:سوال نمبر193
۔ کیا یہ ضروری ہے کہ گناہ کا اعتراف یا اقرارِ ایمان و عقیدہ پریسٹ (کاہن، قسیس) کے سامنے ہی کِیا جائے؟کیا لازمی ہے کہ گناہوں کا شخصی اقرار علیحدگی میں پریسٹ سُنے؟ اسے ہی کیوں سُنایا جائے؟
جواب:
۔ کیتھولک کلیسیا کی مسیحی تعلیم کی کتاب میں کیتھولک مذہبی اصول و عقیدہ (کاتھولک ڈاکٹرائن) کے بارے میں ’’توبہ یا اعتراف کا ساکرامینٹ‘‘ کے عنوان سے تفصیل موجود ہے۔
مقدس انجیلوں میں آیات ہیں جن سے آگاہی ہوتی ہے کہ انفرادی طور پر ہر فرد کے گناہ مقدس خداوند یسوع پاک معاف کر دیتا رہا ہے۔ تم گناہوں سے پاک ہوئے… بخش دیے گئے تمھارے گناہ:
یسوع نے اُن کا ایمان دیکھ کر اُس مفلُوج سے کہا، بٹیا تیرے گناہ معاف ہوئے۔
مقدس مرقس…5:2
اور اُس عورت سے کہا، کہ تیرے گناہ معاف ہوئے۔
مقدس لوقا…48:7
اور یہ اختیار اُس نے اوروںکو بھی تفویض کِیا…
تب ہجوم یہ دیکھ کر ڈر گیا اور خدا کی تمجید کرنے لگاکہ جس نے ایسا اختیار آدمیوں کو بخشا۔
مقدس متی…8:9
مِن جملہ طور مقدس کلیسیا ایک نشان ہے اور ذریعہ ہے میل ملاپ، مصالحت کا۔ تاہم، ایک مخصوص انداز میں رسولی خدمات کے منصب داران کو بھی اِس اختیار کا حامل کر دیا گیا۔ اور ملاپ کی خدمت اُن کی ذمہ داری بنا دی گئی…
پس یہ سب کچھ خدا سے ہے۔ جس نے مسیح کے وسیلے سے ہم کو اپنے ساتھ مِلا لیا ہے اور مِلاپ کرانے کی خدمت ہمارے سپرد کی ہے۔
2۔ قرنتیوں…18:5
خداوند یسوع پاک کی طرف سے گویا خدا نے اپنا پُر زور پیغام ہمارے منہ سے ادا کروانا شروع کر دیا:
پس ہم مسیح کے ایلچی ہیں۔ گویا کہ خدا ہمارے وسیلے سے نصیحت کرتا ہے۔ پس ہم مسیح کی طرف سے التماس کرتے ہیںکہ تم خدا سے میل کرو۔
2۔ قرنتیوں…20:5
یوں گناہوں کے معاف کر دینے کا اختیار سنبھالنے کا منصب خداوند یسوع المسیح کے ایما پر، مُردوں میں سے دوبارہ اُٹھ کھڑے ہونے والے خداوند خدا کی نمایندگی کرنے کی خدمت انجام دینے کے لیے کلیسیا کو عطا کر دیا گیا۔
اُس نے یہ کہہ کر اُن پر پھونکا اور کہا کہ تم روح القدس لو۔ جن کے گناہ تم معاف کرو، اُن کے معاف کیے گئے ہیں۔ جن کے گناہ تم قائم رکھو، اُن کے قائم رکھے گئے ہیں۔
مقدس یوحنا…23,22:20
پاک خداوند یسوع نے گناہوں سے مخلصی دینے کے لیے سدا کمیونٹی نقطہء نظر کو فوقیت دی۔ وہ خدا کے ساتھ گنہگاروں کے میل مصالحت کی خدمت ادا کرنے کے لیے اُنھیں اپنے ساتھ اور ان کی آپس میں ایک دوسرے کے درمیان یوخرستی کمیونٹی میں شرکت یقینی بنا دیتا تھا۔ گناہوں میں پڑے لوگ خدا سے بھی دُور ہو جاتے ہیں اور اپنے بھائی بندوں سے بھی بچھڑ جاتے ہیں۔ اپنے گناہوں کے سبب گنہگار بندہ خدا کے لوگوں (اُمت) کی رفاقت سے یکسر محروم ہو جاتا ہے۔ اور اس کی زندگی کا تقدس مجروح ہو جاتا ہے۔ اور کلیسیا میں مکمل شراکت کی سعادت اس کے لیے شجرِ ممنوعہ قرار دے دی جاتی ہے۔…حوالہ:
اکثروں سے سُنتے ہیں کہ تمھارے درمیان حرامکاری ہوتی ہے اور ایسی حرامکاری جیسی غیر قوموں میں بھی نہیں ہوتی۔ یعنی کہ ایک آدمی اپنے باپ کی بیوی کو رکھتا ہے۔ اور تم پھُولتے ہو اور زیادہ تر غم نہیں کرتے تا کہ جس نے یہ کام کِیا وہ تم میں سے نکالا جائے۔ لیکن مَیں بدن کی نسبت غیر حاضر مگر روح کی نسبت حاضر ہو کر اُس طرح کہ گویا حاضر ہوں اُس پر جس نے ایسا کِیا۔ یہ فتویٰ دے چکا ہوں کہ ہمارے خداوند یسوع کے نا م سے تم اورمیری روح اکٹھے ہو کر ہمارے خداوند یسوع کی قدرت کے ساتھ ہم ایسے شخص کو جسم کی ہلاکت کے لیے شیطان کے حوالے کرتے ہیں تا کہ روح خداوند کے دن میں نجات پائے۔
تمھارا فخر کرنا خوب نہیں۔ کیا تم نہیںجانتے کہ تھوڑا سا خمیر سارے گندھے ہوئے آٹے کو خمیر کر دیتا ہے؟ پرانے خمیر کو نکال پھینکو تا کہ تم تازہ گندھا ہوا آٹا بنو چناں چہ تم بے خبر ہو۔ کیوں کہ ہمارا بھی فصح یعنی مسیح قربان ہوا۔ پس آئو ہم عید کریں پُرانے خمیر سے نہیں اور نہ بدی اور شرارت کے خمیر سے بل کہ صاف دِلی اور سچائی کی بے خمیری روٹی سے۔
مَیں نے خط میں تم کو یہ لکھا تھا کہ تم حرامکاروں میں مت ملے رہو۔ اس سے یہ مراد نہیں کہ تم دنیا کے حرامکاروں اور لالچیوں یا ظالموں یا بُت پرستوں سے نہ مِلو۔ کیوں کہ اِس صورت میں تم کو اِس جہان سے نکلنا ضرور ہوتا۔ مگر مَیں نے اب تمھیں یہ لکھا ہے کہ اگر کوئی بھائی کہلا کر حرامکار یا لالچی یا بُت پرست یا طعنہ زن یا شرابی یا ظالم ہو تو تم اُ س سے میل نہ رکھو بل کہ ایسے کے ساتھ کھانا تک نہ کھانا۔ کیوں کہ باہر والوں پر فتویٰ دینے سے مجھے کیا واسطہ۔ کیا تم ان کا جو اندر ہیں انصاف نہیں کرتے؟ خدا ہی باہر والوں پر فتویٰ دے گا۔ پس اُس بُرے شخص کو اپنے درمیان سے نکال دو۔
1۔ قرنتیوں…1:5تا13
اور اگر کِسی نے غمگین کِیا ہے تو اُس نے صرف مجھ کو نہیں بل کہ کِسی حد تک (تا کہ زیادہ سختی نہ کروں) تم سب کو غمگین کِیا ہے۔ جو سزا اُس نے اکثروں کی طرف سے پائی ہے وہ ایسے شخص کے لیے بس ہے۔ برعکس اِس کے بہتر ہے کہ تم اُس کا قصور معاف کر دو۔ اور اُسے تسلّی دو تا کہ وہ غم کی کثرت کے باعث تباہ نہ ہو۔
اِس لیے مَیں تم سے عرض کرتاہوں کہ تم اُس کے ساتھ اپنی محبت ثابت کرو۔ کیوں کہ مَیں نے اِس واسطے بھی لکھا تھا کہ تمھیں جانچوں کہ تم سب باتوں میں فرماںبردار ہو یا نہیں۔
جسے تم کچھ معاف کرتے ہو اُسے مَیں بھی معاف کرتا ہوں کیوں کہ جو کچھ مَیں نے معاف کِیا ہے، اگر کِیا ہے تو مسیح کے حضور تمھاری خاطر کِیا ہے۔ تا کہ شیطان کا ہم پر کہیں داو نہ چلے، کیوں کہ ہم اُس کے حیلوں سے ناواقف نہیں۔
2۔ قرنتیوں…5:2تا11
کیوں کہ غم بحسبِ رضاے خدا نجات کے لیے ایسی توبہ پیدا کرتا ہے جس سے کبھی پچھتانا نہیں پڑتا۔ مگر دنیوی غم موت پیدا کرتاہے۔ پس دیکھو! تمھارے بحسبِ رضاے خدا غم نے تم میں کِس قدر سرگرمی اور عذر خواہی اور خفگی اور دہشت اور شوق اور غیرت اور انتقام پیدا کِیا ہے۔تم نے ہر طرح سے ثابت کر دیا ہے کہ تم اِس امر میں بے گناہ ہو۔ پس، اگر چہ مَیں نے تمھیں لکھا تھا مگر نہ ظالم کے باعث لکھا اور نہ مظلوم کے۔ بل کہ اِس لیے کہ تمھاری وہ سرگرمی جو ہمارے واسطے ہے خدا کے حضور تم پر ظاہر ہو جائے۔
اِس لیے ہم نے تسلّی پائی ہے اور اپنی تسلّی میں ہم طیطُس کی خوشی سے اور بھی زیادہ خوش ہوئے ہیں کیوں کہ اُس کی روح تم سب کے باعث تازہ ہوئی ہے۔
2۔ قرنتیوں…10:7تا13
خصوصاً اسے پاک یوخرست میں مکمل شرکت نصیب نہیں، نہ ہی اتحاد کا ساکرامینٹ اور نہ ہی محبت۔ اپنے بُرا کیے پر پچھتانے کی توفیق رکھنے والے یا والی مسیحی کو اپنے اعتراف کے عمل سے گذرنے کے ذریعے اپنی اس مصالحت و میل کی تجدیدکرنا لازمی ہے جو اُسے مسیحیت پر ایمان لاتے سمے شروع شروع میں مِل چکی تھی۔ اب اُسے واپس اسی سیدھی راہ کو اختیار کرنا ہو گا۔ خدا کے ساتھ نئے سرے سے رفاقت اُستوار کرنے کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ پھر سے اپنے بھائی بندوں سے تجدیدِ مصالحت کرے۔
یہی علامتی اظہار ہے، خدا کی طرف سے انسان کو اُس کی خطائوں سے جب بخشش مِل جاتی ہے تو کلیسیا سے بھی مصالحت کی راہیں اُس پر کھُل جاتی ہیں جو اُس کے گناہوں کی بے احتیاط ٹریفک سے ناہموار ہو گئی تھیں اُس پر۔ اب اعتراف و معافی کے بعد خدا کی مہربانیاں او راُس کی محبت اُسے واپس ایمان کا استحکام دینے کے لیے مددگار ثابت ہوتی ہیں او راُس کے گناہوں سے مجروح کلیسیا اُسے اپنے دامن میں پھر سے پناہ دے دیتی ہے اور ایسی ہی دیگر مثالوں کی طرح منفعل انسان پر واپس کلیسیا کی محبت اور دعائوں کی چھتری اُس کے سر پر تن جاتی ہے۔
(منشہورِ کلیسیاLumen Gentium 11)
مسیحی جماعتی سٹرکچر (ڈھانچا)اور توبہ و اعتراف پر کلیسیا کے حدود و اختیار کے ضمن میں پوری وضاحت ہو جاتی ہے جب ہم غور کرتے ہیں اس پر جو مقدس خداوند یسوع مسیح نے مقدس رسول پطرس سے کلام کِیا…
اور مَیں آسمان کی بادشاہی کی کنجیاں تجھے دُوں گا۔ اور جو کچھ تُو زمین پر باندھے گا وہ آسمان پر بندھا رہے گا اور جو کچھ تُو زمین پر کھولے گا وہ آسمان پر کھُلا رہے گا۔
مقدس متی…19-16
یہی کچھ ہم مقدس کلیسیا کے بارے میں بھی کہہ سکتے ہیں۔
’’ مَیں تم سے سچ کہتا ہُوں کہ جو کچھ تم زمین پر باندھو گے، وہ آسمان پر بندھا رہے گا۔ اور جو کچھ تم زمین پر کھولو گے، وہ آسمان پر کھلا رہے گا‘‘۔
مقدس متی…18:18
باندھنا اور کھولنا سے مُراد ہے کہ جس کِسی کو مسیحی برادری سے باہر کر دیں گے یعنی تم جسے مسیحی جماعت سے نکال دو گے، اُسے خدا بھی اپنے ساتھ سے محروم کر دے گا اور جسے تم اپنی کمیونٹی میں واپس لو گے، اُس پر اخراج کی پابندی ختم کر دو گے، خدا بھی اُسے اپنی رفاقت میں واپس قبول کر لے گا۔چناں چہ کلیسیا سے میل مصالحت خدا کے ساتھ ملاپ کی اہم کڑی ہے۔ قدیم کلیسیا میں توبہ و تلافیِ عام کی یہ روایت اِس کی واضح ترین مثال ہے۔ اِس حوالے سے گناہوں کی مغفرتِ عام کا یہ ساکرامینٹی قاعدہ کُلیہ جسے 1975عیسوی میں لازم کردیا گیا تھا، اس کے مطابق:
خدا تمھیں معاف کرے اور کلیسیائی دینی خدمت کے توسط سے معافی کے ساتھ سلامتی بھی عطا کرے!
ندامت، اعتراف، توبہ اور معافی تلافی کے ساکرامینٹ کی اپنی ایک طویل تاریخ ہے جو بتاتی ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ اِس میں کئی عملی تبدیلیاں بھی دَر آئیں۔ ایک دوطرفہ نوعیت کا طرزِ عمل اس ساکرامینٹ کا بنیادی روڈ میپ ہے جس سے پتا چلتا ہے کہ ایک طرف تو معافی تلافی کا ساکرامینٹ کلیسیا کی کارکردگی پر محمول ہے کیوں کہ کلیسیائی گروہ بشپ صاحبان اور پریسٹ حضرات کی رہبری میں مقدس خداوند یسوع کے نام پر گناہوں کی معافی عطا کرتا ہے،مناسب اور ضروری کفارہ اداکرنے کا حکم دیتا ہے، عصیاں کار کی فلاح کے لیے دُعا گو رہتا ہے اور نیابتی مددگاری میں اُس کے لیے گریہ و زاری ووکالت کرتا ہے اور پایانِ کار اُسے کلیسیا کے ساتھ مکمل شراکت (کمیونین) عطا کرتا ہے اور اُس کے گناہ بخش دیتا ہے۔معافی تلافی کا ساکرامینٹ بالکل ہی ذاتی عمل ہے اور لطوریائی ادائی جو توبہ و معافی کے سلسلہ میں کلیسیا کی طرف سے مبارک کارگزاری کی تقریبِ سعید بھی ہے ٹرینٹ کی کونسل کی طرف سے اِس امر پر ہدایات ہیں کہ کفارہ، کفارے کے طورپر ریاضت، یا عقوبتِ نفس تجویز کرنے کے موقع پر نادم گنہگار کی طرف سے اعترافِ گناہ، کفارہ وغیرہ بظاہر، مجموعی طور پر ساکرامینٹ کا ہی معاملہ و حصہ ہیں جب کہ گناہوں کی معافیِ عام جو پریسٹ صاحبان کی طرف سے عطا ہوئی وہ بھی توبہ و اعتراف کے مقدس ساکرامینٹ کی ہی نمایندہ ہے ۔بحوالہ:(NR 647-48, DS 1673) ۔ خدا کے ساتھ ملاپ اور کلیسیا کے ساتھ میل اس پاک ساکرامینٹ کا ہی پھل ہیں۔اس کے جِلو میں سلامتی آتی ہے، باضمیری کی مسرتیں اور روح کا آرام و اطمینان و سکون میسر ہوتا ہے۔ حوالہ:(DS 1764-1675, NR 649)
لیجیے اب قدرے تفصیل کے ساتھ توبہ یا اعتراف کے ساکرامینٹ کے اجزاے ترکیبی بیان کیے جاتے ہیں۔
متأسف و تائب کے لیے اپنے کیے پر پچھتاوے اور توبہ کے لیے اُس کے عزمِ صمیم کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ اُس کا یہ احساس کہ اُس کے گناہ کے سبب اُس کی روح زخم زخم ہو چکی ہے اور اُس گناہ کے خلاف اُس کے تنفر اُبھارنے والے جذبات اُسے شدت کے ساتھ ترغیب دے رہے ہوں کہ ایسے گناہ کا وہ آیندہ زندگی میں کبھی ارتکاب نہیں کرے گا، ایسی خفت اصل اور خالص ندامت کہلاتی ہے جب وہ خدا کی محبت میں انسانِ عاصی پر طاری ہو۔ تبھی ایسا ہوتا ہے کہ
موتی سمجھ کے شانِ کریمی نے چُن لیے
قطرے جو تھے مرے عرقِ انفعال کے
ایسے پچھتاوے تو روزمرہ کے اکثر گناہوں پر معافی کے خواستگار ہوتے ہیں۔ ایسی شرمندگی پر بھلا کسے ترس نہ آئے گا! بڑے سے بڑے گناہ بھی معاف ہو سکتے ہیں اگر منفعل شخص کی ایسی پشیمانی شامل ہو جائے اُس کے اِس مستحکم ارادے کے ساتھ جس کے تحت وہ ساکرامینٹی اعتراف کے لیے گرجا گھر دوڑا چلا آئے۔ البتہ ایسا تأسف ناخالص و ناپختہ ہو گا کہ معترف اِس بِنا پر اعتراف و معافی کے لیے آئے کہ گناہ کی ذلت و کراہت اُسے اعتراف کی جالی کے سامنے کھینچ لائی یا دائمی لعنت و ملامت اور عذابِ ابدی کے ڈر سے وہ بھاگا چلا آیا یا پھر سزا کے خوف کے باعث گناہ سے توبہ کا احساس اُس کے دِل میں اُجاگر ہوا اور وہ ڈرا سہما گناہ بخشوانے آگیا۔ عقوبتِ گناہ توبۃُ النصوح میں نہیں ڈھل سکتی۔ ضمیر کے جھنجوڑنے پر آمادگی محض خلوصِ نیت کی طرف لے جانے والا پہلا قدم ہے، یہ کئی اقدام بھی بن سکتے ہیں(369)اگر فضلِ ربی شاملِ حال ہو جائے اور گنہگار صدقِ دِل سے خدا کی رضا اور خوشنودی کا جویا ہو جائے، خدا کے حضور گناہوں میں لتھڑا ہوا پیش ہونے پر اُسے شرمندگی محسوس ہو، اپنے کردہ گناہوں پر خدا کی خفگی کا خوف اُسے لرزائے دے رہا ہو، گناہ کے ساتھ جُڑی اپنی زیادتیوں پر نادم ہو، مومن مسیحی کے بجاے مردود و معتوب مسیحی ہو جانے کا اُس کو خوف ہو، اِس لیے اپنی اصلاح چاہتا ہو، گناہوں پر سچے دِل سے تائب ہو کر معافی کا خواستگار ہو، آیندہ گناہوں سے بچنے کا وعدہ کرتے ہوئے خداوند یسوع پاک کے حضور روح القدس کو بیچ میں ڈالے اور مقدسہ بی بی پاک مریم کے وسیلے سے خدا باپ سے رحم و درگذر کی اپیل کرے تو اُس کے لیے کفارہ کے ساکرامینٹ والا درا بھی کھلا ہے۔
اُٹھ فریداؔ ستیا ، تے میلا ویکھن جا
جے کوئی بخشیا مِل جاوی تے آپ وی بخشیا جا
(cf. DS 1676-78, NR 650-651)
محض انسانی نقطہء نظر سے دیکھا جائے تو اعترافِ خطا میں مخلصی اور مصالحت کا پہلو سامنے آتا ہے۔ اپنے گناہوں کا اعتراف کرنے کے لیے آنے والا مسیحی اپنے گناہ آلود ماضی کو ضمیر کے آئینے میں دیکھ رہا ہوتا ہے، اِسی لیے وہ اس کی ذمہ داری قبول کرنے پر آمادہ ہوتا ہے کہ وہ جانتا ہے اس کا ذمہ دار وہی ہے کیوں کہ اُس نے ہی غلط راستے پر چلنے کا فیصلہ خود کِیا تھا۔ اب خدا کو حاضر و ناظر جان کر اپنے گناہوں کی کتھا بِلا کم و کاست اُس کے سامنے بیان کر دیتا ہے۔ کچھ بھی نہیں چِھپاتا اور سب کِیا کرایا اعتراف سننے والے کے بھی آگے دھر دیتا ہے۔ کلیسیا کی شراکت و رفاقت کے ناتے کلیسیا کے سامنے بھی اپنا ظاہر و باطن ایک کرتے ہوئے اپنے تمام عیبوں سے پردہ اُٹھا دیتا ہے۔ کچھ مخفی نہیں رہتا۔ وہ ایک نئی زندگی اور نئے مستقبل کا متلاشی ہے۔ چرچ ڈاکٹرائن کے مطابق ایسا اعتراف استغفار و پشیمانی کے پاک ساکرامینٹ کے لیے انتہائی اہم بل کہ ناگزیر ہے تا کہ رحم و جُود و سخا والے خدا مہربان کی اطاعت میں خود کو دے کر اُس کے کرم گُستری والے عدل کے سپرد ہونے کی توفیق پا لی جائے۔
(DS. DS 1679; 1706; NR 652; 665)
اِس لیے ضروری ہے کہ اپنے تمام گناہِ کبیرہ (اخلاقی تقصیریں) اپنی یادداشت پرپورا زور دیتے ہوئے پوری احتیاط اور صحت کے ساتھ قبول کر لی جائیں یوں کہ موقع محل، صورتِ حالات، گناہوں کی تعداد، ان سے منسلک خاص خاص باتیں، محرکات اور معمولی سے معمولی جزئیات بھی اعتراف کا حصہ بننے سے بچ نہ جائیں۔ صداقت کا دامن بھی ہرگز نہ چھُوٹے۔ وہی بات ہے کہ ناچنے ہی لگی تو گھونگھٹ کیسا۔
(cf. DS 1707; NR 666)
مجموعہء قوانینِ کلیسیا کے ذیل میں آتا ہے کہ مسیحیت پر ایمان رکھنے والے ہر مسیحی کے لیے جو بلوغت کی عمر میں داخل ہو چکا ہے اور ذی شعور ہے ضروری ہے کہ پورے خلوص اور سچائی کے ساتھ سال میں کم از کم ایک مرتبہ تو لازماً اپنے بڑے بڑے گناہوں کا اعتراف کرنے حاضر ہو جایا کرے تا کہ اُ س کی مخلصی کی سبیل تازہ ہوتی رہے۔
(CIC can. 989)
اکثر سرزد ہونے والے چھوٹے چھوٹے گناہ (گناہِ صغیرہ) جو ہمیں خدا کی رفاقت سے محروم نہیں کرتے اُن کا اعتراف کچھ زیادہ ضروری نہیں، انسان تو ہے ہی خطا کا پُتلا، چھوٹی چھوٹی تقصیریں جانے بوجھتے یا انجانے میں، نہ چاہتے ہوئے بھی اُس سے سرزد ہوتی رہتی ہیں مگر ان کے لیے بھی کلیسیا کی طرف سے سفارش کی جاتی ہے کہ اپنے مفاد میں ان کا بھی اعتراف کر کے معاف کروا لی جائیں۔ بوند بوند ہی سمندر بنتا ہے ۔ اِس لیے احتیاط ہی بھلی اور اِس سے بھی بھلی بات یہ ہے کہ ننھے ننھے گناہوں سے بچتے ہی رہنا چاہیے۔ کوشش کر دیکھنے میں بھلا کیا حرج ہے۔ زہد، عبادت، خداپرستی میں عقیدتمندانہ اعتراف شخصی کشادہ ضمیری کے استقلال اور روحانی زندگی کی کشیدو ارتفاع کے لیے ایک طرح کی الٰہی نصرت کا درجہ رکھتے ہیں۔ ان کے لیے کلیسیا کی طرف سے بہت زور دیا جاتا ہے اور یہ بھی سفارش کی جاتی ہے کہ کلیسیائی سال کے استغفاری ایام میں تو ضرور پُرخلوص توبہ کے ذریعے معافی و مخلصی کے بہتے دریا میں غوطہ زن ہونے میں کچھ پس و پیش نہ ہونی چاہیے۔ کم از کم اتنا تو ہر مسیحی کر سکتا ہے نا، کیا گنہگار کیا کم قصور وار۔
بحالی کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ جہاں تک ممکن ہو مناسب طریقے سے گناہ سے پہنچنے والی تکلیف، پریشانی، رنجیدگی اور نقصان کی تلافی عمل میں لائی جائے (مثلاً چرائے ہوئے مال کی واپسی، الزام تراشی سے بدنام کیے گئے لوگوں کی اچھی شہرت کی بحالی وغیرہ)۔ بحالی تو ایک مشق ہے نئے طرزِ زندگی کو متعارف کروانے اور اپنانے کے لیے راغب کرنے کی خاطر۔ یہ بے بسی، ناچاری اور کمزوریوں کا توڑ ہے۔ اصل بحالی جہاں تک ہو سکے گناہوں کی شدت، ان کے خواص و اقسام اور نتائج کو سامنے رکھتے ہوئے ان کے مطابق عمل میں آنی چاہیے، دعائوں پر مبنی ہو سکتی ہے۔ ایثار، نفس کشی، دست برداری، خدمتِ خلق، دوسروں کی دیکھ بھال اور مخیرانہ، رحمدلانہ و ہمدردی کے اعمال پر منحصر ہو سکتی ہے۔ ایسی بحالی کا قیام کوئی بڑی کارگزاری نہیں جو کِسی فردِ واحد کی مساعی کا نتیجہ ہو جو اُ س کی اپنی عاقبت کے خود غرضانہ سدھار کے لیے اُس نے جاری رکھی ہوں تا کہ اُس کی اپنی مکتی کا سبب بنیں۔ جب کہ مکتی تو انعام ہے، پھل ہے اور نشان ہے شرمساری سے توبہ کرنے اور معافی مانگنے کا، اور وہ بھی تبھی ممکن ہے جب توبہ استغفار کی خدا توفیق بخشے اور وہ مؤثِّر ہو روحِ خداوندی کے ذریعے(370)۔ معافی تلافی کے پاک ساکرامینٹ کے دوران پریسٹ کی طرف سے کہی گئی عام معافی محض دعویٰ، اعلان ہی نہیں ہوتی اور نہ ہی انجیلِ مقدس والی گناہوں سے معافی کی منادی نہ ہی یہ بیان کہ بس خدا نے تمام گناہ معاف کر دیے۔ اس پر کلیسیا کی تعلیمات و نظریات اس بات کے متقاضی ہیں کہ یہ تو کلیسیا میں دوبارہ شمولیت کا واسع فیضان ہے جس کا گنہگار نے اعتراف و معافی کے بعد استحقاق پایا۔ یہ تو پرکھ و انجام ہے، اور انعامِ خاص ہے جسے عطا کرنے کا اختیار اسے حاصل ہے جو خداوند یسوع المسیح کے مقدس نام سے کلیسیا کی مکمل شراکت و رفاقت میں اس مسیحی کو شامل کرنے کی اجازت بخشتا ہے۔(cf. DS 1685; 1709-1710; NR 654; 668-669)ندامت بھری پشیمانی، اعتراف و توبہ کا ساکرامینٹ، بہر طور،ایک ترس و رحم والا فیصلہ ہے جس میں مہربان و کرم کرنے والا خدا باپ روح القدس میںخود گنہگار کو خدا بیٹے کے مرنے اور دوبارہ زندہ ہونے کے وسیلے سے اپنے خاص فضل و کرم کا سزاوار ٹھہراتا ہے۔ اِسی طرح اعتراف سننے والا ایک منصف و فیصلہ ساز کا کردار ادا کرتے ہوئے عصیاں کے مرض میں گرفتار مسیحی کے لیے ایک طبیبِ حاذق ثابت ہوتا ہے۔ اُس سے یہی توقع ہوتی ہے کہ وہ ایک محبت کرنے والے باپ اور دردمند بھائی کی طرح گنہگار سے پیش آئے۔ وہ مقدس خداوند یسوع مسیح کی نمایندگی کرنے والے منصب پر فائز ہوتا ہے، اُس خداوند بلند ایثار کا نمایندہ ہوتا ہے جس نے گنہگاروں کے لیے ہی تو اپنے پاک خون سے صلیب کو سینچا تھا جس کی بِنا پر صلیب کو بھی تقدیس مِلی۔ اِس لیے اُس پر فرض ہے کہ وہ دعوے کے ساتھ معترف پر واضح کرے خداوند ِاقدس کے گناہوں سے مخلصی کے پیغام کوجس کے فدیہ میں وہ گناہوں سے پاک ہوا۔ اور اُس کے حیاتِ نو میں داخل ہونے پر اُسے نصیحتوں سے مستفید کرے اور اُس سے تعاون کرے کہ نئی اور گناہوں سے مبرا زندگی کا وہ احترام کرتے ہوئے ایک مومن مسیحی کی زندگی جیے۔ وہ اسے دعا دے اور اِس کے لیے اس کے پچھتاوے اور گناہوں سے آیندہ باز رہنے کے عزم پر اس کے لیے اپنے نائبیت کے منصب کے لیے خداو خداوند کی بارگاہ میں اس کی زمینی و دائمی آسمانی زندگی میں بھلائی کی التجائیں گزارے۔ اور آخرِ کار اس کے تمام گناہوں پر اُسے معافی دے دے مقدس خداوند یسوع مسیح کے نام پر۔
1974عیسوی کی ترمیمِ استغفاری کی موجب ساکرامینٹی تقریبِ معافی و تلافی کی تین اشکال وجود میں آئیں:
پہلی شکل: شخصی مصالحت کی تقریبِ سعید
یہ ایک طرح سے ساخت میں لطوریائی نوع کی تقریب ہے جو منائی جاتی ہے۔ پریسٹ کی طرف سے استقبال و خوش آمدید، بائبل مقدس کی تلاوت، اعترافِ گناہ، کفارہ عائد کرنا یا عقوبتِ نفس تجویز کرنا۔ دُعا، پریسٹ کا ہاتھ پھیلا کر عام معافی کا اعلان اور اس کے بعد شکر گزاری دینا اور پریسٹ صاحبان کی نیک تمنائوں اور دعاؤں کے ساتھ لطوریائی برخاستگی اس تقریب کی ترتیب ہوتی ہے۔ چوپانی وجوہ کی بِنا پر پریسٹ صاحب رسوم کے کچھ لوازم چھوڑ بھی سکتا ہے یا بعض رسموں کو مختصر بھی کر دینے کا مجاز ہے۔ تاہم یہ ضروری ہے کہ رسم کے مندرجہ ذیل حصے برقرار رکھے جائیں گے۔
گناہوں کا اعتراف اور کفارے کی عائدگی اور ادائی کا اثبات۔ پشیمانی و تأسف کے ساتھ توبہ کی قبولیت کی درخواست، عام معافی ’’خدا باپ کے نام پر، خدا بیٹے اور روح القدس کے نام پر مَیں تمھارے گناہوں پر تمھیں مخلصی دیتا ہوں‘‘۔ عملی طور پر بہ ہرکیف معافی تلافی کے ساکرامینٹ کی یہ نئی شکل عمومی طور پر اختیار نہیں کی جاتی۔
دوسری شکل: منظم و متحدہ و مستند شخصی معافیِ عام کی مصالحتی تقریبِ سعید
یہ شکل مشتمل ہوتی ہے، فرد کے اعتراف پر، اور متحدہ طور پر یہ تقریب منائی جاتی ہے عام معافیِ گناہ کی تیاری کے نقطہء نظر سے اور پھر متفقہ طورشکرگزاری کے لیے۔ تلاوتِ بائبل مقدس اور انجیلی خطبہ کے ساتھ نتھی کر دیا گیا ہوتا ہے فرد کے اعتراف کو لطوریائی عبادت میں اورجماعتی ضمیر کو منظم طور تلاشا جاتا ہے اور پھر مجموعی طور پر سبھی اپنے اپنے گناہوں کا اعتراف کرتے ہیں، دُعا ہوتی ہے، خداوند ِ اقدس کی دُعا و عبادت اور پھر متحدہ طور سب مِل کر شکرگزاری دیتے ہیں۔ یہ اجتماعِ عام کی تقریب کارپوریٹ چرچ کو ایک کِردار بنا دیتی ہے جس کا کام پشیمانی و توبہ قبول کرنا ہوتا ہے۔ (371)
تیسری شکل: اعترافِ عام اور معافیِ عام کے ساتھ عمومی مصالحتی تقریب کا متحدہ طور منایا جانا
اِس شکل کی تقریب کی تب اجازت دی جاتی ہے جب فوری ضرورت کو سبب بنا کر درخواست گزاری جائے۔ موت فوت کی بدخبری سے ہٹ کر، ایسی ضرورت تبھی پیش آتی ہے جب اعتراف کرنے والوں کی تعداد معقول حد سے خاصی کم ہو۔ فرد فرد کا الگ الگ اعتراف مناسب طریقے سے پورے طور سننا اپنے لیے اور مجمع کے دیگر لوگوںکے لیے تضیعِ اوقات کا سامان مہیا کرنے والی بات بن جانے کا خدشہ درپیش ہوتا ہے ورنہ تو وہ بیچارے اپنی کِسی کوتاہی سے نہیں بل کہ مجبوری کے تحت بیٹھے رہیں گے اور طویل تقریب میل و مصالحت اُنھیں برداشت کرنا پڑے گی۔ نہ انھیں پاک ساکرامینٹ کی برکت ملے گی، نہ پاک شراکت، عشاے ربانی۔ تصور پیش از وقوع قائم کِیا جا سکتا ہے کہ اعتراف کرنے والوں کی کم تر تعداد اس پر آمادہ ہو سکتی ہے کہ اپنے گناہ ہاے کبیرہ کا اعتراف جتنا ہو سکتاہے جلدی جلدی کر کے فارغ ہوں، باری باری آئیں اور یہ جا وہ جا۔ اور باقی مجمع دیگر رسوم کی ادائی کی طوالت میں پھنسا رہے۔ تقدس مآب بشپ کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ دیکھے پرکھے اور فیصلہ کرے کہ فوری ضرورت کا کوئی حق بجانب جواز موجود ہے بھی سہی یا نہیں، چناں چہ وہ دوسرے اراکین سے بھی مشاورت کرے گا جن کا تعلق بشپس کانفرنس سے ہوتا ہے۔ (cf. CIC can. 961)۔ حال ہی میں جرمن بشپس کانفرنس نے تو ایسی کِسی ضرورت کی اُفتاد کو مسترد کر دیا ہے جس کے پیشِ نظر اجتماعی اعتراف و معانی کا واقع ہونا قبول کِیا جائے، ہاں اس صورتِ حالات کو اُنھوں نے بھی قابلِ استثنا قرار دیا ہے کہ کوئی ایسے حادثہ کی خبر آجائے جس میں بہت سے مومن مسیحیوں کی اموات واقع ہو جائیں۔ پھر صف فوری اور جلدی لپیٹی جا سکتی ہے۔
شرمساری سے گناہوں کا اعتراف، توبہ اور معافی کی متبرک تقریبات منانے کے تینوں ساکرامینٹی روپ۔ اگر ذرا باریک بینی سے ان پر راے دی جائے تو یہ پچھتاوے، استغفار و مغفرت طلبی کی عبادات سے مختلف تر ہیں۔ اپنے گناہوں پر نادم ہو کر توبہ و استغفار کی عبادات طریقِ اظہارِ خصوصیت ہیں۔ اس تجدیدِ تبدیلیِ مذہب کا جو غیر مسیحیوں کو مسیحی بنانے کے لیے بپتسمہ دے کر ادا کی جاتی ہے۔ ان عبادات اور دعائوں کے لیے بندگانِ خدا یعنی خدا کی اُمت کے لوگ خدا کا کلام سننے کی سعادت پانے کے لیے اکٹھے ہوتے ہیں جس میں مسیحیت قبول کرنے کی دعوت اور حیاتِ نو کی تجدید کی خوشخبری ہوتی ہے اور گناہوں سے چھٹکارے کی نوید بھی کہ یہ مخلصی مقدس خداوند یسوع مسیح کی موت اور پھر مُردوں میں سے زندہ ہونے کے وسیلہ سے عطا ہوئی۔ ندامت کی یہ عبادت اس ترتیب میں وارد ہوتی ہے:
تعارف (گیت، خطبہء استقبالہ اور دعا)۔ کلامِ مقدس کی تلاوت اور وقفوں وقفوں میں موقع محل کی مناسبت سے حمدیہ گیت یا عقیدتمندانہ خاموشی اختیار کی جاتی ہے۔ پھر انجیلی خطبہ صادر ہوتا ہے اور اس مبارک وعظ کے بعد عبادت گزاروں کی موجود جماعت کے ضمیر کو مِن جملہ طور ٹٹولا جاتا ہے اور گناہ گاروں کے گناہوں پر عفو و درگذر کے لیے دُعا کی جاتی ہے جس کے اثر سے محفل پر گریہ و زاری طاری ہو جاتی ہے، ایسے موقع پر خصوصی طور پر پاک خداوند والی دعاے ربانی کو وسیلہء شرف یابی بنایا جاتاہے۔ لیکن گناہوں کی عام مغفرت، معافی کا اعلان نہیں کِیا جاتا۔ یہ ساکرامینٹ اِس عبادت کا حصہ نہیں۔ اِس لیے پچھتاوے و توبہ کی ان عبادات کو اعتراف و گناہوں کی معافی والی ساکرامینٹ کی تقریب میں خلط ملط نہ کِیا جائے، دونوں کا دارئہ کار اور مؤثِّر ہونے کا عمل اپنا اپنا، الگ ہے۔ انھیں گڈ مڈ نہیں کِیا جا سکتا۔ یہ بہ ہرحال مفیدِ مطلب ہیں براے تبدیلیِ مذہب اور دِل کی تطہیر، پاکی و صفائی کے لیے۔یہ مسیحی معافی تلافی کی روح کو تازہ اور محرک رکھتی ہیں اور مسیحی ایمان داروں کے لیے ان کے شخصی اعتراف پر آمادگی کی تیاریوں میں ممد و معاون ثابت ہوتی ہیں نیز استغفار کے کارپوریٹ کردار کی سوجھ بوجھ میں عمق پیدا کرتی ہیں اور خاص طور پر بچوں کی اِس طرف آمادگی کی ترغیب و اشتیاق کے سلسلے میں نمایاں خدمات ادا کرتی ہیں۔ واقعی اگر نیت میں خلوص اور پختگی ہو اور جان و دِل سے بندہ مسیحیت قبول کرنے پر آمادہ ہو، اس کی ہیئتِ قلبی ہو چکی ہو اور اپنے گناہوں پر تأسف اور آیندہ کے لیے گناہوں سے بچنے کا پُختہ ارادہ رکھتے ہوئے معافی و مغفرت کا طلبگار ہو تو قابلِ درگذر چھوٹے موٹے گناہوں اور قابلِ معافی معمولی قسم کے گناہوں پر اُسے عفو سے فوری نوازا جا سکتا ہے جب معافی تلافی کی عبادات کا فیض حاصل کِیا جا رہا ہوتا ہے۔ اس وقت مؤثِّر وسائلِ نجات دسترس میں ہوتے ہیں۔
کھیتوں کو دے لو پانی اب بہہ رہی ہے گنگا
کچھ کر لو نوجوانو ! اُٹھتی جوانیاں ہیں
ندامتی، تائبانہ و مستغفرانہ لمحوں کے دوران رحمتِ باری تعالیٰ جوش میں ہوتی ہے، ایسی تقریبات منعقد کرنا اور عبادتوں کا قیام عمل میں لانا ہر پیرش کی خدماتِ دینی کا اہم حصہ ہونا چاہیے۔ پینیٹینشل سیزنز میں معافی و قبولیت کے دَر وا ہوتے ہیں۔ اُمتِ مسیحی کو اس موقع سے فائدہ پہنچانے کے لیے تمام پیرشوں (حلقوں) کو مستعد و مصروفِ عمل ہو کر مسیح خداوند میں برکت و فضل سے سرشار ہونے کی سعادت حاصل کر لینی اپنی، دِین کی اور مسیحی برادری کی فلاح کا کارِ ثواب ہے۔
(cf. Gem. Synode, Schwerpunkte heutiger Sakramentenpastoral C 4). (Katholischer Erwachsenen-Katechismus, Vol 1, p. 367-371)