German
English
Turkish
French
Italian
Spanish
Russian
Indonesian
Urdu
Arabic
Persian

:سوال نمبر149

۔اگر کوئی شخص کِسی پر حملہ کر دے (حملہ آور کوئی قاتل بھی ہو سکتا ہے، ڈاکووغیرہ بھی) اور جس پر حملہ ہوا اس شخص کے ہاتھوں غیر ارادی طو رپر) حملہ آور مارا جائے تو مارنے والا گنہگار ہوا کیا؟ شریعتِ مسیحی کیا کہتی ہے؟

 

جواب:۔خواہ مخواہ کِسی کو مار دیا جانا جو اس ذیل میں آتا ہو جسے قتلِ عمد کہا جاتا ہے، اس کی تو سختی سے ممانعت کی گئی ہے۔ کِسی معصوم بے گناہ بے تقصیر کو کیوں قتل کِیا جائے، کِسی بھی معاشرت، شخص یا اشخاص کو دفاعی اقدام کے جواز یا بہانے سے بھی دوسرے انسان کو جان سے مار دینے کا استثنا حاصل نہیں۔ معاملے کی چھان بین کرنا پڑتی ہے، حفاظتِ خود اختیاری میں اس حد تک جانے کی مجبوری کو پرکھنا پڑتا ہے۔ سچ جھوٹ کا نتارا کرنا پڑتا ہے۔ صورتِ حالات کی تہہ میں اُتر کر اصل وجوہاتِ قتل معلومات کرنا پڑتی ہیں تب قانون حرکت میں آتا ہے، انصاف کے تقاضے پورے کیے جاتے ہیں۔ حفاظتِ ذات کے عمل میں دو اثرات سامنے آتے ہیں۔ (1) اپنی زندگی کا بچاو (2)حملہ آور کا قتل واقع ہونا۔ پہلا مقصود و مطلوب زمرے میں آتا ہے، دوسر انہیں۔

(Thomas A., s. th. 2-2,64,7). [CCC 2263]

اپنی ذات سے ہمدردی، اپنی زندگی سے پیار اخلاقیات کا ضروری اور بنیادی اصول ہے۔ زندہ رہنا انسان کا حق اور اگر اس حقِّ زندگی کے احترام پر اصرار کِیا جائے تو اسے قانونی جواز حاصل ہے۔ اگرکوئی شخص اپنی پیاری زندگی کا دفاع کرتے ہوئے کچھ کر بیٹھتا ہے تو وہ قتل کا ملزم قرار نہیں پاتا، چاہے وہ اپنے جینے کے حق کا دفاع کرتے ہوئے جارح پر ایسی مہلک ضرب لگانے کا مجبوری میں ارتکاب کر بیٹھے جو جان لیوا ثابت ہو سکتی ہو۔۔۔۔۔۔

البتہ، یہ امر پیشِ نظر رہے کہ حفاظتِ خود اختیاری میں ایک حد ہے جس سے تجاوز کِیا جائے، جب کہ اس سے بچا جا سکتا ہو، تو وہ قانون کی پکڑ میں آنے والی بات ہے۔شریعت بھی اس کی اجازت نہیں دیتی۔ اگر اپنے خلاف جارحیت کا جواب کوئی شخص اعتدال سے دیتا ہے تو اس کے دفاع کا عمل جائز قرار پائے گا، زیادتی جُرم کہلائے گی۔ او ریہ بھی کہ حفاظتِ ذات کے ضمن میں یہ غیر ضروری سا عمل ہے کہ آپ مناسب حد تک دفاع کرنے کے چکر میں اپنی زندگی کے رِسک پر دوسرے کی زندگی بچانے کے در پے ہو جائیں، یہ اپنا قاتل آپ ہونے والی حماقت ہو گی جس پر پچھتایا بھی نہیں جا سکتا۔ سب کچھ تو ''مُک'' گیا۔ اگلا قتل پر آمادہ ہے اور دوسرا فریق اپنے بچاو میں اعتدال کی راہیں ڈھونڈنے لگ پڑے اتنے میں تو خنجر ا س کے دِل میں اُترچکا ہو گا یا خود کار ہتھیار شعلہ اُگل چکا ہو گا اور نیک خواہشات کے ساتھ اس کی روح بھی قفسِ عنصری سے پرواز کر رہی ہو گی۔ اپنا بچاو ہر قیمت پر ضروری ہے۔ نہیں مارو گے تو خو دمرو گے، مارنے والا بچ جائے گا۔

(Thomas A., s. th. 2-2,64.7) [CCC 2264]

قانونی حدود میں رہتے ہوئے تحفظِ ذات نہ صرف یہ کہ زندہ انسانوں کا حق ہے، یہ ایک فرضِ اوّلین بھی ہے اور ایسے لوگوں کی سنجیدہ ذمہ داری بنتی ہے جو دوسروں کی زندگی کو بھی اتنی ہی اہمیت دیتے ہوں۔ دنیا میں اچھائیوں، بھلائیوں اور نیکیوں کو انحطاط سے محفوظ رکھنے کے لیے انھیں تباہ و برباد کرنے پر تُلے ہاتھوں کو نہ صرف وہیں روک دینا بل کہ انھیں ناکارہ بنا دینا بھی ایک اخلاقی و معاشرتی ذمہ داری نبھانے والا فعلِ احسن ہے۔ اپنی سماج کی ہمیں آپ اصلاح کرنا ہو گی فرداً فرداً بھی اور جامع صورت بھی۔ ہماری سماج ہی ہماری پہچان ہے اور ہمارے سوچ، ہمارے فکر اور ہمارے تدبر کی ترجمان اس سطح پر ہمارے مقتدرین و قانونی و آئینی اختیارات رکھنے والے ادارے اپنا کردار اد اکریں، طاقت کا طاقت سے سامنا کریں اور جارحیت، غنڈہ گردی، انتہا پسندی، دہشت گردی، معصوموں کے قاتلوں کی عبادتگاہوں، مزاروں، مقبروں، ہسپتالوں اور درسگاہوں کو زمین بوس کرنے والوں کو کیفرِکِردار تک پہنچائیں۔ وقت ہے اپنی ذمہ داری نبھائیں۔ دیر ہو گئی تو زخموں سے چُور چُور امن کی فاختہ کہیں دم ہی نہ توڑ دے۔ 

(استفادہ CCC 2265)

انسان کے حقوق کو نقصان پہنچانے والے لچھنوں اور رویوں کو کینڈے میں رکھنے، شریعت کی نئی نئی تعبیریں دینے والوں، قانون کی اپنی تشریحیں سامنے لانے والوں، آئین کے منکرین اور جمہوریت کے بیریوںکو ریاست ایک آخری موقع اصلاح و مصالحت کا دے، پھر بھی راہِ راست پر نہ آئیں تو ان پر عرصہء حیات تنگ کر دینے کا اپنا حق استعمال کرے۔ یہی وقت ہے جسے ان باغیوں، فوج، سول اداروں کے ملازموں اور عوام الناس کے قاتلوں پر آزمانے میں مزید تاخیر کر دی گئی تو مستقبل کا مؤرخ، اگر کوئی زندہ بچ گیا اور ہم میں سے بھی جو کوئی باقی بچا تو اسے پوری انسانیت کے قتل کے مجرموں کے کٹہرے میں لا کھڑا کر ے گا، تاریخ گواہ ہو گی کہ ہم سے مجرمانہ غفلت سرزد ہوئی تھی۔ 

CCC 2265))

ورنہ روزِ محشر خُداے عادل کی عدالت تو ہے ہی۔

پُرامن بقاے باہمی کی بھاری ذمہ داری حکومتوں کے توانا، کبھی نہ شل ہونے والے کندھوں پر دھری ہوتی ہے۔ انسان کے بنیادی حقوق فراہم کرنے کی گٹھڑی بھی اس کے سر کا بوجھ ہوتی ہے جو ادائی سے ہلکی ہوتی ہے۔ فرد کی اچھائی، نیکی، فضیلت، اس کے مفادات، خواہشوں اور مرادوں کی نگرانی کرنے اور ان کے حصول میں آسانیاں فراہم کرنے کی مساعی بھی ریاست کے جملہ فرائض میں سے ایک فرضِ منصبی ہے۔ فلاحِ عام کی فکر ہی اسے فلاحی ریاست ہونے کے قریب تر کرتی ہے۔ باضابطہ سرکاری اتھارٹی کو یہ اختیار حاصل ہے او ریہ اس کا کارِ خاص بھی ہے کہ جرم کا وزن، اس کی وضع اور اہمیت کو مدِّ نظر رکھتے ہوئے متناسب اور بالادستوں و تہی دستوں کے ساتھ مساویانہ سلوک کرتے ہوئے مجرم پر سزا عائد کرے۔ اور پیشِ نظر یہ فارمولا ہو کہ سزا سے مقصود آزار میں مبتلا کرنے والوں، جرم کا سزاوار ہونے اور غلط کاریوں کا مرتکب ہونے والوں کی اصلاح ہو، تلافیِ مافات ہو، بدنظمی، انتشار، بد امنی، پراگندگی و ابتری کی بیخ کنی ہو۔ جرم و سزا پر اگر مجرم نادم اور پشیمان ہو، توبہ و تلافی پر آمادہ ہو، ہرجانہ و کفارہ ادا کرنے پر رضاکارانہ طور آمادہ ہو تو ریاست قانون کی طرف سے دی گئی گنجایش کے مطابق اس سے انصاف کے ساتھ ساتھ احسان سے بھی پیش آنے پر قادر ہے۔ امنِ عامہ کے قیام، نظم و ضبط کے استحکام اور عوام کے تحفظ کو یقینی بناتے ہوئے اچھا ہو سزا کو سزا نہیں بل کہ دوا کے طور پر کارگر بنایا جائے اگر ملزم یا مجرم قابلِ علاج نظر آتا ہو تو مجرم کو ہم نے جرم کا رسیا نہیں بنانا، مقصد اس کی اصلاح اور معاشرے کی فلاح و بہبود ہے۔(CCC 2266)

جب لوگوں کی زندگی کے دفاع کے لیے ، مفادِ عامہ میں، فقط یہی ممکنہ حل قابلِ عمل ہو کہ مجرم کو سزاے موت سنانا پڑ جائے، تو انسانیت کی بقا و بہتری کے پیشِ نظر کلیسیا کی روایتی تعلیمات تسلّی طلبی کے عمل، تحقیق و تفتیش، مجرم کو قتل کا ذمہ دار ٹھہرانے کے تیقن، اس کی شناخت، جرم کے ذمہ دارانہ اقبال اور عدالت کے مبنی بر انصاف فیصلے پر اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے خامشی سے اس پر صاد کر دیتی ہےں۔ گو پھانسی کے بجاے عمر قید کو فوقیت کلیسیا کی نگاہ میں افضلیت اختیار کرنے لگی ہے۔ (CCC 2267)


Contact us

J. Prof. Dr. T. Specker,
Prof. Dr. Christian W. Troll,

Kolleg Sankt Georgen
Offenbacher Landstr. 224
D-60599 Frankfurt
Mail: fragen[ät]antwortenanmuslime.com

More about the authors?