:سُوال نمبر9
زندگی کا نظم و ضبط، زندگی کے عناصر کا ظہورِ ترتیب، اس کا سارا دارومدار بنی نوعِ اِنسان کے اس فعل پر ہے جس کے تحت وُہ اپنے کردار و افعالِ زیست کی ذِمّہ داری قُبُول کرتا ہے۔ کیا یہ عجیب سی بات نہِیں کہ محض ایک ہستی کے دُکھ، مصیبتیں، تکلیف اپنے اُوپر لے لینے کی قربانی کے موجب تمام لوگوں کی نجات کا کفّارہ ادا ہو جائے؟
جواب:۔ سب کے لیے خُدا نے مکتی کو یعنی بچاو بوسیلہء کفارئہ مسیح کو خُداوند یسُّوع مسیح میں وقوع پذیر کر دیا۔ اسی کے ذریعے سب کی بخشش ہو گی۔ یہ خُدا جلال والے کی عطا ہے جو سب کا مقدر ہے۔ اس عظیم قربانی کے لیے عطا کا لفظ مَیں نے دیدہ و دانستہ استعمال کِیا ہے۔ اِنسانِیّت کے لیے بیٹے کی قربانی سے بڑھ کر بھلا اور کیا عطا ہو سکتی ہے۔ ہمیں خُداوند خُدا کا شکر بجا لانا چاہیے۔اس عطا، اس پیشکش، اس دعوتِ خُداوندی سے انکار کر دینے پر اِنسان کو قادر کِیا ہے قادرِ مطلق نے۔ اگر بلا چون و چرا اثبات کرلے تو اسے اپنے تمام حواس و قویٰ مجتمع کرنا پڑیں گے تا کہ مکتی کا انعام اس میں بھی عمل پذیر ہو سکے۔ اُسے فرضاً خُداوند کو یہ دعوت دینا ہو گی کہ سب کچھ، جو کچھ، اس کا ہے خُداوند قُبُول فرمائے۔ سبھی کچھ۔ اس کا جینا، مرنا، جسم اور رُوح، سب کُچھ خُداوند یسُّوع مسیح کے نام ہُوا۔ اپنے تناقض و تضادات کو اطاعت شعاری اور بندگی میں بدلنا ہو گا، تا کہ رُوح القُدس کی طاقت کی برکت سے اس کو پاک خُداوند سے مشابہت کا درجہ ملے، مقدور بھر، ظرف بھر۔ اور یُوں اس ذی نفس کو رضاے خُداوندی حاصل ہو۔ یعنی یُوں اس کا مُکمَّل مامون و محفوظ ہوجانا یقینی ہو۔ ہر تقصیر، ہر عصیاں، ہر بلا دُور