German
English
Turkish
French
Italian
Spanish
Russian
Indonesian
Urdu
Arabic
Persian

:سوال نمبر117

۔اللہ تعالیٰ وہ معبود ہے جس کی گواہی قرآنِ مجید فرقانِ حمید نے دی اور مذہب اسلام اسی خُدا جل شانہ' کی تصدیق کرتا ہے جسے آپ متہم کرتے ہیں کہ وہ نہ رحمن ہے، نہ رحیم۔ پھر تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ طوفانِ نوح ؑ کے بارے میں مسیحیت کیا کہتی ہے؟

 

محبت کرنے والا، برکتیں اور رحمتیں نازل فرمانے والا ''آپ کا خُدا'' وہی ہے نا جس نے ''بارانِ رحمت'' بھیج کر سواے کشتی والوں کے باقی ساری مخلوق ڈبو کر مار دی؟ محبت کرنے والے خُدا کی محبت میں بھیگی بارش، جو جان لیوا طوفان بن گئی!!

جواب:۔پچھلے سوال کے جواب کے آغاز میں ہم نے دوسری ویٹی کن کونسل کے باضابطہ بیان سے ایک اقتباس درج کِیا تھا جس میں کیتھولک کلیسیا کی طرف سے پوری سنجیدگی سے برملا اظہار کِیا گیا تھا کہ مسلمانوں کا خُداوند کریم پر جو ایمان ہے کہ وہ مہر کرنے والا، شفیق اور رحم کرنے والا خُدا ہے ہم اسے حق سچ مانتے ہیں اور مسلمانوں کے اس توکّل کا احترام کرتے ہیں۔ چناں چہ اس بات میں کوئی صداقت نہیں کہ کیتھولک کلیسیا خُدا پر، قرآن اور اسلام کے سچّے خُدا پر یہ الزام دھرنے کی گنہگار ہے کہ مسلمانوں کا خُدا رحمن اور رحیم نہیں۔ وہ تو بس وہ ہی ہے جو اپنے بندوں پر ہمیشہ ترس کھاتا ہے۔ ہمارا آپ کا ایک ہی خُدا ہے جو رب العالمین ہے۔

تکوین پاک کا مصنف بھی یہودی اور مسیحی روایات کے مطابق خود نبی موسیٰ ہی تھا، اس کے مطابق وہ جو طوفانِ نوح تھا وہ محض قدرتی آفت نہیں تھی۔۔۔۔۔۔

۔۔۔۔۔۔ اور خُداوند نے دیکھا کہ زمین پر انسان کی شرارت بہت بڑھ گئی اور اُس کے دِل کے خیالات کا تصور ہر وقت بدی کی طرف مائل ہے۔

تکوین۔۔۔۔۔۔5:6

پس خُدا نے نوح سے کہا کہ یہ اُس عہد کا نشان ہو گا جو مَیں نے اپنے اور زمین کے ہر جاندار کے درمیان قائم کِیا ہے۔

تکوین۔۔۔۔۔۔17:9ویں آیت

اسی بیان کی قدیم طرز کو ہی اپنایا گیا ہے۔ اس زمانے میں یہی اسلوب تھا جو مقبول تھا اس لیے مناسب سمجھا گیا کہ اسے ہی وسیلہء اظہار بنایا جائے۔ چناں چہ بنی اسرائیل کے بنیادی دینی ایشو کے تذکرہ کے ذریعے ان کو مذہب پر قائم رہنے کی ترغیب دی گئی، تا کہ تاریخی واقعات سے سبق سیکھ لیں اور جان لیں کہ تاریخی نتائج بھی خُداے عادل کے انصاف پر مبنی فیصلوں کے مرہونِ منّت ہوتے ہیں۔ توریت پاک کی پہلی کتاب میں جن تاریخی سرگذشتوں کا ذِکر کِیا گیا ہے ان کا موازنہ کِیا جائے ان جنگ ناموں کے ساتھ جو سورماؤں کے کارناموں سے اٹے پڑے ہیں، مثلاً گِل گامیش کی رزمیہ داستان۔ یہ سورما سمیرین بادشاہ تھا۔ بابل کی بہادُری کی کہانیوں کا ہیرو۔ وہ گِل گامیش اتما پشتم جو بابلی نوح تھا اس سے ملا تھا، اُسی نے اسے طوفانِ عظیم کی کہانی سنائی تھی، یہ کہانیاں، یہ واقعات مختلف زمانوں میں اور اور طرح سے روایت کیے جاتے رہے ہیں۔ مبنی بر قصص طوفانِ نوح کے کتنے ہی ورژن ہیں اور ان کے فرق فوراً سامنے آجاتے ہیں جب ہم ان کے تقابلی جائزے لیتے ہیں۔ اس لیے بائبل مقدس میں سامنے آنے والی تفصیل اگر باقی کہانیوں سے کہِیں مختلف ہے تو یہ کوئی اچنبے کی بات نہیں۔ یہ بالکل وہی بات ہے جیسے خُداکو بیان کرنے کے انسانی اسلوب اپنی تفصیل میں گوناگوں ہوتے ہیں۔ اسی مثال کو ہی لیجیے، کہا گیا کہ مقدس یہواہ (عبرانی زبان میں خُدا کا نام) نے سفینہء نوح میں داخل ہونے کا راستہ (دروازہ) بند کر دیا۔۔۔۔۔۔

۔۔۔۔۔۔ جو اندر آئے سب جانداروں کے نرو مادہ تھے۔ جیسا کہ خُداوند نے فرمایا تھا۔

۔۔۔۔۔۔اور خُداوند نے اُس کو باہر سے بند کِیا۔

تکوین۔۔۔۔۔۔16:7ویں آیت کا دوسرا حصہ۔

اور خُداوند نے نوح نبی کی قربانی کی خوشبوے فرحت زا سے مشامِ ہستی کو معطّر کِیا یعنی بنی نوعِ انسان خوشبو کی مثال چاردانگِ عالم میں پھیل گئے۔۔۔۔۔۔

اور نوح کے بیٹے جو کشتی سے نکلے، سام اور حام اور یافث تھے۔ اور حام کنعان کا باپ ہے۔ نوح کے یہی تین بیٹے تھے اور انھی سے تمام زمین پر بنی نوعِ انسان پھیلے۔ اور نوح کھیتی کرنے لگا اور اس نے انگور کا باغ لگایا اور اس کی مَے پی کر نشے میں آیا اور اپنے ڈیرے کے اندر برہنہ ہو گیا۔

تکوین۔۔۔۔۔۔18:9تا21

لیکن یہ تفاصیل جنھیں مقبولِ عام روایات سے کشید کِیا گیا وہ محوری نقطے کو ڈھانپ نہیں لیتیں۔ جو منظر ڈزالو ہو کر سامنے رہتا ہے وہ وہی ہے کہ یہواہ (بابل کے کئی خُداؤں کے برعکس اس خُداے واحد) نے انسانی تاریخ کو اپنی عطا کردہ جاندار کہانی اور اپنے تخلیق کردہ کرداروں سے بھر دیا اور پھر ہوتے ہوتے اس نے اپنی الٰہی مشیّت پوری کر لی۔

علاوہ ازیں، خُدا تعالیٰ مالک ہے، جو بھی اس کی مرضی ہو اس پر وہ مختار ہے۔ انسانیت کی اُسے بہتری مقصود ہے۔ اس کے ارادوں، فیصلوں کا تعلق نوعِ بشر کی فلاح و بہبود سے ہوتا ہے اور وہ سو حیلے بہانوں سے انسانوں کی نجات کی سبیل کرتا ہے۔ باغِ عدن کی کہانی اس کے ثبوت، اس کی گواہی میں سامنے آ چکی ہے۔ یہواہ نے ملامت کی اور اس کے بعد۔۔۔۔۔۔ بابا آدم اور سب زندوں کی اماں حوا کے حق میں کیا سلوک ہوا، توریت پاک بتاتی ہے:

اور خُداوندِ خُدا نے آدمی اور اس کی بیوی کے واسطے چمڑے کے کرتے بنا کر پہنائے۔

تکوین۔۔۔۔۔۔21:3ویں آیت

دوسری مثال ہے قائین (قابیل) کے بارے میں کہ حسابِ عام کے تحت مؤثر الٰہی فیصلے میں گنجایش چھوڑی گئی اور اس کی پیشانی پر ایک نشان مُہر کر دیا گیا۔۔۔۔۔۔

تب خُداوند نے اس سے کہا: ہر گز نہیں۔جو کوئی قائین کو مار ڈالے۔ اس سے سات گُنا بدلہ لیا جائے گا۔ اور خُداوند نے قائین کے لیے ایک نشان ٹھہرایا کہ کوئی اُسے پا کر مار نہ ڈالے۔

تکوین۔۔۔۔۔۔15:4ویں آیت

ایسی ہی امثلہ کی لمبی قطارمیں کشتیِ نوح کی تلاطم سے لڑتی بھڑتی پہاڑ کی محفوظ چوٹی پر پہنچتی کہانی بھی نظر آئے گی جس میں نبی نوح پر خُدا کے مہربان ہونے کا نفیس سا بیان ہے۔ سفینہء نوح جس میں خُدا کے حکم سے اپنی فیملی بٹھا لی، تمام جانوروں کا ایک ایک جوڑا ساتھ لے لیا۔ یہ یہواہ کا خاص فضل تھا نوح پر۔ یہ جو نبی کی رفاقت میں آگئے تھے جاندار، خُدا کے خاص احسان سے اس کی حفاظت میں تھے۔ اور جب دنیا طوفان بُرد ہو گئی، نبی کاسفینہ سلامت رہا۔ رضاے ربی نوح کے شاملِ حال تھی۔ صفحہء ہستی پر ایک نئی دنیا کا آغاز ہوا۔ اور اس بیان کے بعد کہانی انجام کو پہنچی۔۔۔۔۔۔ انسان کی دلی تمنائیں اس کی نفسانی خواہشات کی غلامی سے جنم لیتی ہیں۔۔۔۔۔۔ یہ کڑوے بیجوں کا میٹھا پھل ہوتا ہے۔

جو ہوا، بہت ہی سخت فیصلہ تھا۔ بہت ہی صبر آزما پاداش،بہت ہی کڑی آزمایش تھی جس کو انسان نے جھیلا۔ اور شکر ہے یہواہ نے آیندہ کے لیے ''ہتھ ہولا رکھا'' کیوں کہ وہ محبت کرنے والا، محبت قبول کرنے والا، رحم کرنے والا، مانگنے والے کو دینے والا، نہ مانگنے والے کو بھی عطا کرنے والا، سب انسانوں، جان داروںکا رب ہے۔ ربِّ اکبر! کارخانہء قدرت کے ضابطے نرالے ہیں۔ بیجوں کی بوائی فصلوں کی کٹائی، سرد و گرم، موسمِ گرما موسمِ سرما اور دِن اور رات دلیلیں ہیں اس شان والے خُدا کے اپنے عہد پر قائم اور قائم بھی دائم رہنے کی۔۔۔۔۔۔ ایمان تازہ کیجیے:

تب نوح نے خُداوند کے لیے ایک مذبح بنایا۔ اور سب پاک چرندوں اور پرندوں میں سے لے کر اس مذبح پر سوختنی قربانیاں چڑھائیں۔ اور خُدا نے ان کی راحت انگیز خوشبو لی اور اپنے دِل میں کہا کہ انسان کے سبب مَیں زمین پرپھر کبھی لعنت نہ بھیجوں گا کیوں کہ انسان کے قلب کا تصور چھُٹ پَن ہی سے بدی کی طرف مائل ہوتا ہے اور جیسا مَیں نے کِیا، پھر کبھی تمام جان داروں کو ہلاک نہ کروں گا۔ جب تک زمین رہے گی بونا اور لونا، سردی اور گرمی ہو گی۔ گرما اور سرما، رات اور دِن کبھی موقوف نہ ہوں گے''۔

تکوین۔۔۔۔۔۔20:8تا22

(مقدسین کی سفارش اور لیاقت کے سبب سے اے خُدا ہمیں فضل اور نعمتیں بخش!)آمین

Contact us

J. Prof. Dr. T. Specker,
Prof. Dr. Christian W. Troll,

Kolleg Sankt Georgen
Offenbacher Landstr. 224
D-60599 Frankfurt
Mail: fragen[ät]antwortenanmuslime.com

More about the authors?