:سوال نمبر89
۔مسیحی فہم و فراست میں زندگی اور انسان کی جو اصطلاحیں مُستعمل ہیں اُن سے کیا مُراد لی جا سکتی ہے؟ روشنی ڈالیے گا؟
جواب:۔ خُوب، دو تہوں اور وسیع پس منظر اور پیش منظر والا سُوال ہے جِس کا جواب پُورے طور پر دِیا جانا اِن صفحات میں تو دُشوار تر ہے، مگر مناسب ترین اور مختصر جواب جو دیا جا سکتا ہے، حاضر ہے۔
1۔ بنی نوعِ انسان
انسانوں کے بارے میں مسیحی مذہبی فکر اور فلسفہ کیا ہے؟ مسیحیّت میں انسان کی وُقعت و اہمیّت کیا ہے؟ خُدا میں انسان کا عکس نظر آئے، توبہ توبہ! ہاں انسان میں خُدائی عکس ضرُور دِکھائی دیتاہے۔ انسان خُدا کی تخلیق ہے، اُسے اس نے اپنی تمثال پیدا کِیا۔ انسان رُوح اورجسم سے مِل کر زندہ ہے۔ دُنیاوی زندگی میں خُدا کی رفاقت انسان کا مقصدِ زِیست ہے اور اُخروی زندگی جو چل سو چل ہے اس میں شراکت مقصُودِ خُداوندی ہے، انسان کی کیا قدر و منزلت اور مرتبت و عظمت ہے، اس سے بڑھ کے اور کیوںکر عیاں کی جا سکتی ہے۔
تخلیقِ خُداوندی
آج نئے زمانے کے لوگوں کو تخلیقِ آدم کے سمجھنے میں خاصی ہچکچاہٹ ہوتی ہے کیوں کہ ہمارے حساب سے بعض جانداروں میں درجہ بہ درجہ ارتقا کے ذریعے آدمی کی موجُود صُورت سامنے آئی۔ ہم کیوں محترز ہیں یہ مان لینے میں، یہ بھی خُدائی منصُوبہ بندی کی ہی ایک کڑی ہے کہ مخلُوقات خُو دہی کوشش کر کے خُدا خالق کے کام میں بڑھوتری لائے تا کہ اس کی تخلیق میں حُسن اور ارتقا پیدا ہوتا رہے۔ ایساکر سکنے کی سُوجھ بُوجھ صلاحیت و قُدرت بھی اسی نیلی چھتری والے کی عطا ہے۔ اور یہ ارتقا بھی اُسی کی متعین کی ہُوئی ضرورت اور حد کے مُطابِق ہوتاہے۔ کلیسیا ہمیں یاد دِلاتی ہے کہ ہر انسانی رُوح کا خالق خُود خُدا شان والا ہی ہے۔ جب انسانی پُتلے کو زندگی مِلتی ہے تو خُدا س سے فرماتا ہے، مجھے نسلِ انسانی مطلُوب تھی۔ تخلیقِ بشر کے اِس کام میں باپ اور ماں نے خُدا کا ساتھ دیا، چُناں چہ وُہ دونوں محبّتِ الٰہی کی نمایندگی کرنے کا اعزاز رکھتے ہیں، تاہم ہم میں سے ہر کوئی جو ابنِ آدم ہے خُدا خالق کی شاہکار تخلیق ہے۔ ہمارا وُجُود، ہماری ہستی سب اُسی کی مرہُونِ مِنّت ہے۔
انسان بمثلِ خُدا ہے، ہو بہ ہُو ُاس کا عکسِ جمیل
تخلیقِ کائنات کی کہانی میں جو تفصیلات ہیں بائبل مُقدّس میں سب کی سب آ چُکی ہیں۔ چُناں چہ ہمارے ذِہن میں سُوال اُبھرتا ہے کہ ہم کیوںکر خُدا سے مِلتے جُلتے ہیں؟ ایسا ہونے کی بہُت سی صُورتیں ہیں۔ یہی لیجیے کیا کم صُورتِ حالات ہے کہ خُدا کی تمام مخلُوق میں سب پر ہمیں فضیلت و فوقیت حاصل ہے۔ ہم خالق کی برتر مخلُوق ہیں جِس کا طبعی اِظہار ہمارے سیدھا چلنے میں ہوتا ہے۔ ہم اُس کے شکر گزار بندے سینہ تان کر، سر اُٹھا کر سامنے دیکھتے ہُوئے، بام دام بام دام، چلتے ہیں اور خاص طور پر ہم میں جذبہء روحانی، عزم و ہِمّت میں یکتا ہونے کا احساس اور رُوح۔ ان میں اور ہم میں عطا کی گئی جواز و وُجُوہ تلاش کرنے، سُوچ رکھنے اور عمل کرنے کی صلاحیت، نیز قضا و قدر میں سے وُہ خاص خُوبی جو مُختاری پر محمُول ہے اور ہم آزادانہ اپنی ایک راے رکھ سکتے ہیں۔ یہ تمام جذبے دُوسری تمام مخلوقات پر ہمیں درجہء امتیاز سے مُتّصِف کرتے ہیں یہ سب ٹھیک ہے، سچ ہے مگر یہی سب کُچھ نہیں ہے۔ اہم ترین نقطہ تو یہ ہے کہ ہم انسان دُوسری کِسی بھی مخلُوق سے اِس لیے ممتاز ہیں کہ وُہ صِرف ہم ہی ہیں، ارضی مخلُوق میں، جو خُدا کا کہا، بولا، سُن سکتے ہیں اور اُس کے فرمائے پر عمل کر سکتے ہیں، اکیلے ہوں یا مجمع میں، دُعا میں ہوں یا عبادت میں، خُوش ہوں یا تکلیف، رنج، مصیبت میں ہم اُس سے متکلّم ہوتے ہیں اور اُس کا کلام سُن رہے ہوتے ہیں۔ ہم باتیں بھی اُس سے کرتے ہیں اور لاڈیاں بھی۔ یہ فخر کِسی اور جاندار کو بھلا کہاں نصیب۔ ہماری اپنے خُدا سے سانجھ ہے۔ شُکرانہ بجا لانے کی سعادت بھی صِرف ہمیں بخشی گئی ہے۔ بھینس کھا پی کے ڈکار مار سکتی ہے، شُکر ادا کرنا اُس کی عقل سمجھ سے باہر ہے۔ کُتّا جِس کو ہم خُدا کا رِزق پہنچاتے کھلاتے رہیں یہ کر سکتا ہے کہ ہمیں کاٹنا بند کر دے، ہم پر بھونکنے سے باز آجائے یہ نہیں ہو سکتا کہ کھا پی کے دو زانو ہو جائے، ہاتھ باندھ لے اور سرمُنہ آسمان کی طرف اُٹھا کے شُکریے کے دو بول ہی بول دے، بولا بھی تو بھونکے گا۔ کھانے کے بعد کی دُعا نہیں پڑھے گا۔ جانور پڑھنا نہیں جانتے، اِسی لیے اُنھیں عینکیں نہیں لگتیں۔ یہ بھی بڑا فرق ہے۔ ہم شُکرِ خُداوندی ادا کرتے ہیں، اور اُسے حمد و ستایش اور جلال دے سکتے ہیں۔ بندے سے بھُول بھی ہو سکتی ہے، سہو بھی، کفرانِ نعمت کا بھی وُہ مُرتکب ہو سکتا ہے، انسان ہے نا، خطا کا پُتلا مگر وُہ، وُہ اُوپر والا بخشنہار ہے، بہُت کُچھ غلط کر کے بھی آدمی بخشش مانگتا ہے، اور وُہ مہربان، عظیم ترین مہربان بخش دیتا ہے، مُعاف کر دیتا ہے۔ اِسی لیے بندہ ہر آن اُسی سے ہی چمٹا رہتا ہے۔
اِک اُمیدِ کرم تھی کہ دِل سے جا نہ سکی
تمھارے سایہء داماں کے ساتھ ساتھ رہے
ہم پارٹنر ہیں نا، خُدا کے پارٹنر۔۔۔۔۔۔
ہمیں چاہیے کہ ہم انسانوں کو آداب بجا لائیں، اُن کے مقام و رُتبہ اور وقار و شرف کا پاس اور احترام کریں۔ جِس کو خُداوند کریم عِزّت بخشے اُس مُعزّز کو سلام۔ وُہ عِزّت بخشے گئے ہم خُود بھی تو ہو سکتے ہیں، اپنی عِزّت اپنے ہَتھ، اپنا احترام بھی ہم آپ کریں، ہم بھی حضرتِ انسان ہی تو ہیں۔ سب کا احترام، سب کی عِزّت ہم سب پر واجب ہے، تکریم کے لیے لوگوں میں ہم مذکّر و مُؤنّث نہ ڈُھونتے پھریں۔ ان پڑھ، جاہل۔۔۔۔۔۔ مسیحی، غیر مسیحی رنگ و نسل، قومیت ان چکروں میں نہ پڑیں، ان سے بالا ہو کر سب انسانوں کی تکریم کریں اور اعلیٰ اخلاق والوں کی تعظیم کریں۔ جِس طرح ہم پر اپنی صِحّت و تن دُرُستی کا خیال رکھنا واجب ہے، اپنی اچھّی شہرت کا بھرم رکھنا ہم پر فرض ہے۔ ہر تذلیل و اہانت جو ہماری طرف اُچھالی جائے اس کے جواب میں اپنا دفاع کرنے کا ہمیں حق ہے۔ اگر نسلِ انسانی کی بے عِزّتی کی جا رہی ہو تو حُکم یہ ہے کہ اس کے خلاف جنگ کرو۔ اور سَو گلّاں دی اِکّوئی گَل۔۔۔۔۔۔ خُدا سے مُکالمہ، اُس سے گُفتگُو کے درپے رہنا چاہیے ہر بار، ہر دفعہ، بار بار۔
نسلِ انسانی کی عظیم تر شادمانی کا راز اِسی میں موجُود ہے کہ ابنِ خُدا بہ ذاتِ خُود بہ نفسِ نفیس انسان بن کر انسانوں میں آیا۔
ای آمدنت باعثِ آبادیِ ما
خُدا توفیق دے تو ایک بہُت ہی ارفع سطح پر یُوں بھی سوچا جا سکتا ہے کہ خُدا کے ہُو بہ ہُو ہی خُداوند یسُّوع مسیح کی تخلیق ہُوئی۔ وُہ ہماراخُداوند ہمیں بھی تو بُلندیاں عطا کرنا چاہتا ہے، خُدا کی پرچھائیں جو ہم میں نظر آتی ہے وُہ اس کی تکمیل کا جویا ہے۔ ہم بھی یقینا خُدا ہی کے بچّے ہیں۔ اُس کے بیٹے، اُس کی بیٹیاں۔اور وُہ دائم قائم ہے اور ہمارا عظیم ترین ارفع و اعلیٰ باپ ہے اور وُہ چاہتا ہے کہ اور جو وُہ چاہتا ہے وُہی پُورا ہوتا ہے ایک نہ ایک دِن وُہ ہمیں اپنی شانِ کبریائی اور جلال میں لے لے گا، یہی مشیّتِ ایزدی ہے اور ہم جسم و جان سے اُس کے ہیں اور اُسی کے رہیں گے۔ مَیں بپتسمہ کے مُبارک دِن سے کہ جب سے ہمیں نصیب ہُوا حیات بخش رُوحُ القُدس میں ہم یہ زندگی لیے لیے پھرتے ہیں، خُدا کی برکت، اُس کا فضل، اُس کی تقدیس ہم میں بھی سرایت کر گئی ہے۔ کیا ضرُوری ہے کہ ہم بھی مُقدّسین میں شامل ہوں، مُقدّسین ہمیں پیار کرین نہ کریں، ہم مُقدّسین سے محبّت کرنے والے، اُن کا دم بھرنے والے ضرور بنیں اور ہمارے لیے یہی کافی ہے۔
ایک شعر ہے نا۔۔۔۔۔۔
باغِ بہشت سے مُجھے حُکمِ سفر دِیا تھا کیوں
کارِ جہاں دراز ہے اب میرا انتظار کر
اِس دراز کارِ جہاں سے فُرصت زبردستی نِکال کر، نِکالنی پڑتی ہے جناب! تو فُرصت میں، دھیان گیان کے ساتھ اس کارِ مُفوِّضہ پر غور کرنا ضرُوری ہو جاتا ہے کہ ہم بھی، خُداوندِ قُدُّوس نے جو ہم سے اچھّی توقّعات منسُوب کر رکّھی ہیں، اُن پر پُورا اُتر کر دِکھائیں۔ اگر کِسی سبب ہمارا اچھّا تاثُّر قائم ہے تو ہم بھی اس کی لاج رکّھیں۔ ہمیں اپنا آپ ہمیشہ اپنے سامنے رکھتے ہوئے اوقات میں رہنا چاہیے۔اور یہ اوقات بھی کوئی اَینویں شَینویں والی بات نہیں بل کہ
میری محنت کا سرمایہ ہے عقبیٰ
بڑی تنخواہ کا مزدُور ہُوں مَیں
ہمیں اپنے رب پر بھروسا ہے اور فضلِ ربّی ہمیشہ ہمارے ساتھ ہے۔ عقبیٰ میں بہتری کا ہمارے لیے فدیہ مُقدّس خُداوند یسُّوع مسیح نے دے رکّھا ہے۔
2۔ حیات
بطور ایک خُوش عقیدہ مسیحی کے میرا خیال ہے کہ ہم لوگوں پر زندگی کا مطلب و مقصد بڑی اچھّی طرح واضح ہو جاتا ہے جب ہم مُقدّس خُداوند یسُّوع مسیح کی بطور ابنِ آدم دُنیا میں آمد، اُس کی زندگی، اُس کا مصلُوب ہونا، اُس کی قبر خالی ہونا، اُس کا مُردوں میں سے زندہ ہو کر واپس دُنیا میں آنا، اپنے مُقدّس حواریوں سے اُس کی چونکا دینے والی زندہ سلامت مُلاقات، پِھر ابنِ خُدا کا واپس آسمانوں پر چلے جانا اور روزِ محشر دوبارہ زندہ ہونا اور سب انسانوں کو بھی ز ندگی بخش کے اُٹھا بٹھانا، اور اس زندگی کا دوام اس کی خاصیّت ہونا۔ ویسے تو مُردوں میں سے اس خُداوندخُدا کا جی اُٹھنے کا سِرّ ہی کافی چشم کُشا ہے۔ چُناں چہ ایسٹر کا مُبارک تیوہار، پاشکا کی عید، مُقدّس خُداوند یسُّوع المسیح کے مُردوں میں سے جی اُٹھنے کی عید ہے، جشنِ حیات ہے۔ کِس لحاظ سے بھلا؟ ابھی بھی ہم بتلائیں، کِس لحاظ سے؟ کوئی کسر رہ گئی کیا؟۔۔۔۔۔۔
کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا
بائبل مُقدّس ، عہدِ عتیق کی تو تھیم ہی یہی ہے کہ خُدا زندہ ہے، ہمیشہ سے، ہمیش تک۔ زندگی کو اُسی نے پیدا کِیا، موت و حیات دونوں پر وُہ حاوی ہے۔ زندگی رُوحُ الحق کے دم سے ہے۔ نبیوں کے زمانے سے ہی بنی اسرائیل کی تو تمام اُمیدیں اُسی سے وابستہ ہیں۔ خُدا انسان کو ہمیشہ ہمیشہ کی موت سے، فنا سے ہم کنار کر دینے کے حق میں نہیں۔ وُہ کیا ہے کہ۔۔۔۔۔۔
حد چاہیے سزا میں عقوبت کے واسطے
آخر کو گنہگار ہیں ، کافر نہیں ہیں ہم
یہ خُدا کو بتانے کی بات تو نہیں، اسے تو سب پتا ہے۔ وُہ علیم ہے، خبیر ہے۔ اُمِّید جو الٰہیاتی بخشش ہوتی ہے شروع شروع میں تو سب دُھندلا دُھندلا نظر آتا تھا، مبہم۔ موہُوم اُمِّید باندھ لی جاتی تھی، مگر بعد میں جب ایذا رسانی، ستم گری او رمُشکلات کا دور آیا، ایمان والوں پر ظُلم توڑے جانے لگے، آس اُمِّیدتوقّعات کا پلّہ مزید بھاری ہو گیا، جینے کی، سُکھ پانے کی طلب بڑھ گئی۔ خُدا پر اُمِّید کا آسرا اعتماد، اعتقاد اور یقین میں ڈھل گیا۔ روزِ قیامت، وُہ تمام مردوں کوزندہ کر دے گا۔ وُہ قادر ہے، قدیر ہے۔ مُقدّس خُداوند یسُّوع مسیح کا دوبارہ زندہ ہونا پیش خیمہ ہے ہمارے اِس سیّارئہ زمین کے خاتمہ کا، روزِ آخرت بہُت قریب کھسک آیا ہے گویا۔ دُنیاوی حیات کے منڈووے میں آخری رِیل چل رہی ہے۔ خُدا کی بادشاہت کائنات کے سیناریو پر اُبھرنے لگی ہے۔ خالق کے ہاں تخلیق کا اگلا مرحلہ شُرُوع ہو چُکا ہے۔ ابدی زِندگی لیے آنے والی ان گنت خلقت کے استقبال اور اُن کی بحالی کی تیّاریاں جاری ہوں گی۔ نئے جہان، نئی مخلُوقات پیدا کرنے کے روڈ میپ، فیزیبلٹی چارٹ، انفراسٹرکچر کی تیّاری زورو شور سے جاری ہو گی، یقینا قیامت زیادہ دُور نہیں۔ ہماری دُنیا میں جتنے ایٹم بم موجُود ہیں، چل جائیں تو اور قیامت کیا ہو گی۔ یہی، بالکل یہی سبب ہے جو قدیم سے قائم چلا آرہا ہے کہ تخلیقِ کائنات کی کہانی ایسٹر مُبارک کی رات دُہرائی جاتی ہے۔ یہ تخلیقِ اوّل ہے۔ خُداوند یسُّوع پاک کے جی اُٹھتے ہی دُوسری تکوین کا آغاز ہو گا۔ ہماری آنکھیں مستقبل پر لگ چُکی ہیں۔فتح، خُداوند کے خُدا کی ہی ہو گی۔ ناانصافیوں اور نفرتوں کو عدل اور اُلفت بُری طرح پچھاڑ دیں گے۔ محبّت فاتحِ ہر دو عالم ہو گی کیوں کہ محبّت خُدا ہے اور خُدا ہے محبّت۔ اوہو خیالات کا راہوار کہاں سے کہاں لے گیا، ہم جو انسان ہیں ہم میں سے، جو کوئی قبروں کی مٹّی میں مٹّی ہو چُکا ہو گا، ہم جیسے کئی انسانوں کے مُردہ جسموں کی راکھ پانیوں میں، فضاؤں میں، پہاڑوں پر اور جانے کہاں کہاں بکھری پڑی ہوگی۔ الغرض جو جہاں بھی ہے جیسی حالت میں ہے پِھر سے مجتمع ہو کر خُدا کے حُکم سے زندہ ہو جائے گا۔ ہم سب مُردوں کے ساتھ جی اُٹھیں گے۔ نئی زندگی سب کُچھ بدل دے گی۔ ہر شے کے لیے حیات ہے، حتّٰی کہ انسان نے چِھپا کے بھی جونیکی کی ہو گی، زندہ، یومِ عدالت گواہوں کے کٹہرے میں کھڑی ہو گی۔
وُہ دِن جب ایسٹر کے مُبارک دِن کی ہم یاد مناتے ہیں اسی دِن خُدا کے اسماے مُقدّس کے لیے ایک نام کے اضافے کے خیال کا سودا ہمارے سروں میں سمانے لگتا ہے۔ ہمارا دِل کرتا ہے اسے۔۔۔۔۔۔ خُداے زندگی کہہ کر پُکاریں۔ یہ تو کوئی مُردہ ہی اُس کے جگانے پہ جاگ کے بتا سکتاہے کہ زندگی کتنا بڑا انعام ہے، واقعی بہُت بڑی نعمتِ ربّی ہے۔ ہمارے تخیل، ہمارے فکر، ہمارے احساسات کا ارتکاز آنے والی زندگی، مُستقبل میں جو پیش آنا ہے، مرنے کے بعد کیا ہو گا، آخرت اور پِھر اُخروی زندگی جہاں فنا نہیں ہو گی ہر شے کو دوام حاصل ہو گا، خُوشحالی، فارغ البالی، خُداکے شُکرانے والی زندگی کی طرف، شُرُوع ہو چُکا ہے۔ پاک خُداوند اُٹھ کھڑا ہُوا ہے، اُس نے ہمیں بھی اُٹھا دیا ہے اور اپنی عاطفت و شفقت کے ساےے میں ہم سب کو لے کر فنا سے بقا کے جہان کی طرف چل پڑا ہے۔ موت کی حکمرانی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے نیست و نابُود ہُوئی، حیات سریر آراے تخت ہو گئی۔ خُدا نے ذِمّہ داری سنبھال لی۔ ہم بھی اس پر بھروساکرتے ہیں اور جب کُچھ نہ بچا ہو، سب خلاص، پِھر تو وُہ بھروسا اُس پر یقین میں بدل جاتا ہے۔ وُہ کارساز ہے، کارسازِ حقیقی۔ مَیں نے بھی آپ کو خواب نہیں بتایا، نہ تعبیر پُوچھی ہے۔ خواب ہی نہیں دیکھا تعبیر کیا پُوچھنی۔ مَیں نے تو حقیقت سے آپ کو آشکار کِیا ہے۔ بائبل مُقدّس گواہ ہے۔ بائبل سے بڑھ کر اور سچّی کتاب کون سی ہے۔ یہ کلامِ مُقدّس ہے اور سب سچ ہے۔ جو اس کی باتوں پر ایمان لایا اُس نے زندگی کی صحیح اور نئی سمت پا لی۔ آخرت کی شاندار زندگی والی، مُکتی داتا کی فدیہ کی ہُوئی الٰہی نجات اور ابدی حیات، حیات بخش رُوحُ القُدُس کی بخشی ہُوئی نئی زندگی! یہاں اس زیستِ مُستعار سے، عارضی حیات سے ہمیں کیا ملے گا یہ کوئی اہم سُوال نہیں، یہاں، ابھی، کُچھ بھی مِل جائے اس کی کیا وُقعت، فانی دُنیا میں سب کُچھ فانی ہے، اہمیت تو اِس بات کی ہے کہ خُدا جلال والے کے ہاں ہمارا کیا بنے گا۔ لیکن ایک بات ہم ضرُور جانتے ہیں اور ایمان کی حد تک جانتے ہیں کہ وُہ جو کرے گا اچھّا ہی کرے گا کیوں کہ وُہ جو کرتا ہے، بھلا ہی کرتا ہے۔ وُہ عظیم ہے، عظیم تر بل کہ عظیم ترین۔
البتّہ، یہ بات بھی دُرُست ہے کہ اِس سب کُچھ کہنے کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ مسیحی بھائی بہنیں تارک الدنیا ہو کر بیٹھ جائیں۔ یہ تو زندگی اور اس کے معمُولات سے کٹ جانے والی بات ہے۔ اور پِھر ہم دُنیا پر لات کیوں ماریں۔ دُنیا بھی تو اسی خالق، مالک، رازق نے بنائی ہے، ہمیں اس میں پیدا کِیا، ہمیں آزمایشوں سے گُزارا، اچھّے گُذرے بُرے گُذرے، گُذرے تو۔۔۔۔۔۔ وہی بات کہ
چنگی آں کہ مندی آں، صاحب تیری بندی آں
ہمیں اپنی قُوّت، اپنی صلاحیّتیں اپنی محنت و کوششیں ایک دُوسرے کے لیے صَرف کرنا ہوں گی
کہ دُنیا میں کام آئے انساں کے انساں
لیکن بڑا فرق ہے، بڑا فرق ہے اس میں کہ ایک آدمی بڑی جِدّوجُہد کرتا ہے، تن من دھن لگا دیتا ہے لیکن اُمِّید کی، خیر کی ایک کِرن بھی نہیں جاگتی، اس کی دِن رات کی محنت سے دُنیا میں کوئی رتّی ماشہ ہی بہتری آئی ہو؟ نہ، ترقّی کی کوئی رمق پیدا ہوئی ہو؟ کوئی ایک آدھ بندے کے ہی نصیب مُستقل سنور پائے ہوں، نہ نا۔ یا کوئی آدمی اِتنے پرہی مُطمئِن ہو گیا ہو کہ چلو انجامِ کار اُس کی تگ و دو اِتنی تو کام آئی کہ ہر کام میں، ہر مشن میں، آخری فتح تو خُدا بزُرگ و برتر کی ہی ہوئی نا۔ رہی وُہ تگ و دو جو اُس آدمی نے کی اور نتیجے میں کائنات کے ربِّ ذُوالجلال کی فتح اس چڑیا کی مثال ہے جو جنگل کی بھڑکتی آگ پر برسانے کے لیے اور آگ میں گھرے چرند، پرند، درند اور ہو سکتا ہے اس آگ میں گھرے کِسی انسان کی بھی زندگی بچانے کے لیے جو وُہ چونچ بھر پانی لائی وُہ کام آئے، نہ آئے، مگر اُسے تسلّی ہے اُس نے اپنے حصّے کی خدمت تو ادا کر دی نا! ہم پاک مُقدّس خُداوند یسُّوع مسیح کے جِلو میں ہیں، یہ ہمارا اعزاز ہے، یہی ہماری فتح ہے۔ اس کا ساتھ ہمیں حاصل ہے تو ہر گرم سرد چکھنے کا ہم میں حوصلہ ہے، ہر اُونچ نیچ ہم سہہ سکتے ہیں، ہر تلخ شیریں بڑے اعتماد کے ساتھ ہم حرزِ جاں بنا سکتے ہیں۔ آس اُمِّید کا دامن ہمارے ہاتھ سے چھُوٹے نہیں چھُٹ سکتا، بہُت کَس کے تھام رکّھا ہے۔ یہی ہمارا ایسٹر عقیدہ ہے جو راسخ ہے۔
(ماخوذ از۔۔۔۔۔۔ وِنفرِڈھینٹسے، ''گلاؤبین اِست شوئِن''۔ ہارسُم2001ع، صفحات 51تا 53اور 89مُکمَّل)