German
English
Turkish
French
Italian
Spanish
Russian
Indonesian
Urdu
Arabic
Persian

:سُوال نمبر60

اگرچہ عصرِ حاضر میں مسیحیّت ہی دعویدار ہے کہ سچّا مذہب ہے تو بس وہی ہے، تو یہ کیا کہ اِس سچّے مذہب کی چار آسمانی کتابیں ہیں اور چاروں کی چاروں مُختلف آدم زادوں نے لکھی ہیں؟

 

جواب:۔ مُقدّس عہد نامہء قدیم کلیسیا کی پہلی کتاب ہے۔ ضرُورت محسوس کی جانے لگی کہ ایسے پاک نوشتہ جات منظرِ عالَم پر لائے جانے چاہییں جو ہمارے بارے میں تفصیلات سے دُنیا کو آگاہی دیں۔ لہٰذا یکے بعد دیگر مُقدّس اناجیل احاطہء تحریر میں لائی گئیں۔

اِس حقیقت سے انکار کی گُنجایش نہیں کہ کوئی ایک کتابِ مُقدّس خُداوند پاک یسُّوع مسیح کی حیاتِ اطہر کا پُورے طور احاطہ نہیں کرتی۔ سچ ہے۔ اور یہ بھی سچ ہے کہ جب متوازی بل کہ متشابہ تحریریں سامنے آئیں تو نامُمکن کو مُمکن ہونا بھی نصیب ہو گیا، اور وہ تاریخِ ادب میں اپنی نوع کی ایک انوکھی ہی مثال بن کے سامنے آیا۔ ہر تصنیف مُقدّس و مُکمَّل خُوشخبری پر محمول ہے۔ اور ایسی ہر پاک انجیل اپنے مصنّف کے اسم مُبارک سے موسُوم ہے۔ جیسے مُقدّس متی جو مُحَصِّل تھا اور اُسے شاگردِ مسیح ہونے کی سعادت نصیب ہُوئی، اُس کی انجیل پاک۔ مُقدّس یروشلم کے نوجوان مُقدّس مرقس کی انجیل۔ قیاس کِیا جاتا ہے کہ آخری کھانے کی مُقدّس تقریب اُس کی ماں کے گھر میں انجام پائی تھی جہاں تمام شاگردانِ مسیح پاک باجماعت خُداوند یسُّوع مسیح کے حضور حاضر تھے۔ اعمال 12:12 میں ہے:

''اور سُوچ کر یُوحنّا مُلقّب مرقس کی ماں کے گھر گیا۔ جہاں بہت سے لوگ جمع ہو کر دُعا کر رہے تھے''۔

اور ڈاکٹر لوقا، ہمارا عزیز دوست: (حوالہ) 

''لُوقا پیارا طبیب اور دِیماس تم سے سلام کہتے ہیں''۔

کُلسیوں۔۔۔۔۔۔14:4۔

یہی مُقدّس لُوقا پولوس رسُول کا دوست تھا۔ مُقدّس لُوقا کی انجیل پاک کے بعد آخری کاوش مُقدّس یوحنّا کی تھی۔ یہ سب پاک خُداوند یسُّوع مسیح کے شاگردانِ عزیز تھے اور اِنھوں نے لمبی عمریں پائیں۔

شروع سے ہی یہ کہا جاتا رہا ہے کہ وہ مُقدس متی ہی تھا جس نے انجیلِ پاک لکھنے میں پہل کی۔ یہی کوئی سنہ50عیسوی کے لگ بھگ کا زمانہ تھا اور وہ اُن دِنوں دیارِ فلسطین یا مُلکِ شام میں رہ رہا تھا۔ بعد کے دور میں ترتیب و ترمیم اور تدوین و اصلاح سے گذر کے مُقدّس انجیل متی موجُودہ شکل میں سامنے آئی۔مُقدّس انجیل مرقس تیرہ سال بعد مُلک رُوم میں لکھی گئی۔ یہی قدیم ترین کلامِ مُقدّس ہے۔ مُلکِ یونان میں البتہ ستّر، اسّی عیسوی کے عشرہ میں نظرِ ثانی کے بعد مُقدّس متی اور مُقدّس لُوقا کی اناجیلِ پاک کو حتمی طرز دی گئی اور ترجمہ تحریر میں لایا گیا۔ مُقدّس یوحنّا کی انجیل پاک کے بارے میں غالب خیال یہی ہے کہ ایشیاے کُوچک میں پہلی صدی عیسوی کے اختتام پر اِسے لِکھّا گیا۔ متی، مرقس، لُوقا مُقدّسین کی جو اپنی اپنی تین مُقدّس اناجیل ہیں یعنی اناجیلِ متوافقہ، تینوں مجموعی طور پر لفظ بہ لفظ ایک جیسی ہیں جو یہی ظاہر کرتی ہیں کہ ایک طرح سے اِن میں ربط ہے آپس میں۔

چاروں اناجیلِ مُقدّس اِس بات کی شاہد ہیں کہ کلیسیا کی یہ فکر و تشویش مُثبت اور جائز ہے کہ یہ بشارت (انجیلِ مُقدّس) محفُوظ کر لی جانی چاہیے تا کہ امتدادِ زمانہ اِس میں بگاڑ نہ لا سکے۔ اور یہ اناجیل اِس بات کا ثُبُوت بھی فراہم کرتی ہیں کہ مُختلف النّوع سُوچ، فکر اور مُختلف انداز کے سماجی ماحول کا پاس کرتے ہُوئے کمال اثر پذیری کے ساتھ اس مُبارک مُقدّس اور عظیم خُوشخبری کا بہ طریقِ احسن اعلان کِیا گیا تھا۔ ہر مُقدّس انجیل، کِسی بھی مُعاشرت(قوم یا برادری) کے نزدِیک مذہب کی جو خاص اہمیت ہوتی ہے، دِینِ مسیحی کی روشنی اس پر مرتکز کر کے اسے مزید نمایاں کر دیتی ہے۔ مُقدّس متی کے مخاطب چوں کہ اہلِ یہود تھے اِس لیے اس نے جو کلامِ خُداوند پاک مرتّب کِیا وہ یسُّوع پاک کے پانچ مُقدّس خطبات سے اخذ کِیا۔ جو نبی موسیٰ کی پانچ مُقدّس کتابوں (تکوین، خُرُوج، احبار، عدد اور تثنیہ شرع) سے مطابقت رکھتی تھیں۔ یہی وَجہ ہے کہ یوں پاک خُداوند یسُّوع مسیح کی ذاتِ بابرکات بطور شارع شریعتِ الٰہی اُبھر کر سامنے آتی ہے۔ مُقدّس مرقس کا سارا زور اس مکاشفہ پر رہا کہ وہ خُداوند یسُّوع مسیح پاک کے مسیحاے اعظم ہونے والے رُخ کو سامنے لائے۔ خُدا بیٹے کا اپنے آپ کو خُدا باپ کی خلقت پر ظاہر کرنے کے عمل کا انکشاف مُقدّس مرقس کا مطمحِ نظر تھا۔ مُقدّس لُوقا نے اپنے یونانی دانش وروں اور صاحبِ عِلم لوگوں کے لیے لِکھّا۔ وہ تاریخی پیش رفت سامنے لانے پر قادر رہا۔ (تاریخی ارتقا کو سامنے رکھتے ہُوئے ہی اُس نے رسولوں کے اعمال پر بھی بہت کچھ لِکھّا)۔ وہ اپنی انجیل پاک میں تحقیر و بے توجہی گزیدہ لوگوں کے لیے، مفلس و بے بسوں کے لیے، گنہگاروں و خطاکاروں کے لیے، مظلوم و ستم رسیدہ خواتین کے لیے خُداوند پاک یسُّوع مسیح کی بے پناہ محبت و عنایت کی اہمیت کو نمایاں کرتا نظر آتا ہے۔ مُقدّس روح الحق اور دعا و عبادت کے زُمرے میں بھی اُس کے پاس لکھنے کو بہُت کچھ تھا جس پر وہ پُورا اُترا۔

تجزیہ کرنے والے تو بعض اوقات اُن مستعمل الفاظ کی بھی چھان پھٹک کرتے چلے آئے ہیں جن سے پتا چل سکے کہ انجیلِ مُقدّس کی تبلیغ کِس سماج یا قوم میں کی جاتی رہی۔ ظاہر ہے لکھتے سمے اُسی خاص مُعاشرت کی زُبان کے الفاظ خُودبخُود اس انجیلِ مُقدّس میں شامل ہوتے چلے گئے۔ جہاں تک ہوسکا لوگوں نے کوشِش کی کہ خُداوند یسُّوع مسیح کے مُنہ مُبارک سے نِکلا ہر کلمہ عین اُسی طرح یاد رکھتے ہُوئے آگے پہنچائیں۔اِس معرکہ کی مشق کو بڑی تقویت ملی ذِہنوں میں اُترنے اور محفُوظ ہو جانے کی اُس آسانی سے جو پاک خُداوند کے گُفتگُو کرنے کا انداز تھا، متناسب، بھرپُور استعاراتی اور موزُونیتِ طبع سے مرصّع۔ یہ حقیقت اپنی جگہ ہے، خُداوند یسُّوع مسیح کا کلامِ پاک سینہ بہ سینہ منتقل ہوتا ہُوا بندے بندے تک پہنچتا رہا اور آگے بڑھتا رہا، حتّٰی کہ وہ وقت بھی آگیا جب تحریروں، آواز کے فیتوں، فلم کی ریلوں، کیسٹوں اور آواز محفوظ کرنے کی جدید تکنیکوں میں امر ہو گیا۔ جدید دور تک پہنچتے پہنچتے، گاہے گاہے آزاد صراحتوں، وضاحتوں اور تہذیب و تالیف کا مصدقہ اضافہ بھی ہوتا چلا گیا۔ ہمارے مُشاہدے میں ہے کہ مُقدّس متی نے ''آسمان کی بادشاہت'' کو جو انجیل میں لِکھّا، وہ در اصل خُداوند یسُّوع مسیح پاک کے مُنہ سے ادا ہو چکے الفاظ یوں تھے۔۔۔۔۔۔''خُدا کی بادشاہی''۔ مُقدّس یوحنّا کی انجیلِ مُقدّس میں تو اِس سے بھی زیادہ کھُلے ڈُلے مظاہر سامنے آتے ہیں۔ وَجہ؟ خُداوند پاک کے کلام میں ایشیاے کُوچک میں سمجھی جا سکنے والی ہر اصطلاح کا عکس نظر آتا ہے۔ یہاں کے لوگوں میں تبلیغِ دِین کا فریضہ مُقدّس یوحنّا کے سِپُرد تھا، اور اُس نے شاذ و نادر ہی خُدا کی بادشاہت کی ترکیب استعمال کی ہو تو کی ہو، ورنہ تو ''آسمان کی بادشاہی'' کے الفاظ ایشیاے کُوچک کے باشندوں کو سمجھ آجانے والے اور جلد ذہنوں میں اُتر جانے لائق تھے۔ اُن کے نزدیک روشنی اور زِندگی دونوں معنویت کی حامل توانائیاں تھیں، چناں چہ ایسے ہی اُسلُوبِ بیان کا استعمال خُداوندپاک یسُّوع مسیح کے کلامِ مُقدّس کے بیان میں جاری رکھتے ہُوئے اُس نے اپنی انجیلِ مُقدّس میں بھی قلمبند کِیا۔ اس شاگردِ عزیزِ مسیحا مُقدّس نے اسِ ابلاغ کو مفیدِ مطلب پایا کہ خُداوندپاک یسُّوع مسیح نے اُن لوگوں سے جو فرمانا چاہا اس کے اظہار کے لیے اُن لوگوں کو آسانی سے سمجھ آ سکنے والے الفاظ کو ترجیح دی جو اُن کے لیے اِدراک کی کفالت کر سکتے تھے۔ چناں چہ مُقدّس یوحنّا نے سہل مُمتنع کی راہ پکڑی۔ خُداوندپاک یسُّوع مسیح نے فرمایا تھا۔۔۔۔۔۔ خُدا کی بادشاہی۔ خُداوند مُقدّس کے اِس انجیل نویس نے اِسے کر دیا۔۔۔۔۔۔ آسمان کی بادشاہت۔ روشنی، آگ، زِندگی سب آسمان سے اُترتی ہیں نا۔۔۔۔۔۔ 

یہ ہر گزنہ سمجھا جائے کہ انجیل نویسوں نے اپنی اپنی موزُونیِ طبع کے مُطابِق مُقدّس خُداوندپاک یسُّوع مسیح کا نرالے انداز کا خیالی سراپا اپنے پاس سے ہی گھڑ لیا، نہ ہی انجیل مُقدّس کی پُرجوش بشارت لانے والوں کا مقصُودِ نظر یہ تھا کہ ماہانہ کارگزاری کا بے کم و کاست روزنامچہ پیش کر دیا جائے۔ اُن کا مطلُوب و مقصُود مُقدّس الہامی کتاب تھی۔۔۔۔۔۔ انجیل کی منادی۔ اور اس انجیلِ مُقدّس کے سلسلے میں بے حد اہمیت اِس امر کو حاصل تھی کہ جو اس میں لِکھّا گیا وہ واقعی واقع ہُوا۔ جو کلام وارد ہُوا اسے ہُوبہ ہُوانہی الفاظ میں درج کِیا گیا۔ اگر ایسا نہ کِیا جاتا تو پِھر وہ عظیم خُوشخبری کیا ہوتی جس کا دعویٰ تھا عالمِ بشری کے لیے! 

ایک دِلچسپ اور توجُّہ طلب بات! چوتھی انجیل پاک کا اپنا ایک وصف ہے جو اس میں نوٹ کِیا جا سکتا ہے کہ موقع محل کی مناسبت سے فرمُودات و واقعات کو کہ وہ جیسے ظہور پذیر ہُوئے، اس میں مِن و عن بیان کر دیا گیا ہے۔ مُختلف توجیہات میں سے اِس کی ایک توجیہہ تو یہی ہے کہ جس کی بِنا پر بعد کے وقتوں میں اِس انجیلِ پاک کو مُقدّس یوحنّا سے منسُوب کر دیا گیا کیوں کہ مُقدّس خُداوندپاک یسُّوع مسیح کی حیاتِ انسانی میں یہ اُس کا نوعُمرترین شاگردِ خاص تھا اور ضعیف العُمری تک پہنچتے پہنچتے بہُت کچھ بل کہ سب کچھ کا عینی شاہد تھا۔ اِس لیے اُس کی دی ہُوئی واقعات و حالات کی تفصیل کو چیلنج نہیں کِیا جا سکتا۔

بس فقط یہی اہم نہیں کہ بہُت سے حالات و واقعات ہیں جو خود خُداوندپاک یسُّوع مسیح اور اُس کے مسیحیوں پر بیتے اور وہ سچّائی کے ساتھ سینہ بہ سینہ آگے منتقل ہُوئے اور پھر تحریر میں آنے کی منزل بھی انھوں نے مار لی۔ اور بھی معاملات ہیں جو اہمیت میں کِسی بھی طرح ان سے کم نہیں۔ اہم ترین معاملہ ہی کامل ترین صداقت ہے۔ وہ ہے خُداوندپاک یسُّوع مسیح کا تواریخِ عالم پر ثبت دوام۔ کائنات کی سب سے بڑی سچّائی ہے یہ! جدید بائبلی تحقیقات سے یہ حقیقت کھُلی کہ اناجیلِ مُقدّس کے نویسندوں کی تمام تر سنجیدہ توجُّہ ہی اسی معاملہ کی تہہ تک پہنچنے اور دوسروں کو اس کا اِدراک کرانے پر مرتکز رہی۔ ایک وقت ایسا بھی آیا کہ مُقدّس کلیسیا کے بہُت سے عینی شاہدین ایک ایک کر کے جہانِ رنگ و بُو سے مُنہ موڑ گئے۔ موسوی قانون سے متعلق موضُوعات اور غنائی تراکیب سے لیس نظریات نے چلی آ رہی زُبانی روایات کے لیے خطرات پیدا کر دیے، اس وقت ایسی روایت کی گئی باتوں کی پرکھ، تصدیق اور حفاظت کلیسیا نے اپنے سر لے لی تا کہ پُورے وثُوق سے باور کرایا جا سکے کہ مُقدّس یسُّوع مسیح بحوالہ صُورت و سپیکر و سیرت کیسا تھا، خُود خُداوندِ خُدا جو انسان بن کر اپنی بنائی خلقت میں ظاہر ہُوا۔ یہی وہ خاص مقام ہے اور یہِیں وہ خاص نکتہ موجُود نظر آتا ہے جو دال ہے اناجیلِ مُقدّسہ کے حیطہء تحریر میں لانے کے نقطہء آغاز پر۔

بُلند اقدارِ مسیحِ مُقدّس کے بارے میں لوگوں کے اندر پائے جانے والے، ان کے من میں جاگزیں مجموعی تاثُّر کی خالص پہچان اور اس کے اجلال و احترام کی محافظت اور تمام مسیحیوں کے صادق عقائد کی نگہبانی کا بِیڑا روح القُدُس نے اُٹھا رکھا ہے جس کے دم سے کلیسیا دائم قائم ہے کہ وہ خود اس میں رہتا ہے۔ انسان کی تصانیف و تالیفات میں مُقدّس رُوح الحق کا دائرئہ کار خارجی خارجی نہیں بل کہ داخلی داخلی یعنی مُکمَّل داخلی سطح پر ہے۔ حتمی تجزِیہ یہی ہے کہ صحائفِ مُقدّسہ رُوحُ القُدُس کے اِیما و امداد سے ہی منظرِ عام پر آئے، کیوں کہ اُسی نے انسان کی تخلیقی قُوّتوں میں برکت دی اور اُسے اُن کے صحیح استعمال کی راہ سُجھائی جب کہ وہ تخلیق کار انسان مُختلف مزاج، مُختلف ذہن و خرد اور مُختلف صلاحیتیں دے کر پیدا کیے گئے تھے۔ یہ رہبرِ کامل کا کمال تھا جس نے اُن سے کام لیا! وہ حد، وہ گُنجایش، جس کے بِرتے پر تمامی اناجیلِ مُقدّسہ سب کے آقا و مولا، مالک و خالق، جلال و بزرگی والے خُداے لم یزال کی تعریف بیان کرتے ہیں، وہ مُتّفقہ و مُصدقہ ہے۔ غلط بیانی اس میں ہو ہی نہیں سکتی۔ یہی اس کا استناد ہے، جو بھرپُور ہے، مماثل ہے اور توانا ترین ہے۔ سر چشمہ لازماً سبھی کا ایک ہے۔۔۔۔۔۔ تثلیث کے تین مُقدّس اقنوموں، وُجُودی حیثیتوں میں سے ایک ذاتِ بابرکات یعنی مُقدّس خُداوندِ خُدا، یسُّوع ناصری۔

بادشاہوں کا بادشاہ اور خُداوندوں کا خُداوند، جلال کا خُدا یسُّوع مسیح، جس نے سب کے لیے جان دی، اُن کے لیے بھی جو ہلاک ہونے کو ہیں۔ اُس کے سوا کِسی دوسرے سے نجات نہیں۔۔۔۔۔۔ اُس پاک خُداوند کے بارے میں معلوماتی مآخِذ چاروں اناجیلِ مُقدّس کافی ہرگز نہیں۔ زمانہء ابتدائی کلیسیا (پہلی چار صدیوں کے دوران) ہی مُقدّس لُوقا نے نہ صِرف اپنی پاک انجیل لکھی بل کہ اس کے تسلسُل میں بہُت کچھ اور بھی، مثلاً 'رسولوں کے اعمال' اور 'خُطُوط' بھی لکھے۔ یونانی زبان میں لکھے گئے تمام خطوط میں مُقدّس پولوس رسول کے بقلم خود لکھے گئے اور اس کے دائرئہ اثر کے مُقدّسین کے لکھے گئے خطوط نمایاں ہیں۔ سنہ52عیسوی سے66عیسوی تک اُس نے 14خطوط لکھے، مُقدّس یعقوب گبھرو نے سنہ ساٹھ اکسٹھ کے درمیانی عرصہ میں ایک خط لِکھّا، مُقدّس پطرس نے 62-63 عیسوی کے درمیان دو خط لکھے۔ پہلی صدی عیسوی کے اختتام سے پہلے پہلے مُقدّس یوحنّا نے تین خُطُوط اور 64عیسوی میں یہودہ نے ایک خط لِکھّا۔ اور پھرایک نبوی تصنیف بھی موجُود ہے جو مُقدّس یوحنّارسول سے منسُوب ہے۔۔۔۔۔۔''مکاشفہ''۔۔۔۔۔۔ جلاوطنی کے دوران یونانی زبان میں لکھی گئی کتاب جو آسیہ کی سات کلیسیاؤں کے نام معنون کی گئی۔ اسی کو ''سفرِ نبوّت'' یعنی ''کتابِ الہام'' بھی کہتے ہیں اور یہ عہد نامہء جدید کی آخری کتاب ہے جو ''کشفِ یوحنّا'' بھی کہلاتی ہے۔

مُلاحظہ فرمائیے۔۔۔۔۔۔ گلاؤ بنیزفیر کُوئِنڈی گنگ فِیُور ایرواخزینے۔ ڈوائیٹچشے آؤُس گابے دیس ہو لینڈلیشین کاٹیچِسمُس نِژم ویگین۔ اُتریخٹ،1968عیسوی، صفحات232تا235۔

(ماخوذ از جرمن ورژن۔ انگریزی ورژن بھی دستیاب ہے)

وہی تاج پائیں گے جو موت تک اپنے ایمان پر قائم رہیں گے۔ بے شک!

Contact us

J. Prof. Dr. T. Specker,
Prof. Dr. Christian W. Troll,

Kolleg Sankt Georgen
Offenbacher Landstr. 224
D-60599 Frankfurt
Mail: fragen[ät]antwortenanmuslime.com

More about the authors?