German
English
Turkish
French
Italian
Spanish
Russian
Indonesian
Urdu
Arabic
Persian

:سوال نمبر144

۔بین المذاہب مکالمہ کے بارے میں آپ کی فاضل راے کیا ہے؟

 

جواب:۔کشادگی و آزادی کی ہموار فضا میں مختلف النوع مذاہب کے پیروکار دوستوں کے درمیان، آمنے سامنے ایک دوسرے سے سمجھ سمجھا والی گفتگو ہو جاتی ہے۔ کوشش ہوتی ہے کہ دوسروں کی بات دلچسپی سے سُنی جائے، اسی لمحے اپنے تحفظات نوٹ کرنے بیٹھ جانے کے علاوہ بھی، دوسرے مذہب کے بارے میں مقرر جو کچھ بتا رہا ہے اسے اچھی طرح سمجھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ پتا چلنا چاہیے کہ وہ اپنے مذہب کی کیا تشریح کرتے ہیں۔ یہ مکالمہ ہے، بین المذاہب مناظرہ نہیںہوتا۔ دیکھنا یہ ہوتا ہے کہ ہماری کیا کیا باتیں مشترک ہیں۔ یہ مقابلے کا امتحان نہیں، مصالحت کی دعوت ہے۔ کِسی بھی مذہب میں کیڑے نکالنا مقصود نہیں، اس کے گلزارِ عقیدہ میں سے گُل چینی مطلوب ہوتی ہے تا کہ ہمارے درمیان امن و رواداری کے لیے تعاون کی بیل منڈھے چڑھے۔ مکالمہء بین المذاہب میں تحمل، برداشت، بُردباری اور خاص طور پہ نیک نیتی اور ایک دوسرے کے مذہب کو احترام سے دیکھنے کی سپرٹ قائم رکھنا ہوتی ہے۔ توجہ طلب معاملات پر تبادلہء خیالات اور ایک دوسرے کے ساتھ اپنے اپنے مذہب کی وہ باتیں شیئر کرنا ہوتی ہیں جن کے ذریعے صلحِ کُل کی روایات کو تقویت ملے اور آپس میں بھائی چارے کو رواج ملے۔ زندگی چند روزہ ہی تو ہے، آج مرے کل دوسرا دِن جو دم زندہ ہیں، آرام سُکھ چین سے ہی جی جائیں بہت بڑی بات، نزاعی باتوں میں اُلجھنا بے سود ہے، امن و آشتی میسر ہو تو اپنے اپنے مذہب پر ہم زیادہ دلجمعی اور خشوع و خضوع سے عمل کرنے لگیں گے، بندے بھی خوش، ہم بھی خوش اور ہمارا خُدا بھی خوش۔ اسی آس امید پر کلیسیا بین المذاہب مکالمہ پر شدّ و مد سے زور دیتی چلی آ رہی ہے۔ یہ تو پیار دو، پیار سمیٹو والی تحریک ہے جسے ہم سب تعاون پر آمادہ ہو کر پروان چڑھا سکتے ہیں۔ بس کھُلے دِل، کُھلے ذہن اور صلح جُویانہ ماحول قائم رکھنے کی ضرورت ہے۔ خالص، کھری، مستند اور بناوٹ، تعصب اور تصنع سے پاک، جوق در جوق شرکت اور حوصلہ مندی اور حوصلہ افزائی مکالمہ کی سودمندی کی ضامن ہیں۔

مطالعہء مزید کے لیے دیکھیے(Francis Arinze, Meeting Other Believers (1998), P. 10.)

مکالمہ کے دوران اپنی بات تو سبھی کہتے ہیں مگر دوسروں کی بات بغور سننا انتہائی اہم اور نفع رساں خوبی ہے۔ سچی بات ہے کہ یہ وصف تو ہے مگر ہے بڑا مشکل سا وصف، سپیکر بولے جا رہا ہوتا ہے اور ہمارے خیالوں کے راہوار کہیں اور دوڑ رہے ہوتے ہیں۔ خیر یہ تو ایک جملہء معترضہ تھا جو بیچ میں آگیا،بات ہم یہ کر رہے تھے، سیدھی سی بات، کہ مَیں توجہ سے کِسی کے فرمائے کو تبھی سُن سکتا ہوں جب میرے ذہن میں سامنے بات کرنے والے کی اہمیت و قدر ہو، میرے دِل میں اس کے مذہب اور پختہ عقیدہ کا احترام جاگزیں ہو، میں اس کے طریقِ عبادت اور لائف سٹائل کا پاس کروں اور میرے اندر یہ خواہش موجود ہو کہ مَیں اپنی سنانے تو آیا ہوں لیکن اس کی باتیں بھی سننے اور سمجھنے کی خاطر یہاں موجود ہوں، اس کے ہر کہے پرجان و دِل سے غور کرنا مجھ پر لازم ہے اور مجھے پتا چل جائے کہ واقعی اس کی گفتگو میں وزن ہے، اس کی باتیں باور کرنے لائق ہیں، انھیں سننے سمجھنے میں میرا وقت ضائع نہیں ہور ہا، میں کچھ حاصل ہی کر رہا ہوں۔ مجھے اعتماد کی فضا قائم ہوتی محسوس ہونے لگے گی۔ کِسی کی باتوں پر کان دھرنا ہی بہترین اسلوبِ استفادہ ہے۔ سپیکر کو بھی حوصلہ ملتا ہے کہ جو کہہ رہا ہوں سنا جا رہا ہے، جب کوئی دوسرابولے گا تو وہ بھی گوش برآواز ہو گا۔ یوں افہام و تفہیم کا ماحول تخلیق پائے گا۔ اگر کوئی بات سر پر سے گذر گئی تو اسے مکرر سمجھنے کے لیے مقرر سے سوال پوچھنے میں بھی مزہ آئے گا۔ میگزین، اخباروں کے سنڈے ایڈیشن، خصوصی اشاعتیں، کتابیں ایسے مواد سے بھری پڑی ہیں، کلیسیا، حکومتوں، این جی اوز، انجمنوں، سوسائٹیوں نے مکالمہء بین المذاہب پر بڑا کام کِیا ہے، صفحات بھرے پڑے ہیں مگر دو بدو مکالمہ کرنے اور سننے میں مزہ ہی کچھ اور ہے، مکالمہ میں ایک دوسرے کی بات سُننا تو ٹھیک ہے مگر ایک دوسرے کو سمجھنے میں بھی بڑی مدد ملتی ہے۔ چھپا ہوا مواد نہیں، سامنے ایک زندہ شخص یا خاتون ہم سے مخاطب نظر آتے ہیں، ہم سوال جواب سے ایک دوسرے کو مطمئن کرتے ہیں، ہمیں پہلے جو باتیں نامعلوم تھیں، اب معلوم ہوتی ہیں، مساوات، بھائی چارے اور وسیع القلبی کی روح پرور ساعتوں سے گذر رہے ہوتے ہیں ہم، ایک دوسرے کو اور ایک دوسرے کے مذہب کو جاننے کی گھڑی میسر ہوتی ہے۔ مکالمہ بین المذاہب کے طفیل ہم میں تحمل، برداشت، رواداری، حلیمی، محبت، حسنِ اخلاق اور مِل جُل کر رہنے کے جذبات کو پروان چڑھانے کا حوصلہ نمو پاتا ہے، ذہن صیقل ہوتے ہیں اور ان میں موجود گند، تعصب، نفرت کے رنگ سب اُتر جاتے ہیں۔ انسان کو ہم مذہب، فرقوں اور قومیتوں میں تقسیم کرنے کے بجاے، اسے صرف انسان کی نظر سے دیکھتے ہیں جو اشرف مخلوق ہے، انسانیت کا احترام کرنے لگتے ہیں اور اسی لیے ہی تو خُدا جلال و تقدیس والے نے ہمیں زمین پر بسایا ہے۔

اساقفہ کونسل براے بین المذاہب مکالمہ(Pontifical Council for Interreligious Dialogue)کی ایک اہم دستاویز ہے جس میں مندرجہ ذیل قسم کے مکالموں کی سطح اور طریقِ کار کے امتیازات کا جائزہ لیا گیا ہے:

٭    مکالمہء حیات

٭    مکالمہء عمل

٭    مذہبی اصولوں پر تبادلہء خیال

٭    روحانی تجربات پر مشتمل تجزیات پر گفتگو

بے شک، مکالمہء بین المذاہب کی تقریب منعقد کرنا، ہے تو کلیسیا کا مرتب کردہ مشن ہی مگر اس میں بائبل مقد س کی منادی یا خُدائی احکامات کی بجاآوری کی تبلیغ و تشہیر پر کلیسیا کو کھلی آزادی حاصل نہیں۔ غیر مسیحی مذاہب کے ساتھ محبت آمیز ادب و احترام کا رویہ اپنانا، انھیں تکریم دینا بھی شرط ہے اس ابلاغ کے لیے جس کی شروعات کی اساس اعتماد، خلوص اور ایک دوسرے پر بھروسے پر ہے کہ ایسی کوئی بات نہ کی جائے گی جس سے شکررنجی پیدا ہونے کا احتمال اُبھرے۔ موافقِ دستور جب سیکنڈ ویٹی کن کونسل کا اعلامیہ پیش کِیا گیا تو اس میں یقین دِلایا گیا کہ دوسرے مذاہب کی طرف سے بتایا گیا جو سچ ہو گا اور اس مذہب میں تقدس کا درجہ دیے گئے جو اُمور ہیں اُنھیں رد کرنے کے بجاے ان کا پورا احترام کِیا جائے گا۔ چناں چہ کلیسیا کی طرف سے واضح اشارے دیے گئے کہ مکالمہء بین المذاہب کے ضمن میں کلیسیا نہ صرف شفاف ذہن، کشادگی اور صاف گوئی کے اپنے معیار کو سامنے رکھے گی بل کہ اس موقع پر دوسروں کے افضل و اشرف خیالات اور ارفع و اعلیٰ مشاہدات و تجربات سے خود بھی کچھ اخذ کرنے کو اپنا شعار بنائے گی کہ یہی وہ مشترکہ اساس ہے جس پر مکالمہ کی بلند و بالا عمارت تعمیر کی جا سکتی ہے۔ اس فلک بوس عمارتِ مکالمہء بین المذاہب کو الٰہیات یعنی علمِ دین پر غور و فکر، سوچ بچار اور مذہب پر براہِ راست بات کرنے پر فوقیت حاصل ہے۔ لمحاتِ مکالمہ و مشنِ مسیحی ناگزیر ہیں، یہ موقع محل ناقابلِ اجتناب ہے، اس کا فائدہ اُٹھانا عقلِ سلیم کے عین مطابق ہے۔ مکالمہ و مشن مقصد میں، نصب العین میں ایک دوسرے سے مربوط ہیں اور کلیسیا کے عناصرِ مشن کو باہمی طور افادیت کے سانچے میں ڈھالنے والے ہیں۔


Contact us

J. Prof. Dr. T. Specker,
Prof. Dr. Christian W. Troll,

Kolleg Sankt Georgen
Offenbacher Landstr. 224
D-60599 Frankfurt
Mail: fragen[ät]antwortenanmuslime.com

More about the authors?