:سُوال نمبر10
بجا، ہم فرض کر لیتے ہیں کہ اِنسان جماندرُو خطاکار ہے، پیدایشی گنہگار۔ جنین میں موجُود گُناہوں پر اسے، یعنی اُس آدمی کو، رحم کرنے والا رب، سب کا بخشنہار خُدا اُن گُناہوں سے کیا پاک نہِیں کر دے گا جو پہلے سے ہی اس میں سمو دیے گئے تھے؟
جواب:۔ سُوال نمبر5 اور6 اگر آپ ذہن میں لائیں تو جواب کے نصف حصہ کو ضرُور تسلی بخش پائیں گے۔ کم از کم میری حد تک تو ہے کہ مَیں نے اس کے ذِہنِ رسا کی تشفی کے لیے اپنے طور بہُت کوشِش کی تھی۔
پھر آپ کے زیبِ نظر کیے دیتا ہوں: یہ خُدائی فیصلہ تھا کہ اِنسان کو بس سیدھے سیدھے محض اپنی قدرت، اپنے اختیار اپنے ٹل نہ سکنے والے حُکم کی رُو سے بآسانی چھٹکارا دے دے۔ایک آسان مکتی، سہل نجات؟ نہ نہ نا.... اس کی منشا اس کے برعکس تھی۔ وُہ آدمیوں کو بچانے کے لیے بذاتِ خُود اِنسان بن کر آگیا۔ سواے معصیت کے تمام اِنسانی اوصاف اس نے اپنے اُوپر طاری کر لیے۔ اور یُوں ہم میں رہ کر اُس نے ہمیں اِس قابل بنایا کہ ہمیں مُقدّس رُوح کے فیض سے اپنے بیٹے اور بیٹیاں بنا لینے کا افتخار ودیعت فرمایا۔ ابدالآباد تک کے لیے ہم اس کے مُقدّس بیٹے کے بھائی بہن ہو گئے۔ خُداوند یسُّوع مسیحنے ہمیں اپنی برکتوں میں بسا لیا۔
ہم سب کو مسیح میں سلامتی مل گئی! ہم پر فرض ہے کہ ہم خُداوند اور نجات دہندہ یسُّوع المسیح کے فضل اور عرفان میں بڑھے چل