German
English
Turkish
French
Italian
Spanish
Russian
Indonesian
Urdu
Arabic
Persian

:سُوال نمبر67

۔اُنّیسویں باب میں آپ نے لبریشن تھیالوجی (الٰہیاتِ آزادی) کے نظریہ کا ذِکر کِیا ہے۔ یہ نظریہ ہے یا تصوُّر، مطلب جو بھی ہے اس پر روشنی ڈالیں؟ لبریشن تھیالوجی کے محرّک وحامی کون لوگ ہیں؟

 

جواب:۔دُنیا میں بہُت سے ممالک کے لوگوں کو جس حالتِ زار کا سامنا ہے اُسے تقدیرِ مُطلق ماننے سے وُہ گُریزاں ہیں۔ صاف اِس لیے کہ وُہ دیکھتے ہیں اُصُولوں کی غیر عادلانہ ساخت اور قوانین کی نامنصفانہ ترکیب ہے جو اُن کے سر منڈھ دی گئی ہے جس کے سبب ہر طرف جور، جبر، جفا غالب ہیں، ناخواندگی کا دور دورہ ہے، فرض سے لاپروائی سکّہء رائج الوقت ہے، نااہلیت و محرومی چہار سُو متعدّی مرض کی طرح پھیلی ہے، یاس و حرماں، دِل شکستگی ہر کس و ناکس کی شناختِ اولیں بن چُکی ہے۔۔۔۔۔۔ کیوں؟۔۔۔۔۔۔ اِس لیے۔۔۔۔۔۔ اِس لیے کہ یہ سب انسان کا اپنا کِیا دھرا ہے، اور وُہی اپنے حالات کی سمت دُرُست کر سکتا ہے۔ قسمت پر کیا دوش۔

بعض لوگ موجُودہ جاری و ساری انتظامی و انصرامی ڈھانچے کے سامنے مقدُور بھر مدافعت کر لینے کو ہی سمجھتے ہیں کہ بس اب مُسلّط کیے گئے ان غیر مُنصفانہ اُصُول و قواعد اور پُورے نظام سے ہی چھُٹکارا مِل جائے گا جو کہ مُعاشرے کے لیے بل کہ انسانیت کی تاریخ کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکا ثابت ہو رہے ہیں، ریاستوں کی طرف سے تو جو ہو رہا ہے سو بھُگت ہی رہے ہیں لوگ، مگر انفرادی سطح پر بھی استحصالی طبقہ پُورے ایکشن میں آیا رہتا ہے۔ ہر طاقت ور کم طاقت والے کو پِیس کے رکھ دیتا ہے اور جس کے پاس طاقت سرے سے ہو ہی نہ اُس کے لیے ان ظالموں کے پاس لُوٹ مار کے آرے ہیں جو فرد فرد پر تو چلتے ہی ہیں، پُوری قوم بھی اس چھینا جھپٹی کے اوزاروں سے آئے روز کٹتی رہتی ہے۔ اس سسٹم میں بد عنوان وُہ ہے جو کرپشن نہیں کرتا۔کھاؤ اُڑاؤ ہے جو بھی اقتدار میں ہے اور اقتدار قائم رکھنے، اگر نہیں ہے، تو اسے حاصل کرنے، اگر حاصل ہے مگر ہر دم خطرے میں ہے تو اسے مضبوط کرنے کی دوڑ لگتی رہتی ہے، عوام گئے بھاڑ میں۔ عوام کے جان و مال کی حفاظت کرنے والے ادارے خواص کی جان، ان کے مال اور ان کی شان و شوکت کی حفاظت میں لگا دیے جاتے ہیں اور پِھر اس نظام کے رسیاؤں کے ہاتھوں انسان، انسان کے بُنیادی حُقُوق بل کہ انسان کی زِندگی کے ساتھ جو جو کِھلواڑ ہوتا ہے، جس جس طرح اس کی خُودی، اس کی انا، جذبات، تمنّاؤں، خوابوں اور احساسات کے آبگینوں کو ٹھیسیں پہنچائی جاتی ہیں ان سے استحصالی نظام کے کرتا دھرتاؤں کی دِلی تسکین تو ظاہر ہے ہو جاتی ہو گی مگر وُہ جن کا استحصال ہوتا رہتا ہے اُن کی، جی ہاں اُن کی تو رُوحیں تک کُچلی جا چُکی ہوتی ہیں۔ عوام النّاس جابرانہ و ظالمانہ نظام کے خلاف آواز اُٹھاتے ہیں، چاہے وہ دبا ہی دی جائے، پِھر بھی آزادی کی آس باندھ لیتے ہیں۔ ورنہ نجات کا ایک دِن مقرر ہے، اس دِن مِلنی ہی مِلنی ہے اور وُہ دِن ہے عدالت کا دِن۔ یہ جو مُعاشرتی گُناہوں کی بُنیادوں پر بزعمِ خویش سپر سٹرکچر تعمیر کیے جا رہے ہیں جب تاج اُچھالے جائیں گے تو یہ بھی گرائے جائیں گے۔ تو بہ کے دروازے تو کب سے کُھلے چلے آ رہے ہیں۔ مُلک کی بقا، قوم کی بہبُود، مذہب سے وفاداری، نظریات کی حفاظت اور انسانوں کی فلاح کے کام کرنے کے لیے ہم سب کو ایکا کر لینا چاہیے۔ یہی آخرت کا، ہمیشہ کی زِندگی کا بہترین نیک اکاؤنٹ ہے۔ مگر یاد رہے کہ قوم کی اصلاح اپنی اصلاح سے شُرُوع ہوتی ہے۔

ماضی قریب سے اب تک بعض آزادی کی ایسی تحریکوں نے بھی جنم لیا جو متشدّدانہ تبدیلی پر ایمان رکھتی تھیں۔ ان کے سمان انقلاب بغیر تشدُّد کے آ ہی نہیں سکتا۔ اپنا حق مانگا نہیں، چھینا جاتا ہے۔خُونیں انقلاب کے لیے یہ تحریکیں تگ و دو کرتی رہِیں، نجات و آزادی کی دیگر تحریکیں بھی نظام کی تبدیلی چاہتی تھیں مگر اصلاح و فلاح کے ذریعے۔ سیاسی و سماجی اصلاح ان کا محرّکِ تحریک عمل ہوتا تھا۔ دِینی و اخلاقی اصلاحات اور اِتّحاد بین المذاہب اسی تحریک کی اضافی خُوبیاں ہیں۔ ان کے علاوہ جن کا خصوصی طو رپر ذِکر کرنا ضروری ہے۔ یعنی جن آبادیوں کی جڑ بُنیاد مسیحی قوم سے مخصوص ہے، ان کے نُقطہء نظر کی اساس لبریشن تھیالوجی پر قائم ہے جس کے ذریعے غریبوں ناداروں، بے کسوں اور مجبوروں کی بہتری ان کا مقصُود و مطلُوب ہے۔ اسی کے گِردا گرد اُن کی ساری انقلابی تبدیلیاں گھُومتی ہیں۔ اور اِس کے لیے ہوم ورک اُنھوں نے کِیا ہُوا ہے۔ا غراض، مقاصد اور عمل کے اِتّحاد کے ساتھ ساتھ غریب نہیں، غُربت مُکاؤ مُہِم میں توفیق بھر تعاون و امداد کی فراہمی ان کی ترجیحات میں اوّلین ترجیح ہے۔ یُوں مسیحی برادری سیٹ اپ میں، اداروں میں اور ہر مُمکن ذریعے سے انقلابی تبدیلی لانے کے حق میں ہے۔ یہ تبدیلی محنت، ہُنر، مشقّت اور میرٹ کے زور پر ان افلاس زدہ، بھُوک کے ماروں کے لیے بھی فائدہ مند ثابت ہو گی جن کی ہڈّیاں نِکل آئی ہیں اور ان شکم سیر دولت و اختیار کے پُجاریوں کے لیے بھی کہ جن کی توندیں نِکل آئی ہیں، سب کی اصلاح بھی مقصُود ہے اور فلاح بھی۔ حق دار کو اُس کا حق ملنا چاہیے۔

لٰہیاتِ آزادی، لبریشن تھیالوجی کی جب ہم بات کرتے ہیں تو لا محالہ سُوال سر اُٹھاتا ہے کہ الٰہی محبت کی بات کرنا کیسے مُمکن ہے؟ غریبوں کی خبر گیری اور ان کا خیال رکھنا اپنی جگہ مگر لاطینی امریکا کی مملکتوں اور ریاستوں کے غریب و نادار لوگ جو کڑی مصیبتوں، دُکھوں، تکلیفوں اور محرومیوں کی چکّی میں پِس رہے ہیں ان کا خیال، اُن کی خبر گیری بھی تو خُدا کی ہی توجُّہ کی محتاج ہے۔ اُس کے لیے تو سب انسان برابر ہیں۔لاطینی امریکا والوں کے مصائب و آلام سے اُنھیں نجات دِلانے کے لیے خُود ہم نے کیا کِیا؟ کیا ہم سب مِل کر اُن کی مدد نہیں کر سکتے تھے۔ ہم نیّت ہی کر لیتے تو خُدا مہربان نے سب کُچھ خُود ہی کر دینا تھا۔ اِس یگانگت، بھائی چارے، دُوسروںکے کام آنے کی خاطر اِتّفاق و اِتّحاد قائم کرنے کے لیے ہی لبریشن تھیالوجی وُجُود میں لائی گئی تھی۔ لاطینی امریکا کے تقدُّس مآب بشپ صاحبان کی کانفرنس میں سب کے ترجیحی انتخاب والی نگاہ کا مرکز غریب ہی تھے جن کے لیے 1968ع میں کلیسیائی نمایندوں کے کلیسیائی اُمُور کے لیے اجتماعِ عام منعقدہ میڈیلین میں لبریشن تھیالوجی کی اہم ترین ذِمّہ داری عالی جناب بشپ صاحبان نے اپنے ذِمّہ لے لی۔ فضیلت مآب پوپ پال ششم نے بھی سب کی توجُّہ اس طرف مبذُول کروائی کہ ایک لحاظ سے دیکھا جائے تو لُغت میں آزادی اور نجات ہم معانی الفاظ معلُوم پڑیں گے: آزادی، رِہائی، یعنی لفظ لبریشن اِس لائق ہے کہ اسے مسیحی فرہنگ میں جائز مقام عطا کِیا جائے، محض بلاغت کی خُوبی کی وَجہ سے ہی نہیں بل کہ اِس لفظ کی تہہ میں جو شاندار مواد اور معانی چِھپے ہیں ان کی وَجہ سے بھی۔ (حوالہ خطاب بتاریخ31جولائی1974ع)۔

صاحبِ فضیلت جناب پوپ جان پال دُوُم نے دِین کی فلسفیانہ انداز میں لاطینی امریکی سُوچ یعنی علمِ معرفتِ خُداوندی کے بارے میں بہُت کُچھ کہا ہے۔ کیوں کہ اِس تھیالوجی نے آزادی کے جذبات کو تقویت پہنچا کر نمایاں کِیا اور اسے بنیادی اہمیّت کا درجہ ملنے سے معاونت کی تا کہ اُن مسائل کو حل کرنے کے لیے رہنما اُصُولوں کو پہلے طے کر لیا جائے جن کے ذریعے انسان کو پہنچائی جانے والی ذِہنی، جسمانی اور جنسی اذِیّتوں اور مجموعی طور پر درپیش پسماندگی کا قلع قمع کِیا جا سکے۔

کیتھولک تعلیمات کی رُو سے یہ عین عدل ہے کہ وُہ جو دولتمندوں، جاگیرداروں اور سیاسی اثر و رسُوخ والے وڈیروں کے جبر و استبداد کے لیے تختہء مشق بنائے جاتے رہے اُن کے لیے مسیحی تعلیمات رحمت و نعمت بن کر ان مظلُوموں کے سرپر چھت کی طرح تن گئیں اور پُرامن اور اخلاقی طو رپر تسلیم شُدہ ذرائع کی مدد سے ایسا نظام جو غریبوں کو کُچلنے اور غُلام بنائے رکھنے، ان کی ہر طرح کی آزادی سلب کیے رکھنے کی بُنیادوں پر اُستوار ہو، اُسے بدل دینے کی تمنّا لیے بہتر نظام کے رواج کے حُصُول کی خاطر کامیابی کے بارے میں خُداوندِ خُدا کی بارگاہ میں اِلتجاؤں کے بعد اصلاً پُراُمِّید ہو کر بھلے دِنوں کے موسم اُترتے دیکھنے کی آس میں بہتری کے لیے کوششیں تیز کر دینی چاہییں تا کہ تمام انسانی حُقُوق میں سے ایک بھی کوئی شخص یا ادارہ پایمال نہ کر سکے۔ (حوالہ ''انسٹرکشن آف دی کانگریگیشن فار دی ڈاکٹرین آف دی فیتھ آن کرسچین فریڈم اینڈ لبریشن''، 22مارچ1986ع، صفحہ75اور آگے)۔ اچھّے رویّے کے معیاروں کو قائم رکھنے کی اخلاقیات کے لیے ٹھوس اقدامات اُٹھانے کے لیے مُمکنہ ذرائع استعمال کرنے کی ایسی انتہائی خطرناک صورتِ حالات میں ضرُورت ہے کہ انسانی وقار، اس کی خُودی اور آزادی و ٹھونسی گئی پابندیوں سے نجات کو مرکزِ توجُّہ بنانے کی نِیُو ڈالی جانی چاہیے جو بہُت ضرُوری ہے تا کہ ٹھونسی گئی پابندیوں سے نجات ملے۔

اگر شُرُوع سے ہی انسان کے حُقُوقِ آزادی کا مُکمَّل پاس نہیں کِیا گیا، تو انسان کے انسان پر ظُلم و سِتَم اور جبر و استحصال سے حقیقی نجات اور مُکمَّل آزادی مُمکن ہی نہیں کبھی مِل سکے۔

علاوہ ازیں، اِس بات کی اہمیّت و ضرُورت پیشِ نظر رہنا چاہیے کہ ہمساےے سے اُلفت کا دم بھرنے کے فرمان کا اس عمل سے کوئی میل نہیں کہ پڑوسی سے مہر و محبّت کا سُلُوک روا رکھنے کے بعد دُوسرے تمام لوگوں کے خلاف نفرت و عناد پال لیا جائے، فرداً فرداً نہ جمعیت در جمعیت۔ فہم و ابلاغ کے لیے اگر رُوحِ اناجیلِ مُقّدس میں اُترنے کی توفیق حاصل ہو تو معلُوم ہو گا کہ حیاتِ مُبارکہ مُقدّس خُداوندِ یسُّوع مسیح اور اُس کے خُدا و نجات کے بارے میں تعلیما ت کا نچوڑ اِس کے علاوہ اور کُچھ نہیں کہ ہر وُہ شخص جو جارحیّت اور بہیمانہ تشدُّد کے خلاف باضابطہ مُزاحمت کی قُوّت استعمال کرنا چاہتا ہے تو اُس کو یقین ہونا چاہیے کہ ضرُوری نہیں نتیجہ حسبِ خواہ برآمد ہو، اس کے برعکس اُسے پتا ہونا چاہیے کہ پُرامن مدافعت ہی کامیابی کی اصل حکمتِ عملی ہے جو یہ ثابت کرنا آسان بنا دیتی ہے کہ آزادی کی راہ محبّت، محبّت اور صِرف محبّت سے ہو کر جاتی ہے۔ جبر و تشدُّد مزید جبر و تشدُّد پیدا کرتا ہے۔ ہندو رہنما گاندھی جی اور مارٹن لُوتھر کنگ جونیئر اپنے اپنے وسیب، حالات اور ادوار کی درخشاں مثال ہیں ہمارے سامنے۔ تاریخ گواہ ہے کہ اُنھوں نے رِہائی، آزادی، نجات پانے کے لیے جو حکمتِ عملی اپنائی وہ عدم تشدُّد کی تھی خُون خرابے کی نہیں۔ بہُت کُچھ دارو مدار اس پر بھی ہے کہ آیا جو لوگ جِدّوجُہدِ آزادی کے سمے اقتدار میں تھے یا ہیں اُن میں اِتنی آمادگی، سکت، نیّت، عزم و ارادہ اور صلاحیت بھی موجُود ہے یا نہیں کہ وُہ حالات کے جبر کو عدل و انصاف اور مساوات میں تبدیل کرنے کی ہِمّت دِکھا سکیں۔ تحمّل اور ارادے کی مضبُوطی کے ساتھ پُرامن کاوش، پیار و محبّت کے ساتھ مدلّل افہام و تفہیم اور مقصد کی سچّائی پر ایمان زادِ راہ ہو تو سفر ایک نہ ایک دِن کٹ ہی جاتا ہے۔

یقین محکم ، عمل پیہم ، محبّت فاتحِ عالَم

جہادِ زِندگانی میں یہ ہیں مردوں کی شمشیریں

 

تشدُّد اور شِدّت پسندی سے نجات پانے کے لیے مسلّح جِدّوجُہد و خُونیں انقلاب کے بجاے سیاسی و سماجی اصلاح و ترقّی، نظم و نظام کی بہتری اور ریاستی اداروں کی مضبُوطی کا راستہ طے کر کے تبدیلی کی منزلِ مقصُود سر کر لینی چاہیے۔ عصرِ حاضر کے جدید تقاضوں پر بھی نگاہ رکھنا ہو گی۔ فی زمانہ انقلاب نظریات کے تابع ہیں، اس لیے آج کل کے انقلاب کامیابی کے بعد بہُت جلد ازحد تحدیدی اقتدار و اختیار میں ڈھل کر ظالمانہ و بے رحمانہ نامعقُولیت پر اُتر آتے ہیں۔ اپنے نئے نظامِ عمل کو سختی سے رائج کرنے کی لگن میں ایک وقت ایسا بھی آجاتا ہے کہ سخت گیری پر آئے انقلابی، انسانی حُقُوق کی جنگ لڑنے والے مجاہد خُود انسانی حُقُوق کُچلنے پر اُتر آتے ہیں اور اِس نئی ''تبدیلی'' میں صدیاں نہیں، سال مہینے ہی ہوتے ہیں جو پلک جھپکتے گُذر جاتے ہیں اور اچانک انقلاب انقلاب، تبدیلی تبدیلی کے نعروں کی بازگشت پِھر سے سُنائی دینے لگتی ہے۔ اِس لیے حُضُور! ہم پیشگی عرض گُزار ہیں۔۔۔۔۔۔ مُشتری ہوشیار باش!!

اگر عوام النّاس جبر، تعدّی، جورو جفا اور زبردستوں کی سینہ زوری تلے کُچلے جائیں، ان کے ظُلم و سِتَم غریبوں کو روند ڈالیں، مِن جُملہ طور ان سب کے دباو تلے آ کر جب لوگوں کا دم گُھٹنے لگے، دِل ڈُوبنے لگے تو ایسے حالات میں پُرامن احتجاج کے ذریعے ظاہر ہے سٹیٹس کو نہیں توڑا جا سکتا۔ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بھی بیٹھا نہیں رہا جا سکتا۔ صبر و برداشت کی ایک حد ہوتی ہے اور جب وہ حد، وہ بارڈر لائن توڑ دی جائے تو تحمّل اپنے اختیار سے باہر ہونے لگتا ہے تب۔۔۔۔۔۔جی ہاں، تب آخری چوائس کے طورپر آخری آپشن، آخری حربہ وُہی ہوتا ہے، وُہی کہ۔۔۔۔۔۔ گھی ٹیڑھی اُنگلیوں سے نکالنے والا حل استعمال کرنے کا حق۔ سیدھی اُنگلیوں سے جب نہ نِکلا تو ٹیڑھی اُنگلیوں کا حتمی انتخاب کام دِکھا سکتا ہے۔ اب آپ نہیں یا گاہک نہیں۔ ہاں یہ ضرُور ہے کہ آخری اقدام سے پہلے تسلّی کر لی جائے کہِیں کوئی نعم البدل تو موجُود نہیں تھا جو صَرفِ نظر ہو گیا؟ اگر ایسا ہُوا ہو، بھُول چُوک سے چاہے، تو پِھر تشدُّد کا حق استعمال کرنا ساقط ہو جاتا ہے۔ جوش و غُصّہ والی شدید مُزاحمت نہیں ہو سکتی، ہوش و خرد والی سُوچی سمجھی ضبط و نظم والی جِدّوجُہد کے چھکڑے کو آزادی کے موٹروے پر ہانکا جا سکتا ہے البتّہ۔ حال آں کہ نئے دور کی اِس شاہراہ پر سست رفتار گاڑیاں قابلِ دست اندازیِ موٹروے پولیس ہیں۔ یہ الگ بات ٹرانسپورٹرز حضرات کہتے سُنے گئے ہیں کہ گاڑیاں انجن کے زور سے نہیں، ڈرائیور کی ہِمّت و صلاحیت سے تیز دوڑتی ہیں۔ چھکڑا گاڑی ہو یا بی ایم ڈبلیو ہمارا مشورہ ہے، محتاط ڈرائیونگ کا، محفُوظ سفر کا۔ منزل پر نہ پہنچ پانے کی نسبت دیر سے جا پہنچنے میں عافیت ہے۔لگتا ہے آپ میری بات کی تہہ تک پہنچ گئے ہیں۔ یہی آپ سے اُمِّید تھی۔

''انیسائیکلیکل پاپولورم پروگریسو'' (دی پروگریس آف پیپل) یعنی خلقت اور تہذیبی ترقّی۔ آرٹیکل نمبر31میں تقدّس مآب پوپ پال ششم نے حتمی انتخاب کا ذِکر کرتے ہُوئے، یہ واضح کِیا کہ (زُبانی کلامی لڑائی جھگڑا نہیں) ہتھیار بردار جنگی حکمتِ عملی کو بھی آخری حل کے طور پر روا قرار دیا جا سکتا ہے اِس تشدُّد و بہیمانہ کارروائیوں کی دلدل میں دُور تک پھیلی مضبُوط اور طویل و مُہیب جڑوں پر قائم دورِ استبداد کے خاتمہ کے لیے، کیوں کہ اس کے بل بوتے پر ہی تو انسان کے بُنیادی حُقُوق کی کُھلّم کُھلّا خلاف ورزی ہو رہی تھی اور مُلک و قوم کی فلاح و بہبُود خطرے میں تھی۔

بے شک، کڑی نگرانی اور ڈھنگ قاعدے سے اختیار کِیا گیا اندازِ جارحیت جسے آزادی اور چھُٹکارا حاصل کرنے کے لیے اہم راستہ تصوُّر کر لیا گیا ہو اُسے مسیحی اجتماع براے اُصُول و قواعد ِ عقیدہ (کانگریگیشن فار دی ڈاکٹرین آف فیتھ) نے اکّھیں دیکھے مکّھی کھانے والا فعل قرار دیا، اِتنا ضررر ساں کہ جس کے ذریعے نئی سِتَم رانیوں کے دَر وَا ہونے میں دیر نہ لگے گی۔ 

حوالہ ''انسٹرکشن آن کرسچین فریڈم اینڈ لبریشن''۔ نمبر76۔

آج کلیسیا سمیت تمام مملکتوں، ریاستوں اورر جواڑوں کو دعوت دی جا چُکی ہے کہ حصّہ بقدر جُثّہ ڈالتے ہُوئے یہ بات پکّی کریں کہ اِس گلوب پر موجُود کِسی بھی مُلک میں ایسی صُورتِ حالات کبھی پیدا نہ ہو گی کہ جس میں ناقابلِ برداشت متشدّدانہ جبر و استبداد کی اخیر ہو جائے اور خلقت مجبور ہو کر ظُلم کے خاتمہ پر کمر کس لے۔ اَت خُدا دا ویر!!۔۔۔۔۔۔ ہماری بِنتی ہے کہ حالات اس حد تک پہنچنے نہ ہی دیے جائیں۔ طرفین عقل کے ناخُن لیں۔ پِسے ہُوئے لوگ کل تک خُود جن حربوں کے خلاف تھے اور ان حکمتِ عملیوں سے متنفّر تھے جو ان پر آزمائی جا رہی تھیں، وہ ہر ُلمحہ، ہر نئی واردات، ہر ناانصافی پر اندر ہی اندر کھول رہے تھے، پیچ و تاب کھا رہے تھے، آج وُہی سب کُچھ وہ استحصالی طبقہ پر استعمال کریں پاک خُداوند یسُّوع مسیح کرے کہ اس کی نوبت ہی نہ آئے، مسائل صلح صفائی، پیار محبّت اور امن آشتی کے ساتھ ایک ہی چھت تلے ایک ہی میز پر ایک ہی اجلاس میں طے ہو جائیں۔ ایک اجلاس نہ سہی، برف تو پگھلے، چند ہی اجلاس انسان کو انسان کا احترام سکھانے کے لیے بہُت ہیں۔ احترامِ آدمیّت کی تعلیم ہر مذہب کے الٰہی سلیبس کا اہم جُزو ہے۔

حوالہ جات سے مستفید ہونا پسند فرمائیں تو مُطالَعہ کی سفارش کی جاتی ہے:

''کاتھولیشر ایرواخزنینین کاٹے چِسمُوس'' 2بی ڈی۔''لیبین آؤس دیم گلاؤبین''۔ فرائی بُورگ: ہیرڈیر، 1995ع، صفحات260تا 262۔

جیّد علماے دِینِ الٰہی و مفکّرین فلسفہء آزادی و نجات میں جناب جی گُتریٹس کا نامِ نامی، کہ جنھوں نے ''اے تھیالوجی آف لبریشن'' لکّھی، پیش پیش ہے۔ یہ کتاب 1974ع میں چھپی۔

جناب یُت۔ زیگُنڈو، انھوں نے ''دی لبریشن آف تھیالوجی'' لکھی جو 1978ع میں منظرِ عام پر آئی۔

جناب جے سوبرینو، علم المسیح پر اُن کی کتاب ہے ''کرسٹالوجی ایٹ دی کراس روڈز'' قابلِ مُطالَعہ کتاب ہے اور ذاتی لائبریری کے لیے تحفہء خاص۔ یہ کتاب 1978ع میں اشاعت کے مرحلہ سے سُرخرُو ہو کر کتاب گھروں کی زینت اور جس جس گھر پہنچی برکت کا وسیلہ بنی اور مانگ کے پڑھنے والوں کے لیے سببِ نجات۔

Contact us

J. Prof. Dr. T. Specker,
Prof. Dr. Christian W. Troll,

Kolleg Sankt Georgen
Offenbacher Landstr. 224
D-60599 Frankfurt
Mail: fragen[ät]antwortenanmuslime.com

More about the authors?