German
English
Turkish
French
Italian
Spanish
Russian
Indonesian
Urdu
Arabic
Persian

:سوال نمبر118

۔توما نے جو انجیلِ پاک لکھی، اس کے بارے میں آپ کا عالمانہ تبصرہ کیا ہے؟

 

جواب:۔بہت سی تخلیقات ہیں جنھیں عبرانی بائبل کی فہرستِ مُسلّمہ میں شامل نہ کی گئی کتب کے ذیل میں رکھا جاتا ہے اور ان میں نمایاں ترین توما کیٹیگری کی کتابیں ہیں۔جیسے، توما کی کتاب۔۔۔۔۔۔اعمال، توما کی ایک اور کتاب ۔۔۔۔۔۔یوحنّا عارف کا مکاشفہ، یسوع کے بچپن سے متعلق توماکی انجیل اور انہی کتب میں شامل ہے۔۔۔۔۔۔ انجیلِ توما۔

مسیحی دینیات میں ایسی کاوشوں کو غیرمستند اور عہد نامہء قدیم کے محرّف حصوں سے متعلق کتب شمار کِیا جاتا ہے، یا پھر ایسی اسفارِ محرّفہ کہلاتی ہیں یعنی وہ الہامی پارے جو عبرانی میں تو نہیں آئے لیکن لاطینی عہد ناموںمیں موجود ہیںاوربائبل مقدس کی کتب کی مصدقہ فہرست میں جگہ نہیں دی گئی۔ لیکن جس طرح کے ناموں سے ان کتابوں کو موسوم کِیا جاتا ہے (یعنی ان کے ٹائٹل) اور جو جو دعوے کیے جاتے ہیں کہ یہ اوریجنیٹ(Originate)کہاں سے ہوئیں؟ لکھنے والا کون ہے، مآخذ کیا کیا تھے وغیرہ۔ تو یہ عہد نامہء قدیم اور جدید کے لکھاری اس پر مُصِر ہوتے ہیں کہ ان کتابوں کو بھی ثقہ اکتبہ میں شامل ہونے کا درجہ دیا جائے۔

عبرانی عہدنامہ میں جس کا کوئی ذِکر نہیں ایسا اپوکریفا نیا عہد نامہ اور یونانی زبان میں تحریر کیے گئے اکثر عہد نامے، وہ بھی جو بعد میں لاطینی میں ڈھالے گئے اور دیگر زمانوں کے بھی جو عہد نامے لکھے گئے ان کے لیے نئے عہد نامہ مبارک والا سٹائل، اسلوب اختیار کِیا گیا۔ ایسی اناجیل جن کا اب محض اقتباسات کی شکل میں کہِیں کہِیں وجود ثابت ہے، رسولوں کے اعمال، خطوط مکاشفہ بالخصوص جیسے مقدس یوحنّا کو جزیرئہ پتموس میں ہوئے، یہ بھی امثلہء مزید ہیں اور انھیں عالمگیر کلیسیا کی طرف سے مقدس کتابوں کی مستند فہرست میں شامل کرنے کا کبھی بھی اِذن نہیں دیا گیا۔

تقابلی جائزے میں پتا چلتا ہے کہ کلیسیائی استناد رکھنے والی مقدس کتابوںمیں اور ان کتب میں نمایاں فرق ہے۔ بہت معمولی استثنائی صورتوں کے علاوہ یہ اپوکریفا سرابِ خیال اور فریبِ نگاہ کی جھلک دیتی ہےں اور تخیلاتی گرہِ خیال کی پابند ہیں، اس لیے ان کی بساط سے باہرہے کہ تاریخی روایت کی یاد تازہ رکھتیں۔ ان کتابوں کے مصنّفین اور ان کے معترفین مطمئن ہیں کہ انھوں نے مقدس خُداوند یسوع مسیح کی حیاتِ بابرکات سے اور اس کے رسولوں کے زمانہ میں ان کی خدمات سے ہمیں باخبر کر کے اپنا مقصد پورا کر لیا، جب کہ اہم نصب العین تو یہ ہونا چاہیے تھا کہ خُداوند یسوع پاک کی دنیاوی زندگی کے بعد مسیحیت نے جو جو نشیب و فراز دیکھے، صدیوں کے اس سفر میں اس پر کیا کیا اثرات مرتب ہوئے اور اس نے مرتب کیے، بڑے بڑے جید علماے دین کے نقطہ ہاے نظر اپنی جگہ، مگر معروضی صورتِ حالات میں بعد کے زمانوں میں مسیحیوں پر کیا گذری۔ اس عالمگیر مذہب نے کیوںکر سنبھالا لیا، اس پر کیا بیتی۔

خداوند یسوع پاک کے بچپن پر مشتمل انجیلِ طوماس

طوماس کی انجیل، جس کی طرف سوال میں توجُّہ دلائی گئی ہے غالباً زیرِ استفسار انجیل وہ ہے جو طوماس نے مقدس خُداوند یسوع المسیح کے بچپن کا احاطہ کرتے ہوئے لکھی تھی۔ مگر اس کا تو اس سے کوئی واسطہ تعلق نہیں جو انجیل اس نے قدیم مصری یعقوبی فرقے کے قبطی مسیحیوں کے لیے لکھی اور وہ توما کی قبطی انجیل کہلائی، اس پر ہم بعد میں بات کریں گے۔ فی الحال اتنا ہی کہ پاک خُداوند کے بچپن سے متعلق جس نام نہاد اناجیل میں سیرت نگاری کی گئی ہے یہ بھی ان میں خُداوند کے زمانہء بچپن کی بے میل سی، ابتدائی، بنیادی ترجمانی کرنے والی ایک انجیل ہے اور بس۔

مقدس خُداوند یسوع المسیح کی اوائلِ عمری کے بارے میں لکھی گئی توما کی انجیل خاصی مقبول رہی، اس میں شک نہیں مختلف زبانوںمیں اس کے تراجم ہوئے۔ یونانی، لاطینی، شامی زبانوں کے علاوہ حبشہ میں بولی جانے والی زبان اور عربی، جورجین اور قدیم سلاوی زبان میں بھی یہ انجیل ترجمہ ہوئی۔ آرمینی اور عربی زبانوں میں پاک خُداوند کے بچپن کی جو اناجیل لکھی گئیں ان کے لیے میٹر توما کی انجیل سے ہی لیا گیا تھا۔درحقیقت بائبل مقدس یا اس کے بعض حصص کے بہت سے تراجم جو مختلف زبانوں میں ہوئے ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ کلامِ مقدس کے بعض حصے پھیلا دیے گئے تھے اور بعض کو اپنے طور ہی مختصر کر لیا گیا تھا، اور یہ بھی ہوا کہ اصل متن کو نقصان پہنچا، اصل اصل رہا ہی نہ۔ ایسی کاوشوں کے لیے سند ہونے کی اس لیے بھی گنجایش نہ تھی کہ یسوع پاک کے بچپن کی کہانیوں کی بُنت خامیوں بھری اور ڈھیلی ڈھالی ہوتی تھی او ران کا اختتام وہاں ہوتا تھا جہاں کہانی میںبارہ سالہ یہ مقدس بچہ یا لڑکا ہیکل میں پہنچتا ہے اور اس کی ساری تفصیل وہ ہوتی تھی جو مقدس لوقا کی انجیلِ پاک سے مستعار لی گئی ہوتی تھی۔ اس کے باوجود کہ بعض ریکارڈ پرلائی گئی رُودادوں کے کہ جنھیں خُداوند کے بچپن سے منسوب کِیا گیا اور آخر میں اپنی تحریر کو معتبر بنانے کے لیے انجیلِ لوقا کے اقتباس سے بھی استفادہ کِیا گیا،تاہم اپنی محنت اور مقصد میں مصنّفین و مؤلّفین کو اِس لیے بھی ناکامی کی فصل کاٹنا پڑی کہ ایسی کِسی کھری کوشش کے کیے جانے کا کہِیں پتا نہیں چلتا جس کے ذریعے خُداوند پاک کے پڑھنے، بڑا ہونے اور بلوغت کی عمر پانے کی تفصیل سامنے آئی۔ ان اناجیل میں لگتا ہے جیسے اُس کی عمر ایک جگہ ہی ٹھہری رہی۔۔۔۔۔۔ جب کہ:

۔۔۔۔۔۔ یسوع حکمت اور قد و قامت میں اور خُدا اور آدمیوں کی مقبولیت میں ترقی کرتا گیا۔

مقدس لوقا۔۔۔۔۔۔52:2

اس انجیل کے مصنف توما کی نیّت یہی معلوم دیتی ہے کہ وہ یسوع پاک بطور لڑکا ، اس میں نامیاتی تبدیلیوں سے قطع نظر، بطور ایک نابغہء روزگار بچّے کے اپنی کہانیوں کے مرکزی کردار میں پیش کیے چلا جائے۔ نتیجہ یہ کہ جس بچے یسوع کو اس انجیل میں متعارف کروایا گیا ہے، سیدھی سی بات یہ ہے کہ وہ، وہ مقدس ہے ہی ہی نہیں جو مقدس مستند اناجیل میں نظر آتا ہے۔ توما کی انجیل میں چند تُرت شفا بخشے کے معجزات کا ذِکر ہے، مگر دیگر کہانیاں ایسی ہیں کہ ان کا تعلُّق عوامی روایات و عقائد کی اقلیم سے تو ہے، احوالِ واقعی سے ہرگز نہیں۔ سبت کے روز والی کہانی جس میں خُداوند پاک یسوع مسیح کو مٹّی کے کھلونے بناتا ان سے کھیلتا، پرندے بناتا اور ان میں جان ڈالتا، اُڑاتا دکھایا گیا، چوں کہ حقیقت ہے اِس لیے گوارا ہے۔ دوسری کہانیوں میں تو اسے زُود رنج، لعن طعن اور سبّ و شتم کا رسیا اور کینہ توز یعنی وہ جس کا غصہ ہمیشہ ناک پر دھرا رہتا ہے، ثابت کِیا گیا ہے۔ یہ کیسی بات ہے اس انجیل میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اس کی کینہ دوزی اور بغضکے شکار لوگوںکو صحت بھی مِل جاتی ہے اور وہ ان کے ہاتھ پاؤں ، بازو، ٹانگیں، آنکھیں ان کا نور بھی اُنھیں لوٹا دیتا ہے۔ ایسی ہر حکایت ختم ہونے سے پہلے پہلے یہ معجزے تکمیل پا جاتے ہیں۔ زبان زدِ عام قصوں کا قابلِ ستایش مرکزی کردار سامنے لانے والا اپنی انجیل کا خالق شخص در اصل مقدس خُداوند یسوع مسیح کے عنفوانِ شباب اور آغازِ بالغ عمری سے کوئی غرض ہی نہ رکھتا تھا، نہ 12سال اور 30سال کی درمیانی عمر میں دریاے اردن میں اسے اصطباغ دیے جانے کی اہمیت و قدر سے ہی لکھاری کو کوئی غرض تھی، اس کا تو مرکزِ توجُّہ وہ لڑکاہے جس کی عمر 12سال ہے اور مصنف اسے مزید بچّہ پینٹ کر کے اپنی گھڑی گھڑائی کہانی مُکمَّل کر لینا چاہتا ہے اور اس کے لیے انجامِ کار اعتبار سے پیدا کرنے کے لیے مقدس لوقا کی انجیل میں سے ان اقتباسات کا سہارا لیتا ہے جن میں اس بارہ سالہ بچے کے اوائلِ عمری والے زمانے کی کہانیوں کو بیان کِیا گیاہے۔

اور اس کے والدین ہر سال عیدِ فصح پریروشلیم کو جایا کرتے تھے۔ اور جب وہ بارہ برس کا ہو گیا تو وہ عید کے دستور کے مطابق یروشلیم کو گئے۔ اور جب اُن دنوں کو پورا کر کے لوٹے تو وہ لڑکا یسوع یروشلیم میں رہ گیا۔ مگر اس کے ماںباپ کو خبر نہ تھی بل کہ وہ یہ سمجھ کر کہ وہ قافلے میں ہے، ایک منزل نکل گئے اور اُسے اپنے رشتہ داروں اور جان پہچان والوں میں ڈُھونڈنے لگے اور نہ پاکر اس کی تلاش میں یروشلیم کو واپس گئے۔ اور اُنھوںنے تین روز کے بعد اُسے ہیکل میں اُستادوں کے درمیان بیٹھا، اُن کی سُنتے اور اُن سے سوال کرتے پایا۔ اور جتنے اُس کی سُن رہے تھے، ان کی سمجھ اور اُس کے جوابوں سے متعجب تھے۔ اور وہ اسے دیکھ کر حیران ہوئے اور اُس کی ماں نے اُس سے کہا: بیٹا! تُو نے ہم سے ایسا کیوں کِیا؟ دیکھ، تیرا باپ اور مَیں کُڑھتے ہوئے تجھے ڈھونڈتے تھے۔ اُس نے اُن سے کہا: تم مجھے کیوں ڈھونڈتے تھے؟ کیا تمھیں یہ خیال نہ تھا کہ وہ ضرور اپنے باپ کے گھر میں ہو گا؟

مگر جو بات اُس نے اُن سے کہی وہ اُس کو نہ سمجھے۔ تب وہ اُن کے ساتھ روانہ ہو کر ناصرت میں آیا اور اُن کے تابع رہا اور اُس کی ماں نے یہ سب باتیں اپنے دِل میں رکھیں اور یسوع حکمت اور قدو قامت میں اور خُدا اور آدمیوں کی مقبولیت میں ترقی کرتا گیا۔

مقدس لوقا۔۔۔۔۔۔41:2تا52

یہ تو بالکل ہی ٹین ایجر لڑکے کو ذہین و فطین بچہ بنا کرپیش کرنے والی حرکت ہے۔ وہ تمام معجزے جن کا زندگی میں کہِیں بہُت بعد میں کبھی پاک خُداوند یسوع مسیح سے ظہور ہونا تھا وہ بڑے نمایاں طور پر اس کے ''بچپن'' میں ہی پیشگی اس کتاب میں ظہور پذیر کروا دیے گئے۔ چناں چہ زمین آسمان کا فرق ہے اُن معجزوں میں جو توما نے خُداوند کے بچپنے میں ہی ا س سے سرزد کروا دیے۔اور خُدا باپ کی عطا ان معجزاتِ حقیقی میںجو اس نے اپنی حیاتِ دنیا میں کئی مواقع پر اور کئی لوگوں کے سامنے بعد میں کر دِکھائے ان تمام معجزات کا کلیسیا کی طرف سے مصدقہ اناجیلِ مقدس میں ذِکر موجود ہے۔ ایسی اناجیلِ مقدس کو کلیسیائی قوانین کی مسیحی شرعی حیثیت و صوابدید حاصل ہے۔ دوسری انجیلیں جنھیں مستند نہیں مانا جاتا اُن میں اپنے پلّے سے بہت کچھ ڈالا جا چکا ہوتا ہے، اتنی بے احتیاطی اور عقل کی کمی کے ساتھ کہ یہ تک نہیں دیکھا جاتا کہ جو خارج سے مواد لے کر اس انجیل کا حصہ بنایا جا رہا ہے، آیا وہ مقدس خُداوند یسوع المسیح کی حیاتِ طیبہ کے ساتھ لگّا بھی کھاتا ہے یا نہیں۔ دیکھنا چاہیے تھا کہ بھرتی کے معجزات اس کی طبیعت، اس کے مزاج کے مطابق بھی ہیں یا نہیں، خُداوند کی کہانی جو بیان کی جا رہی ہے اس کی سیرت پر فٹ بیٹھتی ہے یا نہیں۔ حد ہو گئی، بعض مواد تو ایسا بھی ڈال دیا گیاہے جو پاک خُداوند کی شخصیت، اس کے کردار اور لوگوں میں اس کے بارے میں تصورات کے بالکل ہی اُلٹ ہے۔کہانی میں رنگ بھرنے کے لیے اس کی ذات میں ایسی بھی صفات سمو دی گئی ہیں جو اس کے کردارِ پاک کی نفی کرتی ہیں۔ بچے یا لڑکے کا ذِکر کرتے سمے اگر پاک خُداوند کا اسم مبارک ساتھ نتھی نہ کِیا گیا ہوتا تو ایک روح پرور، توانا و سرگرم، مخصوص احساسات و جمالیات والے داخلی مزاج کے مالک خُدا بالک کا تصور ذہن میں اُبھرتا اور توقع کے عین مطابق (اصل کے بجاے) سینہ بہ سینہ پکنے والی روایات میں جو جو کمی رہ گئی تھی کہانی میں اپنے پاس سے اضافے کر کے ان کی تلافی کرنے کے بعد عامۃ الناس میں اپنی اس کتاب کو مصنف نے ''بیسٹ سیلر'' بنا لیا۔ ہندوؤں کے کرشن جی مہاراج اور کپل وستو کے مہاتما بدھ کی اساتیری کہانیوں اور جنّ، پری، دیووں اورجادونگری کے قصّوں کے ہم پلہ کتاب منصّہ ء شہود پر آگئی۔ غیر منہضم قسم کے اور زیادہ سے زیادہ تعجب انگیز کرشمے اور معجزے مؤلّف کو بہت مرغوب تھے چناں چہ ان کے قابلِ اعتماد، معتبر ہونے کی تحقیق و تصدیق بھی مناسب نہ سمجھی گئی، انھیں اپنے طور پر مستند قرار دیتے ہوئے بے دھڑک اپنی انجیل کا حصہ بنا لیا گیا۔ اس بچے کو انجیل میں ''یسوع مسیح معجزیاں والا'' کے طور پر متعارف توکروایا ہی تھا، ہیکل کے اُستادوں کی طرح کا اُستاد بھی ثابت کر دِکھایا۔ بارہ برس کے طفلِ مقدس کو یوحنّا رسول نے نسبتاً جس متانت، جس سنجیدگی کے ساتھ ہیکل میں دِکھایا ہے، توما اور اس جیسے دوسرے مصنّفین و مؤلّفین نے ان واقعات میں خواہ مخواہ کے اضافے کر کے، اتنا بڑھا چڑھا دیا کہ رُوداد مضحک شکل اختیار کر گئی، اس حد تک کہ یوں جانیے جیسے وہ بچہ اپنے عصر کا دانا ترین بچہ تھا جس کے آگے بڑے بڑے دانا اور حکمتوں والے بزرگ بھی پانی بھرتے تھے اور اس کے منہ سے نکلے ایک ایک حرفِ دانش کو موتی سمجھ کر بڑے بڑوں نے اپنی جھولیاں بھر لیں، دنیا بھر کے زیرک، ہوشمند، عقل و فراست کے سلطان حیران پریشان ہو کر اُلجھاو میں پڑے نظر آنے لگے، وہ سوچتے تھے کہ یہ نابغہء روزگار معصوم و مافوق الفطرت بچہ ہے کون، کہاں سے آیا!! سچ کو مُنہ میں لیے لیے نہیں پھر ا جا سکتا، باہر آ ہی جاتا ہے، آپ بھی شاید اتفاق کریں کہ ذوقِ لطیف، اعتدال اور شعور و فرزانگی سے عاری اس مرتبِ انجیلِ توما نے خُداوند پاک یسوع مسیح کے بچپن کے بارے میں جو قصے اکٹھے کیے ہیں، طے ہے کہ اس نے زمینی حقائق کو بہت ہی اناڑی پن سے دیکھا ہے۔ عالمِ طفولیت کے روز و شب والے مناظر محلِّ نظر رہیں جو اس انجیل میں مقدس یسوع پاک سے منسوب کیے گئے ہیں۔

اسی متن کے جرمن ترجمہ کے لیے ملاحظہ فرمائیے:

Wilhelm Schneemelcher, Neutestmentliche Apokryphen, 5th Edition, Vol. 1. Tübingen: J.C.B. Mohr, 1987, pp. 353-361;

اور انگریزی ترجمہ پڑھنے کے لیے رجوع کیجیے:

The English translation in Schneemelcher, Engl. tr., Vol. 1 (1963), pp. 388-401.)

توما کی قبطی انجیل

توما(Judas Thomas thetwin)نے اپنی انجیل یونانی زبان میں لکھی تھی اور اس کے قطبی ترجمہ والی آبی نرسلہ کے بنے ہوئے اوراق پر تحریر کی گئی انجیل بھی دریافت ہوئی جو 1945-46عیسوی میں بالائی مصر کے نجع حمادی آثارِ قدیمہ کی کھدائی کے دوران ملی تھی۔ یونانی زبان والا اصل مسودہ قریباً سنہ 150عیسوی میں مُکمَّل ہوا ہو گا اور اس کا قبطی ترجمہ انجیلِ توما میں بعض اضافوں کے ساتھ اغلب خیال ہے کہ 400عیسوی میں سامنے آیا۔ اس کے سرورق پر یہودہ توما جڑواںبھائی نے دعویٰ کِیا ہوا ہے کہ وہ مؤلّف نہیں مصنّف ہے۔ یہ انجیل تالیف نہیں، تصنیف ہے۔ مستند اناجیلِ مقدس کے برعکس جن کی کہ اپنی ایک تاریخ ہے، توما کی انجیل مختصر مگر بلیغ فقروں اور پیرایہء مجاز میں دیے گئے خطبات کہ جن کی نسبت خُداوند یسوع المسیح اقدس کے ساتھ ٹھہرائی گئی ہے، انھی کے سلسلہ وار اندراج کو موصوف نے اپنی تخلیق قرار دیا ہے اور باقی سب کہانیاں ہیں۔ ہاں، بعض جید انجیل شناسوں کے ہاں اس بات کا اثبات کِیا جاتا ہے کہ امکانات موجود ہیں ''کاپٹک گوسپل آف تھامس'' میں مقدس خُداوند کے چند کلمات بھی دیے گئے ہوں کہ جو کلیسیا کی طرف سے مصدقہ و مستند اناجیل میں شامل کیے جانے سے رہ گئے ہوں اور یہ وہ الفاظ و کلماتِ خُداوندی ہیں جن کے ڈانڈے معتبر روایات کے ساتھ جا ملتے ہیں۔ سو باتوں کی ایک ہی بات، کہ ایسی مبالغہ آمیزی والے دعاوی جو خُداوند یسوع پاک کے حق میں ہوں اور وہ موادِ کتاب کا اہم حصہ بنا دیے گئے ہوں تو ایسے مواد کو دُرُست نہیں تسلیم کِیا جا سکتا۔ بھلے جو بھی مسودے میں لکھا موجود ہو وہ خُداوند کی فیور میں جاتاہو۔ نہ نہ۔۔۔۔۔۔ یہ حرکت اس لیے جائز اور قبول نہیں کہ خواہ مخواہ غلو سے کام لیا گیا ہے۔ پہلی مرتبہ یہ مسودہ 1959عیسوی میں عام مسیحیوں کے ہاتھوں میں پہنچا تھا اور تب بھی اسے کلیسیا کی طرف سے کوئی سند عطا نہیں کی گئی تھی۔ The Greek Oxyrhynchus Papyri دستاویز نمبر1،654اور655، یونانی متن کے محفوظ کیے گئے پارے، اگرچہ بعینہٖ تو نہیں، مگر خاصے انجیلِ توما کے قبطی ترجمہ کے جو مطابق ہیں نجع حمادی سے ملے تھے۔ تاہم کہنا پڑتا ہے کہ توما کی یہ کاوش غناسطی اصل سے مشتق ہے!

(German Text and Introduction in Schneemelcher, I (1959), pp. 199-223; Eng. tr. Schneemelcher I (1963), pp. 278-307. More recent German translation and introduction: G. Lüdemann & M. Janssen, Bibel der Häretiker. The Greek writings from Nag Hammadi. Stuttgart, 1997, pp. 129-148.)


Contact us

J. Prof. Dr. T. Specker,
Prof. Dr. Christian W. Troll,

Kolleg Sankt Georgen
Offenbacher Landstr. 224
D-60599 Frankfurt
Mail: fragen[ät]antwortenanmuslime.com

More about the authors?