German
English
Turkish
French
Italian
Spanish
Russian
Indonesian
Urdu
Arabic
Persian

:سوال نمبر300

وہ کون سا اہم ترین، وزن دار سوال ہے جو ہر مسیحی سے اس کی موت کے بعد خدا  پوچھے گا؟

 

:جواب

۔خدا کے بارے میں مسیحیوں کو جو آگہی حاصل ہے، اس کے مطابق خدا ایک ہے۔ وہ کسی کی پاسداری نہیں کرتا۔ پاسداری نہیں کرتا تو یہی وجہ کیا کم ہے کہ اسی لیے بے انصافی بھی کسی سے نہیں کرتا۔ وہ عادل ہے اور رحمدل بھی۔ وہ عدل و احسان کے ساتھ تمام انسانوں کے بارے میں اپنے فیصلے سنائے گا۔ اس کا عدل عقلی، معقولیت والا، استدلالی ہے جسے تمام انسان اپنی سوجھ بوجھ، اپنی عقل اور اپنے شعور کو استعمال کرتے ہوئے اس کی صحیح تعیین کر سکتے ہیں۔ ہر انسان کو اپنی وفات کے بعد خالص اچھائی و نیکی و بےلوث بھلائی اور مطلق حق سچ کا سامنا کرنا ہو گا یعنی خود خدا کی بارگاہ میں وہ حاضر ہو گا کیوں کہ وہی تو ہے جو اچھائیوں، نیکیوں، بھلائیوں کی انتہا ہے اور مطلق حق اور سچّا رب ہے۔ جب معصیت، برائی، بدی اور دروغ، بے ایمانی، دھوکا مل کر اچھائی اور سچّائی کے مدِّ مقابل آتے ہیں تو بڑے کربناک تجربے سے گذرتے ہوئے ہمیں اپنے آپ کو انصاف کی میزان میں تولنا پڑجاتا ہے اور ہمیں ان مشکلات و نقصانات اور برداشت کا سامنا کرنا پڑ جاتا ہے جن کے ذریعے ہم تب آگاہ ہوتے ہیں کہ خدا کے طے کردہ اصولی و اعلیٰ نصب العین کے کس قدر نزدیک رہے یا کس درجہ دور جا گرے۔ خدا کے ہاں ہماری جانچ پرکھ کی یہی حقیقت ہے لیکن سکھ کا سانس لینے والی بات اگر ہے تو وہ بس یہی ہے کہ خداوند کی عدل گستری کی یہ مکمل تصویر نہیں، ادُھوری ہے۔وہ تصویر یوں مکمل ہوتی ہے کہ ہماری عصیاں کاری پر خدا کے عادلانہ غضب کو اس کے رحم و کرم والی صفات پگھلا کر نرم و ملائم کر دیتی ہیں۔ انسانوں سے بے انتہا پیار کرنے والے مہربان خدا کا رحم و فضل جس قدر بے انت ہے اس کا اندازہ کر سکنا ہم انسانوں کے تصور سے باہر ہے۔ وہ تو یقینی طور پر کرۂ ارض کے کسی بھی منصف سے حد درجہ بڑھ کر عالی ہمت، کشادہ دِل اور پُرفیض ہے۔

روزِ عدل جن سوالات کے ہمیں جوابات پیش کرنا ہوں گے ان سوالوں کو کیٹیلاگ کر کے نئے عہد نامۂ مقدس میں سامنے نہیں لایا گیا۔ خدا انصاف کابرتاو کرنے والا ہے، اس لیے انسانوں کے بارے میں فیصلہ سنانے کےلیے انھیں جس کسوٹی پر پرکھاجائے گا وہ عینِ عدل ہو گی، یعنی یہی کہ وہ سچ اور جھوٹ، صحیح و غلط کے بارے میں کیا جانتے ہیں۔ یہ ایک انفرادی سطح کی جانچ تھی، ورنہ تو دِلوں کے بھید خدا ہی بہتر جانتا ہے۔ نیکی و بدی اور حق و باطل میں تمیز پیدا کرنے کی خاطر جاننے، سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کے لیے کس انسان نے کتنی کوشش کی، کی بھی یا نہیں، سب خدا کو معلوم ہے۔ انسان کا سب کِیا دھرا اس کے سامنے ہے۔ انسان کی اچھائیاں ضائع نہ ہونے دی جائیں گی۔

روزِ عدل کے حالات و واقعات اور حقیقت کی بہترین عکاسی ہمیں مقدس متّی کی انجیل میں ملتی ہے.............

”جب ابنِ انسان اپنے جلال میں آئے گا اور تمام فرشتے اُس کے ہمراہ ہوں گے تب وہ اپنے تختِ جلالی پر بیٹھے گا۔

اور تمام قومیں اس کے حضور جمع کی جائیں گی اور وہ ایک کو دوسرے سے جدا کرے گا جس طرح چوپان بھیڑوں کو بکریوں سے جدا کرتا ہے۔

اور بھیڑوں کو اپنے دائیں اور بکریوں کو اپنے بائیں کھڑا کرے گا۔

تب بادشاہ اُن سے جو اس کے دائیں ہوں گے کہے گا، آؤ میرے باپ کے مبارک لوگو جو بادشاہی بِناے عالم سے تمھارے لیے تیار کی گئی ہے اُسے میراث میں لو۔

کیوں کہ مَیں بُھوکا تھا اور تم نے مجھے کھانے کو دیا۔ مَیں پیاسا تھا اور تم نے مجھے پینے کو دیا۔ مَیں پردیسی تھا اور تم نے میری خاطرداری کی۔

ننگا تھا اور تم نے مجھے پہنایا۔ بیمار تھا اور تم نے میری عیادت کی۔ قید میں تھا اور تم میرے پاس آئے۔

تب راست باز اس کے جواب میں کہیں گے، اے خداوند! کب ہم نے تجھے بُھوکا دیکھا اور کھانے کو دیا اور پیاسا دیکھا اور پینے کو دیا؟

اور کب ہم تجھے بیمار یا قید میں دیکھ کر تیرے پاس آئے؟

بادشاہ جواب میں اُن سےکہے گا، مَیں تم سے سچ کہتا ہوں۔ چوں کہ تم نے میرے ان سب سے چھوٹے بھائیوں میں سے کسی ایک کے ساتھ ایسا کِیا تو میرے ہی ساتھ کِیا۔

تب وہ اُن سے بھی جو اُس کے بائیں ہوں گے کہے گا، اے ملعونو! میرے سامنے سے اُس دائمی آگ میں چلے جاؤ، جو شیطان اور اس کے فرشتوں  کے لیے تیار کی گئی ہے۔ 

کیوں کہ مَیں بُھوکا تھا اور تم نے مجھے کھانے کو نہ دیا۔ پیاسا تھا اور تم نے مجھے پینے کو نہ دیا۔

پردیسی تھا اور تم نے میری خاطرداری نہ کی۔ ننگا تھا اور تم نے مجھے نہ پہنایا۔ بیمار اور قید میں تھا اور تم نے میری خبر نہ لی۔

تب وہ بھی جواب میں کہیں گے اے خداوند! کب ہم نے تجھے بُھوکا یا پیاسا یا پردیسی یا ننگا یا بیمار یا قیدی دیکھا اور تیری خدمت نہ کی؟

تب وہ اُن کے جواب میں کہے گا، مَیں تم سے سچ کہتا ہوں کہ چوں کہ تم نے ان چھوٹوں میں سےکسی ایک کے ساتھ نہ کِیا تو میرے ساتھ بھی نہ کِیا۔

اور یہ ہمیشہ کے عذاب میں جائیں گے مگر راست باز ہمیشہ کی زندگی میں۔

مقدس متی:۲۵

۳۱ تا ۴۶ ویں آیات

اس متن میں ایک واضح چیلنج موجود ہے اور پوچھا گیا ہے آیا ہم نے خدا سے اپنی پُرجوش محبّت اور پُرخلوص عقیدت کا اظہار یوں بھی کِیا یا نہیں کہ اس کے بندوں کی دستگیری کرتے، ان کے کام آتے جب کسی بھی انسان کو کوئی احتیاج درپیش تھی؟ جن لوگوں کے دِلوں میں یہ احساس تازہ رہا کہ ہمیں دوسروں کے کام آنا ہے اور وہ دوسرے انسانوں کےلیے مقدور بھر اپنی خدمات بجا لاتے رہے ہیں، ضرورت کے وقت وہ ضرورتمندوں کی مدد کو لپک لپک کے پہنچتے رہے ہیں وہ خوب جانتے ہیں کہ اطاعتِ خداوندی ہے ہی دوسروں کی دیکھ بھال، اس کے بندوں کی خدمت، ان کی مدد۔ جو لوگ دوسروں کےکام آتے ہیں، خدا بھی ان کے کام بنائے رکھتا ہے۔

یہی ہے عبادت، یہی دِین و ایماں

کہ دنیا میں کام آئے انساں کے انساں

بات اس سے آگے بھی جاتی ہے۔ دنیا میں ایسے انسان بھی تو ہیں جنھیں یہ احساس تو نہیں ہوتا کہ وہ ایسا کیوں کر رہے ہیں لیکن ان کی عادتِ ثانی بن جاتا ہے یہ فعل کہ اپنے کسی مخفی وصف کے تحت وہ کسی کا بُرا نہیں سوچتے، بھلائی کے دلدادہ ہوتے ہیں، دوسروں کو مدد کا طالب اور حقدار دیکھتے ہی ان کے پاس پہنچ جاتے ہیں اور اپنی بساط مطابق اُن کی ضرورت پوری کرنے میں ذرا بھی تامّل نہیں کرتے۔ جانتے ہیں یا نہیں جانتے، ایسے لوگ بھی خدا کی ہی بندگی کا حق ادا کرتے ہوئے اس کی خوشنودی حاصل کر لیتے ہیں۔ کسی کا بھی کارِ خیر و فلاح خدا ضائع نہیں جانے دیتا۔ دنیا میں انھیں اجر ملتا ہے اور آخرت میں بھی اجرِ عظیم ان کا منتظر ہوتا ہے۔

کرو مہربانی تم اہلِ زمیں پر

خدا مہرباں ہو گا عرشِ بریں پر

Contact us

J. Prof. Dr. T. Specker,
Prof. Dr. Christian W. Troll,

Kolleg Sankt Georgen
Offenbacher Landstr. 224
D-60599 Frankfurt
Mail: fragen[ät]antwortenanmuslime.com

More about the authors?