German
English
Turkish
French
Italian
Spanish
Russian
Indonesian
Urdu
Arabic
Persian

:سوال نمبر159

اسقاطِ حمل کے بارے میں آپ کیا نظریہ رکھتے ہیں؟


جواب:

۔ بچہ ہو یا بزرگ، خاتون ہو یا مرد کوئی بھی انسان جو اپنی زندگی کی خود حفاظت نہیں کر سکتا، اس کی مجبوری اور بے بسی جتنی زیادہ ہے، اتنی ہی زیادہ بل کہ اس سے بھی سوا اس کی احتیاج ہوتی ہے کہ دوسرے اس کی زندگی بچائیں، اس نے توقعات وابستہ کر رکھی ہوتی ہیں کہ جس معاشرے میں اس نے آنکھیں کھولیں وہی اس کی جان کی حفاظت، دیکھ بھال، ہر طرح کی ذمہ داری سنبھالے گا۔ اسی لیے فلاحی ادارے بنتے ہیں، این جی اوز وجود میں آتی ہیں، تھانے، ہسپتال، کورٹ کچہریوں کا قیام عمل میں لایا جاتا ہے۔ یتیم خانے اور لاوارثوں کے پالنے پنگوڑے بھی انسانی جانیں بچانے کے لیے معاشرے میں موجود ہیں۔ یہ ایک عالمی طور تسلیم شدہ امر ہے۔ اس دنیا کے ہر خطہ میں، کہِیں بھی چلے جائیے، انسانی زندگی کو شرف و قدر حاصل ہے۔ کمزور و بے بس انسانوں کے لیے کلیسیا کی مدد، تعاون اور خدمات کا تو ایک زمانہ رطب اللسان ہے۔

زندگی کو ناقابلِ ہتک قرار دیا جانا، اس کے تقدس اس کے وقار کا اعتراف اپنی جگہ لیکن یہ بھی تو ملاحظہ فرمائیے ذرا کہ اس انسانی زندگی کوجو دنیا میں ابھی نہیں آئی اس کے بارے میں سوسائٹی کوئی واضح مؤقف نہیں رکھتی مقابلۃً اس زندگی کے جو اپنے وجود کے ساتھ دنیا میں آنکھیں کھول چکی ہے۔ بچہ کُشی پورے عالم میں جرم کے ذیل میں شمار ہوتی ہے لیکن وہ بچہ جو ابھی بطنِ مادر سے باہر نہیں آیا ا س کا قتل اُس ذیل میں نہیں لیا جاتا۔ یا یوں کہہ لیں کہ اس کی ہلاکت کو اتنی اہمیت نہیں دی جاتی۔وقتِ طبعی سے پہلے حمل گرنے یا گرائے جانے کے عمل میں کتنے ہی معصوم پیدایش سے پہلے ہی مر یا مار دیے جاتے ہیں اور اس کے لیے طرح طرح کے جوازات گھڑکر انھیں درست ہونے کے دعوے سے لاد دیا جاتا ہے… ایسے لوگوں کی اکثریت اس مفروضے کو گلے کاہار بنائے پھرتی ہے کہ جو بچہ ابھی پیدا ہی نہیں ہوا اس کی تقدیس و توقیر پیدا شدہ بچے کے مقابلے میں کِس حساب کھاتے میں؟… کتنا بودا خیال ہے جب کہ حمل ٹھہر چکا تھا۔ نئی زندگی کی رمق جڑ پکڑ چکی تھی، بیج پھوٹ پڑا تھا۔ لاکھ انکار کِیا جائے مگر حقیقت ہے، جنین جب کہ زندہ رہ سکنے والے مرحلے میں داخل ہو چکے تو کِسی پابندی یا حد بندی سے وہ آزاد ہے گویا اس پر تمام حقوقِ زندگی لاگو ہو گئے اس لیے یہ سوچنا کہ اسقاطِ حمل، کِسی ذریعے سے بھی، اخلاقی یا قانونی پکڑ میں نہیں آتا، غلط ہے۔ خام خیالی ہے۔ شریعتِ مسیحی اور ملکی قوانین کی دفعات حرکت میں آجائیں گی۔ کیوں کہ یہ طفل کُشی کا جرم ہے بالکل اسی طرح جیسے پیدا شدہ بچے کا قتل…

سائینٹفک تاویلات اسی بچے کے بارے میں جو ابھی پیدا تو نہیں ہوا مگر ایسا ہونے والے عوامل کی مثالی ترتیب کے مدارج میں داخل ہو گیا، افزایش کے ترتیب وار مراحل شروع ہوئے، جزوی اقدام عمل میں آنے لگے۔ جنین، کچا بچہ یعنی نامی باروَر بیضے سے پیدایش، قلبِ ماہیت کے مرحلے تک پہنچنے کے درجات طے کرنا شروع ہوگیا ہو یعنی رحم کے اندر بچے کی نشوونما کا ابتدائی مرحلہ آغاز پکڑ چکا ہو تو سائینس بھی تائید کرتی ہے کہ قطعی طور پر بچہ اپنی ذاتی زندگی میں داخل ہو گیا، وہ اب کوئی ’’چیز‘‘ نہیں، ’’انسان‘‘ ہے۔ علم توالد و تناسل اور جنین کی تکمیل و نمو کے مطالعے کے علم (علم الجنین) کی درک کے مطابق یہ ہے کہ استقرارِ حمل یعنی حاملہ ہونے کی ابتدا سے ہی انسانی زندگی کا عمل شروع ہو جاتا ہے اور اس میں کِسی شبہ کی گنجایش ہی نہیں۔ چناں چہ اسے نہ تو انسان بننے سے پہلے کی کوئی ’’چیز‘‘ کہہ سکتے ہیں، نہ ہی ماں کے جسم کا کوئی حصہ، نہ ہی پودوں کی طرح کی کوئی پنیری یا پھر صنف نصبہ کہ کہِیں ڈال دیں زندگی کے آثار پیدا ہو جائیں گے جیسے بیج مُردہ ہوتا ہے اور اس سے نکلنے والے نہال زندہ۔ یہ تو خود زندگی ہے۔ زندہ انسان کی پہلی پہلی سٹیج۔ جیسے ہی حمل ٹھہرا یہ سٹیج شروع ہو گئی اور پھر یہی نوزائیدہ مکمل مرد یا عورت بننے کے لیے انسانوں کے سیلِ رواں میں سر اُٹھاتی ڈوبتی اُبھرتی رواں دواں لہر بن جائے گی۔ خداوند یسوع مسیح کی امت میں ایک اور امتی کا اضافہ ہو جائے گا۔ یہی معصوم خدا کے چاہنے سے روح القدس کی ہیکل بنے گا۔ مومن مسیحی۔ کیوں کہ ’’ہر نیا بچہ یہ پیغام لے کر آتا ہے کہ خدا ابھی انسان سے مایوس نہیں ہوا‘‘۔

یہ انسانی زندگی کا فطری وصف ہے کہ ابتداے آفرینش سے ہی اپنے استقرارِ حق کو کام میں لاتے ہوئے متقاضی ہوتی ہے کہ کِسی بھی ذریعے سے اگر اس کی تلفی و تباہی کا سامان کِیا جا رہا ہو تو اسے بچایا جائے…۔

اسقاطِ حمل، بچہ کُشی ہولناک جرائم ہیں۔(Lumen Gentium)

(2. Vatican Council, Gaudium et Spes [=GS] 51)

(From www.vatican.va/archive/hist_councils/ii_vatican_council/documents/vat-ii_cons_19651207_gaudium-et-spes_en.html)

پس، اخلاقیات کا نقطہء ارتکاز یہ ہے کہ وہ بچہ جو ابھی پیدا نہیں ہوا وہ آپ کی ذمہ دارانہ توجہ اور آپ کے ہمدردانہ رویوں اور خدا خوفی کا محتاج ہے۔ اور اسی حرمت و عزت، وقار و قدوسیت کے لائق اُسے سمجھنا چاہیے جس کا استحقاق نوزائیدہ بچے کو دیا جاتا ہے۔ قوانینِ کلیسیا کے مطابق وہ لوگ جو طبعی وقت سے پہلے پہلے اسقاطِ حمل کے عمل میں ملوث ہوتے ہیں (بچے کے والدین، پیشہ ور مرد و خواتین، ڈاکٹر اور دائیاں وغیرہ) وہ خواہ کوئی بھی ہوں، کلیسیائی حقوق سے انھیں محروم کر دیا جاتا ہے۔

(Codex Iuris Canonici, can. 1398)

ماحصل یہ ہے کہ استقرارِ حمل کے ساتھ ہی حیاتِ انسانی شروع ہو جاتی ہے: مرد کے جوہرِ خاص کے عورت کے بیضے سے ملاپ یعنی مرد میں اولاد کے پیدا کرنے والی صلاحیت رکھنے والے خُلیوں کے عورت کے بیضے میں ملاپ، رحم یعنی بچہ دانی میں یہ عمل قرار پاتے ہی جو لوگ اسے ضائع کرنے کے کامیاب جتن کرتے ہیں وہ انسانی جان کی تلفی کے مرتکب ہوتے ہیں۔ یہ ایک انسان کا قتل ہے اور جرمِ قبیحہ ہے۔ البتہ یہ فعل اس کے مساوی نہیں جب کہ حمل ہونے ہی نہ دیا جائے۔ اخلاقی طور پر جو بیضہ فرٹیلائزڈ ہو چکا اس سے جان چھڑانی قتلِ عمد ہے۔ بعض منفرد صورتوں میں قبول کِیا جا سکتا ہے مثلاً بیج ہی کھیتی تک نہ پہنچے، پہنچے تو کارآمد نہ رہے یا کھیتی ہی زرخیز نہ ہو باروَری ممکن ہی نہ ہو یا یہ سب کچھ کِیا، پھر بھی کچھ ہو گیا تو ایسی صورت میں مجبوری کا لائسنس دیا جا سکتا ہے۔

کیتھولک کلیسیا کی مسیحی تعلیم کی کتاب کہتی ہے کہ علم ہونا چاہیے کہ حیاتِ انسانی مہد سے لے کر لحد تک قدوسیت، پاکیزگی، حرمت، عزت و وقار کی مستوجب ہے اور اس ایقان میں نظر آتا ہے کہ والد، والدہ دونوں خداے پُرجلال وجمال، خالق و مالک کی محبت کی وساطت سے زندگی کو راہ پر ڈالنے اور اس کی تکمیل میں اکٹھے شامل ہوتے ہیں اور خدا جلیل و عظیم کی محبت یوں کُل عالم تک پہنچانے کا فیض و برکت حاصل کرتے ہیں جو ان کے بچوں بل کہ نسلوں کے لیے بھی فیض کا سبب بنتی ہے۔

 حوالہ کے لیے دیکھیے…(see Vatican II, Gaudium et Spes 50)

(منشورِ کلیسیا)

بچے کا خالق خود خدا ہے اور بچہ ثمر ہے، انعام ہے، میاں بیوی کی محبت کا، جو خدا نے ہی ان کو ودیعت کی اور اسی کی دائمی محبت میں ہی اس بچے بل کہ بچوں نے پلنا بڑھنا اور دونوں جہانوں کی زندگیوں سے عہدہ برآ ہونا ہے۔ یہ اسی کی مشیت کے طفیل ہی تو ہے کہ بندہ اولاد کی نعمت پاتا ہے۔ اسی لیے مسیحیت اس نعت کے کفران کی مزاحمت کرتی ہے بل کہ سختی سے منع کرتی ہے۔ حمل کا ٹھہرنا، اس کی حفاظت کرنا، اسے طبعی تکمیل تک پہنچنے دینا اور پھر زچگی سے فراغت کے بعد بچے کی نگہداشت و پرداخت میں اپنا کردار ادا کرنا بھی خدا کی ہی منشا و رضا کی تعمیل ہے ۔ اپنی تخلیق خدا خالق کو بھی محبوب ہے، اسی لیے تو وہ اپنی خلقت سے پیار کرتا ہے، الوہی پیار، دائمی محبت۔ اور ہم یونہی تو نہیں پورے وثوق سے کہتے کہ بچہ اپنے ہی ماں باپ کی اولاد ہوتا ہے کاملاً اور جو اس کا خالق ہے اس کا بھی وہ بچہ ہے اصلاً…

(CCC, 2. Bd., S. 288-289)

Contact us

J. Prof. Dr. T. Specker,
Prof. Dr. Christian W. Troll,

Kolleg Sankt Georgen
Offenbacher Landstr. 224
D-60599 Frankfurt
Mail: fragen[ät]antwortenanmuslime.com

More about the authors?