German
English
Turkish
French
Italian
Spanish
Russian
Indonesian
Urdu
Arabic
Persian

:سُوال نمبر77

تیونس کی ایک مُسلم خاتُون کہ اُس نے ایک مسیحی مرد سے شادی کر لی تھی اب خوفزدہ ہے کہ تیونس میں اُس کے عزیز و اقارب ان میاں بیوی کے خلاف بد دُعاؤں پر بد دُعائیں دیے جا رہے ہیں۔ خاتُون اِس واہمے میں مُبتلا ہے کہ ان کی ازدواجی زندگی پر جو تباہیاں بربادیاں، مُنڈلا رہی ہیں، آپس کے لڑائی جھگڑے، بیرُونی دباو اور آئے روز کی چخ چخ جو بڑھ رہی ہے انہی کی بددُعاؤںاور لعن طعن کے اثر سے ہے۔ آیا آپ کُچھ روشنی ڈال سکتے ہیں کہ اِن بددُعاؤں، لعنت ملامت، گنڈے تعویذوں سے میاں بیوی کے تعلُّقات میں زہر گھولا جا سکتا ہے تا کہ ان کا آپس میں پیار نفرت میں بدل جائے اور ان میں علیحدگی ہو جائے؟ کیا ایسے بد اثرات کا ذِکر کہِیں قرآنِ پاک میں کِیا گیا ہے؟ کیا ایسے عوامل کا توڑ کِیا جا سکتا ہے؟ اپنے آپ کو ان کے بد اثر سے محفُوظ رکّھا جا سکتا ہے؟

 

جواب:۔اسلامی دُنیا میں ایسی اوہام پرستی آج بھی بدرجہء اتّم دیہات اور قصبوں و چھوٹے شہروں میں ہی نہیں، بڑے شہروں کی غریب آبادیوں سے لے کر جدید کالُونیوں تک میں امر بیل کی طرح کہِیں نہ کہِیں دِکھائی دے جاتی ہے۔ ساس بہُو، سوکنیں، نکھٹُّو کام چور مرد اور حالات کے ستائے انسان سب بھُوت پریت ہَوَائی چیزوں، جادُو ٹُونوں، گانٹھوں اور اِتنے لاکھ مرتبہ یہ پڑھا کریں وُہ پڑھا کریں، پڑھ پڑھ کے دُشمن کی سمت پھُونکیں مارتے ہیں، عاملوں کے بتائے ہُوئے عمل کرتے ہُوئے جانوروں کی سریاں چوراہوں پر رکھتے، دالیں راہوں میں بکھیرتے اور گیدڑ سنگھیوں، سیندُور اور مَنکوں کو دُودھ پر پالتے پالتے یہ نہیں دیکھتے کہ عاملین حضرات اور بیبیاں خُود کِس حال میں ہیں، اُن کے ذریعے اپنا حال بہتر کروانا ایک عام سی واردات ہے جو کمزوریِ ایمان ہے۔ منکے، تسبیحیں، کڑے، چِمٹے، انگُوٹھیاں ہی انگُوٹھیاں پہنے، سر پر خاص انداز کے رومال باندھے، لمبے چغے چولے گاؤن پہنے بڑی بُوڑھی جادُوگرنیاں ٹھنڈے مُلکوں میں گلوب گھُماتی اور گرم و مُتعدل آب و ہَوَ اوالے مُلکوں میں انگُوٹھے پر کالک مَل کے ناخُن میں وار کرنے والوں، دُشمنوں، چوروں کی شکلیں دِکھا دِکھا کے کمزور عقیدہ لوگوں کو بے وُقُوف بناتی رہتی ہیں۔ سب جوڑ توڑ کے ماہر کہلاتے او رکہلاتی ہیں۔ جِنّ نکالے جاتے ہیں، رُوحیں بُلائی جاتی ہیں، بیماریوں کو بھگایا جاتا ہے اور اپنے فوری مُستقبل سے بھی بے خبرلوگ دُوسروں کے ماضی، حال اور مُستقبل کی خبریں دے رہے ہوتے ہیں۔ مگر یہ رِزق کے حیلے ہیں، کاروبار ہے کہ چل رہا ہے۔ لوگ ہیں کہ آنکھوں دیکھے مکّھی کھائے چلے جا رہے ہیں۔ دُنیا میں احمق نہ ہوں تو سیانے روٹی کہاں سے کھائیں۔

بہُت سے غیر عقلی اعتقادات کا قرآنِ پاک میں بھی ذِکر موجُود ہے اور بعض پر یقین کی بھی تاکید ہے۔ جنّات پر ایمان کی ایک واضح مثال سامنے کی بات ہے۔ جنّوں سے مُسلمان ڈرتے ہیں کہ وُہ بیماریاں اور وبائیں پھیلا سکتے ہیں، بُرے دِن لا سکتے ہیں، زندگی موت میں بدل سکتے ہیں، الٰہ دِین کے اساطیری جِنّ کی طرح محلّات کھڑے کر سکتے ہیں، شاہی مطبخ چلا سکتے ہیں، مُختصر یہ کہ ہرفن مولا ہوتے ہیں۔ اُنھیں نہ غُلام کرو، نہ تنگ کرو، وُہ نظر نہیں آتے، ہوشیار! ان کے بچّے کہِیں پاؤں تلے نہ کُچلے جائیں۔ دُولھا میاں لوہے کی چھڑی (عصا) یا چھُری وغیرہ پاس رکّھے، بلائیں دُور۔ گلے میں شیر کا ناخُن لاکٹ کی طرح پہننے سے دُشمن کا وار بے اثر جائے جب کہ شیر اپنے سارے ناخُنوں سمیت مارا جاتاہے یا پِھر سرکس یا چڑیا گھر میں پہنچا دیا جاتا ہے اور اِتنا بھی نہیں کر سکتا کہ چڑیاگھر کا نام ہی بدلوا کر شیر گھر رکھوا دے۔ بد رُوحوں سے بچاو کے لیے خُدا تعالیٰ کی امان طلب کرنے کے بجاے مُختلف سیّاروں اور سیّارچوں کے ناموں والی انگُوٹھیاں پہنی جاتی ہیں، نیک بختی کے لیے مکانوں، دُکّانوں پر گھوڑوں کے نئے پُرانے نعل دروازوں پر نصب نظر آتے ہیں۔ سُرخ رنگ کا رومال یا سبز رنگ کا کپڑا پاس رکھتے ہیں کہ ایسا کرنا سعد ہے۔ ایک کرکٹر لال رومال پتلون کی پچھلی پاکٹ میں آدھا باہر لٹکائے رکھتا تھا اور آؤٹ ہو جاتا تھا، پِھر بھی اسے گُڈ لک سائن سمجھتا تھا۔ اگرکوئی چڑیل، بد رُوح، کوئی ہَوَائی چیز کِسی کو چمٹ جائے تو وُہ بیمار ہو کر آئے روز کمزور ہوتا چلا جاتا ہے۔ لڑکی پر جِنّ آجائیں تو، جب تک لڑکی کی شادی جہاں وُہ چاہتی ہے کرنے کی ہامی نہ بھر لی جائے، کمبخت نکلتے ہی نہیں۔

وُہ خواتین و حضرات جو ذِہنی خلفشار کا شکار ہوں، اعصابی تناو کے مریض ہوں، مرگی کے دورے پڑتے ہوں، دلی افسُردگی و دِل گرفتگی کا شکار ہوں، لقوہ یا سکتہ نے جینا دُوبھر کر دیا ہو، بیٹھے بٹھائے حالت غیر ہو جاتی ہو یا فالج نے دُوسروں کا دستِ نگر بنا رکّھا ہو، اس سب کُچھ کو ساےے سے تعبیر کِیا جاتا ہے، عرب کہتے ہیں فلاں تو پکڑا گیا یا جِنّات نے جکڑ لیا۔ تُرکی کے لوگ ایسے مریض کے بارے میں کہتے ہیں کہ اس پر جِنّ آگئے یا جنّوں نے اِس پر قبضہ کر لیا۔ یقین یہ کِیا جاتا ہے اب ان کو آرام تبھی آئے گا جب علاج وُہ لوگ کریں گے جنھوں نے جِنّ یا جِنّات قابُو کر رکھّے ہیں۔ طبابت کے لیے رُوحوں کو حاضر کِیا جاتا ہے، دُھونی دے کے کھانستی بِلبِلاتی رُوحیں بُلا لی جاتی ہیں۔ طِلِسمات سے محبُوب کو رام اور گھر سے فرار بچّے کی واپسی کا سامان کِیا جاتا ہے۔ جادُومنتر، ٹُونے ٹوٹکے، نفل، دُعائیں، وظائف کے دَور پُورے کروائے جاتے ہیں۔ خُدا کے کلام میں بے شک فیض ہے مگر پروفیشنل عاملین یہ فیض بد رُوحوں سے، جِنّ، فرشتوں اور مافوق الفطرت بلاؤں سے دِلوا رہے ہوتے ہیں۔ انسانی کھوپڑیاں، پنجر کار ساز بنا دیے جاتے ہیں اور بھولے، مجبُور، بُرے حالات کے جالے میں پھنسے انسان اور بُری طرح پھنس جاتے ہیں جب کہ ان لُٹیروں کے جال میں جِن کے ہاں ایک، سُوالی، مُرید، مُطِیع نہ پہنچے تو ان کے پُورے گھر والوں کو نان نفقے کے لالے پڑے رہیں۔ اکیسویں صدی بھی توہمات سے ان سادہ لوح لوگوں کونہ نکال سکی!! ایسی بھی فقیر فقیرنیاں موجُود ہیں جِن کا کام ہی دُوسروں میں پھوٹ ڈالنا، تباہیاں بربادیاں برپا کردینا ہے۔ انھوں نے بد رُوحیں پال ہی اِسی لیے رکھّی ہوتی ہیں کہ جِسے چاہیںبھسم کر دیں۔ اپنی آتما کے بارے میں انھیں کپچھ خبر ہی نہیں ہوتی، اُن کا کہنا ہے کہ آوارہ رُوحیں اُنھوں نے اسیر کر رکھّی ہیں۔ ہے نا خُدائی کاموں میں ہاتھ ڈالنے والی بات! ایسے ''پہنچے ہُوئے لوگ'' گنڈے، تعویذ، دھاگوں سے بھی کام چلاتے ہیں۔ اکثر نے تو تعویذ چھپوا ہی لیے ہیں، پتنگ کی ڈوروں کی طرح دھاگوں کے بھی نمبر ہیں، فُلاں مقصد کے لیے فُلاں نمبر کا دھاگا۔ فیس، ہدیہ، نیاز کم ہو تو کچّا دھاگا دیا جاتا ہے، اس پرگانٹھیں بھی کم ہوتی ہیں۔ کمائی کے ڈھنگ ہیں او رلُوٹنے کے لیے ڈھونگ۔ توہّم پرستوں کو مزید اوہام میں پھنسا دیا جاتا ہے۔ کالے علم کے ماہرین کی اپنی ایک پُر اَسرار مارکیٹ ہے۔ فُلاں مسیحی کالے جادُو کی کاٹ کرتا ہے، فُلاں بنگالی ماہرِ طِلِسمات کے وار سے کوئی بچ کے دِکھائے، دس ہزار روپے نقد انعام۔ سادات کرام کو بدنام کرنے کے لیے اپنے نام کے ساتھ شاہ لکھ کے کاروبار کے اڈّے پر بیٹھے شاہ جی کریش پروگرام کے تحت ہنگامی استخارہ آن کی آن میں کر کے ہر مُشکل آسان کر دیتے ہیں جب کہ اپنی مُشکلوں کو آسان کرنے کا اسمِ اعظم ان کی یادداشت سے نکل چُکا ہے۔ الامان، الحفیظ!!

نظر لگتی تو ہے مگر کئی عجیب اور فوری امراض کا سبب نظر لگ جانا بتا دیا جاتا ہے۔ نظر بھی وُہ جو تباہی پھیر دے۔ چشمِ بد دُور اور حسد کرنے والے کا مُنہ کالا کرکے مریض کی شفا جُوئی کی خاطر بڑے پاپڑ بیلے جاتے ہیں۔ کالی زُبان کا اثر بھی انسان کے لیے ایک اور ڈراوا ہے اور پلید رہ کر غلاظت اور گندگی کے ذریعے نفیس طبع کی چڑیلوں، پریوں، بھُوت پریتوں اور کافر جِنّات کو بھاگ جانے پر مجبُور کر دینا بھی ایک قدیمی شُعبدہ ہے۔ کامیاب ہو جائے تو وُہ چڑیلیں، پچھل پیریاں، پریاں، بھُوت پریت اور کافر جِنّات جِس کا تصوُّر باندھیں اُسے جا چمٹتے ہیں۔ چاہے وُہ سات سمُندر پار ہی کیوں نہ ہو۔

ایسی بھی کارستانیوں کا ذِکر سُننے کو مِلتا رہتا ہے کہ کِسی کی آئی اُس کے بدخواہوں پر پلٹ دی گئی۔ کِسی کو ٹھیک کرنے کے لیے، اپنا مطلب پانے کے لیے، کِسی کو رام کرنے کے لیے گورستان میں پُرانی قبر میں پاؤںلٹکا کے چِلّہ کاٹا گیا، کُنڈلیاں (حصار)ماری گئیں ، جھاڑُو، چھڑیاں، شاخیں، چھمکاں مار مار کے عامل نے معمُول کو بامُراد کر دیا۔ یا پِھر چُولھے میں تعویذ دبوائے گئے، کمائی کے لیے امارات گئے پردیسی کی فوری واپسی کے لیے برھن تعویذ لائی اور حسبِ حُکم گھر کے صحن والے درخت کی شاخ سے لٹکا دیے۔ اُسے بتایا گیا جیسے جیسے ہَوَا چلے گی، تعویذ بے چین ہوگا اور پردیسی کو بے تاب کر دے گا،سات دِن کے اندر اندر پردیسی گھر کی دہلیز پر کھڑا ''شیدے دی امّاں آگیا مَیں'' کی آواز لگا رہا ہوگا۔ سات دِن میں نہ پہنچا تو سمجھو پردیسی بیمار ہے یا پِھر شُرطوں نے اُسے دھر لیاہے۔ تب ایک نیا تعویذ برہن کو تھمایا جائے گا کہ اگر کبھی پردیسی وطن آن ہی پہنچے تو اُسے لسّی میں گھول کے پِلا دیا جائے، جوڑوں رہ گیا، تو پِھر کہِیں جانے جوگا ہی نہ رہے گا۔

حاجتمند حاجت روائی کے لیے ہزار جتن کرتے ہیں۔ پیسا پیسا مُشکل سے اکٹھّا کرنے والے (پیسے کی جگہ روپیہ روپیہ پڑھیے) یعنی غریب غربا ہزاروں روپے نقد مزدُوروں کی کمائی اور مانگے تانگے سے پیدا کیے گئے روکڑے سب جعلی عاملوں کے اللّوں تللّوں پر برباد کر دیتے ہیں۔ بہتر دِنوں کی آس میں جو جِس نے بتایا وُہی کرتے، آزماتے اکثر اپنے دِن پُورے کر کے قبر میں جا سوتے ہیں۔ قبر پر جلے نہ جلے، پسماندگان توہّم پرستی اور کمزور عقیدے والے مرحُوم یا مرحُومہ کے دیے سے دیا جلائے چلے جاتے ہیں۔ جو سب کا مالک، خالق، رازق، کارساز ہے اُس کی بارگاہ میں سُوالی بن کر حاضر نہیں ہوتے۔

پھٹکاریں بھیجنا، بددُعائیں دینا، پڑھ پڑھ کے پھُونکنا پھُنکارنا جیسے مُنہ زبانی حملوں کا ایک توڑ بھی ہے جو بہُت مقبُول ہے، وُہ ہے نظر اُتارنے کے لیے، بلاؤں، مُصیبتوں اور نقُصان سے امان کے لیے اکتالیس بار ماشاء اللہ کا وِرد کرنا۔ بھُول جائیں، گنتی میں خلل پڑ جائے، یقین ڈانواں ڈول ہو جائے تو پِھر کِسی بابے کی تلاش میںنکل کھڑے ہوں، کوئی شیخ مِل جائے گا، کوئی تُرک شُعبدہ باز بھی مِل سکتا ہے۔ ورنہ وُہ تو کہِیں نہیں گیا نا! وُہ جو گلی گلی کہتا پھرتا ہے، پیر سائیں آندا اے، مٹھّے چَول کھاندا اے۔

اوہام پرستی پر میونخ کی سینے یولا کی کتاب کا ضرُور مُطالَعہ کیجیے گا۔ وی لانٹ پیرش والوں نے شایع کی ہے۔ لیکسیکون دیئر اسلامیشن ویلٹ۔ شٹُٹگارٹ، 1992ع۔

مسیحی عقیدہ و ایمان کے مُطابِق ضعیفُ الاعتقادی کی تمام علامات اور اس کے آثار کو مسیحیّت سے خارج کر کے اس پر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دروازے بند کر دیے گئے ہیں اور اس کے لیے ڈھال مذہب کو بنایا گیا اور مذہب کو طاقت، ناقابلِ شِکست طاقت ہر لمحہ ہر جا موجُود زندہ مسیح مُقدّس و برتر ہستی سے عطا ہوتی ہے جِس ہستی کے ساتھ جاندار اور ہمیشہ قائم رہنے والی نسبت اور مضبُوط تعلُّق مُقدّس رُوحُ الحق کے توسّط سے خُداوند یسُّوع مسیح پاک کی محبّت کی دیدنی علامات، پاک یوخرست میں تمام مسیحیوں کو حاصل ہے مع دیگر مسیحی مذہبی رسومات و عبادات کے، خُداوند قُدُّوس کی رحمتوں اور برکتوں کے طُفیل اور ساکرامنٹس پاک۔۔۔۔۔۔ یعنی اس کی برکتوں، رحمتِ خُداوندی کے علامتی اظہار کی بدولت۔

 


Contact us

J. Prof. Dr. T. Specker,
Prof. Dr. Christian W. Troll,

Kolleg Sankt Georgen
Offenbacher Landstr. 224
D-60599 Frankfurt
Mail: fragen[ät]antwortenanmuslime.com

More about the authors?