:سوال نمبر140
۔یہ تو وہی بات ہو گئی۔۔۔۔۔۔
چوں کفر از کعبہ برخیزد، کُجا ماند مسلمانی
بعض پریسٹ صاحبان کا انجیل پاک، سارے کے سارے نئے عہد نامہ مبارک پر اعتقاد ڈانواں ڈول نظر آتا ہے، وہ اسے معتبر نہیں سمجھتے، شک میں پڑ گئے ہیں۔ ہو گیا نا اوپر دیے گئے مصرع جیسا معاملہ؟
جواب:۔تسالونیکیوں کے نام اپنے پہلے خط میں مقدس رسول پولوس نے تحریر کِیا تھا کہ:
اس واسطے ہم بھی بِلا ناغہ خُدا کی شکرگزاری کرتے ہیں کہ جب خُدا کا کلام جسے ہم سناتے ہیں تم کو مِلا تو تم نے اُسے آدمیوں کا کلام نہیں بل کہ (جیسا درحقیقت ہے) خُدا کا کلام جان کر قبول کِیا اور وہ تم میں جو ایمان لائے تاثیر بھی کر رہا ہے۔
1۔ تسالونیکیوں۔۔۔۔۔۔13:2
دُوسری ویٹی کن کونسل میں بھی مناسب طور اس امر کی تشریح کی گئی ہے:
اس لیے کہ مقدس کتابوں اور نوشتوں میں مقدس خُداباپ جو آسمانوں پر ہے والہانہ اپنے بچوں سے ملاقی ہوتا ہے اور بھرپور محبت سے ان کے ساتھ باتیں کرتا ہے۔ اور عظیم حکمت و قدرت جو خُدا کے کلام میں ہے وہی کلیسیا کے لیے سہارا ہے اور اسی سے کلیسیا کو قوت و اختیار ملتا ہے اور وہی خُدا کے بیٹوں کے لیے ایمان کی طاقت ہے، رُوح کی غذا ہے اور ان کے لیے خالص اور کبھی نہ سُوکھنے والا، لافانی سرچشمہء حیاتِ روحانی ہے۔ لہٰذا یہی الفاظ تمام و کمال مقدس بائبل کے لیے برمحل ہیں کیوں کہ خُدا کا کلام زندہ و جاوید اور فعال ہے:
کیوں کہ خُدا کا کلام زندہ اور مؤثر اور ہر ایک دودھاری تلوار سے تیز تر ہے اور نفس اور رُوح اور بند بند اور گُودے گُودے کو جُدا کر کے گذر جاتا ہے اور قلب کے خیالوں اور ارادوں کو بھی جانچتا ہے۔
عبرانیوں۔۔۔۔۔۔12:4
اور اس میں اتنی سکت ہے کہ آپ اس پر اعتماد اور بھروسا قائم رکھ سکیں اور آپ کو آپ کی میراث دینے کی قوت رکھتا ہے اور یہ بھی کہ اس میں اتنا زور اور اثر ہے کہ ان تمام مقدسین کے درمیان کہ جو تزکیہ نفس کے عمل سے گذر چکے ہیں آپ کو بھی تزکیہء باطن سے سرفراز کر کے تخصیص و تقدیس کے مقا م پر پہنچا دے۔
اور اب مَیں تمھیں خُدا اور اُس کے فضل کے کلام کے سپرد کرتا ہوں جو تمھیں کامل بنانے اور تمام مقدسین کے درمیان میراث دینے کی قدرت رکھتا ہے۔
اعمال۔۔۔۔۔۔32:20
اعادہ کے لیے 1۔ تسالونیکیوں سے تلاوت کی سعادت پائیے۔ خُداوند تعالیٰ کے کلامِ اقدس کی بات ہو رہی ہے:
۔۔۔۔۔۔اور وہ تم میں جو ایمان لائے تاثیر بھی کر رہا ہے۔
(اس پیراگراف کے لیے(Dei Verbum, 21 / Word of God)سے اکتساب کِیا گیا)
صحائفِ مقدسہ اور پاک نوشتوں کی جب ہم تلاوت کرتے ہیں جو اُمتِ مسیحی کی زندہ روایات اور عقائد میں وہ درجہ رکھتے ہیں جو جسم میں دِل کو حاصل ہے تو اس سمت کا راستہ تعین ہو جاتا ہے جس کے تحت دورِ حاضر میں اُٹھائے گئے بہت سے سوالوں کا جواب بہت آسانی سے پیش کِیا جا سکتا ہے۔ مثلاً ان حوالوں کو سامنے رکھنا ازبس ضروری ہے، جیسے۔۔۔۔۔۔ انسانوں کے انفرادی حقوق و فرائض، مہد سے لحد تک حیاتِ انسانی کی توقیر و اہمیت، خلقِ خُدا کے لیے تحفظ و بقا کی ضرورت و افادیت، اٹل دائمی انصاف (دیر پاعدل) اور سب کے لیے پایدار امن و امان کی جستجو۔
انجیلِ مقدس کا ایک اپنا انداز ہے جس میں ہمیں سبق دیتی ہے کہ ہر انسان کی اپنی ایک وَرتھ ہوتی ہے، قد رو قیمت اور اہمیت ہوتی ہے جسے پہچانا جائے، اس کا پاس رکھا جائے۔ اس کلامِ مقدس سے ہمیں محبت کا درس ملتا ہے، سب کے لیے محبت، سب کا احترام، سب کی دِلجوئی۔ اس سے خُدا پر ہمارا ایمان پختہ ہوتا ہے، ہمارا اس پر توکّل، بھروسا بڑھتا ہے، یقین کو جِلا ملتی ہے۔
روح و قلب و جاں کی تسکین کے لیے مزمور135(136) ''کثیر احسانات کے لیے شکرگزاری'' کے پہلو سے تلاوت کا فیض حاصل کیجیے۔ اس میں خُداوند خالقِ کائنات کی عظمت و رحمت اور شفقت کا بیان ہے اور تمجیدِ خُداوندِ عظیم الجلال کی گئی ہے۔ اس کی رحمت ابد تک قائم ہے۔ اس نے ہماری پست حالی میں ہمیں یاد کِیا، اور ہم کو ہمارے دشمنوں سے خلاصی بخشی، وہ ہر بشر کو روزی دیتا ہے۔ آسمان کے خُدا لم یزال کا شکر کرو کہ اس کی رحمت ابد تک ہے۔
لمحہء موجود کہ جس میں ہم سانس لے رہے ہیں کلامِ مقدس کے فہم میں بعض ذہنوں میں کسر در آئی ہے، بھٹک رہے ہیں لوگ، سمجھتے ہیں کہ انسان کی آزادی خطرے میں پڑ گئی، شخصی آزادی کی اس مقدس کتاب کے ذریعے جڑیں کاٹی جا رہی ہیں اور کلامِ الٰہی کی تعلیمات کی وجہ سے انسانی آزادی، اس کی بالیدگی و ترقی کا گلا گھونٹا جا رہا ہے جب کہ صداقت و حقیقت یہ ہے کہ بائبل مقدس تو صراطِ مستقیم کی رہنما ہے، یہ تو وہ راستہ بتاتی ہے جس کی منزل آزادی ہے۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔اور سچائی کو جانو گے اور سچائی تمھیں آزاد کر دے گی۔
مقدس یوحنا32:8
ایک یہ بھی خام خیالی بعض سروں میں سمائی ہے کہ بائبل تو وقت سے بہت پیچھے رہ گئی ہے، ماڈرن زمانے کا ساتھ نہیں دے پا رہی، اس کی تعلیمات، اس کا وجود بے معنی ہو چکا ہے، مگر دل کی آنکھوں سے دیکھا جائے، شعور کے ترازو میں اسے تولا جائے تو معلوم ہو گا کہ یہ تو زندگی کو اس کے صحیح معانی پہنانے والی مقدس کتاب ہے۔ یہ کلامِ الٰہی ہے جو زندگی کو مقصدیت عطا کرتا ہے۔ اس کا لفظ لفظ زندگی کا ترجمان ہے۔ زندگی اس کتابِ مقدس سے عبارت ہے جو اپنی افادیت رہتی دنیا تک نہیں کھو سکتی۔ بائبل مقدس تمام وقتوں، گذری اور آنے والی صدیوں میں انسانیت کی فلاح جُو اور گذری، موجود اور آنے والی نسلوں کی راہبر ہے۔ یہ وہ گلستانِ ہدایت ہے جس کا ہرپھول تروتازگی میں اپنی مثال آپ ہے، اس کی ہر کلی ہرزمانے میں نئی آن بان شان سے کھلتی چلی آئی ہے اور اس کی خوشبو تا روزِ محشر چہار سُو پھیلی رہے گی، جن دوستوں کی ناکیں بند ہیں، اپنا علاج ڈھونڈیں اور وہ علاج بھی اسی کتابِ مقدس میں موجود ہے، کبھی دلجمعی سے، نیک نیت اور خشوع و خضوع سے تلاوت کر کے تو دیکھیں، چودہ طبق روشن ہوجائیں گے شک و شبہ کے نتھنے سب کھل جائیں گے، ان کی کایا پلٹ جائے گی، دِین سے بھٹکوں کو نئی زندگی مل جائے گی۔
کیوں کہ خُدا کا کلام زندہ اور مؤثر ہے اور ہر ایک دو دھاری تلوار سے تیز ہے اور نفس اور روح اور بند بند گُودے گُودے کو جُدا کر کے گذر جاتا ہے اور قلب کے خیالوں اور ارادوں کو بھی جانچتا ہے۔
عبرانیوں۔۔۔۔۔۔12:4
بڑی بات، بڑی بات یہ ہے کہ بے معنی، بے فیض، بے برکت اور بے جان کوئی کلام اس مقدس کتاب میں ایک بھی نہیں۔ کلمۃ اللہ بالتجسم، خُداوند پاک یسوع مسیح خود اس میں موجود ہے۔ ''کلام مجسم ہوا اور انسان بنا''۔ (۔۔۔۔۔۔مقدس یوحنا۔۔۔۔۔۔14:1) مجسم ہوا۔ متجسد ہوا، کیا مطلب؟ مطلب یہ ہے کہ خُدا کے ازلی کلمہ نے انسان کا جسم اختیار کِیا، ایسا کہ وہ سچّا خُدا اور سُچّا انسان تھا اور ہمیشہ سے خُدا ہے اور متجسد ہونے کے وقت سے انسان بھی ہے۔ اور کلمہ؟۔۔۔۔۔۔ خُدا کا بیٹا خُدا کا کلمہ کہلاتا ہے کیوں کہ وہ عقل کی راہ سے جنم لے کر باپ کا خیال ہے اور کہ خیال ہم پر بولے ہوئے کلمہ کے ذریعہ ظاہر کِیا جاتا ہے۔ کلمہ کی بابت کہا جاتا ہے کہ وہ ازلی ہے، باپ سے علیحدہ شخص ہے اور حقیقی خُدا ہے۔ ''ابتدا میں کلمہ تھا اور کلمہ خُدا کے ساتھ تھا او رکلمہ خُدا تھا''۔ (مقدس یوحنّا۔۔۔۔۔۔ 1:1)۔ زندہ و قائم خُدا کا مقدس کلمہ پاک خُداوند یسوع المسیح ہے اور کلام مقدس بائبل ہے۔
(CCC.108)
بائبل مقدس میں کلمہء مجسم سے ہماری ملاقات رہتی ہے کیوں کہ ساری کی ساری بائبل خُداوند یسوع مسیح پاک کی شان میں ہمِیں سے مخاطب رہتی ہے۔ (CCC-134)