German
English
Turkish
French
Italian
Spanish
Russian
Indonesian
Urdu
Arabic
Persian

:سوال نمبر125

۔دارالبقا سے پھر دارالفنا میں آمدِ مسیح کا مطلب؟

 

جواب:۔کلامِ مقدس کا فرمان ہے کہ ہمیں ''ترساں و لرزاں'' اپنی نجات کے لیے تا حیات کوشاں رہنا چاہیے۔

اور اِس واسطے میرے پیارو! جس طرح تم ہمیشہ فرماںبرداری کرتے آئے ہو اُسی طرح نہ تم صرف میری حاضری میں بل کہ اب بھی میری غیر حاضری میں بہت زیادہ ڈرتے اور تھرتھراتے ہوئے اپنی نجات کے کام کیے جاؤ۔

فیلپیوں۔۔۔۔۔۔12:2

تاہم مسیحی قوم آنے والے روزِ عدالت کے بارے میں جب بھی سوچتی، فکر کرتی ہے تو تب بھی اس کے احساسات پر آس امید کا غلبہ سدا نمایاں رہا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مسیحیوں کا ایمان مقدس خُداوند یسوع کی طرف سے ہوتا ہے۔ سب اُسی کی دین ہے اور اسی کی طرف ہی سب کچھ اور سب نے لوٹنا ہے۔ پرانے عہد نامہء مبارک میں تو پہلے سے کہہ دیا گیا تھا ایک ایسے دن کے متعلق جو یومِ قیامت ہو گا، یومِ خُداوند، اس حشر کے دِن انسانوں کی کمائی ہوئی ہر بدی پر خُدا کی پکڑ ہو گی، برابر سزا ملے گی۔۔۔۔۔۔ لیکن یہ بھی ہے کہ خُدا ہی بخشنہار ہے، اپنے بندوں کو بچا بھی تو سکتا ہے۔ چناں چہ انھیں معافی بھی مِل سکتی ہے، پناہ و نجات بھی۔ اس کرم اس عطا کا واضح بیان ہمیں مقدس عہد نامہء جدید میں ملتا ہے۔ مسیحی امت اپنے خُداوند یسوع مسیح پاک کے اس روزِ عدالت کے انتظار میں ہے جب بادشاہت، عظمت، بزرگی اور جلال کی طرف اس کی واپسی ہو گی۔ تب دنیا اس حقیقت کو پا لے گی کہ اس کائنات، اس کارخانہء قدرت کی وجہِ آفرینش پاک خُداوند یسوع مسیح کی ذاتِ بابرکات ہے اور وہی تاریخِ دوعالم کا محور ہے، جو کچھ ہے سب اسی کے گرد گھومتا ہے۔ ہر ذی روح کی اصل یسوع اقدس ہے۔ وہ ابدی سچائی ہے، کارزارِ ہستی کا پیمانہ اس کی ذاتِ اقدس ہے۔ وہ واحد ہستی خُداوند یسوع کی ہی ہے جسے خُداذوالجلال نے زندوں کی آزمایش کے لیے بھیجا اور مُردوں کے امتحان کی خاطر بھی۔ ان کے لیے بھی جو مخلوق سانس لیتی ہے اور ان کے لیے بھی جو ساکت و جامد ہے۔ مٹی کے پرندے اسی لیے ا س کی پھونک کا حکم پاتے ہی اُڑ گئے۔ قبروں سے لوگ باگ اُٹھ کھڑے ہوئے، مردہ جسموں میں جان پڑ گئی۔ ایسی کرنیوں کے بائبل مقدس میں کمال کے اشارے کنایے ملتے ہیں، جو تمام اس اٹل حقیقت کی طرف توجہ دِلاتے ہیں کہ آخری فتح و کامرانی خُداوند یسوع پاک کی ہو گی، اسی کی بادشاہی قائم ہو گی بحر و بر، فضا و خلا، سب پر اس کا راج ہو گا۔ سب اُس کے اُمتی ہوں گے۔ شان و شوکت، سطوت و عظمت اس کی ہو گی اور اس کے ساتھ سچ اور حق کی بھی، عدل کا بول بالا ہو گا۔ ایسا بھی سنہری دور اس گلوب پر آئے گا جب ذلتوںکے مارے لوگ، عزلت و واماندگی میں پِسے انسان، مظلوم و بے بس آدمی اور وہ ذی بشر جن کا شمار کِسی گنتی میں بھی نہیں، سماج کے ٹھکرائے بھُلائے ذی نفس، دہشت گردیوں اور تباہیوں بربادیوں کا شکار لوگ ایک لمبی جھرجھری لے کر اپنے آپے میں واپس آجائیں گے اور پھر ظلم کا گریبان ہو گا اور اُن کا ہاتھ۔ دنیا سے ستم کو دیس نکالا مل جائے گا جب کہ یہ سارا پلینٹ (کرئہ ارض) ایک دیس ہو گا۔ بے انصافیوں، تشدد او ربرائیوں سے بھی زمین خالی ہو جائے گی۔ اسی لیے یومِ حساب کے بارے میں دیے جانے والے اس اعلان میں ذرا برابر شک کی گنجایش نہیں کہ یہ یوم ''یومِ نوید'' ہو گا، خوشخبریوں کا تاریخی کائناتی دن۔

مسیحیوں کو ''جب تک خُداوند عظمت و بزرگی اور اپنے جلال میں واپس نہیں آتا''، والی دعا پر جو مقدس یوخرست عبادت کا حصہ ہے، اکثر و بیشتر ذِکر و فکر کرتے رہنے چاہیے۔ ابتدائی کلیسیا کے دور کے مسیحی، مقدس خُداوند یسوع المسیح کی آمدِثانی کی امید میں سرشار رہتے تھے۔ ان کی خوشیوں کے لیے جواز یہ تھا کہ غریب فرض کیے بیٹھے تھے کہ آمدِ مسیح جلد یہِیں کہِیں نزدیک کے دورِ مستقبل میں متوقع ہے۔ ان کی نسل ابھی موجودہو گی کہ خُداوند کی اُن میں واپسی ہو جائے گی۔ اس یقین نے سہج سہج ہی اپنی جگہ بنائی کہ قیامت میں ابھی بہت دیر ہے۔بڑا عرصہ لگے گا، خیال کِیا جانے لگا کہ روزِ حشر آتے آتے صدیوں کو ہزاریوں کا شاید سفر طے کروا دے اور اسی کی نسبت سے خُداوند کی دوبارہ آمد بھی دور سے دور نظر آنے لگی کیوں کہ اس نے تو نزدِ قیامت زمین پر آنا ہے۔ جلد یا بدیر، مسیحیوں کے لیے مسئلہ نہ تھا، نہ کوئی سببِ اضطراب۔ کہِیں بھی کِسی بحران نے کوئی دھرتی نہ ہلائی جب یہ قیاس دم توڑتا نظر آیا کہ پاک خُداوند کی دوبارہ آمد کی فوری طور آمد تو دُور کی بات، ان کی دُور دُور تک آمد کے واضح اشارے بھی ناپید ہیں۔ آنا تو ہے، کب؟ پتا نہیں، امید پر دنیا قائم ہے۔ دنیا میں وہ آئے گا تو تب بعد میں یہ فنا ہو گی۔ مسیحی وہی کہلائے گا جو توقعات قائم رکھے، آس اُمید کی ڈوری ٹوٹنے نہ دے۔ اس زندگی کا پل پل سُونا ہے جو پیارے مسیح کے انتظار میں گذرے۔ وہ آئے گا تو چہار سُو خوشیاں پھیل جائیں گی!

گاہے گاہے ایسے لوگوں کا ظہور ہوتا رہتا ہے جو بڑے وثوق سے یہ دعویٰ کرتے رہے ہیں کہ وہ جانتے ہیں حشر کب بپا ہو گا، حال آں کہ بائبل مقدس میں بتایا گیا ہے کہ نہ تو کوئی جانتا ہے کب آئے گی نہ یہ کہ کس وقت آئے گی قیامت، یہی بات خُداوند یسوع پاک کے بارے میں بھی صادق آتی ہے کہ کِسی کو پتا نہیں کب، کس ساعت اس کی آمد ہو۔

مگر اُس دِن یا گھڑی کی بابت سواے اکیلے باپ کے کوئی کچھ نہیں جانتا۔ نہ تو آسمان کے فرشتے او رنہ بیٹا ہی۔

مقدس مرقس۔۔۔۔۔۔32:13

ایسے لوگوںکا اشارہ پاک خُداوندیسوع المسیح کے اس کہے کی طرف ہوتا ہے جس میں اس نے جنگوں، جنگ کی تباہیوں، قدرتی آفتوں اور ان سے وجود میں آئی بربادیوں کے بارے میں بتایا تھا کہ وہ پیش رو ہوں گی روزِ قیامت کی۔ لیکن اس سے کِسی حتمی تاریخ کی نشاندہی تو نہیں نا ہو جاتی۔ بات تو گھوم پھر کے وہیں کی وہیں آ کھڑی ہوئی۔ خُداوند یسوع مسیح نے بھی خُدا باپ کی بات پردے میں ہی رہنے دی لیکن اپنے کہے سے ان ہولناک حالات کو کہ جن کا دنیا کو سامناہے اور اس بھیانک صورتِ حالات سے کہ آیندہ کے زمانوں میں بھی اسے اس سے نبردآزما رہنا ہے ان کٹھنائیوں کو اس نے نئے اور منفرد ہی معانی پہنا دیے۔ مسیحیوں نے ان علامات سے نجات کے آنے والے دنوں کے اشارے لیے۔ پیشینگوئی کا آدھا حصہ پورا ہو رہا ہے، نجات کی طرف آدھا سفر تو طے پایا۔ مسیحیوں نے جو آس لگا رکھی ہے اس کے پورا ہونے کا وقت قریب سے قریب تر سرکتا چلا آرہا ہے! بس اب تو دجّال کی آمد کو بھی پر لگنے والے ہوں گے، قیامت کا بگل بجنے سے پہلے اس دشمنِ مسیح نے بھی تو پاک خُداوند کے دستِ مبارک سے اپنے انجام کو پہنچنا ہے۔ ہماری دنیا بھی پوری تیاری میں لگتی ہے خطرناک اسلحے کے انبار کیمیائی ہتھیار، نیوکلیئر وارہیڈ لے جانے والے بھانت بھانت کے میزائل وغیرہ وغیرہ آخری عالمی جنگِ عظیم کے لیے سپلائی ہوں گے، ان میں اور بھی مہلک ترین جنگی سامان شامل ہے جو صیغہء راز میں ہے یا اسے مزید مہلک بنانے کے لیے زیرِ آب، زیرِ زمیں، فضاؤں میں، خلاؤں میں یا اجرامِ فلکی پر زیرِ تجربہ و مشاہدہ ہیں، خلائی لیبارٹریاں سٹاروار کے پیٹرن پر بھی جنگی تیاریوں میں مصروف ہیں۔ خالقِ حقیقی نے اپنی تخلیق پر کاٹے مارنے کے لیے برش اپنے اُلُوہی پینٹ میں بھگونے کے لیے تھام لیا ہو گا، یا تھامنے والا ہو گا، مگر اس عمل میں صدیاں بھی گذر سکتی ہیں اور ہزاریاں بھی۔ اگر آج سنیچروار ہے تو قیامت کل بھی آ سکتی تھی مگر ابھی نہیں۔۔۔۔۔۔ ابھی تو ہمارے مقدس خُداوند یسوع مسیح نے فرشتوں کے جلو میں ہماری اس دھرتی پر اُترنا ہے اس لیے

مترس از بلا کہ شب درمیان است

قیامت کا روز نہ آئے گا جب تک بے شمار مسیحی لوگ خُداوندیسوع مسیح اور انجیلِ پاک کا انکار نہ کریں گے اور بے ایمانی تمام رُوے زمین پر نہ پھیلے گی۔ ایسا ارتداد بدعت کا نہیں بل کہ بے ایمانی اور بد عنوانی کا ارتداد ہو گا۔ ابھی تو گناہ اور ہلاکت کے فرزند نے بھی آنا ہے، جھوٹے جعلی تو بہت آ لیے، اصلی والے نے آنا ہے۔ کائنات کے پردئہ سیمیں پر اس وقت دنیا کی سٹوری کی آخری رِیل چل رہی ہو گی اور وہ وہی لمحاتِ مبارک ہوں گے جب مقدس خُداوند یسوع مسیح کی عظیم آمدِ ثانی کی برکت سے کل عالم متمتع ہونا شروع کر دے گا حتّٰی کہ برائیوں کا خاتمہ ہو جائے گا، دنیا کا آخری انسان جو سیارئہ زمین پر یا اس وقت کِسی اور سیارے پر ہو گااس کے مسیحیت قبول کرتے ہی قیامت کا ناقوس بج اُٹھے گا۔ دجّال مارا جا چکا ہو گا، جسے بائبل میں گناہ او رہلاکت کا فرزند کہا گیا۔

جو مخالفت کرتا ہے اور اپنے آپ کو ہر اُس سے بڑا بناتا ہے جو خُدا یا معبود کہلاتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ خُدا کی ہیکل میں بیٹھ کر اپنے آپ کو بطور خُدا کے ظاہر کرے گا۔

2۔ تسالونیکیوں۔۔۔۔۔۔4:2

یہ اسی گناہ کے فرزند، فرزندِ ہلاکت کا ذِکر تھا۔ خُداوند یسوع مسیحکا یہ مخالف جو آخر میں آئے گا سب سے زیادہ خراب اور ہلاک کرنے والا ہو گا۔ خُدا کی ہیکل میں وہ گناہ کا فرزند دیگر قوموں سے الٰہی حمد اور پرستش کروائے گا اور خُدا بن کر حکومت کرے گا۔ تاریخ میں تو نوعی حیثیت سے اس کی کوئی خصوصیت نہیں۔ دنیا ایسے مورکھوں سے بھری پڑی ہے جو خُدا کی خُدائی شان کے منکرین ہیں، ان کا شمار خُدا کے دشمنوں میں ہوتاہے، وہ کوئی بھی ہوں کتنے ہی جری، مضبوط، طاقت ور ہوں مسیحی ان کی طاقت سے ذرا بھی خائف نہیں ہو سکتے کیوں کہ ان کا ایمان اور یقین یہ کہتا ہے کہ آخری فتح خُداوند یسوع المسیح کی ہی ہے۔

مسیحیوں نے اپنے خُداوند یسوع مسیح سے ایک حُسنِ ظن بھی وابستہ کر رکھا ہے کہ وہ آئے گا اور دوبارہ آکر تاریخ کی تکمیل کا سبب بنے گا۔ یہ ہم مسیحیوں کے خوش و خرم رکھنے کے لیے بہت ہی خوش کن ٹانک ہے جس سے ہمارے جذبات و احساسات توانا رہتے ہیں او ر اس خوشخبری کو عصرِ حاضر میں معتدبہ اہمیت بھی حاصل ہے، اور ہاں یہ بھی آپ پر واضح کر دیں کہ اس دنیا کی اصلاح و ترقی کوئی ہم نے تھوڑا ہی انجام دینی ہے یہ تو رسولوں، خُداوند کے شاگردوں، شاگردوں کے شاگردوں، کے شاگردوں، کے شاگردوں۔۔۔۔۔۔ اور خود مقدس خُداوند یسوع مسیح کا کام ہے اور کِسی کے بس کی بات کہاں۔ ایک بار یہ بات ہمارے ذہنوں کے کِسی کونے میں بیٹھ جائے، پھر کِس نے ان کی کِسی بات پر کان دھرنے ہیں جو ایک دنیا کو بہشتِ ارضی کے سراب دِکھاتے پھرتے ہیں۔ پاک خُداوند مسیح کے وفادار مومن مسیحی تواریخِ عالم کے جوار بھاٹا، عالمی واقعات کے مدوجذر سے کِسی تذبذب میں نہیں پڑتے۔ وہ مذہب کے پکے ہیں۔ وہ اپنے ذمہ کے نیک کاموں کے لیے تگ و دو کرتے رہتے ہیں۔ عدل و انصاف کے حصول کے انسانی حق کے لیے ہمیشہ کمربستہ رہتے ہیں، معاشرتی اصلاح، سماجی بہبود، انسانوں کی بہتری کے کاموں کے لیے اگلی صف کے کارکن ثابت ہوتے ہیں، خُدا کی خلقت کے لیے دین، دنیا اور آخرت کی بھلائی یعنی نجاتِ اُخروی کے لیے فکرمند رہتے ہیں اور ان کے حصول کے لیے ہر دم مستعد رہتے ہوئے احسن ترین طریقوں اور سلیقوں سے خُداوند یسوع پاک کا پیغام لوگوں تک پہنچاتے رہتے ہیں۔ اس سب کچھ کے لیے اُنھیں تائیدِ ایزدی اور نصرتِ مقدس خُداوند یسوع ناصری کی ہر لمحہ احتیاج رہتی ہے، ورنہ اپنی ایسی طاقت کہاں کہ یہ کارہاے خیر بندہ اکیلا انجام دے پائے۔ زندگی کے ہر لمحہ میں آدمی پاک خُداوند کے ساتھ کا محتاج ہے اور وہ بھی بندے کو مایوس نہیں کرتا، ہر لحظہ پاس پاس ہے۔ عظیم ترین فاتحِ عالم عدل گُستری میں حرفِ آخر، عادلِ روزِ عدالت مقدس خُداوند یسوع المسیح کے سایہء عاطفت میں جس نے پناہ لی وہ مسیحی خوفناک قسم کے خیالی مثالی تمدنی و سیاسی عہد کے چکروں میں پڑنے سے محفوظ رہا۔ تاریخ سے ثابت ہے کہ اگر وہ مسیحی پاک خُداوند کی حفاظت میں نہ آتا تو بس گیا تھا، ایسی صورتِ احوال تو ختم ہی خون خرابے، آہوں، سسکیوں اور آنسوؤں پر ہوتی ہے۔

پس، یہ منادی کہ خُداوند یسوع مسیح اقدس پورے جلال اور اپنی عظمت و بزرگی و تمجید کے ساتھ اس جہانِ فانی کو ایک مرتبہ رونق و برکت بخشے گا، اس کی حمد و ثنا اور ستایش کے گیت اور نغمے اور مناجات اس سیارئہ زمین کے کونے کونے میں گونجیں گی کیوں کہ وہی ہمیں ارضی جنت کی سیر کروانے والوں کے حسین فریب سے خود ہی بچائے گا۔ تعلّی والی تسلیم و رضا اور جھوٹی بناوٹی خُدا سپردگی کہ جس پر ناامیدی کی گہری چھاپ نظر آ رہی ہوتی ہے لیکن دنیا کے سامنے اپنے آپ کو نیک، پرہیزگار، پہنچا ہوا بندہ ظاہر کرنے کے لیے،آنکھوں دیکھے مکھی نِگل لیتا ہے اور یوں دنیا کے ساتھ ساتھ اپنی آخرت بھی خراب کر لیتا ہے مگر ہر تباہی سے بچانے والا، گناہوں کا سب کے لیے کفارہ دے کے نادم و تائب بندوں کو مکتی عطا کرنے والا مکتی داتا خُداوند یسوع پاک بھی تو موجود ہے وہی اپنی پیاری امت کے ایک ایک مسیحی کو قعرِ مذلت میں گرنے سے خود بچا لیتا ہے۔

(Slightly adapted, from W. Henze, Glauben ist schön. Ein katholischer Familien-Katechismus. Harsum: Köhler, 2001, pages. 176-7. )


:سوال نمبر125

۔دارالبقا سے پھر دارالفنا میں آمدِ مسیح کا مطلب؟

 

جواب:۔کلامِ مقدس کا فرمان ہے کہ ہمیں ''ترساں و لرزاں'' اپنی نجات کے لیے تا حیات کوشاں رہنا چاہیے۔

اور اِس واسطے میرے پیارو! جس طرح تم ہمیشہ فرماںبرداری کرتے آئے ہو اُسی طرح نہ تم صرف میری حاضری میں بل کہ اب بھی میری غیر حاضری میں بہت زیادہ ڈرتے اور تھرتھراتے ہوئے اپنی نجات کے کام کیے جاؤ۔

فیلپیوں۔۔۔۔۔۔12:2

تاہم مسیحی قوم آنے والے روزِ عدالت کے بارے میں جب بھی سوچتی، فکر کرتی ہے تو تب بھی اس کے احساسات پر آس امید کا غلبہ سدا نمایاں رہا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مسیحیوں کا ایمان مقدس خُداوند یسوع کی طرف سے ہوتا ہے۔ سب اُسی کی دین ہے اور اسی کی طرف ہی سب کچھ اور سب نے لوٹنا ہے۔ پرانے عہد نامہء مبارک میں تو پہلے سے کہہ دیا گیا تھا ایک ایسے دن کے متعلق جو یومِ قیامت ہو گا، یومِ خُداوند، اس حشر کے دِن انسانوں کی کمائی ہوئی ہر بدی پر خُدا کی پکڑ ہو گی، برابر سزا ملے گی۔۔۔۔۔۔ لیکن یہ بھی ہے کہ خُدا ہی بخشنہار ہے، اپنے بندوں کو بچا بھی تو سکتا ہے۔ چناں چہ انھیں معافی بھی مِل سکتی ہے، پناہ و نجات بھی۔ اس کرم اس عطا کا واضح بیان ہمیں مقدس عہد نامہء جدید میں ملتا ہے۔ مسیحی امت اپنے خُداوند یسوع مسیح پاک کے اس روزِ عدالت کے انتظار میں ہے جب بادشاہت، عظمت، بزرگی اور جلال کی طرف اس کی واپسی ہو گی۔ تب دنیا اس حقیقت کو پا لے گی کہ اس کائنات، اس کارخانہء قدرت کی وجہِ آفرینش پاک خُداوند یسوع مسیح کی ذاتِ بابرکات ہے اور وہی تاریخِ دوعالم کا محور ہے، جو کچھ ہے سب اسی کے گرد گھومتا ہے۔ ہر ذی روح کی اصل یسوع اقدس ہے۔ وہ ابدی سچائی ہے، کارزارِ ہستی کا پیمانہ اس کی ذاتِ اقدس ہے۔ وہ واحد ہستی خُداوند یسوع کی ہی ہے جسے خُداذوالجلال نے زندوں کی آزمایش کے لیے بھیجا اور مُردوں کے امتحان کی خاطر بھی۔ ان کے لیے بھی جو مخلوق سانس لیتی ہے اور ان کے لیے بھی جو ساکت و جامد ہے۔ مٹی کے پرندے اسی لیے ا س کی پھونک کا حکم پاتے ہی اُڑ گئے۔ قبروں سے لوگ باگ اُٹھ کھڑے ہوئے، مردہ جسموں میں جان پڑ گئی۔ ایسی کرنیوں کے بائبل مقدس میں کمال کے اشارے کنایے ملتے ہیں، جو تمام اس اٹل حقیقت کی طرف توجہ دِلاتے ہیں کہ آخری فتح و کامرانی خُداوند یسوع پاک کی ہو گی، اسی کی بادشاہی قائم ہو گی بحر و بر، فضا و خلا، سب پر اس کا راج ہو گا۔ سب اُس کے اُمتی ہوں گے۔ شان و شوکت، سطوت و عظمت اس کی ہو گی اور اس کے ساتھ سچ اور حق کی بھی، عدل کا بول بالا ہو گا۔ ایسا بھی سنہری دور اس گلوب پر آئے گا جب ذلتوںکے مارے لوگ، عزلت و واماندگی میں پِسے انسان، مظلوم و بے بس آدمی اور وہ ذی بشر جن کا شمار کِسی گنتی میں بھی نہیں، سماج کے ٹھکرائے بھُلائے ذی نفس، دہشت گردیوں اور تباہیوں بربادیوں کا شکار لوگ ایک لمبی جھرجھری لے کر اپنے آپے میں واپس آجائیں گے اور پھر ظلم کا گریبان ہو گا اور اُن کا ہاتھ۔ دنیا سے ستم کو دیس نکالا مل جائے گا جب کہ یہ سارا پلینٹ (کرئہ ارض) ایک دیس ہو گا۔ بے انصافیوں، تشدد او ربرائیوں سے بھی زمین خالی ہو جائے گی۔ اسی لیے یومِ حساب کے بارے میں دیے جانے والے اس اعلان میں ذرا برابر شک کی گنجایش نہیں کہ یہ یوم ''یومِ نوید'' ہو گا، خوشخبریوں کا تاریخی کائناتی دن۔

مسیحیوں کو ''جب تک خُداوند عظمت و بزرگی اور اپنے جلال میں واپس نہیں آتا''، والی دعا پر جو مقدس یوخرست عبادت کا حصہ ہے، اکثر و بیشتر ذِکر و فکر کرتے رہنے چاہیے۔ ابتدائی کلیسیا کے دور کے مسیحی، مقدس خُداوند یسوع المسیح کی آمدِثانی کی امید میں سرشار رہتے تھے۔ ان کی خوشیوں کے لیے جواز یہ تھا کہ غریب فرض کیے بیٹھے تھے کہ آمدِ مسیح جلد یہِیں کہِیں نزدیک کے دورِ مستقبل میں متوقع ہے۔ ان کی نسل ابھی موجودہو گی کہ خُداوند کی اُن میں واپسی ہو جائے گی۔ اس یقین نے سہج سہج ہی اپنی جگہ بنائی کہ قیامت میں ابھی بہت دیر ہے۔بڑا عرصہ لگے گا، خیال کِیا جانے لگا کہ روزِ حشر آتے آتے صدیوں کو ہزاریوں کا شاید سفر طے کروا دے اور اسی کی نسبت سے خُداوند کی دوبارہ آمد بھی دور سے دور نظر آنے لگی کیوں کہ اس نے تو نزدِ قیامت زمین پر آنا ہے۔ جلد یا بدیر، مسیحیوں کے لیے مسئلہ نہ تھا، نہ کوئی سببِ اضطراب۔ کہِیں بھی کِسی بحران نے کوئی دھرتی نہ ہلائی جب یہ قیاس دم توڑتا نظر آیا کہ پاک خُداوند کی دوبارہ آمد کی فوری طور آمد تو دُور کی بات، ان کی دُور دُور تک آمد کے واضح اشارے بھی ناپید ہیں۔ آنا تو ہے، کب؟ پتا نہیں، امید پر دنیا قائم ہے۔ دنیا میں وہ آئے گا تو تب بعد میں یہ فنا ہو گی۔ مسیحی وہی کہلائے گا جو توقعات قائم رکھے، آس اُمید کی ڈوری ٹوٹنے نہ دے۔ اس زندگی کا پل پل سُونا ہے جو پیارے مسیح کے انتظار میں گذرے۔ وہ آئے گا تو چہار سُو خوشیاں پھیل جائیں گی!

گاہے گاہے ایسے لوگوں کا ظہور ہوتا رہتا ہے جو بڑے وثوق سے یہ دعویٰ کرتے رہے ہیں کہ وہ جانتے ہیں حشر کب بپا ہو گا، حال آں کہ بائبل مقدس میں بتایا گیا ہے کہ نہ تو کوئی جانتا ہے کب آئے گی نہ یہ کہ کس وقت آئے گی قیامت، یہی بات خُداوند یسوع پاک کے بارے میں بھی صادق آتی ہے کہ کِسی کو پتا نہیں کب، کس ساعت اس کی آمد ہو۔

مگر اُس دِن یا گھڑی کی بابت سواے اکیلے باپ کے کوئی کچھ نہیں جانتا۔ نہ تو آسمان کے فرشتے او رنہ بیٹا ہی۔

مقدس مرقس۔۔۔۔۔۔32:13

ایسے لوگوںکا اشارہ پاک خُداوندیسوع المسیح کے اس کہے کی طرف ہوتا ہے جس میں اس نے جنگوں، جنگ کی تباہیوں، قدرتی آفتوں اور ان سے وجود میں آئی بربادیوں کے بارے میں بتایا تھا کہ وہ پیش رو ہوں گی روزِ قیامت کی۔ لیکن اس سے کِسی حتمی تاریخ کی نشاندہی تو نہیں نا ہو جاتی۔ بات تو گھوم پھر کے وہیں کی وہیں آ کھڑی ہوئی۔ خُداوند یسوع مسیح نے بھی خُدا باپ کی بات پردے میں ہی رہنے دی لیکن اپنے کہے سے ان ہولناک حالات کو کہ جن کا دنیا کو سامناہے اور اس بھیانک صورتِ حالات سے کہ آیندہ کے زمانوں میں بھی اسے اس سے نبردآزما رہنا ہے ان کٹھنائیوں کو اس نے نئے اور منفرد ہی معانی پہنا دیے۔ مسیحیوں نے ان علامات سے نجات کے آنے والے دنوں کے اشارے لیے۔ پیشینگوئی کا آدھا حصہ پورا ہو رہا ہے، نجات کی طرف آدھا سفر تو طے پایا۔ مسیحیوں نے جو آس لگا رکھی ہے اس کے پورا ہونے کا وقت قریب سے قریب تر سرکتا چلا آرہا ہے! بس اب تو دجّال کی آمد کو بھی پر لگنے والے ہوں گے، قیامت کا بگل بجنے سے پہلے اس دشمنِ مسیح نے بھی تو پاک خُداوند کے دستِ مبارک سے اپنے انجام کو پہنچنا ہے۔ ہماری دنیا بھی پوری تیاری میں لگتی ہے خطرناک اسلحے کے انبار کیمیائی ہتھیار، نیوکلیئر وارہیڈ لے جانے والے بھانت بھانت کے میزائل وغیرہ وغیرہ آخری عالمی جنگِ عظیم کے لیے سپلائی ہوں گے، ان میں اور بھی مہلک ترین جنگی سامان شامل ہے جو صیغہء راز میں ہے یا اسے مزید مہلک بنانے کے لیے زیرِ آب، زیرِ زمیں، فضاؤں میں، خلاؤں میں یا اجرامِ فلکی پر زیرِ تجربہ و مشاہدہ ہیں، خلائی لیبارٹریاں سٹاروار کے پیٹرن پر بھی جنگی تیاریوں میں مصروف ہیں۔ خالقِ حقیقی نے اپنی تخلیق پر کاٹے مارنے کے لیے برش اپنے اُلُوہی پینٹ میں بھگونے کے لیے تھام لیا ہو گا، یا تھامنے والا ہو گا، مگر اس عمل میں صدیاں بھی گذر سکتی ہیں اور ہزاریاں بھی۔ اگر آج سنیچروار ہے تو قیامت کل بھی آ سکتی تھی مگر ابھی نہیں۔۔۔۔۔۔ ابھی تو ہمارے مقدس خُداوند یسوع مسیح نے فرشتوں کے جلو میں ہماری اس دھرتی پر اُترنا ہے اس لیے

مترس از بلا کہ شب درمیان است

قیامت کا روز نہ آئے گا جب تک بے شمار مسیحی لوگ خُداوندیسوع مسیح اور انجیلِ پاک کا انکار نہ کریں گے اور بے ایمانی تمام رُوے زمین پر نہ پھیلے گی۔ ایسا ارتداد بدعت کا نہیں بل کہ بے ایمانی اور بد عنوانی کا ارتداد ہو گا۔ ابھی تو گناہ اور ہلاکت کے فرزند نے بھی آنا ہے، جھوٹے جعلی تو بہت آ لیے، اصلی والے نے آنا ہے۔ کائنات کے پردئہ سیمیں پر اس وقت دنیا کی سٹوری کی آخری رِیل چل رہی ہو گی اور وہ وہی لمحاتِ مبارک ہوں گے جب مقدس خُداوند یسوع مسیح کی عظیم آمدِ ثانی کی برکت سے کل عالم متمتع ہونا شروع کر دے گا حتّٰی کہ برائیوں کا خاتمہ ہو جائے گا، دنیا کا آخری انسان جو سیارئہ زمین پر یا اس وقت کِسی اور سیارے پر ہو گااس کے مسیحیت قبول کرتے ہی قیامت کا ناقوس بج اُٹھے گا۔ دجّال مارا جا چکا ہو گا، جسے بائبل میں گناہ او رہلاکت کا فرزند کہا گیا۔

جو مخالفت کرتا ہے اور اپنے آپ کو ہر اُس سے بڑا بناتا ہے جو خُدا یا معبود کہلاتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ خُدا کی ہیکل میں بیٹھ کر اپنے آپ کو بطور خُدا کے ظاہر کرے گا۔

2۔ تسالونیکیوں۔۔۔۔۔۔4:2

یہ اسی گناہ کے فرزند، فرزندِ ہلاکت کا ذِکر تھا۔ خُداوند یسوع مسیحکا یہ مخالف جو آخر میں آئے گا سب سے زیادہ خراب اور ہلاک کرنے والا ہو گا۔ خُدا کی ہیکل میں وہ گناہ کا فرزند دیگر قوموں سے الٰہی حمد اور پرستش کروائے گا اور خُدا بن کر حکومت کرے گا۔ تاریخ میں تو نوعی حیثیت سے اس کی کوئی خصوصیت نہیں۔ دنیا ایسے مورکھوں سے بھری پڑی ہے جو خُدا کی خُدائی شان کے منکرین ہیں، ان کا شمار خُدا کے دشمنوں میں ہوتاہے، وہ کوئی بھی ہوں کتنے ہی جری، مضبوط، طاقت ور ہوں مسیحی ان کی طاقت سے ذرا بھی خائف نہیں ہو سکتے کیوں کہ ان کا ایمان اور یقین یہ کہتا ہے کہ آخری فتح خُداوند یسوع المسیح کی ہی ہے۔

مسیحیوں نے اپنے خُداوند یسوع مسیح سے ایک حُسنِ ظن بھی وابستہ کر رکھا ہے کہ وہ آئے گا اور دوبارہ آکر تاریخ کی تکمیل کا سبب بنے گا۔ یہ ہم مسیحیوں کے خوش و خرم رکھنے کے لیے بہت ہی خوش کن ٹانک ہے جس سے ہمارے جذبات و احساسات توانا رہتے ہیں او ر اس خوشخبری کو عصرِ حاضر میں معتدبہ اہمیت بھی حاصل ہے، اور ہاں یہ بھی آپ پر واضح کر دیں کہ اس دنیا کی اصلاح و ترقی کوئی ہم نے تھوڑا ہی انجام دینی ہے یہ تو رسولوں، خُداوند کے شاگردوں، شاگردوں کے شاگردوں، کے شاگردوں، کے شاگردوں۔۔۔۔۔۔ اور خود مقدس خُداوند یسوع مسیح کا کام ہے اور کِسی کے بس کی بات کہاں۔ ایک بار یہ بات ہمارے ذہنوں کے کِسی کونے میں بیٹھ جائے، پھر کِس نے ان کی کِسی بات پر کان دھرنے ہیں جو ایک دنیا کو بہشتِ ارضی کے سراب دِکھاتے پھرتے ہیں۔ پاک خُداوند مسیح کے وفادار مومن مسیحی تواریخِ عالم کے جوار بھاٹا، عالمی واقعات کے مدوجذر سے کِسی تذبذب میں نہیں پڑتے۔ وہ مذہب کے پکے ہیں۔ وہ اپنے ذمہ کے نیک کاموں کے لیے تگ و دو کرتے رہتے ہیں۔ عدل و انصاف کے حصول کے انسانی حق کے لیے ہمیشہ کمربستہ رہتے ہیں، معاشرتی اصلاح، سماجی بہبود، انسانوں کی بہتری کے کاموں کے لیے اگلی صف کے کارکن ثابت ہوتے ہیں، خُدا کی خلقت کے لیے دین، دنیا اور آخرت کی بھلائی یعنی نجاتِ اُخروی کے لیے فکرمند رہتے ہیں اور ان کے حصول کے لیے ہر دم مستعد رہتے ہوئے احسن ترین طریقوں اور سلیقوں سے خُداوند یسوع پاک کا پیغام لوگوں تک پہنچاتے رہتے ہیں۔ اس سب کچھ کے لیے اُنھیں تائیدِ ایزدی اور نصرتِ مقدس خُداوند یسوع ناصری کی ہر لمحہ احتیاج رہتی ہے، ورنہ اپنی ایسی طاقت کہاں کہ یہ کارہاے خیر بندہ اکیلا انجام دے پائے۔ زندگی کے ہر لمحہ میں آدمی پاک خُداوند کے ساتھ کا محتاج ہے اور وہ بھی بندے کو مایوس نہیں کرتا، ہر لحظہ پاس پاس ہے۔ عظیم ترین فاتحِ عالم عدل گُستری میں حرفِ آخر، عادلِ روزِ عدالت مقدس خُداوند یسوع المسیح کے سایہء عاطفت میں جس نے پناہ لی وہ مسیحی خوفناک قسم کے خیالی مثالی تمدنی و سیاسی عہد کے چکروں میں پڑنے سے محفوظ رہا۔ تاریخ سے ثابت ہے کہ اگر وہ مسیحی پاک خُداوند کی حفاظت میں نہ آتا تو بس گیا تھا، ایسی صورتِ احوال تو ختم ہی خون خرابے، آہوں، سسکیوں اور آنسوؤں پر ہوتی ہے۔

پس، یہ منادی کہ خُداوند یسوع مسیح اقدس پورے جلال اور اپنی عظمت و بزرگی و تمجید کے ساتھ اس جہانِ فانی کو ایک مرتبہ رونق و برکت بخشے گا، اس کی حمد و ثنا اور ستایش کے گیت اور نغمے اور مناجات اس سیارئہ زمین کے کونے کونے میں گونجیں گی کیوں کہ وہی ہمیں ارضی جنت کی سیر کروانے والوں کے حسین فریب سے خود ہی بچائے گا۔ تعلّی والی تسلیم و رضا اور جھوٹی بناوٹی خُدا سپردگی کہ جس پر ناامیدی کی گہری چھاپ نظر آ رہی ہوتی ہے لیکن دنیا کے سامنے اپنے آپ کو نیک، پرہیزگار، پہنچا ہوا بندہ ظاہر کرنے کے لیے،آنکھوں دیکھے مکھی نِگل لیتا ہے اور یوں دنیا کے ساتھ ساتھ اپنی آخرت بھی خراب کر لیتا ہے مگر ہر تباہی سے بچانے والا، گناہوں کا سب کے لیے کفارہ دے کے نادم و تائب بندوں کو مکتی عطا کرنے والا مکتی داتا خُداوند یسوع پاک بھی تو موجود ہے وہی اپنی پیاری امت کے ایک ایک مسیحی کو قعرِ مذلت میں گرنے سے خود بچا لیتا ہے۔

(Slightly adapted, from W. Henze, Glauben ist schön. Ein katholischer Familien-Katechismus. Harsum: Köhler, 2001, pages. 176-7. )


Contact us

J. Prof. Dr. T. Specker,
Prof. Dr. Christian W. Troll,

Kolleg Sankt Georgen
Offenbacher Landstr. 224
D-60599 Frankfurt
Mail: fragen[ät]antwortenanmuslime.com

More about the authors?