:سوال نمبر108
۔تین صفات ہیں جو ہم پر خُدا کی معرفت کے، اس کی پہچان کے در وا کرتی ہیں۔
1۔ وہ خالق ہے، تخلیقِ کائنات بس وہی کر سکتا تھا، اسی کا وہ کرشمہء قدرت ہے۔
2۔ اسے فنا نہیں۔ وہ تھا، وہ ہے، وہ رہے گا۔
3۔ وہ قادرِ مطلق ہے۔ اس کی قدرت کا کوئی انت نہیں، قدیر ہونے میں کوئی اس کا ثانی نہیں۔
میرا سوال یہ ہے کہ ان میں سے کون کون سے خواص تھے جو حضرت عیسیٰ المسیح علیہ السلام میں پیدایشی طور پر ہی موجود تھے۔ کیا کوئی شخص یا ہستی جسے خُدا ہونے کا دعویٰ ہو اُسے موت آ سکتی ہے، اس کے بارے میں کہنے کے لیے، کچھ ہے آپ کے پاس، جناب۔
جواب:۔جواب کے لیے آپ سے درخواست ہے کہ ہماری ویب سائٹ پر مندرجہ ذیل متن جو ہیں ان کے مطالعہ سے آغاز کیجیے۔ اُٹھائے گئے سوال کے سلسلے میں ہر متن میں ایسے حوالہ جات ہیں جو آپ کے مفیدِ مطلب ہیں:
باب3، سیکشن 3اور4اور سوال نمبر97، 12اور 19 اور خصوصی طور پر سوال نمبر50کے جوابات آپ کی تسلی کے لیے کافی ثابت ہوں گے اور ہم بھی اپنی راے سے آپ کی تشفی کے لیے پیج پر ہیں:
تین نادر صفات ہیں جن سے خُدا شان والے کی تعریف بیان ہوتی ہے۔ یہ وہ خُدا ہے جسے سوال کنندہ نے بس تین انوکھی صفات پر ہی محدود کر دیا ہے۔ جو دیگر بے حد اور نمایاں خصوصیاتِ الٰہی ہیں اُنھیں شمار تو کیا ان کی طرف اشارہ تک نہیں کِیا گیا۔ اپنے ناموں میں خُدا مہربان صفات کے لحاظ سے اسمِ بامسمّٰی ہے۔ اور ان صفات کو اہمیت میں مرکزی حیثیت حاصل ہے، مسلمانوں کی مذہبی کتاب اِس پر گواہ ہے۔ خُدا کے اسماء ُ الحسنیٰ قرآنی تعین کے لحاظ سے، معانی اور اسلامی عقیدت، احترام اور ایمان کے نقطہء نظر سے خُدا کے ہی سزاوار ہیں اور اسی پر سجتے ہیں۔ رب تو اور بھی ہیں، ربِّ اکبر بس وہی ایک پالنہار ہے۔ مثلاً اِس دُعاے آغازِکار کو ہی لیجیے:
بسم اللہ الرحمن الرحیم
(شروع کرتا ہوں اللہ تعالیٰ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے۔)
وُہ اللہ، رحمان، رحیم دونوں ہے۔
اللہ رحمن وہ ہے جو مانگنے والے پر مہربانی فرمائے، اللہ رحیم وہ ہے جو بن مانگے رحم فرمائے۔ قرآن کی ہر سُورت اسی بسم اللہ سے آغاز ہوتی ہے، ما سواے سورۃ نہم (التوبہ) کے۔ مبارک اسماے الٰہی کے لیے سورت59، 22اور 24سے رجوع کیجیے: مثلاً سورۃ59میں اللہ تعالیٰ کے مبارک نام یہ آئے ہیں۔۔۔۔۔۔ رحمن ، رحیم، العزیز، الحکیم، شدید العقاب، قدیر، رب، رب العالمین، رؤف الرحیم، خبیر، اِلٰہ، عالم الغیب والشہادۃ۔
الملک، القدوس، السّلٰم، المؤمن، المھیمن، الجبار، المتکبر، الخالق، الباریُ، المصور۔
چوبیسویں سورۃ میں صفات والے نام ہیں۔۔۔۔۔۔ توّاب، سمیع، واسع، سریع الحساب، قادر
اور بائیسویں سورۃ میں۔۔۔۔۔۔ واحد، علیم، کریم، خیر الرازقین، حلیم، عفو، غفور، بصیر، حق، علیٌ، کبیر، لطیف، غنی، حمید، نصیر۔
ترتیب وار سلسلہ ہے جو پورے قرآن میں آپ کو ملے گا۔ آیات خُداے واحد و احد کے نمایاں گُنوں والے ناموں سے لبریز ہیں۔ اللہ کے 99اسماء ُ الحسنیٰ میں مختلف اسماے الٰہی کی کمی بیشی کے ساتھ فہرستیں چھپ چکی ہیں۔ کوئی معانی کے ساتھ اور کوئی معانی کے بغیر۔ مختلف احادیث اور خصوصاً امام ترمذی کی مرتب کی ہوئی حدیث کی کتاب میں صحابیِ رسول ابو ھریرۃ کی روایت کردہ احادیث کا مجموعہ ہے، جس میں وہ الٰہی گُن گِنائے گئے ہیں جن کا درج بالا سطور میں ہم ذکر کر چکے ہیں۔ ان کے علاوہ اور بھی بہت سے اسماء ُ الحسنیٰ ہیں جو درج ہیں۔
مسیحی شعورِ خُداوندی سراسر مرہونِ منّت ہے مقدس خُداوند یسوع المسیح ناصری کے مواعظ اور اس کے اپنے افعال و اعمال کی ایک ایک زندہ مثال کا۔ مسیحی لوگ تو بائبل مقدس کے عہدِ عتیق (توریت پاک) کی تلاوت ناصرت کے رہنے والے یسوع پاک خُداوند کی تصدیق (گواہی) اور اس کی تعلیمات کی روشنی میں کرتے ہیں۔ تو پھر بائبل مقدس کی مذہبی تعلیمات و عقائد میں نیا پن کیا ہوا؟ پاپاے اعظم نے اپنے پہلے پہلے چوپانی فرمان"DEUS CARITAS EST" ''خدا محبت ہے'' میں بتاریخ 25دسمبر2005عیسوی تحریر فرمایا: (یہ تقدس مآب پوپ بینی ڈکٹ شانزدہم کے فرمان کی بات ہو رہی ہے):
جدتِ بائبلی عقیدہ
9ببلیکل ایمان و عقیدہ کی ترویج کے دوران شیما(Shema)میں جو دعائیہ کلمات ہیں اُنھیں اسرائیلی بنیادی عقائد پرستی میں بہت اہمیت حاصل رہی ہے اور انھی کی وجہ سے بائبل مقدس کا کلام واضح اور غیر مبہم رہا۔ توریت مقدس میں ''خدا کی محبت اور تابع داری'' کے مضمون میں ارشاد ہے:
سُن اے اسرائیل! خُداوند ہمارا خُدا وہی اکیلا خُداوند ہے۔
تثنیہ شرع۔۔۔۔۔۔4:6
خدا تو بس ایک ہی ہے اور وہی آسمانوں اور زمین کا خالق ہے۔ آسمان پر، زمین پر، زمین میں اور آسمان و زمین کے درمیان جو کچھ ہے اُسی کی تخلیق ہے، وہ سب کا خُدا ہے، سب کا، سب کچھ کا۔۔۔۔۔۔ اس اظہارِ دعویٰ میں دو حقائق ہیں جو مفہوم میں بہت اہمیت رکھتے ہیں۔ وہ تمام لوگ جن کو خُدائی کا دعویٰ ہے، سب جھوٹ ہے۔ جنھیں ڈر، خوف، توہّم پرستی، اُمید، لالچ، شوق، ضرورت کے تحت خُدا بنا لیا جاتا ہے، سعیِ بےکار ہے۔ حتّٰی کہ خود گھڑے ہوئے پتھر کے اصنام سب فریب، ان سب میں کوئی خُدا نہیں، جو خُدا ہے وہ وہی ہے ایک، سب کا وہی واحد خُدا۔ ہم جن دنیاؤں کا، کائنات کا حصہ ہیں ان سب کا ماخذ ایک ہی ہے اور وہی ہے۔۔۔۔۔۔ خُدا۔۔۔۔۔۔ جس نے ان سب کو خلق کِیا۔ تخلیق کے بارے میں عمومی نظریہ، قابلِ اطمینان طور پر، یہی ہے۔ تاہم یہاں یہ بالکل ہی واضح ہے کہ بہت سوں میں، بہت سے خُداؤںمیں یہ بھی ایک خُدا ہے، نہیں نہیں، ایسا نہیں۔ وہ تو خود ہی سچّا اور اصلی خُدا ہے اور کوئی خُدا کے لائق ہے ہی نہیں۔ اور جو کچھ موجود ہے اسی کے دم سے موجود ہے۔ سب کچھ کے وجود کا منبع اُسی کی ذاتِ قدسی ہے۔ اس لیے کہ وہ خالق، مالک، رازق، اعلیٰ وبرتر ہے، سبھی کچھ اسی کے قبضہء قدرت میں ہے۔ اس کے تخلیقی کلمہ کی طاقت سے کائنات وجود میں آئی۔ اسی کی مشیّت کے سارے جہان تابع ہیں۔ اس کلمہ کی، اس مشیّتِ ایزدی کی جب تجسیم ہوتی ہے تو وہ مقدس خُداوند یسوع مسیح میں ہوتی ہے۔ لہٰذا اس کی مخلوق اسی سبب سے اسے بہت پیاری ہے، اس کی مرضی کے تحت، جب اس نے چاہا اس نے خلقت پیدا کر دی، اس کی خواہش تھی، اس نے ہی پوری کرنا تھی سو پوری کر لی۔ اپنے تخلیقی شاہکار، تمام ذی بشر، اسے کیسے نہ پیارے لگیں گے۔
دوسرا اہم عنصر جو نمایاں طور سامنے آتا ہے وہ یہی ہے کہ اس نے کائنات بنائی، اس میں دنیا سمائی، اور بہت کچھ کے ساتھ اس نے انسان بھی پیدا کِیا، جنت کی سیر کروائی اور رہتی دنیا تک کے لیے اسے زمین پر بھیج دیا تا کہ وہاں یعنی یہاں وہ خُدا کی بادشاہی قائم کرے، اس جلال و جمال والے کی آزمایشوں پر پورا اُترے، اگلے جہان کے اپنے بینک اکاؤنٹ میں اضافے پر اضافے کرے، خُدا اس سے محبت کرتا ہے تو یہ بھی حق ادا کرے۔ حکمت و دانائی والے ارسطو نے یونانی فلسفہ جب اپنے عروج پر تھا، اس کے بل بوتے پر قدرتِ خُداوندی کا ادراک حاصل کرنے کے لیے غور و فکر کِیا جب کہ یہ ربّانی اختیارو قوّت ہر انسان کے لیے ہے ہی تمنّا کرنے اور محبت کی مُراد پانے کی چیز۔ جب مُدعا و مقصودہی یہ محبت ٹھہری تو شانِ ربوبیت نے جوش مارا اور ایک دنیا اس کو پالنے کے لیے متحرک کر دی۔ حوالہ کے لیے ملاحظہ ہو ارسطو کامابعد الطبیعیات پر خزینہء علمXII، 7۔
اس میں معبودِ حقیقی کا کیا جاتا ہے، وہ محبت نہ بھی کرے تو اُس پر کیا دوش۔مگر وہ تو اپنی خلقت سے محبت کرتا ہے، اپنی ذاتِ خُداوندی کی اعلیٰ سے اعلیٰ سطح پر اور اگر حضرتِ انسان بھی اس اعلیٰ ترین ذات و صفات پر اتنا ہی فریفتہ ہو تو؟ اور مزید برآں یہ بھی کہ اس کی محبت انتخابی محبت ہے۔ اقوامِ عالم میں اُس نے بنی اسرائیل کو اپنی محبت کے لیے خاص طور پر چنا اور باقاعدہ طور انھیں چنیدہ قوم، منتخب اُمت قرار دے دیا، مقصود و مطلوب یہ تھا کہ تمام نسلِ انسانی کے زخموں پر اس کی محبت کا مرہم اپنا ثر دِکھائے اور سب تن دُرُست ہو جائیں۔۔۔۔۔۔ ہر طرح، ہر لحاظ سے، جسمانی طور پر بھی، روحانی طور پربھی۔
مقدس نبی ہوشیَع اور نبی حزقیال نے خصوصی پیراےے میں ذِکر کِیا ہے کہ اپنے بندوں کے لیے رضاے الٰہی پوری پوری تُلی ہوئی تھی اور اسے فوری طور پر پوری کرنے کے لیے بڑی کھُلی ڈُلی محبوبانہ قسم کی تمثال و تشبیہات کے ذریعے اظہارِ مشیّت کر رہی تھی۔ بنی اسرائیل کے ساتھ الٰہی تعلقات پر تبصرہ کرتے ہوئے انمقدسین نبیوں نے معلومات سے نوازا کہ ان تعلقات کے لیے جو تشبیہیں دی گئی تھیں، وہ تھیں منگنی اور نکاح۔ پُرجوش محبت جسے گرویدگی کہتے ہیں اس کے مقابل مثال دی گئی فسق و فجور اور عصمت فروشی کی۔
یہ رشتہء محبت جو بنی اسرائیل اور موسیٰ کے خُدا کے درمیان پنپ رہا تھا، تاریخ بتاتی ہے کہ وہ عمیق ترین تھا اور حقیقتاً خُدا نے اپنے لاڈلوں کو توریت مقدس کی تختیاں دیں، موسوی شریعت کی امانت ان کے سپرد کر دی۔ اسی کے باعث اور اس کے ذریعے انسان کی فطرت سے اسرائیلی قوم آشنا ہوئی۔ یوں خُدا نے اُنھیں اس سیدھی راہ کی دِکھالی بھی دی جو اصل انسانیت کے دروازے پر اُنھیں جا پہنچا آئی۔ وہی بات کہ اگّے تیرے بھاگ لچھّیے۔ اس دروازے کے اندر قدم رکھنا ہے یا نہیں، جن کے لیے یہ سوچ کا مقام ہوتا ہے، وہ سوچتے رہتے ہیں اور جن کے جذبے صادق ہوتے ہیں۔۔۔۔۔۔
عقل نے ٹوکا ہر ہر گام
عشق پکارا وہ ہے منزل
خدا نے اپنی محبوب قوم کی آنکھیں کھول دیں، دَئی کو بھی ہاتھ لگوا دیا۔ اب تو سب کچھ منحصر ہے اس حقیقت پرکہ آدمی خُداے واحد سے عمر بھر کی راستی ووفاداری میں ثابت قدم رہتا ہے یا نہیں۔ بندگی و وفا کے معاملات میں ایمان دار و دیانت دار رہا تو اس جذبے سے سدا سرشار رہے گا جو اس کے تجربے میں آ چکا ہو گا کہ آقا و والی، مہربان و عظیم خُدا اس سے محبت کرتا ہے۔ وقت کی کڑی دھوپ میں چلنے کے لیے صبر و برداشت اور ہمت و طاقت کی کھڑاویں پہننے کی توفیق بخشتا ہے اور سر پر اپنی الٰہی محبت کا سائبان بھی تان دیتا ہے۔
راستی اور صداقت میں آدمی اس خوشی کو پا لیتا ہے جو خُدا میں اُس کے لیے ہمیشہ کی اور لازمی شادمانی کا سبب بنتی ہے۔
آسمان پر تیرے سوا میرا اور کون ہے؟
اور
جب تُو میرے ساتھ ہے
تو زمین سے مجھے کوئی خوشی نہیں۔۔۔۔۔۔
لیکن
میرے لیے یہ اچھّا ہے کہ مَیں خُدا کے قریب ہوں
مزمور(کتابِ سوم)۔۔۔۔۔۔73:25،28۔۔۔۔۔۔
(نیکوکار ہمیشہ کے لیے خُدا کے دیدار سے خوش ہوں گے)
11۔ پہلی انوکھی بات جو بائبل مقدس کے ذریعے ہم تک پہنچی وہ، وہ معتقدات ہیں جن کا انحصار اس پر ہے کہ کوئی خُدا کو کیسے دیکھتا ہے۔ اور دوسری بات وہ ہے جو فی الحقیقت اسی کے ساتھ ہی مربوط ہے یعنی یہ کہ انسان کا کیا تشخص اُبھر کر سامنے آتا ہے، مراد وہ کیا تاثر چھوڑتا ہے۔ یا یوں کہہ لیں کہ اس کے بارے میں کیا تصور قائم کِیا جا سکتا ہے۔ کلامِ مقدس کے حساب کتاب سے تو تکوین پر جو بات کی گئی ہے وہ تو پہلے انسان آدم کی تخلیق پر تبصرہ ہے، اس کی تنہائی اور اس کا اکیلا پن مذکور ہے۔ اور پھر اس الٰہی مشیّت کو ظاہر کِیا گیا ہے جس میں آدم کے لیے نوید ہے کہ وہ اکلاپے سے گھبرائے نہ، اُسے ایک مُونس و مددگار عطا کی جائے گی۔ خُدا کی بے شمار مخلوقات میں کوئی ایسا نہ تھا جو انسان کا ساتھی اور شریکِ رنج و راحت ہونے کے پیمانے پر پورا اتر سکتا، مگر آدم کو تو ضرورت تھی، شریکِ حیات تو پھرشریکِ حیات ہی ہے۔ اس کی آرزو بڑھتی چلی گئی۔ جنگلی جانوروں کے اُس نے نام رکھے، اپنے ساتھ مانوس کرنا چاہا، پرندوں میں بھی زندگی میں ساتھ نبھانے والے کی تلاش بے سود نکلی۔ اسے تو اپنے کاموں میں ہاتھ بٹانے والا، اس سے باتیں کرنے والا، اسی سے ملتے جلتے طور اطوار رکھنے والا حتّٰی کہ اُس کی طرح سیدھا چلنے والا، الٹے پاؤں واپس چل سکنے والا، اس کے جذبات احساسات، سوچ اور فکر کا ادراک کرنے والا، دوست، ہمدرد، حامی و ناصر چاہیے تھا۔ پالتو جانور بھی اس کے مددگار ثابت نہ ہوئے۔ خُدا کو اس پر رحم آیا اور اس کی پسلی سے عورت خلق ہوئی اور اسے مل گئی۔ اسے وہ شریکِ حیات مل گئی جس کی اسے تمنّا تھی۔ اپنی مددگار پا کر آدم بہت خوش ہوا۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔اورانسان نے کہا:
اب یہ میری ہڈیوں میں سے ہڈی اور میرے گوشت میں سے گوشت ہے۔ وہ ناری کہلائے گی کیوں کہ نر سے نکالی گئی ۔۔۔۔۔۔
تکوین۔۔۔۔۔۔23:2
اس سلسلے میں دو صورتوں کو اہمیت حاصل ہے۔ لیلیٰ مجنوں والی نہیں، مرزا صاحباں والی وارفتگی کی طرف اس کا رجحان، وینس والی نہیں، کیوپڈ والی محبت کی طرف اس کا جھکاو۔ یہ پہلی صورت ہے۔ آدمی در اصل جماندرُو ہی عاشق مزاج ہے۔ قابو میں نہ رہے تو جنسی محبت کی طرف رسّے تڑا تڑا کر بھاگتا ہے۔ عورت پانے کے لیے آدم مسلسل طالب و جویا رہا، اور پھر انسان نے عورت کے پیچھے ذاتی خواہشات و احساسات کے آگے جھک کر، ماں باپ تک کو چھوڑ دیا۔ دونوں یک وجود ہوئے تو ان کے ملاپ و اتحاد نے کامل انسانیت کی نمایندگی والی سیٹ سنبھال لی۔
دوسرا پہلو بھی بہت اہم ہے۔ نظریہء تکوین کے مطابق، انسان کی جبلی خواہشات اسے شادی کی راہ دِکھاتی ہیں، فیصلہ کُن اور قطعی بے مثال، نرالا بندھن ایک معاہدے کی صورت سامنے آتا ہے اور یوں، بالکل یوں ہی، ایک دُور رس نتائج کا حامل گہرا مقصد انجام کو پہنچتا ہے۔ خُدا کے واحد لا شریک ہونے کا مجموعی تاثرمشابہ ہے وحدتِ ازدواج کا، یعنی ''یک زن، یک شوہر'' کے کلیہ کا۔ وہ شادی جو غیر منقسم محبت اور خصوصی طور پر خُدا کے تجسدِ محبت اور قابلِ اعتماد رشتے میں گُندھی ہو وہ اگاپے کی تمثال خُدا اور بندوں، اور بندوں اور خُدا کے درمیان نہ ٹوٹنے والا رشتہء محبت ثابت ہوتی ہے۔ خُدا کا اندازِ محبت انسانی محبت کا پیمانہ ہے۔ بائبل مقدس میں اتنے گہرے تعلق،ا تنے نزدیکی رشتے کا جو سیکس اور شادی کی حقیقت شناسی سے وجود میں آنے کا ذکر ہے اُس کے عملی طورپر قریباً قریباً مساوی بھی ایسی کوئی مثال کلامِ مقدس سے باہر کے ادب میں کہِیں نہیں ملتی۔
مقدس خُداوند یسوع۔۔۔۔۔۔متجسم محبتِ خُداوندی
12۔ بائبل مقدس کے عہد نامہء جدید کی اصل نُدرت نئے نئے نظریات و خیالات کی کوئی خاص اتنی مرہُونِ مِنّت نہیں، خُداوند پاک یسوع المسیح کے خدو خال، اس کی تمام ترشبیہ اس کی مثال ہے۔ غور سے دیکھیے یہ وہ شبیہ ہے جو اندازِ حقیقی کی بے نظیر مثال ہے، یہ اسی کی تصویر ہے جس نے ان محمولات کے لیے اپنا لہو اور ماس دے دیا۔ اب کلامِ مقدس کے عہدِ عتیق کے اوراق پاک اُلٹیے بائبل پاک کا انوکھا پن آپ کو محض مبہم عقائد میں نہیں، وہ تو خُدا جس کے بارے میں اپنے پاس سے کوئی پیشگوئی نہیں کی جا سکتی اس کے الٰہی امر، اس کی اپنی رضاے ربی میں نظر آئے گا۔ وہ خود بھی تو بے نظیر بے مثال ہے، اس لیے ایک لحاظ سے اس کے اوامر، اس کی مشیّت بھی بے نظیر و بے مثال ہے۔ اس کی مشیّت نے، رضا نے، الٰہی سرگرمیوں میں ایک ڈرامائی، دلچسپ و برمحل انداز اختیار کِیا جب خُداوند یسوع مسیح میں خُدا خود آگیا اور بھولی بھٹکی بھیڑوں کو راہ پر لانے کے لیے ان کی تلاش میں نکل پڑا۔ مصیبت زدہ اور کھوئی ہوئی انسانیت کی فلاح و بہبود اور نجاتِ اُخروی بھی اس کا نصب العین تھا جسے پورا کرنے وہ زمین پر اترا تھا۔
تمثیلاتی جامع اصطلاحات جو مقدس خُداوند یسوع مسیح نے اپنے کلام کے اظہار کے لیے استعمال کیں مثلاً چرواہا جو راہ بھولی بھیڑوں کی تلاش میں سرگرداں ہے، وہ خاتون جو اپنے گم کردہ سکّے کی کھوج میں ہے، اور وہ باپ کہ اپنے اسراف پسند،شاہ خرچ و فضول خرچ بیٹے سے ملنے کا، اسے گلے لگانے کا تردُّد کرتا ہے۔ یہ لفّاظی نہیں تھی، نہ ہی کمزور الفاظ کو تقویت دینے کی مثالیں۔ یہ امثلہ تو توضیح قائم کرتی ہیں اس کے اپنے وجود کی، اس کے کام کاج اور سرگرمیوں کی۔ صلیب پر خُداوندِخدا الیسوع المسیح کی موت اُس لاہوتی نقطہء تغیر کا کلائمکس ہے، ایسا موڑ ہے جس پر خود خُدا اپنے ہی خلاف ہو کے صلیب چڑھ گیا۔ یہ صلیب پر لٹکنا، جسم مبارک میں کِیل گڑوانا، بوند بوندخون کو رِسنے دینا، یہ کرب کی کیفیت، یہ زحمت یہ اذیّت اس نے اس لیے سہہ لی کہ ا س نے اپنی موت قبول کر کے اپنے امتیوں اپنے مسیحیوں اور خلقِ خُدا کو زندگی دینی تھی۔ بھالے کے پھل سے اپنی پسلی چھدوانے والے اور انسان کو رفعتیں دینے والے کو یہودی رسوم پوری کر کے قبر کی پستیوں میں اتار دیا گیا (یہ الگ بات کہ تیسرے ہی دن آسمانوں پر چلا گیا)۔ یہ سب کچھ کِس کے لیے کِیا اُس نے؟ ہم انسانوں کے لیے کِیا، ہماری مکتی کے لیے کِیا تا کہ قیامت کے بعد بھی وہ ہمیں اپنی بے پایاں محبت سے نوازے اور ہمیشہ اپنے قرب میں رکھنے کا ہمیں اعزاز بخشے۔ یہی محبت ہی تو اس کی لافانی ہستی کا جزوِ مستقل ہے!
پھر ایک اور نوشتہ کہتا ہے کہ۔۔۔۔۔۔
وہ اُس پر نظر کریں گے جسے اُنھوں نے چھیدا ہے۔
مقدس یوحنّا۔۔۔۔۔۔37:19
مقدس خُداوند یسوع مسیح کے چِھدے پہلو پر جب ہم غور کرتے ہیں، اس کے تصور سے ہی ہمیں پاپاے اعظم کے چوپانی فرمان کا نقطہء آغاز فوری طور پر سمجھ میں آجاتا ہے۔
خُدا کُلی محبت ہے۔۔۔۔۔۔
جس میں محبت نہیں وہ خُداکو نہیں جانتا کیوں کہ خُدا محبت ہے۔
1۔ مقدس یوحنّا۔۔۔۔۔۔8:4
یہی وہ مقامِ غور و فکر ہے جہاں سچ واضح طو رپر سامنے آ چکا۔ یہِیں سے، عین یہِیں سے ہماری محبت کے بارے میں تعریف و وضاحت کی ابتدا ہونا چاہیے۔ یہی وہ دھیان و گیان کا قیمتی لمحہ ہے جس میں ہر مسیحی کو سیدھی راہ دِکھائی دینے لگتی ہے، اس کے وِجدان کی کھڑکیاں کھُل چکی ہوتی ہیں،ا سے آگہی ملتی ہے کہ اسی راہ پر چلتے ہوئے اس کی زندگی کا مقصد پورا ہونا ہے اور اس کی محبت نے منزل پالینی ہے۔۔۔۔۔۔ خُدا کی محبت! (تقدس مآب پوپ بینی ڈکٹ شانزدہم)
(On Christian Love) DEUS CARITAS EST 9, 10, 11 and12.
پاپاے اعظم کے بر محل چوپانی فرمان سے متعلقہ مُکمَّل خط کے جزوِ اہم سے فیضیاب ہونا ہوتو، دیکھیے:
www.vatican.va/holy_father/benedict_xvi/encyclicals