:سوال نمبر163
کیایہ درست ہے کہ ویٹی کن (غلط یا صحیح ہمارا قیاس ہے کہ یہاں اس سے مراد روم میں سینٹ پیٹر کا وہ گرجا جسے پاپائی اعزاز حاصل ہے) اس کو سینٹ پیٹر کی ہی قبر پر تعمیر کِیا گیا تھا؟ تو کیا قبر کے مصدقہ محلِ وقوع کے بارے میں جانکاری حاصل تھی؟ ہمارا مطلب ہے کوئی قدیمی آثار وغیرہ؟
جواب:
۔ ویٹی کن پہاڑی کے دامن میں جہاں پاپائی محل واقع ہے ،یہ جگہ ویٹی کانوم کہلاتی تھی۔ اس کے شمال مغرب میں دریاے تِیبر(The Tiber)بہتا تھا۔ یہ مقام روم کے شہرِ عتیق کی حدود شاملات میں آتا تھا۔ سیزر کیلیگولا اور نیرو(Caesars Caligula and Nero) کے شاہی باغات بھی یہیں تھے اور کہتے ہیں ایک مضافاتی محل بھی یہیں تھا اور اس کے ساتھ ایک سرکس (گول یا بیضوی شکل کی مقابلہ گاہ) بھی جُڑی تھی۔ دیہات کے کھلے علاقے سے دو عریض و طویل راستے بھی گذرتے تھے جو پونز نیرونز(pons Neronis)نیرو بادشاہ کے پُل تک جا پہنچتے تھے اور وہاں سے سڑک کارنیلیا(Cornelia) اور تریئُم فالس(Triumphalis) سے ہوتی ہوئی روم سے گذر کر جنوبی ایطوریا(southern Etruria)جا پہنچتی تھی۔ جن دو راستوں کا ہم نے ذکر کِیا، کچی سڑکیں سی تھیں اور اس زمانے کے رواج مطابق ان کے اردگرد، کنارے کنارے، گورستان ہی گورستان تھے جن کے لیے شہروں کے باہر جگہ وقف کر دی جاتی تھی۔ آثارِ قدیمہ کے محکمہ والوں نے ایسے قبرستانوں کی کئی باقیات کھود نکالی ہیں جہاں آج ویٹی کن سٹی آباد ہے۔ دوسری صدی کے نیکروپولس قبرستان جس میں کِسی حد تک 1940عیسوی سے 1947عیسوی تک کھدائی ہوئی تھی وہاں ایک کتبہ ملا جس پر مقدس پطرس کے نام تلے لکھا تھا کہ یہ قبر قیصر روم نیرو کے سرکس سے متصل تعمیر کی گئی(Juxta circum Neronis)۔ پچھلی چند دہائیوں میں جو کھدائی کی جاتی رہی اس میں یہ کامیابی بھی ملی تھی کہ رسکس کی اصل جاے تعمیر سامنے آگئی۔ جہاں اب چرچ موجود ہے اس کے ٹھیک جنوبی طرف اپنے اصل مقام پر مصری یادگاروں کی طرز کا پتھر کا چہار پہلو گائو دُم ستون ملا تھا، اسے وہاں سے منتقل کر کے سینٹ پیٹر سکوائر میں 1587عیسوی میں نصب کر دیا گیا۔ سرکس کا محلِّ وقوع ویٹی کن پہاڑی کا دامن ہی ہے۔ شرقاً غرباً پھیلی یہ جگہ کوئی 600میٹر کے قریب لمبی ہے اور آج کل کے سینٹ پیٹر چرچ کے متوازی ہی لگتی ہے جو اس کی شمالی سمت کے ساتھ ساتھ تعمیر ہے۔ رومی مؤرخ تاسیطوس (Tacitus) کے مطابق 64عیسوی اور 67عیسوی کے درمیان مسیحی عقیدہ اور طرزِ عبادت سے وابستہ ہونے کی پاداش میں اکثر مسیحیوں کو ایذارسانیوں کے بعد یہاں موت کے گھاٹ اُتارا جاتا تھا۔
مقدس پطرس کی شہادت بارے فلیمون کے خط میں جو مقدس پولوس رسول نے قرنتیوں کو لکھا تھا اس میں اس نے اظہار کِیا:
(مَیں ہمیشہ اپنی دعائوں میں تجھے یاد کر کے اپنے خدا کا شکر کرتا ہوں)
کیوں کہ مَیں تیری اس محبت اور ایمان کا حال سنتا ہوں جو سب مقدسوں کے ساتھ اور خداوند یسوع پر ہے۔ کاش کہ تیرے ایمان کی شراکت ہر اُس خوبی کی پہچان میں جو ہم میں ہے مسیح کے واسطے مؤثِّر ہو۔
فلیمون…5:1،6
دوسرے ذرائع سے بھی شہادت ملتی ہے، جو زبانی کلامی رواج پائی اور اُس سے پتا چلتا ہے کہ مقدس پطرس کو پہلی صدی کے اختتام پر روم میں شہادت کی برکت سے مستفیض کر دیا گیا۔ یہی غالب تاریخی امکانیت نظر آتی ہے۔
1939عیسوی میں پوپ پائیس XIکی قبر جب مقدس پطرس کی کھوہ (غار) میں مرمت کر کے اس کی حالت بہتر کی جا رہی تھی وہاں بہت ہی قدیمی دیواروں کے آثار دریافت ہوئے۔ وسیع پیمانے پر کی گئی ماہرینِ آثارِ قدیمہ کی تحقیق، خاطر خواہ غور و خوض اور مباحث کے بعد یہ نتیجہ اخذ کِیا گیا کہ یہی وہ جگہ ہے جو اب قابلِ احترام و تکریم مقام ہے کہ یہاں مقدس رسول پطرس دفن ہے اور اسے یہ مقام دوسری صدی کے وسط سے ہی دیا جا چکا تھا کہ یہ قیصر واجب التعظیم ہے اور اب تو وہ باقاعدہ زیارت گاہ (Aediculaیعنی Shrine)ہے۔
آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے!
سال 320عیسوی گذرتے ہی کانسٹنٹائن کو خیال آیا کہ اس یادگار جگہ کو کیوں نہ مقدس رسول کی نسبت سے چرچ، مرکزِ عقیدت براے طریقِ دین و عبادت کی حیثیت سے دوبارہ تعمیر کے زیور سے آراستہ کِر دیا جائے۔ایسا ہی کِیا گیا۔ روم میں بسنے والی مسیحی کمیونٹی کے ریت رواج کے مطابق تو اسے دوسری صدی کے وسطی زمانے سے لے کر کانسٹنٹائن کے عہدِ حکومت تک ویسے بھی ایک طرح سے اس کو اُن کی دیکھ بھال اور حرمت حاصل تھی کہ یہ جگہ پطرس رسول کی یادگار سمجھی جاتی تھی۔سبھی مسیحی اس کو بطورPetrus Memoriaتعظیم دیتے تھے۔ اور پھر صدیوں پر صدیاں گذرتی چلی گئیں اور یہ یادگارِ پطرس رسول آثارِ قدیمہ میں ڈھل گئی۔ تاریخ نے اسے اپنے اوراق کے ڈھیر میں گم کر دیا، 320عیسوی میں دریافت ہوئی مگر پھر ایسی صدیاں آئیں کہ زمانے کی دست برد اور نسلوں کی غفلت نے اسے طاقِ نسیاں پر کہِیں رکھ دیا اور مقدس رسول کی یاد تو نہیں مگر اس کی قبر پھر غائب ہو گئی اور مدتوں غائب رہی۔
ہیوگو برانڈنبرگ اپنی جامع طور وضع کی گئی سائنٹفک انکوائری ’’دینیات اور کلیسیا کے لیے لیکسیکون میں قبرِ پطرس رسول‘‘(St Peters grave in the Lexikon für Theologie und Kirche, vol. 8, Col 149-153) کی جلد8، کالم149تا 153 پر انھوں نے اس کھوج سے آشکار کِیا ہے کہ تحفظات بہ ہرحال موجود ہیںکہ مقدس رسول کی اصل قبر عین اسی لوکیشن پر میموریل کے نیچے موجود بھی تھی یا نہیں۔چناں چہ آرکیالوجی والے اور ہیوگو ایک پیج پر دِکھائی نہیں دیتے، پھر بھی میموریا پیطری یعنی مقدس رسول پطرس کی یادگار کو اور مقدس خداوند یسوع مسیح کے مقبرے کو جہاں کلیسیاے یروشلم کے غار یا قبر میں اسے رکھا گیا تھا دونوں کو احترام و عقیدت اور تقدیس والے متبرک مقامات کا درجہ حاصل رہا ہے۔ مسیحیت دونوں مقدس یادگاروں کو انتہائی درجے کی اہمیت سے موسوم کرتی ہے۔ تاریخ کے مستند حوالوں کے اعتبار سے ان کی دریافت آرکیالوجی کے ممتاز ترین کارناموں میں شمار ہوتی ہے۔