:سوال نمبر187
روح القدس کا کتنی مرتبہ زمین پر نزول ہوا؟ اپنے دوبارہ جی اُٹھنے پر یسوع مسیح نے بھی اس سعادت سے اپنے شاگردوں کو سرفراز کِیا اور بعد میں ’’رسولوں کے اعمال‘‘ میں بھی ہے کہ وہ پھر آئے گا۔
جواب:
۔ روح القدس کے آنے کے بارے میں بائبل مقدس سے جو جواب سامنے آتا ہے اس کی تاویل کا دارومدار سارا اس ایمان پر ہے کہ روح القدس کی موجودگی اور اس کے حیات بخش عمل کا مسیحیوں کی زندگی میں بہت دخل ہے۔ صحائفِ مقدس (پاک نوشتہ جات) سے یہ فہم ملتا ہے کہ مقدس روح الحق کل حیات کا تخلیقی جوہر ہے۔ کائنات میں جو کچھ زندہ ہے اُسی کے ’’دَم‘‘ سے ہے۔ وہ زندوں میں ربط و اختلاط قائم رکھنے والا ہے اور نجاتِ اُخروی کے لیے سب کا مددگار، راہبر اور شافع ہے۔مقدس خداوند یسوع مسیح میں اسی کی فعالیت کارفرما ہے، مثلاً… خداوند کا بطنِ مادر میں آنا، بپتسمہ، دِین کی تبلیغِ عام کا عمل، صلیب پر موت اور پھر مُردوں میں اُس کا جی اُٹھنا۔ جلال، بزرگی اور عظمت والے خداوند یسوع مسیح کی موت کو اس نے حیاتِ نو کا پیش خیمہ بنا دیا، یسوع پاک میں، خلقت کو تازہ زندگی ملی۔ جس کا ایک نہ ایک روز یسوع پاک کی نئی ہیئت میں اپنی تکمیل، اپنی انتہا کو پہنچنا امرِ ربی ہے۔ کیوں کہ یسوع پاک… مسیح ہے، وہ مسیح جس کو مسح مقدس روح الحق سے دیا گیا۔ اقدس رسول لوقا کی انجیلِ پاک میں ہے کہ مقدس خداوند یسوع المسیح اپنے تئیں آپ اپنے پیشگویانہ وعدے کا اظہار یوں کرتا ہے:
روحِ خداوند مجھ پر ہے
اسی لیے اُس نے مجھے مسح کِیا
کہ مسکینوں کو خوشخبری دُوں
اُس نے مجھے اس لیے بھیجا ہے
کہ قیدیوں کو رِہائی
اور اندھوں کو بینائی
اور کُچلے ہوؤں کو آزادی بخشوں
اور خداوند کے سالِ مقبول کو مشتہر کروں۔
مقدس لوقا…18:4
بحوالہ رسولوں کے اعمال…
… کہ کس طرح خدا نے یسوع ناصری کوروح القدس سے اور قدرت کے ساتھ مسح کِیا۔ وہ نیکی کرتا اور اُن سب کو جو شیطان کے ہاتھ سے ظلم اُٹھاتے تھے شفا دیتا پھرا، کیوں کہ خدا اس کے ساتھ تھا۔
اعمال…38:10
اور یوحنّا نے شہادت دے کر کہا کہ مَیں نے رُوح کو کبوترکی طرح آسمان سے اُترتے دیکھا ہے اور وہ اُس پر ٹھہر گیا۔
مقدس یوحنّا…32:1
ہماری رِہائی، ہمارا فدیہ، چھٹکارا، ہماری مخلصی اور ہماری مکتی کا انحصار ہماری اس شراکت پر ہے جو روح القدس میں خداوند مسیح کو معمور کیے ہوئے ہے۔ ہم خداوند کی تمجید کرتے اور اُس کو جلال دیتے ہیں کہ ہم مسیحی ہیں اور مسیح خداوند کو روح القدس کے ساتھ مسح دیا گیا، اسی مسح پاک کے ذریعے ہمیں بھی مسح پانے کی شراکت مِلی، زہے نصیب!
مقدس خداوند یسوع مسیح میں شراکت کا جو انعامِ عظیم ہے وہ روح القدس کا ہی فیضان ہے، کیوں کہ روح کو بھیجا گیا تھا کہ خدا کا ابدیت میں، اس کی شخصیت اس کی ہستی کا مداومت میں، اس کے کلمہ کلام کا دائمی طور یسوع مسیح میں تجسم ہو اور تاریخِ کائنات میں اس کا کردار امر ہو جائے۔ تمام حقیقتیں، صداقتیں روح القدس میں اُتر گئی ہیں، اسی میں بھری پڑی ہیں کیوں کہ وہ روحِ خداوند یسوع پاک ہے۔ چناں چہ مقدس رسول پولوس کی گواہی موجود ہے…
اور خداوند روح ہے اور جہاں کہیں روحِ خداوند ہے وہاں آزادی ہے۔
2۔ قرنتیوں…17:3
اس کے معنی یہ ہوئے کہ روح حاضر و ناظر، ہر جا موجود ہے، اس فعالیت میں بھی جو مبعوث خداوندِ کلیسیا سے منسوب ہے اور دنیا میں بھی اپنے حیات بخش عمل کی صفات کے باعث۔ وہ مسیح خداوند میں محض تحفہء حیاتِ نو کے طور پر ہی وجود نہیں رکھتا بل کہ وہ تو اس تحفہء بے بدل کو عطا کرنے والا تیسرا اقنومِ اقدس ہے۔ الگ سے مکمل ذاتِ الٰہی ہے۔ جہاں تہاں اس کی عملداری ہے، معاد سے متعلقہ آزادی کی سلطنت کی داغ بیل ابھی سے، اس دارِ فانی میں ڈال چکا ہے۔ تھامس اکوینس (Thomas Aquinas)کے مطابق ’’ایمان اور عقل علم کی بنیاد ہیں۔ خدا نے ہمیں بِلا شرط پہلے سے مقرر کِیا ہے اور مقدس ساکرامینٹ ہمارے لیے ہر لحاظ سے مؤثِّر ہے‘‘۔ چناں چہ روح القدس کا تحفہء عظیم ہے جسے ہم ایمان اور عقیدے کے توسط سے پاتے ہیں نئے معاہدے کی زندہ مثالی حقیقت ہے۔
پینتیکوست(عیدالخمسین) پر روح القدس کے نزول و نفوذ کے بارے میں یوں بیان کِیا گیا ہے:
جب عیدِ خمسین کا دِن آیا تو وہ سب مِل کر ایک ہی جگہ جمع تھے۔ اور یکبارگی آسمان سے ایسی آواز آئی جیسے تُند ہوا کا زناٹا ہوتا ہے اور اس سے سارا گھر جہاں وہ بیٹھے تھے گونج اُٹھا۔ اور آگ کے شعلے کی سی زبانیں انھیں دِکھائی دیں، اور جدا جدا ہو کر ہر ایک پر ٹھہریں اور وہ سب روح القدس سے بھر گئے اور دوسری زبانیں بولنے لگے جس طرح روح نے اُنھیں بولنا عطا کِیا اور آسمان کے تلے کی ہر ایک قوم سے خدا ترس یہودی یروشیلم میں تھے۔ جب یہ آواز سنائی دی تو ہجوم لگ گیا اور لوگ متعجب ہوئے، کیوں کہ ہر ایک کو یوں سنائی دیتا تھا کہ یہ میری ہی بولی بول رہا ہے۔ اور سب حیران ہو کر اور تعجب کر کے آپس میں کہنے لگے کہ دیکھو یہ جو بولتے ہیں کیا سب جلیلی نہیں؟ پس کیوں کر ہم میں سے ہر ایک اپنے اپنے وطن کی بولی سنتا ہے؟ پارتھی اور مادی اور عیلامی اور مابین النہرین اور یہودیہ اور کپادوکیہ اور پنطُس اور آسیہ، اور فروجیہ اور پمفولیہ اور مصر اور لوبیہ میں قیروان کے آس پاس کے علاقے کے باشندے اور مسافرینِ روما۔ کیا یہودی کیا نومرید اور کریتی اور عربی۔ ہم اپنی اپنی زبان میں ان سے خدا کے عجیب کاموں کا بیان سنتے ہیں۔
اور سب حیران ہوئے اور تعجب کر کے ایک دوسرے سے کہنے لگے کہ یہ کیا ہوا چاہتا ہے؟
اوروں نے ٹھٹھے سے کہا کہ یہ نئی مَے کے نشے میں ہیں۔
اعمال…1:2تا13
یہودیوں کے ہاں پینتیکوست کو در اصل فصل کٹائی کے موسم کے طور پر لیا جاتا تھا۔ پہلی یا دوسری صدی مسیحی میں اس دِن کو کوہِ سینا پر طے پانے والے معاہدہ کی یاد کے طور پر منایا جانے لگا۔ مقدس لوقا نے اسی سے اپنے قیاس کی راہ نکالی۔ روح القدس کے نزول بارے اپنے بیان کے ذریعے وہ حتمی نجات بخش عہد کے آغاز کا پتا دینا چاہتا ہے اور یہ خبر بھی کہ گذشتہ نبیوں نے جو پیشینگوئیاں کی تھیں ان کے پورا ہونے کا وقت آچکا ہے۔
کیوں کہ دیکھ، اُنہی ایام میں او راُسی وقت جب مَیں یہودہ اور یروشلیم کی قسمت بدل دوں گا تو مَیں سب قوموں کو جمع کر وں گا۔ اور اُن کو وادی یوشافاط میں اُتار لائوں گا اور وہاں ان کی عدالت کروں گا، اس لیے کہ اُنھوں نے میری امت اور میری میراث اسرائیل کو قوموں میں پراگندہ کر دیا ہے اور میرے ملک کو بانٹ لیا ہے۔ ہاں میری اُمت پر قرعہ ڈالا ہے اور فاحشہ کے بدلے لڑکا دیا ہے اور مَے کے لیے لڑکی بیچی ہے تا کہ مے خوری کریں۔
یوئیل…1:3تا3
اور اُس نے خداوند یسوع پاک کی خوشخبری بھی دی۔
لیکن جب روح القدس تم پر نازل ہو گا تو تم قوت پائو گے اور یروشلیم اور سارے یہودیہ اور سامریہ میں بل کہ زمین کی انتہا تک میرے گواہ ہو گے۔
اعمال…8:1
اپنے بیان میں وہ بائبلی تمثیلوں، رمز و کنایہ اور استعاروں سے یوں استفادہ کرتا ہے جیسے عہدِ عتیق میں ظہورِ خداوندی کا جلالی اظہار ہے کہ کیوںکر اُس نے کوہِ سینا پر جلوہ نمائی فرمائی۔ عہد نامہء قدیم میں ایسی بہت سی مثالیں موجود ہیں۔ بلا خیز طوفان کے شور سے روح القدس کی طاقت کا اندازہ ہوتا ہے کیوں کہ وہ نئی زندگی بخش کر اس میں رمق اور طوفان برپا کردینے کی قدرت رکھتا ہے۔ وہ حیاتی کے لیے سانس ہے اور زندگی کرنے کی طوفانی جدوجہد کے لیے بھرپور طاقت۔ وہ جو اتنے شاگردانِ یسوع ایک گھر میں جمع تھے، ان کے بارے میں یہ ذکر کہ آگ کے شعلے، جنھیں شعلوں کی زبانیں کہا گیا، ان کے بارے میں بتایا گیا فرداً فرداً سب کی طرف لپک رہی تھیں اور وہ ان شاگردوں کے لیے شعلہ بیانی، حوصلہ اور ولولوں کا درس تھیں اور ان کی صلاحیتوں کو بڑھاوا دینے کا اشارہ تھیں کہ دنیا کے سامنے انھوں نے عظیم نویدِ مسرت دینے کے لیے مستعد ہونا تھا۔ اپنی مادری زبان کے علاوہ دوسری بولیاں سمجھنے اور ان بولیوں میں اپنا مافی الضمیر بیان کرنے کی قابلیت پیدا کرنے کی عملی ترغیب دی گئی تھی کہ روح القدس کی عطا سے سبھی غیر زبانیں روانی سے بول سکنے کی استعداد پیدا کرنا ان کے لیے ضروری تھا کیوں کہ ان سے کل کلاں انھوں نے مفید تر کام لینا تھا جب وہ راہِ خدا میں دوسروں کو تلقین و ہدایت کا رسولی فرض ادا کرنے نکل کھڑے ہوں گے۔ طرح طرح کے ملکوں، بھانت بھانت کے لوگوں، قسم قسم کی قوموں میں تبلیغِ دین کا فریضہ اداکرنے جب نکلیں تو زبانوں کے بابل و نینوائی ادھیڑ بُنوں میں نہ خود پڑیں نہ دوسروں کو الجھائیں، سب کو اپنی بات سمجھا سکنے اور ان کی بات انہی کی بولی میں خود بھی سمجھ کے یکجہتی کا سماں پیدا کر یں۔ زبانِ یارِ من تُرکی و من تُرکی نمی دانم والی مشکل نہ پیدا ہو، مکالمہ جب ذہن کی راہ دِل میں اُترے، من تو شدم تو من شدی والا ماحول پیدا ہو جائے، سب ایک بل کہ اِک مِک ہو جائیں، اسی میں تبلیغِ مسیحیت کے عالمی مشن کی کامیابی اور سب کی اسی میں فلاح ہے، جابہ جا بکھری نسلیں اور ٹکڑے ٹکڑے قومیتیں ایک ہو کر مسیحی قوم کے دائرے میں آجائیں تو اپنا بھی بھلا اور ان کا بھی بھلا، بھلے کا انت بھلا۔ مشن کا نصب العین پورا ہو جائے گا اگر ساری قومیں ایک خدا کی ایک ہی اُمت بن جائیں۔ رنگ، نسل، زبانوں میں بٹی سری خلقت ایک ہی صفِ مسیحیت میں آجائے، خدا کے لوگوں کی صف۔ عیدِ نزول میں وعدے کی تکمیل ہے۔ جب وقت رُک جائے گا، آخرت کی گھڑی آجائے گی تو اس کی سوئیاں دائمی چال چلنے لگیں گی، زندگی کو دوام مل جانے کے لیے خدا کی روح سے تمام جسم معطر ہو جائیں گے، رحمتِ خداوند کی پھوار انھیں تربتر کر دے گی چھوٹے انسان، بڑے انسان، جوان و بزرگ بِلا تفریقِ اعلیٰ و ادنیٰ، بِلا امتیازِمذہب و ملت، رومی، یونانی، یہودی، مسلمان، بت پرست، ملحد، متعدد خدائوں کو ماننے والے، نہ ماننے والے، مسیح خداوند کی دوسری آمد پر اُس کی اطاعت میں اُمتِ واحدہ بن چکے ہوں گے……
کیوں کہ دیکھ، انہی ایام میں اور اسی وقت جب مَیں یہودہ اور یروشلیم کی قسمت بدل دوں گا تو مَیں سب قوموں کو جمع کروں گا اور ان کو وادی یوشافاط میں اُتار لائوں گا اور وہاں اُن کی عدالت کروں گا اس لیے کہ انھوں نے میری اُمت اور میری میراث اسرائیل کو قوموں میں پراگندہ کر دیا ہے اور میرے ملک کو بانٹ لیا ہے۔
یوئیل…1:3، 2
خدا فرماتا ہے کہ…
آخری دنوں میں ایسا ہو گا
اور تمھارے بیٹے اور تمھاری بیٹیاں نبوت کریں گی
اور تمھارے نوجوان رویتیں دیکھیں گے
اور تمھارے بوڑھوں کو خواب آئیں گے
بل کہ مَیں اُن دنوں میں اپنے بندوں اور اپنی بندیوں پر اپنی روح سے انڈیلوں گا اور وہ نبوت کریں گے۔
اعمال…18,17:2
پطرس یہ باتیں کہہ ہی رہا تھا کہ روح القدس ان سب پر نازل ہوا جو کلام سُن رہے تھے اور اہلِ ختان میں سے جتنے مومن پطرس کے ساتھ آئے تھے وہ سب حیران ہوئے کہ غیر قوموں پر بھی روح القدس کی بخشش جاری ہوئی۔ کیوں کہ انھیں طرح طرح کی زبانیں بولتے اور خدا کی تمجید کرتے سنا۔
اس پر پطرس نے کہا کہ کیا کوئی ان کو پانی سے روک سکتا ہے کہ بپتسمہ نہ پائیں جب کہ انھوں نے ہماری طرح روح القدس پایا؟
اور حکم دیا کہ انھیں یسوع مسیح کے نام پر بپتسمہ دیا جائے۔ تب اُنھوں نے اُس سے درخواست کی کہ چند روز ہمارے پاس رہ۔
اعمال…44:10تا48
مقدس رسول پولوس کو بھی غیر معمولی انعاماتِ روح القدس کے بارے میں خوب جانکاری ہے۔ اس کے نزدیک اہمیت اس بات کو نہیں کہ وہ نادرالظہور مظاہرِ ثلث اقنوم ہوتے ہیں بل کہ اس کی نگاہوں میں اس بات کی وقعت ہے کہ مسیحی زندگی پر اس کا کس قدر اثر ہوتا ہے کہ ان کا ایمان پختہ تر ہوتا چلا جائے اور وہ خدا کی خلقت سے بھی اتنا پیار کرنے لگیں جتنا خداوند خدا سے اور اپنے آپ اور اپنوں سے کرتے ہیں۔ روح القدس کو جو قدرت و اختیار حاصل ہے یہ نہیں کہ وہ انتہائی غیر معمولی طاقت کا حامل ہے بل کہ یہ ہے کہ معمولی کو وہ اپنی طاقت سے غیر معمولی بنا دینے کا ملکہ رکھتا ہے۔مقدس خداوندیسوع مسیح سے ایفائیتِ خود سپردگی اس کا نمایاں ترین وصف ہے۔
پس مَیں تمھیں جِتاتا ہوں کہ جو کوئی روحِ خدا کی ہدایت سے بولتا ہے وہ نہیں کہتا کہ یسوع ملعون ہے اور نہ کوئی روح القدس کے بغیر کہہ سکتا ہے کہ یسوع خداوند ہے۔
1۔ قرنتیوں…3:12
اور اس کے ظہور کا پتا مسیحی اُمت کے لیے فلاح و بہبود اور عروج کے لیے اس کی خدمات سے چلتا ہے۔ ایمانداروں کی ساری جماعت اس کی رہبری کی مرہونِ منّت ہے۔
…کہ ہم کیا یہودی، کیا غیر قوم، کیا غلام، کیا آزاد سب نے ایک ہی روح کے وسیلے سے ایک بدن ہونے کے لیے بپتسمہ پایا اور ہم سب کو ایک ہی روح پلایا گیا۔ کیوںکہ بدن میں ایک عضو نہیں بل کہ بہت سے اعضا ہیں…
1۔ قرنتیوں…14,13:12…
مقدس پولوس رسول روح القدس کو اُبھارنے والی، کچھ کر گذرنے پر آمادہ کرنے والی،محرک طاقت سمجھتا ہے جو مسیحیت پر ایمان رکھنے والے تمام مومنوں میں زندگی کی جولانیوں، ان کے جذبوں، ولولوں کو زندہ و توانا رکھتی ہے تا کہ وہ مضبوط جسم پر نہیں پاک و لطیف روح پر تکیہ کریں۔
مگر مَیں کہتا ہوں کہ تم روح کے موافق چلو تو تم جسم کی خواہشوں کو پورا نہ کر و گے، کیوں کہ جسم کی خواہش روح کی مخالف ہے۔ اور روح کی خواہش جسم کی مخالف اور یہ ایک دوسرے کے خلاف ہیں یہاں تک کہ جو تم چاہتے ہو وہ نہیں کرتے۔
غلاطیوں…17,16:5
پس اے بھائیو! ہم بشریت کے قرضدارنہیں کہ بشریت کے طور پر زندگی بسر کریں۔ کیوں کہ اگر تم بشریت کے طور پر زندگی گزارو گے تو مرو گے۔ لیکن اگر روح سے بشریت کے کاموں کو مارو گے تو زندہ رہو گے۔
رومیوں…13,12:8
اور یوں ہی انھیں روح القدس کے تحفے مِل سکتے ہیں۔ یقینامقدس روح الحق کے تحفے ہیں… محبت، مسرّت، سلامتی، تحمل، شفقت، بھلے مانسی، وفاشعاری، حلیمی اور ضبطِ نفس۔
مگر روح کا پھل محبت، خوشی، سلامتی، صبر، مہربانی، نیکی، ایمانداری، حلم، پرہیز گاری ہے۔ ایسے کاموں کی کوئی شریعت مخالف نہیں۔
غلاطیوں…23,22:5
چناں چہ روح القدس انسانوں میں دُہری حلیمی و بردباری پیدا کرتا ہے۔ خدا کے حضور اپنی ذات کی صاف دلی اور کشادہ نگاہی جس کا اظہار فرد کی دعا اور خدا کی بندگی میں سامنے آتا ہے۔ خاص طور پر اپنے اور دوسروں کے حق میں کی گئی دعائوں کے سمے۔
اور کہ تم بیٹے ہو۔ اس سے ثابت ہے کہ خدا نے اپنے بیٹے کا روح ہمارے دِلوں میں بھیجا ہے جو ابا یعنی اے باپ! کہہ کر پکارتا ہے۔
غلاطیوں…6:4
کیوں کہ جو بشریت کے طور پر ہوتے ہیں وہ بشریت کی باتیں چاہتے ہیں، مگر جو روح کے طور پر ہوتے ہیں وہ روح کی باتیں چاہتے ہیں۔ کیوںکہ بشریت کی نیت موت ہے مگر روح کی نیت زندگی اور سلامتی ہے۔ اس لیے بشریت کی نیت خدا کی دُشمن ہے کیوں کہ نہ خدا کی شریعت کے تابع ہے اور نہ ہو سکتی ہے۔اور جو بشری ہیں وہ خدا کو پسند نہیں آ سکتے۔ مگر تم بشری نہیں بل کہ روحانی ہو بشرطے کہ روحِ خدا تم میں بسا ہوا ہو۔ مگر جس میں روحِ مسیح نہیں وہ اس کا نہیں۔ اور اگر مسیح تم میں ہے تو بدن تو گناہ کی نسبت مُردہ ہے مگر روح صداقت کی نسبت زندہ ہے۔ پھر اگر یسوع کو مُردوں میں سے زندہ کرنے والے کا روح تم میں بسا ہوا ہے تو مسیح یسوع کو مُردوں میں سے زندہ کرنے والا تمھارے فانی بدنوں کو بھی اُس روح کے ذریعہ سے زندہ کرے گا جو تم میں بسا ہوا ہے۔
پس، اے بھائیو! ہم بشریت کے قرضدار نہیں کہ بشریت کے طور پر زندگی بسر کریں۔ کیوںکہ اگر تم بشریت کے طور پر زندگی گزارو گے تو مرو گے، لیکن اگر روح سے بشریت کے کاموں کو مارو گے تو زندہ رہو گے۔
اس لیے کہ جتنے خدا کے روح کی ہدایت سے چلتے ہیں وہی خدا کے فرزند ہیں۔ کیوں کہ تم نے غلامی کی روح نہیں پائی ہے کہ پھر ڈرو۔ بلکہ تبنیت کی روح پائی ہے جس سے ہم پُکار کر ابا یعنی اے باپ کہتے ہیں۔ کیوں کہ روح آپ ہی ہماری روح کے ساتھ گواہی دیتا ہے کہ ہم خدا کے فرزند ہیں۔
رومیوں…5:8تا16
اسی طرح رُوح بھی ہماری کمزوری میں مدد کرتا ہے۔ کیوں کہ جیسا چاہیے ہم جانتے بھی نہیں کہ کیا دُعا کریں؟ مگر روح خود ناقابلِ بیان آہیں بھر بھر کر ہمارے لیے سفارش کرتا ہے۔
اور وہ جو دِلوں کا جانچنے والا ہے وہ جانتا ہے کہ رُوح کیا چاہتا ہے کیوں کہ وہ خدا کی مرضی کے مطابق مقدسوں کے لیے شفاعت کرتا ہے۔
رومیوں…27,26:8
ہمارے ہمسایہ سے بھی وسیع القلبی کے ساتھ پیش آتا ہے۔ بے غرضانہ محبت والی خدمت ہی مسیحیوں کی اصل آزادی و خود مختاری ہے۔
اے بھائیو! تم آزادی کے لیے بلائے گئے ہو مگر اس آزادی کو جسم کے لیے موقع نہ سمجھو بل کہ محبت سے ایک دوسرے کی خدمت کرو۔
غلاطیوں…13:5
یہ بات توجہ مبذول کرواتی ہے نیستی سے ہستی میں لائی گئی مخلوق کی مخلصی کی طرف، فنا و عدم استقلال سے چھٹکارا پانے کی طرف اور غلطی اور غلامی و محکومی سے آزادی کی طرف۔
کیوں کہ میری سمجھ میں اس زمانہ کے دُکھ درد اس لائق نہیںہیں کہ اُس جلال سے جو ہم پر ظاہر ہونے والا ہے مقابلہ کر سکیں، کیوں کہ خلقت کمالِ آرزو سے خدا کے فرزندوں کے ظاہر ہونے کی راہ تکتی ہے۔ اسی لیے کہ خلقت بطالت کے تابع ہے اپنی خوشی سے نہیں بل کہ اس کے سبب سے جس نے اسے تابع کِیا۔ اس امید پر کہ خلقت بھی فنا کی گرفت سے چھوٹ کر خدا کے فرزندوں کے جلال کی آزادی میں شرکت حاصل کرے گی۔ کیوں کہ ہم جانتے ہیں کہ ساری خلقت اب تک چیخیں مارتی ہے اور اسے دردِ زہ لگا ہے اور فقط وہی نہیں مگر ہم بھی جنھیں روح کے پہلے پہل پھل ملے ہیں خود اپنے باطن میں کراہتے ہیں اور تبنیت یعنی اپنے بدن کی مخلصی کی راہ دیکھتے ہیں۔ کیوں کہ امید سے ہم نے نجات حاصل کی۔ مگر امید کی ہوئی چیز دیکھ لینا امید نہیں ہوتی، کیوں کہ جس چیز کو کوئی دیکھ رہا ہے اُس کی امید کیسی؟ مگر جب ہم نادیدنی چیز کی امید کرتے ہیں تو صبر کے ساتھ اُس کی راہ دیکھتے ہیں۔ اسی طرح روح بھی ہماری کمزوری میں مدد کرتا ہے، کیوں کہ جیسا چاہیے ہم جانتے بھی نہیں کہ کیا دُعا کریں مگر روح خود ناقابلِ بیاں آہیں بھر بھر کر ہمارے لیے سفارش کرتا ہے۔
اور وہ جو دِلوں کا جانچنے والا ہے، وہ جانتا ہے کہ روح کیا چاہتا ہے، کیوں کہ وہ خدا کی مرضی کے مطابق مقدسوںکے لیے شفاعت کرتاہے۔
رومیوں…18:8تا27
(کیتھولک مسیحی تعلیم کی کتاب، عقیدئہ کلیسیا، ایڈیٹر دی جرمن بشپس کانفرنس 1985عیسوی، صفحہ222اور کاتھولیشر ایرواخزینن۔ کاٹچیسمُس)