:سوال نمبر191
۔مارمن مسیحی فرقہ ؟ ان کا کیا تعارف ہے؟
جواب:
۔ماہرِ علمِ الٰہیات ڈاکٹر رُوئیڈِیگر ہائوپٹ نے مارمن مسیحیوں کے بارے میں لکھا ہے:
1۔ بانی مبانی
جوزف سمتھ1805عیسوی میں امریکی ریاست ورمونٹ کے ایسے گھرانے میں پیدا ہوا جو اوہام پرستی اور مذہبی اضطراب کا شکار تھا۔ عنفوانِ شباب میں جادوگرنیوں والے کرسٹل بال کے ذریعے وہ چِھپے دبے خزانوں کی تلاش میں ڈوبا رہا اور اِسی دوران لوگوں کو جُل دینے کے جرم میں اُسے سزا بھی بھگتنا پڑی کیوں کہ ثابت ہو گیا تھا کہ وہ فراڈ کر کے سیدھے سادے لوگوں کو بہکاتا اور لُوٹتا رہا ہے۔ بعد میں تو اُس نے حد ہی کر دی، کہنے لگا کہ خدا اور خداوند یسوع اُس پر ظاہر ہوئے اور اُنھوں نے اس سے فہمایش کی کہ وہ انجیلِ مقدس کو واپس اپنی اصل حالت میں لائے۔ سبب یہ بتایا کہ تمام کلیسائیں سچے مذہب سے بھٹک گئی ہیں اور خدا کی نظروں سے گِر گئی ہیں، آسمانوں پر انھیں تحقیر آمیز نگاہوں سے دیکھا جاتا ہے۔ مشہور ہو گیا کہ 1827عیسوی میں مورونی نام کے ایک فرشتے نے آ کر مخفی تحریروں کا اُس پر انکشاف کِیا جو ایک پہاڑی میں اُسے سنہری پلیٹوں کی شکل میں دستیاب ہوئیں۔ انھیں ترجمہ کر کے 1830عیسوی میں اُس نے ’’مارمن کی کتاب‘‘ شایع کی۔ ایسے اور اِسی قسم کے اور بھی کئی اسباب تھے جن پر شدید تنقید کرنے والوں نے اُسے کارتھیج۔IIIکے قید خانے میں سلاخوں کے پیچھے بھجوا دیا۔ یہ 1844عیسوی کا واقعہ ہے۔ جیل پر مشتعل جمِّ غفیر نے ہلّہ بول کے وہیں اسے گولیوں کی بوچھار کر کے موت کی نیند سُلا دیا۔ 27جون اُس کی زندگی کا آخری دِن تھا اور وہ پورا نہ جی سکا۔
2۔ آغازِ مارمنیت اور تاریخ
بتاریخ 6اپریل1830عیسوی جوزف سمتھ نے اپنے چند رفقا کے ساتھ مِل کے نیویارک چرچ آف کرائسٹ کی بنیاد رکھی۔ 1883عیسوی میں مارمن مقدسینِ یومِ آخر کی کلیسیائی جنرل کانفرنس میں اس کا نام تبدیل کر دیا گیا۔ اس طرح بعد میں سال 1938عیسوی کی جنرل کانفرنس نے پھر اس کا نام بدل کے چرچ آف جیزز کرائسٹ آف لیٹر ڈے سینٹس رکھ دیا۔
مارمن برادری میں مزید پیروکار شامل ہوتے رہے اور امریکا کی مغربی ریاستوں میں مارمنیت کو خوب فروغ ملنے لگا۔ اوہائیو، مسوری اور الینوئیس مارمن مسیحی فرقے کی اہم ترین ریاستوں کا درجہ اختیار کر گئیں۔ اس نئے نبی کی طرف سے سامنے آنے والے آئے روز کے نئے سے نئے مکاشفات کی بھرمار، عجیب سے عجیب تر نوع کی اس کی تعلیمات اور اس کے مقدسین اور پیروکاروں میں رائج طرح طرح کے مخفی و جلی اعمال اور دینی رسومات نے لوگوں کو نت نئے جھنجٹوں میں ڈال دیا جس کی بِنا پر کلیسیائی برادری مارمنیت سے بیزار ہونے لگی۔ غیر مارمن مسیحیوں میں اس فرقے پر سوال اُٹھنے لگے اور حکومتی اداروں میں بھی اعتراضات و بحث مباحثہ کے دفتر کھل گئے۔ مارمنیت کے جدِّ امجد جے سمتھ کی تشددانہ موت کے بعد برگھم ینگ کی قیادت میں اس کے تمام مقدسین 1845-46عیسوی میں نیویارک سے مغربی ریاستوں کی طرف کوچ کر گئے، 1847عیسوی کے موسمِ بہار میں اُنھوںنے راکی مائونٹینز کی گریٹ سالٹ لیک وادی میں جا ڈیرے جمائے۔ یہاں اُنھوں نے اپنے آپ کو محفوظ پایا اور سالٹ لیک سٹی میں اپنے قدم جما کے اپنامرکز قائم کر لیا۔ بعدمیں یہ ترقی پذیر شہر امریکی ریاست اُوتاہ کا صدر مقام قرار پایا۔ سالٹ لیک سٹی مرکز انھیں راس آیا، جو روز بہ روز ترقی کرتا صحراے نمک کی نمکینیت میں رچا بسا ثقافتی مرکز ہے۔ مارمن مذہب دنیا کے دُور دراز گوشوں تک جا پہنچا ہے او ریہ فروغ مرہونِ مِنّت ہے اس کے فعال تبلیغی مشن کا۔ جرمنی میں بھی 1952عیسوی میں اس کی کلیاں پھوٹی تھیں اور آج کا دِن آتے آتے کنجِ چمن میں اس کے پھول اپنی پہچان آپ ہیں۔ عصرِ حاضر میں اس نئے مذہب کے ماننے والوں کی تعداد آٹھ ملین سے بھی تجاوز کر چکی ہے۔ لاطینی امریکا اور شرقی ایشیا اس کے گڑھ بن چکے ہیں۔
3۔ تعلیمات اور بجا آوری
مارمن مسیحی اپنے طور اِس خوش فہمی میں مبتلا ہیں کہ کرئہ ارض پر محض اُنہی کی مارمن کلیسیا ہی حقیقی مسیحی کلیسیا ہے۔ وہ دعوے سے کہتے ہیں کہ خدا بھی کبھی انسان ہی تھا اور مناسب حالات اور مددگار مواقع میسر آجائیں تو انسان بھی ایک لمحہ آ سکتا ہے کہ خدا بن جائے۔ ان کا کہنا ہے کہ اب وقت آ چکا ہے کہ نئی وحی، نیا الہام آسمان سے نازل ہو۔ مارمن لوگ بائبل مقدس کے علاوہ مارمن کی کتاب پر ایمان رکھتے ہیں جو اُن کے دِینی ادب میں ممتاز اور مقدس ہونے کا مقام رکھتی ہے۔ مارمن پیروکاری میں مخفی قسم کی ہیکل رسومات کو فوقیت حاصل ہے:
٭مُردوں کے لیے قائم مقام اصطباغ
٭ اہلیت یا صلاحیت: اس فرقے میں شمولیت اختیار کرنے والے پابند ہوتے ہیں کہ خفیہ ہدایات، اشارے اور نشان، علامت وصول کریں، اُنھیں راز ہی رکھیں اور اُن پر بے چون و چرا عمل کریں، ایسا کریں گے تو اُنھیں خدا کی بادشاہی میں پکّا پکّا داخل کر لیاجائے گا۔
٭ متعینہ مدت یا پکّی پکّی ہمیشہ کی شادی کا معاہدہ اور یہ عقیدہ کہ اِس عارضی حیات کے بعد بھی وہ ایک دوسرے کے شریکِ دائمی حیات ہی رہیں گے۔
4۔ مقام
کلامِ مقدس سے متصادم تعلیمات جو نئے نئے انکشافات اور پُراَسرار مذہبی رسوم پر مبنی ہیں اُن کی وجہ سے مارمون ازم کوو سیع تر معانی میں اقومانی مسیحیت سے دُور دُور کا بھی واسطہ نہیں بل کہ اُسے تو امریکی متضاد عقائد کا مرغوبہ قسم کا کوئی نیا ہی مذہب سمجھا جاتا ہے۔ اس مذہب کی تمام اصطلاحات جو بائبلی مسیحی حوالوں سے سرقہ کی گئی ہیں مثلاً گناہ، خدا، المسیح، خلقت، مخلوقِ خدا، شاگردانِ یسوع پاک، قیامت، روزِ عدل، خداوند کا مُردوں میں سے جی اُٹھنا، اصطباغ، مکتی… ان کے اصل حوالے ہی بدل کے انھیں نئے معانی پہنا کر مسیحیت سے مارمنیت میں ڈھال دیا گیا ہے۔ مارمنیت برِّاعظم امریکا کو برِّاعظم نجات قرار دیتی ہے اور خدا کی مخلصی والی کہانی میں اسے مرکزی حیثیت کے مقام کا درجہ دیتی ہے، جیسے باغِ عدن کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ وہ امریکی ریاست مسوری میں موجود تھا۔ مُردوں میں سے دوبارہ جی اُٹھ کھڑے ہونے کے بعد مقدس خداوند یسوع مسیح کی آمد کے بارے میں اُن کا عقیدہ ہے کہ وہ امریکا میں ظاہر ہوا تھا اور دنیا میں اپنے دوسرے ورود کے موقع پر وہ وہیں امریکا میں ایک خودمختار ہیکل میں آ کر سکونت اختیار کرے گا۔ وغیرہ وغیرہ۔ طے پا چکا ہے کہ جو لوگ اپنا مذہب چھوڑ کر مارمون ازم نظریے پر ایمان لے آتے ہیں۔ ان کا یہ فعل تمام کلیسیائوں کی اقومانی پاک شراکت سے اخراج پر منتج ہوتا ہے۔ کیوں کہ یہ محض دِین کی تبدیلی نہیں بل کہ مکمل مسیحیت سے منہ موڑ لینے والا عمل ہے۔مسیحیت کے تمام دروازے ایسے لوگوں پر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بند کر دیے جاتے ہیں۔ مارمون ازم تو بالکل ہی مختلف قسم کی ایسی دنیا کی نمایندگی کرتی ہے جس سے کوئی بھی شخص واقف نہیں۔ ان لوگوں کی ایسی حرکتوں کے نتیجہ میں اس سماج کو شدید ذِہنی دباو کا سامنا ہے اور وہ معاشرت اور وہ مسیحی خاندان کل تک جن کا وہ حصہ تھے مارمنوں سے پُرانے رِشتے، تعلقات، رابطے قائم رکھنے یا بالکل ہی ختم کردینے کے مسائل میں اُلجھ کر فکری و فطری پریشانیوں کا شکار ہیں۔ ہرنیا مارمن سانپ کے منہ میں چھپکلی ہے۔ مارمن لوگ اپنے مذہب اور عقائد کے بارے میں انتہائی شدت پسند ہیں۔ ایک دفعہ کوئی ان کے دائرئہ مارمنیت میں داخل ہو جائے سہی پھر وہ کِسی اور کام کا نہیں رہتا۔ اسے اپنی باقی ماندہ عمر کا ایک طویل عرصہ مارمنیت کی خدمت میں صَرف کرنا لازم ہے۔ جن گھرانوں میں مذہبی آزادی اور روشن خیالی کا کچھ زیادہ ہی فائدہ اُٹھایا جاتا ہے وہاں بھی مارمن فرد سے کوئی بھی گھر کا فرد سمجھوتا نہیں کر پاتا، ہر وقت کوئی نہ کوئی بحث چھڑی رہتی ہے۔ متنازع نکات ذِہنی خلفشار کو ہوا دیتے رہتے ہیں اور دیکھنے میں آیا ہے کہ اس گھر کے تمام افراد چڑچڑے سے ہو جاتے ہیں، نتیجتاً معاشرے میں بگاڑ پیدا ہونے لگا ہے۔
5۔ تنقیدی مواد
تنقیدی جائزے سے مستفید ہونے کے لیے مطالعہ کیجیے:
* Haack, Friedrich-Wilhelm: Mormonen. München: EPV, 1989
* Hauth, Rüdiger: Kleiner Sektenkatechismus.
* Hutten, Kurt: Seher, Grübler Enthusiasten.