:سوال نمبر143
۔بنی نوعِ انسان کے حقوق اور آزادی کے بارے میں مسیحی فکر و فہم پر تو ذرا روشنی ڈالیے۔ کیا مسیحیت ان بنیادی حقوق کے لیے سب انسانوں کو برابر کا حقدار سمجھتی ہے؟ غیر مسیحیوں کو بھی؟
جواب:۔مقدس کلیسیا نے اپنے اجمالی جائزہ میں مسیحی سماجی عقیدہ کے اُن لاینفک قسم کے اصل یا مرکزی حیثیت کے نکات کو نمایاں کِیا ہے جو اس ڈاکٹرین کے دائم اصولوں کی وضاحت کرتے ہیں اور ان میںنمایاں ترین اصول وہ ہے جو انسان کی منزلت و تمکنت سے متعلق ہے۔ اسی اصول پر ہی معاشرتی نظریات کے دیگر تمام اصولوں اور ان میں جوکچھ بھی ہے اُس کی اساس قائم ہے۔
مسیحی سماجی عقیدے کے ان علی الدوام اصولوں سے ہی کلیۃً ان حقیقتوں اور صداقتوں کے لیے منضبط کردہ ابتدائی ضوابط تشکیل پاتے ہیں جن سے اجتماعی زندگی مرتب ہوتی ہے اور سوسائٹی خُدا کو گواہ کر کے او ربے شک اُس کی مدد سے بندوں کو، ہر انسان کے ضمیر کو جگاتی اور دعوت دیتی ہے کہ خُدا کی طرف سے عطا کردہ اپنے اختیارات کو دوسرے انسانوں کے ساتھ مِل کے، اور ان کے لیے، پوری آزادی کے ساتھ، ذمہ دارانہ آزادی کے ساتھ کام میںلائے۔ ان اصولوں کی اپنی ایک بدرجہ غایت اخلاقیات ہے کہ ان سے ہماری معاشرتی زندگی میں نمُو لانے اور نکھار پیدا کرنے کے اسباب اور سلیقے، وتیرے پروان چڑھتے ہیں جن سے معاشرتی زندگی کے لیل و نہار سنورنے کی بنیاد فراہم ہوتی ہے، نیکو کاری عادت بنتی ہے، آسانیاں بانٹنے، دُکھ درد غم و راحت شیئر کرنے اور بھلائی کی طرف طبیعت راغب ہوتی ہے، خود بھی عمل کرتے ہیں اور دوسروں کو بھی اچھا بننے اور سب کے ساتھ حسنِ سلوک برتنے کے اصولوں پرعمل پیرا ہونے کی صلاے عام دیتے ہیں، اعلیٰ کردار سے متصف ہونے کے لیے عالمگیر اصولوں کو اپنانے کی شہہ ملتی ہے، مفلس و ناچار انسانوں اور پسماندہ اقوام کے لیے ترجیحی راے رکھنے کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے۔ المختصر یہ کہ مشترکہ ذمہ داریوں اور مفادات سے پیدا ہونے والی سماجی ہم آہنگی و رفاقت کے ساتھ ساتھ مقاصد و عمل کے اتحاد کے اصولوں کا ادراک پیدا ہوتا ہے۔
ان اصولوں اور اسالیب کا ایک اضافی خاصہ یہ بھی ہے کہ معاشرت کو تکمیل ہی تب نصیب ہوتی ہے جب اس میں سانس لینے والے انسان دوسرے انسانوں کی عظمت و انا کا احترام ملحوظِ خاطر رکھنے لگیں، سانس لینے میں دشواری کے لیے آکسیجن سلنڈر یہی اصول فراہم کرتے ہیں اور اس سلسلے میں کلیسیا بھی اپنا برمحل کردار یوں ادا کرتی ہے کہ ان بنیادی اقدار کی حفاظت پر کامل توجہ مبذول کرتے ہوئے ان اصولوں پر عمل کے لیے نہ صرف قواعد و ضوابط تشکیل دیتی رہتی ہے بل کہ ان کی ترویج و عمل کے لیے آسان ترکیبوں سے روشناس کروانے اور اس طرف راغب مسیحیوں اور غیر مسیحیوں کی حوصلہ افزائی و مزید راہ نمائی کرنے کے فریضہ کی انجام دہی میں ہر آن مستعد رہتی ہے۔ تمام سماجی اقدار کا انسان کی حرمت و وقار کے ساتھ بہت گہرا تعلق ہے اور وہ مقتضی ہیں کہ ان میں مستند بالیدگی، قابلِ اعتبار نشوونما اور بھروسے لائق ارتقا کا عمل جاری رہنا چاہیے۔ انسان کی تحریم و تکریم کے شجر پر جو پھل پیدا ہوتا ہے وہ ہے سچائی کا پھل، آزادی کا پھل، انصاف اور محبت کا پھل جس میں تُرشی نہ پہلے کبھی آئی نہ اب ہے اور نہ آیندہ کبھی آ سکتی ہے، مٹھاس میں کھٹاس کہاں۔ قانونی طور پر جائز مگر اپنے ہی اختراع کردہ خود اختیاری اصولوں کا زمینی حقائق کی مطابقت میں احترام اور مخصوص تکنیکی اور مقدس یا مذہبی حوالے سے خالی قسم کے جوازات و موزونیت کو کلیسیا اپنی ذمہ داریاں نبھانے کی راہ میں رکاوٹ سمجھتی ہے۔ تاہم ایسے پیچیدہ اختلافات دُور کرنے کی خاطر اپنی مداخلت کو کلیسیا غلط بھی نہیں سمجھتی تا کہ پتا چل سکے کہ یہ اقدار کِس حد تک انسانی کردار کے مطابق یا موافق، مؤثق و استحکام یافتہ ہیں، یا پھر یہ ماننا پڑے گا کہ انسان اپنے بعض دیگر ارادوں اور فیصلوں کی طرح ان اقدار کے بھی غلط استعمال کا ارتکاب کر رہا ہے۔
(حوالہ کے لیے دیکھیے۔ نمبر198)
صداقت۔۔۔۔۔۔
مرد ہوں یا خواتین انھوں نے اپنے طورپر یہ امتیازی فریضہ سنبھال رکھا ہے کہ وہ ہمیشہ سچائی کی منزل کے راہی بنے رہیں، صداقتوں کا احترام روا رکھیں اور اس پر پوری ذمہ داری سے ثابت قدم رہیں۔ حق سچ کو اوڑھنا بچھونا بنا لینے، سماجی تعلقات، رشتوں، معاشرتی معمولات اور روابط میں اُستواری پیدا کرنے کی سوجھ بوجھ اور ذوق و لگن کو جِلا مل جائے تو اس کی اپنی ہی مخصوص اہمیت ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جب انسانوں کی قوم برادری کوپُرسکون بقاے باہمی کا ادراک حاصل ہوجائے تو ان کو جو صلہ ملے گا، وہ ہے سود مند نظم و ضبط، جو عین مطابق ہے انسانوں کو سرفرازی وقار ملنے کے۔کتنا اعلیٰ ثمر ہے جو انسان کونصیب ہوا! عام لوگ باگ اور معاشرتی گروہ معاشرتی مسائل سلجھانے کے لیے جتنی ٹُوٹ کے محنت کریں گے، ان مسائل پر قابوپانے کے لیے جتنی بھی زیادہ جاں فشانی دکھائیں گے اور سچائیوںکو سامنے رکھتے ہوئے جتنی بھی سعی کریں گے کہ اس کے غلط استعمال سے بچیں اور ضابطہء اخلاق کی پابندی کے لیے حقیقتہً دلی خواہش تازہ و توانا رکھیں گے، اتنی ہی جلدی کامیابی و بامرادی سے ہمکنار ہوں گے۔
(انتخاب198#)
آزادی۔۔۔۔۔۔
انسان کے لیے آزادی ایک اعلیٰ ترین نشان اور الٰہی شبیہ میں اس کی تخلیق اعلیٰ ترین درجہ ہے جو اس کے بلند ترین مقام کا تعین کرتے ہیں اور علامت ہیں اس کی ارفع حرمت و توقیر کی۔ انسانوں کے مابین بہترین تعلق و واسطہ کے لیے انھیں نصیب آزادی کو ہی بروے کار لایا جاتا ہے۔ ہر ذی بشر کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اسے خُدا نے اپنی صورت پیدا کِیا، وہ اسی کا ہی عکسِ عظیم و جلیل ہے، اسی لیے اسے فطری استحقاق حاصل ہے کہ آزاد، معتبر اور ذمہ دار شخصیت کے طور پر اُسے شناخت و قبول کِیا جائے۔ ہم تمام انسان آپس میں ایک دوسرے کی رفعت و عزتِ نفس اور قدر و منزلت کے فرض کی ادائی کے لیے باہم دیگر رہینِ منّت ہیں، پابند ہیں۔ اخلاقی اور مذہبی حوالوں سے خصوصاً اور من حیث الجنس انسانی عمومی طور پر، آزادی کے اختیار و حق کے استعمال میں یہ امر مطلق احتیاج بن جاتا ہے کہ اس کی ربّی عطا، شان و شوکت کا ہر دم پاس کریں۔ آزادی کے معانی و مقاصد کو قطعاً محدود نہیں کِیا جا سکتا۔ خالصۃً انفرادیت پسندانہ تناظر میں اگر دیکھا جائے من مانی کرتے ہوئے اس کی قدر و قیمت گھٹانے کی روش اختیار کی جائے اور اپنی شخصی خود مختاری کے برتے پر آزادیِ انسان کو بے مہار تنقید کی چھلنی سے گزارا جائے تو یہ فعلِ قبیح تو کہلائے گا، احسن عمل نہیں۔ اپنی ہر راے کو مُکمَّل و معتبر سمجھنے کا غرور، خود بینی و بے نیازی سے لا تعلق داری کے علاوہ کچھ حاصل نہ ہو گا۔ آزادی کا صحیح وجود تو بس وہاں قائم رہتا ہے جہاں باہمی اقرارِ واثق مؤثق ہو۔ روزری کے دانوں کی طرح سب ایک ہی لڑی میں پروئے ہوں۔ دوسروں کااحترام ، لحاظ کرنے والوں کو احترام لحاظ ملتا ہے۔ محبت کرنے والوں کو بدلے میں یقینی محبت ملتی ہے۔ سب کچھ دو طرفہ ہوتا ہے۔ انسان اخوت کے بندھن میں بندھا ہو۔ آزادی، حق سچ اور عدالت و انصاف کی عملداری و حکمرانی میں پنپ رہی ہوتی ہے او ریہ لوگوں کو آپس میں جوڑتی ہے، توڑتی نہیں۔ اپنی تمام حدود و اطراف اور گنجایشوں میں آزادی کو جب پرکھا جاتا ہے تو اس وقت پتا چلتا ہے کہ اپنی گہرائی اور وسعت میں آزادی، خصوصاً جب اس کا دفاع کِیا جاتا ہو تو معاشرتی سطح پر، کتنی معنی خیز اور نفع رساں ہے۔
(ای بی ڈی199)
آزادی کی اہمیت کا، اس کی قدر و منزلت اور بطور ہر ذی بشر میں انوکھے پن کی خصوصیت کے اظہار کے اسلوب کے، اپنا ایک تقاضا ہے اور اس کا احترام اس لحاظ سے بہت ضروری ہے کہ انسانی معاشرے کا ہر رکن اس رعایت سے مستفید ہوتا رہتا ہے کہ خُدا کی طرف سے کِسی پیشہ کو اختیار کرنے کی روحانی طلب کی تکمیل کر سکے، یا اپنی صلاحیتوں کو برُوے کار لانے کی تمنا اور ضرورت آزادی کے ساتھ پوری کر سکے۔ آزادی، شخصی آزادی کیا ہے؟ آزادی، اختیار، مرضی، یہی تو ہے کہ بندہ سچائی تک رسائی حاصل کرنے میں آزادہو، مذہبی، ثقافتی اور سیاسی فکر و اعتقادات کے اقرار و اعتراف میںآزا دہو، اس کی راے، نظریات اور انفرادی آدرشوں پر کوئی قید کوئی قدغن نہ ہو، تحریر و تقریر کی آزادی اسے نصیب ہو، اپنا لائف سٹائل یعنی طرزِ زندگی آپ چننے، پسند کرنے میں آزاد ہو اور جہاں تک ممکن ہو اپنے کام کرنے، پیشہ اختیار کرنے، کِسی تحریک میں فعال شرکت کرنے اور اپنا طریق کار خود اختراع کرنے کی آزادی حاصل ہو، معاشی، اقتصادی، معاشرتی اور سیاسی قسم کے اقدامات جبر کے بجاے آزادی کے ساتھ اختیا رکرنے میں اسے مختاری حاصل ہو۔ البتہ عدل گسترانہ نظام کے تحت، قانونی حدود کے اندر رہ کر، مروّج اصولوں اور ضابطوں کا پاس کرتے ہوئے، سماجی تقاضوں کے ذیل میں رہ کر، عوامی فائدے، خواہش، مُراد اور پبلک آرڈر کے مطابق ان مندرجہ بالا آزادیوں کو عمل میں لایا جانا بھی بے حد ضروری ہے ورنہ آزادی کابے محابا بے مہارانہ استعمال معاشرے بل کہ نسلِ انسانی کے لیے زہرِ ہلاہل ثابت ہو گا۔ انسان کی آزادی پر سماجی رویے، ملکی قوانین اور شریعت و اخلاقیات کو نگران ہونے کی حیثیت حاصل ہے۔ اگر آزادی کا استعمال غلط ہوا تو پھر گلی گلی انسان چیختا چِلّاتا بِلبلاتا کُڑھتا پھرے گا کہ جو کرنا ہے سو آپ کرو ہو:
ناحق ہم مجبوروں پر تہمت ہے آزادی کی
اپنا محتسب آپ ہونا چاہیے۔ ذمہ داریوں کا احساس ہونا چاہیے۔ آزادی ایک فعال قوت ہے جس کے بل پر بد اخلاقی پر مشتمل منفی رویوں کی نفی کی جانا چاہیے۔اخلاقیات کے منافی طاقتیں بہت عیّار ہیں، نئی سے نئی جُون میں، نت نئے بہروپ میں اور بھیس بدل بدل کرانسان کے کردار پر حملہ آور ہوتی ہیں، اپنی ترغیبات میں چکما دے جانے کے ان کو ہزاروں گُر آتے ہیں، حسین فریب دینا ان کے بائیں ہاتھ کا کمال ہے، اس لیے ''مشتری ہوشیار باش!''۔ شخصی، خاندان برادری کی یا پوری معاشرت کی اصلاح، ترقی اور بہبود میں جن عوامل اور منفی قوتوں سے ڈر ہو کہ رکاوٹ ڈالیں گی اُن سے لازمی اجتناب برتنا ہو گا، اچھا ہو گا دُور سے ہی انھیں دُھتکار دیا جائے۔ بعد کے علاج معالجہ سے ''دَستی'' پرہیز بہتر ہے۔ عالمگیر معاشرتی فلاح اور خوشحالی کے پیشِ نظر، آزادی میں رچی بسی جوہری صلاحیتوں سے بھرپور فائدہ اُٹھانے کے لیے انسان کو اپنی سکت ، قابلیت اور بساط سے کام لینا ہو گا اور ضرور کام لینا ہو گا تا کہ وِگڑی تگڑی سماج کو خُدا کے فضل سے بدل کے رکھ دیں۔ کم از کم ایسی نیت اور خواہش ہی پال لی جائے تو خُداوند یسوع پاک اپنے جلال میں ہمیں اپنی برکت سے نواز دے گا اور اس کی تقدیس ہمارے عمل کے لیے مہمیز ثابت ہو گی۔ ان شاء اللہ۔
(Ibid 200)
عدل۔۔۔۔۔۔
اعلیٰ اقدارِ اشرف المخلوقات میں عدل بھی ایک اہم صفت ہے جس کے اوپر والے سُر ربط و ضبط کے لحاظ سے عظیم و بنیادی اخلاقِ حمیدہ کے سُروں سے جا ملتے ہیں۔ اس کے منضبط و مستند قواعد کے مطابق یہ مرکب ہے فرد کی مستقل مزاجی، راستبازی، ثابت قدمی اور مضبوط قوتِ ارادی کا۔ انھی صفات کی برکت سے خُدا معبودِ حقیقی کی بندگی کے فرائض اور ہمسایوں کے حقوق کی ادائی میں پورا اُترا جا سکناممکنات میں شامل چلا آرہا ہے۔ داخلی و فاعلی نقطہء نظر سے دیکھا جائے تو معلوم ہو گا عدل و انصاف سے جو خوبیاں منسوب ہیں ان میں اہم ترین خوبی یہ ہے کہ عدل انسانی کردار کی جانچ پرکھ سے اپنے فیصلے کشید کرتا ہے جو آیندہ کے لیے نظیریں بنتی ہیں جن کی اساس فرد کی رضا و رغبت پر موقوف ہوتی ہے جس سے وہ دوسرے انسانوں کو بھی اپنے برابر کا مقام دیتا ہے، بندے کو اپنے ہی جیسا بندہ تسلیم کرتا ہے۔ اسی طرح اگر واقعیت میں، خارجی نقطہء نظر پرنگاہ ڈالی جائے تو پتا چلے گا کہ سماجی حلقہ ہاے اثر اور دو افراد کے مابین یا زیادہ اشخاص کے درمیان اخلاقیات کے فیصلہ کُن معیار اور اصول جو طے پاتے ہیں عدل ان کی پرکھ پرچول اور تشریح کرنے کے فریضہ کی ادائی اور کامل انصاف کے ساتھ آئین کی نگرانی کرتا ہے۔
انصاف لوگوں کی دہلیز پر نہ بھی پہنچے، لوگوں کو اپنی دہلیز پار کرآنے اور دادرسی طلب کرنے کی کھلی چھٹی دیتا ہے۔ کلیسیا کی معاشرتی تعلیم دینے کا اختیار رکھنے والی انتظامیہ مطالبہ کرتی ہے بل کہ مسیحیوں کو پابندِ حکم بناتی ہے کہ انتہائی صاف شفاف اعلیٰ درجہ کی، خوفِ خُدا رکھنے والی فاضل عدلیہ کا احترام سب پر لازم ہے۔ عقوبت یا سزاے قید کی نرم یا کم سخت سزا سنانے والی، فلاحی، سب کے لیے یکساں انصاف کی داعی، آئین و قانون کے مطابق انصاف فراہم کرنے والی عدلیہ مستحقِ توقیرِ قوم ہوتی ہے۔ پوری انسانیت اسے احترام کا درجہ دیتی ہے۔
سماجی انصاف کی کلیسیا ہمیشہ سے قدردان رہی ہے اور اسے اہمیت اس لیے دیتی ہے کہ اس سے عمومی انصاف میں ترقی کی نئی راہیںکھلتی ہیں، معاشرتی تعلقات میں باقاعدگی عطا کرتے ہوئے یہ کسوٹی ہے قوانین پر عملدرآمد کی۔ سماجی انصاف سے ہی معاشرت کے مسائل ایڈریس ہوتے ہیں۔ اسی افادیت کے سبب ہمارے اس سیارئہ زمین پر اسے قبولِ عام، مقبولیتِ دوام حاصل ہے۔
معاشرتی اُلجھنیں ہوں یا سیاسی و معاشی مسائل، ان کی مسافت، حد یا گنجایش عدل و انصاف کے دائرئہ اختیار سے باہر ہرگز نہیں، اور عدالتی فیصلے ہی ان مسائل کے حل کے لیے سماجی بے انصافیوں سے اٹی پڑی اس تاریک دنیا میں روشنی کے مینار ثابت ہوتے ہیں۔
(حوالہebd 201)
دِل کو دِل سے راہ ہوتی ہے۔۔۔۔۔۔
یہ محبت ہی کا کبھی نہ ختم ہونے والا ذخیرہ ہوتا ہے جس سے انصاف، آزادی اور سچائی کی فصلوں کی آبیاری ہوتی ہے کیوں کہ انسان کی قدر کرنے کا، اس سے محبت کرنے کا جذبہ ان کی نشوونما اور دیکھ بھال کا ضامن ہوتا ہے۔ (حوالہebd 205)
محبت انصاف کی دلالت کرتی ہے اور پہلے سے موجود شرط کے طور پر ضرورت ثابت ہوتی ہے اُس کمال کی جس سے عدل کی فضیلت مستحکم ہو سکتی ہو۔ محبت و عدل کی تشنگی کامل الٰہی محبت سے سیراب ہوتی ہے اور اُسی سے اسے تسکینِ دائمی حاصل ہوتی ہے۔ معروضی، خارجی، ظاہری طور نیکی کا بدلہ نیکی سے دینے کا عزم تازہ رکھنے والے انسانوں کے درمیان بلا رُو رعایت، مساویانہ ثالثی کا کردار اد اکرنے میں اگر انصاف جھوک نہ مارچُوک جائے تو پھر یہ محبت اور صرف محبت ہی ہے(اور اس میں وہ مربّیانہ محبت بھی شامل ہے جسے ہم مسیحی من حیث القوم الٰہی رحمت، ربّی رحم و محبت کہتے ہیں) جو انسان کو پھر سے بحالی کی راہ پر ڈال دیتی ہے۔ انسانوں کے انسانوں سے تعلقات، رشتوں، رابطوں کے تقاضے فقط انصاف بانٹنے سے ہی پورے نہیں ہو جاتے، ان کے لیے محبت کی طاقت چاہیے جو انھیں ایک دوسرے سے جوڑے رکھ سکتی ہے۔
idib 206))
چاہے جتنی قانون سازی کر لی جائے، بڑے سے بڑا مجموعہء قوانین منصہ شہود پر بوجھ بنا دیا جائے، نہ ہی ضابطوں اور قواعد کا کوئی نظام، نہ ہی مشکلات پر غالب آنے کے لیے تبادلہء خیالات، نہ مصالحت کی گفتگو۔ بے شک انھیں جتنا رواج دے سکتے ہیں دے کر دیکھ لیاجائے، ایسے خاطر خواہ نتائج نہیں سامنے لا سکتا کہ لوگوں کو اتفاق و یگانگت کی طرف مائل کر سکے سواے محبت کا راستہ اپنانے کو ذریعہ بنا لینے کے کہ یہی راستہ ہے جو دلوں کوکھینچ لا سکتا ہے، آمادگی پیدا کر سکتا ہے کیوں کہ محبت کا ہی راستہ ہے جو ذہنوں کو بھا جاتا ہے۔ اسی راستے پر انسان چل پڑے تو اتحاد، بھائی چارے، امن سے رہنے اور رہنے دینے کے سنگِ میل عبور کیے جا سکتے ہیں۔ بھلے مسئلہ کے ہر پہلو پر غور کرنے والا طرزِ عمل ہی کیوں نہ اختیار کر دیکھا جائے وہ محبت کی راہ اپنانے کے طرزِ عمل پر سبقت نہیں لے جا سکتا۔ اسی کو تو کہتے ہیں
عقل نے ٹوکا ہر ہر گام
عشق پکارا وہ ہے منزل
بس آتشِ عشق، عمیق لگن، بے پایاں محبت ہی اپنے معیار، نیک صفات، باطن کی خوبیوں اور اخلاقی جواہر(forma virtutum : Moral virtues)کے باوصف معاشرتی باہمی تاثُّر اور روابط کی صورت پیدا کر سکتی ہے، صورت سامنے آجائے تو اس میں جان ڈال دینے میں محبت کو تو یدِ طُولیٰ حاصل ہے۔یہ کارزارِ ہستی آئے روز بڑھتی پیچیدگیوں کا شکار ہے، انسانی رُجحانات اور جبلتوں کے دباو، تناو سے ذہنی اُلجھنوں میں مبتلا ہے۔ ان تمام پیچیدگیوں، اُلجھنوں کے افعال و امراض کے لیے تیر بہ ہدف نسخہ کیا ہے؟ آپ نے جان لیا ہو گا، محبت اور صرف محبت خُداوند پاک یسوع کی برکت سے محبت شافعِ امراض ہے۔ خُداوند ہمیشہ دوسروں کو صحت تن دُرُستی دان کرتا رہا۔ اور آج بھی روح القدس میں اسی کے دم سے ہم شفا پاتے ہیں۔ یہ سب اس کی غیر مشروط محبت کا اثر ہے جو ہماری نس نس میں دوڑ رہا ہے۔ اسی لیے کہتے ہیں۔۔۔۔۔۔ محبت فاتحِ عالم ہے۔ کُل کائنات میں رچی بسی ہے کیوں کہ خُدا باپ ہے ہی محبت ہی محبت۔ صرف ہمارے تمھارے لیے ہی نہیں، سب خلقت کے لیے۔ لافانی خُدا کی دائم قائم محبت۔ ہم محبت کے الٰہی وصف سے کیسے محروم رہ سکتے ہیں؟ ہم مسیحی تو اس نعمتِ خُداوندی سے مالا مال ہیں۔ اسی لیے ہم پڑوسیوں میں، آپس میں بل کہ پورے کے پورے عالمِ انسانیت میں محبت بانٹنے والی قوم ہیں۔ ہم جس کی اُمت ہیں وہ مجسم محبت ہے، اس نے ہماری، آپ کی، سب انسانوں کی محبت میں ہی اپنی جان وار دی تھی۔ محبت کی برکتیں، اس کا فیض دنیا کے ہر گوشے میں بسنے والے ہر انسان تک پہنچا پانے کے لیے ضروری ہے، ہمیں محتاط رویّہ اپنانا ہو گا، ہمیں محبت کا پرچارِ عام کرنا ہو گا صرف اس کے منفرد کارناموں کے لیے تحریص و ترغیب دینے والے کردار کے وسیلے سے ہی نہیں، بل کہ محبت کی اس کبھی کم نہ پڑنے والی طاقت کے ذریعے جو بڑھاوا دیتی، حوصلہ افزائی کرتی ہے جس کی شہہ پر داخلی گہرائی کے ساتھ آج کی دنیا کے مسائل کے لیے اپنی کوششوں سے حل کرنے کے وسائل ہم سامنے لے آئیں۔ اپنی ناک سے آگے دیکھیں، دوسروں کے کام آنے کے لیے آگے بڑھیں، ان کے مسائل کو اپنے مسائل سمجھیں۔ ان کے کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے ہوں، مشکلات ہماری محبت کے راستے کا روڑا نہ بنیں، ہم مشکلات کے سامنے آسمان تک دیوار بن جائیں، بہ نظرِ غائر معاشرے کے بوسیدہ ڈھانچوں کو تجدیدی صورت سے آشنا کریں، سماجی تنظیموں میں زندگی اور حرکت کی نئی لہر دوڑا دیں،بیمار قانونی نظام کو تازہ و توانا خون کی ڈرپ لگا دیں۔ ایسی صورتِ حالات میں کہ جس سے مادرِگیتی کے باسی بیٹے بیٹیاں اپنی بساط مطابق نبردآزما ہیں، ہم ذاتی اغراض و مقاصد اور فائدوں کے لیے نہیں بل کہ عالمگیر سچائی اور پورے خلوص کے ساتھ محبت بھرے جذبہ کے جِلو میں ان سب کا بھرپور ساتھ دے سکتے ہیں۔ ان کی بھلائی کا سوچ رکھنا اپنی بھلائی بل کہ پوری انسانیت کی بھلائی کا سوچ ہو گا۔ ہمیں اپنے اندر محبت کے ضمن میں ذوقِ یقین پیدا کرنا ہو گا۔۔۔۔۔۔
محبت میں نہ کام آتی ہیں تدبیریں نہ شمشیریں
جو ہو ذوقِ یقیں پیدا تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں
ہمّتِ مرداںمددِ خُدا۔ اسی میں محبت کا سیاسی و معاشرتی طریقِ کار مستور ہے۔ ہماری سماج کو ہماری کریم النفسی کی ضرورت ہے۔ یہ سوشل چیریٹی ہے جو دنیا بھر کی فلاح و بہبود کی خاطر اچھائیاں، نیکیاں اور محبت عام کرنے کی راہ سجھاتی ہے، ساری راہیں محبت کے بحرِ بے کراں کی طرف جاتی ہیں جس میں ہم سب انسانوں نے شناوری کرنا ہے۔ کامیابی، بامرادی اور انسانیت کی بھلائی کی سیپیاں اسی سمندر میں غوطہ لگا کر ہمیں باہر نکالتی ہیں تا کہ لوگ مستفید ہو سکیں۔ ذہن، سوچ، لگن، محنت اور ہمت چاہیے، وہ ہمیں خُدا باپ میں خُدا بیٹے کی نصرت سے پہلے ہی حاصل ہے۔
(بحوالہibid 207)
اگر ہمارے جواب کی طوالت آپ کی خاطر پر گراں نہ گذر رہی ہو تو ہمیں کچھ اور بھی کہنا ہے۔ وہ یہ ہے کہ ریاستی و سماجی رفاہی تنظیمیں محبتِ ربّی کے بے کنار آسمان تلے تھک کر چُور نہیں ہو گئیں، افراد کے درمیان بہتر تعلقات کی ترویج کے لیے مسلسل کوشاں رہتی ہیں اور ان رابطوں کے انفرادی استحکام کے سلسلے میں ان کا نیٹ ورک اپنے ساتھ اور ان افراد کے بیچ تعلق داری میں کامیابی سے بھی ہمکنار ہے جس کا ثمر ہے کہ سماجی و ملکی برادری میں بہتری آ رہی ہے۔ دیکھا جائے تو وسیع تناظر میں ان کے عمل دخل کے سبب فلاح بہبود کے اچھے کاموں کی طرف راغب ایک معاشرت جنم لے رہی ہے اور بلا شبہ اس کے نتیجہ میں محبت اور حسنِ اخلاق کی پذیرائی عام ہونے لگی ہے۔ اخلاقی اقدار توانا ہو رہی ہیں۔۔۔۔۔۔ یہ سب محبت کا ہی کارنامہ ہے، الٰہی رحمت کی نسلِ انسانی کو برکت میسر ہے اور اب یہاں حقیقی اور حرکت کُناں مثبت ردِّ عمل سامنے آنے لگا ہے جو ہمساےے کی ضروریات و احتیاجات کا خیال رکھنے اور اسے اپنی محبت کا حصہ بنانے پر منتج ہے۔مہر و محبت کا یہ ایسا عمل ہے جس سے مفر ممکن ہی نہیں۔ اب ایسی سوسائٹی کا ناک نقشہ اُبھارا جانے لگا ہے کہ کوئی غریب غریب نہ رہے، اور ہمارا نادار پڑوسی بھی ماضی کی مفلسی والی تلخ یادوں کو محبت و برادرانہ تعلقات کی پاتال میں کہیں دفن کر دے۔ وہ دِن زیادہ دُور نہیں جب معاشرت کو ایسی صورتِ حالات ورثے میں ملا کر نے لگیں گی جس میں بے شمار لوگ بل کہ تمام آبادی ہی اس سعی میں لگی ہو گی کہ پورے اس گلوب پر نشر کردے کہ صلاے عام ہے یارانِ نکتہ داں کے لیے:
میرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے
دنیا جو سُکڑکے گلوبل ولیج بن چلی ہے، اس میں بسنے والے تمام لوگوں کے، بل کہ تمام زمینی ہمسایوں کے سماجی بکھیڑے اور معاشرتی اڑچنیں مل کر سلجھانے، ایک دوسرے کے کام آنے، محبتیں تقسیم کرنے اور محبتیں وصول پانے کے لیے، فرداً فرداً سبھی اپنا کردار جانفشانی سے ادا کرنے لگیں گے، پورے اخلاص کے ساتھ، کہ خلوص پینڈوؤں (دیہاتیوں)کی میراث ہے، اور گلوبل ولیج کے تمام پینڈو بھلا کِسی سے پیچھے کیسے رہ سکتے ہیں، کِسی سے بھی۔
(حوالہebd 208)
حقوقِ انسانی۔۔۔۔۔۔
تحریک براے فراہمیِ حقوقِ انساں، جو ہر ملک کے آئین، زبانی یا تحریری کا حصہ بھی بن چکی ہے اپنی شناخت اور اعلانِ عام کے ناتے انسان کی فضیلت، قدر و منزلت اور احترام کی یافت کے لیے مساعی بروے کار لانے کی خاطر نمایاں حیثیت اختیار کر چکی ہے۔ آئین کی تقدیس کے ہالہ میں اسے بند رکھنے کے بجاے، عمل کی پٹڑی پر دوڑانا ناگزیر ہے۔ کلیسیا اس امر کی تحسین کرتی ہے کہ دورِ حاضر میں غیر معمولی طور پر سازگار صورتِ حالات میں ہیومن رائٹس کے مطالبہ کی پذیرائی ہونے لگی ہے۔ انسان کا حق ہے اسے اس کے حقوق سے محروم نہ رکھا جائے اور اس بارے اس نئے دور میں توثیق و تصدیق کے اثبات سامنے آرہے ہیں۔ عزتِ نفس اور حرمتِ انسان کے حق کو بڑے مؤثر انداز میں تسلیم کرتے ہوئے دنیا کے سامنے اس کا نیا چہرہ لانے کی سعی ہو رہی ہے انسان کو اس کا حق عطا کرنا وہ امتیازی خوبی ہے جو خالق خُداوند تعالیٰ نے اپنی اس خلقت سے دمِ آفرینش ہی منسوب کر دی تھی۔ یہی نمایاں وصف ہے جو اسے اشرف المخلوقات ہونے کا مرتبہ عطا کرتا ہے۔مشیتِ ایزدی میں حق لینے اور حقوقِ انسانی ادا کرنے والے، دو نوں فریق شامل ہیں اور مذہبی اعتبار سے ثوابِ دارین کے مستحق ہیں کہ راضی بہ رضاے الٰہی ہیں۔ کلیسیا یونی ورسل ڈیکلیریشن آف ہیومن رائٹس کی پیشکشیں کرتی ہے۔
عالمگیر فراہمیِ انسانی حقوق کا اعلامیہ ادارئہ اقوامِ متحدہ نے 10دسمبر1948عیسوی میں جاری کِیا تھا جس کی تقدس مآب پوپ جان پال دوم نے یوں تصریح کی تھی کہ یہ اعلان نسلِ انسانی کی اخلاقیاتی نشوونما و ارتقا کی راہ کا ایک اہم و معتبر سنگِ میل ثابت ہو گا۔
(حوالہ۔۔۔۔۔۔Compendium n 152)
بنیادی حقوقِ انسانی کی جڑیں انسانوں کی اپنی منشا و خواہشات میں پیوست ہیں، نہ ہی ریاست کی ماہیئت و اثر میں اور نہ عوامی طاقت، زور اور دباو میں بل کہ یہ تو اُتری ہوتی ہیں انسان کے باطن کے عُمق میں اور ان کا سارا انحصار ہوتا ہے ذاتِ خُداوندی پر جو تمام مخلوق کا خالقِ حقیقی ہے۔ یہ ہمہ گیر حقوق ہیں، مسلمہ اور مستوجبِ قدر و احترام ہیں، کوئی مقتدر انھیں واپس چھین نہیں سکتا۔ حقوقِ انسان عالمگیر یوں ہیں کہ تمام انسانوں کا خاصا ہیں اور ان کے لیے نہ زمان کی کوئی قید ہے نہ مکان کی اور نہ ہی انھیں مشروط کرنے کا کِسی کو اختیار حاصل ہے۔قابلِ احترام اِس لیے ہیں کہ ان کا حصول انسان کے جینز میں شامل ہے، یہ ان کی شخصیت میں قدرتِ الٰہی کا عطا کردہ وصف ہیں جو انھیں عزت، اعتبار اور وقار عطا کرتے ہیں۔ ان حقوق کی پابندی کروانا، یہ آپ کو بتا دیں، تب تک بے سود و نامراد سی کاوش ہو گی، ان کا دعویٰ، تقاضا کرنا فضول سی بات ہو گی جب تک ساتھ کے ساتھ ان حقوق کے بارے میں شعور و آگہی کی مہم نہ چلتی رہے، تمام لوگ، ادنیٰ سمجھے جانے والے اور اپنا اعلیٰ پن زبردستی منوانے والے، سب کے سب اپنے اوپر ان کا احترام جب تک لازم نہ کر لیں۔ جو جہاں بھی ہے اور جیسا بھی ہے تصدیق ہو جانی چاہیے کہ وہ پورے خلوص اور نیک نیتی کے ساتھ ان حقوق کی فراہمی اور دستیابی کے حق میں ہے۔ ان حقوق کو کوئی بھی شخص، خواہ وہ جو بھی ہو، ہتھیانے کی ہمت نہ کرے، یہ نہ منتقل ہو سکتے ہیں نہ منسوخ اور نہ ہی چھینے جا سکتے ہیں، یہ حقدار کا حق ہیں جو دینے ہوں گے، کِسی انسان کو ان حقوق سے محروم نہیں کِیا جا سکتا کیوں کہ ایسا کرنے کا کِسی کو بھی کوئی قانونی جواز حاصل نہ ہے۔ جو شخص یا ارادہ، ایجنسی یا مقتدر قوت ایسا کرے گی وہ گویا جبر، جارحیت اور تشدد کے کوڑ تُمّے کو سینچنے والا فعل انجام دے رہی ہو گی۔
(ibid 153سے استفادہ مفیدِ مطلب ہو گا۔ مطالعہ کیجیے گا)
:سوال نمبر143
۔بنی نوعِ انسان کے حقوق اور آزادی کے بارے میں مسیحی فکر و فہم پر تو ذرا روشنی ڈالیے۔ کیا مسیحیت ان بنیادی حقوق کے لیے سب انسانوں کو برابر کا حقدار سمجھتی ہے؟ غیر مسیحیوں کو بھی؟
جواب:۔مقدس کلیسیا نے اپنے اجمالی جائزہ میں مسیحی سماجی عقیدہ کے اُن لاینفک قسم کے اصل یا مرکزی حیثیت کے نکات کو نمایاں کِیا ہے جو اس ڈاکٹرین کے دائم اصولوں کی وضاحت کرتے ہیں اور ان میںنمایاں ترین اصول وہ ہے جو انسان کی منزلت و تمکنت سے متعلق ہے۔ اسی اصول پر ہی معاشرتی نظریات کے دیگر تمام اصولوں اور ان میں جوکچھ بھی ہے اُس کی اساس قائم ہے۔
مسیحی سماجی عقیدے کے ان علی الدوام اصولوں سے ہی کلیۃً ان حقیقتوں اور صداقتوں کے لیے منضبط کردہ ابتدائی ضوابط تشکیل پاتے ہیں جن سے اجتماعی زندگی مرتب ہوتی ہے اور سوسائٹی خُدا کو گواہ کر کے او ربے شک اُس کی مدد سے بندوں کو، ہر انسان کے ضمیر کو جگاتی اور دعوت دیتی ہے کہ خُدا کی طرف سے عطا کردہ اپنے اختیارات کو دوسرے انسانوں کے ساتھ مِل کے، اور ان کے لیے، پوری آزادی کے ساتھ، ذمہ دارانہ آزادی کے ساتھ کام میںلائے۔ ان اصولوں کی اپنی ایک بدرجہ غایت اخلاقیات ہے کہ ان سے ہماری معاشرتی زندگی میں نمُو لانے اور نکھار پیدا کرنے کے اسباب اور سلیقے، وتیرے پروان چڑھتے ہیں جن سے معاشرتی زندگی کے لیل و نہار سنورنے کی بنیاد فراہم ہوتی ہے، نیکو کاری عادت بنتی ہے، آسانیاں بانٹنے، دُکھ درد غم و راحت شیئر کرنے اور بھلائی کی طرف طبیعت راغب ہوتی ہے، خود بھی عمل کرتے ہیں اور دوسروں کو بھی اچھا بننے اور سب کے ساتھ حسنِ سلوک برتنے کے اصولوں پرعمل پیرا ہونے کی صلاے عام دیتے ہیں، اعلیٰ کردار سے متصف ہونے کے لیے عالمگیر اصولوں کو اپنانے کی شہہ ملتی ہے، مفلس و ناچار انسانوں اور پسماندہ اقوام کے لیے ترجیحی راے رکھنے کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے۔ المختصر یہ کہ مشترکہ ذمہ داریوں اور مفادات سے پیدا ہونے والی سماجی ہم آہنگی و رفاقت کے ساتھ ساتھ مقاصد و عمل کے اتحاد کے اصولوں کا ادراک پیدا ہوتا ہے۔
ان اصولوں اور اسالیب کا ایک اضافی خاصہ یہ بھی ہے کہ معاشرت کو تکمیل ہی تب نصیب ہوتی ہے جب اس میں سانس لینے والے انسان دوسرے انسانوں کی عظمت و انا کا احترام ملحوظِ خاطر رکھنے لگیں، سانس لینے میں دشواری کے لیے آکسیجن سلنڈر یہی اصول فراہم کرتے ہیں اور اس سلسلے میں کلیسیا بھی اپنا برمحل کردار یوں ادا کرتی ہے کہ ان بنیادی اقدار کی حفاظت پر کامل توجہ مبذول کرتے ہوئے ان اصولوں پر عمل کے لیے نہ صرف قواعد و ضوابط تشکیل دیتی رہتی ہے بل کہ ان کی ترویج و عمل کے لیے آسان ترکیبوں سے روشناس کروانے اور اس طرف راغب مسیحیوں اور غیر مسیحیوں کی حوصلہ افزائی و مزید راہ نمائی کرنے کے فریضہ کی انجام دہی میں ہر آن مستعد رہتی ہے۔ تمام سماجی اقدار کا انسان کی حرمت و وقار کے ساتھ بہت گہرا تعلق ہے اور وہ مقتضی ہیں کہ ان میں مستند بالیدگی، قابلِ اعتبار نشوونما اور بھروسے لائق ارتقا کا عمل جاری رہنا چاہیے۔ انسان کی تحریم و تکریم کے شجر پر جو پھل پیدا ہوتا ہے وہ ہے سچائی کا پھل، آزادی کا پھل، انصاف اور محبت کا پھل جس میں تُرشی نہ پہلے کبھی آئی نہ اب ہے اور نہ آیندہ کبھی آ سکتی ہے، مٹھاس میں کھٹاس کہاں۔ قانونی طور پر جائز مگر اپنے ہی اختراع کردہ خود اختیاری اصولوں کا زمینی حقائق کی مطابقت میں احترام اور مخصوص تکنیکی اور مقدس یا مذہبی حوالے سے خالی قسم کے جوازات و موزونیت کو کلیسیا اپنی ذمہ داریاں نبھانے کی راہ میں رکاوٹ سمجھتی ہے۔ تاہم ایسے پیچیدہ اختلافات دُور کرنے کی خاطر اپنی مداخلت کو کلیسیا غلط بھی نہیں سمجھتی تا کہ پتا چل سکے کہ یہ اقدار کِس حد تک انسانی کردار کے مطابق یا موافق، مؤثق و استحکام یافتہ ہیں، یا پھر یہ ماننا پڑے گا کہ انسان اپنے بعض دیگر ارادوں اور فیصلوں کی طرح ان اقدار کے بھی غلط استعمال کا ارتکاب کر رہا ہے۔
(حوالہ کے لیے دیکھیے۔ نمبر198)
صداقت۔۔۔۔۔۔
مرد ہوں یا خواتین انھوں نے اپنے طورپر یہ امتیازی فریضہ سنبھال رکھا ہے کہ وہ ہمیشہ سچائی کی منزل کے راہی بنے رہیں، صداقتوں کا احترام روا رکھیں اور اس پر پوری ذمہ داری سے ثابت قدم رہیں۔ حق سچ کو اوڑھنا بچھونا بنا لینے، سماجی تعلقات، رشتوں، معاشرتی معمولات اور روابط میں اُستواری پیدا کرنے کی سوجھ بوجھ اور ذوق و لگن کو جِلا مل جائے تو اس کی اپنی ہی مخصوص اہمیت ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جب انسانوں کی قوم برادری کوپُرسکون بقاے باہمی کا ادراک حاصل ہوجائے تو ان کو جو صلہ ملے گا، وہ ہے سود مند نظم و ضبط، جو عین مطابق ہے انسانوں کو سرفرازی وقار ملنے کے۔کتنا اعلیٰ ثمر ہے جو انسان کونصیب ہوا! عام لوگ باگ اور معاشرتی گروہ معاشرتی مسائل سلجھانے کے لیے جتنی ٹُوٹ کے محنت کریں گے، ان مسائل پر قابوپانے کے لیے جتنی بھی زیادہ جاں فشانی دکھائیں گے اور سچائیوںکو سامنے رکھتے ہوئے جتنی بھی سعی کریں گے کہ اس کے غلط استعمال سے بچیں اور ضابطہء اخلاق کی پابندی کے لیے حقیقتہً دلی خواہش تازہ و توانا رکھیں گے، اتنی ہی جلدی کامیابی و بامرادی سے ہمکنار ہوں گے۔
(انتخاب198#)
آزادی۔۔۔۔۔۔
انسان کے لیے آزادی ایک اعلیٰ ترین نشان اور الٰہی شبیہ میں اس کی تخلیق اعلیٰ ترین درجہ ہے جو اس کے بلند ترین مقام کا تعین کرتے ہیں اور علامت ہیں اس کی ارفع حرمت و توقیر کی۔ انسانوں کے مابین بہترین تعلق و واسطہ کے لیے انھیں نصیب آزادی کو ہی بروے کار لایا جاتا ہے۔ ہر ذی بشر کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اسے خُدا نے اپنی صورت پیدا کِیا، وہ اسی کا ہی عکسِ عظیم و جلیل ہے، اسی لیے اسے فطری استحقاق حاصل ہے کہ آزاد، معتبر اور ذمہ دار شخصیت کے طور پر اُسے شناخت و قبول کِیا جائے۔ ہم تمام انسان آپس میں ایک دوسرے کی رفعت و عزتِ نفس اور قدر و منزلت کے فرض کی ادائی کے لیے باہم دیگر رہینِ منّت ہیں، پابند ہیں۔ اخلاقی اور مذہبی حوالوں سے خصوصاً اور من حیث الجنس انسانی عمومی طور پر، آزادی کے اختیار و حق کے استعمال میں یہ امر مطلق احتیاج بن جاتا ہے کہ اس کی ربّی عطا، شان و شوکت کا ہر دم پاس کریں۔ آزادی کے معانی و مقاصد کو قطعاً محدود نہیں کِیا جا سکتا۔ خالصۃً انفرادیت پسندانہ تناظر میں اگر دیکھا جائے من مانی کرتے ہوئے اس کی قدر و قیمت گھٹانے کی روش اختیار کی جائے اور اپنی شخصی خود مختاری کے برتے پر آزادیِ انسان کو بے مہار تنقید کی چھلنی سے گزارا جائے تو یہ فعلِ قبیح تو کہلائے گا، احسن عمل نہیں۔ اپنی ہر راے کو مُکمَّل و معتبر سمجھنے کا غرور، خود بینی و بے نیازی سے لا تعلق داری کے علاوہ کچھ حاصل نہ ہو گا۔ آزادی کا صحیح وجود تو بس وہاں قائم رہتا ہے جہاں باہمی اقرارِ واثق مؤثق ہو۔ روزری کے دانوں کی طرح سب ایک ہی لڑی میں پروئے ہوں۔ دوسروں کااحترام ، لحاظ کرنے والوں کو احترام لحاظ ملتا ہے۔ محبت کرنے والوں کو بدلے میں یقینی محبت ملتی ہے۔ سب کچھ دو طرفہ ہوتا ہے۔ انسان اخوت کے بندھن میں بندھا ہو۔ آزادی، حق سچ اور عدالت و انصاف کی عملداری و حکمرانی میں پنپ رہی ہوتی ہے او ریہ لوگوں کو آپس میں جوڑتی ہے، توڑتی نہیں۔ اپنی تمام حدود و اطراف اور گنجایشوں میں آزادی کو جب پرکھا جاتا ہے تو اس وقت پتا چلتا ہے کہ اپنی گہرائی اور وسعت میں آزادی، خصوصاً جب اس کا دفاع کِیا جاتا ہو تو معاشرتی سطح پر، کتنی معنی خیز اور نفع رساں ہے۔
(ای بی ڈی199)
آزادی کی اہمیت کا، اس کی قدر و منزلت اور بطور ہر ذی بشر میں انوکھے پن کی خصوصیت کے اظہار کے اسلوب کے، اپنا ایک تقاضا ہے اور اس کا احترام اس لحاظ سے بہت ضروری ہے کہ انسانی معاشرے کا ہر رکن اس رعایت سے مستفید ہوتا رہتا ہے کہ خُدا کی طرف سے کِسی پیشہ کو اختیار کرنے کی روحانی طلب کی تکمیل کر سکے، یا اپنی صلاحیتوں کو برُوے کار لانے کی تمنا اور ضرورت آزادی کے ساتھ پوری کر سکے۔ آزادی، شخصی آزادی کیا ہے؟ آزادی، اختیار، مرضی، یہی تو ہے کہ بندہ سچائی تک رسائی حاصل کرنے میں آزادہو، مذہبی، ثقافتی اور سیاسی فکر و اعتقادات کے اقرار و اعتراف میںآزا دہو، اس کی راے، نظریات اور انفرادی آدرشوں پر کوئی قید کوئی قدغن نہ ہو، تحریر و تقریر کی آزادی اسے نصیب ہو، اپنا لائف سٹائل یعنی طرزِ زندگی آپ چننے، پسند کرنے میں آزاد ہو اور جہاں تک ممکن ہو اپنے کام کرنے، پیشہ اختیار کرنے، کِسی تحریک میں فعال شرکت کرنے اور اپنا طریق کار خود اختراع کرنے کی آزادی حاصل ہو، معاشی، اقتصادی، معاشرتی اور سیاسی قسم کے اقدامات جبر کے بجاے آزادی کے ساتھ اختیا رکرنے میں اسے مختاری حاصل ہو۔ البتہ عدل گسترانہ نظام کے تحت، قانونی حدود کے اندر رہ کر، مروّج اصولوں اور ضابطوں کا پاس کرتے ہوئے، سماجی تقاضوں کے ذیل میں رہ کر، عوامی فائدے، خواہش، مُراد اور پبلک آرڈر کے مطابق ان مندرجہ بالا آزادیوں کو عمل میں لایا جانا بھی بے حد ضروری ہے ورنہ آزادی کابے محابا بے مہارانہ استعمال معاشرے بل کہ نسلِ انسانی کے لیے زہرِ ہلاہل ثابت ہو گا۔ انسان کی آزادی پر سماجی رویے، ملکی قوانین اور شریعت و اخلاقیات کو نگران ہونے کی حیثیت حاصل ہے۔ اگر آزادی کا استعمال غلط ہوا تو پھر گلی گلی انسان چیختا چِلّاتا بِلبلاتا کُڑھتا پھرے گا کہ جو کرنا ہے سو آپ کرو ہو:
ناحق ہم مجبوروں پر تہمت ہے آزادی کی
اپنا محتسب آپ ہونا چاہیے۔ ذمہ داریوں کا احساس ہونا چاہیے۔ آزادی ایک فعال قوت ہے جس کے بل پر بد اخلاقی پر مشتمل منفی رویوں کی نفی کی جانا چاہیے۔اخلاقیات کے منافی طاقتیں بہت عیّار ہیں، نئی سے نئی جُون میں، نت نئے بہروپ میں اور بھیس بدل بدل کرانسان کے کردار پر حملہ آور ہوتی ہیں، اپنی ترغیبات میں چکما دے جانے کے ان کو ہزاروں گُر آتے ہیں، حسین فریب دینا ان کے بائیں ہاتھ کا کمال ہے، اس لیے ''مشتری ہوشیار باش!''۔ شخصی، خاندان برادری کی یا پوری معاشرت کی اصلاح، ترقی اور بہبود میں جن عوامل اور منفی قوتوں سے ڈر ہو کہ رکاوٹ ڈالیں گی اُن سے لازمی اجتناب برتنا ہو گا، اچھا ہو گا دُور سے ہی انھیں دُھتکار دیا جائے۔ بعد کے علاج معالجہ سے ''دَستی'' پرہیز بہتر ہے۔ عالمگیر معاشرتی فلاح اور خوشحالی کے پیشِ نظر، آزادی میں رچی بسی جوہری صلاحیتوں سے بھرپور فائدہ اُٹھانے کے لیے انسان کو اپنی سکت ، قابلیت اور بساط سے کام لینا ہو گا اور ضرور کام لینا ہو گا تا کہ وِگڑی تگڑی سماج کو خُدا کے فضل سے بدل کے رکھ دیں۔ کم از کم ایسی نیت اور خواہش ہی پال لی جائے تو خُداوند یسوع پاک اپنے جلال میں ہمیں اپنی برکت سے نواز دے گا اور اس کی تقدیس ہمارے عمل کے لیے مہمیز ثابت ہو گی۔ ان شاء اللہ۔
(Ibid 200)
عدل۔۔۔۔۔۔
اعلیٰ اقدارِ اشرف المخلوقات میں عدل بھی ایک اہم صفت ہے جس کے اوپر والے سُر ربط و ضبط کے لحاظ سے عظیم و بنیادی اخلاقِ حمیدہ کے سُروں سے جا ملتے ہیں۔ اس کے منضبط و مستند قواعد کے مطابق یہ مرکب ہے فرد کی مستقل مزاجی، راستبازی، ثابت قدمی اور مضبوط قوتِ ارادی کا۔ انھی صفات کی برکت سے خُدا معبودِ حقیقی کی بندگی کے فرائض اور ہمسایوں کے حقوق کی ادائی میں پورا اُترا جا سکناممکنات میں شامل چلا آرہا ہے۔ داخلی و فاعلی نقطہء نظر سے دیکھا جائے تو معلوم ہو گا عدل و انصاف سے جو خوبیاں منسوب ہیں ان میں اہم ترین خوبی یہ ہے کہ عدل انسانی کردار کی جانچ پرکھ سے اپنے فیصلے کشید کرتا ہے جو آیندہ کے لیے نظیریں بنتی ہیں جن کی اساس فرد کی رضا و رغبت پر موقوف ہوتی ہے جس سے وہ دوسرے انسانوں کو بھی اپنے برابر کا مقام دیتا ہے، بندے کو اپنے ہی جیسا بندہ تسلیم کرتا ہے۔ اسی طرح اگر واقعیت میں، خارجی نقطہء نظر پرنگاہ ڈالی جائے تو پتا چلے گا کہ سماجی حلقہ ہاے اثر اور دو افراد کے مابین یا زیادہ اشخاص کے درمیان اخلاقیات کے فیصلہ کُن معیار اور اصول جو طے پاتے ہیں عدل ان کی پرکھ پرچول اور تشریح کرنے کے فریضہ کی ادائی اور کامل انصاف کے ساتھ آئین کی نگرانی کرتا ہے۔
انصاف لوگوں کی دہلیز پر نہ بھی پہنچے، لوگوں کو اپنی دہلیز پار کرآنے اور دادرسی طلب کرنے کی کھلی چھٹی دیتا ہے۔ کلیسیا کی معاشرتی تعلیم دینے کا اختیار رکھنے والی انتظامیہ مطالبہ کرتی ہے بل کہ مسیحیوں کو پابندِ حکم بناتی ہے کہ انتہائی صاف شفاف اعلیٰ درجہ کی، خوفِ خُدا رکھنے والی فاضل عدلیہ کا احترام سب پر لازم ہے۔ عقوبت یا سزاے قید کی نرم یا کم سخت سزا سنانے والی، فلاحی، سب کے لیے یکساں انصاف کی داعی، آئین و قانون کے مطابق انصاف فراہم کرنے والی عدلیہ مستحقِ توقیرِ قوم ہوتی ہے۔ پوری انسانیت اسے احترام کا درجہ دیتی ہے۔
سماجی انصاف کی کلیسیا ہمیشہ سے قدردان رہی ہے اور اسے اہمیت اس لیے دیتی ہے کہ اس سے عمومی انصاف میں ترقی کی نئی راہیںکھلتی ہیں، معاشرتی تعلقات میں باقاعدگی عطا کرتے ہوئے یہ کسوٹی ہے قوانین پر عملدرآمد کی۔ سماجی انصاف سے ہی معاشرت کے مسائل ایڈریس ہوتے ہیں۔ اسی افادیت کے سبب ہمارے اس سیارئہ زمین پر اسے قبولِ عام، مقبولیتِ دوام حاصل ہے۔
معاشرتی اُلجھنیں ہوں یا سیاسی و معاشی مسائل، ان کی مسافت، حد یا گنجایش عدل و انصاف کے دائرئہ اختیار سے باہر ہرگز نہیں، اور عدالتی فیصلے ہی ان مسائل کے حل کے لیے سماجی بے انصافیوں سے اٹی پڑی اس تاریک دنیا میں روشنی کے مینار ثابت ہوتے ہیں۔
(حوالہebd 201)
دِل کو دِل سے راہ ہوتی ہے۔۔۔۔۔۔
یہ محبت ہی کا کبھی نہ ختم ہونے والا ذخیرہ ہوتا ہے جس سے انصاف، آزادی اور سچائی کی فصلوں کی آبیاری ہوتی ہے کیوں کہ انسان کی قدر کرنے کا، اس سے محبت کرنے کا جذبہ ان کی نشوونما اور دیکھ بھال کا ضامن ہوتا ہے۔ (حوالہebd 205)
محبت انصاف کی دلالت کرتی ہے اور پہلے سے موجود شرط کے طور پر ضرورت ثابت ہوتی ہے اُس کمال کی جس سے عدل کی فضیلت مستحکم ہو سکتی ہو۔ محبت و عدل کی تشنگی کامل الٰہی محبت سے سیراب ہوتی ہے اور اُسی سے اسے تسکینِ دائمی حاصل ہوتی ہے۔ معروضی، خارجی، ظاہری طور نیکی کا بدلہ نیکی سے دینے کا عزم تازہ رکھنے والے انسانوں کے درمیان بلا رُو رعایت، مساویانہ ثالثی کا کردار اد اکرنے میں اگر انصاف جھوک نہ مارچُوک جائے تو پھر یہ محبت اور صرف محبت ہی ہے(اور اس میں وہ مربّیانہ محبت بھی شامل ہے جسے ہم مسیحی من حیث القوم الٰہی رحمت، ربّی رحم و محبت کہتے ہیں) جو انسان کو پھر سے بحالی کی راہ پر ڈال دیتی ہے۔ انسانوں کے انسانوں سے تعلقات، رشتوں، رابطوں کے تقاضے فقط انصاف بانٹنے سے ہی پورے نہیں ہو جاتے، ان کے لیے محبت کی طاقت چاہیے جو انھیں ایک دوسرے سے جوڑے رکھ سکتی ہے۔
idib 206))
چاہے جتنی قانون سازی کر لی جائے، بڑے سے بڑا مجموعہء قوانین منصہ شہود پر بوجھ بنا دیا جائے، نہ ہی ضابطوں اور قواعد کا کوئی نظام، نہ ہی مشکلات پر غالب آنے کے لیے تبادلہء خیالات، نہ مصالحت کی گفتگو۔ بے شک انھیں جتنا رواج دے سکتے ہیں دے کر دیکھ لیاجائے، ایسے خاطر خواہ نتائج نہیں سامنے لا سکتا کہ لوگوں کو اتفاق و یگانگت کی طرف مائل کر سکے سواے محبت کا راستہ اپنانے کو ذریعہ بنا لینے کے کہ یہی راستہ ہے جو دلوں کوکھینچ لا سکتا ہے، آمادگی پیدا کر سکتا ہے کیوں کہ محبت کا ہی راستہ ہے جو ذہنوں کو بھا جاتا ہے۔ اسی راستے پر انسان چل پڑے تو اتحاد، بھائی چارے، امن سے رہنے اور رہنے دینے کے سنگِ میل عبور کیے جا سکتے ہیں۔ بھلے مسئلہ کے ہر پہلو پر غور کرنے والا طرزِ عمل ہی کیوں نہ اختیار کر دیکھا جائے وہ محبت کی راہ اپنانے کے طرزِ عمل پر سبقت نہیں لے جا سکتا۔ اسی کو تو کہتے ہیں
عقل نے ٹوکا ہر ہر گام
عشق پکارا وہ ہے منزل
بس آتشِ عشق، عمیق لگن، بے پایاں محبت ہی اپنے معیار، نیک صفات، باطن کی خوبیوں اور اخلاقی جواہر(forma virtutum : Moral virtues)کے باوصف معاشرتی باہمی تاثُّر اور روابط کی صورت پیدا کر سکتی ہے، صورت سامنے آجائے تو اس میں جان ڈال دینے میں محبت کو تو یدِ طُولیٰ حاصل ہے۔یہ کارزارِ ہستی آئے روز بڑھتی پیچیدگیوں کا شکار ہے، انسانی رُجحانات اور جبلتوں کے دباو، تناو سے ذہنی اُلجھنوں میں مبتلا ہے۔ ان تمام پیچیدگیوں، اُلجھنوں کے افعال و امراض کے لیے تیر بہ ہدف نسخہ کیا ہے؟ آپ نے جان لیا ہو گا، محبت اور صرف محبت خُداوند پاک یسوع کی برکت سے محبت شافعِ امراض ہے۔ خُداوند ہمیشہ دوسروں کو صحت تن دُرُستی دان کرتا رہا۔ اور آج بھی روح القدس میں اسی کے دم سے ہم شفا پاتے ہیں۔ یہ سب اس کی غیر مشروط محبت کا اثر ہے جو ہماری نس نس میں دوڑ رہا ہے۔ اسی لیے کہتے ہیں۔۔۔۔۔۔ محبت فاتحِ عالم ہے۔ کُل کائنات میں رچی بسی ہے کیوں کہ خُدا باپ ہے ہی محبت ہی محبت۔ صرف ہمارے تمھارے لیے ہی نہیں، سب خلقت کے لیے۔ لافانی خُدا کی دائم قائم محبت۔ ہم محبت کے الٰہی وصف سے کیسے محروم رہ سکتے ہیں؟ ہم مسیحی تو اس نعمتِ خُداوندی سے مالا مال ہیں۔ اسی لیے ہم پڑوسیوں میں، آپس میں بل کہ پورے کے پورے عالمِ انسانیت میں محبت بانٹنے والی قوم ہیں۔ ہم جس کی اُمت ہیں وہ مجسم محبت ہے، اس نے ہماری، آپ کی، سب انسانوں کی محبت میں ہی اپنی جان وار دی تھی۔ محبت کی برکتیں، اس کا فیض دنیا کے ہر گوشے میں بسنے والے ہر انسان تک پہنچا پانے کے لیے ضروری ہے، ہمیں محتاط رویّہ اپنانا ہو گا، ہمیں محبت کا پرچارِ عام کرنا ہو گا صرف اس کے منفرد کارناموں کے لیے تحریص و ترغیب دینے والے کردار کے وسیلے سے ہی نہیں، بل کہ محبت کی اس کبھی کم نہ پڑنے والی طاقت کے ذریعے جو بڑھاوا دیتی، حوصلہ افزائی کرتی ہے جس کی شہہ پر داخلی گہرائی کے ساتھ آج کی دنیا کے مسائل کے لیے اپنی کوششوں سے حل کرنے کے وسائل ہم سامنے لے آئیں۔ اپنی ناک سے آگے دیکھیں، دوسروں کے کام آنے کے لیے آگے بڑھیں، ان کے مسائل کو اپنے مسائل سمجھیں۔ ان کے کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے ہوں، مشکلات ہماری محبت کے راستے کا روڑا نہ بنیں، ہم مشکلات کے سامنے آسمان تک دیوار بن جائیں، بہ نظرِ غائر معاشرے کے بوسیدہ ڈھانچوں کو تجدیدی صورت سے آشنا کریں، سماجی تنظیموں میں زندگی اور حرکت کی نئی لہر دوڑا دیں،بیمار قانونی نظام کو تازہ و توانا خون کی ڈرپ لگا دیں۔ ایسی صورتِ حالات میں کہ جس سے مادرِگیتی کے باسی بیٹے بیٹیاں اپنی بساط مطابق نبردآزما ہیں، ہم ذاتی اغراض و مقاصد اور فائدوں کے لیے نہیں بل کہ عالمگیر سچائی اور پورے خلوص کے ساتھ محبت بھرے جذبہ کے جِلو میں ان سب کا بھرپور ساتھ دے سکتے ہیں۔ ان کی بھلائی کا سوچ رکھنا اپنی بھلائی بل کہ پوری انسانیت کی بھلائی کا سوچ ہو گا۔ ہمیں اپنے اندر محبت کے ضمن میں ذوقِ یقین پیدا کرنا ہو گا۔۔۔۔۔۔
محبت میں نہ کام آتی ہیں تدبیریں نہ شمشیریں
جو ہو ذوقِ یقیں پیدا تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں
ہمّتِ مرداںمددِ خُدا۔ اسی میں محبت کا سیاسی و معاشرتی طریقِ کار مستور ہے۔ ہماری سماج کو ہماری کریم النفسی کی ضرورت ہے۔ یہ سوشل چیریٹی ہے جو دنیا بھر کی فلاح و بہبود کی خاطر اچھائیاں، نیکیاں اور محبت عام کرنے کی راہ سجھاتی ہے، ساری راہیں محبت کے بحرِ بے کراں کی طرف جاتی ہیں جس میں ہم سب انسانوں نے شناوری کرنا ہے۔ کامیابی، بامرادی اور انسانیت کی بھلائی کی سیپیاں اسی سمندر میں غوطہ لگا کر ہمیں باہر نکالتی ہیں تا کہ لوگ مستفید ہو سکیں۔ ذہن، سوچ، لگن، محنت اور ہمت چاہیے، وہ ہمیں خُدا باپ میں خُدا بیٹے کی نصرت سے پہلے ہی حاصل ہے۔
(بحوالہibid 207)
اگر ہمارے جواب کی طوالت آپ کی خاطر پر گراں نہ گذر رہی ہو تو ہمیں کچھ اور بھی کہنا ہے۔ وہ یہ ہے کہ ریاستی و سماجی رفاہی تنظیمیں محبتِ ربّی کے بے کنار آسمان تلے تھک کر چُور نہیں ہو گئیں، افراد کے درمیان بہتر تعلقات کی ترویج کے لیے مسلسل کوشاں رہتی ہیں اور ان رابطوں کے انفرادی استحکام کے سلسلے میں ان کا نیٹ ورک اپنے ساتھ اور ان افراد کے بیچ تعلق داری میں کامیابی سے بھی ہمکنار ہے جس کا ثمر ہے کہ سماجی و ملکی برادری میں بہتری آ رہی ہے۔ دیکھا جائے تو وسیع تناظر میں ان کے عمل دخل کے سبب فلاح بہبود کے اچھے کاموں کی طرف راغب ایک معاشرت جنم لے رہی ہے اور بلا شبہ اس کے نتیجہ میں محبت اور حسنِ اخلاق کی پذیرائی عام ہونے لگی ہے۔ اخلاقی اقدار توانا ہو رہی ہیں۔۔۔۔۔۔ یہ سب محبت کا ہی کارنامہ ہے، الٰہی رحمت کی نسلِ انسانی کو برکت میسر ہے اور اب یہاں حقیقی اور حرکت کُناں مثبت ردِّ عمل سامنے آنے لگا ہے جو ہمساےے کی ضروریات و احتیاجات کا خیال رکھنے اور اسے اپنی محبت کا حصہ بنانے پر منتج ہے۔مہر و محبت کا یہ ایسا عمل ہے جس سے مفر ممکن ہی نہیں۔ اب ایسی سوسائٹی کا ناک نقشہ اُبھارا جانے لگا ہے کہ کوئی غریب غریب نہ رہے، اور ہمارا نادار پڑوسی بھی ماضی کی مفلسی والی تلخ یادوں کو محبت و برادرانہ تعلقات کی پاتال میں کہیں دفن کر دے۔ وہ دِن زیادہ دُور نہیں جب معاشرت کو ایسی صورتِ حالات ورثے میں ملا کر نے لگیں گی جس میں بے شمار لوگ بل کہ تمام آبادی ہی اس سعی میں لگی ہو گی کہ پورے اس گلوب پر نشر کردے کہ صلاے عام ہے یارانِ نکتہ داں کے لیے:
میرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے
دنیا جو سُکڑکے گلوبل ولیج بن چلی ہے، اس میں بسنے والے تمام لوگوں کے، بل کہ تمام زمینی ہمسایوں کے سماجی بکھیڑے اور معاشرتی اڑچنیں مل کر سلجھانے، ایک دوسرے کے کام آنے، محبتیں تقسیم کرنے اور محبتیں وصول پانے کے لیے، فرداً فرداً سبھی اپنا کردار جانفشانی سے ادا کرنے لگیں گے، پورے اخلاص کے ساتھ، کہ خلوص پینڈوؤں (دیہاتیوں)کی میراث ہے، اور گلوبل ولیج کے تمام پینڈو بھلا کِسی سے پیچھے کیسے رہ سکتے ہیں، کِسی سے بھی۔
(حوالہebd 208)
حقوقِ انسانی۔۔۔۔۔۔
تحریک براے فراہمیِ حقوقِ انساں، جو ہر ملک کے آئین، زبانی یا تحریری کا حصہ بھی بن چکی ہے اپنی شناخت اور اعلانِ عام کے ناتے انسان کی فضیلت، قدر و منزلت اور احترام کی یافت کے لیے مساعی بروے کار لانے کی خاطر نمایاں حیثیت اختیار کر چکی ہے۔ آئین کی تقدیس کے ہالہ میں اسے بند رکھنے کے بجاے، عمل کی پٹڑی پر دوڑانا ناگزیر ہے۔ کلیسیا اس امر کی تحسین کرتی ہے کہ دورِ حاضر میں غیر معمولی طور پر سازگار صورتِ حالات میں ہیومن رائٹس کے مطالبہ کی پذیرائی ہونے لگی ہے۔ انسان کا حق ہے اسے اس کے حقوق سے محروم نہ رکھا جائے اور اس بارے اس نئے دور میں توثیق و تصدیق کے اثبات سامنے آرہے ہیں۔ عزتِ نفس اور حرمتِ انسان کے حق کو بڑے مؤثر انداز میں تسلیم کرتے ہوئے دنیا کے سامنے اس کا نیا چہرہ لانے کی سعی ہو رہی ہے انسان کو اس کا حق عطا کرنا وہ امتیازی خوبی ہے جو خالق خُداوند تعالیٰ نے اپنی اس خلقت سے دمِ آفرینش ہی منسوب کر دی تھی۔ یہی نمایاں وصف ہے جو اسے اشرف المخلوقات ہونے کا مرتبہ عطا کرتا ہے۔مشیتِ ایزدی میں حق لینے اور حقوقِ انسانی ادا کرنے والے، دو نوں فریق شامل ہیں اور مذہبی اعتبار سے ثوابِ دارین کے مستحق ہیں کہ راضی بہ رضاے الٰہی ہیں۔ کلیسیا یونی ورسل ڈیکلیریشن آف ہیومن رائٹس کی پیشکشیں کرتی ہے۔
عالمگیر فراہمیِ انسانی حقوق کا اعلامیہ ادارئہ اقوامِ متحدہ نے 10دسمبر1948عیسوی میں جاری کِیا تھا جس کی تقدس مآب پوپ جان پال دوم نے یوں تصریح کی تھی کہ یہ اعلان نسلِ انسانی کی اخلاقیاتی نشوونما و ارتقا کی راہ کا ایک اہم و معتبر سنگِ میل ثابت ہو گا۔
(حوالہ۔۔۔۔۔۔Compendium n 152)
بنیادی حقوقِ انسانی کی جڑیں انسانوں کی اپنی منشا و خواہشات میں پیوست ہیں، نہ ہی ریاست کی ماہیئت و اثر میں اور نہ عوامی طاقت، زور اور دباو میں بل کہ یہ تو اُتری ہوتی ہیں انسان کے باطن کے عُمق میں اور ان کا سارا انحصار ہوتا ہے ذاتِ خُداوندی پر جو تمام مخلوق کا خالقِ حقیقی ہے۔ یہ ہمہ گیر حقوق ہیں، مسلمہ اور مستوجبِ قدر و احترام ہیں، کوئی مقتدر انھیں واپس چھین نہیں سکتا۔ حقوقِ انسان عالمگیر یوں ہیں کہ تمام انسانوں کا خاصا ہیں اور ان کے لیے نہ زمان کی کوئی قید ہے نہ مکان کی اور نہ ہی انھیں مشروط کرنے کا کِسی کو اختیار حاصل ہے۔قابلِ احترام اِس لیے ہیں کہ ان کا حصول انسان کے جینز میں شامل ہے، یہ ان کی شخصیت میں قدرتِ الٰہی کا عطا کردہ وصف ہیں جو انھیں عزت، اعتبار اور وقار عطا کرتے ہیں۔ ان حقوق کی پابندی کروانا، یہ آپ کو بتا دیں، تب تک بے سود و نامراد سی کاوش ہو گی، ان کا دعویٰ، تقاضا کرنا فضول سی بات ہو گی جب تک ساتھ کے ساتھ ان حقوق کے بارے میں شعور و آگہی کی مہم نہ چلتی رہے، تمام لوگ، ادنیٰ سمجھے جانے والے اور اپنا اعلیٰ پن زبردستی منوانے والے، سب کے سب اپنے اوپر ان کا احترام جب تک لازم نہ کر لیں۔ جو جہاں بھی ہے اور جیسا بھی ہے تصدیق ہو جانی چاہیے کہ وہ پورے خلوص اور نیک نیتی کے ساتھ ان حقوق کی فراہمی اور دستیابی کے حق میں ہے۔ ان حقوق کو کوئی بھی شخص، خواہ وہ جو بھی ہو، ہتھیانے کی ہمت نہ کرے، یہ نہ منتقل ہو سکتے ہیں نہ منسوخ اور نہ ہی چھینے جا سکتے ہیں، یہ حقدار کا حق ہیں جو دینے ہوں گے، کِسی انسان کو ان حقوق سے محروم نہیں کِیا جا سکتا کیوں کہ ایسا کرنے کا کِسی کو بھی کوئی قانونی جواز حاصل نہ ہے۔ جو شخص یا ارادہ، ایجنسی یا مقتدر قوت ایسا کرے گی وہ گویا جبر، جارحیت اور تشدد کے کوڑ تُمّے کو سینچنے والا فعل انجام دے رہی ہو گی۔
(ibid 153سے استفادہ مفیدِ مطلب ہو گا۔ مطالعہ کیجیے گا)
:سوال نمبر143
۔بنی نوعِ انسان کے حقوق اور آزادی کے بارے میں مسیحی فکر و فہم پر تو ذرا روشنی ڈالیے۔ کیا مسیحیت ان بنیادی حقوق کے لیے سب انسانوں کو برابر کا حقدار سمجھتی ہے؟ غیر مسیحیوں کو بھی؟
جواب:۔مقدس کلیسیا نے اپنے اجمالی جائزہ میں مسیحی سماجی عقیدہ کے اُن لاینفک قسم کے اصل یا مرکزی حیثیت کے نکات کو نمایاں کِیا ہے جو اس ڈاکٹرین کے دائم اصولوں کی وضاحت کرتے ہیں اور ان میںنمایاں ترین اصول وہ ہے جو انسان کی منزلت و تمکنت سے متعلق ہے۔ اسی اصول پر ہی معاشرتی نظریات کے دیگر تمام اصولوں اور ان میں جوکچھ بھی ہے اُس کی اساس قائم ہے۔
مسیحی سماجی عقیدے کے ان علی الدوام اصولوں سے ہی کلیۃً ان حقیقتوں اور صداقتوں کے لیے منضبط کردہ ابتدائی ضوابط تشکیل پاتے ہیں جن سے اجتماعی زندگی مرتب ہوتی ہے اور سوسائٹی خُدا کو گواہ کر کے او ربے شک اُس کی مدد سے بندوں کو، ہر انسان کے ضمیر کو جگاتی اور دعوت دیتی ہے کہ خُدا کی طرف سے عطا کردہ اپنے اختیارات کو دوسرے انسانوں کے ساتھ مِل کے، اور ان کے لیے، پوری آزادی کے ساتھ، ذمہ دارانہ آزادی کے ساتھ کام میںلائے۔ ان اصولوں کی اپنی ایک بدرجہ غایت اخلاقیات ہے کہ ان سے ہماری معاشرتی زندگی میں نمُو لانے اور نکھار پیدا کرنے کے اسباب اور سلیقے، وتیرے پروان چڑھتے ہیں جن سے معاشرتی زندگی کے لیل و نہار سنورنے کی بنیاد فراہم ہوتی ہے، نیکو کاری عادت بنتی ہے، آسانیاں بانٹنے، دُکھ درد غم و راحت شیئر کرنے اور بھلائی کی طرف طبیعت راغب ہوتی ہے، خود بھی عمل کرتے ہیں اور دوسروں کو بھی اچھا بننے اور سب کے ساتھ حسنِ سلوک برتنے کے اصولوں پرعمل پیرا ہونے کی صلاے عام دیتے ہیں، اعلیٰ کردار سے متصف ہونے کے لیے عالمگیر اصولوں کو اپنانے کی شہہ ملتی ہے، مفلس و ناچار انسانوں اور پسماندہ اقوام کے لیے ترجیحی راے رکھنے کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے۔ المختصر یہ کہ مشترکہ ذمہ داریوں اور مفادات سے پیدا ہونے والی سماجی ہم آہنگی و رفاقت کے ساتھ ساتھ مقاصد و عمل کے اتحاد کے اصولوں کا ادراک پیدا ہوتا ہے۔
ان اصولوں اور اسالیب کا ایک اضافی خاصہ یہ بھی ہے کہ معاشرت کو تکمیل ہی تب نصیب ہوتی ہے جب اس میں سانس لینے والے انسان دوسرے انسانوں کی عظمت و انا کا احترام ملحوظِ خاطر رکھنے لگیں، سانس لینے میں دشواری کے لیے آکسیجن سلنڈر یہی اصول فراہم کرتے ہیں اور اس سلسلے میں کلیسیا بھی اپنا برمحل کردار یوں ادا کرتی ہے کہ ان بنیادی اقدار کی حفاظت پر کامل توجہ مبذول کرتے ہوئے ان اصولوں پر عمل کے لیے نہ صرف قواعد و ضوابط تشکیل دیتی رہتی ہے بل کہ ان کی ترویج و عمل کے لیے آسان ترکیبوں سے روشناس کروانے اور اس طرف راغب مسیحیوں اور غیر مسیحیوں کی حوصلہ افزائی و مزید راہ نمائی کرنے کے فریضہ کی انجام دہی میں ہر آن مستعد رہتی ہے۔ تمام سماجی اقدار کا انسان کی حرمت و وقار کے ساتھ بہت گہرا تعلق ہے اور وہ مقتضی ہیں کہ ان میں مستند بالیدگی، قابلِ اعتبار نشوونما اور بھروسے لائق ارتقا کا عمل جاری رہنا چاہیے۔ انسان کی تحریم و تکریم کے شجر پر جو پھل پیدا ہوتا ہے وہ ہے سچائی کا پھل، آزادی کا پھل، انصاف اور محبت کا پھل جس میں تُرشی نہ پہلے کبھی آئی نہ اب ہے اور نہ آیندہ کبھی آ سکتی ہے، مٹھاس میں کھٹاس کہاں۔ قانونی طور پر جائز مگر اپنے ہی اختراع کردہ خود اختیاری اصولوں کا زمینی حقائق کی مطابقت میں احترام اور مخصوص تکنیکی اور مقدس یا مذہبی حوالے سے خالی قسم کے جوازات و موزونیت کو کلیسیا اپنی ذمہ داریاں نبھانے کی راہ میں رکاوٹ سمجھتی ہے۔ تاہم ایسے پیچیدہ اختلافات دُور کرنے کی خاطر اپنی مداخلت کو کلیسیا غلط بھی نہیں سمجھتی تا کہ پتا چل سکے کہ یہ اقدار کِس حد تک انسانی کردار کے مطابق یا موافق، مؤثق و استحکام یافتہ ہیں، یا پھر یہ ماننا پڑے گا کہ انسان اپنے بعض دیگر ارادوں اور فیصلوں کی طرح ان اقدار کے بھی غلط استعمال کا ارتکاب کر رہا ہے۔
(حوالہ کے لیے دیکھیے۔ نمبر198)
صداقت۔۔۔۔۔۔
مرد ہوں یا خواتین انھوں نے اپنے طورپر یہ امتیازی فریضہ سنبھال رکھا ہے کہ وہ ہمیشہ سچائی کی منزل کے راہی بنے رہیں، صداقتوں کا احترام روا رکھیں اور اس پر پوری ذمہ داری سے ثابت قدم رہیں۔ حق سچ کو اوڑھنا بچھونا بنا لینے، سماجی تعلقات، رشتوں، معاشرتی معمولات اور روابط میں اُستواری پیدا کرنے کی سوجھ بوجھ اور ذوق و لگن کو جِلا مل جائے تو اس کی اپنی ہی مخصوص اہمیت ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جب انسانوں کی قوم برادری کوپُرسکون بقاے باہمی کا ادراک حاصل ہوجائے تو ان کو جو صلہ ملے گا، وہ ہے سود مند نظم و ضبط، جو عین مطابق ہے انسانوں کو سرفرازی وقار ملنے کے۔کتنا اعلیٰ ثمر ہے جو انسان کونصیب ہوا! عام لوگ باگ اور معاشرتی گروہ معاشرتی مسائل سلجھانے کے لیے جتنی ٹُوٹ کے محنت کریں گے، ان مسائل پر قابوپانے کے لیے جتنی بھی زیادہ جاں فشانی دکھائیں گے اور سچائیوںکو سامنے رکھتے ہوئے جتنی بھی سعی کریں گے کہ اس کے غلط استعمال سے بچیں اور ضابطہء اخلاق کی پابندی کے لیے حقیقتہً دلی خواہش تازہ و توانا رکھیں گے، اتنی ہی جلدی کامیابی و بامرادی سے ہمکنار ہوں گے۔
(انتخاب198#)
آزادی۔۔۔۔۔۔
انسان کے لیے آزادی ایک اعلیٰ ترین نشان اور الٰہی شبیہ میں اس کی تخلیق اعلیٰ ترین درجہ ہے جو اس کے بلند ترین مقام کا تعین کرتے ہیں اور علامت ہیں اس کی ارفع حرمت و توقیر کی۔ انسانوں کے مابین بہترین تعلق و واسطہ کے لیے انھیں نصیب آزادی کو ہی بروے کار لایا جاتا ہے۔ ہر ذی بشر کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اسے خُدا نے اپنی صورت پیدا کِیا، وہ اسی کا ہی عکسِ عظیم و جلیل ہے، اسی لیے اسے فطری استحقاق حاصل ہے کہ آزاد، معتبر اور ذمہ دار شخصیت کے طور پر اُسے شناخت و قبول کِیا جائے۔ ہم تمام انسان آپس میں ایک دوسرے کی رفعت و عزتِ نفس اور قدر و منزلت کے فرض کی ادائی کے لیے باہم دیگر رہینِ منّت ہیں، پابند ہیں۔ اخلاقی اور مذہبی حوالوں سے خصوصاً اور من حیث الجنس انسانی عمومی طور پر، آزادی کے اختیار و حق کے استعمال میں یہ امر مطلق احتیاج بن جاتا ہے کہ اس کی ربّی عطا، شان و شوکت کا ہر دم پاس کریں۔ آزادی کے معانی و مقاصد کو قطعاً محدود نہیں کِیا جا سکتا۔ خالصۃً انفرادیت پسندانہ تناظر میں اگر دیکھا جائے من مانی کرتے ہوئے اس کی قدر و قیمت گھٹانے کی روش اختیار کی جائے اور اپنی شخصی خود مختاری کے برتے پر آزادیِ انسان کو بے مہار تنقید کی چھلنی سے گزارا جائے تو یہ فعلِ قبیح تو کہلائے گا، احسن عمل نہیں۔ اپنی ہر راے کو مُکمَّل و معتبر سمجھنے کا غرور، خود بینی و بے نیازی سے لا تعلق داری کے علاوہ کچھ حاصل نہ ہو گا۔ آزادی کا صحیح وجود تو بس وہاں قائم رہتا ہے جہاں باہمی اقرارِ واثق مؤثق ہو۔ روزری کے دانوں کی طرح سب ایک ہی لڑی میں پروئے ہوں۔ دوسروں کااحترام ، لحاظ کرنے والوں کو احترام لحاظ ملتا ہے۔ محبت کرنے والوں کو بدلے میں یقینی محبت ملتی ہے۔ سب کچھ دو طرفہ ہوتا ہے۔ انسان اخوت کے بندھن میں بندھا ہو۔ آزادی، حق سچ اور عدالت و انصاف کی عملداری و حکمرانی میں پنپ رہی ہوتی ہے او ریہ لوگوں کو آپس میں جوڑتی ہے، توڑتی نہیں۔ اپنی تمام حدود و اطراف اور گنجایشوں میں آزادی کو جب پرکھا جاتا ہے تو اس وقت پتا چلتا ہے کہ اپنی گہرائی اور وسعت میں آزادی، خصوصاً جب اس کا دفاع کِیا جاتا ہو تو معاشرتی سطح پر، کتنی معنی خیز اور نفع رساں ہے۔
(ای بی ڈی199)
آزادی کی اہمیت کا، اس کی قدر و منزلت اور بطور ہر ذی بشر میں انوکھے پن کی خصوصیت کے اظہار کے اسلوب کے، اپنا ایک تقاضا ہے اور اس کا احترام اس لحاظ سے بہت ضروری ہے کہ انسانی معاشرے کا ہر رکن اس رعایت سے مستفید ہوتا رہتا ہے کہ خُدا کی طرف سے کِسی پیشہ کو اختیار کرنے کی روحانی طلب کی تکمیل کر سکے، یا اپنی صلاحیتوں کو برُوے کار لانے کی تمنا اور ضرورت آزادی کے ساتھ پوری کر سکے۔ آزادی، شخصی آزادی کیا ہے؟ آزادی، اختیار، مرضی، یہی تو ہے کہ بندہ سچائی تک رسائی حاصل کرنے میں آزادہو، مذہبی، ثقافتی اور سیاسی فکر و اعتقادات کے اقرار و اعتراف میںآزا دہو، اس کی راے، نظریات اور انفرادی آدرشوں پر کوئی قید کوئی قدغن نہ ہو، تحریر و تقریر کی آزادی اسے نصیب ہو، اپنا لائف سٹائل یعنی طرزِ زندگی آپ چننے، پسند کرنے میں آزاد ہو اور جہاں تک ممکن ہو اپنے کام کرنے، پیشہ اختیار کرنے، کِسی تحریک میں فعال شرکت کرنے اور اپنا طریق کار خود اختراع کرنے کی آزادی حاصل ہو، معاشی، اقتصادی، معاشرتی اور سیاسی قسم کے اقدامات جبر کے بجاے آزادی کے ساتھ اختیا رکرنے میں اسے مختاری حاصل ہو۔ البتہ عدل گسترانہ نظام کے تحت، قانونی حدود کے اندر رہ کر، مروّج اصولوں اور ضابطوں کا پاس کرتے ہوئے، سماجی تقاضوں کے ذیل میں رہ کر، عوامی فائدے، خواہش، مُراد اور پبلک آرڈر کے مطابق ان مندرجہ بالا آزادیوں کو عمل میں لایا جانا بھی بے حد ضروری ہے ورنہ آزادی کابے محابا بے مہارانہ استعمال معاشرے بل کہ نسلِ انسانی کے لیے زہرِ ہلاہل ثابت ہو گا۔ انسان کی آزادی پر سماجی رویے، ملکی قوانین اور شریعت و اخلاقیات کو نگران ہونے کی حیثیت حاصل ہے۔ اگر آزادی کا استعمال غلط ہوا تو پھر گلی گلی انسان چیختا چِلّاتا بِلبلاتا کُڑھتا پھرے گا کہ جو کرنا ہے سو آپ کرو ہو:
ناحق ہم مجبوروں پر تہمت ہے آزادی کی
اپنا محتسب آپ ہونا چاہیے۔ ذمہ داریوں کا احساس ہونا چاہیے۔ آزادی ایک فعال قوت ہے جس کے بل پر بد اخلاقی پر مشتمل منفی رویوں کی نفی کی جانا چاہیے۔اخلاقیات کے منافی طاقتیں بہت عیّار ہیں، نئی سے نئی جُون میں، نت نئے بہروپ میں اور بھیس بدل بدل کرانسان کے کردار پر حملہ آور ہوتی ہیں، اپنی ترغیبات میں چکما دے جانے کے ان کو ہزاروں گُر آتے ہیں، حسین فریب دینا ان کے بائیں ہاتھ کا کمال ہے، اس لیے ''مشتری ہوشیار باش!''۔ شخصی، خاندان برادری کی یا پوری معاشرت کی اصلاح، ترقی اور بہبود میں جن عوامل اور منفی قوتوں سے ڈر ہو کہ رکاوٹ ڈالیں گی اُن سے لازمی اجتناب برتنا ہو گا، اچھا ہو گا دُور سے ہی انھیں دُھتکار دیا جائے۔ بعد کے علاج معالجہ سے ''دَستی'' پرہیز بہتر ہے۔ عالمگیر معاشرتی فلاح اور خوشحالی کے پیشِ نظر، آزادی میں رچی بسی جوہری صلاحیتوں سے بھرپور فائدہ اُٹھانے کے لیے انسان کو اپنی سکت ، قابلیت اور بساط سے کام لینا ہو گا اور ضرور کام لینا ہو گا تا کہ وِگڑی تگڑی سماج کو خُدا کے فضل سے بدل کے رکھ دیں۔ کم از کم ایسی نیت اور خواہش ہی پال لی جائے تو خُداوند یسوع پاک اپنے جلال میں ہمیں اپنی برکت سے نواز دے گا اور اس کی تقدیس ہمارے عمل کے لیے مہمیز ثابت ہو گی۔ ان شاء اللہ۔
(Ibid 200)
عدل۔۔۔۔۔۔
اعلیٰ اقدارِ اشرف المخلوقات میں عدل بھی ایک اہم صفت ہے جس کے اوپر والے سُر ربط و ضبط کے لحاظ سے عظیم و بنیادی اخلاقِ حمیدہ کے سُروں سے جا ملتے ہیں۔ اس کے منضبط و مستند قواعد کے مطابق یہ مرکب ہے فرد کی مستقل مزاجی، راستبازی، ثابت قدمی اور مضبوط قوتِ ارادی کا۔ انھی صفات کی برکت سے خُدا معبودِ حقیقی کی بندگی کے فرائض اور ہمسایوں کے حقوق کی ادائی میں پورا اُترا جا سکناممکنات میں شامل چلا آرہا ہے۔ داخلی و فاعلی نقطہء نظر سے دیکھا جائے تو معلوم ہو گا عدل و انصاف سے جو خوبیاں منسوب ہیں ان میں اہم ترین خوبی یہ ہے کہ عدل انسانی کردار کی جانچ پرکھ سے اپنے فیصلے کشید کرتا ہے جو آیندہ کے لیے نظیریں بنتی ہیں جن کی اساس فرد کی رضا و رغبت پر موقوف ہوتی ہے جس سے وہ دوسرے انسانوں کو بھی اپنے برابر کا مقام دیتا ہے، بندے کو اپنے ہی جیسا بندہ تسلیم کرتا ہے۔ اسی طرح اگر واقعیت میں، خارجی نقطہء نظر پرنگاہ ڈالی جائے تو پتا چلے گا کہ سماجی حلقہ ہاے اثر اور دو افراد کے مابین یا زیادہ اشخاص کے درمیان اخلاقیات کے فیصلہ کُن معیار اور اصول جو طے پاتے ہیں عدل ان کی پرکھ پرچول اور تشریح کرنے کے فریضہ کی ادائی اور کامل انصاف کے ساتھ آئین کی نگرانی کرتا ہے۔
انصاف لوگوں کی دہلیز پر نہ بھی پہنچے، لوگوں کو اپنی دہلیز پار کرآنے اور دادرسی طلب کرنے کی کھلی چھٹی دیتا ہے۔ کلیسیا کی معاشرتی تعلیم دینے کا اختیار رکھنے والی انتظامیہ مطالبہ کرتی ہے بل کہ مسیحیوں کو پابندِ حکم بناتی ہے کہ انتہائی صاف شفاف اعلیٰ درجہ کی، خوفِ خُدا رکھنے والی فاضل عدلیہ کا احترام سب پر لازم ہے۔ عقوبت یا سزاے قید کی نرم یا کم سخت سزا سنانے والی، فلاحی، سب کے لیے یکساں انصاف کی داعی، آئین و قانون کے مطابق انصاف فراہم کرنے والی عدلیہ مستحقِ توقیرِ قوم ہوتی ہے۔ پوری انسانیت اسے احترام کا درجہ دیتی ہے۔
سماجی انصاف کی کلیسیا ہمیشہ سے قدردان رہی ہے اور اسے اہمیت اس لیے دیتی ہے کہ اس سے عمومی انصاف میں ترقی کی نئی راہیںکھلتی ہیں، معاشرتی تعلقات میں باقاعدگی عطا کرتے ہوئے یہ کسوٹی ہے قوانین پر عملدرآمد کی۔ سماجی انصاف سے ہی معاشرت کے مسائل ایڈریس ہوتے ہیں۔ اسی افادیت کے سبب ہمارے اس سیارئہ زمین پر اسے قبولِ عام، مقبولیتِ دوام حاصل ہے۔
معاشرتی اُلجھنیں ہوں یا سیاسی و معاشی مسائل، ان کی مسافت، حد یا گنجایش عدل و انصاف کے دائرئہ اختیار سے باہر ہرگز نہیں، اور عدالتی فیصلے ہی ان مسائل کے حل کے لیے سماجی بے انصافیوں سے اٹی پڑی اس تاریک دنیا میں روشنی کے مینار ثابت ہوتے ہیں۔
(حوالہebd 201)
دِل کو دِل سے راہ ہوتی ہے۔۔۔۔۔۔
یہ محبت ہی کا کبھی نہ ختم ہونے والا ذخیرہ ہوتا ہے جس سے انصاف، آزادی اور سچائی کی فصلوں کی آبیاری ہوتی ہے کیوں کہ انسان کی قدر کرنے کا، اس سے محبت کرنے کا جذبہ ان کی نشوونما اور دیکھ بھال کا ضامن ہوتا ہے۔ (حوالہebd 205)
محبت انصاف کی دلالت کرتی ہے اور پہلے سے موجود شرط کے طور پر ضرورت ثابت ہوتی ہے اُس کمال کی جس سے عدل کی فضیلت مستحکم ہو سکتی ہو۔ محبت و عدل کی تشنگی کامل الٰہی محبت سے سیراب ہوتی ہے اور اُسی سے اسے تسکینِ دائمی حاصل ہوتی ہے۔ معروضی، خارجی، ظاہری طور نیکی کا بدلہ نیکی سے دینے کا عزم تازہ رکھنے والے انسانوں کے درمیان بلا رُو رعایت، مساویانہ ثالثی کا کردار اد اکرنے میں اگر انصاف جھوک نہ مارچُوک جائے تو پھر یہ محبت اور صرف محبت ہی ہے(اور اس میں وہ مربّیانہ محبت بھی شامل ہے جسے ہم مسیحی من حیث القوم الٰہی رحمت، ربّی رحم و محبت کہتے ہیں) جو انسان کو پھر سے بحالی کی راہ پر ڈال دیتی ہے۔ انسانوں کے انسانوں سے تعلقات، رشتوں، رابطوں کے تقاضے فقط انصاف بانٹنے سے ہی پورے نہیں ہو جاتے، ان کے لیے محبت کی طاقت چاہیے جو انھیں ایک دوسرے سے جوڑے رکھ سکتی ہے۔
idib 206))
چاہے جتنی قانون سازی کر لی جائے، بڑے سے بڑا مجموعہء قوانین منصہ شہود پر بوجھ بنا دیا جائے، نہ ہی ضابطوں اور قواعد کا کوئی نظام، نہ ہی مشکلات پر غالب آنے کے لیے تبادلہء خیالات، نہ مصالحت کی گفتگو۔ بے شک انھیں جتنا رواج دے سکتے ہیں دے کر دیکھ لیاجائے، ایسے خاطر خواہ نتائج نہیں سامنے لا سکتا کہ لوگوں کو اتفاق و یگانگت کی طرف مائل کر سکے سواے محبت کا راستہ اپنانے کو ذریعہ بنا لینے کے کہ یہی راستہ ہے جو دلوں کوکھینچ لا سکتا ہے، آمادگی پیدا کر سکتا ہے کیوں کہ محبت کا ہی راستہ ہے جو ذہنوں کو بھا جاتا ہے۔ اسی راستے پر انسان چل پڑے تو اتحاد، بھائی چارے، امن سے رہنے اور رہنے دینے کے سنگِ میل عبور کیے جا سکتے ہیں۔ بھلے مسئلہ کے ہر پہلو پر غور کرنے والا طرزِ عمل ہی کیوں نہ اختیار کر دیکھا جائے وہ محبت کی راہ اپنانے کے طرزِ عمل پر سبقت نہیں لے جا سکتا۔ اسی کو تو کہتے ہیں
عقل نے ٹوکا ہر ہر گام
عشق پکارا وہ ہے منزل
بس آتشِ عشق، عمیق لگن، بے پایاں محبت ہی اپنے معیار، نیک صفات، باطن کی خوبیوں اور اخلاقی جواہر(forma virtutum : Moral virtues)کے باوصف معاشرتی باہمی تاثُّر اور روابط کی صورت پیدا کر سکتی ہے، صورت سامنے آجائے تو اس میں جان ڈال دینے میں محبت کو تو یدِ طُولیٰ حاصل ہے۔یہ کارزارِ ہستی آئے روز بڑھتی پیچیدگیوں کا شکار ہے، انسانی رُجحانات اور جبلتوں کے دباو، تناو سے ذہنی اُلجھنوں میں مبتلا ہے۔ ان تمام پیچیدگیوں، اُلجھنوں کے افعال و امراض کے لیے تیر بہ ہدف نسخہ کیا ہے؟ آپ نے جان لیا ہو گا، محبت اور صرف محبت خُداوند پاک یسوع کی برکت سے محبت شافعِ امراض ہے۔ خُداوند ہمیشہ دوسروں کو صحت تن دُرُستی دان کرتا رہا۔ اور آج بھی روح القدس میں اسی کے دم سے ہم شفا پاتے ہیں۔ یہ سب اس کی غیر مشروط محبت کا اثر ہے جو ہماری نس نس میں دوڑ رہا ہے۔ اسی لیے کہتے ہیں۔۔۔۔۔۔ محبت فاتحِ عالم ہے۔ کُل کائنات میں رچی بسی ہے کیوں کہ خُدا باپ ہے ہی محبت ہی محبت۔ صرف ہمارے تمھارے لیے ہی نہیں، سب خلقت کے لیے۔ لافانی خُدا کی دائم قائم محبت۔ ہم محبت کے الٰہی وصف سے کیسے محروم رہ سکتے ہیں؟ ہم مسیحی تو اس نعمتِ خُداوندی سے مالا مال ہیں۔ اسی لیے ہم پڑوسیوں میں، آپس میں بل کہ پورے کے پورے عالمِ انسانیت میں محبت بانٹنے والی قوم ہیں۔ ہم جس کی اُمت ہیں وہ مجسم محبت ہے، اس نے ہماری، آپ کی، سب انسانوں کی محبت میں ہی اپنی جان وار دی تھی۔ محبت کی برکتیں، اس کا فیض دنیا کے ہر گوشے میں بسنے والے ہر انسان تک پہنچا پانے کے لیے ضروری ہے، ہمیں محتاط رویّہ اپنانا ہو گا، ہمیں محبت کا پرچارِ عام کرنا ہو گا صرف اس کے منفرد کارناموں کے لیے تحریص و ترغیب دینے والے کردار کے وسیلے سے ہی نہیں، بل کہ محبت کی اس کبھی کم نہ پڑنے والی طاقت کے ذریعے جو بڑھاوا دیتی، حوصلہ افزائی کرتی ہے جس کی شہہ پر داخلی گہرائی کے ساتھ آج کی دنیا کے مسائل کے لیے اپنی کوششوں سے حل کرنے کے وسائل ہم سامنے لے آئیں۔ اپنی ناک سے آگے دیکھیں، دوسروں کے کام آنے کے لیے آگے بڑھیں، ان کے مسائل کو اپنے مسائل سمجھیں۔ ان کے کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے ہوں، مشکلات ہماری محبت کے راستے کا روڑا نہ بنیں، ہم مشکلات کے سامنے آسمان تک دیوار بن جائیں، بہ نظرِ غائر معاشرے کے بوسیدہ ڈھانچوں کو تجدیدی صورت سے آشنا کریں، سماجی تنظیموں میں زندگی اور حرکت کی نئی لہر دوڑا دیں،بیمار قانونی نظام کو تازہ و توانا خون کی ڈرپ لگا دیں۔ ایسی صورتِ حالات میں کہ جس سے مادرِگیتی کے باسی بیٹے بیٹیاں اپنی بساط مطابق نبردآزما ہیں، ہم ذاتی اغراض و مقاصد اور فائدوں کے لیے نہیں بل کہ عالمگیر سچائی اور پورے خلوص کے ساتھ محبت بھرے جذبہ کے جِلو میں ان سب کا بھرپور ساتھ دے سکتے ہیں۔ ان کی بھلائی کا سوچ رکھنا اپنی بھلائی بل کہ پوری انسانیت کی بھلائی کا سوچ ہو گا۔ ہمیں اپنے اندر محبت کے ضمن میں ذوقِ یقین پیدا کرنا ہو گا۔۔۔۔۔۔
محبت میں نہ کام آتی ہیں تدبیریں نہ شمشیریں
جو ہو ذوقِ یقیں پیدا تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں
ہمّتِ مرداںمددِ خُدا۔ اسی میں محبت کا سیاسی و معاشرتی طریقِ کار مستور ہے۔ ہماری سماج کو ہماری کریم النفسی کی ضرورت ہے۔ یہ سوشل چیریٹی ہے جو دنیا بھر کی فلاح و بہبود کی خاطر اچھائیاں، نیکیاں اور محبت عام کرنے کی راہ سجھاتی ہے، ساری راہیں محبت کے بحرِ بے کراں کی طرف جاتی ہیں جس میں ہم سب انسانوں نے شناوری کرنا ہے۔ کامیابی، بامرادی اور انسانیت کی بھلائی کی سیپیاں اسی سمندر میں غوطہ لگا کر ہمیں باہر نکالتی ہیں تا کہ لوگ مستفید ہو سکیں۔ ذہن، سوچ، لگن، محنت اور ہمت چاہیے، وہ ہمیں خُدا باپ میں خُدا بیٹے کی نصرت سے پہلے ہی حاصل ہے۔
(بحوالہibid 207)
اگر ہمارے جواب کی طوالت آپ کی خاطر پر گراں نہ گذر رہی ہو تو ہمیں کچھ اور بھی کہنا ہے۔ وہ یہ ہے کہ ریاستی و سماجی رفاہی تنظیمیں محبتِ ربّی کے بے کنار آسمان تلے تھک کر چُور نہیں ہو گئیں، افراد کے درمیان بہتر تعلقات کی ترویج کے لیے مسلسل کوشاں رہتی ہیں اور ان رابطوں کے انفرادی استحکام کے سلسلے میں ان کا نیٹ ورک اپنے ساتھ اور ان افراد کے بیچ تعلق داری میں کامیابی سے بھی ہمکنار ہے جس کا ثمر ہے کہ سماجی و ملکی برادری میں بہتری آ رہی ہے۔ دیکھا جائے تو وسیع تناظر میں ان کے عمل دخل کے سبب فلاح بہبود کے اچھے کاموں کی طرف راغب ایک معاشرت جنم لے رہی ہے اور بلا شبہ اس کے نتیجہ میں محبت اور حسنِ اخلاق کی پذیرائی عام ہونے لگی ہے۔ اخلاقی اقدار توانا ہو رہی ہیں۔۔۔۔۔۔ یہ سب محبت کا ہی کارنامہ ہے، الٰہی رحمت کی نسلِ انسانی کو برکت میسر ہے اور اب یہاں حقیقی اور حرکت کُناں مثبت ردِّ عمل سامنے آنے لگا ہے جو ہمساےے کی ضروریات و احتیاجات کا خیال رکھنے اور اسے اپنی محبت کا حصہ بنانے پر منتج ہے۔مہر و محبت کا یہ ایسا عمل ہے جس سے مفر ممکن ہی نہیں۔ اب ایسی سوسائٹی کا ناک نقشہ اُبھارا جانے لگا ہے کہ کوئی غریب غریب نہ رہے، اور ہمارا نادار پڑوسی بھی ماضی کی مفلسی والی تلخ یادوں کو محبت و برادرانہ تعلقات کی پاتال میں کہیں دفن کر دے۔ وہ دِن زیادہ دُور نہیں جب معاشرت کو ایسی صورتِ حالات ورثے میں ملا کر نے لگیں گی جس میں بے شمار لوگ بل کہ تمام آبادی ہی اس سعی میں لگی ہو گی کہ پورے اس گلوب پر نشر کردے کہ صلاے عام ہے یارانِ نکتہ داں کے لیے:
میرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے
دنیا جو سُکڑکے گلوبل ولیج بن چلی ہے، اس میں بسنے والے تمام لوگوں کے، بل کہ تمام زمینی ہمسایوں کے سماجی بکھیڑے اور معاشرتی اڑچنیں مل کر سلجھانے، ایک دوسرے کے کام آنے، محبتیں تقسیم کرنے اور محبتیں وصول پانے کے لیے، فرداً فرداً سبھی اپنا کردار جانفشانی سے ادا کرنے لگیں گے، پورے اخلاص کے ساتھ، کہ خلوص پینڈوؤں (دیہاتیوں)کی میراث ہے، اور گلوبل ولیج کے تمام پینڈو بھلا کِسی سے پیچھے کیسے رہ سکتے ہیں، کِسی سے بھی۔
(حوالہebd 208)
حقوقِ انسانی۔۔۔۔۔۔
تحریک براے فراہمیِ حقوقِ انساں، جو ہر ملک کے آئین، زبانی یا تحریری کا حصہ بھی بن چکی ہے اپنی شناخت اور اعلانِ عام کے ناتے انسان کی فضیلت، قدر و منزلت اور احترام کی یافت کے لیے مساعی بروے کار لانے کی خاطر نمایاں حیثیت اختیار کر چکی ہے۔ آئین کی تقدیس کے ہالہ میں اسے بند رکھنے کے بجاے، عمل کی پٹڑی پر دوڑانا ناگزیر ہے۔ کلیسیا اس امر کی تحسین کرتی ہے کہ دورِ حاضر میں غیر معمولی طور پر سازگار صورتِ حالات میں ہیومن رائٹس کے مطالبہ کی پذیرائی ہونے لگی ہے۔ انسان کا حق ہے اسے اس کے حقوق سے محروم نہ رکھا جائے اور اس بارے اس نئے دور میں توثیق و تصدیق کے اثبات سامنے آرہے ہیں۔ عزتِ نفس اور حرمتِ انسان کے حق کو بڑے مؤثر انداز میں تسلیم کرتے ہوئے دنیا کے سامنے اس کا نیا چہرہ لانے کی سعی ہو رہی ہے انسان کو اس کا حق عطا کرنا وہ امتیازی خوبی ہے جو خالق خُداوند تعالیٰ نے اپنی اس خلقت سے دمِ آفرینش ہی منسوب کر دی تھی۔ یہی نمایاں وصف ہے جو اسے اشرف المخلوقات ہونے کا مرتبہ عطا کرتا ہے۔مشیتِ ایزدی میں حق لینے اور حقوقِ انسانی ادا کرنے والے، دو نوں فریق شامل ہیں اور مذہبی اعتبار سے ثوابِ دارین کے مستحق ہیں کہ راضی بہ رضاے الٰہی ہیں۔ کلیسیا یونی ورسل ڈیکلیریشن آف ہیومن رائٹس کی پیشکشیں کرتی ہے۔
عالمگیر فراہمیِ انسانی حقوق کا اعلامیہ ادارئہ اقوامِ متحدہ نے 10دسمبر1948عیسوی میں جاری کِیا تھا جس کی تقدس مآب پوپ جان پال دوم نے یوں تصریح کی تھی کہ یہ اعلان نسلِ انسانی کی اخلاقیاتی نشوونما و ارتقا کی راہ کا ایک اہم و معتبر سنگِ میل ثابت ہو گا۔
(حوالہ۔۔۔۔۔۔Compendium n 152)
بنیادی حقوقِ انسانی کی جڑیں انسانوں کی اپنی منشا و خواہشات میں پیوست ہیں، نہ ہی ریاست کی ماہیئت و اثر میں اور نہ عوامی طاقت، زور اور دباو میں بل کہ یہ تو اُتری ہوتی ہیں انسان کے باطن کے عُمق میں اور ان کا سارا انحصار ہوتا ہے ذاتِ خُداوندی پر جو تمام مخلوق کا خالقِ حقیقی ہے۔ یہ ہمہ گیر حقوق ہیں، مسلمہ اور مستوجبِ قدر و احترام ہیں، کوئی مقتدر انھیں واپس چھین نہیں سکتا۔ حقوقِ انسان عالمگیر یوں ہیں کہ تمام انسانوں کا خاصا ہیں اور ان کے لیے نہ زمان کی کوئی قید ہے نہ مکان کی اور نہ ہی انھیں مشروط کرنے کا کِسی کو اختیار حاصل ہے۔قابلِ احترام اِس لیے ہیں کہ ان کا حصول انسان کے جینز میں شامل ہے، یہ ان کی شخصیت میں قدرتِ الٰہی کا عطا کردہ وصف ہیں جو انھیں عزت، اعتبار اور وقار عطا کرتے ہیں۔ ان حقوق کی پابندی کروانا، یہ آپ کو بتا دیں، تب تک بے سود و نامراد سی کاوش ہو گی، ان کا دعویٰ، تقاضا کرنا فضول سی بات ہو گی جب تک ساتھ کے ساتھ ان حقوق کے بارے میں شعور و آگہی کی مہم نہ چلتی رہے، تمام لوگ، ادنیٰ سمجھے جانے والے اور اپنا اعلیٰ پن زبردستی منوانے والے، سب کے سب اپنے اوپر ان کا احترام جب تک لازم نہ کر لیں۔ جو جہاں بھی ہے اور جیسا بھی ہے تصدیق ہو جانی چاہیے کہ وہ پورے خلوص اور نیک نیتی کے ساتھ ان حقوق کی فراہمی اور دستیابی کے حق میں ہے۔ ان حقوق کو کوئی بھی شخص، خواہ وہ جو بھی ہو، ہتھیانے کی ہمت نہ کرے، یہ نہ منتقل ہو سکتے ہیں نہ منسوخ اور نہ ہی چھینے جا سکتے ہیں، یہ حقدار کا حق ہیں جو دینے ہوں گے، کِسی انسان کو ان حقوق سے محروم نہیں کِیا جا سکتا کیوں کہ ایسا کرنے کا کِسی کو بھی کوئی قانونی جواز حاصل نہ ہے۔ جو شخص یا ارادہ، ایجنسی یا مقتدر قوت ایسا کرے گی وہ گویا جبر، جارحیت اور تشدد کے کوڑ تُمّے کو سینچنے والا فعل انجام دے رہی ہو گی۔
(ibid 153سے استفادہ مفیدِ مطلب ہو گا۔ مطالعہ کیجیے گا)