:سوال نمبر166
دین و مذہب اور ریاست و سیاست جدا جدا ہوں تو بہتر ہے، مسیحیت کا اس بارے میں کیا فیصلہ ہے؟ میری مراد سیکولر ازم سے ہے، اس پر تبصرہ فرمائیے!
جواب:
۔جرمنی کی مثال دی جا سکتی ہے کہ وہاں جب بھی کِسی اجلاس میں مسلمان اور مسیحی اکٹھے ہوتے ہیں، ان کے یوں ایک چھت تلے مل بیٹھنے کے لیے ان کا مختلف المذاہب ہونا ہی بہت سے اسباب میں سے ایک سبب ہے جس کی بنا پر وہ میٹنگ طے پاتی ہے، اُسے ملاقات کی ایک سبیل کہہ سکتے ہیں ہم۔پتا نہیں ان کے دھیان میں ہے یا نہیں کہ اس اکٹھ کا سب سے بڑا امکان اور اس کی تحصیل کا آسان ہونا مرہونِ منت ہے وہاں کی آئینی حکومت کا، جو مذہب کو اپنے دستوری نظام کے تحت ایک الگ تھلگ معاملہ سمجھتی ہے۔ مطلب یہ کہ وہ ہے ہی ایسی سوسائٹی جو مذہبی یا کِسی مقدس حوالے سے نہیں، کلیسیائی قوانین سے ہٹ کر، اپنی ساخت میں خود مضبوط ہے۔ اور اس اصول پر قائم ہے کہ عام تعلیم، سیاست اور مدنی ماند بود کے معاملات میں مذہبی عنصر کو دخیل نہیں ہونے دینا۔ جب کہ جرمنی مخصوص زمان و مکان اور قوم کے مغربی تمدن و تہذیب کا ہی ایک حصہ ہے جو مسیحیت اور اس کی جڑ یہودیت سے تشکیل پایا، جرمنی میں صدیوں سے مسلمانوں کو خیرسگالی کے دوستانہ جذبات کے ساتھ بطور مہمان خوش آمدید کہا جاتا رہا۔ جرمنی میں بل کہ یورپی یونیئن میں دِینی نہیں، دنیوی اصولوں کا ایک ہی سِکہ ہے جو ہرجگہ پر چلتا ہے۔ جرمنی کی ریاست اور معاشرت اس بات کو یقینی اور اطمینان بخش بناتی ہیں کہ وہاں مسیحیوں اور مسلمانوں کا میل جول آزادی اور برابری کی سطح پر رواج پائے۔ وہاں مسلمانوں کو بس چند قانونی حقوق دے کر ٹرخا دینے والی سٹوری ہی نہیں اور نہ ہی یہ سین کہ مسیحیوں کے مقابلے میں نچلے درجے کے جائز جائز حقوق دے کر انھیں صابر شاکر رہنے کا درس دیا جاتا ہو۔ بہ الفاظِ دیگر، کِسی بھی فرد کی قانونی حیثیت کا فیصلہ کرنے کے ذیل میں مذہب نہیں بل کہ قانون یا اس کے نفاذ سے مربوط حقوق کا ایک نظام ہوتا ہے جس کی اساس اس نظریہ پر قائم ہوتی ہے کہ ریاست کا کوئی مذہب نہیں ہوتا چناں چہ ریاست اور مذہب کے مابین علیحدگی ضروری ہے۔ لادینی مگر یوں کہ دینی حوالوں و اثرات سے ہٹ کے، مذہبی یا روحانی معاملات سے الگ کر کے بنایا گیا قانون کا مقرر کردہ، قائم کردہ، اختیار دادہ جو نظام ہوتا ہے وہ مختلف مذاہب رکھنے والے اپنے شہریوں کو قانونی مساوات سے مامون کرنا یقینی بناتا ہے، ظاہر ہے قرونِ وسطیٰ کے مسیحی ریگولیشن تو بالکل ہی اس کے برعکس تھے۔اسلامی دنیا کے کئی ممالک بھی عصرِ موجود میں سیکولر نظام کی مغایرت میں پیش پیش ہیں۔ آج بھی یہودیوں اور مسیحیوں کو ثانوی درجہ کے شہریوں میں شمار کِیا جاتا ہے، یعنی تحفظ کے محتاج ذمی لوگ۔
ماڈرن مغربی آئین و دستور اور جرمنی کے بنیادی نظام کے اصل اصول اور قاعدے مذہبی آزادی کو مرکزی اہمیت دیتے ہیں اور اسی پر ہی کیتھولک مسیحیوں کے مضبوط عقیدے کی اساس قائم ہے۔ سیکنڈ ویٹی کن کونسل اور خصوصی طور پر اعلانِ مذہبی آزادی ((Dignitatis Humanae 1965عیسوی میں کیتھولک کلیسیا نے مذہبی آزادی کو اصولِ اعزازِ انسانی کے ثمرہ انسانی حقوق کے تحت قبول کر لیا۔ ایک بات پکی ہے اور یہ قابلِ فہم بھی ہے اور فہم رسا تک مکمل طور پر اس کا ابلاغ ہو جائے تو دیکھیے نا کتنا ضروری ہے کہ ترجیحی اہمیت دیتے ہوئے مسیحیوں کے اس مطالبے کو مان لیا جائے کہ مسیحیوں کو بھی مسلم ممالک میں اسی درجہ کی مذہبی آزادی ملنا چاہیے جیسی مسلمانوں کو ہمارے ملکوں میں نصیب ہے۔ دوسرے لفظوں میں، یہ ہمارے آئین کے تو بالکل ہی برعکس ہو گا اور اس کے بھی الٹ جو ہمارے نیک خیالات، افعال اور کوششیں مذہبی آزادی دینے پر جمے رہنے کے لیے جاری و ساری رہتی ہیں اور خداوند کی منشا کے عین مطابق ہم مسیحی من حیث القوم کامیاب بھی ہیں، مذہبی آزادی کو ہم مسیحی ترجیحی طور پر اہمیت دیتے بھی ہیں مگر… اگر فرض کیجیے یہی جرمنی اس لیے ان حقوق کو محدود کر دے یا روک دے جو یہاں مسلمانوں کو اپنے مذہب، آداب، عبادات اور رسوم کی ادائی کے لیے حاصل ہیں لیکن دنیا کے کئی خطوں اور خاص طور پر اسلامی دنیا میں ان حقوقِ مذہبی آزادی کو سب کے لیے عام کرنے پر اس نئی صدی میں بھی پس و پیش سے کام لیا جا رہا ہے، تو کِس قدر گمبھیر صورتِ حالات پیدا ہو جائے گی؟یہ کیا کہ خود تو اس آزادی سے یہاں آ کر، بس کر، مستفید ہوں، مگر اپنے ملکوں میں اس حقِّ انسانیت کی فراہمی سے ہم سب مسیحیوں اور دیگر مذاہب کے پیروکاروں کو محروم رکھیں!
آپ ہی اپنی ادائوں پہ ذرا غور کریں
ہم اگر عرض کریں گے تو شکایت ہو گی
جرمن معاشرہ کچھ اس نوعیت کا ہے کہ وہاں مختلف لسانی، معاشرتی، ثقافتی اور مذہبی مفادات کے لوگ موجود ہیں اور آپس میں مل کر، آزادی سے، مجموعی ترقی کر رہے ہیں۔ مذہبی آزادی کا بنیادی حق ان سب کی دسترس میں ہے وہ جو کِسی بھی مذہب سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کی بھی جو سرے سے لادِین ہیں۔ مذہبی آزادی کے غلط استعمال کو روکنے کے لیے بھی سوسائٹی اقدامات عمل میں لاتی رہتی ہے اور ملکی قانون اور ادارے بھرپور معاونت کرتے ہیں۔ مسلمان او رمسیحی یہ ادراک رکھتے ہیں کہ انھیں مل بیٹھ کر مکالمہ کرنا چاہیے تا کہ ایک دوسرے کے مذہب کی بہتر تفہیم ہو سکے۔ ایسی بھی باتیں سامنے آتی ہیں جن پر بنیادی اختلافات کو ہَوَا ملتی ہے، انھیں دبا نہیں دیا جاتا بل کہ ان پر بات چیت جاری رہتی ہے اور درمیان کے راستے نکالنے کی سعی کی جاتی ہے۔ سب سے زیادہ اطمینان بخش کڑی ہوتی ہے، برداشت۔ کچھ حدود مقرر کر دی جاتی ہیں عبور نہ ہی ہوں تو اچھا ہے۔جو لوگ لا دِین ہوتے ہیں، ان کے لائف سٹائل میں، ان کے ذاتی کردار میں جو اچھی باتیں ہیں ان کی تحسین کی جاتی ہے، ضروری تو نہیں کہ متصادم نظریات کو چھیڑا جائے۔ امن سے رہو، جہاں بھی رہو، خوش رہو۔ برداشت کے مادے کو تقویت ملنی چاہیے۔ رواداری،بھائی چارہ، مساوات خود ہی پیدا ہو جائے گی۔ ایسے اصولوں پر جب عمل کِیا جائے تو نزاعی صورت کیسے پیدا ہو سکتی ہے۔ اس لیے مکالمہ رواج پا رہا ہے اور اس کے مثبت اثرات سامنے آنے لگے تو فرداً فرداً سبھی لوگ دِلچسپی لے رہے ہیں۔ اس یگانگت میں سرحدیں بھی حائل نہیں رہیں۔
تاریخی اعتبار سے، دورِ جدید کی خصوصیات کا حامل ہمارے مغربی جدید آئین جن کی جڑیں اپنی اقدار میں پیوست ہیں وہ اس کے باوجود مذہب کے معاملے میں قطعی غیر جانبدار ہیں کیوں کہ مذہبی جنگوں کے زمانہ والے سبق آموز نتائج اُن کے لیے نشانِ راہ ثابت ہوئے اور اُن کا اِن میں پورا پورا فائدہ اُٹھایا گیا۔ سیاستدانوں اور مذہبی مقدسین نے ماضی کی غلطیاں نہ دہرانے کی ٹھان لی۔ریاست نے بھی جان لیا کہ مذہبی عقائد ریاستی جبر و قوت اور جارحانہ حکمتِ عملی کے ذریعے نہیں ٹھونسے جا سکتے۔ مذہبی جنگوں میں متحارب فریق دونوں ہی مسیحی تھے جن کے عقیدوں میں فرق تھا۔ مسیحی مسیحیوں کے خلاف نبرد آزما تھے، گویا یہ فرقہ وارانہ جنگیں تھیں جن میں مسیحی مارے گئے اور مسیحی ہی فاتح رہے۔ پھر ایک طویل عرصہ تک ایک طرح سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ ریاستی ڈھانچا سیکولر بنیادوں پر نئے سرے سے کھڑا کر دیا گیا اور اپنی پہچان میں مسیحی ہی رہا، بین الکلیسیائی اتحاد نے اسے مضبوطی سے ہمکنار کیے رکھا۔ اس لیے آج بھی اپنی مسیحی روایات و اقدار کا امین ہے۔ جہاں تک مسلم سوادِ اعظم کے ساتھ تعلقات کی بات ہے تو وہاں مسیحی بھائیوں کو مسلمانوں سے بہتر تعلقات قائم رکھنے کے باوجود خبردار اور محتاط رہنے کی ضرورت ہے کیوں کہ یہ جو ماڈرن سیکولر نظام ہے، ہماری طرف سے تو یہ ہے کہ ہم سمجھتے ہیں کہ اس نظام کی ضمانت پر ہم دونوں قومیں مسلمان اور مسیحی امن، سکون، محبت اور ایک دوسرے کا، اور ایک دوسرے کے مذہب کا احترام کرتے ہوئے اکٹھے رہ سکتے ہیں۔ ایک دوسرے کے دُکھ درد میں شریک رہ سکتے ہیں، غم بانٹ سکتے ہیں، خوشیاں تقسیم کر سکتے ہیں اور مصیبت میں ایک دوسرے کے کام آ سکتے ہیں مگر اسلامی دنیا میں اس سیکولر سوچ کو مسیحی سوچ اور فکر سمجھا جاتا ہے، البتہ ایسے بھی مسلم عوام اور مقتدرینِ مملکت ہیں جن کا سوچ وہی ہے جو ہم مسیحیوں کا ہے ، وہ اسے قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور اپنے قدیمی رویوں میں اصلاح لا رہے ہیں مگر ایسی ریاستیں امارتیں خال خال ہی ہیں ورنہ ’جنہوں بھنّو وچوں لال‘‘والی صداقت عام ہے۔ ان کی اکثریت ہمیں خدا کے منکرین میں شمار کرتی ہیں۔
سیکولیریٹی نہ مسیحیت کی حمایت کرتی ہے نہ کِسی بھی مذہب کی مخالفت۔ نہ ہی سیکولر حکومت بے دِین حکومت ہوتی ہے۔ ہم بھی ایک ہی خدا کے ماننے والے ہیں، تثلیث میں بھی وحدانیت کے قائل ہیں۔ اپنی معاشرت، اپنی ریاست کے ساتھ اپنی ذمہ داریوں کا ادراک رکھتے ہوئے، مسلمانوں کے ساتھ اپنے تعلقات روز بہ روز بہتر کرنے کی خواہش کے ساتھ مسیحیوں کو ابھی بہت کام کرنا ہو گا اور مسلم سماج کو سمجھانا اور راہ پر لانا ہو گااور اُنھیں یقین کر لینے پر آمادہ کرنا ہو گا کہ سیکولیریٹی کفر نہیں، بل کہ کفر و ایمان سے اس کا کوئی تعلق ہی نہیں۔ یہ ایک جدا فلسفہ ہے، ماڈرن نظریہ ہے، جدید نظامِ حکومت ہے۔ اکثر دوسرے نظام ہر طرح کی آزادی دینے کا اعلان کرتے ہیں، مذہبی نہیں۔ لا دینی ریاستیں بھی دوسروں کو مذہبی آزادی نہیں دیتیں۔ سیکولر نظامِ حکومت مذہب کو نجی معاملہ سمجھتا ہے۔ اس لیے مسلم دوستوں کو ہمیں شک کے عدسوں والی عینک میں سے گھورنے کی ضرورت نہیں، بیکار وقت ضائع ہو گا اور انرجی بھی۔ ہمارے خلوص کا جواب خلوص سے ہی ملنا چاہیے۔مسلمانوں کا اپنا تصورِ مذہبی آزادی سیکولیریٹی کے کتنا قریب ہے، سیکولیریٹی کی ہی جیتی جاگتی صورت ہے۔ امن کا مذہب اسلام سب میں امن کا ہی تو پرچار کرتا ہے۔ اپنی اعلیٰ اقدار پر مشتمل آئینی حکومت جو مذہب کے معاملے میں اپنی غیر جانبداری ملحوظِ خاطر رکھے وہاں شہری اس کی قومیت اختیار کر چکنے کے بعد بھی اپنی الگ شناخت نہیں گنواتے۔ دوسرے مذاہب میں بھی اپنی مذہبی اقدار و روایات کے طفیل الگ سے پہچانے جاتے ہیں۔ اگر ا س موقع پر آپ حجاب کا حوالہ دینے سے نہ چُوک سکنے کے موڈ میں ہوں تو عرض یہ ہے کہ اس پر پابندی کے قوانین کِسی مذہبی حوالے سے نہیں،سکیورٹی کے اقدامات سے ان کا تعلق ہے۔
یہ تحریک کہ مذہبی آزادی پر ہر ایک کا حق ہے، تاہم یہ نجی معاملہ ہے، ریاستی نہیں، اس کی شُدبُد مسیحیوں میں پیدا تو ہو گئی، مگر آسانی سے نہیں، دو صدیاں ہیں اس کے پیچھے۔ حال آں کہ مقدس خداوند یسوع مسیح کا فرمایا ہوا بھی موجود تھا، مگر عمل اب آ کے ہوا۔
"give to Caesar that which belongs to Caesar, and to God, that which belongs to God"
یسوع نے اُن سے کہا: جو قیصر کا ہے قیصر کو اور جو خدا کا ہے خدا کو ادا کرو…
مقدس مرقس…17:12
ہم مسیحیوں کے لیے خداوند یسوع پاک جیتی جاگتی مثال ہے۔ مذہب کی شناخت نظامِ حکومت سے قطعی طور رالگ ہے۔ مگر مسلمانوں کا سیاسی فکر آج بھی
جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی
کے حصار میں قید ہے۔ مذہب، ریاست اور شریعت کو الگ الگ دیکھنے سے کترانا ان کا معمول ہے۔ مسیحیوں کوبھی سیکولرائزیشن کو عمل میں لانے کا تجربہ قدرے منہگا بھی پڑا ہے لیکن اس کے نتیجے کے طور پر جب یہ یوں ہو گیا کہ کلیسیا کی جان امورِ سیاسیات سے چھوٹ گئی تو اس کی عام ایجاب پذیری نے پچھلے سارے دلدر دھو ڈالے۔
مسیحی اقوام جس تجربے سے گذر کر یہاں تک پہنچیں ان کی مثال سے کیا مسلمان بھی یہ درک حاصل کر پائیں گے کہ بھیگی بلی دیکھ کے نتیجہ اخذ کر لیں باہر بارش نے ہر طرف سماں باندھ دیا ہے اور سیکولر نظامِ ریاست کا صاف شفاف پانی چھاجوں برس رہا ہے اور سب پر برابر برس رہا ہے اور خلقت اس کے مزے لے رہی ہے۔ ان میں ہنود بھی ہیں یہود بھی، مسلم، بدھ، سکھ، مسیحی اور کِسی بھی مذہب سے کوئی تعلق واسطہ نہ رکھنے والے سبھی مل جل بل کہ گھل مل کے بارش کے قطرے قطرے سے مستفیض ہو رہے ہیں؟
:سوال نمبر166
دین و مذہب اور ریاست و سیاست جدا جدا ہوں تو بہتر ہے، مسیحیت کا اس بارے میں کیا فیصلہ ہے؟ میری مراد سیکولر ازم سے ہے، اس پر تبصرہ فرمائیے!
جواب:
۔جرمنی کی مثال دی جا سکتی ہے کہ وہاں جب بھی کِسی اجلاس میں مسلمان اور مسیحی اکٹھے ہوتے ہیں، ان کے یوں ایک چھت تلے مل بیٹھنے کے لیے ان کا مختلف المذاہب ہونا ہی بہت سے اسباب میں سے ایک سبب ہے جس کی بنا پر وہ میٹنگ طے پاتی ہے، اُسے ملاقات کی ایک سبیل کہہ سکتے ہیں ہم۔پتا نہیں ان کے دھیان میں ہے یا نہیں کہ اس اکٹھ کا سب سے بڑا امکان اور اس کی تحصیل کا آسان ہونا مرہونِ منت ہے وہاں کی آئینی حکومت کا، جو مذہب کو اپنے دستوری نظام کے تحت ایک الگ تھلگ معاملہ سمجھتی ہے۔ مطلب یہ کہ وہ ہے ہی ایسی سوسائٹی جو مذہبی یا کِسی مقدس حوالے سے نہیں، کلیسیائی قوانین سے ہٹ کر، اپنی ساخت میں خود مضبوط ہے۔ اور اس اصول پر قائم ہے کہ عام تعلیم، سیاست اور مدنی ماند بود کے معاملات میں مذہبی عنصر کو دخیل نہیں ہونے دینا۔ جب کہ جرمنی مخصوص زمان و مکان اور قوم کے مغربی تمدن و تہذیب کا ہی ایک حصہ ہے جو مسیحیت اور اس کی جڑ یہودیت سے تشکیل پایا، جرمنی میں صدیوں سے مسلمانوں کو خیرسگالی کے دوستانہ جذبات کے ساتھ بطور مہمان خوش آمدید کہا جاتا رہا۔ جرمنی میں بل کہ یورپی یونیئن میں دِینی نہیں، دنیوی اصولوں کا ایک ہی سِکہ ہے جو ہرجگہ پر چلتا ہے۔ جرمنی کی ریاست اور معاشرت اس بات کو یقینی اور اطمینان بخش بناتی ہیں کہ وہاں مسیحیوں اور مسلمانوں کا میل جول آزادی اور برابری کی سطح پر رواج پائے۔ وہاں مسلمانوں کو بس چند قانونی حقوق دے کر ٹرخا دینے والی سٹوری ہی نہیں اور نہ ہی یہ سین کہ مسیحیوں کے مقابلے میں نچلے درجے کے جائز جائز حقوق دے کر انھیں صابر شاکر رہنے کا درس دیا جاتا ہو۔ بہ الفاظِ دیگر، کِسی بھی فرد کی قانونی حیثیت کا فیصلہ کرنے کے ذیل میں مذہب نہیں بل کہ قانون یا اس کے نفاذ سے مربوط حقوق کا ایک نظام ہوتا ہے جس کی اساس اس نظریہ پر قائم ہوتی ہے کہ ریاست کا کوئی مذہب نہیں ہوتا چناں چہ ریاست اور مذہب کے مابین علیحدگی ضروری ہے۔ لادینی مگر یوں کہ دینی حوالوں و اثرات سے ہٹ کے، مذہبی یا روحانی معاملات سے الگ کر کے بنایا گیا قانون کا مقرر کردہ، قائم کردہ، اختیار دادہ جو نظام ہوتا ہے وہ مختلف مذاہب رکھنے والے اپنے شہریوں کو قانونی مساوات سے مامون کرنا یقینی بناتا ہے، ظاہر ہے قرونِ وسطیٰ کے مسیحی ریگولیشن تو بالکل ہی اس کے برعکس تھے۔اسلامی دنیا کے کئی ممالک بھی عصرِ موجود میں سیکولر نظام کی مغایرت میں پیش پیش ہیں۔ آج بھی یہودیوں اور مسیحیوں کو ثانوی درجہ کے شہریوں میں شمار کِیا جاتا ہے، یعنی تحفظ کے محتاج ذمی لوگ۔
ماڈرن مغربی آئین و دستور اور جرمنی کے بنیادی نظام کے اصل اصول اور قاعدے مذہبی آزادی کو مرکزی اہمیت دیتے ہیں اور اسی پر ہی کیتھولک مسیحیوں کے مضبوط عقیدے کی اساس قائم ہے۔ سیکنڈ ویٹی کن کونسل اور خصوصی طور پر اعلانِ مذہبی آزادی ((Dignitatis Humanae 1965عیسوی میں کیتھولک کلیسیا نے مذہبی آزادی کو اصولِ اعزازِ انسانی کے ثمرہ انسانی حقوق کے تحت قبول کر لیا۔ ایک بات پکی ہے اور یہ قابلِ فہم بھی ہے اور فہم رسا تک مکمل طور پر اس کا ابلاغ ہو جائے تو دیکھیے نا کتنا ضروری ہے کہ ترجیحی اہمیت دیتے ہوئے مسیحیوں کے اس مطالبے کو مان لیا جائے کہ مسیحیوں کو بھی مسلم ممالک میں اسی درجہ کی مذہبی آزادی ملنا چاہیے جیسی مسلمانوں کو ہمارے ملکوں میں نصیب ہے۔ دوسرے لفظوں میں، یہ ہمارے آئین کے تو بالکل ہی برعکس ہو گا اور اس کے بھی الٹ جو ہمارے نیک خیالات، افعال اور کوششیں مذہبی آزادی دینے پر جمے رہنے کے لیے جاری و ساری رہتی ہیں اور خداوند کی منشا کے عین مطابق ہم مسیحی من حیث القوم کامیاب بھی ہیں، مذہبی آزادی کو ہم مسیحی ترجیحی طور پر اہمیت دیتے بھی ہیں مگر… اگر فرض کیجیے یہی جرمنی اس لیے ان حقوق کو محدود کر دے یا روک دے جو یہاں مسلمانوں کو اپنے مذہب، آداب، عبادات اور رسوم کی ادائی کے لیے حاصل ہیں لیکن دنیا کے کئی خطوں اور خاص طور پر اسلامی دنیا میں ان حقوقِ مذہبی آزادی کو سب کے لیے عام کرنے پر اس نئی صدی میں بھی پس و پیش سے کام لیا جا رہا ہے، تو کِس قدر گمبھیر صورتِ حالات پیدا ہو جائے گی؟یہ کیا کہ خود تو اس آزادی سے یہاں آ کر، بس کر، مستفید ہوں، مگر اپنے ملکوں میں اس حقِّ انسانیت کی فراہمی سے ہم سب مسیحیوں اور دیگر مذاہب کے پیروکاروں کو محروم رکھیں!
آپ ہی اپنی ادائوں پہ ذرا غور کریں
ہم اگر عرض کریں گے تو شکایت ہو گی
جرمن معاشرہ کچھ اس نوعیت کا ہے کہ وہاں مختلف لسانی، معاشرتی، ثقافتی اور مذہبی مفادات کے لوگ موجود ہیں اور آپس میں مل کر، آزادی سے، مجموعی ترقی کر رہے ہیں۔ مذہبی آزادی کا بنیادی حق ان سب کی دسترس میں ہے وہ جو کِسی بھی مذہب سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کی بھی جو سرے سے لادِین ہیں۔ مذہبی آزادی کے غلط استعمال کو روکنے کے لیے بھی سوسائٹی اقدامات عمل میں لاتی رہتی ہے اور ملکی قانون اور ادارے بھرپور معاونت کرتے ہیں۔ مسلمان او رمسیحی یہ ادراک رکھتے ہیں کہ انھیں مل بیٹھ کر مکالمہ کرنا چاہیے تا کہ ایک دوسرے کے مذہب کی بہتر تفہیم ہو سکے۔ ایسی بھی باتیں سامنے آتی ہیں جن پر بنیادی اختلافات کو ہَوَا ملتی ہے، انھیں دبا نہیں دیا جاتا بل کہ ان پر بات چیت جاری رہتی ہے اور درمیان کے راستے نکالنے کی سعی کی جاتی ہے۔ سب سے زیادہ اطمینان بخش کڑی ہوتی ہے، برداشت۔ کچھ حدود مقرر کر دی جاتی ہیں عبور نہ ہی ہوں تو اچھا ہے۔جو لوگ لا دِین ہوتے ہیں، ان کے لائف سٹائل میں، ان کے ذاتی کردار میں جو اچھی باتیں ہیں ان کی تحسین کی جاتی ہے، ضروری تو نہیں کہ متصادم نظریات کو چھیڑا جائے۔ امن سے رہو، جہاں بھی رہو، خوش رہو۔ برداشت کے مادے کو تقویت ملنی چاہیے۔ رواداری،بھائی چارہ، مساوات خود ہی پیدا ہو جائے گی۔ ایسے اصولوں پر جب عمل کِیا جائے تو نزاعی صورت کیسے پیدا ہو سکتی ہے۔ اس لیے مکالمہ رواج پا رہا ہے اور اس کے مثبت اثرات سامنے آنے لگے تو فرداً فرداً سبھی لوگ دِلچسپی لے رہے ہیں۔ اس یگانگت میں سرحدیں بھی حائل نہیں رہیں۔
تاریخی اعتبار سے، دورِ جدید کی خصوصیات کا حامل ہمارے مغربی جدید آئین جن کی جڑیں اپنی اقدار میں پیوست ہیں وہ اس کے باوجود مذہب کے معاملے میں قطعی غیر جانبدار ہیں کیوں کہ مذہبی جنگوں کے زمانہ والے سبق آموز نتائج اُن کے لیے نشانِ راہ ثابت ہوئے اور اُن کا اِن میں پورا پورا فائدہ اُٹھایا گیا۔ سیاستدانوں اور مذہبی مقدسین نے ماضی کی غلطیاں نہ دہرانے کی ٹھان لی۔ریاست نے بھی جان لیا کہ مذہبی عقائد ریاستی جبر و قوت اور جارحانہ حکمتِ عملی کے ذریعے نہیں ٹھونسے جا سکتے۔ مذہبی جنگوں میں متحارب فریق دونوں ہی مسیحی تھے جن کے عقیدوں میں فرق تھا۔ مسیحی مسیحیوں کے خلاف نبرد آزما تھے، گویا یہ فرقہ وارانہ جنگیں تھیں جن میں مسیحی مارے گئے اور مسیحی ہی فاتح رہے۔ پھر ایک طویل عرصہ تک ایک طرح سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ ریاستی ڈھانچا سیکولر بنیادوں پر نئے سرے سے کھڑا کر دیا گیا اور اپنی پہچان میں مسیحی ہی رہا، بین الکلیسیائی اتحاد نے اسے مضبوطی سے ہمکنار کیے رکھا۔ اس لیے آج بھی اپنی مسیحی روایات و اقدار کا امین ہے۔ جہاں تک مسلم سوادِ اعظم کے ساتھ تعلقات کی بات ہے تو وہاں مسیحی بھائیوں کو مسلمانوں سے بہتر تعلقات قائم رکھنے کے باوجود خبردار اور محتاط رہنے کی ضرورت ہے کیوں کہ یہ جو ماڈرن سیکولر نظام ہے، ہماری طرف سے تو یہ ہے کہ ہم سمجھتے ہیں کہ اس نظام کی ضمانت پر ہم دونوں قومیں مسلمان اور مسیحی امن، سکون، محبت اور ایک دوسرے کا، اور ایک دوسرے کے مذہب کا احترام کرتے ہوئے اکٹھے رہ سکتے ہیں۔ ایک دوسرے کے دُکھ درد میں شریک رہ سکتے ہیں، غم بانٹ سکتے ہیں، خوشیاں تقسیم کر سکتے ہیں اور مصیبت میں ایک دوسرے کے کام آ سکتے ہیں مگر اسلامی دنیا میں اس سیکولر سوچ کو مسیحی سوچ اور فکر سمجھا جاتا ہے، البتہ ایسے بھی مسلم عوام اور مقتدرینِ مملکت ہیں جن کا سوچ وہی ہے جو ہم مسیحیوں کا ہے ، وہ اسے قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور اپنے قدیمی رویوں میں اصلاح لا رہے ہیں مگر ایسی ریاستیں امارتیں خال خال ہی ہیں ورنہ ’جنہوں بھنّو وچوں لال‘‘والی صداقت عام ہے۔ ان کی اکثریت ہمیں خدا کے منکرین میں شمار کرتی ہیں۔
سیکولیریٹی نہ مسیحیت کی حمایت کرتی ہے نہ کِسی بھی مذہب کی مخالفت۔ نہ ہی سیکولر حکومت بے دِین حکومت ہوتی ہے۔ ہم بھی ایک ہی خدا کے ماننے والے ہیں، تثلیث میں بھی وحدانیت کے قائل ہیں۔ اپنی معاشرت، اپنی ریاست کے ساتھ اپنی ذمہ داریوں کا ادراک رکھتے ہوئے، مسلمانوں کے ساتھ اپنے تعلقات روز بہ روز بہتر کرنے کی خواہش کے ساتھ مسیحیوں کو ابھی بہت کام کرنا ہو گا اور مسلم سماج کو سمجھانا اور راہ پر لانا ہو گااور اُنھیں یقین کر لینے پر آمادہ کرنا ہو گا کہ سیکولیریٹی کفر نہیں، بل کہ کفر و ایمان سے اس کا کوئی تعلق ہی نہیں۔ یہ ایک جدا فلسفہ ہے، ماڈرن نظریہ ہے، جدید نظامِ حکومت ہے۔ اکثر دوسرے نظام ہر طرح کی آزادی دینے کا اعلان کرتے ہیں، مذہبی نہیں۔ لا دینی ریاستیں بھی دوسروں کو مذہبی آزادی نہیں دیتیں۔ سیکولر نظامِ حکومت مذہب کو نجی معاملہ سمجھتا ہے۔ اس لیے مسلم دوستوں کو ہمیں شک کے عدسوں والی عینک میں سے گھورنے کی ضرورت نہیں، بیکار وقت ضائع ہو گا اور انرجی بھی۔ ہمارے خلوص کا جواب خلوص سے ہی ملنا چاہیے۔مسلمانوں کا اپنا تصورِ مذہبی آزادی سیکولیریٹی کے کتنا قریب ہے، سیکولیریٹی کی ہی جیتی جاگتی صورت ہے۔ امن کا مذہب اسلام سب میں امن کا ہی تو پرچار کرتا ہے۔ اپنی اعلیٰ اقدار پر مشتمل آئینی حکومت جو مذہب کے معاملے میں اپنی غیر جانبداری ملحوظِ خاطر رکھے وہاں شہری اس کی قومیت اختیار کر چکنے کے بعد بھی اپنی الگ شناخت نہیں گنواتے۔ دوسرے مذاہب میں بھی اپنی مذہبی اقدار و روایات کے طفیل الگ سے پہچانے جاتے ہیں۔ اگر ا س موقع پر آپ حجاب کا حوالہ دینے سے نہ چُوک سکنے کے موڈ میں ہوں تو عرض یہ ہے کہ اس پر پابندی کے قوانین کِسی مذہبی حوالے سے نہیں،سکیورٹی کے اقدامات سے ان کا تعلق ہے۔
یہ تحریک کہ مذہبی آزادی پر ہر ایک کا حق ہے، تاہم یہ نجی معاملہ ہے، ریاستی نہیں، اس کی شُدبُد مسیحیوں میں پیدا تو ہو گئی، مگر آسانی سے نہیں، دو صدیاں ہیں اس کے پیچھے۔ حال آں کہ مقدس خداوند یسوع مسیح کا فرمایا ہوا بھی موجود تھا، مگر عمل اب آ کے ہوا۔
"give to Caesar that which belongs to Caesar, and to God, that which belongs to God"
یسوع نے اُن سے کہا: جو قیصر کا ہے قیصر کو اور جو خدا کا ہے خدا کو ادا کرو…
مقدس مرقس…17:12
ہم مسیحیوں کے لیے خداوند یسوع پاک جیتی جاگتی مثال ہے۔ مذہب کی شناخت نظامِ حکومت سے قطعی طور رالگ ہے۔ مگر مسلمانوں کا سیاسی فکر آج بھی
جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی
کے حصار میں قید ہے۔ مذہب، ریاست اور شریعت کو الگ الگ دیکھنے سے کترانا ان کا معمول ہے۔ مسیحیوں کوبھی سیکولرائزیشن کو عمل میں لانے کا تجربہ قدرے منہگا بھی پڑا ہے لیکن اس کے نتیجے کے طور پر جب یہ یوں ہو گیا کہ کلیسیا کی جان امورِ سیاسیات سے چھوٹ گئی تو اس کی عام ایجاب پذیری نے پچھلے سارے دلدر دھو ڈالے۔
مسیحی اقوام جس تجربے سے گذر کر یہاں تک پہنچیں ان کی مثال سے کیا مسلمان بھی یہ درک حاصل کر پائیں گے کہ بھیگی بلی دیکھ کے نتیجہ اخذ کر لیں باہر بارش نے ہر طرف سماں باندھ دیا ہے اور سیکولر نظامِ ریاست کا صاف شفاف پانی چھاجوں برس رہا ہے اور سب پر برابر برس رہا ہے اور خلقت اس کے مزے لے رہی ہے۔ ان میں ہنود بھی ہیں یہود بھی، مسلم، بدھ، سکھ، مسیحی اور کِسی بھی مذہب سے کوئی تعلق واسطہ نہ رکھنے والے سبھی مل جل بل کہ گھل مل کے بارش کے قطرے قطرے سے مستفیض ہو رہے ہیں؟
:سوال نمبر166
دین و مذہب اور ریاست و سیاست جدا جدا ہوں تو بہتر ہے، مسیحیت کا اس بارے میں کیا فیصلہ ہے؟ میری مراد سیکولر ازم سے ہے، اس پر تبصرہ فرمائیے!
جواب:
۔جرمنی کی مثال دی جا سکتی ہے کہ وہاں جب بھی کِسی اجلاس میں مسلمان اور مسیحی اکٹھے ہوتے ہیں، ان کے یوں ایک چھت تلے مل بیٹھنے کے لیے ان کا مختلف المذاہب ہونا ہی بہت سے اسباب میں سے ایک سبب ہے جس کی بنا پر وہ میٹنگ طے پاتی ہے، اُسے ملاقات کی ایک سبیل کہہ سکتے ہیں ہم۔پتا نہیں ان کے دھیان میں ہے یا نہیں کہ اس اکٹھ کا سب سے بڑا امکان اور اس کی تحصیل کا آسان ہونا مرہونِ منت ہے وہاں کی آئینی حکومت کا، جو مذہب کو اپنے دستوری نظام کے تحت ایک الگ تھلگ معاملہ سمجھتی ہے۔ مطلب یہ کہ وہ ہے ہی ایسی سوسائٹی جو مذہبی یا کِسی مقدس حوالے سے نہیں، کلیسیائی قوانین سے ہٹ کر، اپنی ساخت میں خود مضبوط ہے۔ اور اس اصول پر قائم ہے کہ عام تعلیم، سیاست اور مدنی ماند بود کے معاملات میں مذہبی عنصر کو دخیل نہیں ہونے دینا۔ جب کہ جرمنی مخصوص زمان و مکان اور قوم کے مغربی تمدن و تہذیب کا ہی ایک حصہ ہے جو مسیحیت اور اس کی جڑ یہودیت سے تشکیل پایا، جرمنی میں صدیوں سے مسلمانوں کو خیرسگالی کے دوستانہ جذبات کے ساتھ بطور مہمان خوش آمدید کہا جاتا رہا۔ جرمنی میں بل کہ یورپی یونیئن میں دِینی نہیں، دنیوی اصولوں کا ایک ہی سِکہ ہے جو ہرجگہ پر چلتا ہے۔ جرمنی کی ریاست اور معاشرت اس بات کو یقینی اور اطمینان بخش بناتی ہیں کہ وہاں مسیحیوں اور مسلمانوں کا میل جول آزادی اور برابری کی سطح پر رواج پائے۔ وہاں مسلمانوں کو بس چند قانونی حقوق دے کر ٹرخا دینے والی سٹوری ہی نہیں اور نہ ہی یہ سین کہ مسیحیوں کے مقابلے میں نچلے درجے کے جائز جائز حقوق دے کر انھیں صابر شاکر رہنے کا درس دیا جاتا ہو۔ بہ الفاظِ دیگر، کِسی بھی فرد کی قانونی حیثیت کا فیصلہ کرنے کے ذیل میں مذہب نہیں بل کہ قانون یا اس کے نفاذ سے مربوط حقوق کا ایک نظام ہوتا ہے جس کی اساس اس نظریہ پر قائم ہوتی ہے کہ ریاست کا کوئی مذہب نہیں ہوتا چناں چہ ریاست اور مذہب کے مابین علیحدگی ضروری ہے۔ لادینی مگر یوں کہ دینی حوالوں و اثرات سے ہٹ کے، مذہبی یا روحانی معاملات سے الگ کر کے بنایا گیا قانون کا مقرر کردہ، قائم کردہ، اختیار دادہ جو نظام ہوتا ہے وہ مختلف مذاہب رکھنے والے اپنے شہریوں کو قانونی مساوات سے مامون کرنا یقینی بناتا ہے، ظاہر ہے قرونِ وسطیٰ کے مسیحی ریگولیشن تو بالکل ہی اس کے برعکس تھے۔اسلامی دنیا کے کئی ممالک بھی عصرِ موجود میں سیکولر نظام کی مغایرت میں پیش پیش ہیں۔ آج بھی یہودیوں اور مسیحیوں کو ثانوی درجہ کے شہریوں میں شمار کِیا جاتا ہے، یعنی تحفظ کے محتاج ذمی لوگ۔
ماڈرن مغربی آئین و دستور اور جرمنی کے بنیادی نظام کے اصل اصول اور قاعدے مذہبی آزادی کو مرکزی اہمیت دیتے ہیں اور اسی پر ہی کیتھولک مسیحیوں کے مضبوط عقیدے کی اساس قائم ہے۔ سیکنڈ ویٹی کن کونسل اور خصوصی طور پر اعلانِ مذہبی آزادی ((Dignitatis Humanae 1965عیسوی میں کیتھولک کلیسیا نے مذہبی آزادی کو اصولِ اعزازِ انسانی کے ثمرہ انسانی حقوق کے تحت قبول کر لیا۔ ایک بات پکی ہے اور یہ قابلِ فہم بھی ہے اور فہم رسا تک مکمل طور پر اس کا ابلاغ ہو جائے تو دیکھیے نا کتنا ضروری ہے کہ ترجیحی اہمیت دیتے ہوئے مسیحیوں کے اس مطالبے کو مان لیا جائے کہ مسیحیوں کو بھی مسلم ممالک میں اسی درجہ کی مذہبی آزادی ملنا چاہیے جیسی مسلمانوں کو ہمارے ملکوں میں نصیب ہے۔ دوسرے لفظوں میں، یہ ہمارے آئین کے تو بالکل ہی برعکس ہو گا اور اس کے بھی الٹ جو ہمارے نیک خیالات، افعال اور کوششیں مذہبی آزادی دینے پر جمے رہنے کے لیے جاری و ساری رہتی ہیں اور خداوند کی منشا کے عین مطابق ہم مسیحی من حیث القوم کامیاب بھی ہیں، مذہبی آزادی کو ہم مسیحی ترجیحی طور پر اہمیت دیتے بھی ہیں مگر… اگر فرض کیجیے یہی جرمنی اس لیے ان حقوق کو محدود کر دے یا روک دے جو یہاں مسلمانوں کو اپنے مذہب، آداب، عبادات اور رسوم کی ادائی کے لیے حاصل ہیں لیکن دنیا کے کئی خطوں اور خاص طور پر اسلامی دنیا میں ان حقوقِ مذہبی آزادی کو سب کے لیے عام کرنے پر اس نئی صدی میں بھی پس و پیش سے کام لیا جا رہا ہے، تو کِس قدر گمبھیر صورتِ حالات پیدا ہو جائے گی؟یہ کیا کہ خود تو اس آزادی سے یہاں آ کر، بس کر، مستفید ہوں، مگر اپنے ملکوں میں اس حقِّ انسانیت کی فراہمی سے ہم سب مسیحیوں اور دیگر مذاہب کے پیروکاروں کو محروم رکھیں!
آپ ہی اپنی ادائوں پہ ذرا غور کریں
ہم اگر عرض کریں گے تو شکایت ہو گی
جرمن معاشرہ کچھ اس نوعیت کا ہے کہ وہاں مختلف لسانی، معاشرتی، ثقافتی اور مذہبی مفادات کے لوگ موجود ہیں اور آپس میں مل کر، آزادی سے، مجموعی ترقی کر رہے ہیں۔ مذہبی آزادی کا بنیادی حق ان سب کی دسترس میں ہے وہ جو کِسی بھی مذہب سے تعلق رکھتے ہیں اور ان کی بھی جو سرے سے لادِین ہیں۔ مذہبی آزادی کے غلط استعمال کو روکنے کے لیے بھی سوسائٹی اقدامات عمل میں لاتی رہتی ہے اور ملکی قانون اور ادارے بھرپور معاونت کرتے ہیں۔ مسلمان او رمسیحی یہ ادراک رکھتے ہیں کہ انھیں مل بیٹھ کر مکالمہ کرنا چاہیے تا کہ ایک دوسرے کے مذہب کی بہتر تفہیم ہو سکے۔ ایسی بھی باتیں سامنے آتی ہیں جن پر بنیادی اختلافات کو ہَوَا ملتی ہے، انھیں دبا نہیں دیا جاتا بل کہ ان پر بات چیت جاری رہتی ہے اور درمیان کے راستے نکالنے کی سعی کی جاتی ہے۔ سب سے زیادہ اطمینان بخش کڑی ہوتی ہے، برداشت۔ کچھ حدود مقرر کر دی جاتی ہیں عبور نہ ہی ہوں تو اچھا ہے۔جو لوگ لا دِین ہوتے ہیں، ان کے لائف سٹائل میں، ان کے ذاتی کردار میں جو اچھی باتیں ہیں ان کی تحسین کی جاتی ہے، ضروری تو نہیں کہ متصادم نظریات کو چھیڑا جائے۔ امن سے رہو، جہاں بھی رہو، خوش رہو۔ برداشت کے مادے کو تقویت ملنی چاہیے۔ رواداری،بھائی چارہ، مساوات خود ہی پیدا ہو جائے گی۔ ایسے اصولوں پر جب عمل کِیا جائے تو نزاعی صورت کیسے پیدا ہو سکتی ہے۔ اس لیے مکالمہ رواج پا رہا ہے اور اس کے مثبت اثرات سامنے آنے لگے تو فرداً فرداً سبھی لوگ دِلچسپی لے رہے ہیں۔ اس یگانگت میں سرحدیں بھی حائل نہیں رہیں۔
تاریخی اعتبار سے، دورِ جدید کی خصوصیات کا حامل ہمارے مغربی جدید آئین جن کی جڑیں اپنی اقدار میں پیوست ہیں وہ اس کے باوجود مذہب کے معاملے میں قطعی غیر جانبدار ہیں کیوں کہ مذہبی جنگوں کے زمانہ والے سبق آموز نتائج اُن کے لیے نشانِ راہ ثابت ہوئے اور اُن کا اِن میں پورا پورا فائدہ اُٹھایا گیا۔ سیاستدانوں اور مذہبی مقدسین نے ماضی کی غلطیاں نہ دہرانے کی ٹھان لی۔ریاست نے بھی جان لیا کہ مذہبی عقائد ریاستی جبر و قوت اور جارحانہ حکمتِ عملی کے ذریعے نہیں ٹھونسے جا سکتے۔ مذہبی جنگوں میں متحارب فریق دونوں ہی مسیحی تھے جن کے عقیدوں میں فرق تھا۔ مسیحی مسیحیوں کے خلاف نبرد آزما تھے، گویا یہ فرقہ وارانہ جنگیں تھیں جن میں مسیحی مارے گئے اور مسیحی ہی فاتح رہے۔ پھر ایک طویل عرصہ تک ایک طرح سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ ریاستی ڈھانچا سیکولر بنیادوں پر نئے سرے سے کھڑا کر دیا گیا اور اپنی پہچان میں مسیحی ہی رہا، بین الکلیسیائی اتحاد نے اسے مضبوطی سے ہمکنار کیے رکھا۔ اس لیے آج بھی اپنی مسیحی روایات و اقدار کا امین ہے۔ جہاں تک مسلم سوادِ اعظم کے ساتھ تعلقات کی بات ہے تو وہاں مسیحی بھائیوں کو مسلمانوں سے بہتر تعلقات قائم رکھنے کے باوجود خبردار اور محتاط رہنے کی ضرورت ہے کیوں کہ یہ جو ماڈرن سیکولر نظام ہے، ہماری طرف سے تو یہ ہے کہ ہم سمجھتے ہیں کہ اس نظام کی ضمانت پر ہم دونوں قومیں مسلمان اور مسیحی امن، سکون، محبت اور ایک دوسرے کا، اور ایک دوسرے کے مذہب کا احترام کرتے ہوئے اکٹھے رہ سکتے ہیں۔ ایک دوسرے کے دُکھ درد میں شریک رہ سکتے ہیں، غم بانٹ سکتے ہیں، خوشیاں تقسیم کر سکتے ہیں اور مصیبت میں ایک دوسرے کے کام آ سکتے ہیں مگر اسلامی دنیا میں اس سیکولر سوچ کو مسیحی سوچ اور فکر سمجھا جاتا ہے، البتہ ایسے بھی مسلم عوام اور مقتدرینِ مملکت ہیں جن کا سوچ وہی ہے جو ہم مسیحیوں کا ہے ، وہ اسے قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور اپنے قدیمی رویوں میں اصلاح لا رہے ہیں مگر ایسی ریاستیں امارتیں خال خال ہی ہیں ورنہ ’جنہوں بھنّو وچوں لال‘‘والی صداقت عام ہے۔ ان کی اکثریت ہمیں خدا کے منکرین میں شمار کرتی ہیں۔
سیکولیریٹی نہ مسیحیت کی حمایت کرتی ہے نہ کِسی بھی مذہب کی مخالفت۔ نہ ہی سیکولر حکومت بے دِین حکومت ہوتی ہے۔ ہم بھی ایک ہی خدا کے ماننے والے ہیں، تثلیث میں بھی وحدانیت کے قائل ہیں۔ اپنی معاشرت، اپنی ریاست کے ساتھ اپنی ذمہ داریوں کا ادراک رکھتے ہوئے، مسلمانوں کے ساتھ اپنے تعلقات روز بہ روز بہتر کرنے کی خواہش کے ساتھ مسیحیوں کو ابھی بہت کام کرنا ہو گا اور مسلم سماج کو سمجھانا اور راہ پر لانا ہو گااور اُنھیں یقین کر لینے پر آمادہ کرنا ہو گا کہ سیکولیریٹی کفر نہیں، بل کہ کفر و ایمان سے اس کا کوئی تعلق ہی نہیں۔ یہ ایک جدا فلسفہ ہے، ماڈرن نظریہ ہے، جدید نظامِ حکومت ہے۔ اکثر دوسرے نظام ہر طرح کی آزادی دینے کا اعلان کرتے ہیں، مذہبی نہیں۔ لا دینی ریاستیں بھی دوسروں کو مذہبی آزادی نہیں دیتیں۔ سیکولر نظامِ حکومت مذہب کو نجی معاملہ سمجھتا ہے۔ اس لیے مسلم دوستوں کو ہمیں شک کے عدسوں والی عینک میں سے گھورنے کی ضرورت نہیں، بیکار وقت ضائع ہو گا اور انرجی بھی۔ ہمارے خلوص کا جواب خلوص سے ہی ملنا چاہیے۔مسلمانوں کا اپنا تصورِ مذہبی آزادی سیکولیریٹی کے کتنا قریب ہے، سیکولیریٹی کی ہی جیتی جاگتی صورت ہے۔ امن کا مذہب اسلام سب میں امن کا ہی تو پرچار کرتا ہے۔ اپنی اعلیٰ اقدار پر مشتمل آئینی حکومت جو مذہب کے معاملے میں اپنی غیر جانبداری ملحوظِ خاطر رکھے وہاں شہری اس کی قومیت اختیار کر چکنے کے بعد بھی اپنی الگ شناخت نہیں گنواتے۔ دوسرے مذاہب میں بھی اپنی مذہبی اقدار و روایات کے طفیل الگ سے پہچانے جاتے ہیں۔ اگر ا س موقع پر آپ حجاب کا حوالہ دینے سے نہ چُوک سکنے کے موڈ میں ہوں تو عرض یہ ہے کہ اس پر پابندی کے قوانین کِسی مذہبی حوالے سے نہیں،سکیورٹی کے اقدامات سے ان کا تعلق ہے۔
یہ تحریک کہ مذہبی آزادی پر ہر ایک کا حق ہے، تاہم یہ نجی معاملہ ہے، ریاستی نہیں، اس کی شُدبُد مسیحیوں میں پیدا تو ہو گئی، مگر آسانی سے نہیں، دو صدیاں ہیں اس کے پیچھے۔ حال آں کہ مقدس خداوند یسوع مسیح کا فرمایا ہوا بھی موجود تھا، مگر عمل اب آ کے ہوا۔
"give to Caesar that which belongs to Caesar, and to God, that which belongs to God"
یسوع نے اُن سے کہا: جو قیصر کا ہے قیصر کو اور جو خدا کا ہے خدا کو ادا کرو…
مقدس مرقس…17:12
ہم مسیحیوں کے لیے خداوند یسوع پاک جیتی جاگتی مثال ہے۔ مذہب کی شناخت نظامِ حکومت سے قطعی طور رالگ ہے۔ مگر مسلمانوں کا سیاسی فکر آج بھی
جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی
کے حصار میں قید ہے۔ مذہب، ریاست اور شریعت کو الگ الگ دیکھنے سے کترانا ان کا معمول ہے۔ مسیحیوں کوبھی سیکولرائزیشن کو عمل میں لانے کا تجربہ قدرے منہگا بھی پڑا ہے لیکن اس کے نتیجے کے طور پر جب یہ یوں ہو گیا کہ کلیسیا کی جان امورِ سیاسیات سے چھوٹ گئی تو اس کی عام ایجاب پذیری نے پچھلے سارے دلدر دھو ڈالے۔
مسیحی اقوام جس تجربے سے گذر کر یہاں تک پہنچیں ان کی مثال سے کیا مسلمان بھی یہ درک حاصل کر پائیں گے کہ بھیگی بلی دیکھ کے نتیجہ اخذ کر لیں باہر بارش نے ہر طرف سماں باندھ دیا ہے اور سیکولر نظامِ ریاست کا صاف شفاف پانی چھاجوں برس رہا ہے اور سب پر برابر برس رہا ہے اور خلقت اس کے مزے لے رہی ہے۔ ان میں ہنود بھی ہیں یہود بھی، مسلم، بدھ، سکھ، مسیحی اور کِسی بھی مذہب سے کوئی تعلق واسطہ نہ رکھنے والے سبھی مل جل بل کہ گھل مل کے بارش کے قطرے قطرے سے مستفیض ہو رہے ہیں؟