:سُوال نمبر96
۔برنباس کی انجیلِ مُقدّس آپ کی نگاہوں میں کیوں نامعتبر ہے؟
جواب:۔
1۔ انجیلِ برنباس۔۔۔۔۔۔ حقیقت و اہمیت
خُداوندِ اقدس یسوع مسیح جب قبر خالی چھوڑ کر اُوپر آسمانوں پر چلا گیا تو اُس کے بھی بہُت بعد چودھویں، پندرھویں، سولھویں صدی میں کہِیں برنباس کی انجیل تحریر کی گئی۔ اس کے دو نسخوں کے علاوہ او رکوئی نسخہ بھی کہِیں موجُودہو، اِس کی کوئی اِطلاع نہیں۔ جو مخطوطے موجود ہیں ان میں سے ایک ہسپانوی زبان میں اور دُوسرا اطالوی زُبان میں ہے۔یونانی، لاطینی یا عبرانی زبانوں میں، یا ان میں سے کِسی ایک میں برنبا س کی انجیل لکھے جانے کی مصدّقہ کوئی اطلاع ہے نہ غیر مصدّقہ ہی سہی، ایسی کوئی خبر یا افواہ۔ مسیحی دُنیا میں یہ انجیل کہِیں بھی کوئی وُقعت نہ پا سکی۔ غیر مسلموں کی طرف سے جو جواز سامنے آیا وہ یہ تھا کہ یہ انجیل اُن کئی دیگر بگاڑی گئی کتابوں میں سے ایک کتاب ہے، جن میں ردو بدل کی توحد ہی کی جا چکی ہے۔ اس کے ساتھ کی انجیلیں بھی معتبر نہیں تھیں، یہ بھی ہر گِز مستند نہیں ہے۔
سُوال پیدا ہوتا ہے کہ آخِر کیا وجہ ہے کہ اِس انجیل کے مُسَوَدَّہ کو جس میں ایسی بیشتر تعلیمات پر زور دیا گیا ہے جو بائبل مُقدّس کے دُعاوی، اس کی آیات سے سراسر رُوگردانی کرتی نظر آتی ہیں، اسلامی دُنیا میں بہُت پذیرائی دی گئی؟
مندرجہ ذیل تجزیہ میں اِس سُوال کا جواب دینا بھی مقصُود ہے اور ان وجوہ کو سامنے لانا بھی مطلُوب ہے کہ کوئی بھی باخبر، ذہین فطین اور متین قاری اس انجیل کے معتبر ہونے کے دعوے کو قُبُول کرنے سے کیوں گُریزاں ہے۔
اپنے جواب میں ہمیں بڑی حد تک اختصار سے کام لینا ہو گا جو لیکچر20سے تصریف و استفادہ پر مشتمل ہے۔ لیکچر20میں عصرِ حاضر کی معروف دِینی سکالر محترمہ کرسٹینے شِرّماخیر نے برنباس کی انجیل کو سامنے رکھتے ہوئے کرسچن مسلم بحث و تمحیص جو چھڑی رہتی ہے اس پر سیر حاصل گُفتگُو کی ہے۔
مُلاحظہ فرمائیے:
Christine Schirrmacher, Der Islam 2 (Neuhausen/Stuttgart: H+nssler, 1994), p. 268-289. ISBN 3-7751-2133-1.
سب سے پہلے انجیلِ برنباس کی تحریر پر مغرب کے مصنّفین (یورپی لکھاریوں) نے ہی قریباً اٹھارھویں صدی میں تبصرے شروع کر دیے تھے جس سے برنباس کی انجیل نامی یہ کتاب عوام النّاس میں متعارف ہوئی اور پِھر اُنّیسویں اور بیسویں صدی میں تو یہ کتاب مسلم مسیحی اِختلافات و مناقشات کی جَڑ بن گئی۔ جب کہ صُورتِ حالات فی الواقع اِس سے مختلف نہیں کہ تمام غیر مسلم برنباس کی اِس انجیل کو تلبیس کی صف میں شمار کرتے ہیں جو اس وقت لکھی گئی جب قرونِ وُسطیٰ کا آخِر اخیر جِدّت پسندی کے زمانہء حال میں ڈھل رہاتھا۔ بس چند ایک لوگوں کے استثنا کے ساتھ مسلمانوں کی اکثریت یہی سمجھتی ہے کہ انجیلِ برنباس ہی صرف مُقدّس خُداوند یسُّوع مسیح کی اصلی انجیلِ پاک ہے جو پہلی صدی عیسوی سے دُنیا میں کہِیں نہ کہِیں موجُود و محفُوظ چلی آ رہی ہے۔ نتیجہ یہ کہ اکثر مسلم ممالک میں مسلمانوں اور مسیحیوں میں آج بھی اِس انجیل کے معتبر و مستند ہونے نہ ہونے پر گرما گرم بحث چِھڑی رہتی ہے۔
یہ صُورتِ حالات آج بھی واضح نہیں کہ حقیقتِ حالات کیا تھی، کِن حالات میں اور کِس ارادے سے انجیلِ برنباس سامنے آئی اور واقعی اس کا مصنّف کون تھا؟ یہ مسودّہ کب تیّار ہُوا؟ اِس سُوال کا جواب تو بہ آسانی ڈُھونڈا جا سکتا ہے۔ ایسے اشارات اور ڈھیروں دلائل موجُود ہیں کہ نیہ تصنیف چودھویں اور سولھویں صدی کے دوران کِسی تاریخ کو منصّہء شہُود پر آگئی تھی۔ اٹھارھویں صدی میں یورپ کے محققین، ناقدین اور مصنّفین نے اس انجیلِ برنباس کو دوبارہ زندہ کر لیا۔ مگر یہ سُوال تا حال حل طلب ہے کہ اِس کتاب کے لکھے جانے کے پیچھے کون طاقتیں تھیں، ان کے کیا مقاصد تھے اور کِن حالات و اسباب کے تحت اسے تخلیق کِیا گیا، کیا یہ فقط برنباس کی ہی کاوش تھی؟ یہ سب باتیں، یہ سب سُوال ابھی اندھیرے میں ہیں۔ غیر مسلم تو یقین کی حد تک اعتبار کیے بیٹھے ہیں کہ اس ''کارنامے'' کا سہرا اس مسیحی کے نام ہے جس نے بعد میں اسلام قُبُول کر لیا۔ یہی اِس کا کتاب لکھتے ہوئے پلس پوائنٹ تھا کہ وہ مسیحیت اور اسلام دونوں سے پوری طرح واقف تھا، اِس بات کا اس نے خوب فائدہ اُٹھایا اور مسیحیت کی جڑوں پر اوچھا وار جَڑ دیا۔ ایسا ہی شخص یہ گُناہ اپنے سر لے سکتا تھا۔ سو اُس نے لیا۔
مُسلمانوں نے تو اُنّیسویں صدی عیسوی کے آغاز سے ہی مسیحی نُقطہء نظر کے برعکس اِس قیاس پر فدا ہونا شُرُوع کر دیا تھا کہ ہو نہ ہو حضرت یسُّوع مسیح مصلُوب مُکتی داتا کی اصل، سچّی، صحیح اور مستند انجیل یہی ہے، اس کے سِوا اور کوئی نہیں ہو سکتی،اور یہ کہ انجیلِ برنباس ان چار اناجیل جن میں کتنی ہی تبدیلیاں لائی جا چُکی ہیں اور وہ تونہ ثقہ ہیں، نہ قابلِ اعتبار، مگر یہ جو وفاتِ مسیح پاک کے صدیوں بعد پیدا ہوئی ان چاروں پر افضل اور مُعتبر ہے، کیوں کہ یہ مقصُود ہ و مطلُوبہ حقیقی سچّائی کی آئینہ دار ہے جس کی تعمیر خارج سے اُٹھائی گئی ہے یعنی خالص اِسلامی بُنیاد پر اس کے متن کو اُٹھان دی گئی ہے۔ مُسلم اہلِ دانش کہ جن کی راے سے سَنَد لی جاتی ہے اُنھوں نے ایڑی چوٹی کا زور لگا رکھّا ہے کہ کِسی طور انجیلِ برنباس کو صداقت، سچّائی، راست گوئی کے معیار پر پورا اُترنے والی مُقدّس کتاب ثابت کر دِکھائیں۔ اِس سلسلے میں اُنھوں نے ابتدائی، مسیحی کلیسیائی تاریخ کا بھی ورق ورق اُتھل اُتھل کے تحقیق کے نام پر عمریں صَرف کر دی ہیں مگر نہ تو کہِیں من پسند آثار و علامات ہی وہ کھوج پائے نہ ہی کوئی ایسا حوالہ، نظیر، ہی سامنے لا سکے جس کی مدد سے اپنا پوائنٹ سکور کر سکیں۔ سچ سچ ہوتا ہے، پوائنٹ سکورنگ سے کُچھ نہیں مِلتا۔ جب کُچھ نہ بن سکا تو بجاے اِس کے کہ مُسلم دانش ور چونچیں پروں میں دبا کر چُپکے ہو کے بیٹھ رہتے، پھُولے سانسوں کے ساتھ اُنھوں نے ساری دانش وریاں اور توانائیاں و صلاحیّتیں اِس بات پر صَرف کر رکھّی ہیں کہ کِسی نہ کِسی طرح مصنّف برنباس کو بھی اناجیلِ مقدّس کے مصنّفینِ مقدّسین کی طرح مُقدّس تسلیم کروا سکیں۔
برنباس نے چھوٹے حروف(Minusculus)میں اپنی انجیل ترتیب دی۔ کہِیں وہ مُؤلِّف ہے، کہِیں مُصنّف، اور کہِیں اصل مستند متن سے انحراف کا مُرتکب۔ اِکّیس اختصار بھرے ابواب پر مشتمل ایک برنباس فائل بھی ہے،برنباس فائل کا مواد در اصل پانچویں صدی میں یونانی زُبان میں تحریر کِیا گیا تھا۔ پِھر بھی اسے غلط طور پر برنباس کے کھاتے میں ڈال دیا گیا، حال آں کہ اس منسُوبیّت کا ہرگِز کوئی تُک نہیں بنتا۔ بائبل مُقّدس کے قدیم قلمی نسخہ جات کو ڈیکس باروچی (Codex Barocci 39)کے متن سے ایک ننھا سا ٹکڑا مُستعار لیا گیا ہے۔
Decretum Gelasianum de libris recipiendis et non recipiendis
چوتھی /پانچویں صدی کے واقعات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اُس زمانہء گذشتہ میں برنباس کی انجیل کا ذِکر موجُود ہے۔ ساٹھ مستند کلیسیائی کُتُب کی فہرست میں ساتویں آٹھویں صدی کا ریکارڈ اگر دیکھا جائے تو وہاں بھی اس انجیل کا اندراج سامنے آتا ہے۔ مگر یہ جو ہم نے حوالے دیے ہیں ان میں یا دیگر دستاویزات میں اور نہ مسیحی کلیسیا کی ابتدائی تاریخ میں ہی ہمیں کوئی ایسا اشارہ ملتا ہے جس کے ذریعے ہم زیرِ تبصرہ انجیلِ برنباس کا تعلُّق اس انجیل سے جوڑ سکیں جس انجیل کا حوالہ جات میں ذِکر کِیا گیا ہے۔ صدیوں کا بُعد ہی ثابت کرتا ہے کہ برنباس کی مُتنازع انجیل کِسی خاص مقصد کے تحت بعد میں گھڑا گیا قصّہ ہے۔ ہم مسیحی اور مُسلم علما اور دِینی رہنما خواہ مخواہ کی ایک بے مقصد بحث میں اُلجھے اب تک اُلجھے اُلجھے ہی نظر آتے ہیں۔ اپنے قیمتی وقت کو کِسی مُثبت سمت کام میں لانا چاہیے۔
2۔ انجیلِ برنباس۔۔۔۔۔۔ متن
مُکمَّل ترین مسودّہ جو بچ رہا ہے، وہ ہے کوڈیکس2662، اطالوی زُبان میں اسے لکھا گیا تھا اور اس کے خُدا جھُوٹ نہ بُلوائے کوئی 222ابواب تو ہیں ہی۔ ناقدریِ زمانہ کی ستیزہ خیزی سے کِسی طرح بچا کے اسے آسٹریا کی نیشنل لائبریری میں محفُوظ کر لیا گیا ہے۔اس نُسخہ کا طویل اطالوی ٹائٹل ہے:
Vero euangelio di essu chiamato chrissto nouo profeta mandato da DIO modo seconda la descritione di barnabas apostolo suo
اِس انجیل میں ایک انتساب بھی ہے جو یوحنّا فریڈرک کریمرJohannes Friedrich Cramerنے جون20سنہ 1713کی تاریخ کے ساتھ سیوائے کے شہزادہ یوجین کے نام کِیا ہے۔ آیندہ سطُور میں ہم اپنے حوالہ جات کی بُنیاد اِس مشہورِ زمانہ ایڈیشن پر رکھیں گے جو اِس مُسلمانوں میں مقبول انجیلِ برنباس کا ترجمہ ہے اور جو بڑی عرق ریزی سے لانسڈیل اینڈ لارا رگّ نے کِیا ہے جوپبلشرزہیں اس کتاب ''دی گوسپل آف برنباس'' کے۔۔۔۔۔۔ ویانا کی امپیریل لائبریری میں جو اصل مسودّہ موجُود ہے اسے تدوین و ترجمہ سے عبارت کر کے آکسفورڈ: کلیرنڈن پریس، 1907عیسوی میں شایع کِیا گیا۔ (آر آر آیندہ اِس کا حوالہ ہو گا)۔
انجیلِ برنباس کہ جس کے اجزاے ترکیبی یہودی، مسیحی اور مُسلم عناصر سے مرتَّب ہیں اس میں مُقدّس خُداوند یسُّوع مسیح کی حیاتِ دُنیا اور اس کے شاگردوں کی زندگی کے حالات لکھے گئے ہیں۔ مُقدّس خُداوند یسُّوع المسیح کی زندگی اور موت کے واقعات خُصُوصی طور پر بالصراحت بیان ہوئے ہیں جو عین مُطابِق ہیں اس عقیدے کے جو تصلیب کے بارے میں مسلم اُمّہ کے قُلُوب و اذہان میں راسخ ہے۔ خُداوندِ یسُّوع کی موت صلیب پر واقع نہیں ہوئی تھی، یہود ا اسخریوطی تھا جسے مصلُوب کِیا گیا۔ خُدا نے یسُّوع پاک کو صلیب پر سے اُچک لیا تھا۔ انجیلِ برنباس میں خُداوند کے ماں باپ کا مِصر کی طرف بچ نکلنا مذکُور ہے۔ خُداوند کے سفروں کی طویل داستان ہے۔ معجزات، تمثیلات اور تعلیمات کا ذِکر ہے۔ آخری عشا، آخری فسح یعنی آخری آخری کھانے کی تفصیل ہے۔خُداوند سے غدّاری و بے وفائی کا قصّہ ہے۔ یہودہ اسخریوطی کو صلیب پر چڑھ ادیے جانے کا سسپینس اور یسُّوع المسیحِ اقدس کا آسمان پر چلنے جانا اِس انجیل کے خاص ایپی سوڈ ہیں۔ انجیلِ برنباس کے مرکزی حصّے کو بالعُمُوم خُداوندِ پاک کی تعلیمات و ارشادات اور بالخصوص اس کے مُقدّس رسُولوں کی تبلیغی خدمات کے نام مُعَنْوَن کِیا گیا ہے۔
3۔ انجیلِ برنباس۔۔۔۔۔۔ بائبل مُقدّس اور قرآنِ پاک
انجیلِ برنباس میں مُسلمانوں کی مذہبی کتاب القرآن کے بارے میں ذِکر جاری رکھ کے قاری کی توجُّہ برقرار تو رکھی جاتی ہے مگر یہ کہِیں نہیں ہُوا کہ اس کی آیات کو لفظ بہ لفظ حوالہ بنایا گیا ہو۔ ہاں، البتہ، اِتنا ضرُور دیکھنے میں آتا ہے کہ انجیلِ مُقدّس کا جو لاطینی ترجمہ جیروم نے چوتھی صدی عیسوی کی آخری دہائی میں کِیا تھا اور جو کیتھولک کلیسیا کا مستند ترجمہ کہلاتا ہے اس سے مصنّف برنباس نے بعض اقتباسات اپنی انجیل میں جہاں ضرورت ہوئی لازماً شامل کیے ہیں۔ اُنتالیس میں سے بائیس مُقدّس عہد نامہء عتیق کی اقدس کتابوں سے حوالہ جات یا اقتباسات سے بھی اُس نے استفادہ کِیا ہے۔ ان مُقدّس کتابوں پر، نظر آتا ہے کہ مصنّف کو خاصا عبور حاصل تھا۔ ایسا بھی ہُوا ہے کہ اس نے عبرانی بائبل کی فہرستِ مسلّمہ میں شامل نہ کی گئی کُتُب سے بھی حوالے پیش کرنے میں ذرا بھی دریغ نہیں کِیا۔مصنّف نے بالواسطہ یا بلاواسطہ بائبل مُقدّس کے نئے عہد نامہ کی 27کتابوں میں سے 19اکتبہ سے اکتسابِ حوالہ جات کرنا مناسب گردانا۔ انجیلِ برنباس میں حضرت محمدصلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کے بارے میں پیشین گوئی کی گئی ہے کہ وہ خُدا کے پیغمبر ہیں جو آنے والے ہیں۔ اور جب اس پیغمبر کو مبعُوث کِیا جائے گا تو بہُت سی مُمتاز صفات سے اُنھیں مُتّصف کِیا جاچُکا ہوگا، مثلاً بصیرت و معرفت او ررہبری، علم و آگہی اور حکمت، خُداترسی اور محبت، دانش و دانائی اور زیرکی، ہمدردی، رحم اور غمخواری، عدل و انصاف اور پاکیزگی نیز صبر و قناعت اور حلیمی (آ ر آر105/ XLIV)۔
4۔ پاک خُداوند یسُّوع مسیح او ر تصلیب
انجیلِ برنباس تو شُرُوع ہی سے ان بہُت سے لوگوں کو جو بقول برنباس جھُوٹ مُوٹ کے مُقدّسین بنے ہوئے تھے اور اس کے تجزیہ کے مُطابِق وہ لوگ لائقِ ملامت و مذمّت تعلیم پھیلا رہے تھے کہ خُداوند یسُّوع مسیح خُدا کا بیٹا ہے، ایسے ''مُقدّسین'' کو شدّو مد سے ہدفِ تنقید بنایا گیا۔ ''خُداوند یسُّوع پاک جلال میں آجاتا تھا جب وہ دیکھتا کہ اس کے مُقدّس شاگرد اور پیروکار اُسے خُدا کا بیٹا یا خُود خُدا کہنا چاہتے تھے'':۔۔۔۔۔۔ ''مَیں تو فانی انسان ہُوں، دُوسرے اِنسانوں کی طرح'' (RR LII.122)۔ ''جب مُقدّس پطرس نے اُسے اِبنِ خُدا کہا تو اُس نے عرشِ بریں والے آسمان، قُدرتِ الٰہی کی قسم کھائی اور کہا کہ وہ تو بس اِبنِ آدم ہی ہے، محض انسان''۔ (RR XCII/214+XCIV/216 u. a.)
یہ انجیلِ برنباس بتاتی ہے کہ مُقدّس خُداوند یسُّوع مسیح خُدا کا برگزیدہ بندہ تھا عبداللہ، خادمِ خُدا یا خُدا کا محبوب ترین عظیم نبی۔ اپنی انجیل میں برنباس جگہ جگہ اِسی بات پر اَڑا نظر آتا ہے کہ خُداوند یسُّوع مسیح کُچھ نہیں بس ایک انسان ہے، مٹّی اور گارے کا بنا ہُوا۔ یہ تو شیطان کی چال ہے اور شیطان غیر مومنین کو ورغلاتا رہتا ہے کہ وہ یہی سمجھیں اور اسی کے پکّے رہیں کہ مُقدّس یسُّوع خُدا ہے اور خُدا کا بیٹا بھی وُہی ہے۔ ''خُداوند یسُّوع مسیح نے اپنے شاگرد برنباس کو واضح طور پر بتایا کہ۔۔۔۔۔۔ کاش لوگوں نے اُسے خُدا نہ مانا ہوتا! وُہ اُسے خُدا کہہ کر نہ پُکارتے تو دُنیا سے اِنتقال کر کے وہ سیدھا بہشت میں ہوتا''۔ اس انجیل میں خُداوند یسُّوع اقدس کہتا ہے :''مَیں تمھیں بتاتا ہُوں، اگر مجھے لوگوں نے خُدا نہ بنا لیا ہوتا تو جب اِس دُنیا سے مَیں نے رُخصت ہونا تھا میرا ٹھکانا جنّت الفردوس میں ہوتا''۔(RR, CXII/256)
مُقدّس خُداوند یسُّوع سے جب سُوال کِیا گیا کہ سنگین ترین گُناہ کیا ہے؟ تو اُس نے جواب میں یہ کہا کہ جھُوٹے خُداؤں کو معبُود بنا لینا مہیب ترین گُناہ ہے۔ جب مُقدّس یسُّوع مسیح کو علانیہ خُدا کہا جاتا ہے تو مسیحی دِین دار جھُوٹے خُداؤں کے سامنے ماتھا ٹیکنے کا مجرم بن جاتا ہے، گُنہگار جو جھُوٹے، جعلی خُداؤں پر ایمان لایا۔ باربار اِس رُوداد کو دُہرائے جانے سے کہ مُقدّس یسُّوع مسیح خُدا کا بیٹا ہرگِز نہیں، ہر گِز نہیں، اور جتنا ایسے دعووں پر بڑھ چڑھ کے بل کہ ایک ضد کی حد تک زور دیا جاتا ہے، یہ تاثُّر اُبھر کر سامنے آتا ہے کہ انجیلِ برنباس کی بُنیادی تعلیمات اور اصل مقصدِ تحریر ہی یہ ہے کہ اس مسیحی مرکزی عقیدے کی ڈٹ کر نفی کی جائے کہ المسیح ہی خُدا ہے۔
مُقدّس خُداوند یسُّوع مسیح خُدا کا بیٹا تو نہیں ہے، پِھر بھی وہ اوروں کو شفا بخشتا ہے، لیکن ساتھ ہی زوردار تاکید بھی کرتا ہے کہ دیکھو، مرض مَیں دُور نہیں کرتا، خُدا کرتا ہے اور صِرف وُہی کر سکتا ہے۔ بیماری بھی وُہی دیتا ہے اور شفا بھی۔ انجیلِ برنباس یہ بھی کہتی ہے کہ مُقدّس یسُّوع مسیح کے اختیار میں ہی نہیں کہ گنہگاروں کو خُود سے بخش سکے۔ وُہ تو خُداے بزُرگ و برتر کا بندہ ہے، خادمِ خُدا۔ اس حیثیت میں وہ صرف شفاعت کر سکنے کا مجاز ہے۔ وُہ یہ سفارش، یہ گزارش کر سکتا ہے کہ خُداوندا! میری اُمّت کے گُنہگاروں کو معاف کر دے! (RR, LXXI/164).
RR, II/7کااگر آپ مُطالَعہ کریں تو آپ پر مُنکشف ہو گا کہ مُقدّس یسُّوع مسیح کو جو مشن سونپا گیا اُس کا مقصد یہ تھا کہ قوم اسرائیل پر ایک نبی مبعُوث کِیا جائے جو اُن کی اصلاح کرے، یہودیہ اور اسرائیل کے لوگوں کو خُدا کے قوانین دوبارہ یاد کرائے: ''یہ خُدا کا نبی ہے جو بنی اسرائیل کی طرف بھیجا گیا تا کہ یہودیہ والوں کو واپس دِین میں پھیر لائے اور اسرائیل میں شریعتِ خُداوندی کی نئی صُورتِ حالات میں داغ بیل ڈالے''۔ ایسا ہی موسوی شریعت میں بھی لکھا ہے اور اب ان میں تبدیلیاں بھی عُود کر آئی ہیں۔
القرآن اور عہد نامہء جدید کے برعکس انجیلِ برنباس مُقدّس خُداوند یسُّوع کو مسیحا یعنی المسیح نہیں مانتی، وہ پیغمبرِ اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کے بارے میں اقرار کا اشارہ دیتی ہے کہ وہ مسیحاے کائنات کہلائیں گے۔ اُن کا اتباع یسُّوع پاک بھی کرے گا: ''مَیں خُدا کا کارندہ ہُوں اور میری تمنّا ہے کہ مَیں اس پیغمبرِ خُدا (حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) کی پیروی کروں''۔ (RR, CCVI/454)
انجیلِ برنباس کے مُطابِق مُقدّس یسُّوع مسیح محض خُدا کا بھیجا ہُوا پیغمبر اور رسُول ہی نہیں، وہ اُس کا بندہ بھی ہے اور بشر بھی جو یہودیہ اور اسرائیل کے لیے شریعتِ الٰہی لے کر آیا ہے۔ یہ سب دُرسُت۔ مُقدّس یوحنّا اصطباغی والا کردار بھی اس خدمت میں سرِ فہرست ہے جس کا انجیلِ برنباس میں ذِکر ہی غائب ہے۔ :یسُّوع پاک کا کام ہے کہ وُہ خُدا کے پیغمبر حضرت محمد صلی اللہ علیہ آلہٖ وسلم کے لیے زمین ہموار کرے۔ محمد جو ساری خُدائی اور لوکائی کو اپنی رحمت کی لپیٹ میں لے لے گا۔ شافعِ محشر ہو گا، سب کے لیے نبیِ نجات۔
اپنے حواریوں کے ساتھ آخری کھانا تناول فرمانے سمے مُقدّس خُداوند یسُّوع مسیح جانتا تھا کہ یہودہ اسخریوطی نے دھوکا دے جانا ہے اور بے وفائی کے ٹیکے سے اپنی پیشانی داغدار کر لینی ہے۔ اس نے اپنے شاگردوں کو خبردار کِیا کہ کِسی نے میرے قتل کا سامان کرنا ہے اور پِھر اس نے کہا کہ گھبرانے کی ضرورت نہیں، میرا خُدا ہے نا، میرے مصلُوب ہونے سے پہلے ہی وہ مجھے بچا لے گا۔ وہ (المسیح) نہیں مرے گا، ہمیشہ زندہ رہے گا، ہمیشگی کی زندگی پائے گا۔ یہ خُدا کی محبت کی علامت ہے کہ وُہ مجھے مصلُوب نہیں ہونے دے گا۔ انجیلِ برنباس کہتی ہے کہ سچّی بات تو یہ ہے، چُوں کہ مسیحیوں نے اُسے خُدا مان لیا اور خُدا خُدا پُکارنے لگے، اس لیے اُسے سزا تو بھُگتنا ہی چاہیے تھی۔ مگر اُس نے پُرزور انداز میں بارہا اِس صداقت کی نشان دہی کی کہ نہ تو وہ المسیح ہے اور نہ ہی خُدا، اِس لیے وہ بچ جائے گا اور اُس کی جگہ ایک گُنہگار صلیب پر ٹانگ دیا جائے گا۔ یہی مشیّتِ ایزدی ہے۔
یہ سارا قصّہ جو آپ کو سُنایا ہے، اس کے ذریعے اب تک تو کُھل گیا ہوگا کہ وُہ یہودہ کے علاوہ کون بے ہودہ ہو سکتا ہے، جو صلیب کی اذیّت ناک موت مرا۔ انجیلِ برنباس بتاتی ہے کہ یہودہ کو یقین ہو چلا تھا کہ ایک دِن آئے گا جب خُداوند یسُّوع مسیح شاہِ اسرائیل ہو گا۔ اس نے غدّاری پر کمر کَس لی تا کہ یسُّوع پاک کو یہودی کاہنوں، یروشلم کے فقیہوں اور فریسیوں کے حوالے کر دے۔
انجیلِ برنباس کے آخری آٹھ ابواب مُقدّس خُداوند کے مصلُوب کیے جانے کی تفاصیل سے بھرے پڑے ہیں۔ جو در اصل القرآن الفرقان کی آیات کی تفسیر معلُوم ہوتے ہیں۔
''۔۔۔۔۔۔ اور یوں کہنے کے باعث کہ ہم نے اللہ کے رسول مسیح عیسیٰ ابنِ مریم کو قتل کر دیا حال آں کہ نہ تو اُنھوں نے اُسے قتل کِیا نہ سُولی پر چڑھایا بل کہ ان کے لیے ان (عیسیٰ) کا شبیہ بنا دیا گیا تھا۔ یقین جانو کہ عیسیٰ کے بارے میں اختلاف کرنے والے ان کے بارے میں شک میں ہیں، اُنھیں اِس کا کوئی یقین نہیں بجُز تخمینی باتوں پر عمل کرنے کے اتنا یقینی ہے کہ اُنھوں نے اُنھیں قتل نہیں کِیا۔
بل کہ اللہ نے اُنھیں اپنی طرف اُٹھا لیا اور اللہ بڑا زبردست اور پوری حکمتوں والا ہے''۔
القرآن۔۔۔۔۔۔157-158:4
جو بات قرآن نے بتائی اس کی جُگالی انجیلِ برنباس میں کر لی گئی۔ سونے کے تیس سِکّوں کے حرص میں یہودہ خُداوند یسُّوع مسیح اقدس سے دغا کر گیا، مخبری کی اور پیادوں کے ہاتھ سے اُسے پکڑوا ہی دیا ہوتا کہ خُداوند نے خطرے کی بُو سُونگھ لی اور خوفزدہ ہو کر اُس نے ایک گھر میں جا پناہ لی اور کرنا خُدا کا یہ ہُوا کہ باقی کے گیارہ کے گیارہ شاگردانِ رشید کو عین اُس لمحے گہری نیند نے آ لیا، سب سوئے رہ گئے۔ خُدا نے اپنے چاروں مقرّب فرشتوں جبرائیل، میکائیل، رفاعیل ، یورئیل(Uriel)کو حُکم دیا کہ وہ ُخداوند یسُّوع پاک کو دُنیا سے لے آئیں۔ جنوبی کِھڑکی کی جانب سے اُسے فرشتے اُڑا لے گئے اور پلک جھپکنے میں تیسرے آسمان پر پہنچا دیا جہاں وہ بھی موجُود فرشتوں کے ہمراہ خُدا کی حمد و ستایش کرنے لگا۔
جب خُداوند اقدس یسُّوع مسیح خُدا کی نُصرت سے صلیب چڑھانے والوںسے بچ گیا اور دِکھائی دینے کے حساب سے اور بولنے کے انداز میں یہودہ بھی ہُو بہ ہُو یسُّوع مسیح کی شکل و صُورت ہو گیا تو لوگ بھی یہی سمجھنے لگے کہ وُہ واقعی یسُّوع المسیح ہے حال آں کہ وہ چیخ چیخ کے بتاتا رہ گیا کہ مَیں یسُّوع نہیں ہُوں، مَیں یسُّوع نہیں ہُوں۔ اُ س نے ساری آپ بیتی بتانے کی کوشش کی۔ اوّل تو کوئی سُنتا ہی نہیں تھا، جو سُنتے تھے وُہ یقین نہ کرتے تھے۔ سپاہی یہودہ کو لے گئے اور مُشکیں کَس کر قیدی بنا لیا۔ کاہنِ اعظم کے حُضُور اُس کی پیشی ہوئی۔ شک والی بات ہی نہ رہی تھی، سبھی کی نگاہوں میں وُہ وُہی تھا جو خُدا نے اُسے اب بنا دیا تھا۔ نیا شریر، نیا روپ، نئی آواز، نئی شخصیت۔ خُداوند یسُّوع مسیح اقدس بھی اُسے دیکھتا تو اپنے آپ پر دھوکا کھا جاتا۔سب کو یقین تھا کہ اُن کے سامنے یسُّوع مسیح ناصری ہی کھڑا ہے۔ اُس کی حقیقی والدہ، اُس کے دوست، شاگرد سبھی یہی جانتے تھے کہ مُقدّس خُداوند یسُّوع مسیح نے گرفتاری دے دی ہے اور اب سردار کاہن کے سامنے پیشی بھُگت رہا ہے۔ یہودہ کی کہانی پر کوئی غور ہی نہ کر رہا تھا۔ سردارِ کاہنان، بزُرگ، معزّزین، فُقہا اور فریسی سب کا مُتفّقہ اقبال تھا کہ یہ شخص ناصرت کا رہنے والا یسُّوع مسیح ناصری ہی ہے۔ بات تو وُہی تھی کہ الٰہی عدالت سے فیصلہ آ چُکا تھا کہ یہودہ کو سُولی چڑھنا ہی چڑھنا ہے۔ جس صلیب پر وُہ کِسی اور کو مصلُوب ہوتا دیکھنا چاہتا تھا، اس صلیب پر قادرِ مُطلق نے اُس کی اپنی موت لکھ دی تھی، لاکھ در فنتنیاں لگاتا، چیختا چِلّاتا، مِنّت و زاریاں کرتا، فریاد ہے فریاد ہے! دُہائیاں دیتا۔ آسمان نے زمین پر ہی اُس کے عذاب کا بندوبست کر دیا تھا۔ وہ دغا دینے نکلا تھا، اس کے اپنے ساتھ ہاتھ ہو گیا۔ (vgl. RR, CCXVII/478).
یہودہ کو اذیّتوں سے گذرنا پڑا، توئے توئے الگ ہوئی، مذاق اُڑایا گیا، کیل ٹھونکے گئے، مصلُوب کر دیا گیا، اُس نے پُکار دی: اوہ خُدا۔۔۔۔۔۔ خُدایا! تم نے بھی میرا ساتھ چھوڑ دیا!۔۔۔۔۔۔ (عہد نامہء جدید میں بھی یہی الفاظ ہیں: My God, why hast thou forsaken me? (RR,CCXVII/480)
اور پھر صلیب پر ہی یہودہ کی رُوح قفسِ عُنْصُری سے پرواز کر گئی۔
تب، تب یہ ہُوا کہ چند شاگردانِ یسُّوع پاک نے راتوں رات یہودہ کی لاش صلیب پر سے غائب کی اور دُور لے جا کر اُسے دفن کر دیا اور پِھر ڈھنڈورا پیٹتے پھرے کہ خُداوندِ اقدس یسُّوع مسیح مر کے اُٹھ بیٹھا اور وُہ زندہ ہے اور اُنھی دِنوں یہ بھی مشہُور ہو گیا کہ مُقدّس خُداوند کو اُٹھا لیا گیا ہے۔ دونوں افواہوں سے عجب تھرتھلّی سی مچ گئی، کہِیں قیاس جمتا ہی نہ تھا کہ کیا ہو رہا ہے۔ کاہنِ اعظم کا حُکم تھا کہ افواہوں کو دبا دیا جائے، جو شخص افواہوں کو ہَوَا دے، کُچل دیا جائے۔
اگلے باب میں تصدیق سامنے آتی ہے کہ مُقدّس خُداوند یسُّوع المسیح کوتیسرے آسمان پر پہنچا دیاگیا تھا۔ نوعی حیثیت سے اس نے خُود بھی توثیق کر دی کہ اُس کی موت واقع نہیں ہوئی۔ خُداوند یسُّوع نے پِھر اپنی بے تقصیری پر زور دیا اور یقین دِلانے کی سعی کی کہ اُس نے اپنے بارے میں یہ کبھی نہیں کہا کہ وُہ خُدا کا بیٹا ہے ورنہ تو روزِ حساب شیطان اور اُس کے چیلے اُس کا تمسخر اُڑاتے، یہ اُسے منظُور نہ تھا۔ اُس نے کہا، یہ تو لوگوں کا ایمان ہے کہ وُہ خُدا ہے اور خُدا کا بیٹا۔ یہ تو خُداے پُرجلال کا فیصلہ تھا کہ اِس دُنیا میں خُداوند یسُّوع مسیح سمجھ کر اُس پہ فقرے کَس رہے تھے۔ یہ طعن و تشنیع، دُشنام و استہزا تب تک جاری رہنا تھا جب تک حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم رسالت کا بوجھ اُٹھا کر اپنی نبوت کا اعلان نہ کر دیتے۔ (حوالہ کے لیے دیکھیےRR, CCXX/484)
یہودہ کی حُکم برداری میں برنباس نے اپنی انجیل لکھی کیوں کہ اس نے زُبان دے دی تھی اور وُہ اپنے وعدے پر پُورا اُترا۔ انجیلِ برنباس میں مُقدّس خُداوند یسُّوع المسیح اپنے شاگردوں کو ایک مرتبہ اور اعتماد میں لیتا ہے، یہ یقین دِلا کر کہ صلیب پر اُس کی موت نہیں ہوئی۔ وُہ نہ مرا، نہ زندہ ہُوا، تھا ہی زندہ، اس کی جگہ جو صلیب پر چیخا چِلّایا، مصلُوب ہُوا، وہ یہُودہ تھا۔ یہُودہ اسخریوطی۔ مُلاحظہ ہو (RR, CCXXI/486)
5۔ انجیلِ برنباس کو ہم اسلامی انجیل کا نام دے سکتے ہیں کیا؟
انجیلِ برنباس پر اسلامی سُوچ، اسلامی فکر اور مُسلم عقائد کے رنگ چڑھے ہوئے ہیں۔ اِس کتاب کا مُطالَعہ کرتے ہوئے بار بار آپ کا دھیان قرآن و حدیث اور اسلامی تاریخ و روایات کی طرف موڑ کاٹ جاتا رہے گا۔ اس میں بھی کوئی مصلحت درپیش ہو گی کہ اس میں اسلام کا تو براہِ راست نام لینے سے گُریز کِیا گیا ہے، البتہ پیغمبرِ اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے منسُوب بہُت سے اقوال دُہرائے گئے ہیں۔مضبوط حوالہ جات درج ذیل ہیں:
انجیلِ برنباس فریسیوں کے ذریعے بائبل مُقدّس کے عہدِ عتیق کے بارے میں کہتی ہے کہ اس میں بڑی غلط بیانیوں کا سہارا لیا گیا اور الزام لگاتی ہے کہ کلامِ اقدس ردّو بدل کا شاہکار ہے۔ یہ انسانی خطا ہے جو شُرُوع ہو جائے تو بڑھتی ہی چلی جاتی ہے۔ اِس لیے تمام دیگر اناجیل ہمارے پاس بگڑی حالت میں موجُود ہیں۔ (CLXXXIX/424)
بہُت سے نبیوں کو انجیلِ برنباس میں پُورے وثُوق کے ساتھ پیغام بر (پیغمبر) کا درجہ دیا گیا ہے۔ مثلاً انبیا کرام جیسے۔۔۔۔۔۔ آدم، ابراہیم، اسمٰعیل،، موسیٰ، داؤد بادشاہ اور یسُّوع اِبنِ مریم۔ اسلامی کلمہ تو ہمہ وقت نبی باوا آدم کی زُبان پر رہتا تھا۔
انجیلِ برنباس کے ہاں تاریخ کا پہیّا غلط رُخ یُوں گھوما ہے کہ خُداوند ِ پاک یسُّوع مسیح کی دُنیا میں آمد کی خوشخبری برنباس کی انجیل کے مُطابِق سب سے پہلے نبی اسمٰعیل کو پہنچائی گئی، حال آں کہ یہ خبر پہلے پہلے نبی اسحق کو دی گئی تھی۔ یہ انجیل کہتی ہے کہ نبی اسحق کی قربانی نہیں دی گئی تھی بل کہ نبی ابراہیم نے اپنے بیٹے اسمٰعیل کی گردن پر خُدا کے حُکم سے چھُری چلا دی۔
مُقدّس یسُّوع مسیح نبی داؤد بادشاہ کی لڑی (شجرئہ نسب) کا فرزند نہیں۔ مُقدّسہ مریم اور یُوسُف کو خُدا کی طرف سے ہدایتِ خاص تھی کہ وُہ یسُّوع پاک کو شراب سے دُور رکھیں۔ تیز نشہ آور مشروب اور حرام گوشت اُس کے پیٹ میں نہ جائیں۔ سؤر سے خاص پرہیز کِیا جائے۔جہاں بنی اسرائیل آباد تھے، یسُّوع اِبنِ مریم بس وَہِیں کے لیے فرستادہ تھا۔ جب اس پر 30سال کی عُمر میں ہی الہام ہونے لگے، نُور کے ایک ہالے نے اُس کا حصار کر لیا اور اس کی عبادت و دُعاے نیمروز میں فرشتے بھی شریک رہنے لگے۔ اسی اثنا میں خُدا کے مُقرَّب فرشتے جبرائیل نے خُداوند یسُّوع پاک کو ایک الہامی کتاب دی جو اُس کے دِل میں اُتر گئی، اسے کِسی دُنیاوی کتاب کی ضرورت نہ رہی۔
انجیلِ برنباس یہ بھی ''فرماتی '' ہے کہ یسُّوع پاک نے ہمیشہ اپنے درجہ پر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا درجہ ارفع و بالا رکھا اور اپنے آپ کو اس اعزاز کا مستحق بھی نہ جانا کہ کبھی اُن کے پیزار کے تسمے ہی کھول پاتا۔ مُقدّس خُداوند یسُّوع مسیح نے اس آنے والے آخری نبی کی آمد کی پیش گوئی کی۔ او ریُوں محسوس ہوتا ہے کہ گویا خُداوندِ پاک نے مُقدّس یوحنّا کا کردار جیسے اوڑھ لیا، وُہ جسے کہتے ہیں کہ گھوٹ گھول کے پی لیا، خُداوند یسُّوع اقدس نے نئے عہد نامہ کے اس مثالی کردار میں اپنے آپ کو جذب کر لیا۔ ڈھل گیا اس میں۔ خُداوند نے اپنے نبیِ آخر الزماں کے آنے کا پیشگی اعلان کِیا، حتّٰی کہ نام بھی بتا دیا اور خُداے سمیع و بصیر سے التجا کی، اسے جلد مبعُوث فرما!
ا کہ دُنیا میں امن ہو، نجات ہو، اس کی بلائیں اور وبائیں دُور ہوں۔
اناجیلِ مُقدّس میں پاک خُداوند یسوع المسیح کے مصلُوب کیے جانے کے مُتفِقّہ طور جو حالات اور تفصیلات موجود ہیں وہ اس مصلوبیتِ یہودہ سے ظاہر میںبالکل ہی مختلف ہیں جن کی تفصیل برنباس کی انجیل سامنے لائی۔ قرآن شریف میں جس طرح اِس سانحہ کا ذِکر کِیا گیا تطابق میں انجیلِ برنباس اس کے بہُت قریب پائی گئی۔
''اور اُن کے کُفر پر، اور مریم پر بڑا طُوفان بولنے پر، اور اس کہنے پر، کہ ہم نے مارا مسیح عیسیٰ مریم کے بیٹے کو، جو رسول تھا اللہ کا، اور نہ اُس کو مارا ہے اور نہ صلیب پر چڑھایا، و لیکن وُہی صُورت بن گئی اُن کے آگے۔ اور جو لوگ کئی باتیں نکالتے ہیں، وُہ اس جگہ شُبے میں پڑے ہیں۔ کُچھ نہیں اُن کو اس کی خبر مگر اٹل پر چلنا، اور اُس کو مارا نہیں بے شک۔
بل کہ اُس کو اُٹھا لیا اللہ نے اپنی طرف، اور ہے اللہ زبردست حکمت والا''۔
القرآن۔۔۔۔۔۔4:156تا158
قرآن کہتا ہے کہ اُس کو نہیں، اُس جیسے کِسی کو مصلُوب کِیا گیا۔
وُہ کیا ہے کہ انجیلِ برنباس شُرُوع سے ہی مسیحی توضیحات پیش کرنے کے سلسلے میں بڑے معذرت خواہانہ رویے کو اختیار کرنے کی روادار رہی ہے۔ یہی دیکھیے کہ جب اس طرف اشارہ کِیا جاتا ہے کہ مُقدّس رسول پولوس بعض مسیحی اُصُول و قواعد کے مُعاملے میں ٹھوکر کھا گیا، راہِ راست سے قدرے بھٹک گیا تھا۔ مثال کے طور پر برنباس اِس بات کا رونا روتا ہے کہ اُسے ورغلانے یا اِس طرف راغب کرنے میں پولوس رسول ذمہ دار ہے تا کہ اس امر پر ایمان لے آیا جائے کہ خُداوند یسُّوع مسیح اقدس ہے ہی خُداکا بیٹا۔
6۔ انجیلِ برنباس کی بہُت سی باتوں سے قرآن کی بھی نفی ہوتی ہے
ایک یہ بھی صُورت ہے کہ اس انجیل میں بہُت سے ایسے بیان بھی سامنے آتے ہیں جو قرآن کے اور بائبل کے بھی نِکات سے ٹکرا جاتے ہیں، بالکل ان کی ضد ہوتے ہیں۔
مثلاً یہی تفصیلچہ ہی لیجیے جو دوزخ کے بارے میں ہے۔ گنہگاروں، عاصیوں، مشرکوں اور کفّار کے لیے جہنّم کو ایک عارضی ٹھکانا بتایا گیا ہے۔ اور پھر قرآن کے برعکس حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے مسیحا ہونے پر تکرار پر تکرار۔ انجیلِ برنباس مختلف جگہوں پر مقدس خُداوند یسُّوع کے المسیح ہونے کا صریح انکار کرتی ہے۔پاک خُداوند کا نجات دہندہ ہونا، مُکتی داتا ہونا اِسے خوش نہیں آتا اور ساتھ کے ساتھ یُوں بھی ہے کہ شاید اسے (برنباس کو) پتا نہیں تھا کہ کرائسٹ کا مطلب ہی مسیح ہوتا ہے، وُہ خُداوند پاک کو کرستو کرستو بھی کہتا، لکھتا رہا۔ عبرانی میں جو اسم المسیح، نجات بخش کے لیے اور ممسوح، مسح کردہ کے لیے تھا، جب یونانی زُبان میں ترجمہ ہوا تو کرستو کہا گیا۔ یا یہ ہے کہ جب اس کے اندر کی آواز باہر نکلی تو المسیح(Messiah)لاشعوری طور پر اس کے اعتراف میں شامل ہو گیا۔ مسیح ہی ابنِ مریم ہے، مسیح ہی ابنِ آدم ہے اور مسیح ہی ابنِ خُدا ہے اور خُدا ہے جو ابنِ آدم بن کر آیا، اس لیے مسیح ہی خُدا ہے۔
قرآن شریف میں ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدایش یروشلم میں ہوئی، انجیلِ برنباس کہتی ہے بیت اللحم میں وُہ پیدا ہُوا۔ قرآن کے لحاظ سے وُہ کھجور کا درخت تھا جسے یہ فضیلت مِلی کہ اُس کے پاس خُدا کا محبوب پیغمبر پیدا ہُوا، موسیٰ کلیم اللہ تھا تو وُہ رُوح اللہ۔ انجیلِ برنباس میں ہے کہ مُقدّس خُداوند یسُّوع مسیح نے ایک سراے میں جنم لیا۔ سورۃ مریم میں قرآن بتاتا ہے کہ کنواری ماں بی بی پاک مریم دردِ زدہ میں مبتلا رہیں:
''پھر دردِ زہ اُسے ایک کھجور کے تنے کے نیچے لے آیا، بولی، کاش! مَیں اِس سے پہلے ہی مر گئی ہوتی اور لوگوں کی یاد سے بھُولی بِسری ہو جاتی!''۔
القرآن۔۔۔۔۔۔23:19
لیکن انجیلِ برنباس میں اس عابدہ، زاہدہ خاتونِ مُقدّس کے بارے میں اس موقع کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ اس نے مُبارک بچّے کی پیدایش پر کوئی درد ہی نہ محسوس کِیا۔
قرآنِ کریم میں ہے کہ آسمان اُوپر تلے سات ہیں:
''وُہ اللہ جس نے تمھارے لیے زمین کی تمام چیزوں کو پیدا کِیا، پِھر آسمان کی طرف قصد کِیا اور ان کو ٹھیک ٹھاک سات آسمان بنا دیا اور وہ ہر چیز کو جانتا ہے''۔
القرآن۔۔۔۔۔۔29:2
(بعض سلفِ اُمّت نے اس کا ترجمہ''پھر آسمان کی طرف چڑھ گیا'' بھی کِیا ہے)
برنباس کی انجیل آسمانوں کی کُل تعداد9بتاتی ہے۔ دسواں آسمان بہشت ہے۔
انجیلِ برنباس ایک خاوند کی ایک بیوی کی تائید کرتی ہے مگر مسلمانوں کی اکثریت سورۃ النّساء کا سہارا لیتی ہے:
''اگر تمھیں ڈر ہو کہ یتیم لڑکیوں سے نکاح کرکے تم ا نصاف نہ رکھ سکو گے تو اور عورتوں سے جو بھی تمھیں اچھّی لگیں تم اُن سے نکاح کر لو، دو دو، تین تین، چار چار سے، لیکن اگر تمھیں برابری نہ کر سکنے کا خوف ہو تو ایک ہی کافی ہے یا تمھاری ملکیّت کی لونڈی یہ زیادہ قریب ہے (کہ ایسا کرنے سے ناانصافی نہ ہو اور) ایک طرف جھُک پڑنے سے بچ جاؤ''۔
القرآن۔۔۔۔۔۔3:4
مساوات و انصاف کی شرط پر وُہ ایک سے زیادہ بھی شادیاں کر سکتے ہیں، مگر چار تک کی حد ہے۔
7۔ انجیلِ برنباس ۔۔۔۔۔۔معروضی اغلاط
برنباس کی انجیل میں یہ اعتراف موجُود ہے کہ اس میں بہ احتیاط ضروری ردّو بدل کِیا گیا ہے۔ اگر برنباس مُقدّس خُداوند یسُّوع المسیح کا ہمعصر ہوتا تو نیا عہد نامہ کبھی مُکمَّل نہ ہو پاتا۔ چناں چہ ہم کہہ سکتے ہیں کہ اس کی لکھی انجیل نے پہلے ہی پتا دے دیا تھا کہ اس پر کیا گذرے گی یا گذرنے والی ہے۔
مزید برآں یہ کہ اس انجیل میں جُغرافیائی اور تاریخی غلطیوں کی جو بھرمار ہے وہ گواہ ہیں کہ اس کا خالق نہ کبھی فلسطین گیا، نہ اس کے محلِّ وقوع سے ہی پوری طرح شناسا ہے اور یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ خُداوند یسُّوع المسیح کے بعد پہلی صدی بھی شاید اسے دیکھنا نصیب نہ ہوئی ہو گی۔
انجیلِ برنباس میں ناصرت کو ایک گانو بتایا گیا ہے جو جلیل کی جھیلکے کنارے آباد ہے۔ نہ۔ نہ نہ ناں، ناصرت تو پہاڑ کی چوٹی پر واقع تھا۔اس انجیل میں ذکر ہے کہ پاک خُداوند یسُّوع المسیح جلیل جھیل پر سے ہوتا ہُوا کفر نحوم پہنچا۔ جب کہ کفر نحوم جھیل کے کنارے کنارے کی مسافت پر اسی طرف ہی واقع ہے جس طرف ناصرت اور دوسرے قصبے اور شہر موجُود تھے۔ انجیل یہ بھی کہتی ہے کہ خُداوند یسُّوع ایک بڑی کشتی میں سوار ہو کر یروشلم جا اُترا۔ یروشلم بھی ساحل سے دُور وسطِ ملک میں واقع ہے۔ ریگستان کا جہاز تو شہر تک جا پہنچے توجا پہنچے، پانی کا جہاز خشکی پر کیوں کر تیرا؟ ایسا ہی مغالطہ نینوا کے بارے میں یہ کہہ کر ڈالا گیا ہے کہ یہ شہر ساحلِ بحیرئہ روم پر واقع ہے حال آں کہ یہ شہر سمندر کے کنارے نہیں، دریاے دجلہ پر آبا دہے۔
اسی طرح مُقدّس خُداوند یسُّوع کی تاریخِ پیدایش جو برنباس انجیل نے دی ہے، وہ نامطابق ہے پنطوس پلاطوس کے دورِ گورنری کے جب اس نے خُداوندِ اقدس کی موت کا پروانہ جاری کِیا تھا، نہ دمشق میں رہنے والے شاگرد حنن یاہ کے وقتوں کے اور نہ ہی سردار کاہن قیافا کے زمانہ کے ارد گرد کی تاریخ ہے۔ یہ انجیل کتنا غلط حساب بتا رہی ہے کہ اس کے مُطابِق فلسطین میں موجُود رومی سپاہ کی نفری پچاس لاکھ تھی۔ پہلی صدی عیسوی میں اِتنی بڑی تعداد فلسطین میں تو ہرگز نہیں سما سکتی، البتہ پوری سلطنتِ روم کی فوج اس شمار میں آ سکتی ہے، وُہ بھی شاید۔بائبل مُقدّس کے عہدِ عتیق میں فریسیوں کی تعداد سترہ ہزار انجیلِ برنباس میں تحریر کی گئی ہے۔ جب کہ دُوسری صدی قبل مسیح تک تو فریسیوں کی قوم بساطِ عالم پر ظہُور پذیر ہی نہ ہوئی تھی۔
یورپ کے موسمِ گرما پر اس انجیل کا تبصرہ بہُت ہی غلط ہے۔ اس میں لکھا ہے ہر شجر ثمر بار ہے۔ (RR, CLXIX/390)۔ وہاں تو سردیوں میں بارشیں ہوتی ہیں۔ گرمیوں میں تو خشک سالی عروج پر ہوتی ہے۔
8۔انجیلِ برنباس ۔۔۔۔۔۔قرائن سے تو قرونِ وسطیٰ ہی زمانہء تحریر بنتا ہے
اسلامی عقائد و نظریات سے کافی حد تک مُطابقت دِکھائی دیتی ہے، لیکن اس سے ہٹ کر بھی اگر غور کِیا جائے تو فلسطین کی اصل تاریخ اور اس کی جُغرافیائی صداقتوں سے یہ انجیل بڑے تضادات اور خاصی ناموافقتیں رکھتی ہے۔ زیادہ تر حالات وواقعات پر اٹھارھویں صدی کے آغازِ دور یا اس سے تھوڑا پہلے کے زمانہ کی چھاپ نظر آتی ہے۔ اس کے اکثر مآخذ یعنی ذرائع بھی مشکوک ہیں۔ ایسے بہُت سے مظاہر، مثالیں اور اشارات سامنے آتے ہیں کہ اپنے متن کے لحاظ سے جن میں انجیلِ برنباس اس نُقطہء نظر کی تحسین کرتی دِکھائی دیتی ہے کہ عین ممکن ہے اسے قرونِ وسطیٰ کے آخری حصّہ یعنی چودھویں صدی آخر اور سولھویں صدی کے شروع زمانہ یا درمیانی عرصہ میں تحریر کِیا گیاہو۔ ایک قیاس زیادہ مضبُوط محسوس ہوتا ہے جو بہُت ہی امثلہ کے پیشِ نظر صحیح بھی ہو گا کہ کُچھ ہو، جس بھی صدی میں یہ انجیل لکھی گئی ہو، اپنے مواد کے لحاظ سے یہ ضرُور ہے کہ مُقدّس خُداوند یسُّوع المسیح کے اِس دُنیا سے انتقال کے بعد کے پہلے پہلے سو سالوں میں یہ احاطہء تحریر میں ہرگز ہرگز نہیں آئی۔
جدید دور کے سال 1907عیسوی میں اس انجیل کا پہلا ایڈیشن چھاپنے والے ''لانسڈیل اینڈ لارا رگّ پبلشرز'' نے بعض ممتاز متشابہات کی طرف توجُّہ مبذُول کروائی ہے۔ اُنھیں اِس انجیل کا طرزِ تحریر، اُسلُوب، معروف و مقبُول عظیم اطالوی شاعر دانتے (1265-1321عیسوی) کے تمثیلاً یعنی پیرایہء مجازیہ میں ڈھلے تخلیقی کام کے متوازی نظر آیا ہے۔ مثلاً دی ڈیوائن کامیڈی (La divina commedia)سامنے رکھیے اور خاص طور پر دانتے کے جو خیالات ہیں آسمان کے بارے میں، جہنّم اور بہشت کے بارے میں ان کا موازنہ کیجیے،انجیلِ برنباس کے ایسے موضوعات سے آپ کو حیران کُن مماثلت ملے گی۔ لانسڈیل، رگ مگر اِس امر کے قائل نظر آتے ہیں کہ ایک کتاب دُوسری سے تو متاثر ہو کر نہیں لکھی گئی لیکن یہ الگ بات کہ بہُت ہی ملتے جُلتے ماحول و فضا میں بیٹھ کر لکھی گئی ہوں۔
مابعد کی تحقیقات اِس نتیجے پر پہنچی ہیں کہ انجیلِ برنباس سولھویں صدی تک کے زمانہ میں کبھی لکھی گئی تھی۔ کب؟ مطلقاً طے کرنا مشکل ہے۔
برنباس کی انجیل جس راہبانہ و خانقاہی طرزِ زندگی کے حق میں نظر آتی ہے وہ یقینا قرونِ وسطیٰ کے زاہد و عابد راہبان و راہباؤں کے طرزِ حیات کی یاد تازہ کردینے میں پیش پیش ہے۔ کئی مواقع پر یکا یک انجیل کا مُوڈ بدلتا ہے اور ہنسنے قہقہے لگانے کو گُناہ کی حد تک معیُوب قرار دیتے ہوئے سرزنش پر اُتر آتی ہے۔ البتہ عرقِ انفعال کے قطرے، ندامت سے جھُکی آنکھوں سے چھلکتے مُصَفّا آنسُو اور کِسی کی ہمدردی و غمگُساری میں بہائے گئے اشک اسے راس آتے ہیں اور رونے کی ترغیب یُوں حوصلہ افزائی کرتے ہوئے دیتی ہے کہ رونا تو روحانی زندگی کے لیے تازگی کی مشق ہے۔ (حوالہ کے لیے مُلاحظہ فرمائیے: آرآرCII/236)
ایک دِلچسپ بات آپ سے شیئر کروں؟۔۔۔۔۔۔ وہ کیا ہے کہ یہ جو انجیلِ برنباس ہے نا، اِس میں انجیلِ مُقدّس کی مُبارک آیات بغیر کِسی تحریف کے مِن و عن شامل کی گئی ہیں۔ قابلِ توجُّہ امر یہ ہے کہ چوتھی صدی کے اخیر تک اس مستند بائبل مُقدّس کا تو کہِیں نام و نشان تھا نہ ذِکر اذکار۔ یہ تو بعد کے زمانہ میں باضابطہ طور پر کیتھولک مسیحی بائبل قرار دی گئی تھی۔ اس سے یہ بات بھی پایہء ثبوت کو پہنچی کہ یہ غلط دعویٰ ہے کہ انجیلِ برنباس سے یہ بات بھی پایہء ثبوت کو پہنچی کہ یہ غلط دعویٰ ہے کہ انجیلِ برنباس بہُت پہلے لکھی گئی تھی۔ چوتھی صدی کے اختتام تک تو وُہ مُقدّس انجیل بھی سامنے نہ آئی تھی جو مصدّقہ و مستند تھی اور اس کی باتوں، آیات کے حوالے برنباس کی محررہ کتاب میں حرف بہ حرف ملتے ہیں۔
برنباس کی انجیل میں کہا گیا ہے کہ پاک خُداوند یسُّوع المسیح اور اُس کے رسولوں نے چالیس دِنوں والی روایت جاری رکھی (بحوالہRR, LIV/128)۔مبارک ایسٹر سے پہلے روزوں سے متعلق یہ چالیس دِن کی رِیت بھی چوتھی صدی عیسوی تک رائج نہ ہو پائی تھی، اس لیے پاک خُداوند کی حیاتِ مبارکہ میں یہ روزے کیوں کر رکھے گئے۔ جب کہ کہا گیا ہے یہ روزے در اصل یاددہانی تھی تمام مسیحیوں کے لیے اُن تمام اذیّتوں اور مصائبِ مسیح کی جو اُس نے اپنی اُمّت کے لیے اور خُدا باپ کی رضا کی خاطر صبر و شکر کے ساتھ برداشت کیں، حتّٰی کہ مصلُوب ہونا بھی قُبُول کر لیا تا کہ اپنے پیروکاروں کے لیے جوازِ نجات بطور فدیہ خُدا کی بارگاہ میں قُبُول کیے جانے کے لیے نذر گزارے۔ سب ٹھیک مگر ملحُوظِ خاطر رہے کہ انجیل یہ سب کُچھ اُس وقت کہہ رہی ہے جب خُداوند خُدا ابھی زندہ تھا۔ اس کے مرنے سے پہلے ایسٹر کہاں سے آ گیا؟ روزوں کے ساتھ منسلک یاددہانی اور روزوں کے اجرا میں چار سو سالوں کا بُعد ہے۔
اس انجیل میں سونے کے سِکّے کا ذِکر بھی دَر آیا ہے۔ دیناری جو ساٹھ مِنَوتی کی ہوتی ہے۔ (RR, LIV/128)۔ قرونِ وسطیٰ کے زمانے میں مختصر مختصر عرصہ کے لیے یہ سِکّہ رائج ہُوا تھا، وہ بھی مُلکِ ہسپانیہ (سپین) میں۔ یہ بات دلیل بن گئی بعد کی تحقیق کے اس دعوے کی کہ انجیل برنباس لکھی ہی سپین میں گئی تھی۔شراب ذخیرہ کرنے کی مد میں اس انجیل میں مذکور ہے کہ لکڑی کے ڈھول نما ڈرم (بیرل) اس دور میں مستعمل تھے۔ غلط ہے۔ مشرقِ وسطیٰ میں چمڑے کے مشک نما تھیلے اِس مقصد کے لیے استعمال میں تھے۔
مسلمانوں کی مذہبی کتاب قرآن کے برعکس انجیلِ برنباس دعوے سے کہتی ہے کہ (مُقدس کنواری ماں) مریم کے ہاں جب بچّے کی پیدایش ہوئی تو وہ دردِ زہ میں مبتلا نہ ہوئی تھیں۔اس روایت نے بہُت بعد کے زمانہ (قرونِ وسطیٰ) کی کلیسیا میں رواج پایا تھا، تب سے میڈِیوَل چرچ کی تعلیمات کا حصہ بنی۔
خیرات کے سلسلے میں انجیلِ برنباس میں اس کی اہمیت پر بہُت زور دیا گیا ہے، اسی طرح روزوں، یاتر ا(زیارت) اور پانچ وقتہ روزانہ کی عبادت کی بھی پُرزور تلقین کی گئی ہے کیوں کہ خُداوند یسُّوع پاک بھی ان کی پابندی کرتا تھا (اگر آپ کو کوئی شک تنگ کرے ہے تو تسلّی کر لیجیے RR LXXXIX/206 میں آپ کوسب کُچھ لکھا ملے گا)اس سے یہی اشارہ مِلتا ہے کہ انجیلِ برنباس اس کا رزارِ ہستی پر طُلُوعِ اسلام کے کُچھ ہی عرصہ بعد تخلیق کی گئی ہے۔
جنّت الفردوس میں ثمرِ ممنُوعہ یہ انجیل بتاتی ہے کہ سیب تھا۔(RR, XXXIX/90)۔ جب کہ توریت مُبارک میں اس پھل کا نام نہیں دیا گیا۔ اور رہا سیب کا ذِکر تو اس نے کافی بعد کے زمانہ میں کلیسیا کی تاریخ میں جگہ پائی تھی۔
یہ اور ایسی کئی مدّات مضبُوط بنیاد قائم کرتی ہیں جس پر انجیلِ برنباس کے اکثر غیر مسلم مفسرین و مبصریں اس کے مسودّے کو بہُت پیچھے کی صدیوں میں لکھے جانے سے احتراز کرتے ہوئے، بہُت بعد کی صدیوں میں لکھے جانے پر صاد کرتے ہیں۔ کلیسیا کی تاریخ کے ابتدائی زمانہ میں بھی اس متنازع انجیل کا کوئی ذِکرِ خیر نہیں مِلتا۔
9۔ دُنیاے اسلام میںانجیلِ برنباس کی پذیرائی
وُثُوق سے کُچھ نہیں کہا جا سکتا کہ وُہ مسلم دانش ور کون تھا جِس نے سب سے پہلے انجیلِ برنباس کی شان میں قصیدے پڑھے یا کہِیں اس کا کِسی سطح پر کوئی حوالہ ہی دیا۔ اُنیسویں صدی کے بیچوں بیچ ایک شہادت سامنے آئی کہ ایک مسلمان عالمِ علمِ مناظرہ نے اس انجیل کے حوالے سے کوئی دلیل قائم کی تھی۔ اس کے بعد عُلماے علمِ مناظرہ کے ہاں یہ کتاب اتنی مقبول ہوئی کہ بال کی کھال اُتارنے والے اس کے حوالوں سے روٹی روزی کمانے اور بچّے پالنے لگے۔ ان سب کا سارا زور اس پر تھا کہ وُہ کِہ و مِہ سے منوا لیں کہ یہ انجیل پہلی صف کے بندے نے، ابتدائی اناجیلِ مُقدّس کے آس پاس کے زمانے میں کہِیں، کافی حد تک تبدیلیوں سے مبرّا اور غلطیوں سے پاک لکھ کر اتنی مقبول و معروف کر دی کہ بیسٹ سیلرز میں آ کر یہ کتاب ہاتھوں ہاتھ کہِیں کی کہِیں پہنچ گئی، چناں چہ اب اس کے ایک آدھ نسخے کے علاوہ موجُودگی کہِیں ثابت ہی نہیں۔ سب نسخے لوگ لے اُڑے یہ انجیل دِینِ اسلام کی سچّائی کے ثُبُوت فراہم کرتی ہے، اُن کے نبی کے بارے میں بڑی واضح پیشین گوئیاں کرتی ہے۔ بریں بِنا مسلمانوں کے ہاں اسے اولین انجیل شمارکِیا جاتا ہے۔ اس ضمن میں ہم محمد راشد رِضاMuhammad Raschid Rida (1865-1935عیسوی)کا نام لیں گے۔ یہ محمد راشد مُصلح، عالمِ دِین اور بہُت جَیَّد قسم کے مناظر تھے۔ عالمی شہرت کے مالک، ماہرِ علمِ الٰہیات، دِینِ اسلام پر اتھارٹی جناب محمد عبدہ' (1849-1905عیسوی) محمد راشد رضا کے اُستادِ محترم تھے۔انجیلِ برنباس اسلامی دنیا میں پھیلا دینے کے سلسلہ میں شاگرد کا مرکزی کردار یُوں کامیاب رہا کہ اُنھوں نے بالمعاوضہ خدمات حاصل کر کے اسے 1907عیسوی میں عربی ترجمہ کروا کے مطالعہ کرنے والوں کے سارے دلدر دُور کر دیے۔ اسی سال ہی اس انجیل کا انگریزی میں ترجمہ شدہ پہلا ایڈیشن ایل اینڈ ایل رگ پبلشرز نے چھاپ دیا اور انجیلِ برنباس کے حق میں انتہائی مؤثِّر ایک ریویو بھی کتاب کا حصہ بنا دیا۔ محمد راشد رضا کی اس انجیل میں دلچسپی سمجھ آنے والی بات ہے۔ آپ سرکار تو پہلے ہی مسیحیوں اور مسیحیت پر اسلام کی فضیلت، برتری اور فوقیت ثابت کرنے کو چیلنج بنا کر میدانِ مناظرہ میں ایک عرصہ سے خیمہ زن تھے، اُوپر سے یہ انجیل کہِیں سے اُن کے ہاتھ لگ گئی، پِھر کیا تھا اُن کے تو پَو بارہ ہو گئے۔ پہلے بھی اُنھوں نے بہُت سے آرٹیکل لکھے تھے، اب بھرمار کر دی۔ اپنے آرٹیکلز میں وُہ ثابت کرتے رہے کہ اب مسیحیت بے دلیل و خلافِ عقل مذہب ہے۔ اس کی مذہبی کتابوں میں غلط قسم کی من مانی تبدیلیاں کی جا چکی ہیں۔ یہ ایک نامعتبر، ناقابلِ یقین اور آؤٹ آف ڈیٹ دِین ہے۔ اسلام جو شریعت لایا ہے، وہی اصل دِین ہے، آج کا دِین ہے، تا قیامت رہنے والا دِین ہے اور قیامت بھی اب کُچھ زیادہ دُور نہیں۔ جناب محمد راشد رضا تاریخی مہارت والے، دقیقہ رس عُلماے علمِ الٰہیات کی تحریروں کے حوالوں سے اپنے مضامین کو ہمیشہ سجا سنوار کے پیش کرتے رہے تا کہ اُنھیں اعتبار کی سند ملے۔
انجیلِ برنباس کے سلسلے میں اس کی صحت و معقولیت پر علومِ اسلامی کے جامع و وسیع مطالعہ و تحقیق و تسہیل کے لحاظ سے جو کام ہوا ہے اس میں جناب ایم اے یُوسُف کی تخلیق ''بحرِ مُردار کے طومار''، (The Dead Sea Scrolls -35) کو سامنے رکھ کر دانش ور دُور دُور کی کوڑیاں کھوج لائے ہیں۔ 130صفحات کالے کر کے ایم اے یُوسُف نے اس انجیلِ برنباس پر ثقہ اسناد پیدا کر لینے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور صَرف کر کے اتنا کارنامہ انجام دے دِکھایا کہ برنباس کا نئے عہد نامہ اقدس میں ذکر ڈُھونڈ لیا، اور کہا اِسی برنباس نے یہ انجیل لکھی تھی۔ اس کے بعض دعاوی مندرجہ ذیل ہیں:
جتنی اناجیل اب تک لکھی جا چکی ہیں ان میں برنباس کی انجیل کا نمبر پہلا ہے اور اس کی بنیاد سائینٹفک اُصُولوں پر رکھی گئی ہے۔ (اس دعویٰ کی سچّائی پرکھنے کے لیے ایم اے یُوسُف کے 130صفحات میں سے پہلے صفحہ پر ہی دعوے کی قلعی کھُل جاتی ہے)۔
ممکنہ جامع طور پر ثابت کرنے کے لیے انجیلِ برنباس بالکل ہی اصلی، سچّی اور ایک جامع کتاب ہے۔ ایم اے یُوسُف مسیحی کلیسیا کی شروع کی تاریخ کے تنقیدی جائزے سے مدد لیتے ہیں۔ اسِ بارے میں اِن صاحب کا پہلاطریقِ عمل یہ ہے کہ وُہ تاریخی دقیقہ رس قاعدے کو کام میں لاتے ہوئے یہ صداقت پایہء ثبوت کو پہنچانا چاہتے ہیں کہ مُقدّس یسُّوع مسیح خُدا ہو ہی نہیں سکتا اور نہ ہی یہ کہ وُہ خُدا کا اکلوتا بیٹا ہے۔ دونوں باتیں ناممکنات میں سے ہیں۔ یُوسُف تثلیث کو نشانہء تنقید بناتے ہیں اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مبعُوث کیے جانے کے خدائی فیصلے کو حق بجانب سمجھتے ہیں۔ وُہ کِسی ایسی بحث میں پڑنے سے احتراز کرتے ہیں جس میں انجیلِ برنباس پر اعتراض اُٹھائے جا سکتے ہوں جیسا کہ ہم نے اپنے اس موضوع میں ،کہ جس کا آپ مطالعہ کر رہے ہیں، پیدا شدہ اعتراضات پر کھُل کے بات کی ہے مگر آپ کنّی کترا جاتے ہیں۔ محترم ایم اے یُوسُف کا یہ دعویٰ بھی عجیب ہے کہ برنباس کی مُقدّس رسول پولوس سے جب اَن بَن ہو گئی تو وُہ مُقدّس متی کی انجیل سامنے رکھ کے نئی انجیل لکھنے بیٹھ گیا، تاکہ نکولس کے پیروکاروں کی ''سازشوں کا تانا بانا تار تار کِیا جا سکے'' کیوں کہ اُنھوں نے مُقدّس بائبل میں ''غلط قسم کی من پسند تبدیلیاں کر کے'' بائبل اقدس کا چہرہ بگاڑ دیا تھا۔ ایم اے یُوسُف کو اعتراض ہے، نکولس کے گماشتوں اور پیروکاروں نے اعلان کر رکھا ہے کہ مُقدّس یسُّوع مسیح اِبنِ خُدا ہے۔ اور وُہ لوگ مُقدّس پولوس کو بھی ''ون آف اَس'' کہتے ہیں۔ ''ممنوع صحائف''(forbidden scriptures)بھی انھی کی تخلیقی کاوش ہے اور اس میں یعنی (Decretum Gelansiumمیں)انجیلِ برنباس کو بھی شامل کر رکھا ہے۔ (نوٹ:Gelansiumاصل لفظGelasianumہے)۔ ایم اے یُوسُف کے نُقطہء نظر سے یہ ہے کہ عصرِ حاضر کی مسیحی کلیسیا نکولس کے پیروکاروں کی ہی روایت میں یقین رکھتی ہے اور اس لیے برنباس کی انجیل کو قُبُول کرنے سے انکاری ہے۔ دِینِ ابراہیمی کی قانونی و شرعی وراثت سے بھی دامن کشاں رہتی ہے۔ جب کہ رومن اور یونانی ثقافت نے ایک دوسرے میں گھُل مِل کر یہودیوں کے مذہبی عقائد میں بھی ہلچل مچائی اور وُہ بھی متضاد عقائد یا مذاہب کی ہم سازی میں توافقیت پر اُتر آئے۔ تین میں ایک اور ایک میں تین کے عقیدے کے تحت کِسی انسان کی بطور خُدا عبادت کرنا، ملحدانہ رویہ ہے، بُت پرستی ہے، شرک اور کُفر ہے۔ ایم اے یُوسُف نے یہاں تک ایک متوازی مثال دے دی ہے قیصرِ روم کی، جو اپنے آپ کو اُلُوہیت سے متصف ظاہر کر کے معبود ہونے کے درجے پر فائز تھا۔ (موصوف کے آرٹیکل کا صفحہ123آپ کی نظر کا محتاج ہے)۔ روحانی اعتبار سے اگر دیکھا جائے تو نبی ابراہیم کی روحانی آل اولاد مسلمان ہی ہو سکتے ہیں۔
سَو باتوں کی ایک بات
مُکمَّل چھان بین اور حتمی فیصلوں کہ جن پر بے دریغ انحصار کِیا جا سکے اور تعیُّنِ قدر و قیمت کی چھلنیوں سے گذرنے کے بعد ان کے نتائج کو نگاہ میں رکھتے ہوئے صداقتوں کے متلاشی قاری کی بے حد دِلی تمنّا ہو گی کہ وہ انجیلِ برنباس کے مُکمَّل اور اصل متن کا، بہتر ہو گا کہ پوری سخن سنجانہ کُشادگی اور صراحت کے ساتھ سُکُون سے بیٹھ کے، سنجیدہ مُطالَعہ کر سکے تا کہ اُسے اپنی بے لاگ اور کِسی بھی خارجی دباو سے پاک ذاتی راے قائم کرنے میں آسانی ہو۔ چناں چہ اس مقصد براری کے لیے اوریجنل سے کیے گئے جس قابلِ اعتبار ترجمہ کی ہم سفارش کریں گے وُہ وُہی ہے ایل اینڈ ایل رگ کا مطبوعہ انگریزی میں کِیا گیا ترجمہ جس پر بہُت احتیاط اور توجُّہ صَرف کی گئی اِس لیے سائینٹفک معیار پر بھی پورا اُترا ہے۔
بس، ایک سُوال اور پِھر اختتامِ بحث و تجزیہ! کیا ہمارے پاس کوئی ایسا بھی اختلافی جواز ہے کہ ہم یُوں بھی کر سکیں کہ چاروں مستند و مصدّقہ اناجیلِ مُقدّس کو یہ کہہ کر مسترد کر دیں کہ یہ تو ''برخود غلط پولوسی مسیحیان کے ایک اقلیتی گروہ'' کے صریرِ خامہ سے برآمد شدہ کارروائی ہے؟ ہیں جی؟ باالفاظِ دیگر، کیا یہ مبنی بر انصاف، مناسب، جائز یا کِسی لحاظ سے دُرُست ہو گا کہ نئے عہد نامہء مُقدّس کی تمام کتابوں، کُل نوشتوں کو جو انجیلِ مُقدس کے طور پر کلامِ مُقدّس یعنی بائبل پاک کا اٹوٹ حصّہ ہیں سامنے لاتی ہیں، اُن سب کو دو ٹوک الفاظ میں رد کر دیا جائے؟یعنی اِس نازُک لمحے مسیحی مذہب کے غیر معمولی مظاہر سے جان بُوجھ کے آنکھیں چُرا لی جائیں اور ایسا کرنے کے باوُجُود، پِھر بھی، آنکھوں پر کَس کے تعصُّب کی پٹّی باندھ لی جائے تا کہ وُہ پاک کلیسیائیں بھی نظروں سے اوجھل ہو جائیں جنھوں نے مسیحیت قُبُول کی، اس کی نگہبانی کی اور اس مذہب پر خُلُوصِ دِل اور کھُلے ذِہن کے ساتھ مصروفِ عمل ہیں؟ مختصر یہ کہ بائبل مُقدّس عہدِ جدید پر ایمان رکھنے والوں اور اس کی مُکمَّل پیروی کرنے والوں، سب کو، مسترد کر دیا جائے۔ کیا کہتے ہیں آپ، کیا ایسا کرنا قرینِ انصاف ہو گا؟
بس، انتہا ہو گئی! اب مزید کیا کہا جائے، بھلا یہ کیوں کر ممکن ہے کہ ایک ایسی کتاب کو ہم الٰہی کلام کا درجہ دے دیں اور اُسے ثقہ انجیل مان لیں جب کہ وُہ تضادات و تناقص کی ''شاہ کار'' کتاب ہو۔ اور وہ متصادم ہو تمام مسیحی مُقدّس نوشتوں اورمتبرک کتابوں میں دیے گئے کلامِ اقدس کے ساتھ۔ قرآنی آیات کی بھی کہِیں تائید کرتی ہو، کہِیں تائیدِ مزید اور کہِیں تردید۔
بہ ہر کیف، یہ بات طے ہے کہ بدایۃً دلالۃً، مُقدّس عہد نامہء جدید کے ظہور پذیر ہونے کے برسوں نہیں، صدیوں بعد، انجیلِ برنباس لکھی گئی۔۔۔۔۔۔ اور یقینا اُس زمانے میں جب، اسلام اور قرآن کی بھی آمد ہو چکی تھی، تب۔