:سُوال نمبر92
۔حضرت عیسیٰ کے بدن مُبارک پر زخموں کے کیسے نشانات تھے؟ کیا یہ مصلُوب کیے جانے والی اذیّت کے تھے؟ یہ بھی شنید ہے کہ بعض لوگوں کے جِسموں پر قُدرت کی جانب سے ہُو بہ ہُو ویسے ہی نقش اُبھار دیے جاتے رہے ہیں جب کہ وُہ مصلُوب تو نہیں ہُوئے تھے۔ یہ تو سینٹ فرانسس اسیسی کے بدن پر بھی تھے۔ ان نشانات کے بارے میں کیا تفصیلات ہیں؟
جواب:۔
اصطلاح براے ترکیب سٹِگمیٹا
Stigma(سٹگما) واحد ہے اور Stigmata(سٹگمیٹا) اس کی جمع ہے۔ مطلب ہے مُقدّس المسیح کی اذیّت کے نشان جو مُختلف لوگوں کو مِلے مثلاً مُقدّس فرانسس اسیسی۔ سٹگمیٹا یُونانی زُبان کا لفظ ہے، گھوڑوں کو اور دُوسرے مال مویشیوں کو شناخت کے لیے داغا جاتا تھا، لوہے کی مُہر یا سلاخ سے جانور کے جسم کو نشان زد کرتے تھے۔ جِسم پر سجاوٹ کے لیے ٹیٹُو کروا لینا، گودے گئے نشانوں سے علامتی طور پر کِسی واقعے کی یاد، تاریخ، کِسی پیاری شخصیّت کی تصویر کھُدوا لینی، خاص بیل بُوٹوں، علامتی نشانوں کے ذریعے کِسی مخصُوص قبیلے کی پہچان، قیدیوں اور غُلاموں کے بدن بھی داغے جاتے تھے تا کہ بھاگیں تو ان داغوں سے پکڑے جائیں۔
مصائبِ مسیح پاک کے سلسلے میں بحرِ علمِ باطن کے شناوروں کے ہاں تصوُّف کی رعایت سے جو تصوُّر ہے کہ غیر ارادی طور، بے اختیاری میں یہ نشانات وُجُود میں آتے ہیں اور جِسم پر نُمایاں طور نظر آنے لگتے ہیں۔یہ بظاہر کھرنڈ ہیں۔ اور یُوں بھی ہوتا ہے کہ زخم نہ ہونے کے باوُجُود انسان اِس تجربے میں سے گُذرے کہ اُسے کِسی اور کے بدن پر لگنے والے جو گھاو ہیں اُن کا درد محسوس ہونے لگے۔ یہ'' چِھپے داغ'' ہوتے ہیں اور عقیدت و محبّت کی اِنتہا میں ان کا تعلُّق فقط مُقدّس خُداوند یسُّوع مسیح کی ہستیِ مُبارک سے ہی ہو سکتا ہے۔ اُس کی سہی ہُوئی اذیّت، اُس کے زخموں کا درد، اُسی کی طرح، زندہ انسان اُس تکلیف کی کیفیّت سے گُذرنے لگیں اور محسُوس کریں کہ پاؤں فگار ہیں، ہاتھ چھِد چُکے ہیں اور پہلُو زخم زخم ہیں۔ یسُّوع پاک جیسے نشاناتِ اذیّت جِس کِسی کے بھی جِسم پر پیدا ہُوئے ہیں اُن زخموں کو علاج مُعالجہ کا مُحتاج نہیں کِیا گیا، زخم بنے ہیں بعض وُجُوہ کے تحت تو وُہ پھیلے نہیں، خراب نہیں ہُوئے، اُن کی جراثیم کے خلاف مدافعت کی طاقت قائم رہی ہے۔ جرثُومہ کُش ثابت ہُوئے ہیں۔ معیّن وقفوں کے بعد ان سے ایسا بھی ہُوا کہ خُون رِسنے لگا۔ پاک یوخرست عبادت کے سمے مُقدّس خُداوند یسُّوع مسیح کی اذیّت، اُس کے دُکھ، درد، مصائب یاد کرنے والوں نے بعض کلیسیاؤں میں یُوں بُوند بُوند بہتے رِستے خُون کی زیارت بھی کی ہے۔
تاریخ
قُرُونِ وُسطیٰ تک تو ایسی کوئی شہادت موجُود نہ تھی کہ کِسی کو قُدرتی طور پر مسیح خُداوند کی اذیّت کے نشان عطا ہُوئے ہوں۔ واقعات میں ایسے نشانات نظر آنے کا پہلا تصدیق شُدہ واقعہ جو ریکارڈ پر ہے وُہ مُقدّس فرانسس اسیسی والا ہی تھا جو تسکنی (Toscana)میں سنہ 1224عیسوی کے ماہِ ستمبر کی 14تاریخ کو ماؤنٹ لاویرنا(Mount Laverna)میں پیش آیا۔ ساروفی بصیرت و روایت کے مُطابِق وُہ ان زخموں کے نشانات کو لیے لیے پھرتا رہا۔ سچ مُچ کے اور تازہ بہ تازہ ٹھونکے گئے کیلوں میخوں کے نشاناتِ زخم، حتّٰی کہ ایسے زخم بھی جو پسلیوں پر لگائے گئے تھے سب سعادت مآب سینٹ فرانسس کے جِسم پر تھے۔ مُقدّس فرانسس ہمیشہ انھیں ڈھانپے رکھتا تھا، پر اُس کی رحِلت کے بعد اُس کے رفیقِ کار کریمونیا کے الیاس برکت یافتہ نے فرانسسکن خواہران و برادران کو اپنے ایک خط میں یہ سب کُچھ بتا دیا۔ نتیجتاً بعد کے اثرات جو سامنے آئے، وُہ خاصے چونکا دینے والے تھے۔ اذیّتِ مسیح کے یہ نشان خُو دسے کھُدوانے، بنوانے اور گُدوانے کی کئی مثالیں سامنے آنے لگیں۔ اب تک 350افراد تو ضرور سامنے آ چکے ہیں جو اپنے بدنوں پر یادگارِ مسیح پاک تبرکاً سجائے پھرتے ہیں۔ کیتھرین آف زِینیا (1375ع)، ویرونیکا گلیانی (1697ع) کے بعد ٹی ایچ نوئیمَن تو زیادہ دُور کی مثال نہیں، 1926ع میں اس نے بھی اپنے بدن پر زخموں کے یہ داغ داغ اُجالے روشن کروا لیے تھے اور مُقدّس خُداوند یسُّوع مسیح کے دُکھ درد، اذیّتوں، تکلیفوں، مصیبتوں میں شراکت پیدا کر لی تھی۔
دینیات کے اعتبار سے تعبیرات
خُداوند یسُّوع پاک کے بدن مُبارک پر لگے زخموں کے نشانات آسا داغ اوروں کے جسموں پر اصلی یا مصنُوعی طور ظاہرہونے کے بارے میں کلیسیا نے شُرُوع سے ہی مُحتاط رویّے سے کام لیتے ہُوئے پھُونک پھُونک کر قدم رکّھا ہے اور کِسی بھی قسم کی جلد بازی سے کام نہیں لیا۔ ہمیشہ کی طرح مُعجزات کے مُعاملے میں وسیع النظری کے اساسی اُصُول قائم رکھتے ہُوئے ایسے مظاہرِ قُدرت کہ جِن کا اِدراک شُعُور کر سکتا ہے کلیسیا انھیں ان کے سیاق و سباق میں رکھ کر ان سے استفادہ کرتی ہے اور مُعجزات دِکھانے والوں کی سیرت اور نیّت کو پرکھتی ہے۔ ان کی ذِہنی کیفیت، جسمانی صِحّت، نفسیاتی رُجحانات و رویّے اور علمِ معرفتِ الٰہی پر عُبُور یا حاصل کردہ استعداد کو سامنے رکھتے ہُوئے کرشمات دِکھانے کی وُجُوہ، ضرُورت یا مجبُوری، جو بھی ہو اس کی جانچ پڑتال کرتی ہے۔ داغداری کے بُنیادی مُعاملے کو وقتی طور پر علیحدہ رکھ کے دیکھا جائے تو ایک لمبی قطار ہے غیر ارادی حرکات و سکنات اور خُود ساختہ نظریات کے اظہار کی، رُوحُ القُدُس کے عطا کردہ غیر معمُولی فضائل و برکات کی وساطت سے مُعجزہ نمائیوں کی، اور تاریخ کے صفحات جِن سے بھرے پڑے ہیں ایسے قُدرتی اور ماوراے فطرت واقعات و نظارہ جات کی۔ قداست اور داغ داغ ہونے کی کوئی کہیں مصدّقہ سَنَد نہیں کہ ان کا آپس میں کوئی بھی تعلُّق بنتا ہو۔ البتّہ اِتنا ضرُور ہے کہ مصدّقہ طور اذیّتِ مسیح قدس کے نشانات عطا ہونے کی بات ایک صلیبی نوعیت کا علامتی اشارہ مانا جا سکتا ہے جو صلیب کی اہمیّت اور مُقدّس خُداوند یسُّوع مسیح کی اذیّت کے تناسب میں خُود خُداوند یسُّوع مسیح کے کرب و مُصیبت کی تصویر سامنے لے آتا ہے۔ عام طور پر مُعجزات کے ضمن میں کیتھولک مسیحیوں کے عقائد کے مُطابِق جو دُرُست ہے اس کی راستی یہاں بھی صادق آتی ہے یعنی وُہ مسیحی بھائی بہن جو کلیسیا کی تاریخ کے طالبِ عِلم ہیں ماضی میں رونما ہونے والے مُعجزات اور زمانہء حال میں ان کی موجُودگی اور برپا ہو سکنے سے انکار نہیں کر سکتے مُعجزات نامُمکن نہیں، ان سے انکار نامُمکن ہے۔ جانچ کے تمام سخت معیارات قائم کرتے ہُوئے ان کی توثیق و تصدیق حاصل کی جا سکتی ہے۔ جو ضروری بھی ہے۔
(مزید معلُومات کے لیے مُلاحظہ فرمائیے:
Andreas-Pazificus Alkofer, art. Stigma im Lexikon für Theologie und Kirche, Bd. IX. Freiburg: Herder, 2000)