German
English
Turkish
French
Italian
Spanish
Russian
Indonesian
Urdu
Arabic
Persian

:سُوال نمبر68

اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو سؤر کا گوشت کھانے سے منع فرمایا، اس مشیّتِ ایزدی میں بھلا کیا مصلحت تھی؟ سؤر کے جرثوموں سے پھیل سکنے والی مُہلک بیماری سبب تھا یا مزید کُچھ اور وُجُوہ بھی تھیں؟۔۔۔۔۔۔لیکن حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے تو لحمِ خنزیر کو مسیحیوں پر حلال قرار دیا، کیا اِس لیے تو نہیں کہ اُن کے زمانے میں عُمُومی حفظانِ صِحّت کی صُورتِ حالات گُذرے وقتوں سے بہُت بہتر تھی شاید؟ یا پِھر ہم یہ بھی تو کہہ سکتے ہیں کہ اِس جانور سے پیٹ کا دوزخ بھرنا اتنا ہی معیُوب کبھی نہیں سمجھا گیا تھا کہ حرام ہی قرار دے دیا جاتا، بس اس سے کراہت یہُودیوں کے اپنے مزاج، اُن کی اپنی طبع کی وَجہ سے تھی۔ من حیث القوم اپنے اور دُوسروں کے درمیان حد لگانے کے لیے تو وُہ ایسا کر سکتے ہیں کہ سؤر نہ پکڑو، نہ پکاؤ نہ کھاؤ۔ اچھّا، تو کیا مسلمانوں کے پیغمبر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے دورِ نبوّت میں اِس جانور کا گوشت تناول کرنا صِحّت کے لیے بہُت ہی خطرناک تھا؟ شاید ہو، وہ صحرا میں رہتے تھے۔ اب اس پسماندہ صحرائی علاقہ میں بھلا ایسا انتظام کیوں کر مُمکن ہو سکتا تھا کہ ترخینا کا مرض جو آنتوں اور پٹھّوں کے ریشوں کو سؤر کا گوشت کھانے سے لگ سکتا ہے، اس کا لیبارٹری ٹیسٹ کروایا جا سکتا۔ ہو سکتا ہے اِسی لیے منع فرما دیا گیا ہو، کیا خیال ہے جناب! بعض لوگوں کے نزدِیک اِن باہرلوں کی کوئی قدر و قیمت ہے ہی نہیں، یہی وَجہ ہو سکتی ہے بھلا کہ ایسے لوگوں نے لحمِ خنزیر اپنے آپ سے ہی اپنے اُوپر حرام کر لیا ہو؟ ہے کُچھ وزن اِس بات میں؟ سائینسی سُوچ بچار،ریسرچ، اِس بارے میں کیا کہتی ہے؟


جواب:۔ توریت پاک کی اسفارِ خمسہ میں سے تیسری کتاب ہے مُقدّس احبار۔ اس سے ایک حوالہ کُچھ یُوں ہے:

''اور خنزیر کہ اُس کے کُھر چِرے ہُوئے تو ہیں، مگر وہ جُگالی نہیں کرتا۔ سو وُہ تمھارے لیے ناپاک ہے''۔ 

(احبار۔۔۔۔۔۔11واں باب:7ویں آیت)

اور اِسی طرح تثنیہ شرع میں ہے جو پانچویں کتاب ہے:

'' اور خنزیرکیوں کہ اِس کے کُھر تو چِرے ہُوئے ہیں مگر وہ ُجگالی نہیں کرتا۔ یہ تیرے لیے ناپاک ہے۔ تو اِس کا گوشت نہ کھا ،اور نہ ہی اس کی لاش چھُونا''۔ 

(تثنیہ شرع۔۔۔۔۔۔14:8) 

اِن آیاتِ مُبارکہ میں واضح طو رپر کہہ دیا گیا ہے کہ خنزیر ناپاک ہے، اِس لیے اس کا کھانا روک دیا گیا یہاں تک کہ مرے ہُوئے کو بھی نہ چھُوا جائے۔ البتّہ پُرانے عہد نامہ میں اِس امتناع کی کوئی خاص وَجہ نہیں بتائی گئی۔ اِس لیے یہ جائز ہی ہو گا اگر ہم اِس کے محرّکات و مقاصد پر ایک نگاہ ڈال لیں:

٭مذہبی:

یہ جانور غیر یہُودی نسلوں کی رہتل کا حصّہ ہے۔

٭اخلاقی:

اس کے جنسی معاملات اور عادات

٭ثقافتی اقدار سے نتھّی علم البشریات

حیوانات کے جنس اور انواع میں تقسیم کرنے کے اُصُول میں نامناسبت اور باقاعدگی۔ یعنی خنزیروں کے بارے میں ان کی حیواناتی نوع اور جنس کے تعیُّن میں درپیش مشکلات۔

٭میڈیکل

۔۔۔۔۔۔خنزیروں سے لگنے والے ترخینا جیسے مُوذی مرض سے بچاو کی تدابیر

اور

٭ماحولیاتی:

انسان کی خوراک کے لیے اُگائی جانے والی فصلیں خنزیروں کا من بھاتا کھاجا ہیں۔

اہلِ یہُود کو ادراک ہے کہ سؤر کے گوشت سے اجتناب اُن کو علیحدہ ایک پہچان دیتا رہا ہے۔ کلامِ مُقدّس، عہدِ عتیق، 2مکابِیّین کے باب 6کی آیات18سے 31کے علاوہ بعض دُوسری آیات میں بھی آیا ہے:

''الی عازار نام، اوّل درجہ کے فقیہوں میں سے نجیب شکل کے ایک عُمر رسیدہ شخص پر زبردستی کی گئی کہ خنزیر کا گوشت کھانے کے لیے اپنا مُنہ کھولے۔ لیکن وہ جلیل وفات کو ذلیل حیا ت پر ترجیح دے کر خُوشی سے ضربِ شلاق کی جگہ کو چل دیا۔ اور لُقمہ اپنے مُنہ سے پھینک دیا جیسا اس شخص کے لائق ہے جو دلیری کر کے اُس چیز سے باز رہے جس کا زِندگی کی خواہش کے باوُجُود چکھنا ناجائز ہے۔ تب اُنھوں نے جو ناجائز تناولِ ذبیحہ پر مامُور تھے۔ اُسے ایک طرف لے جاکر (کیوں کہ اُس شخص کو مُدّت سے جانتے تھے) ترغیب دی کہ ایسا گوشت منگوایا جائے جس کا کھانا اُس کے لیے جائز ہے اور جسے اُس نے خُود تیّار کِیا ہو لیکن بظاہر یہی معلُوم ہو کہ وُہ ذبیحہ کا وُہی گوشت کھا رہا ہے جس کا بادشاہ نے حُکم دِیا ہُوا ہے۔ تا کہ ایسا کر کے موت سے بچ جائے اور مُدّت کی رفاقت کے باعث اُس سے نیکی کی جائے۔ پر اُس نے وہ لائق فیصلہ کِیا جو اُس کی عُمر اور اُس کی کُہن سالی کی عِزّت اور اُس کے سُفید بالوں کی بزُرگی اور لڑکپن ہی سے اُس کی نیک خصلت کے مناسب بل کہ خُصُوصاً خُدا کی دی ہُوئی مُقدّس شریعت کے موافق تھا۔ مگر اُس نے جواب دیا کہ ''مجھے بِلا توقّف موت کی طرف لے جاؤ، کیوں کہ ریاکاری ہماری عُمر کے شایاں نہیں۔ ورنہ نوجوانوں میں سے بہتیرے گُمان کریں گے کہ الی عازار نوّے سال کا ہوتے ہُوئے اجنبی مذہب میں چلا گیا۔ اور وُہ میری مکّاری اور تتمہء حیات کی اُمِّید کے سبب سے گُمراہ ہوجائیں گے اور مَیں اپنی کُہن سالی پر ملامت اور فضیحت لاؤں گا۔اور اگرچہ مَیں اس وقت آدمیوں کے انتقام سے بچ جاؤں گا لیکن مَیں قادرِ مُطلق کے ہاتھ سے نہ زِندگی میں اور نہ موت کے بعد بھاگ سکوں گا۔ اِس لیے مَیں بہادُری کر کے اب زِندگی سے رِحلت کرتا ہُوں اور مَیں اپنے آپ کو عُمر رسیدگی کے لائق ظاہر کروں گا، اور نوجوانوں کے لیے نیک نمُونہ چھوڑوں گا کہ جلیل و مُقدّس شرائع کی راہ میں دلیری اور ثابت قدمی کے ساتھ نیک موت کِس طرح قُبُول کر نی چاہیے۔

اور یہ کہہ کر وہ بِلا توقّف ضربِ شلاق کی جگہ چلا گیا۔ تب وہ جو پہلے اُس پر نرمی کرتے تھے سختی کی طرف بدل گئے اور اُنھوں نے اُسے لے جا کر کوڑے مارے کیوں کہ وُہ اس کی تقریر کے سبب گُمان کرتے تھے کہ وُہ دیوانہ ہو گیا ہے۔ اور جس وقت وہ مار پِیٹ سے موت کے قریب ہو گیا تھا، تو وُہ کراہتے ہُوئے کہنے لگا کہ خُداوند قُدُّوس اپنیحکمت سے جانتا ہے کہ اگرچہ مَیں موت سے چھُوٹ سکتا ہُوں تو بھی مَیں اپنے بدن میں دردناک مار پِیٹ کا عذاب سہتا ہُوں لیکن مَیں اُسی کے خوف کے سبب سے اسے اپنی رُوح میں خُوشی سے برداشت کرتا ہُوں۔

اسی طرح۔۔۔۔۔۔ (وُہ ) شخص بھی جاں بحق ہو گیا اور اپنی موت سے نہ فقط نوجوانوں کے لیے بل کہ قوم کی اکثریت کے لیے فضیلت کا عُمدہ نمُونہ اور نیکی کی یادگار چھوڑ گیا''۔ 

2۔ مکّابیّین۔۔۔۔۔۔6:18تا31 

غیر یہُودی اس کی توضیح میں کہتے ہیں کہ چھوڑیں جی، یہ یہُودی لوگ ساری باتیں اپنے اور ہمارے درمیان حدِّ فاصل قائم رکھنے کے لیے کرتے ہیں، تا کہ فرق رہے۔ اپنے آپ کو، اپنی قوم کو، خُدا کا بہترین انتخابِ اُمّت گردانتے ہیں نا۔

قرآنِ پاک میں بھی سؤر کے گوشت کو حرام قرار دیا گیا ہے۔ لہٰذا اس کا کھانا منع ہے:

''تم پر مُردہ اور (بہا ہُوا) خُون اور سؤر کا گوشت اور ہر وُہ چیز جس پر اللہ کے سِوا دُوسروں کا نام پُکارا گیا ہو حرام ہے۔ پِھر جو مجبور ہو جائے اور وُہ حد سے بڑھنے والا اور زیادتی کرنے والا نہ ہو، اُس پر ان کے کھانے میں کوئی گُناہ نہیں، اللہ تعالیٰ بخشش کرنے والا مہربان ہے''۔

 (القرآن۔۔۔۔۔۔2:173) 

خُدا کی حلال کردہ چیزیں ہی پاک اور طیّب ہیں۔ حرام کردہ اشیا پاک نہیں، چاہے وُہ نفس کو کتنی ہی مرغُوب ہوں۔

بائبل مُقدّس، نیا عہد نامہ کی رُو سے یہُودیوں کے اِس تنفّر میں مسیحی ہمیشہ حصّہ دار رہے ہیں اور آج بھی کراہت ان میں موجُودہے۔ مُقدّس رسولوں کے مسلک، عقیدہ کے حساب سے مُلاحظہ ہو ''رسولوں کے اعمال'' باب15: آیات23تا 29۔

''اور اُن کے ہاتھ یہ لکھ بھیجا کہ۔۔۔۔۔۔ 

ان بھائیوں کو جو انطاکیہ اور سُریا اور کیلیکیہ میں غیر قوموں میں سے ہیں۔ ان کے رسولوں اور کاہن بھائیوں کی طرف سے اسلام۔ چوں کہ ہم نے سُنا ہے کہ ہم میں سے بعض نے جن کو ہم نے حُکم نہیں دیا تھا جا کر تمھیں اپنی باتوں سے گھبرا دیا ہے اور تمھارے دِلوں کو پریشان کِیا ہے۔ اِس لیے ہم نے ایک دِل ہو کر اَنسب سمجھا کہ بعض آدمیوں کو چُنیں اور اپنے معزّزین بر نباس اور پولُوس کے ہمراہ تمھارے پاس بھیجیں۔ یہ دونوں ایسے آدمی ہیں جنھوں نے اپنی جانیں ہمارے خُداوند یسُّوع مسیح کے نام پر نثار کر رکّھی ہیں۔ پس ہم نے یہُودہ اور سیلاس کو بھیجا ہے اور وُہ یہ باتیں زُبانی بھی بیان کریں گے۔

کیوں کہ رُوحُ القُدُس نے اور ہم نے مناسب جانا کہ ان ضرُوری باتوں کے سِوا تم پر اور بوجھ نہ ڈالیں کہ تم بُتّوں کے چڑھاووں اور لہُواور گلا گھونٹے ہُوئے جانوروں اور حرام کاری سے پرہیز کرو۔ اگر تم اِن باتوں سے کنارہ کرو گے تو خوب کرو گے۔

والسّلام''۔

(اعمال۔۔۔۔۔۔15:23تا29) 

یہ موسوی شریعت کا اُصُول تھا۔ اگرچہ موسوی شریعت خُداوند پاک یسُّوع مسیح کی موت پر منسُوخ ہو گئی مگر کلیسیا کے شُرُوع میں یہ حُکم کُچھ مُدّت تک قائم رکھنا ضرُوری تھا کہ وُہ لوگ جو بُت پرستوں اور یہُودیوں میں سے ایمان لاتے تھے باہم مِلے رہیں کیوں کہ وُہ مسیحی جو یہُودیوں میں سے تھے لہُو اور گلا گھونٹے ہُوئے جانوروں کا کھانا نہایت مکروہ جانتے تھے۔

درج بالا آیات میں ممانعت نظر انداز ہے۔ معزز شاگرد برنباس کے مکتوب میں اسے تمثیلی انداز عطا کر دیا گیا۔ مادر کلیسیا میں ہوتے ہوتے بالآخِر ایک روز اسے مترُوک ہی قرار دے دیا گیا۔ عبادت میں استعمال ہونے والے بائبل مُقدّس سے منتخب کردہ اقتباسات کا متن جن میں مُقدّس خُداوند یسُّوع مسیح نے پاکی پلیدی پر بالصّراحت اپنے فرمان سے نوازا ہے اور خوراک کی پاکیزگی اور ناپاکی کے بارے میں واضح ہدایات عطا فرمائی ہیں: آنکھوں کی تراوت کے لیے مُلاحظہ فرمائیے۔۔۔۔۔۔ 

''۔۔۔۔۔۔ اور پِھر ہُجُوم کو پاس بُلا کر ان سے کہا کہ تم سب میری سُنو! اور سمجھو! کوئی چیز باہر سے آدمی میں داخل ہو کر اسے ناپاک نہیں کر سکتی۔ مگر جو چیزیں آدمی میں سے نِکلتی ہیں وُہی اُسے ناپاک کرتی ہیں۔ جس کے سُننے کے کان ہوں وُہ سُن لے۔

اور جب وُہ ہُجُوم کے پاس سے گھر میں گیا تو اُس کے شاگردوں نے اُس سے اس تمثیل کی بابت پُوچھا۔ اور اُس نے اُن سے کہا، کیا تم بھی ایسے بے سمجھ ہو؟ کیا تم نہیں سمجھتے کہ کوئی چیز جو باہر سے آدمی کے اندر جاتی ہے اُسے ناپاک نہیں کر سکتی۔ اِس لیے کہ وُہ اُس کے دِل میں نہیں بل کہ پیٹ میں جاتی ہے اور جاے ضرُور میں نِکل جاتی ہے۔ (یُوں سب کھانے کی چیزیں پاک ٹھہرا کر) اُس نے پِھر کہا، جو کُچھ انسان میں سے نِکلتا ہے وُہی انسان کو ناپاک کرتا ہے، کیوں کہ اندر سے یعنی ا نسان کے دِل سے بُرے ارادے نِکلتے ہیں یعنی حرام کاریاں، چوریاں، خُون ریزیاں، زِنا کاریاں، لالچ، بدیاں، مکر، شہوت پرستی، بد نظری، کُفر گوئی، نخوت، حماقت، یہ سب اندرُونی بُرائیاں نِکل کر انسان کو ناپاک کرتی ہیں''۔ 

مُقدّس مرقس۔۔۔۔۔۔7:14تا23 

تشفّی کے لیے مزید تلاوت کیجیے:

''۔۔۔۔۔۔تب اُس نے ہُجُوم کو اپنے پاس بُلا کر اُن سے کہا کہ سُنو اور سمجھو۔ جو چیز مُنہ میں جاتی ہے وُہ انسان کو ناپاک نہیں کرتی بل کہ جو مُنہ سے نِکلتی ہے، وُہی انسان کو ناپاک کرتی ہے۔

تب شاگردوں نے پاس آ کر اُس سے کہا، کیا تُو جانتا ہے کہ فریسیوں نے یہ بات سُن کر ٹھوکر کھائی؟ پر اُس نے جواب میں کہا، جو پودا میرے آسمانی باپ نے نہیں لگایا وہ جڑ سے اُکھاڑا جائے گا۔ اُنھیں جانے دو۔ وُہ اندھے اندھوں کے رہنما ہیں، اور اگر اندھا اندھے کی رہنمائی کرے تو دونوں گڑھے میں گریں گے۔ پِھر پطرس نے مخاطب ہو کر کہا، کہ یہ تمثیل ہمیں سمجھا دے۔ تو اُس نے کہا کہ کیا تم بھی اب تک بے سمجھ ہو؟ کیا تم نہیں سمجھتے؟ کہ جو کُچھ مُنہ میں جاتا ہے وُہ پیٹ میں پڑتا اور جاے ضرُور میں پھینکا جاتا ہے لیکن جو باتیں مُنہ سے نِکلتی ہیں وُہ دِل سے نِکلتی ہیں اور وُہی انسان کو ناپاک کرتی ہیں۔ کیوں کہ بُرے ارادے مُنہ سے نِکلتے ہیں یعنی خُون ریزیاں، زنا کاریاں، حرام کاریاں، چوریاں، جھُوٹی گواہیاں، کُفر گوئیاں۔ یہی باتیں ہیں جو انسان کو ناپاک کرتی ہیں مگر بغیر ہاتھ دھوئے کھانا انسان کوناپاک نہیں کرتا''۔

مُقدّس متی۔۔۔۔۔۔15:10تا20۔

Contact us

J. Prof. Dr. T. Specker,
Prof. Dr. Christian W. Troll,

Kolleg Sankt Georgen
Offenbacher Landstr. 224
D-60599 Frankfurt
Mail: fragen[ät]antwortenanmuslime.com

More about the authors?