:سوال نمبر151
۔اپنی روح خدا کے ہاتھوں میں سونپتے، سمے صلیب پر دُکھ درد اور ایذا کی شدت سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام پکار اُٹھے تھے، اے خدا! کیوں فراموش کر دیا، تنہا چھوڑ دیا، خدایا! اس گھڑی مجھ سے لاتعلق کیوں ہو گئے؟ آپ کا تو ایمان ہے وہ خود خدا تھے، پھر وہ کِس خدا کو پکارنے لگے؟
جواب:
۔آپ کا سوال مقدس خداوند یسوع مسیح کے مصلوب کیے جانے کے سانحہ کی رویداد پر محمول ہے جس کا تذکرہ مقدس متی رسول کی انجیل پاک میں وارد ہوا ہے:
نویں گھڑی کے قریب یسُّوع نے بڑی آواز سے چِلّا کر کہا…ایلی ایلی لما شبقتانی… یعنی اے میرے خُدا! اے میرے خُدا!! تُو نے مُجھے کیوں چھوڑ دیا۔
مقدس متی…46: 27
ایلی! ایلی!! لما شبقتانی! یہ دُہائی تھی۔ فطرتِ انسانی کے عین مطابق تھی، جس کا ادراک اس سے زیادہ بھلا کِسے ہو سکتا تھا۔ وہ زمین پر اپنی خلقت میں ابنِ آدم بن کے آیا تھا۔پورے کا پورا انسان تھا، انسانوں میں انسان بن کے جیا اور دُکھ سکھ جھیل کے مرا۔ صلیب پر وہ کُوک بلند نہ کرتا تو کیاکرتا؟ یہ تو فریاد تھی، اس کو گِلہ تھا اپنے آپ سے، اپنے خُدا ہونے سے، اپنی قدرت و طاقت سے۔ سب کچھ کرنے پر قادر تھا مگر لوگوں کے سامنے اظہار نہ کرنا چاہتا تھا۔ مصلوب ہونا اس نے قبول کر لیا، یہ اس کی مشیتِ مصلحت تھی۔ وہ تو سو فی صد خدا تھا۔ اپناپردہ آپ چاک کر دیتا؟ خون رِستا رہا اور سو فی صد انسان سسکتا رہا، صلیب پر بھی بخشش کے کام کرتا رہا، پڑوس والوں کے ساتھ حسنِ سلوک اور محبت کا پیغام جو تمام عمر دیتا رہا تھا۔ خود اس پر پورا اتر کے نہ دِکھاتا؟ یسوع مسیح بن کر ہی تو وہ انسانوں میں آیا تھا۔ انھیں میں جِیا اور مرا۔ اس کا نزول زمین پر ہوا، ہم انسانوں کے بیچ، ہم گنہگاروں کی جسمانی و ذہنی اذیتوں اور روحانی کرب و ملال میں ہمارا شریکِ غم رہا حال آں کہ وہ خدا تھا، اس فرق کے ساتھ کہ عصیاں سے پاک تھا، کسی انسان سے شادی نہ کر سکتا تھا، کیسے کرتا؟ خُدا تھا، اپنی ذات اپنی ہستی میں کوئی اور۔ ہم تو کھنکھناتی مٹی کے پتلے تھے۔ اس کی تخلیق کے کرشمے تھے۔ وہ تو ہم سے بس محبت ہی کر سکتا تھا، فانیوں سے غیر فانی محبت، الٰہی محبت نے ہمیں مکتی کی نعمت سے سرفراز کر کے ہمیں بھی غیر فانی بنا دیا، ہمیشہ ہمیشہ اپنے پاس پاس رکھنے کے لیے۔ ہم سے بہت پیار کرتا ہے۔ بڑے احسان ہیں اس کے ہم ماٹی کے پُتلوں پر۔ اسی لیے، جی ہاں اسی لیے ہر سانس کے ساتھ ہم اس کی حمد و ثنا کرتے ہیں، اُسے جلال دیتے ہیں۔
کیوں کہ اُس نے خُدا کی ذات میں ہو کر خُدا کے برابر ہونا غنیمت نہ جانا،بل کہ اُس نے اپنے آپ کو خالی کر دیا اور غلام کی ذات اختیار کر کے اِنسانوں کا مُشابہ ہو گیا۔ اِنسانی شکل میں پایا جا کر اپنے آپ کو فروتن کر دیا اور موت بل کہ صلیبی موت تک فرماں بردار رہا اور اسی واسطے خُدا نے اُسے نہایت بلند کِیا اور اُسے وُہ نام بخشا جو ہر ایک نام سے اعلیٰ ہے تا کہ یسُّوع کے نام پر ہر ایک گُھٹنا جھکے۔ کیا آسمان میں ، کیا زمین پر۔ کیا عالمِ اسفل میں اور خُداباپ کے جلال کے لیے ہر ایک زبان اِقرار کرے کہ یسُّوع مسیح خُداوند ہے۔
خطوط مُقدّس پولوس رسُول
فیلپیوں کے نام
6:2 تا11
صلیب پر خداوند یسوع کا چِلّانا نااُمیدی و مایوسی کی چیخ نہ تھی۔ مزامیر مبارک میں اکیسویں (بائیسویں) مزمور نوحہ و فریاد ہے اور اس میں مسیح کی اذیت کا مرثیہ اور فتح مندی کی نوید اور خدا کی تمجید کی گئی ہے۔
اے میرے خدا! اے میرے خدا!! تُو نے مجھے کیوں چھوڑ دیا ہے؟
تُو میری التجا اور میری فریاد کی آواز سے کیوں دُور رہتا ہے؟
اے میرے خدا! مَیں دن کو پکارتا ہوں پر تُو نہیں سنتا اور
رات کو بھی۔ پر تو میری طرف توجہ نہیں کرتا۔
مگر تُو۔ اے مداحِ اسرائیل!
تو مقدس میں سکونت پذیر ہے۔
ہمارے باپ دادا نے تجھ پر توکل کیا۔
توکل کیا اور تُو نے انھیں چھڑایا۔
اُنھوں نے تجھے پکارا اور رِہائی حاصل کی۔
اُنھوں نے تجھ پر توکل کِیا اور شرمندہ نہ ہوئے…
مزمور…(22) 21:2تا6