:سوال نمبر98
۔نئے پوپ کا انتخاب قرعہ اندازی سے کِیا جانا اب کیوں متروک ہے؟ مُقدّس انجیل میں تو ہے کہ ایک دفعہ ایک رسول کو بھی قرعہ ڈال کے رسالت کے لیے چُنا گیا تھا!
جواب:۔یہودہ کی جگہ مُقدّس رسول متّی جو خُداوندیسُّوع مسیح کی علانیہ زندگی کا چشم دید گواہ تھا اس کا رسالت کی خدمت کے لیے انتخاب چنداں شک نہیں کہ بذریعہ قرعہ اندازی عمل میں آیا تھا: مُقدّس پطرس اپنے 120بھائیوں سے گویا ہوا۔۔۔۔۔۔
''اے مَردو، بھائیو!!
اُس نوشتے کا پورا ہونا ضرُور تھا جو رُوحُ القُدس نے داؤد کی زُبانی اُس یہودہ کے حق میں پہلے سے کہا تھا جو یسُّوع کے گرفتار کرنے والوں کا رہنما ہُوا۔ وُہ ہم میں گِنا گیا اور اس خدمت میں شریک تھا۔(مگر اُس نے بدکاری کی مزدوری سے ایک کھیت حاصل کِیا اور سر کے بل گِرا اور اس کا پیٹ پھٹ گیا اور اس کی تمام انتڑیاں نکل پڑیں اور یہ یروشلم کے سب رہنے والوں کو معلوم ہوا یہاں تک کہ اس کھیت کا نام اُن کی زبان میں حقل دما پڑ گیا، یعنی خون کا کھیت۔ کیوں کہ مزامیر کی کتاب میں یہ لکھا ہے:
اُس کا مسکن اُجڑ جائے
اور اس میں کوئی
بسنے والا
نہ رہے
اور یہ کہ۔۔۔۔۔۔
اُس کا عُہدہ
دُوسرا لے لے
پس جو لوگ برابر اُس مُدّت تک ہمارے ساتھ رہے جب خُداوند یسُّوع ہمارے ساتھ آمد و رفت رکھتا رہا یعنی یوحنّا کے اصطباغ سے لے کر خُداوند کے ہمارے پاس سے اُٹھائے جانے تک۔ لازم ہے کہ اُن میں سے ایک ہمارے ساتھ اس کی قیامت کا گواہ بنے۔
پھر اُنھوں نے دو کو پیش کِیا، یعنی یُوسُف کو جو برسبا کہلاتا اور مُلقّب بہ صدیق تھا، اور متیاس کو۔
اور یہ کہہ کر دُعا کی کہ اے خُداوند! تُو جو ہر ایک کے دِل کو جانتا ہے ظاہر کر کہ ان دونوں میں سے تُو نے کِس کو چُنا ہے؟ کہ وُہ اس خدمت اور رسالت کی وُہ جگہ لے جس سے یہودہ خارج ہُوا تا کہ اپنی جگہ جائے''۔
رسولوں کے اعمال۔۔۔۔۔۔16:1تا25
اُنھوں نے ان کے بارے میں قرعہ ڈالا اور قرعہ متیاس کے نام نکلا اور وہ گیارہ رسولوں کے ساتھ شمار ہونے لگا۔ یہ قرعہ اندازی کی رِیت قدیم عبرانی دور سے چلی آرہی تھی۔۔۔۔۔۔
''۔۔۔۔۔۔ اور شاؤل نے خُداوند سے دُعا مانگی کہ اے اسرائیل کے خُدا! تُو نے آج اپنے خادم کو جواب کیوں نہیں دیا۔ اے خُداوند! اسرائیل کے خُدا! اگر قصور میرا یا میرے بیٹے کا ہے تو اوریم ظاہر کر۔ اور اگر تیری قوم اسرائیل قصوروار ہے تو تمیّم ظاہر کر۔ تب یوناتان اور شاؤل پکڑے گئے اور لوگ بچ گئے''۔
1۔ سموئیل۔۔۔۔۔۔41:14
تب شاؤل نے کہا تھا کہ اس کے اور اس کے بیٹے یونا تان کے درمیان قرعہ ڈالا جائے، یونا تان پکڑا گیا۔ (بعد میں لوگوں نے یوناتان کوبچا لیا، اس نے بڑا احسان کِیا تھا، اسرائیل کی رہائی والا کارنامہ)
''۔۔۔۔۔۔تو کہانت کے دستور پر اس کا قرعہ نکلا کہ خُداوند کی ہیکل میں جا کر لوبان جلائے''۔
بمطابق مُقدّس لُوقا۔۔۔۔۔۔9:1
شُرُوع شُرُوع کی مسیحی برادری نے جلد ہی اس رِیت کو بدل کر اس کی جگہ ایک نِیم واضح قسم کا طریقِ کار اپنا لیا تھا۔۔۔۔۔۔
''پس، اے بھائیو! اپنے میں سے سات نیک نام اشخاص کو چُن لو جو رُوح اور حکمت سے بھرے ہوئے ہوں تا کہ ہم اُن کو اس کام پر مقرر کریں۔ لیکن ہم خود تو دُعا اور کلام کی خدمت میں مشغول رہیں گے۔ یہ بات ساری جماعت کو پسند آئی اور اُنھوں نے استیفانُس نامی ایک مرد چُن لیا جو ایمان اور رُوحُ القدس سے بھرا ہوا تھا۔ اور ساتھ ہی فیلبُوس اور پروکورُس اورنیقا نُور اور طیمون اور پرمناس اور انطاکیہ کا ایک نومُرِید نیقولاؤس۔ اور اُنھیں رسولوں کے آگے کھڑا کِیا جنھوں نے دُعا کرتے ہوئے اُن پرہاتھ رکھے''۔
رسولوں کے اعمال۔۔۔۔۔۔3:6تا6
انتخاب کے اس نئے طریقِ کار کے بعد استیفانُس، فیلبُوس، پروکورُس، نیقانُور، طیمون، پرمناس اور نیقولاؤس نے مُقدّس رسولوں کے ہاتھ رُوحُ القدس پایا۔
''جب وہ خُداوند کی عبادت کررہے اور روزے رکھ رہے تھے تو رُوحُ القدس نے کہا کہ میرے لیے شاؤل، اور برنباس کو اُس کام کے لیے مخصوص کر دو جس کے واسطے مَیں نے اُنھیں بلایا ہے۔ تب اُنھوں نے روزہ رکھ کر اور دُعا کر کے ان پر ہاتھ رکھے اور اُنھیں رُخصت کر دیا''۔
اعمال۔۔۔۔۔۔2:13اور3
(مُقدّس شاؤل نے بعد میں اپنا عبرانی نام بدل کے لاطینی نام پولوس رکھ لیا اور رومی باشندوں کو انجیل کی خوشخبری پہنچاتا رہا)
مُقدّس خُداوند یسُّوع المسیح میں ایمان رکھنے والے ایمان داروں کہ جو اُس کو خُدا کا بیٹا مانتے تھے، اُن کی کلیسیا بخوبی جانتی تھی کہ وُہ اس لیے جاندار اور متحرک ہیں کہ اُن کی نگہبانی و رہنمائی کی ذمہ داری مُقدّس رُوحُ الحق نے اُٹھا رکھی تھی۔ رُوحُ القدس نے مُقدّس کلیسیا میں بھی نئی رُوح پھُونکی جس سے اس کی کارکردگی میں نمایاں برکت آگئی۔
رُوحُ القدس کی طاقت و قدرت اور اختیارات کی وَجہ سے اُن کی زندگیاں ایک خاص مسیحی سانچے میں ڈھل چکی ہیں۔ بہُت پہلے کی مسیحی اقدار اور اس وقت کے دستور و قوانین اور ادارہ جاتی اصولوں کے جکڑ بند میں وُہ اتنے بھی مجبور اور بے دست و پا نہیں رہے کہ پُوری پُوری اطاعت و تابع فرمانی سے مُو بھر بھی اِدھر اُدھرنہ ہوں اور اس پُرانی تشریح کے پابند رہیں۔ قوانینِ گذشتہ کے آنکھیں بند کر کے اسیر بنے رہنے سے بہتر ہے کہ ترمیم اور ان کی نوک پلک سنوارنے کی ہمّت پیدا کی جائے اور استدراک کی قوت سے انھیں فضیلت میں لاتے ہوئے ارتقا سے ہمکنار کِیا جائے۔ مسیحیت زندہ و پایندہ مذہب ہے۔ نئے تاریخی، اجتماعی سماجی و معاشرتی ماحول میں ان اصولوں اور تعلیمات کو موقع محل کے مُطابِق رِی وزٹ کرنا ہو گا۔ مقصودِ نظر کوئی اُلٹا سیدھا انقلاب نہیں، انسانی فلاح، امن، محبت اور بھائی چارے کی فضا قائم کرنا ہے اور یہ ممکن تبھی ہے بل کہ اسی لیے ہے کہ کلیسیا کو رُوحُ القُدس کی قُدرت و اختیار کے ذریعے اس کی تمام توانائیاں اور خُداوندِ اقدس میں برکتیں حاصل ہیں۔