خُداوند یسوع مسیح کی خُدائی اور انسانی رُوپ
یسوع.... خُدا بھی اور اِنسان بھی
1۔مُسلمان پُوچھتے ہیں
٭حضرت یسوع المسیح بھی مبعوث کیے گئے انبیا میں سے ایک نبی ہیں۔ پھِر اُنھیں حضرت محمد پر فوقیت کا درجہ کیوںکر دِیا جا سکتا ہے جب کہ حضور خاتم النبیین ہیں۔
٭حضرت یسوع المسیح اعلیٰ مرتبت پیغمبر ہیں، اُن کی ولادتِ مُبارک بھی بِن باپ کے ہوئی جو معجزہ تھی اور اُن سے منسوب بڑے بڑے معجزات بھی ہیں، تو کیا یہ سارے اوصاف اِس بات کے متقاضی ہیں کہ اُنھیں خُدا مان لیا جائے؟
٭ایک ہی وقت میں کوئی خُدا بھی ہو اورانسان بھی، یہ کیسے ہو سکتا ہے؟
٭خُدا یہ کیوںکر گوارا کر سکتا ہے کہ اُس کے پیغمبر کو مصلوب کر دیا جائے؟
ہم خُدا کا یہ تصُّور کیسے قائم کر سکتے ہیں کہ وہ اذیتیں بھی سہتا پھرے اور اُسے موت بھی نہ آئے۔
2۔مُسلِم نقطہءنظر
عمومی
خُداوند تعالیٰ کا کوئی ہمسر نہِیں۔ اِس کا مطلب ہے کہ وہ کُلّی طور پر اپنی مخلوق سے الگ، مختلف و ممتاز ترین ہے۔ اُس کی مخلوقات میں سے کِسی کو اُس کی ذاتِ والاصِفات سے جوڑنے کی کوئی بھی کاوش مُسلمانوں کو خوفزدہ بل کہ لرزہ براندام کر دینے کے لیے کافی ہے۔ اِنسانوں میں سے کسی کا رشتہ خُدا سے جوڑنا بھی اِسی زمرہ میں آتا ہے۔ وہ بھی تو خُدا ہی کی تخلیق ہے۔ یہی امر شِرک کہلاتا ہے، یعنی کِسی کو خُدا کا شریک ٹھہرانا یا اللہ تعالیٰ کے متشابہ ٹھہرانا، یا من تُوشدم، تو من شُدی والا معاملہ قرار دینا۔ مُسلمانوں کا یہ ڈر، یہ خوف عین قرآن مجیدکے تتبُّع میں ہے کہ ایسے کسی بھی عمل کو قرآن پاک نے شِدّت سے اور بار بار رَد کیا ہے۔
خُداوند یسوع مسیح کے لیے مخصوص القابات مثلاً خُدا کا بیٹا یا مسیحیوں کا حضرت مریم کو خُدا کی ماں کہنا، مُسلمانوں کے ہاں اِسے کُفر کے ذیل میں شُمار کِیا جاتا ہے۔
صلیب پر حضرت یسوع المسیح کی شبیہ یا اُن کی حقیقی زِندگی کے عکس، اِنسانی مُجسموں اور خاص طور پر نبی اور رُسولوں کے مُجسموں کو اِسلام میں اِستحسان کی نگاہوں سے نہِیں دیکھا جاتا۔
تفصیلی جائزہ
ُدا کی برابری نہِیں ہو سکتی اِس بارے میں قرآن کریم میں بہت تاکید آئی ہے:
اور نہ کوئی اُس کا ہمسر ہے۔
(القرآن، الشعرا11)
وہ تمام مخلوقات کا خالقِ حقیقی ہے اور تخلیقی لحاظ سے جو کُچھ موجود ہے وہ خُود اُس کے وجود سے قطعی طور مختلف ہے۔
انبیاءعلیہم السلام کی طویل تر صف میں حضرت یسوع المسیح کو ایک بُلند مقام حاصل ہے۔
ہم نے اسے (ابراہیم کو) اسحٰق دیا اور یعقوب، ہر ایک کو ہم نے اپنی ہدایت سے نوازا اور پہلے زمانہ میں ہم نے نوح کو ہدایت کی اور اُس کی اولاد میں سے داﺅد کو اور سلیمان کو اور ایوب کو اور یوسف کو اور حضرت موسیٰ کو اور ہارون کو (ہدایت بخشی) اور اسی طرح ہم نیک کام کرنے والوں کو جزا دِیا کرتے ہیں اور (نیز) ذکریا کو اور یحییٰ ؑکو اور عیسیٰ کو اور الیاس کو، سب نیک لوگوں میں سے تھے۔ اور نیز اسمعیل کو اور یسع کو اور یونس کو اور لوط کو اور ہر ایک کو تمام جہان والوں پر ہم نے فضیلت دی۔
اور نیز اُن کو کُچھ باپ دادوں کو اور کُچھ اولاد کو اور کُچھ بھائیوں کو، اور ہم نے اُن کو مقبول بنایا اور ہم نے اُن کو راہِ راست کی ہدایت کی۔
(القرآن ،الانعام.... 88)
اور ہم نے عیسیٰ بن مریم کو معجزات عطا فرمائے اور روح القدس سے اُن کی تائید کی۔
(القرآن،البقرہ....253)
کوئی انسان اُن کا باپ نہ تھا اور حضرت یسوع نے کنواری بی بی مریم کے ہاں جنم لیا، یحییٰ (یوحنّا) نبی نے اُن کو بپتسمہ دیا، آپ نبی مبعوث ہوئے، تصدیقِ صریح کے ساتھ۔
(القرآن ،آلِ عمران:39)
پھر ہم نے اس (مریم) کے پاس اپنی روح (جبرائیل علیہ السلام) کو بھیجا، پس وہ اُس کے سامنے پورا آدمی بن کر ظاہر ہُوا۔ یہ کہنے لگیں، مَیں تُجھ سے رحمن کی پناہ مانگتی ہُوں اگر تو کُچھ بھی اللہ سے ڈرنے والا ہے۔ اُس نے جواب دیا کہ مَیں تو اللہ کا بھیجا ہُوا قاصد ہُوں، تجھے ایک پاکیزہ لڑکا دینے آیا ہُوں۔ کہنے لگیں ،بھلا میرے ہاں بچہ کیسے ہو سکتا ہے؟ مُجھے تو کِسی اِنسان کا ہاتھ تک نہِیں لگا اور نہ مَیں بدکار ہُوں۔ اُس نے کہا، بات تو یہی ہے، لیکن تیرے پروردگار کا ارشاد ہے کہ وہ مُجھ پر بہت ہی آسان ہے، ہم تو اُسے لوگوں کے لیے ایک نِشانی بنا دیں گے اور اپنی خاص رحمت، یہ تو ایک طے شُدہ بات ہے۔ پس وہ حمل سے ہو گئیں اور اسی وجہ سے وہ یکسُو ہو کر ایک دُور کی جگہ چلی گئیں۔
(17-22 القرآن ،مریم)
حضرت عیسیٰ خالص خُدا کی وحدانیت کی تبلیغ کرتے رہے اور بڑے بڑے معجزے کر دِکھائے۔ یہود نے اُنھیں مصلوب کرنے کی کوشش کی لیکن خُدا نے اُنھیں اپنے پاس اوپر اُٹھا لیا۔ وقتِ آخر اس علامت کے طور پر دوبارہ دُنیا میں حضرت یسوع مسیح آئیں گے کہ قیامت اور دُنیا کا اختتام حتمی ہے۔
جب اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے عیسیٰ! مَیں تجھے پورا لینے والا ہُوں اور تُجھے اپنی جانب اُٹھانے والا ہُوں اور تُجھے کافروں (کے الزامات) سے پاک کرنے والا ہُوں اور تیرے تابعداروں کو کافروں کے اوپر غالب کرنے والا ہُوں، قیامت کے دِن تک، پھِر تم سب کا لوٹنا میری ہی طرف ہے، مَیں ہی تمھارے آپس کے تمام تر اِختلافات کا فیصلہ کروں گا۔
(القرآن ،آلِ عمران...55)
اور یوں کہنے کے باعث کہ ہم نے اللہ کے رسول مسیح عیسیٰ بِن مریم کو قتل کر دیا، حال آںکہ نہ تو اُنھوں نے اُسے قتل کِیا نہ سولی چڑھایا بل کہ اُن کے لیے اُن (عیسیٰ) کی شبیہ بنا دیا گیا تھا۔ یقین جانو کہ (حضرت) عیسیٰ (علیہ السلام) کے بارے میں اِختلاف کرنے والے اُن کے بارے میں شک میں ہیں، اُنھیں اِس کا کوئی یقین نہِیں بجز تخمینی باتوں پر عمل کرنے کے اِتنا یقین ہے کہ اُنھوں نے اُنھیں قتل نہِیں کِیا۔ بل کہ اللہ تعالیٰ نے اُنھیں اپنی طرف اُٹھا لیا اور اللہ بڑا زبردست اور پوری حکمتوں والا ہے۔
(157-158 القرآن،النسا)
بچہ (عیسیٰ) بول اُٹھا کہ
اور مُجھ پر میری پیدایش کے دِن اور میری مَوت کے دِن اور جِس دِن کہ مَیں دوبارہ زِندہ کھڑا کِیا جاﺅں گا، سلام ہی سلام ہے۔
(القرآن ،مریم33)
حضرت عیسیٰ نے احمد (پیغمبر حضرت محمد کا اِسمِ مُبارک) کے آنے کی پیشگوئی کی:
اور جب مریم کے بیٹے عیسیٰ نے کہا، اے (میری قوم)، بنی اسرائیل! مَیں تم سب کی طرف اللہ کا رسول ہُوں، مجھ سے پہلے کی کِتاب توریت کی مَیں تصدیق کرنے والا ہُوں اور اپنے بعد آنے والے ایک رسول کی مَیں تمھیں خوشخبری سنانے والا ہُوں جِن کا نام احمد ہے
(القرآن،الصف6)
حضرت عیسیٰ اِس بات سے بھی اِنکاری ہیں کہ کبھی اُنھوں نے اپنے آپ کو خُدا کہا ہو۔
اور وہ وقت بھی قابلِ ذکر ہے کہ جب اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ اے عیسیٰ ابنِ مریم! کیا تم نے اُن لوگوں سے کہہ دیا تھا کہ مُجھ کو اور میری ماں کو بھی علاوہ اللہ کے معبود قرار دے لو! عیسیٰ عرض کریں گے کہ مَیں تو تُجھ کو منزّہ سمجھتا ہُوں، مُجھے کسی طرح زیبا نہ تھا کہ مَیں ایسی بات کہتا جِس کے کہنے کا مُجھ کو کوئی حق نہِیں، اگر مَیں نے کہا ہو گا تو تُجھ کو اس کا عِلم ہو گا۔ تُو تو میرے دِل کے اندر کی بات بھی جانتا ہے اور مَیں تیرے نفس میں جو کُچھ ہے اُس کو نہِیں جانتا۔ تمام غیبوں کا جاننے والا تُو ہی ہے۔
میں نے تو اُن سے اور کُچھ نہِیں کہا، مگر صِرف وہی جو تُو نے مُجھ سے کہنے کو فرمایا تھا کہ تم اللہ کی بندگی اِختیار کرو جو میرا بھی رَب ہے اور تمھارا بھی رَب ہے۔
(116-117 القرآن،المائدہ)
قرآن مجید نے حضرت مسیح علیہ السلام کو ”کلمة اللہ“ بھی کہا ہے اور ”خُدا کا کلمہ“ بھی، آپ روح اللہ بھی ہیں، بس خُدا کے بیٹے ہرگز ہرگز ہرگز نہِیں۔
جب فرشتوں نے کہا، اے مریم! اللہ تعالیٰ تُجھے اپنے ایک کلمے کی خوشخبری دیتا ہے، جِس کا نام مسیح عیسیٰ بِن مریم ہے جو دُنیا اور آخرت میں ذِی عزّت ہے اور میرے مقربین میں سے ہے۔
(القرآن،آلِ عمران45)
اے اہلِ کِتاب! اپنے دِین کے بارے میں حَد سے نہ گذر جاﺅ اور اللہ پر بجز حق کے اور کُچھ نہ کہو، مسیح عیسیٰ بِن مریم (علیہ السلام) تو صِرف اللہ تعالیٰ کے رسول اور اُس کے کلمہ (کُن سے پیدا شدہ) ہیں، جسے مریم کی طرف ڈال دیا تھا اور اُس کے پاس کی روح ہیں، اِس لیے تم اللہ کو اور اُس کے سب رسولوں کو مانو اور نہ کہو کہ اللہ تین ہیں، اِس سے باز آ جاﺅ کہ تمھارے لیے بہتری ہے، اللہ عبادت کے لائق تو صِرف ایک ہی ہے اور وہ اس سے پاک ہے کہ اس کی اولاد ہو، اُسی کے لیے ہے جو کُچھ آسمانوں میں ہے اور جو کُچھ زمین میں ہے۔ اور اللہ کافی ہے کام بنانے والا۔
(القرآن،النسا171)
آپ کہہ دیجیے کہ وہ اللہ تعالیٰ ایک (ہی) ہے۔ اللہ تعالیٰ بے نیاز ہے۔ نہ اُس سے کوئی پیدا ہُوا نہ وہ کسی سے پیدا ہُوا،اور نہ کوئی اُس کا ہمسر ہے۔
(القرآن،اخلاص4-1)
بے شک وہ لوگ کافر ہو گئے جِن کا قول ہے کہ مسیح ابنِ مریم ہی اللہ ہے حال آںکہ خُود مسیح نے اُن سے کہا تھا کہ اے بنی اسرائیل! اللہ ہی کی عبادت کرو جو میرا اور تمھارا سب کا رَب ہے۔
(القرآن،المائدہ72)
یہود کہتے ہیں عزیز اللہ کا بیٹا ہے اور نصرانی کہتے ہیں مسیح اللہ کا بیٹا ہے، یہ قول صِرف اُن کے مُنہ، کی بات ہے۔ اگلے مُنکروں کی بات کی یہ بھی نقل کرنے لگے، اللہ اِنھیں غارت کرے وہ کیسے پلٹائے جاتے ہیں۔
اِن لوگوں نے اللہ کو چھوڑ کر اپنے عالموں اور درویشوں کو رَب بنایا ہے اور مریم کے بیٹے مسیح کو حال آںکہ اُنھیں صِرف ایک اکیلے اللہ ہی کی عبادت کا حکم دیا گیا تھا جِس کے سوا کوئی معبود نہِیں وہ پاک ہے اُن کے شریک مقرّر کرنے سے۔
(القرآن،التوبہ.31-30)
حضرت یسوع المسیح کے حوالے سے جِن چند اقتباسات کا جائزہ لیا گیا اُن میں یہ بات سامنے آئی کہ بے شک قرآن مجیدمیں خُداوند یسوع مسیح کی بہت تعظیم کی گئی ہے لیکن بادی النظر میں نبی حضرت ابراہیم اور پیغمبر حضرت موسیٰ کے لیے عظمت اور توقیر کی گنجایش نسبتاً زیادہ رکھی گئی ہے۔
اسلامی دینی روایت کے مطابق خُداوند یسوع مسیح کو اور اُن کی زِندگی کے جِن تمام پہلوﺅں کو جو اُنھی کا امتیاز تھے مثلاً بِن باپ اُن کی ولادت، اُن کے معجزات، کلمة اللہ اور روح اللہ کے القاب سے اُنھیں نوازا جانا، اُن کے خواص کے پلڑے میں برابر کر دیتی ہے جِن کا پیغمبروں کو عطا ہونا معمول کی بات ہے۔
اللہ تعالیٰ کے نزدیک عیسیٰ (علیہ السلام) کی مثال ہوبہو آدم (علیہ السلام) کی مثال ہے جسے مٹی سے بنا کر کہہ دیا کہ ہو جا! پس وہ ہو گیا!
(القرآن،آلِ عمران.59)
حضرت یسوع کا بغیر باپ رحمِ مادر میں قرار پانے کے معجزے کی نسبت بغیر ماں اور باپ کے آدم کی تخلیق کہِیں بڑا کرشماتی عمل سمجھا جاتا ہے۔ کلمة اللہ کا لقب بس پیغمبر ہونے کو ہی ظاہر کرتا ہے یا پھر خُدا کے کلام کا اثر، جِس کے عمل سے کنواری پاک ماں کے بطن میں حضرت یسوع آ گئے اور بی بی مریم حاملہ قرار پائیں۔بہ ہرکیف پیغمبر حضرت محمد حضرت یسوع مسیح سے اِس لیے بھی بُلند مرتبت ہیں کہ وہ خاتم النبیین ہیں۔
لوگو! تمھارے مَردوں میں سے کسی کے باپ محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نہِیں لیکن آپ اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں اور تمام نبیوں کے ختم کرنے والے (مُہر)، اور اللہ تعالیٰ ہر چیز کا (بخوبی) جاننے والا ہے۔
(القرآن،الاحزاب40)
پیغمبر حضرت محمد کے بارے میں اس شرح کو مُسلِم صُوفیہ نے اور طرح سے لیا ہے کہ اُنھوں نے اس کے متوازی خاتم الاولیا یعنی حضرت یسوع مسیح کو ”خاتم الاولیا“ کہنے کے رجحان کو تقویت دینی شروع کر دی لیکن خاتم الانبیاءحضرت محمد ٹھہرے تو کلمة اللہ اور روحِ خُداوندی ہونے کا بُلند درجہ حضرت یسوع مسیح کے حصّہ میں آیا تھا۔
مسلمانوں کی لکھی زمانہءحال کی مطبوعات میں حضرت یسوع کو ایک نیک اور متّقی اِنسان کے روپ میں پیش کِیا گیا ہے جِس نے ایذائیں جھیلیں (کامل حسین)۔ بطور محبت کا پیغامبر (محمود عباس عکاد)۔ اور انسانوں کا نجات دہندہ، مُنجّی (خالد محمد خالد)۔ اور بطور شخصیت کو نِکھار بخشنے والی عظیم ہستی کے (عثمان فتحی)۔
مسلمانوں کی مذہبی زِندگی میں خُداوند یسوع مسیح کا کردار کبھی بھی غیر معمولی حیثیت اِختیار نہِیں کر سکا۔ اُن کے حساب سے تو وہ مقدّس مریم کے درجہ کو بھی نہِیں پہنچ سکے۔ مُسلمان سمجھتے ہیں کہ مسیحیوں نے حضرت عیسیٰ کی شخصیت اور اُن کے کردار کو بھی غُلُو کی حد پار کروا دی ہے۔ خُدا اور حضرت یسوع کے مابین تشریک مُسلمانوں کے نزدیک شرکِ جلی کا گناہِ کبیرہ ہے، مزید یہ کہ صلیبی جنگوں کے نام پر تاریخ گواہ ہے، مسیحیوں نے بار بار مُسلم دُنیا پہ جارحیت مسلط کرنے کے جرم کا اِرتکاب کِیا ہے۔
3۔مسیحی نقطہءنظر
۱۔تجسیم، تصلیب اور آمدِ ثانی
نئے عہد نامہ کی جدید تشریح و تصریح اِس اعتقاد کی مُتقاضی ہے کہ خُداوند یسوع مسیح ایک مکمل اِنسان تھے، خُدائی ضابطوں اور خواص و صفات کے عین قریب۔ اُن کی تعلیمات و کردار کے آئینے میں ہم پر کشف ہُوا اور ہم نے خُدا کو پہچانا، دیکھا اور جانا، بطور حضرت یسوع مسیح کے باپ اور بطور اپنے آسمانی باپ کے۔ حضرت یسوع مسیح کی پیدایش اور پرورش عام انسان کی طرح ناصرت میں ہوئی، جب وہ اپنے گھر بار اور خاندان سے وداع ہو چکے تو نبی حضرت یوحنّا نے اُنھیں بپتسمہ دیا۔ وقت کی یہی اہم ترین گھڑی تھی جب خُداوند یسوع مسیح روح القدس کے ذریعے خُدا کا محبوب فرزند ہونے کی تصدیق کی گئی۔ اُسی لمحے میں آپ کے پیغمبرانہ مِشن پر مُہرثبت کر دی گئی۔ آپ کو بپتسمہ دیتے ہوئے جو اِلفاظ ادا ہوئے وہ یہ ہیں۔
اور آسمان سے آواز آئی کہ،تُو میرا بیٹا ہے، المحبوب! تجھ سے مَیں خُوش ہُوں۔
(11:1 مرقُس)
اُن کی صداے بازگشت عہدِ عتیق میں سُنائی دیتی ہے جہاں ایک طرف تو اسرائیل کے بادشاہ کو خُدا کا بیٹا کہا گیا:
مَیں خُداوند کا فرمان اعلان کروں گا، خُداوند نے مُجھ سے کہا
تُو میرا بیٹا ہے۔ آج ہی تُو مجھ سے پیدا ہُوا ہے۔
(7:2 زبور)
وَہِیں دوسری طرف خُدا کے ایک پراسرار بندے کا بھی ذکر ہے جس کے مصائب وآلام جھیلنے کے بدلے میں اسرائیل تو کیا پورے کرئہ ارض کے آخری سرے تک خُدا کی طرف سے نجات ہی نجات عام کر دی جائے گی۔
دیکھو میرا خادم جسے مَیں سنبھالتا ہُوں۔ میرا برگُزیدہ، جس سے میری جان خُوش ہے، مَیں نے اپنی رُوح اُس پر ڈالی۔ اور وہ غیر قوموں کے لیے عدالت جاری کرے۔ وہ نہ چِلّائے گا اور نہ شور کرے گا، اور نہ بازاروں میں اُس کی آواز سُنی جائے گی۔ وہ مسلے ہوئے سرکنڈے کو نہ توڑے گا۔ اور ٹِمٹِماتی بتّی کو نہ بُجھائے گا۔ وہ راستی سے عدالت جاری کرے گا۔ وہ خُود بھی نہ ٹِمٹِمائے گا اور نہ شکستہ ہو گا۔ تاوقتے کہ وہ زمین پر عدالت قائم کرے اور جزائر اُس کی تعلیم کے منتظر ہوں گے۔
خُداوند یُوں فرماتا ہے، یعنی وہ جس نے افلاک کو بنایا اور پھیلایا اور زمین کو اُن چیزوں سمیت جو اُس سے اُگتی ہیں بِچھایا وہ جو اُس پر رہنے والوں کو سانس اور اُس پر چلنے والوں کو جان عطا کرتا ہے۔ کہ مَیں خُداوند تجھے صداقت کے لیے بُلاﺅں گا اور تجھے ہاتھ سے پکڑوں گا۔ اور تیری حفاظت کروں گا۔ اور تجھے اُمّت کے لیے عہد اور غیر قوموں کے لیے نُور بناﺅں گا۔
(6:42 اشعیا)
اَے جزائر! میری سُنو۔ اے دُور دراز کی قومو! کان لگاﺅ۔ خُداوند نے مجھے شِکم ہی سے بُلایا۔ بطنِ مادر ہی سے اُس نے میرے نام کا ذِکر کِیا۔ اور اُس نے میرے مُنہ، کو تیز تلوار کی طرح کِیا۔ اُس نے اپنے ہاتھ کے سایے میں مجھے پناہ دی اور اُس نے مجھے صَیقل شُدہ تیر کی طرح بنایا، اور اپنے ترکش میں مجھے چھپایا۔ اور اُس نے مجھ سے کہا کہ اے اسرائیل! تُو میرا خادِم ہے، جس میں میرا جلال ظاہر ہو گا۔ یُوں مَیں نے خُداوند کی نِگاہ میں عزت پائی۔ اور میرا خُدا میری قُوّت بنا۔ تب مَیں نے کہا کہ میری مُشقّت بے فائدہ رہی۔ مَیں نے اپنی قُوّت عبث اور بے سبب صَرف کی ہے۔ یقینا میرا اِنصاف خُداوند کے پاس اور میرا اَجر خُدا کے ساتھ ہے۔ اور اَب خُداوند کہتا ہے (یعنی وہ جس نے مجھے شِکم ہی سے اپنا خادِم بنایا تاکہ یعقوب کو اُس کے پاس پھر لاﺅں۔ اور اِسرائیل کو اُس کے پاس فراہم کروں) کہ یہ ہلکی سی بات ہے کہ تُو میرا خادِم ہے، تاکہ یعقوب کے قبائل کو ازسرِنو قائم کرے، اور اسرائیل کے پس ماندوں کو پھر لائے۔ اِس لیے مَیں نے تجھے غیر قوموں کا نُور بنایا۔ تاکہ تُو زمین کی انتہا تک میری نجات کا باعث ہو۔
خُداوند اِسرائیل کا فدیہ دینے والا اور اُس کا قُدُّوس اُس سے جو نہایت حقیر اور سب کے نزدیک مکروہ ہے، اور جو حُکمرانوں کا غُلام ہے، یُوں فرماتا ہے کہ خُداوند کی خاطر جو وفادار ہے اور اسرائیل کے قُدُّوس کی خاطر جس نے تجھے چُن لیا بادشاہ دیکھیں گے اور کھڑے ہوں گے اور اُمراءسجدہ کریں گے۔
(7-1:49اشعیا)
مالک خُداوند نے مجھے شاگرد کی زُبان عطا کی۔ تاکہ مَیں تھکے ماندوں کے لیے وقت پر کلام کر سکوں۔ وہ ہر صبح میرے کان کو جگاتا ہے تاکہ مَیں شاگرد کے مانند سُنوں۔ مالک خُداوند ہی نے میرا کان کھولا ہے، تو مَیں سرکش نہ ہُوا اور پیچھے کو نہ لَوٹا۔ مَیں نے اپنی پیٹھ مارنے والوں کو اور اپنی گالیں نوچنے والوں کو دے دِیں۔ مَیں نے توہین اور تھُوک سے اپنا مُنہ، نہِیں چِھپایا۔ لیکن مالک خُداوند میرا مددگار ہے۔ اِسی لیے مَیں شرمندہ نہ ہُوں گا۔ اِسی لیے مَیں نے اپنا چہرہ چقماق کی طرح کِیا اور یہ جانا کہ مَیں رُسوا نہ ہُوں گا۔ میرا ولی قریب ہے، تو کون مجھ سے جھگڑے گا؟ آﺅ، ہم اِکٹھے ہوں، کون مجھ پر دعویٰ کرتا ہے؟ وہ میرے پاس سامنے آئے، دیکھ مالک خُداوند میرا مددگار ہے۔ تو کون مجھے مجرم ٹھہرائے گا؟ دیکھ وہ سب لباس کی طرح گھِس جائیں گے، پروانہ اُنھیں کھا جائے گا۔
تُم میں سے کون ہے جو خُداوند سے ڈرتا ہے؟ وہ اُس کے خادِم کی آواز سُنے۔ کون ہے جو اندھیرے میں چلتا اور روشنی نہِیں پاتا؟ وہ خُداوند کے نام پر توکُّل کرے اور اپنے خُدا پر تکیہ کرے۔ اے سب آگ جلانے والو! جو چنگاریوں سے اپنے آپ کو گھیر لیتے ہو اپنی آگ کے شُعلے میں اور چنگاریوں میں جو تُم نے سُلگائیں، داخل ہو۔ میرے ہاتھ سے تمھارے لیے یہی ہے۔ تم غم میں لیٹے رہو گے۔
(11-4:50اشعیا)
دیکھ میرا خادِم بُرومند ہو گا۔ وہ سرفراز اور نہایت بُلند ہو گا۔
(13:52اشعیا)
اِس لیے مَیں بہتیروں کو اُس کا حصّہ کر دُوں گا۔ اور بے شُمار لوگ اُس کی غنیمت ہوں گے۔ کیوںکہ اُس نے اپنی جان مَوت کے حوالے کر دی۔ اور وہ بَدکِرداروں کے ساتھ شُمار کِیا گیا۔ پس اُس نے بہتیروں کے گُناہ اُٹھا لیے اور وہ بَدکِرداروں کا شفیع ہے۔
(12:53اشعیا)
حضرت یسوع اپنے سے پہلے نبیوں اور موسوی شریعت کے پرچارکوں پر اپنی فوقیت کے دعویدار تھے۔ یہودی ایک نقیہ اگر کہے، تو یوں کہے گا، ”موسیٰؑ نے کہا....“ نبی یوں کہتے آئے، ”خُداوند یوں کہتا ہے....“ لیکن حضرت یسوع بغیر کسی ارفع ہستی کا سہارا مستعار لیے سیدھی سیدھی بات کرتے تھے، ”مَیں تم سے سچ سچ کہتا ہُوں....“ اِس ضِمن میں تابندہ مثال ہے کہ اپنے ہم وطنوں سے ناصرت میں مُخاطِب ہوتے ہوئے اُنھوں نے کہا تھا، ”آج یہ نوشتہ تمھارے کانوں میں پورا ہو کر پہنچا“ ۔
اور حضرت یسوع رُوح کی قُوّت سے جلیل کو لوٹا اور آس پاس کے سارے علاقے میں اُس کی شہرت پھیل گئی۔ اور وہ اُن کے عبادت خانوں میں تعلیم دیتا رہا۔ اور سب اُس کی تعریف کرتے رہے۔
پھر وہ ناصرت میں آیا جہاں اُس نے پرورِش پائی تھی۔ اور اپنے دستُور کے مطابق سبت کے دِن عبادت خانے میں گیا اور پڑھنے کو کھڑا ہُوا۔ اور اشعیا نبی کا طُومار اُسے دِیا گیا۔ اور جب اُس نے طُومار کھولا تو وہ مقام پایا جہاں یہ لِکھا تھا کہ:
رُوحِ خُداوند مجھ پر ہے، اِسی لیے اُس نے مجھے مَسح کِیا، کہ مِسکِینوں کو خُوشخبری دُوں۔ اُس نے مجھے اِس لیے بھیجا ہے کہ قیدیوں کو رِہائی، اور اندھوں کو بینائی، اور کُچلے ہوﺅں کو آزادی بخشُوں۔
اور خُداوند کے سالِ مقبول کو مُشتہر کرُوں، اور وہ طُومار لپیٹ کر اور خادم کو واپس دے کر بیٹھ گیا، اور جو عبادت خانے میں تھے اُن سب کی آنکھیں اُس پر لگی تھیں۔ تب وہ اُن سے کہنے لگا کہ آج یہ نوشتہ تمھارے کانوں میں پُورا ہو کر پہنچا۔ اور سب نے اُس پر گواہی دی اور شفقت کی اُن باتوں پر، جو اُس کے مُنہ سے نکلتی تھیں، تعجب کر کے کہنے لگے، کیا یہ یُوسُف کا بیٹا نہِیں؟
اُس نے اُن سے کہا کہ تم بے شک یہ مثل مجھ پر کہو گے۔ اے طبیب تُو اپنا علاج کر۔ جو کچھ ہم نے سُنا ہے کہ تُو نے کفر نحُوم میں کِیا، یہاں اپنے وطن میں بھی کر۔ اور اُس نے کہا، مَیں تم سے سچ کہتا ہُوں کہ کوئی نبی اپنے وطن میں مقبول نہِیں ہوتا لیکن مَیں تم سے سچ کہتا ہُوں کہ جب الیاس کے دِنوں میں تین برس چھ مہینے تک آسمان بند رہا یہاں تک کہ تمام مُلک میں سخت کال پڑا تو بہُت سی بیوائیں اِسرائیل میں تھیں۔ مگر اِلیاس سِواے صیدُون کی صارفت کی ایک بیوہ عورت کے اُن میں سے کِسی کے پاس نہ بھیجا گیا۔ اور الِیشع نبی کے وقت اسرائیل میں بہُت سے کوڑھی تھے لیکن اُن میں سے کوئی پاک صاف نہ کِیا گیا سِواے نعمان سُریانی کے۔ اور جتنے عبادت خانے میں تھے سب اُن باتوں کو سُنتے ہی غصے سے بھر گئے۔ اور اُٹھ کر اُسے شہر سے باہر نکالا اور اُس پہاڑ کی چوٹی پر لے گئے جس پر اُن کا شہر بنا ہُوا تھا تاکہ اُسے سر کے بل گِرا دیں۔ لیکن وہ اُن کے بیچ سے گذر کر چلا گیا۔
(30-14:4 حضرت لُوقا)
پس، خُدا کا ذِکر کرتے وقت اُس کے حضور جو حضرت یسوع کا باپ ہے، سامعین اور وہ خود (حضرت یسوع) الگ الگ مقام پر موجود ہوتے ہیں۔ اُسی فرق کے ساتھ جو تمام لوگوں کو یہ کہنے میں ہے کہ ”تمھارا باپ“ اور یہ سنانے میں کہ سنانے والا کہے ”میرا باپ“۔ تمام اِنسان اُس باپ کے بچے ہیں اور وہ صِرف اور صِرف حضرت یسوع ہے جو اُس باپ کا بیٹا ہے، ہر لحاظ سے....
وہ کہ جنھوں نے حضرت یسوع کو خُدا کے کلام و پیغام پر عمل کرنے کی دعوت دیتے سُنا، فوری طور پر سمجھ گئے کہ یا تو وہ اُن کے بے نظیر دعووں پر اِیمان لے آئیں، اُن کی مکمل اطاعت کرتے ہوئے اپنا آپ اُنھیں تج دیں اور اُن کی تعلیمات کے پکے پیروکار ہو جائیں، ورنہ دوسرا راستہ اِختیار کریں اور حضرت یسوع مسیح کو پرلے درجے کا نافرمان اور جُل دینے والا قرار دے کر پیچھے ہٹ جائیں۔
وہ جنھوں نے حضرت یسوع مسیح کو نہ ماننے کی ٹھان لی، اپنی من مانی پر اُتر آئے، حضرت یسوع مسیح کو قید کر کے مصلوب کر دیا۔ حضرت یسوع مسیح کو اُنھوں نے وہ سزا دی جو اُن کے نزدیک ایک منکرِ دین کی سزا ہوتی تھی اور قابض رومیوں کے قوانین کے مطابق جو سزا امن کو تلپٹ کر دینے والے مجرم کی ہوتی تھی۔ امن کے شہزادے کو مصلوب کر کے گویا اُنھوں نے نیک کام کِیا تھا جبھی کوئی ہلچل نہ مچی، نہ کوئی طوفان آیا، نہ کوئی احتجاج ہُوا، حتیٰ کہ صلیب پر لٹکا دینے کے بعد وہ حضرت یسوع مسیح پر پھبتیاں کستے رہے، اُن کا مذاق اُڑاتے رہے۔
”اُس نے اوروں کو بچایا اپنے آپ کو بچا نہِیں سکتا“۔
(31:15 مرقُس)
بعد میں کیا گذری، سبھی جانتے ہیں۔ حواری بددِل ہو گئے، اُمید کا دامن شاگردوں کے ہاتھ سے چھُوٹ گیا۔
اور وہ تلوار کی دھار سے گِر جائیں گے اور اسیر ہو کر سب قوموں میں پہنچائے جائیں گے اور جب تک غیر قوموں کی میعاد نہ گذرے یروشلم غیر قوموں سے پامال ہوتا رہے گا۔
(24:21 حضرت لُوقا)
مگر کب تک؟ حضرت یسوع مسیح اُن کے سامنے آ گئے، جیتے جاگتے۔ وہ جو زِندہ تھا، مُردوں میں سے زِندہ ہُوا۔ یہاں سے اُن کے لیے اگلے قدم کا جواز فراہم ہُوا۔ شاگردوں کی گواہی و تصدیق سے حضرت یسوع مسیح پر ایمان لانے والوں کے اذہان میں کوندا لپکا اور اُن کو حضرت یسوع مسیح کی حیثیت اور مقام کے بارے میں سمجھ آ گئی۔ وہ اِس پیرایہ اِظہار میں پُکار اُٹھے کہ وہ خُدا کا بیٹا ہے۔ وہ اُس کے سامنے دو زانو ہو گئے، اُس کی بندگی کرنے لگے، سرِعام، علی الاعلان۔ یہ ایک علیحدہ ہی رمز تھی، عصرِ حاضر میںاِظہارِ عقیدت و عبدیت کی، اِس کے بارے میں مختلف تاویلیں پیش کی جا سکتی ہیں مگر حضرت یسوع کو ”خُدا کے بیٹے“ کا لقب دینا مذہب کو قبول کرنے اور اس قبولیت کا اعلان کرنے کے لیے موزوں ترین جواز قرار پایا، جو ہمیشہ سے روا ہے اور روا رہے گا۔
مزید یہ کہ حضرت یسوع مسیح نے خُود بھی اشارے دیے ہیں کہ خُدا کا بیٹا ہونے کے قلب میں سچائی پائی جاتی ہے۔ مقدّس نوشتوں میں اکثر ایسے اقتباسات آ جاتے ہیں جِن میں یا تو حضرت یسوع نے اپنے آپ کو ”بیٹا“ کہا ہے یا یہ، جب ، دوسرے لوگ سوچ میں پڑ گئے کہ آیا وہ واقعی خُدا ہی کا بیٹا ہے۔
شمعُون پطرس نے جواب میں کہا کہ تُو المسیح ہے زِندہ خُدا کا بیٹا۔
(16:16 متی)
مگر وہ خاموش ہی رہا اور کچھ جواب نہ دِیا۔ پھر کاہنِ اعظم اُس سے پُوچھنے لگا اور اُس سے کہا، کیا تُو المسیح ہے۔ اِبنُ المُبارَک؟ حضرت یسوع نے کہا، مَیں ہُوں۔ تُم اِبنِ انسان کو القادر کے دائیں بیٹھا اور آسمان کے بادلوں کے ساتھ آتا دیکھو گے۔
(62-61:14 مرقس)
وہ بڑا ہو گا اور حق تعالیٰ کا بیٹا کہلائے گا۔ اور خُداوند خُدا اُس کے باپ داﺅد کا تخت اُسے دے گا۔
(32:1 لُوقا)
جب بھی خُدا کا ذِکر ہوتا ہے وہ بڑی شدّومدّ سے اُسے ”میرے باپ“ سے مُخاطب کرتا ہے، تو پھر مضایقہ ہی کیا ہے اگر اُسے خُدا کا بیٹا مان لیا جائے؟
حضرت یسوع مسیح کو خُدا کا بیٹا ماننا اور کہنا اِس دعوے کا اِثبات تھا کہ وہ لاثانی ہے۔ وہ انسان ہی نہِیں، کُچھ اور بھی ہے۔ اِنسان بھی اور اِنسان سے بڑھ کے کوئی اور ہستی بھی۔ حضرت یسوع کو خُدا کا بیٹا ماننا انتہائی جرا_¿ت مندانہ اور مذہبی عقیدہ تھا اور ایسا عقیدہ جو ان تاثُّرات کو، تصورات کو اور دعووں کو.... چاہے وہ عظیم تھے یا انتہائی نامعقول.... انھیں زائل کر دینے اور باطل قرار دینے والا مسیحی مذہبی عقیدہ تھا۔ کن تاثُّرات، تصورات، دعووں کو پاش پاش کرنے والا؟ اُنھیں، جِن پر یہودیوں اور یونانیوں کو پختہ یقین تھا کہ وہ جِن کی اُمِّیدیں اُنھوں نے باندھ رکھی تھیں، جنھیں وہ مانتے تھے کہ بس.... بس وہی خُداﺅں کے بیٹے ہیں، دیوتاﺅں کے۔ مگر.... مگر مسیحی مُصر تھے اور اِس بات پر پکّے تھے کہ صِرف حضرت یسوع ہی ہے جو خُدا کا بیٹا ہے، خُدا اور کسی کا باپ نہِیں، ہرگز نہِیں۔ اُس کا بیٹا ایک ہے، صِرف اور صِرف ایک۔ اور وہ حضرت یسوع مسیح، بھلے وہ متنازع ہے، اُس کا مضحکہ اُڑایا گیا، وہ بے پناہ تشدد سے گذرا اور سولی پر چڑھا دیا گیا، یہ کوئی حیرت کی بات نہِیں ہے کہ وہ جو طاقتور ہوتے ہیں، جابر ہوتے ہیں، اقتدار میں ہوتے ہیں، یہ سچائی، یہ حقیقت، حضرت یسوع مسیح کی یہ حیثیت! اُن کی برداشت سے باہر ہو۔
اور جب حضرت یسوع کو خُداوند.... آقاے کُل یعنی خُدا کہا گیا تو ویسے ہی مسائل پھر اُٹھ کھڑے ہوئے جیسے خُدا کا بیٹا کہنے سے پیدا ہوئے تھے۔ پرانے عہد نامہ کے یونانی ایڈیشن میں جو حضرت یسوع کے ہوتے ہوئے بھی رائج تھا، اُس میں یہی نام لیا گیا ہے.... ”کوریوس“ جو عبرانی زُبان میں اُلُوہی نام ”یہواہ“ سے مشتِق ہے اور اس سے آقا، مالک، خُداوند ہی مراد تھی۔ یونانیوں کے ہاں ”کوریوس“ ایک الہامی لقب تھا۔ ظاہر ہے سیزرز (قیصرِروم) نے اسی وجہ سے اسے خاص اپنے لیے اِختیار کیا، کیوںکہ وہ دیوتا کے طور پر اپنی تعظیم و تحریم کا خواہشمند تھا۔ چناںچہ خُدا کی راہ میں جان دینا ان مسیحیوں کا نصیب ٹھہرا دیا گیا جنھوں نے قیصر کی تکریم و تقدیس سے مُنہ موڑ لیا۔ وہ مُصِر تھے کہ بس حضرت یسوع ہی خُداوند ہے، آقا ہے، خُدا ہے، خُداوند کا بیٹا ہے۔
2۔یسوع کی ذات و صفات کے بارے میں کلیسائی عقیدے کا ارتقاء
کلیسا کی تعلیمات انتہائی صاف اور واضح ہیں
خُداوند یسوع مسیح خُدا کا بیٹا ہے جو اِنسان کی شکل میں آیا۔ حقیقی اِنسان، ہمارا بھائی، وہ اِنسان جو ماں کے بطن سے پیدا ہوتا ہے، پلتا ہے اور اُس میں جذبہ ترحم ہے، خُوشی کے جذبات ہیں، بے چینی وبے قراری ہے، غُصّے کا اِظہار ہے۔ جِسم اور روح پر مشتمل اِنسان ہے.... بالکل ہماری طرح کا، ہم جیسا ہی سمجھو۔ چناںچہ حضرت یسوع میں تجسیمِ خُداوندی مسیحی یقین و اقرار کا نتیجہ ہے، جو پاک ماں اور حضرت یسوع مسیح کے فنکارانہ اِظہار کی قابلِ قبول وجہ بنا، جو اُن پاک ہستیوں کی پُرتقدس تصاویر وغیرہ میں عیاں ہے اور.... مُسلمان جِس پر جِزبِز ہوتے ہیں۔
صدیاں بیت گئیں، کلیسا اب بھی مسیحیت کی اسی صداقت کا پرچار کر رہا ہے۔ بہت لوگ اس خُدا کے آسانی سے قائل ہو سکتے تھے اور اس پر ایمان لا سکتے تھے جو خُدا اِس زمین پر موجود ہوتا، انھی جیسا ہوتا، اور جینے کے کشٹ اُنھی لوگوں میں رہ کے اُن کے ساتھ ہی کاٹتا۔ایسا سمجھنے کا مطلب تو پھر یہ ہُوا کہ ہمیں بس محسوس ہی ہُوا، حقیقتاً خُدا اِنسانوں میں شامل نہِیں ہُوا تھا، اِنسانیت کے تجربے سے نہِیں گذرا تھا، وہ تو بس ہمیں لگا کہ یوں ہوا جِس کا مطلب ہے کہ ہماری نجات بھی حقیقی نہ ہوئی، بس ایسا فرض کر لیا گیا مگر حقیقت تو یہ ہے کہ خُدا بنی نوع اِنسان کے لیے واقعی اِنسان بن کر آیا، مکمل خُدا اور مکمل اِنسان جِس کا نتیجہ یہ ہے کہ اُس نے پوری اِنسانیت کو پورے طور پر نجات دے دی، اِس مسیحا نے باوجودے کہ جِس کے بارے کلیسا نے ہمیشہ اور ہر آن اعتراف کِیا ہے کہ وہ خُداوند ہے آقاے کُل ہے، خُدا ہے، بالکل اُلُوہی نام یہواہ کی طرح۔
مسیحیت میں اِس عقیدے کو مرکزی حیثیت حاصل ہے کہ اپنی تمام جزئیات صِفات کے ساتھ خُدا کا بیٹا ہمیں میں سے ہے، اِس لیے معصیت سے پاک حضرت یسوع مسیح ایک ہی ذات کے دو پَرتو ہیں وہ خُدا بھی ہے اور وہی ہے جو اِنسان بھی ہے۔ اِس نقطہ کو سمجھنے اور اِس کا پورا ادراک کرنے کے پیچھے مسیحیوں کی صدیوں پر محیط محنت و کاوش ہے۔ بہت ضروری ہے کہ ایسی بدعتوں سے گلوخلاصی کروا لی جائے جِن میں سارا زور اِس بات پر صرف کر دیا گیا ہے کہ حضرت یسوع پورے کے پورے اِنسان تھے یا پھر صرف خُدائی صفات کی حامل ایک ہستی۔ اور حقیقت تو یہ ہے کہ وہ مکمل اِنسان ہیں اور اپنی ذات میں کامل خُدا۔ اِس کی زیادہ تصریح اِنسانی بس سے ماوریٰ ہے۔ یوں سمجھ لیجیے کہ حضرت یسوع کامل اِنسان اِس لیے ہیں کہ اِنسانی روح اور اِنسانی رضا اُن میں موجود تھیں، اِسی لیے تمام اِنسانوں کی نجات اُن کی کمال انسانی تابعداری کا نتیجہ ہو گی۔ وہ پورے کامل خُدا اِس لیے ہیں کہ مقدّس باپ ہی سے اُن کی قدرت و استطاعت منسوب تھی۔ 325ع کی نقایہ کونسل میں ہی کلیسا نے فیصلہ صادر کر دیا تھا کہ نجات دہندہ کی ذاتِ بابرکات میں خُدائی اور اِنسانی اوصاف کاملیت کے ساتھ موجود ہیں۔ کہ ہم خُداوند حضرت یسوع مسیح کو بطور خُداوند، مالکِ کُل اور خُدا تسلیم کرنے کے دعویدار ہیں۔
پس مَیں تمھیں جتاتا ہُوں کہ جو کوئی رُوحِ خُدا کی ہدایت سے بولتا ہے وہ نہِیں کہتا کہ حضرت یسوع ملعون ہے۔ اور نہ کوئی رُوحُ القُدس کے بغیر کہہ سکتا ہے کہ یسُوع خُداوند ہے۔
(3:12۔قرنتیوں1)
مسیحی ایمان کا ادراک یہ ہے کہ جو سوال حضرت یسوع مسیح کی تاریخی شخصیت کے بارے میں اُٹھایا جا سکتا ہے اُس کا جواب وہی ہے جو روح القدس نے واضح کر دیا ہے اور چوں کہ خُداوند حضرت یسوع مسیح کے بارے میں یہ ایمان مسیحی مذہب کی اساس ہے، اِس لیے دوسرے لوگ جو ایسا عقیدہ نہِیں رکھتے اُنھیں اعتراض کرنے کا حق دیا ہی نہِیں جا سکتا اور ہمیں یہ بھی تسلیم ہے کہ حضرت یسوع کی ذات والا صفات کے بارے میں اور بھی بہت سی آراءموجود ہیں۔ مثلاً اُن کے بارے میں مارکسی نظریات، برہمن سماج کی راے، مُسلِم اعتقادات اور یہودی نقطہءنظر وغیرہ وغیرہ۔
اِس بارے میں دو باتوں کا دھیان رکھنا ضروری ہے۔ اَدبی وتاریخی تنقیدی دعووں کو بھی محترم گردانا جائے، کم از کم اِس صورت میں تو ضرور جب مشاہدے میں ہو کہ ان کی بنیاد خالص عِلمی و ادبی سطح سے ہی اُٹھائی گئی ہے اور قیاس آرائیوں پر موقوف نہِیں اور دوسری بات یہ کہ بھلے ہی دوسرے لوگ مسیحی عقائد پر ایمان نہ رکھتے ہوں مگر اِتنا تو ماننا چاہیے کہ خُداوند حضرت یسوع مسیح کے بارے میں مسیحی نظریات ممکنات میں سے ناممکن نہِیں۔
۱۔مسیحیت میں خُداوند یسوع مسیح کی اُلُوہیت اور عقدہ ہاے تجسیم کو مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ مسیحیوں کے ہاں تجسیم کے عقیدہ سے مُراد یہ ہرگز نہِیں کہ اِنسان خُدا بن گیا بل کہ یہ ہے کہ خُدا کے ازلی کلمہ نے انسانی شکل اختیار کی۔ اس نے انسانی فطرت کو اپنا لیا اور اس کا ذاتی تجربہ کِیا، انسانوں میں انسان نظر آیا۔ انسان بن گیا۔ خُداوند کا بیٹا کہنا کیا ہے؟ یہ اشارہ ہے ’حضرت یسوع‘ کی خُدائی الٰہی اصل کی طرف، اس کا تعلق کہاں سے ہے؟ وہ آیا کہاں سے؟ اور اس حقیقت کی طرف اشارہ کہ خُدا نے انسانوں میں ظاہر ہونے کے لیے جو بے مثال طریقہ اختیار کِیا تھا وہ یہ تھا کہ وہ بطور حضرت یسوع کے انسانوں میں آکر سکونت پذیر ہو گیا۔ یہ کوئی حیاتیاتی بیانیہ نہِیں ہے کہ عام انسانی فہم اور طریقے کے مطابق خُدا ایک انسانی باپ بن گیا، بس طے ہے کہ خُداوند والد نہِیں باپ ہے۔ چوتھی لاطران کونسل1215ع سے ایک حوالہ درج کِیا جاتا ہے جو غور طلب ہے:
”یہ حقیقت یعنی خُدا کی خُدائی خُداوند حضرت یسوع مسیح کی اُلُوہیت کی حقیقت نہ تو کسی سے مستعار لی گئی، نہ ہی کسی اور کو بخشی کی گئی ہے۔
قرآن شریف میں بھی یہ ذکر یوں آتا ہے ”نہ وہ کسی سے پیدا ہُوا، نہ اُس سے کوئی پیدا ہُوا۔“
( سورة اخلاص3)
لم یلد و لم یو لد
( سورة اخلاص3)
قرآن مجیدمیں یہ آیت مختلف حوالے سے آئی ہے، مشرکینِ مکہ کے شرک پر یہ بُنیادی قرآنی احتجاج ہے وہ بتوں کو خُدا کی اولاد بتاتے تھے اور مسیح کی حیثیت کا جہاں تک مسیحی تعلیمات سے تعلق ہے وہاں قرآن مجیداس امر کو بنیادی احتجاج کی صورت میں نہِیں، ثانوی حیثیت سے اس پر معترض ہوتا ہے۔
۲۔اِس باب کے آغاز میں صلیبی جنگوں کی تاریخ کے بارے میں جو نکتہ اُٹھایا گیا تھا اُس کا جائزہ باب نمبر 9میں لیا جائے گا۔
۳۔تجسیمِ خُداوندی کا جو مسیحی عقیدہ ہے اور قرآن شریف نے بھی جو کُچھ بیان کیا ہے اُن دونوں کا آپس میں تعلُّقِ خاطر ہے جو مُسلمانوں کے لیے انتہائی معنی خیز ہو سکتا ہے۔ بہت سے مُسلمان ہیں جِن کا اِس بات پر قیاس ہے کہ اِسلام میں قرآن مجیدکو جو مرکزی حیثیت حاصل ہے اُسی ہی حیثیت کے خُداوند حضرت یسوع مسیح حامل ہیں۔ مُسلمانوں کا ایمان ہے کہ کلام اللہ ہی لافانی طور پر موجود ہے۔ یہ جوہرِ خُداوندی کیا ہے؟ محبت ہے۔ جسے صحیفہ آسمانی میں سمو دیا گیا ہے، یہ خُدا کا کلام ہے، خُداوند کے الفاظ ہیں، اُس کے احکامات ہیں۔ جو اُس نے کہا وہی سب کے لیے حُکم ہے اور وہ مسلمانوں کی مذہبی کِتاب میں محفوظ ہے۔ مسیحیوں کا عقیدہ ہے کہ خُداوند حضرت یسوع بذاتِ خود کلامِ خُداوندی ہے مگر اس سے مختلف معنی میں جو مسلمانوں کے ہاں کلمة اللہ ہے اور قرآن شریف میں بند ہے جو ایک کتاب ہے۔ پس، یہ مسیحی مذہب ہی ہے جو گواہ ہے کہ ناصرت کے حضرت یسوع مسیح ہی ہیں جو مصلوب ہوئے اور مُردوں میں سے جی اُٹھے اور وہی ہیں جو تاریخی طور پر انتہائی، مکمل اور یقینی ظہورِ خُدا ہیں۔ وہ اِنسان بن کر آئے، دُنیا میں رہے، دُکھ اُٹھائے، مصلوب ہوئے اور تیسرے روز مُردوں میں سے زِندہ ہو کر ہمارے لیے نِجات کے دروازے کھول دیے۔