:سوال نمبر137
۔اگر حضرت عیسیٰ علیہ اسلام کو آپ اتناہی قادرِ قدیر مانتے ہیں اور کہ وہ محیر العقول معجزوں کے بھی مالک ہیں او رانسانوں سے اُن کی محبت کے بارے میں بھی حد و شمار سے بالا ہونے کا آپ عقیدہ رکھتے ہیں تو بتا سکتے ہیں کہ اُنھوں نے تمام لوگوں کو بچا لینے، دنیا و آخرت میں ان سب کی نجات پا لینے کا اپنی قدرت سے کوئی کرشمہ کیوں نہ دِکھا دیا، انسانیت سو طرح کے دُکھ، رنج اور عذابوں سے بچ جاتی؟ میرا سوال آپ سمجھ گئے ہیں نا؟
جواب:۔جی، مگر جس طرح سوال پیش کِیا گیا ہے وہ اس بات کا غماز ہے کہ سوال کنندہ نے جم کے کبھی غور نہیں کِیا کہ خُدا خالق و مالک نے انسان کو خلق کِیا اور تمام مخلوق پر اُسے یوں فوق کِیا کہ اُسے اپنی مرضی و منشا کے مطابق چلنے، زیست کرنے یعنی ارادے کی آزادی سے متصف کر دیا ہے۔ یہ بے اندازہ امتیاز، بے پایاں اعزاز، بے شمار فضیلت انسان کو دوسری مخلوقات سے برتر کر دینے کی ربی عطا ہے۔ اپنی مرضی کی آپ مالک مخلوق ہی ہےجو ربِ کائنات کی محبت کی قدر پال سکتی ہے، اس کا احسان مانتے ہوئے اس کی نعمتِ عظمیٰ پر اس کی شکرگزار ہو سکتی ہے۔ یہ تو خُدا تعالیٰ کے لیے بہت ہی سہل کام ہوتا کہ اپنی قدرت و شانِ خُداوندی کے ساتھ راضی و تابع بہ رضاے خُداوندی، روبوٹ قسم کی مخلوق منشاے شہود پر لے آتا، نہیں، اس نے ایسا نہیں کِیا۔ اس حضرتِ انسان کو اس نے اپنی حکمت و قدرت سے ایک شاہکار تخلیق کے طور پر نیست سے ہست میں لاتے ہوئے اپنا ہی عکس اسے دان کر دیا۔ اس پر کوئی مجبوری نہ رکھی کہ وہ محبت کا جواب محبت سے ہی دے۔ محبت کا اختیار حقیقتاً پوری آزادی کے ساتھ انسان کے ہی بس میں کر دیا۔ اچھے بُرے کی تمیز بھی اسے بخش دی۔ اب اس اشرف المخلوقات پر منحصر ہے کہ ''دِل کو دِل سے راہ ہوتی ہے'' پر عمل کرے یا اس کے برعکس۔ یہ البتہ ضرور ہے کہ نیکی کا بدلہ نیکی اور احسان کا بدلہ احسان کے علاوہ اور کچھ نہیں۔
نوعِ انسانی کے ساتھ الٰہی تاریخ کی کہانی کا کلائمکس یعنی نقطہ ء عروج یہ ہے کہ اس نے اپنے کمالِ مشیت سے انسان کو آزادیِ قوتِ ارادی سے سرفراز کرتے ہوئے رد و قبول اس کی مرضی پر چھوڑ دیا۔ کنواری مقدسہ مریم، مادرِ خُداوند یسوع المسیح ، پہلی خاتونِ اقدس ہے جو روح القدس کی قدرت سے خُداوند یسوع پاک کی حکمتِ اکسیر سے فیضیاب ہوئی اور اُس نے مقدس اعلیٰ و ارفع خُدا باپ کی محبت کا جواب انتہائی گہری اور لازوال محبت سے دے کر آغازِ تخلیقِ بشر سے ہی خُدا شان والے نے جو انسان پر کرم فرمائی کی، اسے اپنے احسانات سے نوازا، اس پر مُکمَّل تسلیم و رضا کا ثبوت دیتے ہوئے غیر مشروط مہرِ خُداوندی کا اقرار کر لیا۔ اس عفیفہ کی معصوم سی ''ہاں'' ثمر تھی، مقدس بیٹے کی عقیدت و اطاعت کا، تابع فرمانی کا اور صلیب پر بے چون و چرا مصلوب ہوجانے کا۔
یہ رُتبہء بلند ملا جس کو مل گیا
ہر مدعی کے واسطے دار و رسن کہاں