:سُوال نمبر28
اگر اللہ تعالیٰ کو اپنے بندوں سے اِتنا ہی پیار ہے تو پِھر اس کی کیا گُنجایش کہ اِتنے انبیا و رُسُل بھیج بھیج کے تنبیہ پر تنبیہ اور عقوبتوں سے ڈراتا رہا؟ یہ کیسی مَحَبّت ہے کہ برس ہابرس تک اس نے تمام مذاہب کے لوگوں کو آپس میں اور ایک دُوسرے کے خلاف قتال برپا کیے رکھنے کی اجازت دیے رکھی، روکا نہ؟ جلتی پر تیل یہ کہ پاک توریت میں تو ایسے بھی فرامینِ الٰہی موجُود ہیں کہ جاﺅ، اس شہر کے سبھی باسیوں کا قتلِ عام کردو! توریت پاک کی گواہی کے بعد بھی ہم کہہ سکتے ہیں کہ خُدا اِنسانوں سے پیار کرتا ہے؟
جواب:۔ ہمارے جواب کی بیشتر بنیاد پروفیسر ڈاکٹر نور بیرٹ لوفنِک کے مقالہ پر قائم ہے جس میں پرانے عہد نامہ میں تشدّد، سختی، ضرر رسانی کے ذِکر کو موضوع بنا کر بحث کی گئی ہے۔ پروفیسر لوفنِک فرانکفُرٹ میں فلوسوفیکل، تھیولوجیکل یونی ورسٹی سانکٹ گیﺅرگین (سینٹ جارج) سے وابستہ ہیں۔
1......کلامِ مُقدّس کے عہدِ جدید اور مسلمانوں کی مذہبی کتاب قرآن دونوں کے نُقطہءنظر سے پیغمبروں، نبیوں اور رسُولوں کا بھیجا جانا در اصل رحمتِ الٰہی کا خصوصی اِظہار ہے جس کا سبب نوعِ بشر کے لیے مَحَبّتِ خُداوندی ہے۔ اس کے باوُجُود کہ حضرتِ اِنسان خُدا کو بھُول بھُول جاتا ہے، جُرم و تقصیر میں حتّٰی کہ ہمہ قسم گُناہوں کے سلسلہ میں حد سے گُذر جاتا ہے اور شریعتِ خُداوندی (قوانینِ الٰہی) تک کو خُود سری سے ہُوا میں اُچھال دیتا ہے، اس کے دینی احکام موڑ تروڑ کے رکھ دیتا ہے۔ تمجید ہو اُس برکت والے کے نام کو جس کا یہ لطف و احسان ہے کہ وُہ پِھر بھی اِنسان کی رہبری اور بھلائی کے لیے پیغمبر پر پیغمبر بھیجتا رہا تا کہ حضرتِ اِنسان بھٹکنے سے، نافرمانیاں کرنے سے کبھی تو باز آجائے اور اس کی اصلاح ہو جائے۔ خُدا کے بارے میں، اس کے احکام و قوانین کی پابندی کے بارے میں نبیوں کے ذِمّہ تبلیغی خدمت لگائی گئی تا کہ وُہ تاکید کے ساتھ لوگوں کو برابر یاددہانی کرواتے رہیں اور اُن کے ذِہن نشین کرائیں کہ اشرف المخلُوقات ہونے کے سبب یہ فرض ان پر قرض ہے کہ وُہ اپنا ہونا نہ ہونا محض اپنے خالق کے لیے سمجھیں۔ اس لیے وُہ اپنے آپ کو پابند جانیں کہ اُنھوں نے پُرجلال خُدا کی ہدایات پر سدا عمل کرتے رہنا ہے کیوں کہ روزِ محشر الٰہی عدالت کے سامنے وُہ اپنے قول و فعل کے جوابدہ ہوں گے۔ سب سے بڑھ کر یہ بھی کہ نبیوں، پیغمبروں کے لیے یہ کارِ مفوّضہ ہے کہ وُہ لوگوں کے ذِہنوں میں تازہ رکھتے رہیں تمام احکامِ ربانی کو کیوں کہ خُداوند کا فرمان ہے کہ اِنسانی زندگی انتہائی پاک ہے چُناں چہ یہ ان پر فرض ہے کہ عدل و انصاف اپنا شیوہ بنائیں۔ ناچار و بیکس، غیر محفوظ، بے یار و مددگار غریب غربا کی قدر اور ان کے حقوق اپنے فرائض جانتے ہوئے پورے پورے ادا کریں، اِنسانِیّت کا احترام کریں۔
بائبل مُقدّس میں پیغمبروں کی لڑی قائم رکھنے کو بہُت زیادہ وقعت دی گئی ہے۔ نئے عہد نامہ میں رسالتِ مسیح کو کلامِ آخِر قرار دیا گیا ہے، حتمی اور آخِری۔ یعنی نبیوں کے سلسلہ کی مُطلق منتہاے کمال کڑی۔
حوالہ....عبرانیوں....باب1:آیات1 تا4
بہُت مرتبہ اور مُختلف مواقع پر ایک زمانہ خُداوند قُدُّوس کا یہ ربانی انداز رہا کہ وُہ نبیوں کے ذریعے ہمارے آبا و اجداد سے کلام کرتا رہا۔ لیکن اب آخِر زمانہ میں اُس نے اپنے مُقدّس بیٹے میں ہمیں اپنے کلام سے نوازنے کی برکت سے سرفراز کِیا۔ ہمارے لیے یہ بہُت بڑا اعزاز ہے کہ یہ مُقدّس بیٹا ہی اس کے سب کُچھ پر استحقاق رکھتا ہے اور یہ کائنات کی تخلیق بھی اُسی کے دم سے ہے۔ اسی سے خُدا باپ کے جلال کا انعکاس ہے۔ اور خُداوند یسُّوع مسیح پاک خُدا کی تمام صفات کی چھاپ کا واحد حمّال ہے اور اس نے جب کہا ہو! .... تو ہو جانے والی، کلماتی طاقت کے ذریعے ہی اس نے دُنیا ہی نہِیں پوری کائنات کا انتظام و انصرام سنِبھال لیا۔ جب گُناہوں کی تطہیر کر چکا تو وُہ عظمت و حشمت والے خُدا باپ کے عرش پر داہنے ہاتھ جا براجمان ہُوا۔ اس کی منزلت و مرتبت فرشتوں سے کہِیں افضل ہے کیوں کہ خُدا باپ کا مُقدّس بیٹا ہو نا، ایسا مقام تو کِسی دُوسرے کو حاصل نہِیں۔
حوالہ....عبرانیوں.... 1.2:1
یوں، پاک خُدا خُداوند یسُّوع مسیح اقدس کی بشریت میں اپنی مَحَبّت کا ایسا اِظہار کرتا ہے کہ اس کے ادراک کے لیے تمام بشری فہم و ادراک منقار در پر اور ہیچمداں نظر آتے ہیں۔ اس کی مَحَبّت بے حد، بے کنار ہے۔
مطالعہ کے لیے حوالہ.... تھِیم12، سیکشن3، جزو2
(مسلم سُوالات،مسیحی جوابات : مصنف کرسچین ڈبلیو ٹرول، ایس جے)
2....سُوال کے دُوسرے حصے کا تعلُّق بائبل مُقدّس میں جبر و تشدّد کے بارے میں جو کہا گیا ہے اس سے ہے۔ اور پِھر ہمیں یہ جائزہ لینا ہو گا کہ عدم تشدّد کے بارے میں مُقدّس کلامِ الٰہی کی کیا توضیح پیش کی جا سکتی ہے۔
سب سے پہلے تو اس بنیادی اصول کو سامنے رکھنے اور پرکھنے کی ضرُورت ہے کہ بائبل مُقدّس دُنیا میں امن کی حمایت کرتی ہے اور جارحیت و تشدّد کی حوصلہ شکنی۔ اور یہ بلا خوفِ تردید جتلا دینے کی ضرُورت ہے کہ ایسا ہے کہ اکثر وا ویلا مچا رہتا ہے جس میں ایک خُدا کو ماننے والے مذاہب پر الزامات، اعتراضات اور نفرین کی بوچھار کی جاتی رہی ہے ایسے عناصر مسیحیت کو سب سے پہلے نشانے پر رکھتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ مسیحیوں میں قوتِ برداشت کی کمی بل کہ ناپیدگی ہے۔ یہاں تک کہ دُنیا پر جنگ مسلط کیے جانے کی کارروائی میں مسیحیت ہمیشہ پیش رہی۔ عدم برداشت صلیبی جنگوں کے لیے ہلا شیری ثابت ہُوئی۔ یہ در اصل بہُت بڑا الزام ہے۔ لوگوں کے دعووں اور مسیحی حقائق میں بہُت بُعدِ مشرقین موجُود ہے۔ اس فرق پر بات کرنا بہُت ضرُوری ہے۔ ہم پوری ذِمّہ داری سے کہہ سکتے ہیں کہ ہم اِنسانوں پر لازم ہے کہ امنِ عالم ہمیشہ ہمارے مدِّنظر رہے۔ اِس سلسلے میں میثاقِ ربانی بطور حرفِ آخِر بھی موجُود ہے۔ پاک خُداوند خُدا کا وعدہ ہے کہ حکایتِ اِنسانی میں امن امان کو لازماً عمل دخل حاصل رہے گا۔ امن اس حکایت کا جزوِ لازم قرار تو پا گیا لیکن یہاں ایک اضافہ بھی اہم ہے کہ خُداوند خُدا کا یہ وعدہ یُوں بھی نہِیں کہ بہ ہر صُورت ہر ایک کے لیے ایک ہی وقت میںکِیا گیا ہو۔ اس میثاق کا اطلاق خاص طور ایک مخصوص اُمت پر ہوتا ہے اور وُہ مسیحائی لوگ ہی ہو سکتے ہیں۔ فقط انھی لوگوں کی مساعی سے تمام اِنسانِیّت امن سے مستفید ہو سکتی ہے۔ امن اور تشدّد کے بارے تفصیلاً بائبلی دینیات میں فیصلہ کُن محرکات کو جگہ دی جا چُکی ہے۔ ان میں بتا دیا گیا ہے کہ پاک خُدا کے چُنیدہ بندوں کو تشدّد و جارحیت سے نمٹنے کے لیے کیا کیا اور کیسے کیسے کرنا ہے۔
تشدد کا کچّا چٹّھا قبل از بائبل تاریخ نویسی سے کُچھ جاننے سمجھنے کے لیے ملاحظہ کیجیے
تکوین....1تا1باب
بائبل مُقدّس کی اپنی یا قبل کی تاریخ مفروضوں اور قیاسات پر مبنی نہِیں ہے۔ مثلاً زبردست دھماکہ جسے بگ بینگ کا نام دیا گیا، یا نظریہءارتقاے اِنسانی جس کی ابتدا حیاتِ حیوانی سے ہُوئی، یا وُہ کیا کہتے ہیں، دریافتِ آتش وغیرہ، بل کہ وُہ تو احاطہ کرتی ہے کہانیوں کا جو مورتوں، علامتوں اور شبیہوں کے ذریعے سمجھائی گئیں۔ آغازِ تاریخِ بائبل میں ان صُورتوں کے ذریعے یہ تو نہِیں پتا چلتا تھا کہ در حقیقت وقوع پذیر کیا ہُوا، شُرُوع شُرُوع کے واقعات و حالات کے ظہور نما ہونے سے، مگر اس طرح کی ابتدائی کہانیوں سے یہ ضرُور پتا چلتا تھا کہ ہر جگہ، ہر صُورت میں آخِر وُہ عوامل کیا ہوتے ہیں جو ہمیشہ کارفرما ہوتے ہیں اور نتیجہ ایک ہی رہتا ہے۔ بنیادی اہمیت کے تذکروں سے کام چلایا گیا ہے۔ ان کا اطلاق سب پر ہوتا ہے اور ہر زمانہ میں ہوتا آیا ہے۔
زمانہ قبل از تاریخ کی داستانیں اس شکل میں ظہور پذیر ہُوئیں اور جہاں جہاں اِنسانی بُود و باش تھی وہاں وہاں موجُود تھیں اور کِسی نہ کِسی صُورت آج بھی زندئہ جاوید ہیں۔ تاہم اگر آپ ایسی کہانیوں کا موازنہ کریں جن کے کردار مُختلف اقوام کے مُختلف لوگ رہے تو ان کی اہمیت میں خاص الخاص تفاوت جو موجُود ہے آپ کے سامنے آجائے گا۔ چُناں چہ، مثال سامنے ہے کہ دجلہ و فرات کے درمیان والی سرزمین میسوپوٹامیا (موجُودہ عراق) کے زمانہ ماقبل از تاریخ کی داستانوں میں کھوج لگائی گئی ہے کہ وُہ دو ہی موضوعات ہیں جن کے گرد گھومتی ہیں۔ نمبر ایک یہ کہ ان کا تانا بانا آدمی کے کام، کام اور کام میں جُتے رہنے اور خون پسینا ایک کرنے کی سرگذشت اور اس میں کامیابیوں، اورکامرانیوں یا پِھر ناکامیوں اور نامرادیوں کے گرد بُنا نظر آتا ہے اور نمبر2 تھِیم وُہ ہے جس میں خطہءارض پر بڑھتی ہُوئی آبادی سے پیدا ہونے والے مسائل اور ان سے عہدہ برآ ہونے کی خاطر وسائل کی تلاش پر مبنی حکایتیں ہیں، جو سامنے آئیں۔ مگر بائبل مُقدّس کا جو موضوعِ خاص ہے، وُہ ہے بیان و جذبات کی غیر معیاری شدت کی طرف لگاو یعنی اِنسانوں کا شدت پسندی کی طرف میلان اور تشدّد کی طرف جھکاو۔ آج ہمیں یہ قدرے عجیب سا لگتا ہے۔ جنت میں آدم پر کیا گُذری، جو بھی گُذری اس کے نتیجے میں سُنائی گئی بہشت بدری جس کے سبب اِنسانوں کی سُبکی ہُوئی.... اور بے آبروئی بھی۔ اسی پر ہی بات ختم نہ ہو گئی، بات تو آگے بڑھی اور تان بھائی کا بھائی کو قتل کر دینے پر آن ٹوٹی۔ زمین پر آئی دُوسری نسل کا پہلا قتل، بارش کا پہلا قطرہ، کرنے کو تو قائین نے ہابل کو قتل کر دیا، مگر سلسلہ تو آگے چل پڑا۔ حوالہ کے لیے دیکھیے
تکوین....تھِیم4....لامک کے گیت تک
اِنسان کا فطری گُناہ جو سرزد ہُوا، وُہ اس کا پہلا پہلا گُناہ، سچ بات یہ ہے کہ اسے تو نقشِ اوّل کہا جا سکتا ہے۔ اوریہ بھی ہے کہ اس کے بھی دو پہلو ہیں، پہلا ہے خُدا سے اِنسان تک والا پہلو جس کے ذریعے بہشت میں اِنسان کی خطا کاری والے مُعاملہ کی توضیح ہوتی ہے۔ اس سے الگ کیا جا سکنے والا دوسرا پہلو ہے جو آدمی کا آدمی سے تعلُّق ہے۔ اس کی تشریح بھی تھِیم4 میں موجُود ہے جو قائین و ہابل کی مکمل داستان ہے۔ بے شک قتلِ اِنسانی کا حوالہ ہمیں اِنسان کی نسلِ ثانی سے آغاز کرتا ہُوا ملتا ہے۔ اِنسان کی نافرمانی، سرکشی اور خُداوند قُدُّوس کے حضور عدول حُکمی اس پر مستزاد یہ کہ برادر کُشی، یہ دونوں صُورتیں ایک ہی سکّے کے دو رُخ ہیں، اگر پاک خُداوند خُدا پر ایمان، بھروسے، اِعتبار اور یقین کو فوقیت نہِیں دی جائے گی تو یقینی بات ہے اعتماد کی وُہ بنیاد جس پر اِنسانی رِشتوں، قرابت داریوں، اور تعلُّقات کے فلک بوس پلازے تعمیر ہونے ہیں، ڈھے جائے گی۔ حسد و رقابت پیدا ہو گی، اس میں شدت آئے گی، او رنتیجہ....نتیجہ بھی سامنے کی بات ہے.... انجامِ کار تشدّد کا عفریت رقیبوں اور حریفوں کو کھا جائے گا۔ حاصل؟ تباہی و بربادی۔
بے شک قائین والی کہانی میں وُہ بات جو اہم ہے اور سامنے آتی ہے، یہ نہِیں کہ پیش آنے والے حقائق کیا کیا تھے۔ اصل اہمیت اس سے آگے کی بات کو حاصل ہے، یعنی نتیجہ کیا نکلا۔ پہلی پہلی پُرتشدّد کارروائی کے ماحصل سے تو خُدا نے قائین کو محفوظ رکھا۔ پایانِ کار، تو یہی انجام ہی بھگتنا پڑے گا نا کہ اب ظلم و تشدّد کا پہیّا ہر لحظہ بڑھتی رفتار سے گھومنا شُرُوع کردے گا۔ خُداوند خُدا نے تشدّد پر پہلی پابندی عائد کر دی۔ انتقامی لڑائیوں کی آگ کو ہُوا دی جانے لگی۔ زہر کا علاج اس سے تیز زہر۔ انسدادِ تشدّد کے لیے سخت قواعد اور جارحانہ عمل۔ تشدّد روکنے کے لیے روک والے ضابطے آگئے۔ تشدّد پر قابو پانے کے لیے انتقام کی دھمکی ہی کارگر ثابت ہو سکتی ہے۔ اگر اختصار سے کام لیا جائے تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ اِنسان کی پہلی خاص کارروائی تھی جو قائین کی کہانی کے ذیل میں آئی اور اس سے اِنسانی تہذیب و ثقافت کی تاریخ نے جنم لیا۔ طوفانِ نوح کی کہانی تفصیل سے بیان کرنے کی یہاں گُنجایش نہِیں۔ خُود ہی آپ اس حوالہ سے مستفید ہو سکتے ہیں:
تکوین....1:6سے 13 تک
طوفانِ نوح کی کہانی کے مرکزی کردار ہیں جناب نوح نبی۔ اعادہ میں آپ کو پتا چل جائے گاکہ اِس موضوع کے ارتقا میں یہ حکایت کیا اور کیسے کوئی کردار ادا کر رہی ہے۔
بہر کیف، ہم اس کا لُبِّ لُباب یُوں بیان کر سکتے ہیں کہ مُقدّس توریت کی پانچ میں سے پہلی کتابِ اقدس تکوین کی رُو سے مسائل کے سُلجھاو کا یہ رُجحان کہ ان کا حل طاقت و جبری اختیار کے کھُل جا سِم سِم میں پوشیدہ ہے، یہی عالَمِ اِنسانِیّت کا اٹل مقدر ہے۔ یُوں یہ اِنسانی فطرت کا ایک جُزوِ لاینفک بن چکا ہے۔ لوک دانش میں کہا جاتا ہے کہ.... گھسُن نیڑے کہ خُدا نیڑے؟ .... اینٹ کا جواب بھی پتھّر ہی بتایا جاتا ہے مگر، ضرُوری نہِیں کہ پتھّر مار بھی دیا جائے، اُٹھا لینا ہی مدِّ مقابل کے اوسان خطا کر سکتا ہے۔ ردِّ تشدّد ہی یہی ہے کہ تشدّد کا جواب بل کہ دندان شکن جواب، حریف کے تشدّد سے بھی بڑھ کر تشدّد کی کارروائی کی دھمکی ہے۔ یہی اس کا توڑ ہے۔ مناسب اور موثر حل ہے۔ اس ردِّ عمل کا سکّہ اب بھی سکّہ ءرائج الوقت ہے۔ اور تو اور لوگوں میں امن، آشتی، پیار کو رواج دینے، اور قائم رکھنے کے لیے اس عمل کو ناگزیر تسلیم کِیا گیا ہے۔ جی، تو جناب، رضاے خُداوندی بھی اِسی میں ہے۔ تکوین میں اس امر کی اساس قائم ہے کہ رہنما اور مسیحی فلسفہءاخلاقیات کے ماہرین کہ رہبری ان کا کارِ مفوّضہ یہ ہے کہ وُہ کیوں کر غور کر سکتے ہیں کہ کیسے بار بار عود کرنے والا متشدّد ہونے کا رجحان محدود کرنے کے لیے کِس حد تک تشدّد کا تیاپانچا کرنے اور تشدّد کے رسیا لوگوں کو تحس نحس کردینے کی خوفناک دھمکی ان پر آزمائی جا سکتی ہے تا کہ تشدّد پسند گروہ اپنے اس حیوانی جذبے کو نکیل ڈالے اور اسے عملی شکل دینے سے باز آجائے، اِنسان بنے۔ اور پِھر ایک دن بالآخِر ایسا بھی آئے کہ ان کی سمجھ میں یہ بات آجائے کہ دُنیا میں اس کے علاوہ اور کوئی حل ہے ہی نہِیں کہ تشدّد و جارحیت کے لیے تشدّد و جارحیت کی سزا ہی اسے دبا سکتی ہے۔ مُقدّس توریت میں تکوین کی تلاوت سے پتا چلے گا کہ قائین والی کہانی اور طوفانِ نوح کی حکایت سے ثابت ہوتا ہے کہ تشدّد کا حل عدم تشدّد نہِیں....تشدد کی مزاحمت اور انسدادِ تشدّد اس کا حل ہے۔
تو کیا آپ یہ سمجھ رہے ہیں کہ تشدّد پر بائبل مُقدّس میں موجُود صراحت اپنی تکمیل کو پہنچی؟.... جی نہِیں، ابھی کہاں، بات اِس کے برعکس ہے۔ انجیلِ مُقدّس میں تو جناب اس کی گواہی کا آغاز ہُوا ہے اب۔ سُوال ہے کہ آیا اس جنتِ ارضی کا خالق اِس مسئلے کا حل اس کے باسیوں کی صوابدید پر چھوڑ دینا چاہتا ہے؟ جب کہ آخِر الامر اس کے باسیوں کے بس سے ہی باہر ہے کہ وُہ متشدّدانہ رویّوں اور کارروائیوں پر قابو پا سکیں۔اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ بالا دستوں کی زبردستیاں بڑھتے بڑھتے تباہ کُن ظلم کی شکل اختیار کر جاتی ہیں۔ طوفانِ نوح کے قصّے کو ہی لے لیجیے، ایک نئے الٰہی اصولِ عمل کی شفافیت و اہمیت بھی سامنے آجاتی ہے۔ جب سرکسی خلقت ہاتھوں سے نکلتی جا رہی ہو تو خالقِ حقیقی یہ فیصلہ نہِیں کر لیتا کہ لگتے ہاتھوں سب کُچھ میں ہی ہر طرف اُتھل پُتھل مچا دے، بل کہ اپنی توجُّہ ایک ہی نکتہ پر مرکوز کر دیتا ہے اور وہیں سے ایک نئی دُنیا آباد کر لیتا ہے۔ تباہ ہونے کو تو ساری دُنیا ڈبو کر تباہ کر دی گئی، مگر نوح نبی اور ہر سانس لینے والی مخلُوق کے جوڑے اس کی پہاڑ سی کشتی میں زندہ رہے، یہی کشتیِ نوح نبی آنے والے زمانوں میں پوری دُنیا بن گئی، نئی دُنیا، نئی نسلیں، نئی حیات رواں دواں ہو گئی۔ اس کا مطلب ہے خُدا ابھی بھی اِنسانوں سے مایُوس نہِیں ہُوا۔ اس نے اپنے نبی ابراہیم کے ساتھ بھی اسی سُنّتِ قدسی سے کام لیا۔ اس دوران میںکہ عالمِ بشریت ابھی درمیان درمیان ہی تھا کہ خُدا نے ایک گروہ کو متحرک کر دیا، اس کی ابتدا نبی ابراہیم سے ہُوئی تا کہ اعلیٰ سطح پر دُنیا میں قیامِ امن ممکن بنایا جا سکے۔ اب مار پیار میں ڈھل گئی۔ امن کا مطلب امن، اِنسانوں میں امن سے رہنے کی تبلیغ زور پکڑ گئی۔ اور صحیح امن کے قیام کے لیے خُدا نے اپنے منتخب بندوں، بنی اسرائیل کے حوالے اپنی زمین کر دی تا کہ طاقت سے نہِیں، تبلیغ اور مُکالمہ سے تشدّد کی بیخ کُنی کریں اور دُنیا میں امن پھیلائیں۔
یہاں پہلا مسئلہ جس نے سر اُٹھایا وُہ انوکھے پن کا تھا۔ تو کیا اپنے بندوں کی خُدا کو ذرا بھی پروا نہِیں؟ خاص طور پر ایسی دُنیا میں کہ جہاں سوچ بچار اور پِھر عمل کرنے کی حُکمتِ عملی راج کرتی ہو، وہاں ہمیں بھی تو تمام اِنسانِیّت کی فلاح و بہبُود پر غور کرنا چاہیے۔ اِنسان کی خدمت بھی تو نجات کا ہی ایک ذریعہ ہے۔ خُدا نے خاص طور پر ایک ہی خاندان کو کیوں چُنا، پِھر ایک اکیلی مخصوص نسل کو منتخب کر لیا اور سب کی ایک ہی وضع کی کہانی پیدا کر دی، ایسا سب کُچھ کیوں کِیا، آخِر کیوں؟ یہی تو بات ہے۔ ہماری محدود عقل جو کُچھ سمجھ پائی ہے وُہ یہ ہے کہ اس بارے میں یہ امر بڑا معنی خیز ہے کہ بابل بُرج کی تعمیر والی کہانی پیغمبر ابراہیم کے مبعوث ہونے سے پہلے پہلے سُنا دی گئی۔ بابل بُرج کی تعمیر نچلی سطح سے کی جانے والی ایک کوشِش تھی جسے نسلِ اِنسانی کے نام پر شِنعار شہر کی تعمیر کے ساتھ ساتھ عمل میں لایا جانا تھا۔ یہ اِنسانی منصوبہ عالَمِ قدس کے خلاف سازش تھی، خُداوند قُدُّوس کے خلاف بغاوت تھی، یہ تمام سرکشی زبانوں کے گڈ مڈ ہونے پر منتج ہُوئی اور اس سے لوگوں میں بے چینی، بد امنی اور تشویش پھیلتی۔ بے شک نبی ابراہیم کے ساتھ نئے سرے سے سب کُچھ کا آغاز ہُوا مگر یہ شُرُوعات خُدااور فرد کے درمیان تھیں گو کہ ان کا مقصد تمام نسلِ اِنسانی کی بہبُود تھا۔ مُقدّسِ اشعیا 2 اور نبی میکا 2 کے متن سے مستفید ہوں، ان سے آپ کو پتا چلے گا کہ تلواروں کوکسانوں کے ہل، جن سے وُہ زمین کو چیرتے ہیں، میں ڈھال دیے جانے اور نیزوں کو درختوں کی چھانٹی کرنے والے اوزار (ڈُنسی) بنا دیے جانے کے احکامات جاری ہوئے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ سفرِ امن کی حتمی اُمِّید رنگ لانے لگی۔ اس سفر کی ابتدا نبی ابراہیم کی بعثت کے ساتھ ہی شُرُوع ہو گئی تھی۔یہ بھی آپ پر کھُلے گا کہ دونوں نبی خُدا کے لیے یروشلم کی فتح اپنے وژن میں دیکھ رہے تھے۔ وُہ پُر اُمِّید تھے کہ ایسا ہی ہو گا، بھلے آیندہ زمانوں میں ہو۔ یہ فتح ضرُور حقیقت بن کے رہے گی۔ یروشلم کی پہاڑی صیہون ایک روز ضرُور سر اُٹھائے کھڑی ہوگی اور دُنیا بھر کے پہاڑوں کی چوٹیاں اس کے سامنے سرنگوں نظر آئیں گی۔ سادہ الفاظ میں یہ کہ تب نبی ابراہیم کی اُمت ایک قوم، ایک معاشرت بن چُکی ہو گی، اور دُنیا بھر میں بسنے والے اِنسان اس انقلابِ براہیمی سے مسحور ہو کر مِلّتِ ابراہیمی کو رشک اورتحریم و تکریم سے دیکھنے لگیں گے۔ لوگ یروشلم کی طرف عازمِ سفر ہوئے تا کہ وہاں جا کر مشاہدہ کریں اور سیکھیں کہ عدل پسند معاشرہ ہوتا کیسا ہے اور اس معاشرت کو وُہ اپنے ہاں کیسے پنپنے کا موقع فراہم کر سکتے ہیں۔ اُنھیں جو مشاورت اور ہدایات وہاں سے ملیں وُہ یہ تھیں کہ وُہ اسلحہ کے زور پر جنگ آزمائی سے دست کش ہو جائیں اور انصاف کی عملداری قائم کریں۔ جس کی لاٹھی اس کی بھینس کو اصول نہ مانیں اور اس مقُبُولِ عام روش کو ترک کر دیں۔ یہ دستبرداری تب تک سودمند ثابت نہِیں ہو سکتی جب تک ان لوگوں سے گرویدگی اپنے نُقطہءعروج کو نہ پہنچ جائے جن کی کایا خُدا نے پلٹ دی ہو اور اُن پر صادق آتی ہو یہ بات کہ وُہ قائم کردہ اپنی مثال سے سمجھا سکتے ہوں کہ نیّت صاف ہو تو کامیابی عین ممکنات میں سے ہے، یقینا۔ان کی تابندہ حیات، ان کا وُجُود، گواہ ہے کہ جو وُہ کہہ رہے ہیں وُہی سچ ہے۔
بائبل مُقدّس میں دو مُختلف جگہوں پر آئے دونوں متنوں کو اگر یکجا کِیا جائے تو معلوم ہو گا کہ یہ تو ایک طویل اور قدرے بگڑی شکل میں دہرائی گئی کہانی ہے۔ اصولی طو رپر ان لوگوں کو جن کی تبدیلیِ ہیئت کے بعد انھیں خُدا نے اپنی برکت سے ممتاز تاریخی سوسائٹی میں ڈھال کر دُنیا کے لیے بطور نمونہ پیش کرنے کا سامان کِیا، اُنھیں چاہیے کہ قوتِ برداشت سے کام لیں کیوں کہ اُنھیں قریب قریب ایک طول طویل اور ایک طرح سے تکلیف دہ صُورتِ حال کا سامنا ہے کہ شر کو چھوڑ کر راہِ خیر اختیار کرنے کے عمل سے گُذرے ہیں یہ لوگ۔ سینیاریو بدل گیا ہے اور اب اُنھیں سب متشدّّدانہ رویّوں کو ایک نئے تعلق، واسطے سے دیکھنا ہو گا۔ ہم شُرُوع یہاں سے کریں کہ اب اُنھیں ایک نئی معاشرت کا حصہ بن کر سب سے پہلے اس بات کا فہم پیدا کرنا ہو گا کہ اِنسانوں کی یہ جو دُنیا ہے، اس کے چہرے پر کِس قدر تشدّد کی دُھول ہے جس کی تہیں جمی ہیں۔ مُقدّس بائبل اس پُرفریب غازے کو ہُوا میں اُڑا دیتی ہے۔ تشدّد کے اس نقاب کے تو اس نے چیتھڑے اُڑا اُڑا دیے ہیں مگر تشدّد کی ہر تہہ اُکھڑنے کے بعد نیچے ایک اور تہہ آجاتی ہے۔کلامِ مُقدّس میں بندے کو تشدّد و وحشت سے منہ نہِیں چھپانا پڑتا، اس میں تو ہے کہ بندہ تشدّد وغیرہ کو تو آنکھوںمیںآنکھیں ڈال کر اسے للکارتا ہے۔ تشدّد کا پردہ دیگر قوموں میں اگر ابھی تک چاک نہِیں ہُوا تو اسرائیل بھی اس سے مستثنیٰ نہِیں۔ اسرائیلی تشدّدکی ہی تو پیداوار ہیں، تشدّد آزما ہیں اور تشدّد کے ہی شکار ہیں۔ تشدّد سے گُلو خُلاصی چاہتے بھی ہیں تو سہج سہج، درجہ بہ درجہ، یہی وجہ ہے کہ اکثر بل کہ بار بار واپس تشدّد کے دھارے میں جا شامل ہوتے ہیں اور اس کے بہاو کے ساتھ بہُتے ہی چلے جاتے ہیں۔ یہ اُن کی تاریخ ہے۔ بائبل مُقدّس میں اسے بے جا تاویل نہِیں عطا کی گئی، اسرائیلیوں کو ان کا نام لے کر ان کی لغزشوں سے خبردار کِیا گیا ہے۔ بریں بنا ہمیں یہی لگتا ہے جیسے عہدِ عتیق کی کتاب تو تشدّد اور خون خرابے میں لتھڑی ہُوئی ہے۔ کوئی بھی اس پُرانے عہد نامے کو پڑھنے والا جس کی سمجھ میں نہ آرہا ہو کہ یہ ہو کیا رہا ہے اسے تو سیدھا سیدھا جھٹکا لگے گا اور وُہ صدمے میں جا پڑے گا۔ جلا دو، مار دو کی صدائیں خواب میں بھی اُس کا پیچھا کریں گی۔ وُہ منٹ نہِیں لگائے گا اور یہ مذہب ہی چھوڑ دے گا اور دُوسرے مذاہب کی کتابوں میں جا سر کھپائے گا کہ جن کی نرم رُوئی اور سٹائل اور لہجے کی کوملتا اُن کا من لبھانے لگے۔ مگر حضور یہی تو اصل نُقطہ ہے، اگر وُہی بندہ اپنے آپ کو بائبل مُقدّس کی رہنمائی میں دے دے، اس کی ہدایات دِل و جان سے قُبُول کرنے پر آمادہ ہو جائے تو کلامِ مُقدّس کی برکت اور مدد سے تشدّد کے ساتھ مسیحی وابستگی کا راز بھی اُس پر کھُل جائے گا۔ مگر ایک فرق ہے جسے سمجھنے کے لیے ذرا سی محنت ضرُور چاہیے۔ پُرانے عہد نامہ کی کتابوں کے حوالے سے اگر دیکھا جائے تو یہ ہے کہ ہم جس چوٹی پر جا پہنچے ہیں وہاں سے ہم پیچھے کی طرف نہِیں دیکھتے بل کہ کِسی حد تک یُوں ہے کہ ہم بنی اسرائیل کے ساتھ ساتھ چل رہے ہوتے ہیں۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ جتنا کُچھ ہم نے دُنیا کو سمجھا ہے وُہ سمجھ منسلک ہے بل کہ تابع ہے اس امر کی، کہ خُدا کو ہم نے کیسا دیکھا، کیسا پایا۔ ہم نے دُنیا کو جب بھی دیکھا ہے خُدا کے حوالے سے دیکھا ہے۔ اِسی لیے ہر طرف خُدا کا ہی جلوہ نظر آتا ہے۔ جو بھی شخص تشدّد کا دِل کی اتھاہ گہرائیوں سے پُجاری ہے اور تشدّد کا پرچارک ہے وُہ بھی اپنے قیاس کے پروجیکٹر پر خُدا کی ہی تصویر دیکھ اور دِکھُلا رہا ہوتا ہے۔ خُداے جبا روقہار کی تصویر۔ یہی فرق ہے مسیحیوں میں اور دُوسری اُمتوں میں۔ ہم نے خُداوند یسُّوع پاک کو مسیحا کے روپ میں دیکھا، جو اسے مسیحا اور نجات دہندہ کے روپ میں نہ دیکھ سکے، اُنھوں نے اسے جیسا سمجھا ویسا اس کے ساتھ سُلُوک روا رکھتے ہوئے اس پرتشدد کِیا اور اسے مصلُوب کر دیا۔ رومیوں کی شان و شوکت خاک میں مِل گئی، مسیحیت کا آج بھی بول بالا ہے۔
ایسے اِنسانی معاشرے جو اپنا وُجُود سالم رکھتے ہیں اور آپس میں بھی ان کے روابط مستحُکم ہیں تو جناب اس استحکام کے سیمنٹ کا کام جو توڑے دے رہے ہیں نا اُن میں تشدّد اُبھرا ہے۔ کوئی معاشرت تشدّد سے بچاو کے لیے دُوسری کے ساتھ ریشہ دوانی کر رہی ہے اور کوئی طاقت کے نشے میں چُور تشدّد کے زور پر کمزور معاشرے کو بے بس بنائے ہوئے ہے کہ وُہ اس کے سامنے سِیس نوائے رکھے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ ظالم نے اپنا چہرہ، تشدّد والا چہرہ چھپانے کے لیے نقاب اوڑھ رکھا ہے، اور مظلوم نے بھی بلی کو دیکھنے کے باوُجُود کبوتر کی طرح آنکھیں مُوند کر تشدّد کے رویّوں اور اپنے اُوپر اُس کی سفاکیوں کو اشتہار بنانے کے بجاے اپنی عزت بچانے کے لیے یہی فارمولا اپنایا ہے کہ ہونے والے تشدّد کو ڈھانپ دیا جائے ورنہ کمزور سمجھ کر ہر کوئی مارنے کولپکے گا۔ یہی وجہ ہے کہ پُرانے عہد نامہ میں جو پہلا اقدام دُنیا میں تشدّد کے صفایا کے لیے سامنے آیا وُہ یہ تھا کہ اس کی سب کے سامنے قلعی ہی کھول دی جائے اور یہ سبق سامنے آیا کہ تشدّد کی قطع و برید ہی تعین کرتی ہے ہماری اصلیت کا، اور وُہی بنی اسرائیل کی فطرت کا بھی پتا دیتی ہے۔ اسی لیے مُقدّس کلام کے عہدِ عتیق میں مقابلةً قومی و دینی مسائل اور ان کی واقفیتِ عامہ کے تشدّد پر سیر حاصل راے دی گئی ہے۔ توریت پاک کی کتابوں میں اسرائیلیوں کے خلاف، ان کے اپنے درمیان اور اُن کی طرف سے اختیار کیے گئے تشدّد پر کھُل کے تبصرہ کِیا گیا ہے، اعتدال کی حدوں سے بھی ماورا رہ کر.... اس کو مثبت پہلووں سے بھی دیکھا جا سکتا ہے۔ اگر اپنے عزم میں کوئی بھی افلاطون اسے مثبت پہلو سے نہِیں بل کہ منفی پہلو سے دیکھتا ہے تو عرض ہے کہ وُہ اپنے آپ سے خُود سُوال کرے آیا وُہ تشدّد کے ڈھانچوں کو مضبُوط کرنے میں ممد و معاون ہونے کا کردار تو نہِیں ادا کرنے کے مُوڈ میں؟ کیوں کہ تشدّد کے انسداد کے بجاے وُہ تو اس کی پردہ پوشی پر تُلا ہُوا ہے۔ تشدّد والی منہ کو لگی چاٹ کی پردہ دری اس وقت عمل میں آتی ہے جب تشدّد کو ایسی عینک سے دیکھا جاتا ہے جس کے عدسوں سے باہر تشدّد اِنسان کے گُناہِ کبیرہ کے طو رپر نظر آنے لگے۔
اسرائیل کو پُرامن معاشرہ میں اپنے آپ کو ڈھالنے کا سبق سکھانے کے لیے یہی پہلا قدم تھا کہ تشدّد بھی ہماری زندگی کی حقیقتوں میں سے ایک حقیقت ہے۔ وُہ کوئی ڈھکی چھپی شَے نہ رہے۔ یہی پہلی شرط ہے۔ دوسرا اقدام کرنے کا یہ تھا کہ تشدّد کی کھُلم کھُلا مذمت کی جائے۔ تشدّد و جارحیت کی ملامت فرض ہے سب پر، اِسی لیے یہ لائقِ تعزیر ہے اور ہمارے لیے واضح احکام اور مطالبات ہیں کہ تشدّد سے ہاتھ اُٹھا لیے جانے چاہییں۔ انبیا کبریٰ کی کتابوں میں تو خاص طور پر ان کے ایسے فرمودات پیش پیش ہیں جن میں تشدّد کے درمیان داخلی تعلقداری ایک طرف اور دُوسری طرف ناانصافیاں، ظلم، جبر اور عدم استحکام بنائے گئے ہیں۔ قعرِ مذلّت میں گرے ناموافق حالات کا شکار لوگ اور کمزور، بے آسرا، بے سہارا غریب ہر معاشرت کا حصہ ہیں۔ کان کو اس طرف سے پکڑیں یا اُس طرف سے، یہ صُورتِ حال ہمیں وہاں پہنچائے گی جہاں مواقع کی غیر مساوی تقسیم عام ہو گی اور زندگی میں ترقی کے امکانات بھی طبقاتی تقسیم کا شکار ہوکر محروموں کو محروم تر ہی کرتے رہیں گے۔ بائبلی ادراک کے تحت تو صاف یہ بات ہے کہ کِسی بھی سوسائٹی میں عدل اور اس کے نتیجہ میں امن محض تبھی میسر آ سکتے ہیں، جب توانا و مضبُوط افراد ناتوانوں اور بے بس افراد کے ناصر و یاور ہوں۔ تب کہیں جا کے وُہ معاشرہ انصاف و عدل و مساوات پر مبنی معاشرہ کہلا سکے گا۔ مصالحت کے لیے آرزو کو پیچھے سے دھکیلنے والی قوت ہونی چاہیے انصاف کی اور سماجی ہم آہنگی کی۔ وُہ جو کشاکشِ روزگار اور خُودغرضانہ رویے، بے چینیاں اور ایک دُوسرے کے ساتھ سنگدلانہ سُلُوک کے تازیانے ہیں، وُہ ہمارے ہی پیدا کردہ ہیں، ایسی باتوں میں بڑے تخلیق کار ہیں ہم!.... لیکن ایسا بھی ہے کہ ہم میں ان برائیوں نے گر جگہ پائی بھی ہو تو بیشتر ایسا بھی ہو اہے کہ ہم مستوجبِ سزاِقرار نہِیں پاتے، کیوں کہ ہے تو یہ کہ کون ان کو کیسے برتتا ہے اور کیا معاشرہ بھی اِس قابل ہو چکا ہے کہ وُہ بھی اِس بات کا اعادہ کرتا رہتا ہو کہ وُہ اپنے معاہدوں اور قواعد و ضوابط کا پاس کرے گا اور اپنی بھلی ساکھ قائم رکھتے ہوئے دُوسروں کے عیبوں پر نظر رکھنے کے بجاے اپنے سدھار پر توجُّہ مرکوز کرے گا، دُوسروں کو بلا تفریق و امتیاز عفو، درگُذر سے کام لیتے ہوئے باز وپھیلائے خُوش آمدید کہے گا۔ پِھر تو یقینا زندگی توقعات، آس، اُمِّید کی ناہمواریاں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم شد۔
شریعتِ موسوی کے پیروکار کڑی سے کڑی ملا تو لیں گے مگر دھیرے دھیرے، بلا شبہ مشقت بھی اُٹھانا پڑے گی اور وقت بھی لگے گا۔ امن کے حُصُول اور اس کی تقسیم کے سلسلہ میں اہلِ اسرائیل کا قریباً ہر فرد ابھی طفلِ مکتب ہے اور طفلِ مکتب ہی رہنا چاہتا ہے۔ بابل سے دیس نکالا والے مصیبت و اِبتلا کے دور سے ہی انھیں تلخ اور کٹھن مشاہدات ، تجربات اور حالات وواقعات کا سامنا رہا ہے۔ بھلے وقت بھی آئے، مگر صدیوں کے اِس سفر میں بُرے وقتوں کی تاریکیاں زیادہ عرصہ چھائی رہیں۔ ایسے ادوار میں ان کی شخصی آزادی، طاقت و اقتدار اور قومی عظمت و شان و افتخار سب خاک میں مِل جاتے رہے۔ یہ اُن کو پیش آئے واقعات و تجربات اور اُن کے فہمِ رسا کی بات تھی کہ اسرائیلیوں نے ٹھان لیا کہ بے شک ہزیمت کی ذِلّت برداشت کر لی جائے بہ نسبت سنگدلانہ فتح حاصل کر کے قوم متشدّد و جارح فاتح بن جائے۔ اس اقبال سے مزید واضح ہو جاتا ہے کہ نِیّت تو ٹھیک سہی مگر اہلِ اسرائیل اپنی کہی پر قائم بھی رہ پائیں گے؟ نُقطہ سُوالیہ ہے۔ ایسا امن جو دُنیا میں موجُود امن سے کُچھ زیادہ ہی بڑھا چڑھا نظر آئے تو شک ہونے لگتا ہے کہ اس میں تعلّی آگئی ہے۔ امن کی جو بھیڑ نظر آ رہی ہے، بھیڑ نہِیں، کھال ہے جس کے نیچے تشدّد کا بھیڑیا ہے۔ ایسے امن کے خالق ستم رسیدہ لوگ ہوتے ہیں، خطرہ موجُود رہتا ہے کہ متشدّد فاتحین کے خلاف کب اُٹھ کھڑے ہوں، اپنے ہی قائم کردہ امن کی دھجیاں بکھیر دیں.... آن کی آن میں امن کو تشدّد کی گود میں جا گرائیں۔ یہی اسرائیل کی تاریخ ہے، صیہونیوں کا مزاج ہے۔ اپنے ہی قائم کردہ امن کا وُہ بھرم نہِیں رکھ سکتے، غیر یہُودیوں پر اُنھیں اِعتبار ہی نہِیں۔ دل کی بات پوچھیں تو سچ وُہی ہے کہ امن و آشتی ہم اِنسانوں کے بس کی بات ہی نہِیں، خُدائی کرشمہ ہی ہے بس جو امن قائم رکھ سکتا ہے، صلیب اُس کی گواہ ہے۔
در در کی خاک چھاننے کے ایامِ عُسرت میں اسرائیلی قوم کو اجتماعی تجربے کی کٹھنائیوں سے گُذرنا پڑا۔ من حیث القوم انھیں زوال دیکھنا پڑا، اور اس کے ذِمّہ دار بھی وُہ خُود ہی تھے۔ ہوتے ہوتے کہانی اس نازک موڑ تک آ پہنچی کہ دیکھتے ہی دیکھتے سب کُچھ تہ و بالا ہو گیا۔ سین بدلا اور مفتوح اسرائیلی فاتحین بن گئے۔ امن کا پرچار کرنے کے بجاے وُہ تشدّد کا ارتکابِ جُرم کرنے پر تُل گئے۔ پاسا پِھر پلٹا، اب اُن کی ذات نشانہ پر تھی۔ بچاو کے لیے سب نے نِگاہیں آسمان پر جما دیں۔ لگے اپنے خُدا کو پُکارنے کہ المدد! المدد۔ ان لمحات میں بصیرت نے آشکارا کِیا کہ جب بالکل ایسا موقع محل ہو اور قوموںکے عروج و زوال کے دروازے پر بد بختی کی دستک پڑ رہی ہو تو اسرائیل کو سامنے رکھ کے خُود خُدا تاریخ کے آڑے آجانا ضرُوری سمجھتا ہے جس سے تمام دُنیا کے لوگ متاثر ہوتے ہیں۔ عین ایسی ہی صُورتِ حال ہوتی ہے جس سے اثر لے کر کتابِ مُقدّس کے عہدِ عتیق کا وُہ موضوعِ کلام اُبھر کر سامنے آتا ہے اور وُہ گیت جو چوتھے غمناک، اذیتیں سہنے والے خادم کے بارے میں ہے تخلیق ہوتا ہے۔
حوالہ....اشعیا نبی....13:52 اور12:53
پُرانے عہد نامہ پاک میں امن کے بارے میں اہم دینی نِکات سامنے لائے گئے ہیں۔ لیکن ان کی تلاوت کرتے سمے ذِہنی کیفیت کُچھ ڈانواںڈول سی رہتی ہے۔ اس کی باریکیاں تب واضح ہُوئیں اور ذِہن میں جگہ بھی بنا پائیں جب مُقدّس عہد نامہ جدید میں پاک خُداوند یسُّوع مسیح کی زندگی، اس کا مصلُوب ہونا، مُردوں میں سے دوبارہ جی اُٹھنا اور اس متبرک حیاتِ خُداوند کے پیچھے کارفرماجذبہ جب سامنے آیا کہ اپنے چاہنے والوں، پیروکاروں، پرستاروں بل کہ پوری اِنسانِیّت کی مکتی کے لیے اس نے اِنسانوں میں بُودوباش اختیار کی، ان کے لیے مسیحائی کی اور ان کے گُناہوں کا کفّارہ ادا کرتے ہوئے جان تک قربان کر دی، اور جب پِھر جی اُٹھا تو اُس نے دُنیا میں آ کر اپنی کلیسیا بھی زندہ کر دی جو آج تک بل کہ یومِ عدالت تک قائم و دائم رہے گی۔ خُدا پاک کا، اِس مُقدّس خادم کا عکس اِشعیا نبی کی کتاب کے نصف آخِر میں دوبارہ اُبھرتاہے اور اس کا ذِکر ایک فردِ واحد کے طور پر کِیا گیا ہے۔ جس کا ظہورِ اِظہار بطور علامت سامنے آتا ہے اور صیہون کی راہ گم کردہ بیوی کی طرح اسرائیلیوں میں بار بار اس کے تذکرے جاگ جاگ اُٹھتے رہے ہیں۔ خادم خُدا کے سراپا کے بارے میں جو ذِکر اذکار ہے اور تمام لوگوں میں اسرائیل کے لوگوں کا جو کردار سامنے آیا ہے وُہ مسیحائی اس لحاظ سے ہے کہ اہلِ اسرائیل اپنے اعلیٰ ترین اصولوں کی عملی شکل آیندہ زمانہ میں آنے والے المسیح میں پا لینے کا عقیدہ رکھتے ہیں۔
مناجاتِ غمناک خادم کے مُطابِق دُنیا بھر کے اِنسانوں نے خُدا کے اس خادم کے خلاف بڑی سازشیں کیں، اسے اذیتیں پہنچائی گئیں، شدید دُکھ تکلیف اور سختیوں سے آزمایا گیا، وُہ اپنی راہِ حق پر قائم رہنے سے باز نہ آیا تو اُنھوں نے اس کی جان لے لی۔ آہ و فغاں کرنے والا جس طرح نوحہ کناں ہوتا ہے اور اپنے خُدا میں پناہ حاصل کرتا ہے، اس نے بھی بدلہ نہ لیا، پلٹ کے وار نہ کِیا، زینہ زینہ چڑھتے بڑھتے تشدّد کو اس نے اپنی جان پر سہا، اس سے کنّی نہ کترائی۔ خُدا کے ہاں اس کی قُبُولیت بڑھ گئی۔ پِھر اچانک ہم غمناک خادم کے بارے میں سنتے ہیں کہ چوتھے گیت میں دلگیر اشخاص اور دُنیا کے بادشاہ عوام و خواص سبھی اقبال و اعتراف کرنے لگتے ہیں۔ وُہ قُبُول کرتے ہیں کہ وُہ اس کے خلاف ساز باز میں شریک تھے۔ جو اس کے ساتھ ہُوا، وُہ اقبال کرتے ہیں کہ وُہ اس کے ذِمّہ دار تھے۔ اور وُہ جو مارا گیا.... اس نے ایک دُنیا کے گُناہوں کا بوجھ اُٹھا رکھا تھا۔ خُدا بھی تو ہے۔ اس نے اُسے بچا لیا۔ اس کی جان کے صدقے میں اور جو کُچھ اس پر بیتی اور اس نے سہی اسی کے وسیلے سے خُدا نے دُنیا کو امن آشنا کر دیا اور اسی مُقدّس خادمِ خُدا میں تاریخِ عالم والا خُدا کا عظیم منصوبہ کامیاب ہو جائے گا۔ خُدا کے اس خادم کے ذریعے، جو خُود بھی بنی اسرائیل میں سے ہی ہے، اب خلقت کے لیے ممکن ہو گیا کہ نئے راستوں، مرحلوں اور منزلوں کی تلاش میں نکل کھڑے ہوں۔ کبھی نہ کبھی، کہیں نہ کہیں منزلِ مقصود ضرُور پا لیں گے، وُہ انصاف جس کے لیے ترس رہے تھے اب ان کا مقصد بن جائے گا۔ ایسا معاشرہ جنم لے گا جہاں تشدّد کو مرگھٹ رسید کِیا جا چکا ہو گا.... اب امنِ عالم خواب نہِیں، حقیقت بن کر سب کے انتظار میں ہے۔
کہانی اپنے نُقطہءعروج کو پہنچتی ہے جب اس صادق خادمِ خُدا، اِبنِ اِنسان کی موت واقع ہوتی ہے اور پِھر وُہ مُردوں میں سے جی اُٹھتا ہے۔ یہی خُداوندِ خُدا یسُّوع المسیح مُقدّس ہے! اسرائیل کی تاریخ میں جس چیز کی ابتدا ہُوئی تھی پاک خُداوند میں اس کی تکمیل ہُوئی۔ گویا صلیب پر موت اور مُردوں میں سے زندہ ہونے والے مُقدّس مسیح میں دُنیا بھر کے امن کے لیے رضاے خُداوندی پوری ہُوئی۔ اور مزید برآں یہ کہ اس کرشمہءقدرت کا اِظہار اس عظیم تر ہستی کے ہاتھ سے ہُوا جس نے تشدّد کو تشدّد سے زیر نہِیں کِیا بل کہ اسے عدم تشد دسے مارا۔
مختصر مختصر سا جائزہ پیش کِیا جائے تو سُوال نمبر28 کاجواب یہی بنتا ہے کہ خُداوند قُدُّوس نے اپنی رضا سے اِنسان کو ارادے کی آزادی عطا کی، رضاے ربانی تو لامحدود ہے مگر اِنسان کو اپنی مرضی کرنے کی بھی بہتیری آزادی بخشی گئی۔ اس نے یہ گُل کھُلایا کہ خُدا کی مہربانی اور اس کے فضل سے قطع نظرتشدد، جارحیت، ظلم اور جبر کو تشدّد، جارحیت، ظلم اور جبر سے ہی ختم کرنے کی ادا اپنا لی۔ یہی دستورِ زمانہ ہے جو اب بھی مقُبُول ہے۔ حال آں کہ خُدا مہربان نے اپنے پسندیدہ بندوں اور منتخب اُمت کے ذریعے اور اپنے بیٹے المسیح اور اس کی کلیسیا کے ذریعے دُنیا کو امنِ عظیم سے ہمکنار کرنا چاہا اور یہ امن ایسا امن ہوتا کہ دُنیا بھر کے اِنسان مِل کر بھی ایسا امن کبھی عام نہ کر سکتے۔ اگر لوگوں کی قسمت میں ہوتا تو اُنھیں عقائدکی آزادی،آرزو کی آزادی اور صلح و آشتی اور مَحَبّت کی فراوانی میں یکمشت سب نصیب ہو جاتا۔ خُداوند یسُّوع پاک کی صبر و شکر سے سہی جانے والی اذیتوں، تکلیفوں او رمشکلات اور اس کی مسیحیوں بل کہ تمام اِنسانوں کی مکتی کے لیے قربانی اور بطور مسیحاے اِنسانِیّت دوبارہ آمد میں شرکت سے سب کو وُہ آزادی مِل جاتی تشدّد جس کے پاس بھی نہ پھٹک سکتا۔ یہی خُدا باپ میں خُدا بیٹے کا رُوح القُدس سے بنی نوعِ اِنسان کے لیے فضلِ عظیم ہوتا۔ اب بھی کِسی کو اگر یہ نکتہ پلّے پڑ جائے اور وُہ عقیدے اور مذہب کی آزادی اور باہمی اعتماد و اِعتبار کی فضا اپنا لے اور اس میں جینا شُرُوع کر دے تو وُہی بات ہے کہ ابھی بھی.... ڈُلّے بیراں دا کجھ نہِیں وِگڑیا.... دُنیا تشدّد سے خالی اور امن و مَحَبّت سے معمور ہو سکتی ہے۔ خُداوند یسُّوع پاک کی برکت سے سب ممکن ہے۔