German
English
Turkish
French
Italian
Spanish
Russian
Indonesian
Urdu
Arabic
Persian

:سُوال نمبر91

قداست کیوں اور کیسے مِلتی ہے؟

 

جواب:۔
اصلاح
کِسی کو مُقدّس ہستی، مُقدّس یا مُقدّسہ کا مقام دینے کا مطلب ہے کہ تقدُّس مآب پوپ نے خُدا کے خُدّام کی بامُراد زندگیوں کے بارے میں مذہبی رسُوم کے عین مُطابِق حتمی راے دے دی ہے۔ کیوں کہ خُداوند یسُّوع مسیح اقدس کے اُسوئہ حسنہ پر عمل پیرا ہوتے ہوئے اُنھوں نے آسمانوں پر خُداوند ذُوالجلال واِکرام کی بادشاہت کی بہترین گواہی دی ہے۔۔۔۔۔۔ بعض نے اس کی راہ میں اپنا خُون بہا کے، راہِ حق میں جانیں قُربان کر کر کے اور بعض سُورماؤں والی صلاحیتوں، فضیلتوں، نیکیوں اور حُسنِ اخلاق کی مثالیں قائم کر کر کے۔ ایسے ہی لوگ عقیدے میں صاحبِ استقامت ہوتے ہیں۔ انھیں ہی استحکام کا مُبارک ساکرامینٹ دیا جاتا ہے۔ جہاں تک کلیسیا کی طرف سے باضابطہ طور پر کِسی کے تقدُّس، اسے پاک کیے جانے، اس کے لیے تخصیص کی تصدیق کا تعلُّق ہے وُہ کی ہی تبھی جاتی ہے جب مخصُوص ٹھہرائے گئے مُقدّس کو جان جوکھوں میں ڈالنی پڑ رہی ہو تو ذرا بھی ہچکچاہٹ نہ دِکھائی ہو بل کہ مردانہ وار خُوبیاں اور نیکیاں خُوش خُلقی کے ساتھ کما دِکھائی ہوں اور بڑی وفاداری و ایمانداری کے ساتھ اور معبُودِ حقیقی کو جلال دیتے ہُوئے اُس کی ستایش میں زندگی بسر کر رہا ہو اور تطہیر میں بھی اسے رُوحُ القُدُس کی قُوّت و قُدرت و کارسازی کا اعتراف رہا ہو۔ ایسا کرنے سے مومن مسیحی کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے اور اس کی آس اُمِّید کو تقویت پہنچتی ہے کیوں کہ وُہ اور دُوسرے مسیحی دوست اپنی زندگی میں اپنے سامنے مُقدّسین کو پاتے ہیں اور ان کی مثالی زندگی کے شب و روز وُہ اپنے لیے انتہائی قابلِ تقلید سمجھتے ہیں کیوں کہ مُقدّس رُوحُ الحق کی طرح وُہ بھی ان کے لیے شفیع، وکیل و مددگار ثابت ہوتے ہیں۔ کلیسیائی قانُون کے نفاذ کا باوثُوق عمل، تمام مسیحیوں میں احترام اور تعظیمِ مُقدّسین کے آداب کے پائے جانے کو، حق بجانب بنا دیتا ہے۔

دستورِ عمل

رسمی طور پر مُقدّس قرار دینے کی پہلی پہلی رسم کے بعد کہ جو ایک محدُود پاپائی عِزّت و احترام ظاہر کرنے والا عمل ہوتا ہے۔ مثلاً مقامی کلیسیا کے لیے، راہبانہ طبقہ یا جماعت کے لیے یا مخصوص کِسی مُلک کے لیے، یہ تخصیص اُنھیں حقدار بناتی ہے کہ مُقدّس قرار دے کر ان کا فہرستِ مُقدّسین میں اندراج کر لیا جائے۔ تب اُنھیں کیتھیڈرل مجلس کی رُکنیت بھی مِل جاتی ہے۔ اسی لیے اس طریقِ کار کو کینونائزیشن بھی کہتے ہیں جِس کا مطلب ہے قداست یعنی کیتھولک چرچ میں مُقدّس قرار دینے کا عمل۔
کلیسیائی قانُون کے مُطابق جائز اور دُرُست ملکیت اور عُہدہ اپنانے، اختیار کر لینے سے مسیحی دِین داروں پر ۔۔۔۔۔۔ عِزّت و احترام اور ادب کی اخلاقی پابندیاں لاگُو ہو جاتی ہیں اور عِزّت مآب، سعادت مآب کے لاحقے نام کا حصّہ بن جاتے ہیں، یہ بھی لازمی قرار پایا ہے کہ جِس کی رسمِ قداست ادا ہو چُکی ہے اُس سے کوئی کرامت کوئی مُعجزہ بھی ثابت ہو جِس کی توثیق ایک علیحدہ پروسیس کے تحت عمل پذیر ہوتی ہے۔ اِس پُورے نظام کے تمام درجات جب اچھّی طرح، کامیابی سے پُورے کر لیے جائیں تو آپ قداست کے لیے موزُوں اُمِّیدوار تو ہو جاتے ہیں مگر ضرُوری نہیں کہ قداست آپ کو مِل بھی جائے، اسے شرعی حق نہ سمجھا جائے۔ قداست اور مُقدّس قرار دیے جانے کی اوّل اوّل رسم کے طریق ہاے کار کی خاصیت سمجھیے کہ یہ نتیجہ، اختتامیہ کی نمایندگی کرتے ہیں۔ اور ان کا مطمحِ نظر پوپ صاحب کی راے کے لیے ایک مجموعی رپورٹ کے طور پر ان کے زیبِ نظر ہونا ہوتا ہے۔ پاپاے اعظم اِس پر اپنے حتمی فیصلے کے لیے آزاد اور مالک و مُختار ہوتے ہیں۔ وُہ کِسی کے مُقدّس ہونے کی قبُولیت کا اِیما بھی دے سکتے ہیں اور رد یا اِلتوا کی خبر بھی سُنا سکتے ہیں۔ یہ رد و قُبُول کا سِلسِلہ معمُول کی بات ہے۔

مقصد معرفتِ الٰہی ہے

کِسی مُقدّس کو فہرستِ مُقدّسین میں شامل کرنے کی کارروائی کے ذریعے بُنیادی طور پر کلیسیا اِس امر کو شرفِ قُبُولیت نہیں بخشتی کہ کوئی فقط اپنی ذات کی تکمیل کے اِرادے سے ساری توجُّہ اپنے ہی کمالِ ذات پر صَرف کر دے، بے شک نصبُ العین چاہے جاں فشانی و محنت کے ذریعے مُقدّس خُداوند یسُّوع مسیح کی نیابت اور اُس کا قُرب حاصل کرنا ہی ہو۔گو کہ پایانِ کار ہوتا تو مقصد یہی ہے مگر زور کمالِ ذات پر نہیں، کمالِ آدمیّت، اوجِ انسانیت پر ہونا چاہیے تھا۔ دِینی لحاظ سے بھی فرد کی نجات ہی فقط مرکزِ توجُّہ نہیں ہوتی بل کہ مُقدّس قرار دیے جانے کا اعزاز اِس لیے عطا کِیا جاتا ہے کہ نیکیوں اور خُوبیوں کی معراج حاصل کرنے کے علاوہ دُوسروں کو بھی اپنے جیسا نیکوکار بل کہ اپنے سے بھی زیادہ خُداوند یسُّوع مسیح پاک کا وفادار و ایماندار بنانے کے مقصد کے حُصُول کو مُمکن بنایا جائے۔ ذات سے زیادہ جماعت، فرد سے زیادہ جمیعت، قوم برادری سے زیادہ اقوامِ عالَم کی فکر ہونی چاہیے کیوں کہ سبھی پاک خُداوند یسُّوع مسیح کی اُمّت ہیں، خُداکی اُمّتِ پسندیدہ ہیں، چنیدہ اُمّت۔ الٰہی انتخاب!
کینونائزیشن سے کلیسیا کی اپنی شناخت تشکیل پاتی ہے۔ سیکنڈ ویٹی کن کونسل نے پلگرم چرچ (زائر کلیسیا) کے خواص جو آخرت سے متعلّق ہیں یعنی موت، عدالت اور بقا اور اس کے ساتھ آسمانی کلیسیا(ہیونلی چرچ) کے اِتّحاد اور دونوں سے نقطہء اِدغام پر لومن جینسیوم48تا 51میں خُوب سیر حاصل تشریح کر دی ہے۔

تمام سینٹ محض نیکو کار و پاکباز ہی نہیں ہوتے بل کہ خُداوند یسُّوع مسیح اقدس نے وعدئہ نجات جو اپنی مُقدّس کلیسیا کو دے رکّھا ہے اس پر عملدرآمد کے بھی گواہ اور تمام انسانوں کے لیے دُعا گو بھی رہتے ہیں۔ جب کلیسیا ان مُقدّسین کے مرتبہ، حیثیّت، درجہ کی توثیق و تصدیق و کفالت کرتی ہے تو وُہ اِس اقبال کو سامنے رکھتی ہے کہ دی گئی تقدیس لازوال ہے۔ وُہ اپنی تاریخ کے ورق ورق سے باخبر اور اس کی امین ہے۔

مُقدّس ہونے کی یہ فضیلت مآبی کِسی مافوق الفطرت فرمان کے غیر مرئی تصوُّراتی کمال کو حاصل کر دِکھانے، سچ کر دِکھانے یا پُورا کر دِکھانے پر موقُوف نہیں، نہ ہی اس درجہ تک پہنچنے کے لیے سب کی خاطر ایک جیسے ہی طریقے، وسائل اور مسائل ہوتے ہیں، ایسا بھی نہیں۔ فرق تو ہوتا ہے نا۔ قداست کے اُمِّیدوار بھی لکیر کے فقیر کم ہی ہوتے ہیں۔ ہر نئے سینٹ کے لیے نئے ہی مراحل انتظار میں ہوتے ہیں مگر جو راہیں متعیّن ہیں، چلنا پُورے یقین و ایمان کے ساتھ انہی راہوں پر ہی ہوتا ہے۔
اِس سعادت مآبی کا عملی اظہار نئے، ٹھوس، طے شُدہ نادر قسم کے تاریخی انداز میں ہوتا ہے جو آزاد تو ہے مگر پابند بھی ہے کہ مقررہ اُصُول و قواعد کا پُورا پُورا احترام کرنا ہوتا ہے۔ وُہی کہ ایک پاؤں اُوپر اُٹھالینے کی آزادی ہے، کھڑے کھڑے دُوسرا بھی اُٹھا کے ہَوَا میں دیر تک معلّق رہنے کی مُختاری نہیں۔ یہاں فطرت کے اُصُولوں کی پابندی لاگُو ہے آپ پر۔ اب تک بہُت سے سینٹ گُذرے، گُذر گئے اور نئے موجُود ہیں ہر ایک کا اپنا مقام تھا اور ہے۔ سبھی کا سبھاو، سرشت، مزاج، خمیر اپنا اپنا ہونے کے باوُجُود ان کی زندگی کی کہانیاں، نیّتیں، مُرادیں، جذبے، ولولے، عزم، ارادے، احساسات، جذبات ایک کے دُوسرے تصدیق کرنے والے، مِلتے جُلتے ہی نظر آئے۔ اور جو کُچھ اُوپر کی سطُور میں آپ کی خدمت میں ہم نے عرض کِیا اس کے حرف حرف کی تائید و توثیق کرتے دِکھائی دیں گے۔

(مزید تسلّی کے لیے مُلاحظہ فرمائےے: ڈبلیُو شُلٹس، آرٹ۔ ہائیلِک شپریخونگ، اِن: لیکسیکون فیئُورتھیالوگی اُنٹ کِرشے۔ جِلد چہارم (فرائی بُرگ: ہیر ڈیر، 1995)۔


Contact us

J. Prof. Dr. T. Specker,
Prof. Dr. Christian W. Troll,

Kolleg Sankt Georgen
Offenbacher Landstr. 224
D-60599 Frankfurt
Mail: fragen[ät]antwortenanmuslime.com

More about the authors?