German
English
Turkish
French
Italian
Spanish
Russian
Indonesian
Urdu
Arabic
Persian

:سُوال نمبر74

شراب اور مخمُوریاں و بدمستیاں گُناہ ہی ہیں نا؟ اگر واقعی پاپ ہیں تو مسیحیّت کو کیا ہوگیا کہ اس کی عبادت میںبدمستی و بے خُودی طاری کرنے والی چیز (مَے) کا استعمال مُبارک سمجھا جاتا ہے اور تنہا یہ ہے کہ مے اور وُہ بھی خُدا کے نام پر پلائی یا چکھائی جاتی ہے، حد ہی ہو گئی صاحب!

 

جواب:۔ مَے کو بائبل مقدّس میں بڑا درجہ حاصل ہے۔ کوئی اندازہ لگا سکتا ہے کہ ایک زمانے سے اور ذوق شوق سے انگُور کی بیلوں کی کاشت ہو رہی تھی، اور اب بھی جاری ہے۔ ہم آپ کو بتائیں، کلامِ مقدّس کی روایات کے مُطابِق نُوح نبی باباے نَوعالَمِ اِنسانیّت نے انگُوروں کا پُورا باغ ہی اُگا دیا تھا۔

''۔۔۔۔۔۔ اور نُوح کھیتی کرنے لگا۔ اور اُس نے انگُور کا باغ لگایا اور اُس کی مَے پی کر نشے میں آیا اور اپنے ڈیرے کے اندر برہنہ ہو گیا''۔

تکوین۔۔۔۔۔۔20:9ویں آیت

مَے کی تحریم و تحسین کی گئی:

''۔۔۔۔۔۔ اور تاک (انگُور) نے اُن سے کہا: کیا مَیں اپنی مے کو جِس سے خُدا اور اِنسان خُوش ہوتے ہیں، چھوڑ دُوں اور جا کر درختوں پر حُکمرانی کروں؟''۔

قُضّات۔۔۔۔۔۔13:9۔

''۔۔۔۔۔۔اور مَے جو انسان کے دِل کو خُوش کرتی ہے اور تیل جِس سے وُہ اپنے چہرے کو چمکائے اور روٹی جو انسان کے دِل کو تقویت بخشتی ہے''۔

مزمُور103(104) ۔۔۔۔۔۔15

بائبل مُقدّس میں مَے سے ''شوق فرمانے'' کے سِلسِلہ میں حد سے بڑھنے کی حُرمت آئی ہے۔ اعتدال کا کہا گیا ہے:

''افسوس اُن پر جو صبح کو اُٹھ کر نشے کی تلاش کرتے ہیں اور رات کو دیر تک جاگتے ہیں جب تک مَے اُن کو بھڑکا نہ دے''۔

اشعیا۔۔۔۔۔۔11:5اور اس سے آگے بھی۔

''۔۔۔۔۔۔ جو بہُت عُمدہ مَے پیتے ہو اور بہترین عطر اپنے بدن پر مَلتے ہو لیکن یُوسُف کی شکستہ حالی سے غمگین نہیں ہوتے''۔

عامُوس۔۔۔۔۔۔6:6۔

''مَے طعنہ زن ہے اور نشہ غوغائی، جو اِن سے مست ہوتا ہے، وُہ دانشمند نہیں''۔

امثال۔۔۔۔۔۔1:20۔

''مَے کی طرف مت دیکھ جب وُہ سُرخ ہو اور جب پیالے میں اُس کا رنگ چمکتا ہو وُہ مزے کے ساتھ گلے سے نیچے اُترتی ہے''۔

امثال۔۔۔۔۔۔31:23(اور اس سے آگے بھی)

رومن کیتھولک بائبل پاک میں شامل کتاب ''یشوع بِن سیراخ'' میں ہے کہ !۔۔۔۔۔۔

''مَے اور عورت عقلمندوں کو گُمراہ کر دیتی ہیں اور جو فاحشہ عورتوں سے مِلتا ہے وُہ زیادہ بے شرم ہے''۔

یشوع بِن سیراخ۔۔۔۔۔۔2:19

''اور مَے سے متوالے نہ ہو کیوں کہ یہ بد چلنی کا باعث ہے بل کہ رُوح سے معمُور ہوتے جاؤ''۔

افسیوں۔۔۔۔۔۔18:5۔

''مَے نوش نہیں۔ مار پیٹ کرنے والا نہیں۔بل کہ حلیم ہو۔ تکراری نہیں۔ زر دوست نہیں۔ اپنے گھر کا بخُوبی مُنتظم اور کمال سنجیدگی کے ساتھ اپنی اولاد کا مؤدّب (کیوں کہ اگر کوئی اپنے گھر کا انتظام کرنا نہ جانے تو وُہ خُدا کی کلیسیا کی کیا خبرگیری کرے گا)۔

نَو مرید نہیں۔ ایسا نہ ہو کہ تکبُّر کے شیطان کی سی سزا میں پڑے۔ اور چاہیے کہ وُہ باہر والوں کے نزدِیک بھی نیک نام ہو تا کہ ایسا نہ ہو کہ وُہ ملامت اُٹھائے اور شیطان کے پھندے میں پھنسے۔

اسی طرح شمامسہ کو بھی پاکیزہ رُو ہونا چاہیے نہ کہ دوزبانہ، زیادہ مے نوش یا ناروا نفع کا لالچی''۔

1۔ تیمو تاؤُس۔۔۔۔۔۔3:3تا 8۔

''۔۔۔۔۔۔ کیوں کہ بدپرہیزی، بُری خواہشوں، مَے خوری، ناچ رنگ، نشہ بازی اور مکرُوہ بُت پرستی میں چلنے سے جتنی عُمر غیر قوموں کی مرضی کے مُطابِق کام کرنے میں گُذری وُہی بس ہے''۔

1۔پطرس۔۔۔۔۔۔3:4۔

اکلیسیا ستِکُس یعنی کلیسیا کی خاص کتاب یشوع بن سیراخ میں لِکھّا ہے:

''مَے کے سامنے بہادُر نہ بن کیوں کہ مَے نے بہتیروں کو ہلاک کِیا ہے۔ بھٹّی سخت لوہے کو آزماتی ہے اور مَے طعنہ زنوں کے دِلوں کو آزماتی ہے۔ مَے انسان کے لیے آبِ حیات کے برابر ہے اگر اعتدال سے پی جائے۔

جس کے لیے مَے نہیں، اُس کی کیا زندگی ہے؟

[کون سی چیز زندگی کو نیست کرتی ہے؟۔۔۔۔۔۔ موت]

ابتدا سے مَے خُوشی کے لیے پیدا کی گئی نہ کہ نشے کے لیے۔ مَے دِل کی فرحت اور جان کا سُرُور ہے بشرطے کہ وقت پر اعتدال سے پی جائے۔

[پرہیز سے پِینا جان اور جِسم دونوں کے لیے صِحّت ہے]

مَے کے پینے میں زیادتی کرنا جھگڑا اور لڑائی ہے۔

[مَے کے پینے میں زیادتی کرنا رُوح کی تلخی ہے]

نشہ جاہل کے غُصّہ کو اُس کے پچھاڑنے کے لیے بر انگیختہ کرتا ہے۔ وُہ اُس کی قُوّت کو کم کرتا ہے اور زخموں کو زیادہ کرتا ہے۔

مَے کی مجلس میں ہمساےے کو مت جِھڑک، اور اُس کی خُوشی میں اُس کی تحقیر نہ کر۔ ملامت کا کلام اُس کے ساتھ مت بول اور دُوسروں کے سامنے اُس کے ساتھ نہ جھگڑ''۔

یشوع سیراخ۔۔۔۔۔۔30:31تا 42

اِس سُوال کے پسِ پردہ کیا منطق کام کررہی ہے ، سب کو پتا ہے۔ اِس ذیل میں تو یہی بنتا ہے کہ بطور مداوا اِس بڑھتے ناسُور پر نشتر آزمایا جائے۔ مگر طبیب بھی بندہ بشر ہی ہوتا ہے، چرکا ذرا سا بھی اِدھر اُدھر پڑ گیا تو درد بڑھ بھی سکتا ہے۔ علاج گویا دُکھ، تکلیف، نُقصان کی طرف چل پڑے گا۔ ایسے زخم تو وقت بھی نہیں بھر سکتا۔ چُناں چہ ایسے سُوالات کے جوابات کے ضمن میں احتیاطاً یہی مناسب ہوتا ہے کہ اخلاقاً اور مُروّتاً کوئی زیادتی کی جائے، نہ کوئی زیادتی ہونے دی جائے۔ مفاہمت والی حُدُود سے تجاوز نہ کِیا جائے۔ یہی مسیحی اخلاقیات سِکھاتی ہیں۔

علی العُمُوم تو یہی کہا جا سکتا ہے۔ الکوحل، منشیات، ایسے دُوسرے مواد کے استعمال کے لیے میڈیکل سائینس کی اپنی اخلاقیات ہیں جِن کے تحت یہ پرکھ قائم کی جاتی ہے کہ آیا نشے کو دو آتشہ کرنے کے لیے مجرّب دواؤں کے لیے ڈاکٹر کے نُسخے چالاکی سے بعض ادویہ ایسی استعمال کی گئی ہیں، ایسی عِلّتوں سے صَرفِ نظر کر کے مریض پر اعتماد کرتے ہُوئے ڈاکٹرز نے کِسی بیماری کے علاج میں وُہ چیزیں، وُہ مواد استعمال کروائے۔ ایسی چیزیں نشے کو بھڑکانے میں مُجرمانہ طور استعمال کی جاتی ہیں، مگر طِب میں ان مدہوش کرنے والی یا رکھنے والی اشیا کی مقدار کو حد میں رکھتے ہُوئے بڑی احتیاط سے استعمال کروائی جاتی ہیں اور مریض پر نظر رکّھی جاتی ہے کہ طور سے بے طور نہ ہونے پائے۔ اگر مریض طوروں بے طور ہو جائے تو پِھر مُعاملہ قابلِ دست اندازیِ پولیس ہو جاتا ہے۔ اعتدال اور احتیاط میں بچت ہے۔ ایسی منشیات یا نشہ تیز کرنے والی ادویات، جڑی بُوٹیاں، ٹوٹکے جِن کا استعمال کِسی کو جِسمانی طور یا نفسیاتی طور ان کا عادی بنا دے، نشئی کا اخلاقی کردار اور عِلّت کی اسیری سے آزادی اور اس کی وِل پاور نہ صِرف کمزور بل کہ تباہ و برباد اور زندگی اُجاڑ دے، اخلاقیات کے اعتبار سے قطعاً قابلِ قُبُول نہیں۔ نشوں کے غُلام، انھیں ایسی لت ڈالنے والے (حوصلہ افزائی کرنے والے، منشیات بیچنے والے، نشہ کے اسیروں سے نفرت کرنے والے، ان کے گھر والے، دوست احباب، رشتہ دار، محلّے دار، انھیں بے آسرا، بے یارومددگار، بھِک منگا بنا دینے والے، نمبر دو این جی اوز اور لُوٹ مار والے کلینک اور ان کے سرپرست، علاقہ کی پولیس، غرض پُورا مُعاشرہ جو بے حسی دِکھا رہا ہو یہ سب لوگ) مُعاونین مریضوں کی بداخلاقیوں کے اخلاقی طور پر ذمّہ دار ہیں، اور لائقِ سرزنش ہیں۔

خُدا خالق نے انسان کو عظیم مخلُوق خلق کِیا۔ اس کے لیے بیّن مقصدِ حیات اسے تفویض کِیا جِس پر پُورا اُترنے کے لیے ضرُوری ہے کہ ہر شخص اپنی حُدُود و قیُّود ، اپنا سینسر آپ قائم کرے، یہی پیشگی شرط ہے کہ افراط و تفریط سے بچے، کِسی بھی قسم کی دھاندلیوں اور زیادتیوں کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن جائے، خُود ایسا کر رہا ہے تو باز آئے، دُوسروں پر ظُلم نہ کرے۔ اگر خُود زد پر ہے تو ظُلم مٹانے کے لے سینہ سپر ہو جائے۔

مزید جانکاری کے لیے۔۔۔۔۔۔Katnolischer Erwachsenen Katescismusکی جلد دُوُمLeben aus dem Glauben۔ (Frieburg: Herder, 1995)کا صفحہ278مُلاحظہ ہو۔


Contact us

J. Prof. Dr. T. Specker,
Prof. Dr. Christian W. Troll,

Kolleg Sankt Georgen
Offenbacher Landstr. 224
D-60599 Frankfurt
Mail: fragen[ät]antwortenanmuslime.com

More about the authors?