:سوال نمبر128
۔کیا حضرت عیسیٰ روح اللہ (علیہ السلام) کو پہلے سے معلوم تھا کہ یہودہ اُنھیں دغا سے دُشمن کے حوالے کرا دے گا؟ اگر ایسا ہی ہے تو سب جاننے بوجھنے کے باوجود انھوں نے اپنا بچاو کیوں نہ کِیا؟
جواب:۔چاروں کی چاروں اناجیلِ مقدس میں یہ آیا ہے کہ آخری فسح کے موقع پر مقدس خُداوند یسوع مسیح نے بتا دیا تھا کہ شاگردوں میں سے ایک شاگرد دغا کر کے اسے پکڑوا دے گا۔ مقدس انجیل متّی کے مطابق پاک خُداوند نے ایسا یہودہ کے بارے میں کہا تھا گو کہ نام نہ لیا، اس کا پردہ رکھا۔ اس اعلانِ فریب دہی کا پیشگی ذکر مزامیر میں بھی بہت پہلے آ چکا تھا۔
۔۔۔۔۔۔بل کہ میرے اُس ہمدم نے بھی جس پر میرا بھروسا تھا، اور جو میری روٹی کھاتا تھا،
اس نے مجھ پر ایڑی اُٹھائی ہے۔
مزامیر۔۔۔۔۔۔10:(41)40
بدی کی قوتوں کی خباثتیں اس قدر متحرک تھیں کہ انھوں نے مقدس خُداوند یسوع ناصری کے شاگردانِ رشید کو جو پاک خُداوند کے گِرد ہالہ باندھے بیٹھے رہتے تھے، اُنھیں بھی نہ چھوڑا بل کہ اُنھیں ورغلانے کے لیے سدا ان کے گِرد چکر پہ چکر لگاتی رہیں کہ شاید کبھی موقع مِل جائے، کامیاب ہو جائیں۔
اب رہا یہ سوال کہ مقدس خُداوند یسوع مسیح نے اپنا دفاع کیوں نہ کِیا، وہ گرفتاری کے خطرے سے بچ کر نکل سکتا تھا، بڑے آرام سے ایسا ہو سکتا تھا، پھر بھی اس نے گرفتاری دے دی، کیوں؟اِس میں کوئی باریکی نہیں، ظاہر سی بات ہے کہ آئے روز خُداوند پر عیاں سے عیاں تر ہوتا چلا جارہا تھا کہ وہ بھلا کب تک بچا رہے گا اس اذیت ناک موت سے، جو سزا ہو گی اس کے ڈٹے رہنے کی، پورے استقلال اور وفاداری کے ساتھ اس الٰہی پیغام کو لوگوں تک پہنچا کے ہی دم لینے کی ٹھان رکھنے کی، غیر مشروط محبت کا ربی پیغام جسے سب انسانوں تک من و عن پہنچا دینے کی ذمہ داری اسے خُداباپ نے سونپ کر اس خطہء زمین پر بھیجا تھا، اس نے وہ ذمہ داری نبھانی ہی نبھانی تھی اور اگر اس سب کچھ سے وہ باز آجاتا تو جان کی امان تھی، دنیاوی جاہ و حشم اور دیا جانے والا بڑے سے بڑا لالچ کا وعدہ تھا۔ دشمن کی پیشکش ٹھکرا دینے میں دُکھی انسانیت کی فلاح تھی، جبر اور ظلم کا خاتمہ تھا، سیدھی راہ پر آجانے والوں کے لیے مکتی کی جاں فزا نوید تھی اور اس کے لیے خُداوند کو صلیب پر کھینچ دیے جانے کی دردناک سزا تھی، اپنے مسیحیوں کے لیے اس نے صلیب چوم لی۔ خُدا کے اس مردِ غمناک کو وہ تمام صعوبتیںبرداشت کرنا تھیں خادمانِ خُدا جنھیں صبر شکر کے ساتھ سہتے چلے آرہے تھے، مگر اس کا دُکھ عظیم تھا۔ اس کا خُداوند ہونا، خُدا کا بیٹا ہونا، خود خُدا ہونا یہودیوں، رومیوں، کِسی کو بھی ہضم نہ ہو رہا تھا اس لیے اُنھوں نے اسے مار ہی دیا، حال آں کہ وہ بے تقصیر تھا، اس سے کوئی جرم نہیں سرزد ہوا تھا، وہ معصوم تھا۔ اسے خُدا پر کامل یقین تھا، خُدا باپ پر بھروسا تھا، اس نے صلیب پر اذیت ناک موت قبول کر لی۔ اس نے کوئی شکوہ نہ کِیا، فریاد نہ کی، اپنی صلیب آپ کھینچی، کوڑے کھائے، بلاکی پیاس تھی جو برداشت کی، مقدسہ ماںنظر آئی، میگدالینی پر نگاہ پڑی، جس نے پانی کے دو گھونٹ پلائے اس کی تصویر آنکھوں میں جذب کی؟ اور مردِ غمناک مصلوب ہونے کے لیے اپنے مقتل پر جا پہنچا۔ ایک رخسار پر طمانچہ کھا کے دوسرا بھی آگے کر دینے کا سبق دینے والے نے مسلسل بہتے لہو کے تار ٹوٹ جانے پر آخری ہچکی صلیب پر لی اور سب کی مکتی کا سامان کر گیا۔
۔۔۔۔۔۔ پس اُس نے بہتیروں کے گناہ اُٹھا لیے
اور وہ بدکرداروں کا شفیع ہے۔
تلاوت کی برکت پائیے، پڑھیے: ۔۔۔۔۔۔اشعیا۔۔۔۔۔۔باب53مُکمَّل
سلسلہء ظلم و تشدد او رجبر و جارحیت کا تسلسل تحس نحس کرنے کے لیے پاک خُداوند نے اپنے خاص عمل سے مثال قائم کی ہے، جو گُڑ سے مر سکے اسے زہر کیوں دیا جائے، آپ نے دیکھ لیا اتنی مخالفتوں، مخاصمتوں، سازشوں، دُشمنیوں کے مقابلے میں صبر وتحمل کے ساتھ امن و محبت کا پرچار کرتے ہوئے اس نے سب اذیتیں مصیبتیں برداشت کیں اور فاتح رہا، اس نے دنیا کو باہمی مصالحت و دوستی کا سبق دیا اور اس پر اپنے حواریوں سمیت خود بھی عمل کر دِکھایا۔ دنیا جس میں امن مفقود تھا، اسے صلح صفائی اور خوشحالی دی۔ یہ دنیا، جو سراے فانی ہے، منٹ نہیں لگتا اور گناہ کے مہیب اندھیروں میں ڈوب جاتی ہے، اس دنیا اور اس میں رہنے والوں کو اپنے انوار، فیوض اور برکات سے مالا مال کر دیا، اس نے کفارے میں اپنی جان جانِ آفرین کے سپرد کر دی۔ خُدا کی بارگاہ میں اطاعت و فرماںبرداری کی مثال قائم کرتے ہوئے مقدس خُداوند یسوع مسیح نے اذیت چشیدہ خادمانِ خُدا کے راستے پر، خاردار راستے پر پبّاں بھار، لہولہو پاؤں کے تلووں کے ساتھ ہمّتِ خُداوندی سے چلتے ہوئے سفر مُکمَّل کر دِکھایا۔ اس نے اپنی زندگی قربان کر دی آپ کے لیے، سب کے لیے۔ خُداوند یسوع پاک نے تو ابتداً آخری عشا کے موقع پر ہی یہ بتا دیا تھا، اسی لیے مسیحی برادری اس کی اہمیت اور اس کی قدر ناتے اس قربانی کی یاد مناتے ہوئے یوخرست کی مقدس تقریب منعقد کرتی ہے۔ یہ عبادت بھی ہے، شکرانہ بھی اور عہدِ وفاداری بھی۔ یہ مبارک یوخرست ہے جس میں مقدس خُداوند یسوع مسیح کا فرمانا ہے کہ میرے مومن مسیحی بندے دوسروں کا خیال رکھنے، ان کی خدمت ان کی دیکھ بھال او ران کے لیے فلاح و بہبود کے کاموں میں پورے خشوع و خضوع اور تن من دھن سے جُت جائیں، انسانیت کی بہتری کے لیے تگ و دو اپنا شعار بنا لیں۔ ایسا کر دِکھانے کی نیّت پیدا کرنے والوں کو خُداوند یسوع پاک مقدس رُوح الحق کی پاور میں اس کی طاقت و قدرت میں اپنی بابرکت شکتی سے نوازتا ہے۔ گویا تینوں اقانیمِ مقدس اس ایماندار کے سرپرست بن گئے۔ نیّت میں فتور نہ آیا تو کامیابی حاصل ہو ہی ہو۔