:سوال نمبر197
۔ سائینس دانوں نے حساب لگایا اور بتاتے ہیں کہ ہماری یہ زمین لگ بھگ پانچ بلین سال گذرے جب وجود میں آئی اور انسان کی موجودگی زیادہ سے زیادہ قرائن سے، یہی بنتی ہے کوئی ایک یا دو ملین برس بس۔ بائبل بتاتی ہے کہ زمین کی تخلیق میں خدا نے چھے دِن صَرف کیے۔ تو کیا واقعی خدا اپنے کاموں میں اس قدر سُست رفتار ہے؟
جواب:
۔اِس سوال میں متعلقہ مفروضے کی بنیاد اس غلط فہمی کو بنایا گیا ہے جو مقدس بائبل کی تخلیقِ ارضی کے بارے میں بیان کو کماحقہ‘ نہ سمجھتے ہوئے پیدا ہوئی اور پھر خواہ مخواہ اس کو غلط معانی پہنا دیے گئے۔تخلیقی حقیقت کے ضمن میں بائبل مقدس میں ایسے کِسی ارادے کا اظہار نہیںمِلتا کہ وہ سائینٹفک اعداد و شمار یا اس کے تحقیقاتی نتائج کے بارے میں اطلاعات فراہم کرنے والی کتابِ معلومات کہلائے۔ تخلیق کے سلسلے میں کتابِ مقدس کی آیاتِ مبارکہ کا تعلق انسانوں اور خاص طور پر مسیحیوں کی زندگی کے اصول و قواعد پر مبنی ہے۔ پتا نہیں کب سے انسانوں کے ذہنوں میں عجیب عجیب سوالات کُلبلاتے رہے ہیں اور وہ پوچھتے چلے آرہے ہیں، ان کے جوابات، تسلّی بخش جوابات ہیں جو مسیحی عقائد کے تحت اس مقدس کتاب میں دُہرائے گئے ہیں۔ انسان نے ہر دور، ہر زمانے میں پوچھا ہے کہ ہم کون ہیں؟ کہاں سے آئے؟ ہمارا مقصدِ تخلیق کیا ہے؟ ہمیں پیدا تو کر دیا گیا مگر ہمارا انجام کیا ہے؟ دنیا میں کیا ہم ویرانے آباد کرنے آئے؟ سبب؟ اور ہمارا نقطہء آغاز کیا ہے؟ یہ دنیا، یہ سب کچھ کیا ہے، کیوں ہے؟ انسان کہاں سے آیا، کیسے آیا، آیا تو دنیا میں ہی کیوں؟… اور اسی نوع کے بے شمار دیگر سوال۔ مقاصد کے لحاظ سے آغاز اور انجام کے دونوں سوال ایسے ہیں جنھیں ایک دوسرے سے جُدا کر کے نہیں دیکھا جا سکتا۔ بہت اہم سوال ہیں اور ان کے جواب بھی اہمیت میں اُن سے کم ہرگز نہیں کیوں کہ ہماری زندگیوں کی معنویت، مقصدیت اور سمت انہی میں پنہاں ہے۔ ہم یونہی بیکا رہیںیا بیگار میں محض آبادکاری کے لیے اس زمین پر نہیں بھیجے گئے۔ ورنہ تو ہم اُگے نہیں پیدا ہوئے۔ نہ ہی یہ بات ہے کہ بس پیدا کر دیے گئے، پلیں بڑھیں، محنت کریں، کھائیں پییں، جیسی تیسی زندگی گزاریں او رمر جائیں۔
یہ ابتداے آفرینش، یہ تخلیقِ کائنات و بنی آدم، یہ دنیا یہ زمین کیسے وجود میں آئی، ایسے موضوعات ہیں جن پر سائینس ایک عرصہ سے تحقیقی کام میں مغز ماری کر رہی ہے، اسے خاصی کامیابیاں بھی مِلی ہیں، فطرت کے راز ہاے سربستہ انسان پر کھُلنے لگے ہیں، ہماری اس کائنات کے حجم، وزن، عمر کے بارے میں ہماری معلومات میں سائینسی علوم و تحقیق نے خاطر خواہ اضافہ کِیا ہے۔ زندگی کی مختلف شکلیں بن سنور کر سامنے آئی ہیں، طرزِ حیات میں ترقی ہوئی ہے۔ انسان کی کیمسٹری کا علم ہوا، پیدایش کے بارے میں پتا چلا اور آسانیاں پیدا ہوئیں، میڈیکل سائینس نے بہت فائدے پہنچائے۔ وقت قابو میں آیا، فاصلے کم ہوئے، دنیا گلوبل ویلج بن گئی۔ دریافتوں اور ایجادوں کی بھرمار نے صانعِ قدرت کے ہمیں اور بھی نزدیک کر دیا۔ خدا کی عظمت اور اس کی کبریائی کے ہم پہلے سے بھی زیادہ قائل اور احسان مند ہوئے اور اُس نے ہمارے سائینسدانوں، ماہرین، انجینئروں، ڈاکٹروں، عالموں، پروفیسروں کو علمی فضیلت، گہرائی اور دانش عطا فرمائی اِس کے لیے ہم عطاے ربانی کے شکرگزار ہوئے۔
اِس تحقیق میں بظاہر جو وجہِ اشتیاق ہے اس کا محرک ایک اور ہی طرح کا سوال ہے وہ اُس سائینس سے مختلف نوعیت کا ہے جس کا تعلق اشیاء یا مظاہرِ فطرت سے ہے۔ جیسے حیاتیات، ارضیات وغیرہ یعنی طبیعی سائینس سے بل کہ اِس سے بھی ماورا۔ یہ محض اِس سوال پر مکتفی نہیں کہ کب اور کیسے یہ مادی دنیا، یہ کارخانہء قدرت وجود میں آیا یا لایا گیا اور انسان اِس کائنات میں کب اور کیسے نمودار ہوا، بل کہ اصل سوال یہ ہے کہ کھیکن پالا ہی کیوں گیا، کیا مقصد تھا اِس سب کچھ کے وجود میں آنے یا لانے کا، بھلے یہ سب کچھ حادثاتی طور ظہور میں آگیا، اتفاقاً ایسا ہو گیا، یا اس کے لیے بے نام سی کوئی ضرورت پیدا ہو گئی، یا پھر وہی بات کہ یہ کِسی کی کمال ذہانت کا کرشمہ ہے۔ وہ کون ہے جس کی کمالِ ذات کا کمال کرشمہ ہے یہ؟ وہ کمال احسن، اکمل و عظیم ہستی وہی ہے جو خدا قادرِ مطلق ہے، عظیم و برتر، خالق و رازق ہے۔ اب ایک اور سوال سامنے آتا ہے، یہ کہ اگر یہ دنیا خدا ارفع و اعلیٰ کی الٰہی ذہانت اور ربانی کرم گُستریوں کا نتیجہ ہے، اس کی نیکیوں اور احسانات کی مرہونِ مِنّت ہے تو دنیا میں بدی، بُرائی کہاں سے ایجاد ہو گئی؟ کون ذمہ دار ہے؟ اور کیا اس سے چھٹکارے کی کوئی صورت سبیل بھی موجود ہے یا نہیں؟
(Cathechism of the Catholic Church, Vol 1, Nos. 282-284)
اِس ساری تخلیق کے بارے میں بائبل مقدس میں کیا فرمایا گیا ہے، اِس کے بارے میں جو بھی ارشاد ہوا اُس کا صحیح ادراک ہم کیسے کر سکتے ہیں؟ یہ بھی سوال جنم لیتا ہے۔
مبارک عہد نامہء قدیم میں ایک جگہ نہیں بل کہ دو جگہ بیان آیا ہے: ’’آسمان اور زمین کی پیدایش‘‘…
ابتدا میں خدا نے آسمان اور زمین کو خلق کِیا اور زمین ویران اور سنسان تھی اور گہراو کے اوپر اندھیرا تھا۔ اور رُوحِ خدا پانیوں پر جنبش کرتی تھی اور خدا نے کہا کہ روشنی ہو اور روشنی ہوئی۔ اور خدا نے دیکھا کہ روشنی اچھی ہے اور خدا نے روشنی کو تاریکی سے جُدا کِیا۔
تکوین…1:1تا 4
اور…
جس دن خداوند خدا نے آسمان اور زمین کو بنایا تھا تو زمین پر میدان کی اب تک کوئی جھاڑی نہ تھی اور نہ کھیت کی کوئی سبزی اُگی تھی، کیوں کہ خداوند خدا نے زمین پر پانی نہ برسایا تھا۔ اور زمین کی کھیتی کرنے کے لیے انسان نہ تھا۔ مگر زمین سے رطوبت اُٹھتی تھی جو تمام رُوے زمین کو سیراب کرتی تھی۔ اور خداوند خد ا نے زمین کی مٹّی سے انسان کو بنایا اور اُس کے نتھنوں میں زندگی کا دَم پھُونکا اور انسان جیتی جان ہوا۔
تکوین…(b 4:2 تا7)
خدا خالق پر ایمان کے وسیلے سے سبھی اِس حقیقت کو تسلیم کرتے ہیں، بس یہ ہے کہ اپنے اِس ایقان کا اظہار کرنے کے اُن کے طریقے اپنے اپنے ہیں۔ ایک بات اور منکشف ہوتی ہے کہ تکوینِ کائنات کے تجرباتی حصولِ علم اور تجربیت کے عملی ثبوتوں وغیرہ کی معرفت سے نہ تو بائبل مقدس کو کوئی سروکار ہے نہ دِلچسپی وہ تو اُس ایمان اور عقیدے کو تقویت دیتی ہے کہ تکوینِ عالم کا آغاز و جواز سب خدا قادر کے قبضہء قدرت میں ہے کہ وہی مالکِ کائنات ہے۔
اب، مختصر مختصر مگر جامع طور پر تکوین کے سلسلہ میں ہم آپ کو چند حقائق سے باخبر کرتے ہیں:
شروع شروع میں خدا نے آسمانوں اور زمین کو تخلیق کِیا۔ زمین میں کوئی ترتیب نہ رکھی، ناہموار، خالی خالی اور ویران تھی، گہرائیوں میں اندھیرا بھرا تھا اور روح الحق پانیوں پر منڈلاتی، چکر لگاتی اور وہیں اس کا بسیرا تھا۔ تب خدا نے حکم صادر کِیا کہ زمین پر روشنی پھیل جائے اور وہ پھیل گئی، خدا کو روشنی بھلی لگی اور اس نے روشنی سے تاریکی ہمیشہ کے لیے دُور کر دی۔ مقدس بائبل میں شامل پہلی کتاب تکوین کے پہلے باب کی ایک تا چار آیات میں آپ کی نگاہیں درج بالا سطور میں روشن ہو چکی ہیں۔ نہیں، تو غور سے دوبارہ تلاوت کیجیے۔
الٰہی تخلیق کے اِس کرشمے سے ہمیں مزید آگاہی مِلتی ہے کہ اپنی تخلیق کے اِس شاہکار کو خدا نے کیوںکر سات دِنوں میں تکمیل کو پہنچایا۔ منتہاے کمال انسان کو چھٹے روز خلق کرنا تھا، سو کِیا گیا۔ اور بالآخِر…
…اور خدا نے اُن سب چیزوں پر جو اُس نے بنائی تھیں نظر کی اور دیکھا کہ بہت اچھی ہیں۔ پس شام ہوئی اور صبح ہوئی یعنی چھٹا دِن۔
تکوین…31:1
(کاتھولیشیر ایرواخزینین۔ کاٹیچسمُس، بانڈ1، پی 94ایف)
یہ (قسیسانہ) بیانِ احوال مستحکم و جامع و معتبر جوازات مہیا کرتا ہے ان تمام چیزوں کے بارے میں جو خامیوں سے پاک الٰہی منصوبہ بندی سے فقط ایک ہفتہ کے اندر اندر مکمل کر لی گئیں سبت، ہفتے کے ساتویں، آرام کے دِن تک تمام جزئیات تک سے خدا فارغ ہو چکا تھا۔
جب جب، جو جو، جیسے جیسے، خدا فرماتا گیا، اُسی کے مطابق سب کچھ وجود میں آتا چلا گیا۔ انسان کو عزت و وقار دینے کے لیے خدا نے اسے اپنے ہی عکس کے طور پر تخلیق کِیا اور اپنے اِس اوجِ کمال کو مخلوقات میں اشرف ہونے کا مقام بھی عطا کر دیا۔ یہی اس کی کُل تخلیق کا نقطہء عروج تھا۔ علوم ابھی تشنہء دریافت تھے، سائینس صدیوں نہیں ہزاریوں دُوری کے فاصلہ پر تھی جب بائبل مقدس نے ابتداے آفرینش کی تاریخ کے اوراق پلٹے اور دنیا کا منظر نامہ آنے والی نسلِ انسانی کے سامنے پیش کِیا۔ کتابِ مقدس میں دی گئی تفصیل اور جدید علومِ سائینسی کی کاوشوں سے سامنے لائی گئی نئی نئی دریافتوں کے احوال میں سنجوگ نہیں ڈھونڈا جا سکتا، توافق و تطابق تلاش کرنا بھی نہیں چاہیے، بل کہ یہ تمام تر داستان گوئی کہ جس پر وقت کی مُہرِ تصدیق ثبت ہے مکاشفہ ہے اُس معتبر و صادق ازلی ابدی حقیقت کا جو محض اُس ہستیِ مطلق کا اقرار ہے جو خدا ہے، ماوراے حدودِ عقل خدا۔ جب کچھ بھی نہ تھا، وہ تھا، تب بھی اب بھی اور ہمیشہ وہ بالا، ارفع و اعلیٰ تھا، ہے اور رہے گا۔ جو موجود ہے وہی اُسے وجود میں لایا، خالقِ کائنات ہے۔ ربِّ مخلوقات ہے اور ساری کائناتِ الٰہی اُسی کے دم سے قائم ہے۔
(New Jerusalem Bible, p. 15, footnote on Genesis 1: 1-2, 4a)
ایک کہانی اور بھی ہے، تکوین کی قدیمی کہانی جو خاصی مختلف ہے۔ اس میں انسان کو خدا کا کسبِ کمال نہیں کہا گیا، اسے تخلیقاتِ خداوندی میں مرکزی مخلوق بیان کِیا گیا ہے۔ اُس کی اِس مرکزی حیثیت سے مقابلے میں ساری دنیا کی تخلیق کا جامع مگر اختصار کے ساتھ ذکر سا کر دیا گیا ہے جب کہ صنّاع قدرت نے جب انسان کو اپنی تخلیق کا نچوڑ بنایا تو اس کے بارے میں تفصیل کا کوئی پہلو اپنے بیانِ الوہی سے باہر نہ رہنے دیا۔
مقدس خداوند نے جب زمین بنا لی، بِلا ستون آسمان قائم کر لیے… خداوند خدا اقدس نے انسان کو وجود میں لانے کی ٹھان لی۔ زمین وجود میں آ چکی تھی، اس کی خاک سے انسان کی تجسیم ہوئی… اس میں اپنا دَم پھونکا جس سے اس کی زندگی کے سانس چلنے لگے اور وہ جاندار ہوگیا۔ یہ تفصیل آپ کی نظر سے بحوالہ تکوین…b 4:2تا7میں گذر چکی ہے۔
جو کچھ کہ ہے، اس سب کچھ کے وجود میں لانے کی دونوں کیفیاتِ بیاں اپنے اپنے دور کے ڈِکشن میں منکشف کی گئی ہیں اور اسی زمانے کے ثقافتی تصورات کی وضاحت سے ہی کام لیا گیا ہے اور اس کی جو صورت سامنے آتی ہے عصرِ حاضر میں گو ہمیں عجیب سی محسوس ہوتی ہے مگر یہ بات پیشِ نظر رہنی چاہیے کہ اس ضمن میں جس متن کو سامنے لایا گیا ہے وہ زمانہء قدیم کا جو منظر نامہ تھا اس کا نتیجہ ہرگز نہیں۔ بل کہ وہ ہے جو ماحصل ہے خدا کی اس سیدھی راہ کا جو اس کے بندوں یعنی اسرائیلیوں کے لیے پسند کی گئی تھی اور اس سے مکاشفے اور دین و عقیدے کی صداقتوں کی ترجمانی ہوتی تھی۔[…] تخلیق کے عمل کی تو شروعات سے ہی کُلیّت و کمالِ تکمیل کی تنظیم کر دی گئی تھی۔ تکوین کی کہانی کے آغاز میں ہی عیاں ہو گیا تھا جب اس میں یہ ذکر آیا کہ دنیا اور انسان کی تخلیق کا عمل مکمل ہوا تو عین ساتویں دِن خدا نے کوئی کام نہ کِیا، اسے آرام کے دِن کے طور پر لیا۔
اور خدا نے ساتویں دِن اپنے کام سے جو کر چکا،فارغ ہوا اور اس نے ساتویں دِن اپنے سب کام سے جو کر چکا، آرام کِیا۔
تکوین2;2
اس کا یہ مطلب نہیں کہ خدا اپنے کام سے تھک گیا۔ بل کہ یہ بات یوں ہے کہ تخلیق کا مقصد اور اس کا انجام یوم السبت ہے، خدا کی تنویر، تمجید و حمد و ثنا کا دِن۔ اسی لیے مقدس رسول پولوس نے لکھا کہ ساری خلقتِ ربِّ جلیل دلی آرزو کے ساتھ چشم براہ ہے اشتیاق اور بیتابی میں، جیسے اس کے پیٹ میں مروڑ اُٹھ رہے ہوں، ایسے جیسے خواتین دردِ زہ سے گذرتی ہیں، اسی طرح مخلوق بل کہ مخلوقات، کائنات، خدا کے بیٹوں کے ظہور پُرنور کی منتظر ہے اور اس کے تن بدن میں ایک اُمید، حیرت، بے چینی اور انتظار کی وجہ سے ہلچل مچی ہے کہ وہ آنے والے ہیں، شان و تمکنت کے ساتھ خدا کی عظیم سلطنت کے قیام کی تکمیل کرنے…
کیوںکہ خلقت کمالِ آرزُو سے خُدا کے فرزندوں کے ظاہر ہونے کی راہ تکتی ہے۔ اِس لیے کہ خلقت بطّالت کے تابع ہے، اپنی خُوشی سے نہِیں بل کہ اُس کے سبب سے جس نے اُسے تابع کِیا۔ اِس اُمِّید پر کہ خلقت بھی فنا کی گرفت سے چھُوٹ کر خُدا کے فرزندوں کے جلال کی آزادی میں شرکت حاصل کرے گی۔ کیوںکہ ہم جانتے ہیں کہ ساری خلقت اب تک چیخیں مارتی ہے اور اُسے دردِزِہ لگا ہے اور فقط وُہی نہِیں مگر ہم بھی، جنھیں رُوح کے پہلے پھل مِلے ہیں خُود اپنے باطن میں کراہتے ہیں اور تَبنِیّت یعنی اپنے بدن کی مخلصی کی راہ دیکھتے ہیں کیوںکہ اُمِّید سے ہم نے نجات حاصل کی، مگر اُمِّید کی ہُوئی چیز کا دیکھ لینا اُمِّید نہِیں ہوتی، کیوںکہ جس چیز کو کوئی دیکھ رہا ہے، اُس کی اُمِّید کیسی؟
رومیوں کے نام۔19:8تا24
تکوینِ اوّل کا مقصد نئے فلک اور نئی زمین پر منتہی ہے۔
…کیوں کہ دیکھ! مَیں نئے آسمان اور نئی زمین کو پیدا کروں گا۔ تو پہلی چیزوں کا ذکر نہ کِیا جائے گا اور نہ وہ دِل میں آئیں گی۔
اشعیا…17:65
’’خدا فرماتا ہے کہ جس طرح نیا آسمان اور نئی زمین جن کو مَیں بناؤں گا، میرے حضور قائم رہیں گے۔ اسی طرح تمھاری نسل اور تمھارا نام قائم رہے گا‘‘۔
اشعیا…22:66
پھر مَیں نے ایک نئے آسمان اور نئی زمین کو دیکھا کیوں کہ وہ پہلا آسمان اور پہلی زمین جاتی رہی تھی اور سمندر بھی نہ رہا تھا۔
مکاشفہ…1:21
ان کی تکمیل ہوگی جب خدا ہی سب کچھ ہو گا، ہر جا خدا ہی خدا، سب میں وہی، ہر جگہ اسی کے جلوے
اور جب سب کچھ اُس کے نیچے ہو جائے گا تو بیٹا آپ ہی اُس کے نیچے ہو جائے گا جس نے سب کچھ اس کے نیچے کر دیا۔ تا کہ سب میں خدا ہی سب کچھ ہو۔
1۔ قرنتیوں…28:15
تخلیق ایسی حقیقت نہیں جو بے لوچ ہو، کڑی اور کٹھن ہو، یہ تو مشیتِ خداوندی سے جاری و ساری ہے، تغیر ہی ہے جسے کائنات میں ثبات حاصل ہے۔ اور اس کا رُخ مستقبل کی جانب ہے اور عالمِ انسانیت کا مستقبل خود خدا ہے۔
(Katholischer Erwachsenen-Katechismus, Vol. 1, p. 95)