German
English
Turkish
French
Italian
Spanish
Russian
Indonesian
Urdu
Arabic
Persian

سُوال نمبر11:

حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ابتدائی پیروکار تو سرے سے ہی ناآشنا تھے ان منضبط اصول و قواعد کے بارے میں جو مسیحی ایمان کے عقیدئہ مُقدّس تثلیث سے متعلُّق اب رائج ہے۔ چُناں چہ عرض یہ ہے کہ ابتدائی مسیحی پیروکاروں کے اس وقت کے اعتقاد کے بارے میں کیا فرمائیے گا؟ اِس بارے میں اُن کا اعتقاد ثقہ نہ تھا؟

 

جواب:۔مسیحی ایمان کے اجزاے ترکیبی اور صحائفی الٰہیات میں کہ کلیسیا جنھیں اختیار کے ساتھ سکھاتی ہے اور اساسی تھیالوجی بھی یہی ہے، جی ہاں ان میں فرق ہے اور اس تفاوت کو پیشِ نظر رکھنا از بس ضرُوری ہے۔ مسیحی ایمان کو صحائفی الٰہیات نے واضح صُورت عطا کی ہے اور وقت گُذرنے کے ساتھ ساتھ اس کی وضع نشوونما پاتی رہی ہے۔ مسیحی اجزاے ایقان اور صحائفی الٰہیات میں جو امتیاز ہے وُہ مدِّنظر رہنا چاہیے۔ اجزا وُہی کے وُہی ہیں، البتہ الٰہیاتی برکت کی موثر بلاغت میں حالات و وقت کے ساتھ ساتھ ترقی ہوتی رہی تا کہ مسیحیت اپنی واضح ترین شکل میں دُنیا پر عیاں ہو۔

مسیحیت کے شُرُوع زمانہ سے ہی یہ سچّائی لوگوں نے پا لی تھی کہ ایک انتہائی کایا پلٹ دینے والے انداز میں خُداوند یسُّوع مسیح ناصری کی صُورت اور پاک رُوح کے قوت و اختیار میں جلال والا خُدا خُود اپنے لوگوں میں جلوہ نما ہُوا۔ اس امتِ مسیحی کو خُدا پاک نے اپنی خُدائی کا حصہ دار نہ بنایا۔ حصہ دار بنانا کیا بات ہُوئی، اس نے تو حقیقی معنوں میں اپنا آپ اُن کو دان کر دیا۔ یسُّوع پاک میں خُدا کا نزول دُنیا میں ہُوا۔ ہماری دُنیا ہی اب اس کی دُنیا ہو گئی، وُہ ہم میں آ گیا، وُہ ہمارا اور ہمارا سب کُچھ اس کا ہو گیا۔ ہماری تقدیر اس نے اپنا لی، ہماری قضا و قدر اس نے قُبُول و اختیار کر لی، ہماری قسمت کا چولا اس نے پہن لیا اور ایسا کرتے ہوئے اس نے انتہائی گہرے اختلاط و ارتباط سے روشناس کرتے ہوئے آدمیت اور اپنی ذاتِ مُقدّس کو ایک کر دیا۔ بشریت و اُلُوہیت میں فرق نہ رہا۔ بہرکیف، اس کا مطلب یہ ہُوا کہ.... خُداوند یسُّوع المسیح میں اور دُوسرے ذرائع سے یعنی اس کی طرف سے فرستادہ رُوح القُدس کے ذریعے ہم اس کے رسُولوں اور پیغام پہنچانے والوں سے متعارف ہوتے ہیں جو خُداوند قُدُّوس کی طرف ہی ہمیں متوجِّہ کرتے ہیں اور اسی کی طرف رہنمائی ان کا نصب العین ہے۔ یہ نبی انبیا، مُقدّسین ہی ہیں جو اِنسانوں کو خُدا سے لو لگانے کا درس دیتے ہیں۔ مگر انھی کے ہوتے ہوئے معبُودِ حقیقی عام آدمیوں کے لیے گورکھ دھندے آسا، قریباً مبہم ہستی بن جاتا ہے جو مستور ہے، نہ ختم ہونے والا مطلقیت اور ہمیشہ ہمیشہ کی رفعتوں کا مالک ہے۔ مگر جناب

رب اک گنجھلدار بجھارت، رب اک گورکھ دھندا

من موجی مومن دے کولوں ، کھوجی کافر چنگا

تو جب کھوج یعنی تحقیق سامنے آتی ہے تو پتا چلتا ہے کہ یسُّوع پاک میں خالقِ کائنات تخلیقِ کائنات کا حصہ بن جاتا ہے۔ خُداوند سے جس نے روابط مضبُوط کیے، نیک برتاو اور حسنِ سُلُوک کو راہ دی، اس کے وعدے وعید، اس کا مجسم کلام ہونا، اس کی صفتِ برداشت اور اس کا طرزِ عمل، دُکھ تکلیف اور اذیتِ مسیح سے سابقہ پڑتا ہے اور وُہ بھی انھیں اپنانے، ان پر عمل کرنے کا متمنّی بن جاتا ہے یا کوشِش ہی کرتا ہے تو صاحبو! وُہ سمجھ لے کہ اس نے اس ماوراے ادراک مطلق ہستی کو پا لیا۔ اگر ایسا ممکن ہونا محال ہوتا تو پاک خُداوند خُود جو خُدا کا ہی باوثوق اور حتمی کلام ہے اور آسمانی، خُدائی مَحَبّت کا بے مثال عملی اِظہار بھی ہے، اپنی تردید آپ کر چکا ہوتا۔ تب تو وُہ خُدا اور نوعِ بشر کے درمیان آخِری وسیلہ ہو ہی نہ پاتا۔ ایسی مداخلت تو بس اسی کو لائق ہے جو خُداوند یسُّوع مسیح ہے:

جس کِسی نے مُجھے دیکھا اس نے گویا خُدا کو پا لیا

تلاوت کا ثواب کمائیے: مُقدّس یوحنا9:14

"یسُّوع نے اس سے کہا، اے فیلبوس! مَیں اِتنی مدت سے تُمھارے ساتھ ہوں، کیا تو مُجھے نہِیں جانتا؟

جس نے مُجھے دیکھا ہے اس نے باپ کو دیکھاہے۔ پِھر تو کِس طرح کہتا ہے کہ باپ کو ہمیں دِکھا؟

رُوح القُدس بھی جو پاک خُداوند پر اُترا اس نے ہمیں خُداوند یسُّوع مسیح کی حقیقت وسچائی سے روشناس کروایا جب پاک خُداوند آسمان پر گیا (اُٹھایا گیا) اپنے باپ کے پاس اور یہی امر ہماری مُقدّس خُدا باپ تک رسائی کا سبب اور وسیلہ بنا۔ ہم بشری بادشاہت کے دائرئہ اختیار میں دے دیے جاتے اگر وُہ خُداوند خُود خُدا نہ ہوتا۔ بے شک۔"

ملاحظہ کیجیے پانچواں تھِیم ، سیکشن3، جزو7 صفحہ57

 "Muslims Ask, Christians Answers"

(The Origin of the Doctrine of the Trinity)

Contact us

J. Prof. Dr. T. Specker,
Prof. Dr. Christian W. Troll,

Kolleg Sankt Georgen
Offenbacher Landstr. 224
D-60599 Frankfurt
Mail: fragen[ät]antwortenanmuslime.com

More about the authors?