German
English
Turkish
French
Italian
Spanish
Russian
Indonesian
Urdu
Arabic
Persian

:سوال نمبر101

۔کیا حضرت عیسیٰ ؑ کی خوراک میں خنزیر بھی شامل تھا؟ اگر جواب نفی میں ہے تو حضرت عیسیٰ ؑ کے حواری جن کو ارشادِ ربّانی کی تبلیغ کے لیے نامزد کِیا گیا تھا، وہ اِس جانور کا گوشت کیوں کھاتے تھے؟

 

جواب:۔سوال نمبر 68اور اس کے جواب پر براہِ نوازش ایک نظر ڈالیے،آپ پر واضح ہو جائے گا کہ بشارت دینے اور اپنے وعظ و تبلیغ کے ذریعے اور خود اپنی زندہ مثالوں سے مقدس خُداوند یسوع مسیح نے یہودیوں کی موسوی شریعت کے حوالے سے جو غذا سے متعلقہ اُمور واجب تھے اُنھیں اپنی شریعت میں پاکیزگی اور پلیدگی کے نقطہء نظر کو سامنے رکھتے ہوئے اپنا لیا اور بعض ایسے بھی تھے جن سے کوئی غرض نہ رکھی۔ ابتدائی مسیحی برادری میں بپتسمہ یافتہ یہودی بھی تھے جو ''یہودی مسیحی'' کہلاتے تھے، اور اصطباغ دیے گئے غیر قوم کے لوگ بھی تھے جنھیں ''غیر یہودی مسیحی'' کہا جاتا تھا کہ مسیحی تو ہیں مگر نسلاً غیر یہودی (Gentiles)ہیں۔ ایک مسئلہ پیدا ہو گیا کہ آیا ضروری ہ-ے کہ غیر یہودی لوگ مسیحیت قبول کریں تو اُنھیں مختون بھی کِیا جائے۔ (اِس کا تو صاف یہ مطلب تھا کہ یہودی قانون کے تحت وابستگی بشرطے ثابت قدمی دِکھانی ہو گی، مُکمَّل طور، یعنی اس وفاداری میں غذا کے متعلق یہودی قوانینِ دِینی پر عمل اور مذہبی رسوم کے مطابق تطہیر بھی نئے مسیحیوں پر واجب ہو گی)۔ سنہ 48 عیسوی میں مقدس رسولوں کی مجلس منعقدہ یروشلم نے شروع شروع کے تمام مختلف مسیحی گروہوں کو اس اجلاس میں نمایندگی کی دعوت دی۔۔۔۔۔۔

حوالہ کے لیے دیکھیے غلاطیوں کے نام، باب دُوُم مُکمَّل اور غور فرمائیے کہ کیفا جو مقدس پطرس ہے وہ جب انطاکیہ میں آیا تو ایمان دار غیر قوم والوں کے ساتھ بیٹھ کر انجیلِ مقدس کی آزادی کے موافق ہر چیزمیں سے کھایا۔ اس گھڑی بعض بھائی جو موسیٰ کی شریعت کے بڑے غیرت مند تھے، اندر آئے۔ پطرس فی الفور میز سے اُٹھا اور الگ ہو گیا۔ برنباس بھی اوروں کے ساتھ اس کے پیچھے چلا۔ مقدس پولوس نے اس خیال سے کہ اس نمونے سے وہ یہودی موقع نہ پائیں کہ غیر قوموں کی گردن پر بھی موسیٰ کی شریعت کا بوجھ ڈالیں سب کے سامنے پطرس کو جھڑکا، کیوں کہ پطرس رسول نے اچھّا نہیں کِیا تھا کہ ان بھائیوں کی وجہ سے میز سے اُٹھ کر الگ ہو گیا تا کہ وہ ٹھوکر نہ کھائیں، اِس لیے کہ وہ گھبرانے والے بھائی تھے اور اُن کمزوروں میں سے تھے جن کے سبب پولوس رسول نے خود تیموتاؤس کا ختنہ کیا۔

غلاطیوں باب2''پولوس کی انجیل کی تصدیق'' کے ذیل میں درج ہے:

آخری چودہ برس کے بعد مَیں برنباس کے ساتھ پھر یروشلیم کو گیا اور طیطس کو بھی ساتھ لے گیا میرا جانا وحی کے مطابق ہُوا، او رجو انجیل مَیں غیر قوموں میں سناتا ہُوں اسے اُن کے سامنے بیان کِیا یعنی تنہائی میں اُن کے سامنے جو صاحبِ اعتبار سمجھے جاتے ہیں۔ ایسا نہ ہو کہ اِس وقت کی یا پیشتر کی دوڑ بے فائدہ نکلے۔

پس حال آں کہ طیطُس جو میرے ساتھ تھا، یونانی تھا، تو بھی وہ ختنہ کروانے پر مجبور نہ کِیا گیا۔

ان چوری سے گُھسے ہوئے جھُوٹے بھائیوں کے سبب سے جو چِھپ کر اِس لیے داخل ہوئے کہ اس آزادی کی گھات میں لگیں جو مسیح یسوع میں ہمیں حاصل ہے۔۔۔۔۔۔

کلامِ مقدس، عہدِ جدید، رسولوں کے اعمال، باب15۔۔۔۔۔۔1تا29آیات کے حوالے سے مستفید ہونے کی آپ سے تمنّا ہے۔

اسی باب میں ''بدعتِ یہودیت'' کے عنوان کے تحت فرمایا گیا ہے:

۔۔۔۔۔۔ اور بعض یہودیہ سے آ کر بھائیوں کو تعلیم دینے لگے کہ اگر موسیٰ کی سُنّت کے موافق تمھارا ختنہ نہ ہو تو تم نجات نہیں پا سکتے۔ پس جب پولوس او ربرنباس کی ان سے بڑی تکرار اور بحث ہوئی تو یہ ٹھہرایا گیا کہ پولوس اور برنباس اور دوسروں سے چند اشخاص اِس مسئلہ کی بابت رسولوں اور کاہنوں کے پاس یروشلیم کو جائیں۔۔۔۔۔۔

اور جب یروشلیم پہنچے تو۔۔۔۔۔۔

۔۔۔۔۔۔مگر فریسیوں کے فرقے سے بعض نے جو ایمان لائے تھے اُٹھ کر کہا کہ ان کو ختنہ کرانا اور موسیٰ کی شریعت پر چلنے کا حکم دینا ضرور ہے۔

''پہلی مجلسِ عام''میں مقدس پطرس بولا:

۔۔۔۔۔۔پس تم کیوں خُدا کو آزماتے ہو؟ کہ شاگردوں کی گردن پر ایسا جُوا رکھتے ہو جس کو نہ ہمارے باپ دادا اور نہ ہم اُٹھا سکتے تھے۔۔۔۔۔۔

اس موقع پر مقدس یعقوب نے کہا۔۔۔۔۔۔

۔۔۔۔۔۔پس میری راے یہ ہے کہ جو غیر قوموں میں سے خُدا کی طرف رجوع لاتے ہیں اُنھیں تکلیف نہ دینی چاہیے مگر لکھ کر تاکید کی جائے کہ بُتوں کے مکروہات اور حرامکاری اور گلا گھونٹے ہوئے جانوروں اور لہو سے پرہیز کریں۔۔۔۔۔۔

''مجلسِ عام کا فیصلہ''۔۔۔۔۔۔

۔۔۔۔۔۔اُن بھائیوں کو جو انطاکیہ اور سُریا اور کیلیکہ میں غیر قوموں میں سے ہیں۔ اُن کے رسولوں اور کاہن بھائیوں کی طرف سے السّلام۔

چوں کہ ہم نے سنا ہے کہ ہم میں سے بعض نے جن کو ہم نے حکم نہیں دیا تھا جا کر تمھیں اپنی باتوں سے گھبرا دیا ہے اور تمھارے دِلوں کو پریشان کِیا ہے، اس لیے ہم نے ایک دِل ہو کر انسب سمجھا کہ بعض آدمیوں کو چُنیں اور اپنے معززین برنباس اور پولوس کے ہمراہ تمھارے پاس بھیجیں۔یہ دونوں ایسے آدمی ہیں جنھوں نے اپنی جانیں ہمارے خُداوند یسوع مسیح کے نام پر نثار کر رکھی ہیں۔

پس ہم نے یہودہ اور سیلاس کو بھیجا ہے اور وہ یہ باتیں زبانی بھی بیان کریں گے۔

کیوں کہ روح القدس نے اور ہم نے مناسب جانا کہ ان ضروری باتوں کے سِوا تم پر اور بوجھ نہ ڈالیں کہ تم بُتوں کے چڑھاووں اور لہُو اور گلا گھونٹے ہوئے جانوروں اور حرامکاری سے پرہیز کرو۔ اگر تم اِن باتوں سے کنارہ کروگے تو خوب کرو گے۔ والسّلام۔۔۔۔۔۔

چناں چہ مجلس نے مُکمَّل اتفاق کِیا کہ مذہبِ مسیحی کی تبلیغ دُور و نزدیک تمام غیر یہودیوں میں جاری رکھی جائے، بھلے وہ یہودیوں کی موسوی شریعت اور ان کے قوانین کی اطاعت و پابندی نہ بھی کریں۔ تاہم جن یہودیوں کو بپتسمہ مِل چکا ہے موسوی شریعت کی پابندی کرنے پر اُنھیں کوئی قید نہیں۔ اور تسلیم کہ وہ جو رسول بھی تھے نا، بشمول مقدس پولوس، وہ بھی موسوی شریعت کے طہارت اور خُداے انسانی کے یہودی قوانین کے مقلّد تھے۔ وہ لوگ تھے تو سب کے سب یہودی ہی نا، مقدس خُداوند یسوع مسیح پر تو بعد میں ایمان لائے اور دین داری میں اعلیٰ مقامات پر پہنچے۔ مقدس پولوس اقرار کرتا ہے:

اور جو صاحبِ اختیار سمجھے جاتے تھے (وہ پہلے کیا تھے مجھے اِس سے کوئی واسطہ نہیں، خُدا آدمی کا ظاہر حال نہیں دیکھتا) جو صاحبِ اعتبار سمجھے جاتے تھے اُنھوں نے مجھے اور کچھ نہ بتایا۔

غلاطیوں۔۔۔۔۔6:2

جو قرارداد یروشلیم میں پاس ہوئی تھی ا س کی رُو سے غیر یہودیوں میں مسیحیت کے پرچار کے سلسلے میں مقدس پولوس رسول کا جو مشن تھا اس کی راہ میں نہ تو وہ قرارداد آڑے آئی نہ کوئی حکم نامہ جاری ہوا، نہ ہی کوئی نئی ہدایات سے ہی مطلع کِیا گیا۔ سٹیٹس کُو بحال رہا۔

بائبل مقدس میں ایسے ہی سُوالات کے لیے تشفّی کا سامان موجود ہے:

کیوںکہ اگر کوئی تجھے جو علم رکھتا ہے بُت خانے میں کھانا کھاتے دیکھے تو کیا اُس کمزور کا ضمیر بُتوں کے ذبیحے کھانے پر دلیر نہ ہو جائے گا؟

1۔ قرنتیوں۔۔۔۔۔۔10:8

موسیٰ کی شریعت نے کھانے میں بہت سی چیزوں کو منع کِیا تھا مگر شریعت انجیلِ مقدس سے تکمیل کو پہنچ گئی اور کوئی کھانے کی چیز حرام یا ناپاک نہ رہی۔ اس لیے بہتیرے ایمان دار یہودی سب کچھ بے شُبہ کھاتے تھے۔ مگر بعض کھانے میں موسیٰ کی شریعت مانتے رہے۔ اِس سبب سے مسیحیوں میں تکرار ہونے لگی۔ پولوس رسول اِس ارادے سے کہ انھیں آپس میں ملائے، بتاتا ہے کہ ہر شخص کھانے کی بابت اختیار رکھتا ہے اورکوئی دوسرے پر اِس بات میں عیب نہ لگائے نہ اسے حقیر جانے۔ خصوصاً وہ جو سب کچھ کھاتے ہیں دوسروں کو جو گناہ کے ڈر سے نہیں کھاتے بل کہ ٹھوکر نہ کھلائیں یعنی زبردستی یا ٹھٹھّا کرنے سے تا کہ ایسا نہ ہو کہ وہ ان چیزوں کو جنھیں حرام جانتے ہیں کھائیں یا مقدس انجیل کوبُرا کہہ کر ایمان سے پھر جائیں۔

کیوںکہ خُدا کی بادشاہی کھانے پینے پر نہیں بل کہ اس صداقت اور سلامتی اور خوش وقتی پر موقوف ہے جو روح القدس میں ہوتی ہے۔

رومیوں کے نام۔۔۔۔۔۔17:14

۔۔۔۔۔۔ مَیں جانتا اور یسوع مسیح میں یقین رکھتاہوں کہ کوئی چیز بذاتِ خود حرام نہیں لیکن جو اسے حرام سمجھتا ہے اس کے لیے حرام ہے۔

رومیوں کے نام۔۔۔۔۔۔14:14

مزید وضاحت یوں کی گئی:

اچھّا تو یہ ہے کہ تُو گوشت نہ کھائے، خُمر نہ پیے اور ایسا کام نہ کرے جس کے سبب سے تیرا بھائی ٹھوکر کھائے یا سُست ہو جائے۔ جو تیرا اعتماد ہے وہ خُدا کے حضور تیرے دِل ہی میں رہے۔ مبارک ہے وہ جو اُس بات کے سبب ہے جو وہ مناسب جانتا ہے اپنے آپ کو ملزم نہیں ٹھہراتا۔

مگر جو شُبہ کرتا ہے اگر کھائے جو مجرم ٹھہرتا ہے، اس واسطے کہ اعتماد سے نہیں کھاتا کیوںکہ جو کچھ اعتماد سے نہیں وہ گناہ ہے۔

رومیوں۔۔۔۔۔۔21:14تا23


(استدعا ہے کہ رومیوں کے نام، باب14پورے کی تلاوت کا فیض حاصل کیجیے)۔ مقدس پولوس نے کِسی خاص ہدایت یا فرمان کا حوالہ نہیں دیا۔ لگتا ہے رسولوں کے اعمال میں مجلسِ رُسُل کا جو خط ہے اس سے پولوس رسول بے خبر رہا۔۔۔۔۔۔

(حوالہ کے لیے دیکھیے: رسولوں کے اعمال۔۔۔۔۔۔23:15تا29)

جو تناقض یا تضاد سامنے آتا ہے اس کے بارے میں یہ کہا جا سکتا ہے، اس بات کا ادراک ہو جانا چاہیے کہ مقدس لوقا نے ان دو مسائل کے جوابات مختصر کر کے ''رسولوںکے اعمال'' باب 15 میں یکجا کر دیے یعنی ایک ہی جواب میں سمو دیے اِس تنازع کی پہلی جڑ جو تھی جس پر مقدس پطرس اور پولوس رسول کی طرفداری دِکھا رہے تھے، وہ یہ مسئلہ تھا کہ غیر یہودی جب مسیحیت قبول کر لیں تو کیا ان پر یہودی قانون لاگو ہونے کی پابندی لازماً قبول کرنا ہو گا؟

آخر چودہ برس کے بعد مَیں برنباس کے ساتھ پھر یروشلیم کو گیا اور طیطُس کو بھی ساتھ لے گیا۔ اور میرا جانا وحی کے مطابق ہوا اور جو انجیل مَیں غیر قوموں کو سناتا ہوں اسے ان کے سامنے بیان کِیا۔ یعنی تنہائی میں اُن کے سامنے جو صاحبِ اعتبار سمجھے جاتے ہیں۔ ایسا نہ ہو کہ اس وقت کی یا پیشتر کی دوڑ بے فائدہ نکلے۔ پس حال آں کہ طِیطُس جو میرے سامنے تھا یونانی تھا، تو بھی وہ ختنہ کرانے پر مجبور نہ کِیا گیا۔ اُن چوری سے گُھسے ہوئے جھُوٹے بھائیوں کے سبب سے جو چِھپ کر اِس لیے داخل ہوئے کہ اس آزادی کی گھات میں لگیں جو مسیح یسوع میں ہمیں حاصل ہے۔

تا کہ ہمیں غُلامی میں لائیں۔ ان کے تابع رہنا ہم نے گھڑی بھر بھی منظور نہ کِیا تا کہ انجیل کی سچّائی تمھارے درمیان قائم رہے۔

اور جو صاحبِ اعتبار سمجھے جاتے تھے (وہ پہلے کیا تھے مجھے اِس سے کچھ واسطہ نہیں۔ خُدا آدمی کا ظاہر حال نہیں دیکھتا) جو صاحبِ اعتبار سمجھے جاتے تھے اُنھوں نے مجھے اور کچھ نہ بتایا۔

لیکن خلاف اِس کے جب اُنھوں نے دیکھا کہ اہلِ قُلف کے لیے مَیں انجیل کا امانت دار ہوا جیسا کہ اہلِ ختان کے لیے پطرس تھا (کیوںکہ جس نے اہلِ ختان کی رسالت کے لیے پطرس میں اثر پیدا کِیا اُسی نے غیر قوموں کے لیے مجھ میں بھی اثر پیدا کِیا) اور جب یعقوب اور کیفا اور یوحنّا نے (جو ارکانِ کلیسیا سمجھے جاتے تھے) اُس فضل کو معلوم کِیا جو مجھ پر ہُوا تو اُنھوں نے مجھے اور برنباس کو ازرُوے شراکت داہنا ہاتھ دیا تا کہ ہم غیر قوموں کے پاس جائیں اور وہ اہلِ ختان کے پاس۔ مگر اتنا کہا کہ غریبوں کو یاد رکھو اور یہ مَیں بڑی وفاداری سے کرتا رہا۔

غلاطیوں۔۔۔۔۔۔1:2تا10

فساد کی دوسری جڑ جس سے بعد میں سامنا ہوا اور نمٹنا پڑا اور اس میں یعقوب اقدس نے فیصلہ کُن کردار ادا کِیا۔ اس کا تعلق یہودی النسل مسیحیوں اور غیر یہودی مسیحیوں سے تھا جنھیں ایک ہی بستی، ایک ہی گاؤں، ایک ہی آبادی میں رہنا تھا۔۔۔۔۔۔

مگر جب کیفا انطاکیہ میں آیا تو مَیںنے رُوبرُو اُس کا سامنا کِیا۔ اس لیے کہ وہ ملامت کے لائق تھا۔ کیوں کہ وہ پیشتر اس سے کہ کئی شخص یعقوب کی طرف سے آئے غیر قوموں کے ساتھ کھایا کرتا تھا مگر جب وہ آئے تو مختونوں سے ڈر کر پیچھے ہٹا اور الگ ہو گیا اور باقی یہودیوں نے بھی اُس کی دو رنگی کو قبول کِیا، یہاں تک کہ برنباس بھی اُن سے اس ظاہرداری میں کھینچا گیا۔ جب مَیں نے دیکھا کہ وہ انجیل کی سچّائی کے مطابق سیدھی چال نہیں چلتے تو مَیں نے سب کے سامنے کیفا سے کہا کہ جب تُو یہودی ہو کر بھی غیر قوموں کی طرح زندگی گزارتا ہے نہ کہ یہودیوں کی طرح۔ تُو غیر قوموں کو یہودیوں کے طورپر چلنے کے لیے کیوں مجبور کرتا ہے؟ ہم تو پیدایشی یہودی ہیں اور غیر قوموں میں سے گنہگار نہیں۔ مگر یہ جان کر کہ انسان شریعت کے اعمال سے نہیں بل کہ مسیح یسوع پر ایمان لانے سے صادق ٹھہرتا ہے۔ ہم بھی مسیح یسوع پر ایمان لائے تا کہ مسیح پر ایمان لانے سے صادق ٹھہریں نہ کہ شریعت کے اعمال سے۔ کیوں کہ شریعت کے اعمال سے کوئی بشر صادق نہیں ٹھہرے گا۔ کیوں کہ اگر ہم مسیح میں صادق ٹھہرنا چاہتے ہیں۔ اگر گنہگار پائے جائیں تو کیا مسیح گناہ کا خادم ہے؟ ہرگز نہیں۔ کیوں کہ جو کچھ مَیں نے ڈھا دیا اگر اُسے پھر بناؤں تو اپنے آپ کو خطاکار ٹھہراتا ہوں۔ اس واسطے کہ مَیں شریعت سے شریعت کی نسبت مر گیا تا کہ مَیں خُدا کی نسبت زندہ ہو جاؤں۔ مَیں مسیح کے ساتھ مصلوب ہُوا ہُوں اور اب مَیں زندہ نہ رہا بل کہ مسیح مجھ سے میں زندہ ہے۔ اور مَیں جو جسم میں زندگی گزارتا ہُوں خُدا کے بیٹے پر ایمان لانے سے زندہ ہوں جس نے مجھے پیار کِیا اور اپنے آپ کو میرے حوالے کر دیا۔

مَیں خُدا کے فضل کو بے کار نہیں کرتا۔ کیوں کہ صداقت اگر شریعت سے ملتی تو مسیح کا مرنا عبث تھا۔

غلاطیوں۔۔۔۔۔۔11:2تا 21

اگر دیکھا جائے تو ایک اندازے سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ یہودیوں نے طہارت کی مذہبی رسوم کو درپیش خطرات اور خود اپنے خوف و بِیم اس وقت ایک ایک طرف رکھ دیے ہوں گے تا کہ غیر یہودی مسیحیوں سے معاملات طے کرنے کے رنگ میں بھنگ نہ پڑے اور کوئی برا اثر سب کو مسیح پاک میں یک تن ہونے کی شراکت پر نہ پڑے۔ بہت سے یہودی النسل مسیحیوں کو بہ ہر حال یہ خاصا مشکل لگا ہوگا کہ اپنی مزاحمت کے جذبہ اور ممانعت کرنے کی اُچکل کو وہ دبائے رکھیں۔

۔۔۔۔۔۔مگر لکھ کر تاکید کی جائے کہ بُتوں کے مکروہات اور حرامکاری اور گلا گھونٹے ہوئے جانوروں اور لہو سے پرہیز کریں۔

رسولوں کے اعمال۔۔۔۔۔۔:20:15

اور یہ ویسے بھی مناسبِ حال بات تھی کیوںکہ غیر یہودی مسیحیان نے بھی تو اپنے یہودی المذہب مسیحیوں کی بعض رسوم کا احترام کرنے کا تقاضا پورا کرنا تھا کیوں کہ وہ سب ایک دوسرے کے اب مذہبی رفیق تھے۔اِس میں کیا شک کہ اُسے بنیادی اصول کی حیثیت حاصل تھی جو مجلس کے خط میں بھی تحریر کی اساس بنائی گئی تھی: حوالہ کے لیے پھر دیکھیے رسولوں کے اعمال۔۔۔۔۔۔ باب 23:15تا29ویں آیات

مقدس لوقا کی آرزو تھی جس کا اس نے رسولوں کے اعمال میں پوری شدت سے اظہار کِیا، ان دونوں اصولوں کو اربابِ اختیار کی صوابدید حاصل تھی اور یروشلم میں شروع شروع کی مسیحی آبادی کو بھی ان پر کوئی اعتراض نہ تھا۔ یہی سبب تھا کہ ا س نے ان فیصلوں کو باب15میں یکجا کر کے رسولوں کے اعمال کا حصہ بنا دیا۔

Contact us

J. Prof. Dr. T. Specker,
Prof. Dr. Christian W. Troll,

Kolleg Sankt Georgen
Offenbacher Landstr. 224
D-60599 Frankfurt
Mail: fragen[ät]antwortenanmuslime.com

More about the authors?