German
English
Turkish
French
Italian
Spanish
Russian
Indonesian
Urdu
Arabic
Persian

:سُوال نمبر7

کوئی بھی ذِی ہوش شخص اِس دعوے کو کیوںکر ہضم کر پائے گا کہ خُداوند قُدُّوس گنہگاروں کے گُناہ بخشنے کی خاطر ہی تو نسلِ اِنسانی کو گُناہوں سے بچانے کے بجاے اُنھیں گُناہوں کے سمندر کے پاتال میں دھکیل دیتا ہے، حتّٰی کہ لوگ خُدا کو قتل کر دینے سے بھی نہ چُوکیں تا کہ ان کی نجات ہو۔ کیا آلِ ابراہیم علیہ السلام کی مغفرت کے لیے لازم رہا کہ وُہ بھی اپنے خُدا کو سُولی پر چڑھاتے رہیں، تبھی اُن کے گُناہوں کا کفّارہ ادا ہوپائے گا؟ پِھر طاعت و عبادت پر زور کِس لیے؟ بخشش تو ہو چُکی! تو، اللہ تعالیٰ کو اِنسانوں کے لیے احکامات صادر فرمانے میں کیا دِلچسپی؟

 

جواب:۔ احکاماتِ الٰہی اِنسانوں تک پہنچتے رہے ہیں۔ نِیّت و ارادے کی آزادی اِنسان کو کیا مِلی، اُس نے احکاماتِ خُداوندی کو آہستہ آہستہ خاطر میں لانا ہی ختم کر دیا۔ تبھی خُدائی فیصلہ سامنے آیا۔ اور محض فرموداتِ الٰہیہ کی صُورت میں ہی نہِیں بل کہ مَحَبّتِ خُداوندی نے جوش مارا اور اپنے اِکلوتے بیٹے کو قربان کرتے ہوئے لوگوں کی مکتی کا ایک جواز پیدا کر دیا۔ (مُقدّس یوحنّا.... باب3، آیت16 اور اس سے آگے)

"کیوں کہ خُدا نے دُنیا کو ایسا پیار کِیا کہ اُس نے اپنا اِکلوتا بیٹا بخش دیا تا کہ جو کوئی اس پر ایمان لائے ہلاک (مُقدّس یوحنّا....16:3)نہ ہو، بل کہ ہمیشہ کی زندگی پائے"

Contact us

J. Prof. Dr. T. Specker,
Prof. Dr. Christian W. Troll,

Kolleg Sankt Georgen
Offenbacher Landstr. 224
D-60599 Frankfurt
Mail: fragen[ät]antwortenanmuslime.com

More about the authors?