German
English
Turkish
French
Italian
Spanish
Russian
Indonesian
Urdu
Arabic
Persian

:سوال نمبر133

۔مسیحیت حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے آسمانوں پر چلے جانے کے سوا تین سوسال بعد بھی اُن کی ہستی، مرتبے اور حیثیت پر کٹ حجتیاں ہی کرتی نظر آئی، دلائل او رمباحث کا بازار گرم رہا، مسیح کی ذاتوں کے متعلق مسیحیوں کو ادراک ہی نہ ہوا۔ ان میں خُدائی صفات تھیں یا خُدا جیسی صفات کا ان میں ظہور ہوا؟

 

 وہ لوگ پہچان ہی نہ کر پائے، گویا اُنھیں سمجھنے جاننے کی کوشش ہی نہ کی گئی، وَجہ؟

جواب:۔سوال میں325عیسوی کے حوالے سے بات کی گئی ہے، یہ وہ سال ہے جب پہلی عالمگیر کلیسیائی مجلس کا انعقاد ہوا تھا جو معاشرے کی تعمیرِ نو کے لیے بین الکلیسیائی روابط اور اتحاد پر زور دیتی رہی۔ اس کونسل آف نقایہ نے چوتھی صدی میں سکندریہ کا پرسبٹربشپ آریوس (256عیسوی تا336عیسوی) کے بدعتی نظریات، کہ ''خداوند یسوع مسیح الٰہی جوہر میں خُدا باپ کے برابر نہ تھا''، کی مذمت اور ان نظریات و تعلیمات کی تردید کی۔ 325عیسوی کی نقائی کونسل نے اپنے اعتراف واقرارِ ایمان پر بندھے عہد کے بِرتے پر، جو نقائی عقیدہ کے نام سے مشہور ہوا، اس کے تحت پُرمسرت افتخار کے ساتھ تسلیم کِیا کہ مقدس خُداوند یسوع مسیح خُدا باپ میں ایک ہے۔ "Homoousios"ہے، "Homoiousios"نہیں۔سیدھے سادہ لفظوں میں یہ کہ خد اہے، خُدا سا نہیں۔

بہت سے معاصرین نے خواہ مخواہ اپنی جان کو روگ لگا رکھا ہے، یوں کہ اصولی عقیدہ سے ہٹ کر، او رکِسی عمل کو اس کے نتیجے کے حوالے سے دیکھنے پرکھنے سے احتراز کرتے ہوئے کھُلی ڈُلی تحکمانہ طور مداخلت کے مرتکب ہو کر وہ مسائل کے پھَٹّے میں اپنی ٹانگ اَڑا دیتے ہیں۔ نقاوی کونسل کا عقیدہ اپنے طور ایسے لوگوں کو منفی اذغانی اصول محسوس ہونے لگتا ہے۔ غالباً اس کی یہی وجہ ہے کہ وہ اس مذہبی اصولی عقیدے کو خلط ملط کرتے ہوئے یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ یہ غیر متزلزل اور جامد ہے، کڑا اور پابند ہے اور اس کے سبب محتسبِ اعلیٰ کی تیرھویں صدی کی عدالتِ تفتیشِ بدعات جو بدعتوں کی روک تھام، تفتیش اور سزائیں نافذ کرنے والی عدالت تھی اس کی تلخ یاد تازہ ہو جاتی ہے اورساتھ ہی مذہبی جنگوں اور اخلاقی دباو کی تصویریں آنکھوں کے سامنے گردش کرنے لگتی ہیں۔ فکر، خیال، راے اور نظریات کی آزادی، آزادیِ تقریر، تحقیق و جستجو کی آزادی، ضمیر کی آزادی اور مذہبی آزادی کی تو کلیسیا بھی پوری دیانت داری سے قائل ہے اور مفید و قیمتی ترکہ سمجھتی ہے او رانھیں بنیادی انسانی حقوق کا درجہ دیتی ہے۔ اور بعض بزرگانِ کلیسیا یقین رکھتے ہیں کہ ہم ایسی صدیوں میں داخل ہو چکے ہیں کہ اب وقت کے تقاضوں کے عین مطابق وسیع النظری اور عملی رجحانات کا قائل و حامل ہونا ضروری ہے۔

کیا ہمارے ہاں، مذہب کی صحیح تفہیم کے سلسلے میں کلیسیائی مباحث، گفتگو، سیمینار چلتے رہتے ہیں؟ اور مذہب کے جو اپنے تقاضے ہیں اُنھیں اپ ڈیٹ کرنے کی مشقیں جاری رہتی ہیں یا نہیں؟ جب کہ مقدس متی کی انجیل پاک کے توسط سے بھی ہم پر واضح ہے کہ خود خُداوند یسوع مسیح نے تاکید کر رکھی ہے کہ:

اس لیے جو کوئی آدمیوں کے آگے میرا اقرار کرے گا، مَیں بھی اپنے باپ کے آگے جو آسمان پر ہے اُس کا اقرار کروں گا۔ مگر جو کوئی آدمیوں کے آگے میرا انکار کرے گا، مَیں بھی اپنے باپ کے آگے جو آسمان پر ہے اُس کا انکار کروں گا۔

مقدس متی۔۔۔۔۔۔33,32:10

تمام مسیحیوں پر لازم کر دیا گیا ہے کہ وہ غیر مبہم، یقینی اعتراف و اقرار کا اعلان کر دیں۔ عقیدے کو غیر مشکوک، واضح رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ اسے متفق الراے اقبال و منظوری حاصل ہو۔ چوں کہ کلیسیا میں شروع سے ہی پھُوٹ اور گروہ بندی موجود رہی ہے اس لیے بھی بالاتفاق منظوری بہت ضروری ہے۔ حوالہ جات پر نظر فرمائیے:

اُن دنوں میں جب شاگردوں کا شمار بڑھتا جاتا تھا، یونانی عبرانیوں سے کُڑکُڑانے لگے کیوں کہ ان کی بیواؤں کی روزانہ خبر گیری میں غفلت ہوتی تھی۔

اعمال۔۔۔۔۔۔1:6

اے بھائیو! مجھے کُلوہ کے لوگوں سے تمھاری بابت یوں معلوم ہوا ہے کہ تم میں جھگڑے ہوتے ہیں۔ میرا یہ مطلب ہے کہ تم میں سے کوئی تو کہتا ہے کہ مَیں پولوس کا ہوں اور کوئی اَپُلّوس کا اور کوئی کیفا کا، اور کوئی مسیح کا۔ تو کیا مسیح تقسیم ہو گیا ہے؟ کیا پَولُوس تمھاری خاطر مصلُوب ہوا تھا؟ یا کیا تم نے پَولُوس کے نام پر بپتسمہ پایا تھا؟

1۔ قرنتیوں۔۔۔۔۔۔11:1تا13

تاکید براے اتفاق نئے عہد نامہ میں بکثرت دہرائی گئی ہے۔

اے بھائیو! مَیں تم سے ہمارے خُداوند یسوع مسیح کے نام کی خاطر التماس کرتا ہوں کہ تم سب ایک ہی بات کہو اور تم میں اختلاف نہ ہو بل کہ تم سب نیک دِل اوریک راے ہو کر کامِل طو رپر ملے رہو۔

1۔ قرنتیوں۔۔۔۔۔۔10:1

بے شک خُدا کے کلامِ مقدس کے اعلان کرنے، تشہیرو منادی کرنے کی ذمہ داری سنبھالنے کے عمل میں فرق ہے، یو خرستی قربانی یا عبادت کے انداز بھی اپنے اپنے ہیں، الٰہیات کا علم و ادراک ایک ہے مگر اپنے اپنے تحفظات بھی نمایاں ہیں (جب کہ خُدا کے بارے میں پوری آگہی حاصل کرنے کے لیے پوری بائبل مقدس کی تلاوت ضروری ہے۔ چند حوالہ جات کا مطالعہ علمِ الٰہی کے لیے پورے طور سودمند نہیں)، اور کلیسیائی پاک درجات بھی فرق فرق ہیں، لیکن ایسا ہونا درست ہی ہے اور اب مطلوب بھی۔ یہ اس لیے کہا ہے کہ ہماری نیت میں قطعاً یہ فتور نہیں کہ خواہ مخواہ بے جان سی یکسانیت اور سپاٹ سی یک رنگی ہر فرقے اور ان کے مسلک پر ٹھونس دی جائے۔ ہاں، البتہ، جائز قسم کی موافقت میں ضرور تمیز روا رکھی جائے بمقابلہ اختلافی دعاویِ ایمان و یقین کے، اور زندگی کے اہم ترین معاملات کی اخلاقیات پر مبنی اصول واسالیب کے، کہ ان پر الگ الگ نقطہء نظر رکھنا مناسب دکھائی نہیں دیتا۔بِلا روک ٹوک و بے عملی کا شکار، بے تکی تکثیریت میں افزایش، بڑھوتری، مسیحی اتحاد کے پینڈے (سفر) کو کھوٹا کردے گی ہر کوشش رایگاں چلی جائے گی۔ اگر مسیحی راست بازی اور حق سچ واضح اور پکے نہ ہوئے تو مسیحیوں کی مشترکہ عبادت و ریاضت سب بے مقصد اور بے نتیجہ ثابت ہو گی۔ اور مسیحیت اپنا اعتبار کھو دے گی۔ اور دِین میں کِسی بھی فرقہ کی قریب ترین مقابل فرقہ پر سبقت لے جانے کی دوڑ سب کچھ لے ڈوبے گی۔ کلیسیا شکر گزار و احسانمند ہے ربِ جلیل کی کریم النفسی اور فلاح و بہبود کی عطا کی جو اسے اس صداقت و ایمان کے قریب لے آئی اور مقدس روح الحق کی قدرت و طاقت میں اسے میسر ہوئی ورنہ تو انتشار، اُلجھاوے، تذبذب اسے گھیرے رکھتے اور وہ تباہ کن ابہام کے درمیان پھنسی رہتی۔ چناں چہ وہ اپنے بندوں کے ذریعے اور انسانوں کے اعمال اور کارگزاریوں کو جِلا بخش کے محفوظ و مامون رکھتا ہے یعنی مسلسل غور و فکر، سوچ بچار اور انہماک اور بسا اوقات کھنچاو اور تناو بھری بحث و تمحیص جو علمِ الٰہیات کے ماہرین اور کلیسیا کے گلہ بانوں کے درمیان چھڑی رہتی ہیں، ان کے ذریعے بھی۔ کلیسیا کے ان مقدس و معتبر چرواہوں کو اسی خدمت پر مامور کِیا گیا ہے کہ وہ کلیسیاؤں کے اتفاق و اتحاد کے لیے اپنا کردار سدا ادا کرتے رہیں تا کہ خُداوند اقدس کی بھیڑیں بھٹکنے نہ پائیں!

مذہبی عقیدہ، جیسے نقاوی کونسل کا طے کردہ عقیدہ جو مقدس خُداوند یسوع مسیح کے بارے میں ہے اُس سے انجیلِ مقدس میں کوئی اضافہ نہیں ہوا، حتّٰی کہ نہ ہی وہ کوئی انکشاف ہے کہ اب سامنے آیا ہو۔ یہ تو تفسیر ہے، توضیح و تشریح ہے، باضابطہ طور پر عائد، ایک طرح سے فرضِ ربانی ہے جس پر اعتقاد پختہ تر رہنا واجب ہے اور تمام کلیسیائیں اس پر پابند رہنے کی ذمہ دار ہیں اور پوری صحت کے ساتھ ہمیشگی کے لیے سب پر لاگو ہے، غلط اور بے ڈھب تعبیرات، محدود کرنے، کم کرنے اور آمیزش کرنے والی، بگاڑنے پر مشتمل تمام تشریحات کا اظہار ہیں، بالواسطہ یا بلا واسطہ جوپورا نقشہ کھینچ کر سامنے رکھ دیتی ہے۔ اسی طرح استدلال سے بالا مذہبی عقائد کے بھی دو پہلو ہیں؛ عقائد اس حوالے کے حامل ہونے چاہییں کہ پہلا اور اصل متن ان کے سامنے ہو اور سچائی کے عمومی اظہار کی ترجمانی کریں جو مقبولِ عام ہوں۔ دوسرا اہم پہلو یہ ہے کہ کلیسیا کی طرف سے توثیق یافتہ، باضابطہ، قطعی، دو ٹوک اور ماننے والوں، صاحبانِ ایمان پر واثق و لازم ہوں۔ کلیسیا جب یوں عمل پیرا ہوتی ہے اُس کا بھروسا او ریقین پختہ ہوتا ہے اس بات پر کہ مقدس خُداوند یسوع مسیح حاضر و ناظر ہے اور کلیسیا کو روح القدس کی موعودہ حمایت حاصل ہے جو تمام صداقتوں کی طرف اُس کا راہبر و رہنما ہے۔

لیکن جب وہ یعنی روح الحق آئے گا تو وہ ساری سچائی کے لیے تمھاری ہدایت کرے گا، کیوں کہ وہ اپنی طرف سے نہ کہے گا۔ لیکن جو کچھ سُنے گا وہی کہے گا اور تمھیں آیندہ کی خبر دے گا۔وہ میری بزرگی کرے گا، اس لیے کہ وہ مجھ سے پا کر تمھیں خبر دے گا۔ جو کچھ باپ کا ہے، وہ سب میرا ہے۔ اس لیے مَیں نے کہا کہ وہ مجھ سے پا کر تمھیں خبر دے گا۔

مقدس یوحنا۔۔۔۔۔۔13:16تا15

مذہب کیا ہے؟ مذہب جامع اور سریع الادراک عقیدہ و نظریہء حیات ہے اور وہ نظریہء کُلّیت سے متعلق رویے پرمبنی ہے، یہ نظریہ کہ وجود کا تشخص یا شناختِ کُل یا اس کے اجزا کے مجموعے سے الگ او رماسوا بھی ہے۔ یہ جو بحث ہم نے چھیڑی ہے کِسی ایک فقرے یا فقروں کی تلخیص میں نہیں سما سکتی، لیکن خُدا پر توکّل میں پوشیدہ ہے اور اس پر آس امید قائم رکھنے میں اس کا حل ہے کیوں کہ خُدا نے یسوع مسیح خُداوند میں اپنے آپ کو اپنے لوگوں پر ظاہر کرنے کے عمل سے اس کی نکتہ سنجی آسان کر دی تھی، چناں چہ ہم عقائد کے اسیر نہیں اُس طرح جس طرح ہم خُدا کے شیدائی اور خُداوند کے فدائی ہیں۔ خُدا پر، خُداوند پاک یسوع مسیح پر اور روح القدس پر ہمارا ایمان محکم، غیر متزلزل اور لافانی ہے۔ عقیدے بھی ہمارے ایمان کا حصہ ہیں۔ کیوں کہ اپنی ٹھوس حیثیت میں وہ مذہب، یقین و ایمان کے جوہر، اس کی اصل کے وکیل ہوتے ہیں۔ یہ عقائد نہیں ہوتے جو مذہب کی سچائی کو حق بجانب ثابت کرتے اور اس کے صِدق کا جواز بنتے ہیں، بل کہ یہ تو مذہب کی صداقت ہوتی ہے جو خود عقیدے کو جواز مہیا کرتی ہے۔ عقائد اس لیے حق سچ نہیں ہوتے کہ انھیں اعلانِ عام کے ذریعے مشتہر کِیا جاتا ہے، ان کی تو منادی ہی اس لیے کی جاتی ہے کہ وہ حق سچ کی نمایندگی کرتے ہیں۔ کوئی شک نہیں کہ ہمیں ان کی احتیاج ہے، وہ اس لیے کہ متحد ہو کر ہم قول و فعل کے ذریعے صاف صاف ان کا اقرار و اعتراف کرتے ہیں، مذہب کی سچائی کو تسلیم کرتے ہیں۔ سب کچھ سے بالاتر ہو کر استحقاق رکھتے ہیں اس اِصرار پر کہ وہ قادرِ مطلق ہے، وہ خُدا کا قادر خُدا باپ، مقدس خُداوند یسوع مسیح کا باپ ہے۔ کل کائنات کا انحصار فقط اسی ازلی ابدی سچائی پر ہے۔

(Abbreviated from Catholic Adult Catechism, Vol. 1, pp. 54-58).


Contact us

J. Prof. Dr. T. Specker,
Prof. Dr. Christian W. Troll,

Kolleg Sankt Georgen
Offenbacher Landstr. 224
D-60599 Frankfurt
Mail: fragen[ät]antwortenanmuslime.com

More about the authors?