اور تمھیں آیندہ کی خبر دے گا۔
(13:16 یوحنا کی انجیل)
٭الغرض ماضی و حال کے بعض مُسلِم علما (ابنِ سینا1037 ۔980ع، ابنِ خلدون1406۔1332ع، محمد عبدوہ 1905۔1849ع، سر سیّد احمد خان1898۔1817ع، وغیرہ) ایسے بھی ہیں جِن کے ہاں بائبل مقدّس اپنی موجودہ صورت میں قبولیتِ عین کا درجہ رکھتی ہے۔ یہ اشخاص بائبل مقدّس میں تحریف کے مُنکر ہیں۔ اُن کے نزدیک جِس کھلواڑ کا قرآن شریف میں ذکر آیا ہے۔ اُس سے مُراد متن سے اِنحراف یا آیات کا بدلا جانا نہِیں بل کہ قرآن مجیدکا حوالہ اُن قدیم یہودیوں اور مسیحیوں کی طرف ہے جنھوں نے کلامِ مُقدّس کی آیات کو نہ سمجھا اور یا پھر کسی بھی وجہ سے غلط معانی پہنائے اور بیان و تشریح کے زُمرے میں بھٹک گئے، چناںچہ علما اِس لیے اِسی بات پر مُصر رہے کہ بائبل مقدّس اپنے اصل متن کے ساتھ موجود تھی اور موجود ہے۔
اِسی طرح دیگر چند معاصر مُسلِم علماء(محمود عباس عکاد(1964۔1889ع عثمان فتحی1928ع، خالد محمود خالد1920ع، محمد ارکون1928ع، نصر ابوزید1943ع) یہ نظریہ رکھتے ہیں کہ اِن اناجیلِ مُقدّسہ کی عمارت کو تاریخی واقعات کے عِلم کی بُنیاد پر اُٹھایا گیا ہے لیکن اُن کا کہنا یہ بھی ہے کہ اِن تاریخی حالات و واقعات کی تشریح و توضیع میں مسیحیوں کو دُوسروں کے نقطہءنظر سے احتراز روا نہ تھا۔
٭قابلِ توجُّہ امر ہے کہ مذکورہ معاصرین میں سے چند دانشوروں (محمد ارکون۔ الجیریا، نصر ابوزید۔ مصر) نے ماڈرن ٹیکسچوئل سکالر شپ کے اصول وقوانین کو قرآن فہمی کے لیے بروے کار لانا شروع کر دیا ہے حال آںکہ اُن کے اپنی اپنی سماج میں ایسا کرنا جُوے ِشیر لانے کے مُترادف ہے کیوںکہ سیاسی و عِلمی وتدریسی ذرائع فی الحال اِس جدید تکنیک سے خاصے گریزاں ہیں۔
3۔مسیحی نقطہءنظر
۱۔پہلی بات تو یہ ہے کہ مسیحیوں کے لیے.... خُداوند کے کلام.... سے مُراد وہ اِلفاظ نہِیں جو بائبل مقدّس میں درج ہیں بل کہ وہ واقعات ہیں جِن پر بائبل مُقدّس گواہ ہے۔ یعنی یہ اِبلاغ کہ خُداوند خُدا نے کیوںکر تاریخِ عالم میں ظہور فرمایا۔ مِصر میں غلامی سے نجات کی جو تفصیل خُروج میں دِی گئی ہے اُسے عہد نامہ قدیم نے سند مہیّا کی ہے۔ وادیِ سینا کے عہد نامہ کا امین بھی وہی ہے اور خُدا کی منشاءکے مطابق وعدہ کی گئی سرزمین کے حصول پر گواہ بھی ہے، وہ خُدا جو اپنے بندوں کے حِفظ و امان کے لیے ہمیشہ اُن کے ساتھ رہا ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ نئے عہدنامہ کی تحریر سے ہی مسیحیوں پر عیاں ہُوا کہ اُن کا اِیمان اور یہ اعتقاد کہ حضرت یسوع مسیح جو خُود خُدا کا کلمہ ہے اور بِلا شک وشُبہ خُداوندِ اسرائیل نے صریحاً حضرت یسوع میں اپنا آپ اپنے تمام بندوں پر ظاہر کر دیا۔ اِنتخاب و اہمیت کے ضِمن میں اناجیلِ مُقدّسہ میں اِختلاف پایا جاتا ہے جِس کی مثال یہ ہے کہ جب چاروںانجیلوں میں حضرت مسیح کے مصلوب ہونے کے بیانوں کا موازنہ کِیا جائے تو سب ایک دوسرے سے مختلف نظر آتے ہیں۔
”اب چھٹی گھڑی سے نویں گھڑی تک تمام ملک میں اندھیرا چھا گیا۔ نویں گھڑی کے قریب حضرت یسوع نے بڑی آواز سے چِلّا کر کہاایلی ایلی لما شبقتانی یعنی اے میرے خدا!۔اے میرے خدا! تو نے مجھے کیوں چھوڑ دیا۔ جو وہاں کھڑے تھے اُن میں سے بعض نے سُن کر کہا کہ وہ الیا س کو پکارتا ہے اور فی الفور اُن میں سے ایک نے دوڑ کر اسفنج لیا اور سرکہ سے بھر ااور سرکنڈے پر رکھ کر اُسے پینے کو دیا۔ مگر دوسروں نے کہا، ٹھہر جا۔ دیکھیں کہ آیا الیاس اسے بچانے آتا ہے۔ اور حضرت یسوع نے پھر بڑی آواز سے چِلّا کر جان دے دی۔ اور دیکھو ہیکل کا پردہ اوپر سے نیچے تک پھٹ کر دو ٹکڑے ہو گیا اور زمین لرزی اور چٹانیں تڑخ گئیں اور قبریں کھل گئیں۔
(51-45:27 مقدس متی)
اور جب چھٹی گھڑی ہوئی تو نویں گھڑی تک سارے ملک میں تاریکی چھا گئی۔ اور نویں گھڑی حضرت یسوع اونچی آواز سے چِلّایا۔ الاھی الاھی لما شبقتانی۔ جس کا ترجمہ یہ ہے: اے میرے خدا! اے میرے خدا! تُو نے مجھے کیوں چھوڑ دیا؟ جو وہاں کھڑے تھے اُن میں سے بعض یہ سن کر کہنے لگے کہ دیکھو وہ الیاس کو بلاتا ہے۔ اور ایک نے دوڑ کر اسفنج کو سرکہ سے بھر کر اور سرکنڈے پر رکھ کر اُسے پینے کو دیا اور کہا ٹھہرو۔ ہم دیکھیں شاید الیاس اتارنے آئے۔
(36-33:15 مقدس مرقس)
اور چھٹی گھڑی کے قریب تھا کہ سارے ملک پر اندھیرا چھا گیا جو نویں گھڑی تک رہا۔ کیوںکہ سورج تاریک ہو گیا تھا اور ہیکل کا پردہ بیچ سے پھٹ گیا۔ اور حضرت یسوع نے بڑی آواز سے چِلّا کر کہا کہ اے باپ مَیں اپنی روح تیرے ہاتھوں میں سونپتا ہُوں۔ یہ کہہ کر اُس نے جان دے دی۔
(48-44:23 مقدس لُوقا)
چوں کہ تہیّہ تھا یہودیوں نے پیلاطس سے عرض کی کہ اُن کی ٹانگیں توڑ دی جائیں اور لاشیں اُتار لی جائیں تا کہ سبت کو صلیب پر نہ رہیں۔ کیوں کہ سبت کا وہ دن خاص تھا۔ اِس لیے سپاہیوں نے آ کر پہلے کی ٹانگیں توڑیں پھر دوسرے کی جو اُس کے ساتھ مصلوب ہُوا تھا۔ لیکن جب اُنھوں نے حضرت یسوع کے پاس آ کر دیکھا کہ وہ مر چکا ہے تو اُس کی ٹانگیں نہ توڑیں۔ مگر سپاہیوں میں سے ایک نے بھالے سے اُس کی پسلی چھیدی اور فی الفور خون اور پانی بہہ نکلا۔ اور جس نے یہ دیکھا اُس نے گواہی دی ہے اور اُس کی گواہی سچی ہے۔ اور وہ جانتا ہے کہ سچ کہتا ہے تا کہ تم بھی ایمان لاﺅ۔
(36-31:19 مقدس یوحنا)
یہ باتیں اِس لیے ہوئیںتا کہ یہ نوشتہ پورا ہوکہ اس کی ایک ہڈی بھی توڑی نہ جائے گی۔
تاہم اِن تمام روایات میں جو بات مشترک ہے کہ نئے عہد نامہ میں موجود ہیں (جیسے اناجیلِ مُقدّسہ میں، رسولوں کے اعمال میں، رسولوں کے خطُوط میں کہ جِن میں حضرت یسوع نے کیاکِیانہِیں، کیا سکھایا پر زور ہے۔ اور آخری کِتابِ مکاشفہ میں) وہ بات یہ ہے کہ تمام کِتابیں حضرت یسوع کے دوبارہ زِندہ ہونے کے عمل کی روشنی میں اُن کی اعلیٰ ترین کارکردگی اور فرمودات کو پیش کرتی ہیں۔ حرفِ آخر بھی یہی ہے کہ حضرت یسوع مسیح کا دوبارہ ظہور ہی ہے جو اُن کی اصل شناخت اور اُن کے کلام کی گہرائی وگیرائی پر دال ہے۔
۲۔اناجیلِ مُقدّسہ سمیت بائبل مُقدّس اُن مُصنّفِین نے لکھی جنھیں خُدا کا فیضان حاصل تھا اور جب تک یہ کاوش القاے خُداوندی کے تحت جاری رہی، خُدا کا کلام کہلائی۔ اکثر بائبل مُقدّس کی کُتب زُبانی ترسیل و تبلیغ کا دور گذر چکنے کے بعد تحریر کی گئیں۔ نتیجہ یہ کہ متن کا ہر مواد جمع کِیا گیا، ثِقہ سے ضعیف مواد کو علیحدہ کِیا گیا اور کلیسا نے یوں اِسے محفوظ کر لیا۔ چناںچہ یہی بائبل مُقدّس کہلائی جو عہدِ عتیق (پُرانا عہد نامہ) اور عہدِ جدید (نیا عہد نامہ) پر مُشتمل تھی۔ مجموعی طور پر یہ تمام مُقدّس نوشتے جب جمع کر لیے گئے تو کلیسا نے یقینی طور پر اِنھیں اپنے آپ کو اپنے بندے میں ظاہر کرنے کے خُدا کے عمل پر گواہ گردانا۔ بطور پیروکار کلامِ خُداوند سے ہر دم واسطہ و سامنا ایک لازمی فعل ہے، بالکل ایسے جیسے رُسولوں نے بِلاخوفِ تردید پہلے کے صحیفوں کی طرف رجوع مُناسب جانا (اُس دور میں عہد نامہءقدیم کی مِثال سامنے ہے) چناںچہ ہمیں بھی اگر خُدا کے مُقدّس کلام کی تمام بائبل مُقدّس میں شناخت کا ملکہ ودیعت ہُوا ہے تو رُسولوں کی مِثال ہمیں بھی کمال احتیاط و احتیاج کے ساتھ پُرانے عہد نامہ کی طرف رجوع کرنا لازمی ہے۔
۳۔خُدا کا کلام ہم تک اِنسانوں کی زُبان میں پہنچا ہے۔ پیغمبر جب خُدا کے کلام کو بیان کرتے ہیں تو اِس بات کا دھیان رکھتے ہیں کہ وہ اِنسانوں کے کِس طبقہ سے مُخاطِب ہیں اور اپنے اِرد گِرد جمع پیروکاروں کے کِس گروہ سے ہمکلام ہیں۔ بعینہ گوناگوں حوالوں کے ساتھ تمام اناجیلِ مُقدّسہ اپنا پیغام انداز بدل بدل کے اگلے وقتوں کی مختلف النّوع مسیحی آبادیوں کے ذہنی معیار کے مطابق اُن تک پہنچاتی رہیں۔ یہ توجیہ ہے اس عدم مشابہت کی جو دونوں قدیم اور نئے عہدناموں میں موجود ہے۔ اِسی لیے مسیح موعود کی دُنیا میں آمدِ ثانی حال آںکہ ایک تسلیم شُدہ امر ہے لیکن دُنیا میں اِس مُنجّیِدوعالم کا بارِگرد ظہور مختلف کِتابوں میں مختلف زاویوں سے احاطہ تحریر میں لایا گیا ہے۔ بائبل مقدّس لِکھنے والوں نے محض وہی کے وہی اِلفاظ آگے نہِیں پہنچائے جو اُن تک پہنچے، بل کہ اِن آیات کی ترسیل کے لیے اُنھوں نے اپنا اپنا مُنفرِد انداز اپنایا۔ چناںچہ خُدا کے اِس کلام، بائبل مقدّس کی آیات کی لافانیت کی بطور اَبدی حقیقت یہی لوگ مصدق ہیں۔
مُقدّس بائبل کے مواد کا دورِ جدید میں کِیا جانے والا تجزیہ یہ جاننے اور سمجھنے میں ہماری مدد کرتا ہے کہ ایسے کون سے اجزا ہیں جِن کا تعلق ہم براہِ راست یسوع مسیح سے جوڑ سکتے ہیں اور وہ کون سی تفاصیل ہیں جِن کے شاہد اوّلین دور کے پیروکار تھے اور اُن کی زُبانی وہ باتیں، وہ واقعات، بائبل مقدّس کا حصّہ بنے۔ اِس لیے ہم اِس پوزیشن میں ہیں کہ بائبل مُقدّس کی آیات کی تاویل و تشریح کے لیے جو قواعد و ضوابط مُقرر ہو چکے ہیں اُن سے اِستفادہ کر سکیں۔ تمام مُقدس نوشتے اِنھی اُصُولوں کے تحت پرکھ کے حامل رہے ہیں۔ اِن کے مکمل ادراک سے ہی ہم حضرت یسوع مسیح کے مقام و مرتبہ کو سمجھنے کی سعادت حاصل کرتے ہیں۔
4۔مسیحی جواب باصواب
۱۔اہم ترین بات تو یہ ہے جو شروع میں ہی سمجھ لینی چاہیے کہ بائبل مُقدّس کو جاننے اور سمجھنے کے لیے اس تک رسائی کا جو مُسلّم طریق ہے وہ محدود ہے۔ بائبل مُقدّس کے سلسلہ میں مُسلمان سمجھ کا جو پیمانہ بناتے ہیں وہ قرآن شریف ہے۔ اِسی سانچے میں رَکھ کر بائبل مُقدّس اور اُن کا انداز و بیان پَرکھا جاتا ہے۔ جب مُسلمانوں کے اِس نقطہءنظر کو سمجھ لیا گیا تو پھر مسیحی اعتقادات کے نقطہءنظر سے کہ جِن کی بُنیاد اناجیلِ مُقدّسہ میں دیے گئے خُدائی پیغامات ہیں، مُسلِم دُنیا سے مُکالمہ آسان و کامیاب و کامگار ثابت ہو گا۔
۲۔اناجیل مُقدّسہ میں جو تفاوت و اختلافات موجود ہیں اگر اُن سے مکالمہ کی شروعات عمل میں لائی گئیں تو اِس سے کوئی پیش رفت سامنے نہِیں آئے گی، معاملہ وہیں کا وہیں اُلجھا رہے گا اور یہی اِختلافات مسئلے کو پہاڑ کی شکل دے کر مُکالمے میں رُکاوٹ بن جائیں گے۔ ساری گفتگو تاریخی جوازات مہیّا کرنے میں صرف ہو جائے گی۔ اِس لیے
مُناسِب یہی ہے کہ اناجیلِ مُقدّسہ کے مواد کی طرف ہی توجُّہ مرکوز و ملحوظ رکھی جائے۔
۲۔ایک لحاظ سے دیکھا جائے تو بائبل مُقدّس کوئی کِتاب ہے ہی نہِیں۔ ایواینجلیئین یونانی زُبان میں نِجات کی خوشخبری ہے،نجات کی خوشخبری اچھی خبر کو کہتے ہیں۔ البشریٰ یعنی نجات کی خوشخبری، جِس میں خُدا کی محبت کو موضوع بنایا گیا ہے، جسے خُدا کے بیٹے خُداوند حضرت یسوع مسیح نے سب تک پہنچایا۔ یہی لوگ تھے جو ہمیشہ اُن کے ساتھ ساتھ رہے اور اُن کی گواہی دی حضرت یسوع کی زِندگی، دُکھوں پر، موت اور مصلوب ہونے اور مُردوں میں سے زِندہ ہونے کے گواہ وہی تھے اور جی اُٹھنے یعنی دوبارہ ظہور کے گواہ بھی وہی ہیں۔
۴۔تصدیق کہ حضرت یسوع مسیح خُود کلامِ خُداوند ہے، خُدا بھی کہ خُداوند خُدا خود اس میں ہے۔ قرآن مجید نے بھی اِسے کلمة اللہ کہا ہے یعنی خُدا کا کلام کہا، خُدا کا بیٹا البتہ نہِیں کہا۔
تو جس حالت میں وہ عبادت گاہ میں کھڑا نماز ادا کر رہا تھا ، اُسی حالت میں فرشتے نے آواز دی اور کہا کہ اﷲ تجھ کو ےحییٰ نام کے سپُوت کی خُوش خبری دیتا ہے اور جو اﷲ کے کلمے کی تصدیق کرنے والا، سرداری والا، لاج والا۔ نبُوّت والا، اور نیکی والا ہوگا! عرض کی، میرے پروردگار! میری بیوی بانجھ ہے ، جب کہ مَیں بوڑھا ہو چکا ہُوں ، تو اِن حالات میں میرے ہاںلڑکا کیوں کر پیدا ہوگا ؟ فرمایا، اﷲ جیسے چاہتا ہے ، ویسے ہی کر دِیا کرتا ہے۔ زکریا نے کہا، پالنے والے! میرے لیے ، میری دُعا کی قُبولیّت کی تصدیق کے حق میں ، کوئی نشانی عطا فرما۔ فرمایا، نشانی اُس کی یہ ہو گی کہ تم تین دن تک اشاروں کے علاوہ کسی سے بات نہیں کر سکو گے ۔یہ تین دن ، اپنے رب کا ذکرِ حسنہ کثرت سے کرنا اور شام سویرے اُس کی تسبیح کرتے رہنا۔ اور جب فرشتوں نے کہا، اے مریم ! اﷲ نے یقینا تم کو چُن لیا ہے اور پاک کر دیا ہے اور زمانے بھر کی عورتوں پر تمھےں ترجیح دی ہے۔اے مریم! اپنے پالنے والے کی فرماں بردار رہو ، سجدہ کرو اوراﷲ کے آگے جھکنے والوں کے ساتھ جُھکا کرو۔اے رسُول! جو ہم تمھیں بتا رہے ہیں، یہ سب غیب کی باتیں ہیں، کیوں کہ جب وہ اِس بات پر کہ مریم کو کو ن پالے گا، جھگڑ رہے تھے اور اپنے تِیر پھرا کر ، اِسی مُعاملے میں ، فال نکال رہے تھے تو تم تو اس وقت وہاں موجود نہیں تھے۔ جب فرشتوں نے کہا، اے مریم ! اﷲ تم کو اپنی طرف سے ایک کلمے کی خُوشخبری سُناتا ہے جس کا تعارف ہو گا مسےح ”عیسیٰ ابنِ مریم“ اور جو دنیا و آخرت میں سُرخرو ہو گا، اور اُس کا شمار اﷲ کے نزدیکیوں میں ہو۔
(39-45 القرآن ،آلِ عمران)
اے اہلِ کتابِ سابق ! نہ ہی اپنے دِین میں تجاوُز کرو، نہ ہی اﷲ کے مُتَعلِّق سچّائی کے علاوہ کُچھ کہو۔ مریم کا بیٹا عیسیٰ مسیح صِرف اﷲ کا رسُول تھا، اور اُس کی حِکمت تھا، اوراﷲ کی طرف سے ضِمیر تھا، جسے اِس نے مریم کے ذریعے بھیجا۔ پس اﷲ اور اِس کے رسُول پر ایمان لاﺅ اور”تین“ کہنے اور ماننے سے باز رہو کہ اِسی میں تمھاری بھلائی ہے۔ اﷲ ہی واحد معبود ہے اور اِس کا اولاد سے پاک ہونا، اِس کی پاکیزگی کا تقاضا ہے۔ اور آسمانوں اور زمین میں جو کُچھ ہے ، سب اﷲ ہی کا تو ہے ۔اور ہمیں، اپنے دفاع کے لیے،اﷲ ہی کافی ہے۔
(171 القرآن ،النسا)
۵۔جب چاروں اناجیلِ مُقدّسہ لکھی جا چُکیں تو حضرت یسوع کے بارے میں تحریری شہادت بھی ہمارے سامنے آ گئی۔ یہ اناجیلِ مُقدّسہ اس اِیمان و اعتقاد کے ساتھ لکھی گئی تھیں کہ مسیحیت حضرت یسوع مسیح پر ایمان رکھتی ہے جو آسمانوں پر چلا گیا۔ یہی یقین و اعتقاد بائبل مقدّس پڑھنے اور سننے والوں کا ہونا بھی مقصود و مطلوب ہے کہ خُدا نے حضرت یسوع مسیح کو اِس مقام و مرتبہ پر پہنچا دیا کہ اپنا آپ ظاہر کرنے کے لیے اُنھیں چُن لیا، چناںچہ اناجیلِ مُقدّسہ کے مُصنّفِین پوچھتے ہیں کہ آیا ہم بھی آقاے کُل کا دیدار خُود حضرت یسوع میں کر سکنے کے اہل ہیں یا نہِیں۔
۵۔مسیحیوں کے نزدیک کلیسا کی تعلیمات چاروں اناجیلِ مُقدّسہ پر مشتمل ہیں اور یہ مختلف مُصنّفِین کی تحریر کردہ کِتابیں پہلی صدی عیسوی کے دُوسرے نِصف تک جب لکھی جا چُکیں تو گویا زُبانی کلامی طے کِیا جانے والا اُن کا تبلیغی سفر تحریری شکل میں محفوظ ہو گیا۔ بعد ازاں الواحِ قانون (کینن) میں سب کلام و پیغام یکجا ہو کر بائبل مُقدّس کے روپ میں سامنے آیا۔ مُسلمانوں کے ہاں جو سُنّت کا تصور ہے یہ اناجیلِ مُقدّسہ ایک حد تک یوں سمجھیے اُسی کے مماثل ہیں، یعنی قرآن مجیدسے باہر اِکٹھی کی جانے والی وہ احادیث و روایات جو کردار و کلامِ محمدی پر مُشتمل ہیں۔
۷۔نئے عہدنامہ کے قدیمی مسودات دوسری صدی عیسوی کے آغاز میں ہی منظر عام پر آ گئے تھے۔ مجموعی طورپر بائبل مُقدّس جِس صورتِ حال سے گذری ہے، کُچھ ویسی ہی صورت اناجیلِ مُقدّسہ کے قدیم ترین نسخوں کو بھی پیش آئی تھی جو متن کی تبدیلیوں اور اِختلافات پر مُنتج ہوئی۔ مختلف مسودات میں بہت واضح اور پایدار اِتفاق کی مثالیں بھی موجود ہیں اور یہ بھی دُرست ہے کہ بعض نمایاں اِختلافات بھی سامنے آتے ہیں۔ اصل متن تک بھی بِلاخوفِ تردید رسائی عین ممکن ہے۔ بشرطے کہ ٹیکسچوئل تنقید کے گُر آزمائے جائیں۔ مواد کے اعتبار سے مُنصِفانہ تنقید کی چھلنی سے نِکلے ہوئے بائبل مُقدّس کے مختلف ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں، جو متن کے تھوڑے بہت تضاد کو نمایاں طور پر اپنائے ہوئے ہیں۔ شروع شروع کی مسیحی تحریریں مثلاً اناجیلِ مُقدّسہ، خطوط وغیرہ کلیسا نے الواحِ قانون(کینن) میں یکجا کر دیں اور ایسا کرتے ہوئے کلیسا نے تمام کی تمام تحریروں کو سندِ قبولیت ہرگز عطا نہ کی، جو معتبر نہ سمجھی گئیں اُنھیں علیحدہ کر دیا گیا، اُن کے لیے الواحِ قانون(کینن) میں کوئی جگہ نہ تھی، اُنھیں نمبر دو قرار دے دیا گیا یعنی جعلی، غیر مستند۔
۸۔بین المذاہب مُکالمہ کے ضمن میں وہ بُنیادی بات جِس پر ہرگز کوئی دو رائے نہِیں ہو سکتیں وہ یہ ہے کہ ہر فریق یہ تسلیم کرے کہ دوسرے فریق کا صحیفہ یا کِتاب کہ جِس پر اُس کا اِیمان ہے وہی اصل پیمانہ اور بُنیادی عُنصُرہو گا اُس مذہب کو سمجھنے اور جاننے کا، وہ کِتاب ہی اُس مذہب کی ترجمانِ راسخ ہو گی۔ یہی وہ اہم فیصلہ تھا جسے فروری1976ع میں مُسلِم کرسچین کانگریس (جو لیبیا کے دارالخلافہ طرابلس میں انعقاد پذیر ہوئی تھی) میں قبولیتِ عام کا درجہ مِلا اور اِسی فیصلہ میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ باہمی مُکالمہ کو معنی خیز اور مُفیدِ مطلب بنانے کے لیے کیا ہی اچھا ہو کہ مسیحی قرآن مجیدکا اور مُسلمان بائبل مُقدّس کا مُطالعہ کریں۔
۹۔کسی بھی تاریخی دستاویز کی طرح بائبل مُقدّس کو بھی مسیحی اعتقادات سے ماوریٰ، اپنے طور پر پڑھا جا سکتا ہے۔ مُقدّس اناجیلِ مُقدّسہ کی مختلف زاویوں سے ترجمانی کی جاتی رہی ہے۔ چناںچہ بائبل میں عقلیت پسند(ریشنلسٹ) لوگوں کے افکار کا، مارکسی نظریات کا، یہودی اعتقادات کا حتیٰ کہ اِسلامی تعلیمات کا پَرتو نظر آ سکتا ہے۔ مثلاً وہ واقعات جو بائبل مُقدّس میں اور قرآن مجیدمیں مذکور ہیں جہاں تک اُن کے نفسِ مضمون کا اخلاص ثابت ہو ہم پر اُن کی توقیر لازم ہے۔ قرآن شریف اور بائبل مُقدّس ایک دوسرے سے اِتفاق بھی کر سکتے ہیں اور اِختلاف بھی۔ دونوں ایک نہِیں ہو سکتے۔ بائبل مُقدّس بائبل مُقدّس ہے اور قرآن شریف قرآن شریف ہے۔ دونوں میں بہت فرق ہے۔ ایک کو دوسرے کی نظیر سے پَرکھا نہِیں جا سکتا۔ مُسلمانوں اور مسیحیوں میں کامیاب مُکالمہ تب ہی ہو سکتا ہے جب اِس نقطہ کی جانکاری دونوں کو حاصل ہو۔