German
English
Turkish
French
Italian
Spanish
Russian
Indonesian
Urdu
Arabic
Persian

:سوال نمبر188

۔یہواہ (الوہیم) کی معتبر تصدیق کے مطابق یسوع مسیح کو مصلوب نہیں کِیا گیا تھا، بس لکڑی کے ایک پول (ستون) کے ساتھ لٹکا دیا گیا تھا۔کیا تاریخی اعتبار سے ایسی کوئی شہادت ہے کہ اسے نوک دار ستون سے گاڑ کے اُس سے لٹکایا نہیں گیا تھا بل کہ باقاعدہ اُس زمانے کی رِیت کے مطابق مصلوب کِیا گیا تھا جس سے اُس کی موت واقع ہوئی؟


جواب:

۔ موت کے گھاٹ اُتارنے کے لیے صلیب پر چڑھا دینا بھی ایک طریقہ ہے۔ یہ لکڑی کا ہی ایک پھیلے بازوؤں والا ستون ہی ہوتا ہے، یونانی اسے سٹائورس(Staurós)بولتے تھے اور اطالوی زبان میں صلیب کو کرکس(Crux)کہا جاتا ہے۔ رومن اسے کراس بار کہتے تھے یعنی وہی لکڑی کا زمین میں گاڑا ہوا عمودی ستون جس کے اوپر والے سرے پر اُفقی طور قاطع بَلّی لگی ہوتی ہے۔ دُور سے دیکھنے پر لگتا تھا جیسے کوئی انسان بازو پھیلائے ہوا میں بلند ہے۔ محضُوم مجرموں کو اس پر منطبق کر کے میخیں گاڑ دی جاتی تھیں تا کہ وہ لٹکا رہے۔ یہی سٹائورن یعنی مصلوب ہونا کہلاتاتھا۔ موت کے لیے صلیبی سزا انتہائی اذیت ناک، ظالمانہ ترین اور بہت ہی بھیانک سزا تصور کی جاتی تھی۔ یہ دیدنی منظر تو نہ ہوتا تھا مگر مختلف موقعوں پر مختلف جذبات کے تحت لوگ پھر بھی دیکھنے کو اُمڈے چلے آتے تھے۔ [حوالہ کے لیے دیکھیے(Cicero, In Verrem II, 5, 64, 165)]۔اس طرح کی کربناک موت کی سزا کب سے رائج چلی آرہی تھی تحقیق نہیں ہو سکی۔ بعض کھوجیوں نے یہ بھی کھوج لگائی ہے کہ میڈز(Medes)اور پرشیا (فارس) کے قدیمی باشندوں میں یہ سزا رائج تھی۔ فلسطین میں پہلی صدی قبل از مسیح میں اس طور کی سزا کی خبر ملتی ہے۔ جب کہ مقدس عہد نامہء قدیم میں بھی ذکر ملتا ہے کہ جنھیں موت کی سزا دی جا چکی ہوتی تھی اُن کے جسم میں تیز نوکیلے کیل ٹھونکے جاتے تھے اور یوں بھی ہوتا تھا کہ انھیں نشانِ عبرت بنانے کے لیے ان کی لاشوں کو درختوں یا لکڑی کے کھمبوں سے لٹکا دیا جاتا تھا۔

تین دِن کے بعد فرعون تیرا سر تیرے تن سے جدا کرے گا اور درخت پر تجھے لٹکائے گا اور پرندے تیرا گوشت کھائیں گے۔

تکوین…19:40

رومن لاء کے مطابق ڈاکا، قتل، غداری، حرامکاری(lèse majesté)، بغاوت ان سب جرائم کی سزا مصلوب کِیا جانا طے تھی۔ چوں کہ واضح ہدایات موجود نہ تھیں اس لیے مصلوب کرنے کے لیے مختلف طریقے آزمائے جاتے تھے۔ عام طور پر یہ ہوتا تھا کہ مجرم پر کوڑے برسائے جاتے تھے، ٹکٹکی لگائی جاتی تھی۔ باندھ دیا جاتا تھا یا کمان پر تیر کر دیا جاتا تھا یعنی کمان کو ڈنڈے پر آڑا یا عرضاً رکھ کر اس میں سے تیر یا پتھر مارے جاتے تھے اور بسا اوقات تیر یا پتھر کے بجاے مجرم کو ہی اس پر کس کے سامنے دیوار پر زور سے دے مارا جاتا تھا جس سے ٹکرا کے وہ کچلا ہوا زمین پر گرتا اور تڑپ تڑپ کے مر جاتا تھا۔ بعض صورتوں میں کمان کے ساتھ اسے میخیں ٹھونک کر تیر بنا کے پار کر دیا جاتا تھا۔ دوشاخے (کانٹے) سے چھیدنے کی سزا پیٹی بُولُم(Patibulum)کہلاتی تھی۔ صلیب کی طرح دوشاخے کو بھی مجرم خود اُٹھا کے عقوبت خانے تک لے جاتا تھا۔ اسی پر ہی بس نہیں، اگر اس میں سانس باقی ہے یا نہیں اسے لکڑی کے ستون سے نتھی کر دیاجاتا تھا۔  اس کے ذہن و بدن کے کرب کے پیشِ نظر اس پر اتنا ترس کھا لیا جاتا تھا کہ سزا پر عمل سے پہلے اُسے نشہ آور مشروب پلانے کی زحمت گوارا کر لینا عام دستور تھا۔ اس کے ساتھ ہی ایک کام اور کِیا جاتا تھا کہ کھمبے کے عین وسط میں ایک کھونٹی سی ٹھونک د ی جاتی تھی تا کہ مرنے والا ’’آرام‘‘ سے رِمکے رِمکے جان جانِ آفرین کے سپرد کرے، جلدی نہ مچائے۔ دیکھنے والوں کو لگتا تھا جیسے وہ اس کھونٹی سی پر شاید بیٹھا ہوا ہے۔ یوں اس کا گھٹا گھٹا دم اُسے درد و غم سے بالآخِر نجات دے دیتا تھا۔ اس کا مُردہ جسم لٹکا چھوڑ دیا جاتا تھا تا کہ شکاری درندے اور پرندے ضیافت اُڑائیں، نہ اُڑاتے تو خود ہی کچھ دِنوں بعد اُس کی لاش گل سڑ کے ڈھانچا سی لٹکتیرہ جاتی تھی۔پھر کچھ مدت گذرنے کے بعد ڈھانچا ’’احترام سے‘‘ اُتار کر پیوندِ زمین کر دیا جاتا تھا۔

مقدس خداوند یسوع مسیح پر بھی کچھ اسی طرح کا بِیتنا تھا، لیکن اس کی تفصیلات بہت سے سوالات کی زد میں ہیں۔ پریٹوریم(Paraetorium)یعنی انصاف کی قتل گاہ کے باہر باہر تو خداوند پر بھی مسلسل کوڑے برسائے گئے تھے، اپنی صلیب کو اپنے ہی کندھوں پر جمائے نحیف و نزار خداوند جب پریٹوریم کی طرف جیسے تیسے اُسے کھینچتے ہوئے چل رہا تھا…

تب پیلاطُس نے عوام کو خوش کرنے کے ارادے سے اُن کے لیے بر ابّا کو چھوڑ دیا اور یسوع کو کوڑے لگوا کر حوالہ کِیا کہ مصلوب کِیا جائے۔

مقدس مرقس…15:15

تب پیلاطُس نے یسوع کو لے کر کوڑے لگائے۔

مقدس یوحنّا…1:19

خداوندیسوع پاک اتنا فروتن تھا، لاغر و کمزور، کہ اُس سے صلیب کھینچنا محال ہو رہا تھا، صلیب گاہ (کھوپڑیوں کی جگہ) تک کیسے پہنچتا۔ سفر طویل و دُشوار گزار تھا اور جان عذاب میں…

اور وہ اُسے جلجتا مقام میں لائے جس کا ترجمہ کھوپڑی کی جگہ ہے۔

مقدس مرقس…22:15

دیگراناجیلِ مقدس میں ایسی ہی روئیداد رقم ہے۔ اور یہ بھی

اور مَے میں مُر ملا کر اُسے دی۔ پر اُس نے نہ لی۔

مقدس مرقس…23:15

خداوند پاک یسوع نے نشہ آور مشروب نہ پِیا، اس کے تن مبارک کے کپڑے بیریوں نے آپس میں بانٹ لیے…

اُنھوں نے اُسے مصلوب کِیا اور قرعہ ڈال کر کہ ہر ایک کیا کیا لے، اُس کے کپڑے بانٹ لیے۔

مقدس مرقس…24:15

جب سپاہی یسوع کو مصلوب کر چکے تو اُنھوں نے اُس کے کپڑے لیے (جن کو اُنھوں نے چار حصہ کِیا، ہر سپاہی کے لیے ایک حصہ) اور چُغہ بھی لیا۔ یہ چغہ بِن سِلا سراسر بُنا ہوا تھا…

مقدس یوحنا…23:19

اغلب قیاس یہی ہے کہ اُنھوں نے خداوند کے ہاتھوں اور پائوں میں میخیں گاڑ دیں۔

تب دوسرے شاگردوں نے اُس سے کہا کہ ہم نے خداوند کو دیکھا ہے، مگر اُس نے اُن سے کہا جب تک مَیں اس کے ہاتھوں میں میخوں کے چھید نہ دیکھ لوں اور میخوں کی جگہ اپنی اُنگلی نہ ڈال لوں اور اپنے ہاتھ کو اُ س کی پسلی میں نہ ڈال لوں، ہرگز یقین نہ کروں گا۔

مقدس یوحنا…25:20

میرے ہاتھ اور میرے پاؤں دیکھو کہ مَیں ہی ہوں۔ مجھے چھُو کر دیکھو۔ کیوں کہ روح کے گوشت اور ہڈی نہیں ہوتی جیسا مجھ میں دیکھتے ہو۔

مقدس لوقا…39:24

جب وہ خدا کے قائم ارادے اور علمِ سابق کے مطابق پکڑوا دیا گیا تو تُم نے اُسی کو بے شرع آدمیوں کے ہاتھ سے صلیب دِلوا کر قتل کِیا۔

اعمال…23:2

اسےT کی شکل والی صلیب پر کس دیا گیا، میخوں سے مقدس لہو رِسنے لگا۔ خداوند یسوع کے داہنے اور بائیں طرف جو مصلوبین تھے اُن کی صلیبیں عموداً چھوٹی تھیں، خداوند کی بڑی۔

اور اُنھوں نے اُس کے ساتھ دو ڈاکوؤں کو ایک اُس کے دائیں اور ایک اُس کے بائیں مصلوب کِیا۔

مقدس مرقس…27:15

خود اُس کی بتائی ہوئی پیشگوئیاں اُس پر صادق آرہی تھیں جن کے اس کے شاگرد گواہ تھے۔ یوں یہ نوشتہ بھی پورا ہوا کہ ’’وہ بدکاروں کے ساتھ شمار کِیا گیا‘‘۔

وہاں پر ایک لوح لگا دی گئی جس کے لیے بڑا کھوج لگایا گیا مگر وہ نہ مِلی، اس پر ارامی میں یا یونانی زبان میں نام اور جرم کی نوعیت درج تھی۔

اور کِتابہ پر اس کا الزام یہ لکھا تھا… یہودیوں کا بادشاہ۔

مقدس مرقس…26:15

اور پیلاطس نے ایک کِتابہ لکھ کر صلیب پر لگوا دیا، اس میں لکھا تھا… ’’یسوع ناصری۔ یہودیوں کا بادشاہ‘‘۔

مقدس یوحنا…19:19

اس اندوہناک سانحہ کی عینی شاہد جلیل کی خواتین بھی تھیں۔

اور کئی عورتیں بھی دُور سے دیکھ رہی تھیں۔ اُن میں مریم مجدلی اور مریم چھوٹے یعقوب اور یوسف کی ماں اور سلومی تھی۔

مقدس مرقس…40:15

اور یسوع کی صلیب کے پاس اُس کی ماں اور اُس کی ماں کی بہن۔ حلفائی کی بیوی مریم اور مریم مجدلی کھڑی تھیں…

مقدس یوحنا…25:19

سبت کی صبح مقدس خداوند یسوع مسیح کا جسدِ مبارک صلیب سے اُتارنے کا کام پیلاطس کی اجازت سے یوسف رامتی نے ادا کِیا، اس نے کتانی چادر مول لی اور خداوند کی نعش کو اس میں کفنایا اور اُسے ایک قبر میں رکھاجو چٹان میں کھودی گئی تھی اور اس قبر کے منہ پر ایک پتھر لڑھکا دیا…

…اور جب شام ہوئی تو اِس لیے کہ تہیہ یعنی سبت سے پہلے کا دِن تھا، یوسف رامتی جو نام ور مشیر اور خود خدا کی بادشاہی کا منتظر تھا، آیا اور جُرأت سے پیلاطس کے پاس جا کر یسوع کی لاش مانگی…

مقدس مرقس…43,42:15

بعد ازاں یوسف رامتی نے جو یسوع کا شاگرد تھا (لیکن یہودیوں کے ڈر سے خفیہ طو رپر) پیلاطُس سے اجازت طلب کی کہ یسوع کی لاش کو لے جائے۔ اور پیلاطس نے اجازت دے دی۔ پس وہ آ کر اس کی لاش لے گیا۔

مقدس یوحنا…38:19

(An almost literal transcript of the essay ‚Kreuzigung, crucifixion, by Willibald Bösen, Lexikon für Theologie und Kirche, Bd.6 (Freiburg i. Br.: Herder, 1997)

Contact us

J. Prof. Dr. T. Specker,
Prof. Dr. Christian W. Troll,

Kolleg Sankt Georgen
Offenbacher Landstr. 224
D-60599 Frankfurt
Mail: fragen[ät]antwortenanmuslime.com

More about the authors?